بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضرت علّامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ  ایک بلند پایہ محدّث، مایۂ ناز ادیب اور خدا ترس مہتمم (چوتھی اور آخری قسط)

حضرت علّامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ 

ایک بلند پایہ محدّث، مایۂ ناز ادیب اور خدا ترس مہتمم

(چوتھی اور آخری قسط)

 

 عربی ادب میں حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کا مقام

حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کو اللہ تعالیٰ نے عربی زبان وادب کا فطری ذوق عطا فرمایا تھا، ان کا یہ مقولہ مشہور ہے کہ: ’’میرے لیے اردو سے زیادہ فارسی میں اور فارسی سے زیادہ عربی میں لکھنا آسان ہے۔‘‘ فصیح وبلیغ عربی زباں میں بلاتکلف بولنا اور لکھنا آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ آپ اگر ایک طرف عربی زباں کے ایک بلند پایہ نثر نگار تھے، تو دوسری طرف اس فطری زباں کے اچھے شاعر بھی تھے، جس طرح ’’المقدّمات البنوریۃ‘‘اور ’’نفحۃ العنبر‘‘ اور آپ کی دیگر عربی تصانیف نثر نگاری میں آپ کے امتیاز کی گواہی دیتی ہیں، اسی طرح ’’القصائد البنوریۃ‘‘ سے شعر گوئی میں بھی آپ کے مقامِ عالی کا پتہ چلتا ہے۔ آپ کے استاذِ محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی  رحمۃ اللہ علیہ   نے جب ’’نفحۃ العنبر في حیاۃ إمام العصر الشیخ محمد أنورؒ‘‘ کا مطالعہ فرمایا، تو بہت خوش ہوئے اور ایک مفصل تحریر لکھ کر آپ کو ارسال فرمائی، جس میں سے ایک اقتباس نقل کیا جارہاہے:
’’میرے خیال میں آپ کا یہ رسالہ بھی اُسی مرحوم (حضرت علّامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ ) کے کمالات کا ایک عکس اور اس کے آثارِ صالحہ میں سے ایک اثرِ قوی ہے۔ ماشاء اللہ آپ کی علمی لیاقت، ادبی قابلیت اور دینی صلاحیتوں کا میں پہلے سے معتقد تھا، مگر اتنا نہیں جس قدر اس کتاب کے مطالعے کے بعد ہوگیا ہوں۔ بجز پُر خلوص دعا کے اور کیا صلہ آپ کی محنت کا پیش کروں؟ مرحوم کے نیاز مند رفیقوں اور عقیدت مند اصحاب کے مہجور ومحزون قلوب سے دعائیں نکلتی ہیں کہ تم نے ان کی تسلی کا ایک خاصہ مشغلہ مہیّا کردیا۔‘‘        (نفحۃ العنبر، ص:۳۲۶)
راقم الحروف اس سے پہلے عرض کرچکا ہے کہ رواں صدی ہجری کی ابتداء سے لے کر جب میں دورۂ حدیث کا طالب علم تھا، سالِ رواں (۱۴۴۱ھ) تک ’’معارف السنن شرح سنن الترمذي‘‘ سے لگاؤ رہا ہے، اور بالخصوص آخری سترہ سالوں میں تو اس سے ایک خصوصی مناسبت اس بنیاد پر قائم ہے کہ اس عرصے کے اندر ’’جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی‘‘ میں ترمذی شریف جلد اول کا سبق اس حقیر سے متعلق رہا ہے، جس کے لیے ’’معارف السنن‘‘ کا مطالعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ مذکورہ بالا طویل طالب علمانہ مناسبت کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتاہوں کہ ’’معارف السنن‘‘ کی علمی مباحث اپنی جامعیت وگہرائی کے ساتھ ساتھ عربی ادب کے اعتبار سے بھی ایسی تعبیرات پر مشتمل ہیں جو بڑے بڑے ادیبوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں، نمونہ کے طور پر صرف ایک مثال پیش کرتاہوں:
امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے سننِ ترمذی میں ’’أبواب الصلاۃ‘‘ کے ضمن میں ایک باب بعنوان ’’باب ما جاء في بدء الأذان‘‘ قائم کیا ہے، جس کے تحت ابتداء اذان سے متعلق حدیثیں ذکر کی ہیں۔ حضرت علّامہ بنوریؒ نے اپنی کتاب ’’معارف السنن شرح سنن الترمذي‘‘ میں مذکورہ باب کی تشریح کرتے ہوئے اپنے انداز کے مطابق ابتداء اذان سے متعلق امام ترمذیؒ کی روایت کردہ حدیثوں کے ساتھ ساتھ دیگر کتبِ حدیث کی اُن حدیثوں کو بھی بیان کیا ہے جو موضوع سے متعلق تھیں اور ان حدیثوں کے درمیان جو بظاہر ایک تعارض پایا جاتا تھا، اس کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ مذکورہ احادیث کے درمیان تطبیق پیدا کرنے کے لیے انہوں نے حافظ شہاب الدین ابن حجر عسقلانی  ؒ کا کلام ’’فتح الباري شرح صحیح البخاري‘‘ سے اور حافظ بدر الدین عینیؒ کا کلام ’’عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري‘‘ سے ملخّص کرکے نقل کیا ہے، جس سے اس کلام کی اہمیت کے باوجود تعارض مکمل طور پر دور نہیں ہوتا اور اشکال باقی رہتا ہے۔
پھر حضرت علّامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے اس کے آخر میں ایک جملے کے اندر وضاحت کی ہے کہ اس تحقیق سے وہ اشکال جو حافظ بدر الدین عینیؒ اور حافظ شہاب الدین ابن حجرؒ کی تحقیق سے دور نہیں ہوسکا تھا، وہ بھی ختم ہوگیا۔ مذکورہ بالا وضاحت جس مختصر ادبی جملے میں حضرت محدث العصر علّامہ بنوری ؒ نے پیش فرمائی ہے، اس جملے کو پڑھ کر ہر وہ شخص جو عربی ادب سے کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتاہو، محوِ تعجُّب ہوکر دادِ تحسین دیئے بغیر نہیں رہ سکتا، وہ جملہ یہ ہے:
’’وانزاحت الدُّلجۃُ التي لم تنقشع بتنویر البدر والشہاب۔‘‘
مفہوم ومقصود: ’’اور اس تحقیق سے وہ تاریکی جو ماہِ کامل اور روشن ستارے کی ضیاء پاشی سے بھی مکمل طور پر دور نہ ہوسکی تھی، ختم ہوگئی۔‘‘
مذکورہ بالا جملے میں جہاں حضرت علّامہ بنوریؒ نے اپنے محققانہ کلام کے ذریعے اشکال ختم ہونے کا ذکر فرمایاہے، وہاں لفظِ ’’البدر‘‘ سے حافظ بدر الدین عینیؒ اور لفظِ ’’الشہاب‘‘ سے حافظ شہاب الدین ابن حجرؒ کی طرف بھی اشارہ فرمادیا ہے۔

حضرت بنوریؒ کی تین دیگر ایسی خصوصیات جن سے احقر بے حد متاثر ہواہے

حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کا علمی مقام، وسعتِ مطالعہ، ادبِ عربی میں منفرد صلاحیت اور للہیت وتقویٰ کی نرالی شان، یہ سب کے سب ان کی ایسی خصوصیات ہیں جن سے ان کے دیکھنے والے اور متعلقین سب آگاہ اور متاثر رہے ہیں۔ ان نمایاں خصوصیات کے علاوہ ان کی دیگر تین ایسی متاثر کن خصوصیات ہیں جن سے ہر مسلمان کو بالعموم اور اصحابِ علم حضرات کو بالخصوص اپنی زندگیوں کے لیے ایک کامیاب لائحۂ عمل تیار کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے، اور دنیا پرستی وجاہ پرستی اور غفلت ولاپروائی کے موجودہ دور میں ان خصوصیات سے استفادہ کرنے کی بے حد ضرورت بھی ہے، ان تین خصوصیات کو سپردِ قلم کیاجارہاہے:

۱-شب خیزی اور تہجُّد کا اہتمام

ہمارے اکابرین کی عاداتِ طیّبہ میں سے ایک عادت رات کی آخری تہائی میں دربارِ خداوندی میں حاضری اور نمازِ تہجُّد کی پابندی رہی ہے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ  اور ہمارے دوسرے اکابرین سفر وحضر میں نمازِ تہجُّد کا اہتمام فرماتے اور رات کے اس حصے میں جس میں صحیح حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو مخاطب بناکر ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’کوئی ہے مجھ کو پکارنے والا؟ تاکہ اس کی پکار کو قبول کروں؟‘‘ اللہ تعالیٰ کو گِڑ گِڑا کر یاد کرتے، اور کسی بھی قیمت پر ان مبارک لمحات کو غفلت میں گزارنا پسند نہیں فرماتے۔ حضرت علّامہ بنوری قُدِّس سرُّہ بھی اپنے اکابرین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سفر وحضر میں تہجُّد کی نماز اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں گِڑگِڑانے کے معمول کا ناغہ نہ فرماتے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی دامت برکاتہم جنہوں نے حضرت محدّث العصر علّامہ سید محمد یوسف بنوری صاحب قُدِّس سرُّہ کی صحبتوں سے کافی فیض حاصل کیاہے، اپنی کتاب ’’نقوشِ رفتگاں‘‘ میں حضرت بنوریؒ کی شب خیزی وآہِ سَحَری کا ایک چشم دید واقعہ جو تحریکِ ختم نبوت کے سلسلہ میں ’’کوئٹہ بلوچستان‘‘ کے سفر کے موقع پر پیش آیا تھا، اس طرح نقل فرمارہے ہیں:
’’کوئٹہ کے سفر میں احقر مولاناؒ کے ہمراہ تھا، یہاں مولاناؒ کو کل چوبیس گھنٹہ ٹھہرنا تھا، جس میں تین مجلسوں سے خطاب کرنا تھا، ایک پریس کانفرنس تھی، گورنر بلوچستان سے ملاقات تھی اور عشاء کے بعد جامع مسجد میں ایک عظیم الشان جلسۂ عام تھا۔ سارے دن مولاناؒ کو ایک لمحہ بھی آرام نہ مل سکا، اور رات کو جب ہم جلسۂ عام سے فارغ ہوکر آئے تو بارہ بج چکے تھے، خود میں تھکن سے نڈھال ہو رہا تھا، مولاناؒ تو یقینا مجھ سے زیادہ تھکے ہوئے ہوں گے، میں نے بارہا کوشش کی تھی کہ مولاناؒ کبھی جسمانی خدمت کا موقع دے دیں، لیکن وہ ہمیشہ سختی سے انکار فرمادیتے تھے۔ اس رات احقر نے کچھ ایسے ملتجیانہ انداز میں مولاناؒ سے پاؤں دبانے کی اجازت چاہی کہ مولاناؒ کو رحم آگیا، اور انہوں نے اجازت دے دی، لیکن یہ محض میری خاطر داری تھی،چنانچہ ہر تھوڑی دیر بعد وہ کچھ دعائیں دے کر پاؤں سمیٹنے کی کوشش کرتے، بالآخر میں نے جب محسوس کیا کہ ان کو پاؤں دبوانے کی راحت سے زیادہ طبیعت پر بار ہورہا ہے تو میں نے چھوڑدیا۔ اس کے بعد میں سوگیا، رات کے آخری حصے میں آنکھ کھلی تو دیکھا کہ مولاناؒ کی چارپائی خالی ہے اور وہ قریب بچھے ہوئے ایک مصلے پر سجدے میں پڑے ہوئے سسکیاں لے رہے ہیں۔ اللہ اکبر! ایسے سفر، اتنے تکان اور اتنی مصروفیات میں بھی ان کا نالۂ نیم شبی جاری تھا! یہ دیکھ کر مجھے ایک تو ندامت ہوئی کہ مولاناؒ اپنے ضعف، علالت اور سفر کے باوجود بیدار ہیں اور ہم صحت اور نوعمری کے باوجود محوِ خواب! اور دوسری طرف یہ اطمینان بھی ہوا کہ جس تحریک کے قائد کا رشتہ ایسے ہنگامۂ دارو گیر میں بھی اپنے رب کے ساتھ اتنا مستحکم ہو ان شاء اللہ! وہ ناکام نہیں ہوگی۔‘‘ (نقوشِ رفتگاں، ص:۹۹-۱۰۰)
احقر کہتا ہے کہ تہجُّداور شب خیزی کا اہتمام جو اکابرین کا معمول رہا ہے، درحقیقت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  کے طریقوں کی پیروی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ عوام کو تو چھوڑیئے! آج کل خواص میں بھی یہ معمول کمزور ہوتا نظر آرہا ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی دینی ودنیوی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ غور کیا جائے! تحریکِ ختم نبوت کی عظیم الشان کامیابی میں جہاں اس کے قائد حضرت علّامہ بنوریؒ اور دیگر علمائے حق کی محنتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے، وہاں ان حضرات کی نالۂ نیم شبی اور شب خیز دعاؤں نے بھی اپنا اثر دکھایا ہے۔ آج بھی اگر تہجُّد وشب خیزی کا اہتمام اور اپنے رب کے سامنے رات کے آخری حصے میں التجا کرنے کا سلسلہ قائم کیا جائے تو امید ہے کہ آخرت کی کامیابی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ہمیں اپنے دینی مقاصد میں کامیابی، اہلِ باطل کی سازشوں سے نجات اور موجودہ ’’کورونا وائرس‘‘ اور دیگر مشکلات سے چھٹکارا عطا فرمائیں گے۔

۲-دنیا سے بے رغبتی

حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت‘ دنیا سے ان کی بے رغبتی بھی ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر کے بالکل وسط میں رہتے ہوئے اپنی بے نظیر مقبولیت ومحبوبیت کے باوجود انہوں نے اپنے دینی جذبے کے تحت ایک بہت بڑادینی ادارہ ’’جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی‘‘ تو بنادیا، لیکن اپنی ذات یا اپنی اولاد کے لیے کوئی معمولی مالی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی، یہاں تک کہ اپنے لیے نہ تو کوئی ذاتی سواری لی اور نہ ہی اپنی یا اپنی اولاد کی رہائش کے لیے کوئی معمولی ساذاتی مکان بنایا۔
کراچی کی تاجر برادری سے تعلق رکھنے والے گلشنِ اقبال میں رہائش پذیر ایک شخص حاجی جمال الدین صاحب مرحوم جو حضرت بنوریؒ سے بے پناہ محبت وتعلق رکھنے والے اور ان کے بہت سے واقعات سے واقف تھے، انہوں نے ایک دفعہ آبدیدہ ہوکر حضرت بنوریؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے براہِ راست مجھے بتایا کہ حضرت علّامہ بنوریؒ جیسے مخلص ودنیا سے بے نیاز انسان کو تو ہم نے اپنی زندگی میںکسی کو بھی نہیں دیکھا ہے، ہم نے اپنے خصوصی تعلُّق کے تحت بارہا حضرتؒ سے گزارش کی کہ آپ مدرسے کے ایک چھوٹے مکان میں رہتے ہیں اور آئندہ آپ کو یا آپ کی اولاد کو ذاتی مکان کی ضرورت پیش آسکتی ہے، جو انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے ہے، لہٰذا آپ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم آپ کے لیے ایک ذاتی مکان کا بندوبست کریں! لیکن آپ ہمیشہ انکار فرماتے رہے اور اپنی پوری زندگی اسی عارضی مکان میں بسر کی۔
صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون) کے مشہور و معروف عالم وخطیب حضرت مولانا محمد امیر بجلی گھر  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک دفعہ بتاریخ ۱۲/۲/۱۴۳۳ھ مطابق ۷/۱/۲۰۱۲ء بذریعۂ فون احقر سے بات کرتے ہوئے ’’جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن‘‘ سے میری وابستگی کی مناسبت سے حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کا تذکرۂ خیر کرتے ہوئے اُن کی زاہدانہ زندگی سے متعلق مندرجہ ذیل واقعہ سنایا:
’’حضرت بنوری قَدّس اللہ سرَّہ جب کراچی سے سرحد تشریف لاتے تو حضرت مولانا ایوب جان بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے یہاں اکثر قیام فرماتے، ایک دفعہ میں نے ان سے عرض کیا کہ حضرت! اگر آپ سرحد میں اپنے لیے ایک مکان بنالیتے تو اس میں آپ کے لیے بھی سہولت ہوتی اور جو لوگ یہاں پر آپ سے ملنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں، ان کے لیے بھی آسانی ہوجاتی۔ حضرت بنوری قُدِّس سرُّہ نے فرمایا کہ میں نے تو کراچی میں اپنے لیے مکان بنالیاہے، وہ ہی میرے لیے کافی ہے۔ میں نے سوچا کہ واقعی کوئی ذاتی مکان حضرت ؒ نے بنالیا ہوگا۔ بہرصورت! حضرتؒ واپس کراچی تشریف لے گئے، کچھ عرصہ بعد میں بھی کسی جلسے میں شرکت کرنے کے لیے کراچی گیا اور جلسے سے فراغت کے بعد حضرت بنوری قُدِّس سرُّہ کی ملاقات کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دورانِ ملاقات میں نے عرض کیا کہ: حضرت! آپ نے جو فرمایاتھا کہ میں نے کراچی میں اپنے لیے مکان بنالیاہے، وہ کہاں ہے؟ فرمانے لگے: میرے ساتھ چلیے، میں دکھاتاہوں، مجھے اپنے ساتھ لے جاکر مسجد کے شمال میں واقع ایک خالی زمین پر لے گئے اور زمین کے کچھ حصے پر لکیر کھینچ کر فرمایا کہ میرا مکان یہ ہے، آئندہ کبھی آناہو تو یہاں پر مجھ سے ملنا۔ یہ بات ہوگئی اور میں بھی واپس سرحد آگیا، پھر جب حضرت بنوریؒ کے وصال کے بعد میں کراچی گیا تو دیکھا کہ جہاں حضرتؒ نے لکیر کھینچی تھی وہیں پر آپ کی قبر تھی۔‘‘

۳-نام ونمود سے کنارہ کشی

شہرت ونام نمود سے حقیقی معنوں میں بیزاری وکنارہ کشی بھی حضرت علّامہ بنوریؒ کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت تھی، آپ تشہیر وپروپیگنڈے کے جتنے وسائل ہیں ان سے نہ صرف یہ کہ احتراز فرماتے، بلکہ ان کو اخلاص وللہیت کے منافی تصور فرماتے۔ آپ کے معتمد خاص حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  آپ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’قیامِ مدرسہ کے دوسرے سال جب مدرسہ میں دورۂ حدیث شریف بھی شروع ہوجاتاہے اور اساتذہ کا اضافہ ناگزیر ہوجاتا ہے تو اپنے مخلص دوستوں میں سے حضرت مولانا عبد الحق صاحب نافعؒ کو مدرسہ میں بلاتے ہیں تو ان ہی کو صدر مدرس اور شیخ الحدیث بناتے ہیں اور بخاری شریف پڑھانے کو دیتے ہیں۔‘‘
راقم الحروف عرض کرتاہے کہ اہلِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ اُس دور میں محدّث العصر حضرت علّامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی ؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی  ؒ کے بعد پورے بر صغیر میں حضرت محدّث العصر علّامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کے پایہ کا کوئی محدّث نہیں تھا۔ انہوں نے ’’جامعہ بنوری ٹاؤن‘‘ قائم بھی اس وقت فرمایاتھا جس سے پہلے وہ ’’دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار‘‘ میں شیخ التفسیر کی حیثیت سے اور اس سے پہلے ’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل‘‘ میں شیخ الحدیث وصدر المدرسین کی حیثیت سے بخاری شریف سمیت حدیث وتفسیر کی مختلف کتابیں پڑھا چکے تھے، ان تمام حقیقتوں کے باوجود اپنے ہی قائم کردہ ادارے میں بخاری شریف کا سبق کسی اور کے حوالے کردینا ایثار وقربانی اور نام ونمود سے اجتناب کی ایک ایسی منفرد مثال ہے جس کی نظیر ڈھونڈنے سے بھی شاید کہیں نہ مل سکے گی۔
آج کل بعض دینی اداروں کے بانیان وذمہ داران حضرات کا یہ طرزِ عمل کہ اپنے اداروں میں سب سے اہم وبنیادی کتابوں کے اسباق اہلیّت وصلاحیّت کا لحاظ کیے بغیر صرف ناموری کے لیے اپنے پاس یا اپنی اولاد ومقرَّبین کے پاس رکھ لیتے ہیں اور آگے ان اسباق کا حق بھی ادا نہیں کرتے، کتنی بڑی ناانصافی کی بات ہے؟! وہ حضرات اگر حضرت علّامہ بنوریؒ جیسے اکابر واسلاف کی سیرتِ طیبہ پر غور کرتے ہوئے ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں گے، تو یہ ان کے حق میں مفید اور ان کی دنیا وآخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنے گا۔
حضرت علّامہ بنوریؒ کے جانشین امام اہلِ سنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ بھی لکھا ہے کہ: ’’حضرت علّامہ بنوری قُدِّس سرُّہ نے نہ تو کبھی فارغ التحصیل طلبہ کی دستاربندی اور تقسیمِ اسناد کے نام سے ، اور نہ ہی بخاری شریف کے ختم کے نام سے کوئی سالانہ یا غیر سالانہ جلسہ کیا۔‘‘ راقم عرض کرتاہے کہ اس سے ان حضرات کو سبق لینے کی ضرورت ہے جو تعلیم سے زیادہ سالانہ جلسوں پر توجہ دیتے ہیں اور اپنے اپنے اداروں کی تشہیر کے لیے مختلف وسائل سے کام لینے کی کوشش کرتے ہوئے مبالغہ آرائیوں سے کام لیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تعداد کے اعتبار سے تو ہر سال بہت سے فضلاء وحفاظ تیار ہورہے ہیں، لیکن آگے ان کی دینی سرگرمیوں میں وہ جوش وخروش اور اخلاص نظر نہیں آتا جو اکابرین کے دور میں نظر آتا تھا۔

حضرت بنوریؒ سے احقر کی غائبانہ محبت

اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ احقر کو حضرت علّامہ بنوری قُدِّس سرُّہ سے براہِ راست استفادہ کرنا تو درکنار ان کی زیارت کی سعادت کا موقع بھی نصیب نہیں ہوا ہے، بلکہ ان سے واقفیت کا آغاز ان کے وصال کے تین سال بعد اس وقت ہوا ہے جب میں ’’مدرسہ مظہر العلوم شالدرہ کوئٹہ‘‘ کا طالب علم تھا اور پھر مزید واقفیت کا موقع دارالعلوم دیوبند میں اپنے اساتذۂ کرام کی زبانی اور خود حضرت بنوریؒ کی سوانح وتصانیف اور بالخصوص ’’معارف السنن‘‘ کے توسُّط سے اور بالآخر تفصیلی واقفیت کا موقع ’’جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی‘‘ کے ماحول میں ان سے براہِ راست فیض حاصل کرنے والے ان حضرات کے ذریعے جن میں سے بعض حضرات اب بھی بقیدِ حیات ہیں، نصیب ہوا ہے۔
حضرت بنوریؒ کے علمی مقام وذہانت، عربی ادب میں تفوُّق، تقویٰ وطہارت، للہیت واخلاص، نفاست وصاف دلی، اعلیٰ انتظامی صلاحیّت، دینی حمیت وفتنوں کا تعاقب، دنیا سے بے رغبتی اور نام ونمود سے کنارہ کشی نے میرے دل میں ان کی ایسی محبت پیدا کردی ہے کہ مجھے ان حضرات کی خوش قسمتی پر رشک آتاہے جنہوں نے براہِ راست ان کی صحبت اُٹھائی ہے او ران سے استفادہ کیا ہے۔ میرے دل میں حضرت علّامہ بنوریؒ کو دیکھے بغیر جو محبت کے جذبات موجزن ہیں ان پر غور کرتے ہوئے مجھے عارف باللہ حضرت عبد الرحمن جامی  رحمۃ اللہ علیہ  کا مندرجہ ذیل شعر یاد آتا ہے:

نہ تنہا عشق از دیدار خیزد
بسا کیں دولت از گفتار خیزد

ترجمہ ومفہوم: ’’گہری محبت صرف دیدار ہی سے پیدا نہیں ہوتی، بسا اوقات محبوب کی خوبیاں سن سن کر بھی یہ دولت نصیب ہوتی ہے۔‘‘
حضرت بنوریؒ کی اسی غائبانہ محبت نے راقم کو اس مضمون کی تحریر کے لیے صرف آمادہ ہی نہیں، بلکہ مجبور کردیا ہے، تاکہ ایک طرف تو اپنے قلبی جذبات کو اس امید کے ساتھ کچھ نہ کچھ اظہار کا موقع ملے کہ ان شاء اللہ! قیامت کے دن رب العزت مجھے بھی حضرت بنوریؒ کے محبّین میں شامل فرمادیںگے اور دوسری طرف قارئین کرام کو حضرت بنوریؒ کی زندگی اور عادات وخصائل کو یاد کرنے اور ان سے موجودہ بے چینی کے ماحول میں فیضیاب ہونے کا موقع میسر رہے۔

میرے ایک مخلص دوست کا خواب

شاید حضرت علّامہ بنوریؒ سے غائبانہ اور مخلصانہ محبت ہی کاکرشمہ ہے کہ احقر کو خواب کے اندر کئی دفعہ ان کی ایسی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی ہے جس سے دل کو سکون اور روح کو اطمینان نصیب ہوا ہے۔ خواب اگرچہ شرعی حجّت تو نہیں، لیکن شریعت نے اچھے خوابوں کو مبشّرات کا درجہ ضرور دیا ہے۔ میں نے جتنے خواب حضرت والا قُدِّس سرُّہ کے متعلق دیکھے ہیں وہ سب میری ڈائریوں میں اپنی اپنی تاریخوں کے اعتبار سے محفوظ ہیں، تاہم احقر اپنے خوابوں کے بجائے اپنے مخلص دوست جناب مولانا محمد عاصم زکی صاحب زید مجدہم استاذ ’’جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن‘‘ کے اس خواب کو جو انہوں نے حضرت بنوریؒ اور احقر سے متعلق بروز جمعہ بتاریخ ۱۷/۵/۱۴۲۹ھ مطابق ۲۳/۵/۲۰۰۸ء دیکھا ہے، اس وجہ سے ترجیح دیتا ہے کہ عارف باللہ مولانا جلال الدین رومیؒ کے ایک مندرجہ ذیل شعر کا مفہوم ہے کہ: ’’محبت کی داستان اپنی زباں کے بجائے اگر کسی اور کی زباں سے بیان کی جائے تو زیادہ اچھی لگتی ہے:

خوشتر آں باشد کہ سِرّ دلبران
گفتہ آید در حدیثِ دیگران

جناب مولانا محمد عاصم زکی صاحب زید لطفہم کا خواب میری ڈائری میں مذکورہ تاریخ کے مطابق اس طرح محفوظ ہے:
’’آج بروز جمعہ اشراق وغیرہ سے فارغ ہوکر آرام کیا تو حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کو خواب میں دیکھا۔ وہ بنوری ٹاؤن مسجد کے صحن میں مشرق کی طرف سے داخل ہوکر آگے کی طرف تشریف لے جارہے ہیں، اور میں (مولانا محمد عاصم زکی صاحب) نے ان کو سہارا دیا ہوا ہے، وہ آگے جاکر مسجد کے اندر والے حصے میں داخل ہوتے ہیں اور پھر خود ہی اکیلے سیدھے ہاتھ کی طرف چلے جاتے ہیں، پھر دیکھتا ہوں کہ وہاں پر تم (عبد الرؤف غزنوی) کو حضرت بنوریؒ نے اپنی گود میں چھوٹے بچے کی طرح لیا ہوا ہے، تمہارا سر حضرتؒ کی بائیں ران کی طرف اور پاؤں سیدھی ران کی طرف نکلے ہوئے ہیں اور مجھے دیکھ کرتم خوش ہوکر ہنس رہے ہو۔‘‘
یہ خواب جب جناب مولانا محمد عاصم زکی صاحب زیدلطفہم نے مجھ سے بیان فرمایا، تو میری خوشی کی کوئی انتہاء نہ رہی اور یہ اُمید قائم ہوگئی کہ حضرت بنوری قُدِّس سرُّہ کی روحانی توجہ کی سعادت ہم دونوں کو بلکہ ہراس شخص کو حاصل ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی حاصل رہے گی جو اُن سے للّٰہ فی اللہ محبت رکھتا ہو اور ’’جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن‘‘ میں اخلاص کے ساتھ ان کے اصولوں کے مطابق دین کی خدمت کررہا ہو۔

وفات حسرت آیات

محدّث العصر حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوریؒ اپنی زندگی میں فرمایا کرتے تھے کہ: ’’میں اللہ پاک سے یہ دعا کرتاہوں کہ جب تک میری حیات باقی ہو، کسی کا محتاج نہ بنوں اور میری زندگی اگر مقدر ہو تو چار چیزوں کے ساتھ، ۱:- صحت، ۲:-قوّت، ۳:-ہمّت، ۴:- توفیقِ مرضیات‘‘ نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مخلص بندے حضرت بنوریؒ کی مذکورہ دونوں تمنائیں پوری فرمائیں، چنانچہ آخر وقت تک کسی کے محتاج نہیں رہے اور آخر وقت تک بولتے رہے اور مرضیاتِ خداوندی کی توفیق انہیں ملتی رہی۔
آپ ’’اسلامی مشاورتی کونسل‘‘ کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آبادتشریف لے گئے تھے، جہاں ان کی طبیعت خراب ہوگئی اور راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں ان کو داخل کیاگیا، جہاں بروز پیر بتاریخ ۳/۱۱/۱۳۹۷ھ مطابق ۱۷/۱۰/۱۹۷۷ء ہسپتال میں موجود افراد کے بقول فرمایا کہ: ’’ہمیں تو مہمان لینے کے لیے آگئے ہیں، اب دوائی بس کریں اور ہم تو چلے۔‘‘ اس کے بعد ذرا بلند آواز سے کلمہ شریف پڑھا اور قبلہ کی طرف منہ کرکے السلام علیکم کہتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے پیچھے اپنی نیک اولاد واقرباء، بے شمار شاگرد ومعتقدین، علمی وتحقیقی تصانیف اور ’’جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی‘‘ کی شکل میں ایک بڑا دینی ادارہ صدقۂ جاریہ کے طور پر چھوڑا۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور ان کے اقرباء، شاگردوں، محبین ومعتقدین اور ’’جامعہ علومِ اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن‘‘ سے نسبت رکھنے والے تمام افراد کو ان کے اصولوں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین       [انتہیٰ]
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین