بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور ''حاشیہ آثارُ السنن''

حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور ''حاشیہ آثارُ السنن'' حضرت امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری v کی ذاتِ گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں، جو کہ چودھویں صدی ہجری میں زہد وتقویٰ، علوم کی جامعیت، گہرائی وگیرائی، فنونِ قدیمہ و جدیدہ کی معرفت میں متقدمین اہل علم کی زندہ وتابندہ مثال تھے۔ جو لوگ حضرت امام العصرؒ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے اور اُنہیں علومِ انوری کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا' ان میں سے کوئی حضرت شاہ صاحب v کا تعارف کیسے ہی بلند توصیفی کلمات سے کیوں نہ کرے، دوسرے مستفیدینِ شاہ کے ہاں کما حقہ ثناء میں کمی کے عیب سے مبرا نہیں ہوسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت والا کے بعض معاصرین وخوشہ چینوں کو یہ کہنا پڑا کہ''لم تر العیون مثلہ، ولایری ہو مثلَ نفسہٖ'' غرض یہ ہے کہ نہ تو حضرت کشمیریؒ کے محاسن کا احصاء راقم کی وسعت میں ہے اور نہ ہی اس مختصر مضمون میں اس کی گنجائش ہے۔ یہاں تو ''آثار السنن'' پر آپ کے تالیف کردہ حواشی مسمٰی''الاتحاف لمذہب الأحناف''سے متعلق کچھ عرض کرنا ہے ۔ حضرت علامہ کشمیری v کے حواشی پر گفتگو سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تصنیف وتالیف سے موصوف کے رشتے کے متعلق شامی محدث شیخ عبد الفتاح ابوغدہ v کا جامع بیان پیش کر د یا جائے، تاکہ حواشی کے بارے آئندہ ذکر کی جانے والی تفصیلات کو بآسانی سمجھا جاسکے: ''لم یعزم الشیخ رحمہ اللّٰہ تعالٰی أن یؤلف رسالۃً أو کتابًا تألیفًا مقصودًا ، وإنما جل مؤلفاتہٖ أمال أخذت عنہ أو نصوص و تقییدات أفردہا بعنوان ، ولو أنہ عکف علی التألیف لسالت بطحاء العالم بعلومہٖ وتحقیقاتہٖ ، ولأنارت أنوارہ اللامعۃ أرجاء دنیا العلم علٰی سعتہا وکثرۃ أہل الفضل المتقدمین فیہا ، وإنما ألف بدافع الضرورۃ الدینیۃ والخدمۃ الإسلامیۃ عدۃ رسائل سنذکرہا فی عداد مؤلفاتہٖ، غیر أنہ، کان من ریعان عمرہٖ عاکفًا علی جمع الأوابد وقید الشوارد فی برنامجتہٖ وتذکرتہٖ وکان بذل وسعہٖ فی حل المشکلات التی لم تنحل من أکابر المحققین قبلہ، ، وکان کلما سنح لخاطرہٖ الشریف شیء من حل تلک المعضلات قیدہ فی تذکرتہٖ وإذا وقف فی کتب القوم علی شیء تنحل بہٖ بعض المعضلات أحال إلیہ برمز الصفحۃ إن کان مطبوعا ......... وقد اجتمعت عندہ، فی تذکرتہٖ ذخائر ونفائس زاخرۃ لحل کثیر من المعضلات العلمیۃ وألف رسائل فی بعض مہمات الحدیث الشریف من المسائل الخلافیۃ بین المذاہب، ملتقطا لہا من ذخائر تذکرتہٖ بإصرار وإلحاح من تلامذتہٖ وأصحابہٖ ومستفیدیہ ، ذبًا عن حریم المذہب الحنفی ، ودفعًا لطعن الحساد والجاہلین . وہذہٖ الرسائل المذہبیۃ کانت دررا مبعثرۃ فی تذکرتہٖ رتبہا بعض ترتیب علٰی شکل تألیف ، ولہٰذا تراہا مشحونۃ بالإحالۃ علی الکتب من غیر سرد لجمیع عباراتہا ، ولو رتبت رسائلہ، تلک علی عادۃ مؤلفی العصر الحاضر أو علٰی عادۃ المولعین بالبسط والتفصیل لصارت کل رسالۃ منہا أضعاف ما ہی علیہ۔'' (مقدمۃ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ، ص:٢٧،٢٨، ناشر: جمعیت تحفظ ختم نبوت ، پاکستان ) ترجمہ: ''حضرت شیخ (کشمیری) v نے کسی کتاب یا رسالہ کی تالیف از خود قصداً نہیں کی، آپ کی تمام مؤلفات یا تو امالی ہیں جو آپ سے منقول ہیں یا وہ عبارتیں و تنبیہات ہیں جسے خود حضرت شاہ صاحبؒ نے کسی عنوان کے تحت جمع فرمایا ہے، اگر تالیف کتب کی جانب خصوصی توجہ فرماتے تو ارضِ عالم ان کے علوم وتحقیقات سے بہہ پڑتی ، اور آپ کے انوارات دنیائے علم کو باوجود اپنی وسعت اور متقدمین اہلِ فضل کی کثرت کے منور بنادیتے، البتہ گنے چنے چند رسائل دینی واسلامی ضرورت کے پیش نظر تصنیف فرمائے ہیں، جن کا ہم آئندہ ان کی تصنیفات کے ذیل میں تذکرہ کریں گے ۔ البتہ زمانہ شباب ہی سے حضرت v کا یہ معمول تھا کہ (دورانِ مطالعہ )جو بھی نادر و قیمتی بات سامنے آتی' اُسے اپنی خصوصی ڈائری میں درج فرمادیتے اور اس بات کی پوری کوشش رہتی کہ ان علمی مشکلات کا حل نکالا جائے جو کہ حضرت والاسے قبل اکابر محققین سے بھی حل نہ ہوئیں اور ان مشکلات کے حل کے سلسلہ میں جو توجیہ بھی ذہن میں آتی' اُسے قیدِ تحریر میں لے آتے، اور اگر دورانِ مطالعہ کوئی اس قسم کی بات سامنے آجاتی تو اگر وہ کتاب مطبوعہ ہوتی تو صفحہ نمبر کے ساتھ اسے نقل فرمادیتے ۔ اس طرح حضرت v کی ڈائری میں بہت سی علمی مشکلات کو حل کرنے کے لیے نہایت قیمتی ذخیرہ جمع ہوگیا ، ا ور حنفی مذہب کے دفاع اور حاسدین وجہلاء کے اعتراضات کے ازالے کے لیے بعض شاگردوں و مستفیدین کے شدید اصرار پر اپنی ذاتی ڈائری سے ان فوائد کو منتخب کر کے اہم اختلافی فروعی مسائل کے بارے میں چند رسائل تالیف کیے۔ یہ قیمتی رسائل حضرت کی ڈائری میں بکھرے ہوئے موتیوں کی مانند تھے، جسے آپ نے کچھ مرتب کرکے تالیف کی شکل دے دی ، اسی وجہ سے آپ اس میں کتابوں کے حوالے بغیر پوری عبارت کے نقل کیے بکثرت پائیں گے اور اگر یہ رسائل عصر حاضر کے مؤلفین یا بسط و تفصیل کے دل دادوں کے مزاج کے موافق مرتب کیے جائیں تو ان میں سے ہر ایک موجودہ شکل سے کئی گنا بڑھ جائے۔'' شیخ ابوغدہؒ کا مذکورہ بالا بیان جہاں حضرت کشمیری v کی تصنیف وتالیف کے ساتھ وابستگی کی خوب عکاسی کرتا ہے، وہیں حضرت v کے رسائل وحواشی نادرہ کی قیمت و عظمت کو بھی واضح کرتا ہے، حقیقت یہی ہے کہ حضرت والا کے جملہ رسائل و تعلیقات گنجینہ علوم ومعارف ہیں جو اپنے اختصار وجامعیت کی بنا پر معلومات و تحقیقات کا ایک ایسا بحر بے کراں ہیں جس سے کما حقہ استفادہ وہی مردِ میداں کر سکے گا جو کہ ہر موضوعِ بحث میں مؤلف کے ساتھ علم کی اَتھاہ گہرائیوں میں غوطہ زنی کی صلاحیت رکھتا ہو اور ہر اشارہ، کنایہ واجمال کو بآسانی سمجھ سکے جو مختصر وجامع کلام کا گویا ایک خاصہ لازمہ ہے۔ بہرحال موضوعِ سخن تو حضرت علامہؒ کے حواشی آثار السنن تھے جو اپنے گوناگوں امتیازات کی بنا پر آپ کے تمام حواشی و تعلیقات میں خاص مقام کا حامل ہے۔ حواشی آثارُ السنن اربابِ علم و فن کی نگاہ میں ١:۔۔۔۔۔۔محدثُ العصرحضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری v ''حواشی آثار السنن'' کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں: ''فلمَّـا تمَّ طبع الکتابِ أخذَ الشیخُ یطالعہ،، ویزید علیہ من أدلۃٍ وأبحاثٍ ونکاتٍ وفوائدَ وغررِ نقولٍ ما یساویْ بعضُہا رحلۃً، ویقیِّدُہا علٰی ہامشہٖ وطرَرِہٖ وبین أسطرِہٖ بکلِّ بابٍ ما یلائمُہ، ، وکلَّمـا مرَّ علیہ شیء ٌ لہ، صِلۃٌ بالموضوع فی مطالعتہٖ قیَّدَہ، ہناکَ إمَّا بنقل عبارۃٍ أو حوالۃٍ برمزِ صفحۃٍ مرقومۃٍ إن کان الکتاب مطبوعًا، أو نقلِ لفظِہٖ إن کان مخطوطًا، فتارۃً بعبارۃٍ وتارۃً بإشارۃٍ، أو بدا لہ، شیء ٌ من تأییدٍ وتردیدٍ قیَّدَہ، ہناک، حتٰی أصبحتْ صفحۃُ الکتابِ کالوشیِ الدَّقِیقِ، فجاء تْ فیہا نفائسُ منْ أفکارِہٖ، وبدائعُ من غررِ نقولٍ بکلِّ بابٍ، وکنتُ قدِ اشتغلت برہۃً بتخریجِ تلکَ الحوالاتِ، واستخراجِ تلکَ العباراتِ بأمرِہٖ رحمہ اللّٰہ، فکانتْ صفحۃٌ واحدۃٌ من الکتاب تخریجُہ یملأُ عدَّۃَ أوراقٍ، وکان رحمہ اللّٰہ یتمنَّی أنْ لو طُبِعَ ذلک التخریجاتُ لنفعتْ أہلَ العلم۔ '' ترجمہ:'' جب کتاب (آثار السنن)کی طباعت مکمل ہوئی تو حضرت کشمیری v نے اس کا مطالعہ شروع کیا اور اس پر مزید دلائل، ابحاث، نکات، فوائد اور بہت سی قیمتی معلومات کا اضافہ کیا جن میں سے بعض کو اگر سفر کرکے حاصل کیا جاتا تو بے جا نہ ہوتا، اور (آپ کا اسلوب یہ رہا کہ) ہر باب کے مناسب جو بھی مفید باتیں ہوتیں اسے کتاب کے حاشیہ ، اوپر یا نیچے) بین السطور میں لکھ لیتے اور دورانِ مطالعہ موضوع سے متعلق جو بات بھی سامنے آتی چاہے وہ تائید کی صورت میں ہو یا تردید کی صورت میں تو اگر وہ کتا ب مطبوع ہوتی تو عبارت لکھ کر یا فقط حوالہ بقیدِ صفحہ لکھ لیتے، اور اگر وہ کتاب چھپی ہوئی نہ ہوتی تو الفاظ لکھنے کا اہتمام فرماتے، کبھی صراحۃً اور کبھی اشارۃً، یہاں تک کہ اب صفحہ کتاب (خوبصورت) باریک نقش کی مانند معلوم ہوتا ہے، اس طرح ان حواشی میں ان کی نفیس و عمدہ آراء اور ہر باب کے مناسب عمدہ و نادر معلومات جمع ہو گئیں، کچھ عرصہ حضرت v کے حکم سے ان عبارتوں وحوالوں کی تخریج میں مصروف رہا (حوالوں کی کثرت کی بنا پر) ایک ایک صفحہ کی تخریج کئی کئی اوراق پر محیط ہوتی، آپ کی یہ خواہش تھی کہ اگر ان حوالوں کی تخریج کرکے اُسے شائع کیا جائے تو اس سے اہل علم کو خاطر خواہ نفع ہوگا۔ ٢:۔۔۔۔۔۔ یہ حواشی حضرت علامہ بنوری v کی شہرہ آفاق کتاب ''معارف السنن'' میں حضرت کشمیریv کی پیش کردہ تحقیقات کا ایک اہم ترین ماخذ ہے۔ اس بات کی تائید کے لیے اتنا کافی ہے کہ حضرت بنوریv نے ''معارف السنن'' کی فقط چوتھی جلد میں ان حواشی کا چالیس جگہ حوالہ دیا ہے۔ ٣:۔۔۔۔۔۔ شامی محدث شیخ عبد الفتاح ابو غدہ v حضرت امام العصر v کی تالیفات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''الإتحاف لمذہب الأحناف: وہوحواش وتعلیقات نافعۃ ماتعۃ جامعۃ علقہا الشیخ الکشمیری علی کتاب''آثار السنن'' لعصریہ المحدث المحقق النیموی رحمہما اللّٰہ تعالی ، ولقد أحسن ''المجلس العلمی'' صنعا بتصویر نسخۃ الشیخ من کتاب ''آثار السنن'' المطبوعۃ فی مجلدین التی ملأ الشیخ بخطہ الجمیل حواشیہا وبیاضاتہا التی بین السطور علما ثمینا وإحالات کثیرۃ غنیۃ بالتحقیق ، وقد سمیت ہذہ التعلیقات والحواشی عند ما صورت بعد وفاتہٖ''الإتحاف لمذہب الأحناف......'' قلت: تخریج حوالاتہا وتبویبہا وتنسیقہا دین ثقیل فی عنق أصحاب الشیخ وتلامذتہ الأفاضل ، لاتبرأ ذمتہم إلا بإنجازہٖ۔'' (مقدمۃ التصریح ، ص:٣٠،٣١) ترجمہ:''الاتحاف لمذہب الاحناف'': یہ نہایت مفید وجامع تعلیقات ہیں جوکہ حضرت کشمیری v نے اپنے ہم عصر محدث ،محقق نیموی v کی کتاب آثار السنن پر تحریر کیے ہیں، مجلس علمی نے حضرت شیخ کے آثار السنن کی دو جلدوں میں مطبوعہ نسخہ کا فوٹو کراکے اچھا (اور مفید) کام کیا ہے، جسے آپ نے بین السطور حواشی لکھ کر قابل قدرو محقق معلومات اور بہت سے حوالوں سے بھر دیا ہے اور حضرت کی وفات کے بعد ان حواشی و تعلیقات کا جب فوٹو لیا گیا تو ''الاتحاف لمذھب الاحناف''نام رکھا گیا ۔ میں کہتا ہوں: اس کے حوالوں کی تخریج اور اس کی تبویب و تنسیق کا کام حضرت شیخ v کے تلامذہ کی گردنوں میں ایک بھاری قرض ہے، جس کی ادائیگی کے سوا وہ عہدہ بر آ نہیں ہوسکتے۔'' حواشی آثار السنن میں حضرت کشمیریؒ کا اسلوب سابقہ عنوان کے تحت حضرت بنوری v کے بیان سے ان حواشی کے طرز و اسلوب کی بھی کافی راہنمائی ملتی ہے ، مزید وضاحت کے لیے عرض ہے : ١:۔۔۔۔۔۔ حضرت امام کشمیری v نے اپنی تعلیقات میں علامہ نیموی v کے مذاق کو ملحوظ رکھا ہے اور انہیں معلومات کا اضافہ کیا ہے جو مؤلف نیموی v کے طرز و اسلو ب کے موافق تھیں، چنانچہ استاذ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم صاحب چشتی دامت برکاتہم العالیہ اپنے وقیع مقالے بعنوان ''امام العصرعلامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ''میں رقم طراز ہیں: ''یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انور شاہ v کی تحقیقات اور اضافہ معلومات کا دائرہ محدث نیمویؒ کے مذاق تک محدود رہا ہے ۔ موصوف نے متونِ حدیث ، اسنادِ رجال اور جرح وتعدیل سے متعلق وہی تحقیقات پیش کی ہیں جو محدث نیمویؒ کے مذاق کے مطابق تھیں۔ فقہ حدیث کی بحثیں، حقائق، معارف ، اسرارِ بلاغت اور توجیہات حدیث سے بہت ہی کم اعتناء کیا ہے، پھر بھی یہ اضافہ اصل سے دوگنا تگنا ہوگیا ہے۔'' (ملاحظہ ہو: تقدس انور، ص:٣٧٢، مقالہ: مولانا عبد الحلیم چشتی مدظلہ،) ٢:۔۔۔۔۔۔ شیخ ابوغدہ v کے بیان میں یہ بات گزرچکی ہے کہ حضرت کشمیری v نے تصنیف وتالیف کو مستقل مشغلہ نہیں بنایا، بلکہ دورانِ مطالعہ جو قیمتی بات سامنے آتی' اُسے اپنے پاس محفوظ کرلیا، پھر شاگردوں کے اصرار پر ان میں سے کچھ محفوظات کو کسی خاص عنوان کے تحت جمع بھی فرمایا، مگر ان میں بھی حضرت v کا طرزو اسلوب یہ رہتا کہ زیرِ بحث موضوع سے متعلق بکثرت حوالہ جات پیش کرتے اور محولہ مقامات کی عبارات کو پیش کرنے کا اہتمام کچھ زیادہ نہ ہوتا، اس کی وجہ چاہے اختصار کا ملحوظ رکھنا ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور بات پیش نظر ہو، بہر حال اس طرزِ عمل سے نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت والا کی تالیفات سے دو قسم کے افراد ہی صحیح مستفید ہو سکیں گے: ١:- وہ شخص جو حضرت امام العصرؒ کی مانند جامع علوم و فنون ہو کہ اس کے ہاں بھی محولہ مقامات کی عبارات موصوف کی طرح مستحضر ہوں اور ہر اشارہ، کنایہ و اجمال کو بخوبی سمجھ سکتا ہو، ایسا شخص تو کما حقہ، فائدہ اُٹھائے گا ۔ ٢:-وہ شخص جو دورانِ مطالعہ محولہ مقامات کو خود ساتھ ساتھ دیکھتا رہے، یہ اگرچہ کما حقہ مستفید تو نہ ہوگا ، لیکن اکثر کلام کو سمجھنے میں آسانی پائے گا، یہی حال ''حواشی آثار السنن'' کا بھی ہے کہ ان سے بھی صحیح استفادہ کی یہی صورت ہے ۔ ٣:۔۔۔۔۔۔ حضرت کشمیریv کے اندازِ درس کے بارے میں مولانا مناظر احسن گیلانیv نقل فرماتے ہیں کہ: '' حضرتv فرمایا کرتے تھے:'' معروف ومتداول کتابوں کے حوالے دینے کا کیا فائدہ؟! ان تک تو رسائی ممکن ہے۔'' اسی وجہ سے آپ کے درس میں ایسی بہت سی کتابوں کا نام سننے کو ملتا جن سے عوام تو درکنار بہت سے علماء بھی نابلد ہوتے ۔'' (نقش دوام، مؤلفہ: مولانا انظر شاہ کشمیریv ، ص:١٢٨، تالیفاتِ اشرفیہ) یہی صورت حال کچھ ان کے حواشی کی بھی ہے، ان میں مخطوطات ومطبوعہ کتابوں کے نایاب نسخوں کے حوالے جابجا ملتے ہیں۔ ٤:۔۔۔۔۔۔ علامہ کشمیری v کے حواشی میں ایک خصوصی عنصر آپ کے تعقبات ہیں، جو کہ مختلف ابواب میں جا بجا ائمہ فن کی تحقیقات سے متعلق ہیں، جن میں فقط ابواب الوتر سے ابواب الجنائز تک تعقبات کی تعداد١٩/ہے، جن میں اکثر حافظ الدنیا حافظ ابن حجر عسقلانی v کی تحقیقات پر ہیں ۔ ٥:۔۔۔۔۔۔ ایک طرف تو علم و تحقیق کا یہ عالم ہے، دوسری جانب علمی دیانت اس قدر ملحوظ ہے کہ اگر کسی راوی یا روایت یا کسی صاحبِ فن کی بات کا سراغ نہ ملا تو اس کا اظہار کرنے میں بھی کچھ عا ر مانع نہ ہوا، ان حواشی میں ابواب الوتر سے ابواب الجنائز تک ایسی جگہیں جہاں حضرت امام العصرؒ نے کسی بات کے نہ ملنے کا تذکرہ کیاہے، ان میں سے اکثر کا تعلق انہیں سابقہ تین باتوں سے ہے ۔ ٦:۔۔۔۔۔۔ حضرت علامہؒ کے یہ حواشی اگرچہ حنفی مستدلات کی جا مع و مختصر کتاب ''آثار السنن'' سے متعلق ہیں، مگر حوالہ جات کے دیکھنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت v کے مراجع ومآخذ صرف علومِ حدیث تک محدود نہیں بلکہ کتبِ صرف، نحو، لغت، فقہ ائمہ اربعہ ، تفسیر ، اصولِ تفسیر کے حوالہ بھی بکثرت اس میں موجود ہیں ۔ ٧:۔۔۔۔۔۔ ہر فن کی کتب میں سے اگر اُمہاتِ کتب میسر ہوں تو اُن کا حوالہ دیتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے اُمہات تک رسائی نہ ہوئی تو ثانوی کتب کا حوالہ بھی ذکر کر دیتے ہیں اور کہیں کسی ضرورت کے تحت اُمہاتِ کتب کے ہوتے ہوئے بھی ثانوی کتب کا حوالہ پیش کردیتے ہیں ۔ ٨:۔۔۔۔۔۔ اسی طرح حضرت امام العصرؒ بعض کتب کا حوالہ اُن کے غیر معروف اسماء سے ذکر کرتے ہیں، مثلاً: ''نصب الرأیہ'' کو ''التخریج''، ''نیل الأوطار'' کو ''شرح المنتقی'' ، ''زاد المعاد'' کو ''کتاب الہدی لابن القیم'' کے نام سے ہی اکثر ذکر کرتے ہیں۔ ٩:۔۔۔۔۔۔ کتاب کا موضوع چونکہ علوم حدیث سے متعلق ہے، اس لیے اس موضوع سے متعلقہ حوالہ جات کے بارے میں قدرے تفصیل عرض کرنا نامناسب نہ ہوگا : ١:- کتبِ حدیث میں صحاح ستہ کے علاوہ ''مؤطا ما لک و محمد ،سنن الدارمی ، المعجم الصغیر للطبرانی ، مسند البزار ، کتاب الآثار ، مسند أحمد ، سنن الدارقطنی ، الأدب المفرد ، شرح معانی الآثار ، مصنف ابن أبی شیبۃ ، مراسیل أبی داود ، مسند أبی داود الطیالسی ، السنن الکبری للبیہقی ، مستدرک حاکم، مجمع الزوائد، کنز العمال، منتخب کنز العمال'' اور دیگر بہت سی کتبِ حدیث کے حوالے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ فائدہ: مذکورہ بالا کتب کے نام ہی محدث کشمیری v کے متونِ حدیث سے گہری وابستگی کے شاہدِ عدل ہیں ۔ ٢:- کتبِ تخریج میں سے عموماً ''نصب الرایۃ'' اور''التلخیص الحبیر'' کا حوالہ نقل کرتے ہیں اور کہیں ''الدرایۃ فی تخریج أحادیث الہدایۃ'' بھی پیش نظر رہتی ہے ۔ ٣:- شروحاتِ حدیث میں سے اکثر ''فتح الباری ، عمدۃ القاری، عارضۃ الأحوذی، المنتقی شرح المؤطا للباجی ، شرح الزرقانی علی المؤطا ، نیل الأوطار'' ، اور کہیں ''إرشاد الساری ، مرقاۃ الصعود للسیوطی، إکمال المعلم شرح مسلم ، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ، لمعات التنقیح'' کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ٤:- غریب الحدیث میں زیادہ تر اعتماد ابن الاثیر v کی ''النہایۃ'' پر ہی ر ہتا ہے، اس کے علاوہ اس باب میں کتبِ لغات جن میں بسا اوقات ''تاج العروس شرح القاموس'' ، اور کبھی ''المزہر'' وغیرہ کا بھی تذکرہ ملتا ہے ۔ ٥:-کتبِ رجال میں حضرت v کے حوالہ جات پر گفتگو سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان پاک وہند کے رجال کا اس علم سے اعتناء کس قدر رہا ہے، اس کے متعلق کچھ عرض کرنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا ۔ ہندوپاک میں خصوصاً قرونِ متاخرہ میں علومِ حدیث کے بڑے رجالِ کار پیدا ہوئے، جنہوں نے اُمہاتِ کتبِ حدیث کی اعلیٰ پیمانے پر خدمات انجام دیں، جن میں خاص طور پر شروحاتِ حدیث و حواشی تو ایسے لکھ ڈالے کہ حدیث کی توجیہ وتاویل میں متاخرین تو کجا متقدمین میں بھی خال خال ہی اس کی مثال نظر آتی ہے ۔لیکن دوسری طرف علم رجال سے اس کرہ کی بے اعتنائی بھی کچھ پوشیدہ نہیں۔ معدودے چند افراد کے علاوہ اس موضوع سے بحث کر نے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ انہیں خاصانِ خدا میں حضرت شاہ صاحبؒ کی ذات گرامی بھی ہے، جنہیں علومِ حدیث کی دیگر شاخوں کی طرح اس علم میں بھی کامل دست گاہ حاصل تھی ۔ ''حواشی آثار السنن'' میں علم رجال سے متعلق حضرت شاہ صاحب v کے درج کردہ حوالوں کی دو قسمیں کی جا سکتی ہیں: ١:۔۔۔۔۔۔ پہلی قسم میں وہ حوالہ جات شامل ہیں جن میں موصوف علم رجال کی کسی کتاب کا حوالہ ذکر فرمائیں، ان میں عام طور پر ''التاریخ الصغیر للبخاری ، الثقات لابن حبان ، تذکرۃ الحفاظ، میزان الاعتدال، لسان المیزان ، تعجیل المنفعۃ ، تہذیب التہذیب'' سے اعتناء رہتا ہے اور کہیں ''طبقات ابن سعد،طبقات الشافعیۃ، تقریب التہذیب'' وغیرہ سے بھی حوالہ رقم فرمادیتے ہیں ۔ ٢:۔۔۔۔۔۔دوسری قسم میں وہ حوالہ جات شامل ہیں جو رجال کی کسی کتاب کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ اگر ان کو استنباط واستخراج سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے یوں سمجھئے کہ کسی معین راوی کی توثیق کے لیے کبھی تو یوں فرماتے ہیں کہ اس راوی سے صحیح البخاری یا صحیح مسلم میں فلاں فلاں روایت فلاں فلاں صفحہ پر درج ہے، جس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ چونکہ صحیحین کی صحت بالاتفاق تسلیم کی جاتی ہے، اس لیے کسی راوی کا ان میں ہونا گویا اعلیٰ درجہ کی توثیق و تعدیل ہے ۔ اور کبھی یہ انداز ہوتا ہے کہ مثلاً امام ترمذیv کا حوالہ پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اس راوی کی روایت کی تصحیح یا تحسین فرمائی ہے۔ اور گاہے شروحاتِ حدیث میں مذکور کسی امام فن کی اس راوی سے منقول روایت کی تصحیح یا تحسین کا حوالہ درج فرماتے ہیں ۔ ٦:- اصولِ حدیث میں ''فتح المغیث بشرح الفیۃ الحدیث'' اور ''تدریب الراوی'' کا اہتمام زیادہ رہتا ہے ۔ ٧:- اجزاء حدیثیہ میں ''جزء رفع الیدین ، جزء القراء ۃ خلف الإمام للبخاری ، القول البدیع للسخاوی ، رسالۃ الأہدل فی الدعائ'' کے حوالے لحظہ بلحظہ نقل فر ماتے ہیں۔ ٨:- حواشی میں حاشیہئ دارقطنی مؤلفہ مولانا شمس الحق عظیم آبادی ، ''التعلیق الممجد'' ، حاشیہئ حصن حصین مؤلفہ علامہ لکھنویؒ کے حوالے جا بجا ذکر فرماتے ہیں ۔ ٩:- راویانِ حدیث کی کنیتوں سے متعلقہ کتب میں ''الکنی والأسماء للدولابی''کا اکثر تذکرہ ملتا ہے۔ ١٠:- تراجم صحابہؓ میں ''اُسد الغابۃ'' اور ''الإصابۃ'' سے زیادہ اعتناء رہتا ہے۔ سطورِ بالا میں اپنے تئیں ان حواشی کی قدر و قیمت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ، یہ سطور اگر چہ ان کی اہمیت واضح کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں ، ان حواشی کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کی نسبت جس امام ہمام کی ذات گرامی سے ہے، وہ اپنے کلام و تحقیقات کی قدر ومنزلت کو جہانِ علم و تحقیق میں منوا چکے ہیں۔ بہر حال ان حواشی کی قیمت و عظمت اپنی جگہ مگر اس کے باوجود آج تک یہ گنجینہئ علوم وتحقیقات زاویہئ خمول میں ہے۔ مادرِعلمی جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کی مجلس تعلیمی نے حضرت امام العصرؒ کے اس علمی قرض سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم علمی و دینی تحقیقی خدمت کے ارادے میں جامعہ کی مدد فرمائے، جس سے ایک طرف تو علم حدیث کی گراں قدر خدمت ہوگی اور دوسری طرف حنفی مذہب کے برگ وبار کی نئی تحقیقات کے ساتھ آبیاری ہوگی ۔  

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین