بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت علّامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ  ایک بلند پایہ محدّث، مایۂ ناز ادیب اور خدا ترس مہتمم

حضرت علّامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ 

ایک بلند پایہ محدّث، مایۂ ناز ادیب اور خدا ترس مہتمم
                                    (پہلی قسط)


راقم الحروف نے اپنی جوانی کے آغاز میں جب وہ درجاتِ متوسطہ کا طالب علم تھا محدّث العصر حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوری قدّس سرُّہٗ کی زندگی کا وہ زمانہ پایا ہے جس میں وہ اپنے قائم کردہ دینی ادارے جامعہ علومِ اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں شیخ الحدیث ومہتمم کی حیثیت سے ملک وبیرونِ ملک سے آئے ہوئے مہمانانِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اور طلبِ علم کے پیاسوں کی علمی وتربیتی آبیاری فرما رہے تھے، اور ساتھ ساتھ فتنوں کے تعاقب اور بالخصوص تحریکِ ختم نبوت کی قیادت میں سرگرمِ عمل تھے۔
میرے لیے یہ ممکن تو تھا کہ حضرت والا کی زندگی کے اسی دور میں آپ کے قائم کردہ دینی ادارے میں ایک ادنیٰ طالبِ علم کی حیثیت سے داخلہ لے لیتا اور آپ کی زیارت اور آپ کے علوم وبرکات سے استفادہ کا شرف حاصل کرلیتا، لیکن ایسا اس لیے نہ ہوسکا کہ میں شہری آبادیوں سے دور اُن علمائے کرام کے پاس صرف ونحو، منطق وفلسفہ اور علمِ کلام و ہیئت اور دیگر فنون کی تعلیم میں مصروف تھا، جو یکسوئی اور صبر وقناعت کے ساتھ دیہات میں مقیم اور تدریس میں منہمک تھے اور انہیں شہری زندگی سے کوئی تعلق ورابطہ نہیں تھا، وہ لِلّٰہ فی اللہ پڑھاتے تھے، نہ ان کے اندر راحت وآسائش کی رغبت تھی اور نہ ہی تنخواہ ومعاوضہ لینے کی تمنا! بلکہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں مطالعہ اور پڑھانے پر خرچ کرنے کے عادی تھے۔
ابتدائی اور متوسط درجات کی تعلیم کو مذکورہ دور افتادہ دیہاتی علاقوں میں ترجیح دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس ماحول میں یہ مشہور تھا کہ صرف ونحو، منطق وفلسفہ اور دیگر فنون کی تعلیم پر اُن دیہات کی مساجد وحجروں میں پڑھانے والے اساتذۂ کرام جو توجُّہ دیتے ہیں ایسی توجُّہ شہروں کے ماحول میں قائم مدارس کے اندر پڑھانے والے اساتذۂ کرام طلبہ کی کثرت کی وجہ سے نہیں دے پاتے۔ ہاں! علومِ نقلیہ جیسے: تفسیر واُصولِ تفسیر، حدیث واُصولِ حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم پر ان مدارس میں خوب توجُّہ دی جاتی ہے، لہٰذا طالبِ علم کے لیے بہتر یہ ہوتاہے کہ وہ ابتدائی ومتوسط درجات کی تعلیم تو دیہات کے مذکورہ بالا ماحول میں حاصل کرے اور علومِ عالیہ کی تعلیم کے لیے شہروں کے اندر قائم مدارسِ دینیہ کو ترجیح دے۔
دیہات کے مذکورہ ماحول میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے احقر کو محدّث العصر حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوریؒ اور اُن کے ہم عصر دیگر علمائے کرام سے استفادہ کرنے اور فیض حاصل کرنے کا موقع تو درکنار دیکھنے اور زیارت کرنے کی سعادت بھی نصیب نہ ہوسکی اور نہ ہی ان کے قائم کردہ ادارے جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے کوئی واقفیت حاصل ہوسکی، یہاں تک کہ ۱۳۹۷ھ کو جب احقر کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ رہی ہوگی حضرت علّامہ بنوری کا وصال ہوگیا، رفع اللّٰہ درجاتہٖ في الجنۃ، اور ان سے براہِ راست استفادہ کرنے یا ان کی زیارت کرنے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔

حضرت علّامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ  سے غائبانہ طور پر احقر کی پہلی واقفیت

دیہات کے ماحول میں علومِ عقلیہ کی تعلیم سے فراغت کے بعد احقر نے اپنے والد ماجد اور دیگر اساتذۂ کرام کے حکم سے علومِ نقلیہ کے حصول کے لیے شہروں کے اندر قائم مدارسِ دینیہ میں داخلہ لینے کا ارادہ کیا، اس دوران میرے ایک محترم استاذ حضرت مولانا عبدالغفور صاحب غزنوی  رحمۃ اللہ علیہ  (فاضل وسابق استاذ جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد انڈیا) نے تاکید کے ساتھ مجھے یہ وصیت کی کہ ’’تم دارالعلوم دیوبند انڈیا تک جو برّصغیر کے تمام دینی مدارس کی ماں کی حیثیت رکھتا ہے پہنچنے اور وہاں پر بقیہ تعلیم مکمل کرنے کی کوشش کرو، میں تمہارے حق میں دعا کرتاہوں۔‘‘ اس وصیت کے بعد احقر نے ۱۴۰۰ھ مطابق ۱۹۸۰ء کی ابتدا میں رختِ سفر باندھ کر ’’کوئٹہ‘‘ بلوچستان کا رُخ کیا اوروہاں پہنچ کر ’’مدرسہ مظہر العلوم شالدرہ‘‘ میں داخلہ لے کر دارالعلوم دیوبند جانے کی تیاری میں مصروف ہوگیا۔
’’مدرسہ مظہر العلوم شالدرہ‘‘ میں قیام کے دوران مجھے ڈاک کے ذریعے دینی کتابوں کا ایک مختصر بنڈل موصول ہوا، یہ بنڈل ترکی کے اندر دینی کتابوں کے ایک رفاہی ادارے کی طرف سے جو جناب حسین حلمی بن سعید کی سرپرستی میں چل رہا تھا مفت بھیجا گیا تھا، مفت کتابوں کا یہ بنڈل پاکر احقر کو بڑی مسرت ہوئی، اس لیے کہ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے مطالعہ کا شوقین تو تھا، البتہ کتابیں خریدنا میرے لیے مشکل تھا۔ کتابوں کے مذکورہ بنڈل میں ایک عربی رسالہ ’’الأستاذ المودودي وشیئ من حیاتہ وأفکارہ‘‘ شامل تھا جو حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کا لکھا ہوا تھا، اسے پڑھ کر اس کے طرزِ تحریر اور مصنف کی وسعتِ علم نے کافی متأثر کردیا، اور ایک مقامی طالبِ علم سے جو میرے اندازے کے مطابق ملک کے علمائے کرام سے واقفیت رکھتے تھے حضرت علّامہ بنوریؒ کے متعلق سوال کیا کہ کیا آپ ان سے واقف ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو پورے ملک کے سرکردہ علمائے کرام میں سے ایک ممتاز عالم دین ومحدّث اور حضرت علّامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ (سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند) کے مخصوص شاگرد اور تحریکِ ختم نبوت کے قائد اور ملک کے ایک مشہور ومعروف دینی ادارے جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے بانی اور شیخ الحدیث تھے اور تقریباً تین سال قبل ان کا انتقال ہوگیا، رحمہ اللّٰہ رحمۃً واسعۃً۔
حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  سے احقر کی یہ پہلی واقفیت تھی جو غائبانہ طور پر ان کی علمی تألیفات میں سے صرف ایک مختصر رسالہ پڑھنے کی بنیاد پر حاصل ہوئی اور احقر کے دل میں ان سے عقیدت ومحبت پیدا ہوگئی اور دل دل میں یہ کہنے لگا کہ کاش! ان کے فیوض وبرکات سے براہِ راست استفادہ کرنے اور ان کی زیارت سے سرفراز ہونے کا موقع مل جاتا، تاہم اس تمنا کا پورا ہونا اب ناممکن ہوگیا تھا، کیونکہ حضرت قدّس سرُّہٗ کے وصال کو تین سال کا عرصہ گزرگیا تھا، البتہ جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لینے اور اس کے بابرکت ماحول سے استفادہ کرنے کا امکان باقی تھا، لیکن میں نے خود اس وجہ سے اس کی کوشش نہیں کی کہ اپنے استاذ محترم حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ اور دیگر علمائے کرام سے دارالعلوم دیوبند کا نام ومقام سن کر میں غائبانہ طور پر اس کا ایسا دلدادہ بن گیا تھاکہ اس کے علاوہ کسی بھی دینی ادارے میں پڑھنے کے لیے اپنے دل کو آمادہ نہیں کرسکتا تھا، اور بالخصوص حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کی اس وصیت کے بعد کہ: ’’تم ہر صورت میں دارالعلوم دیوبند پہنچنے کی کوشش کرو۔‘‘ میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ دارالعلوم دیوبند میں بقیہ تعلیم کی تکمیل کے لیے جو بھی کوشش ممکن ہوگی، میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس سے دریغ نہیں کروںگا۔ اسی جذبے کے تحت دن رات دارالعلوم دیوبند جانے کی فکر میرے دل ودماغ پر مسلط رہی، جب رات کو سوتا تو خواب میں کبھی یہ دیکھتا کہ دارالعلوم دیوبند کو تلاش کررہا ہوں اور کبھی یہ کہ وہاں پہنچ چکا ہوں، جس سے بے انتہا خوشی ہوتی، لیکن جب آنکھ کھلتی اور اپنے آپ کو ’’کوئٹہ‘‘ میں پاتا تو غمگین ہوجاتا اور دعا کرتا کہ اللہ تعالیٰ اس خواب کو حقیقت بنادے۔

دارالعلوم دیوبند کے ماحول میں حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کے مقامِ عالی سے مزید واقفیت

کافی محنتوں اور کوششوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اپنے والدین اور اساتذۂ کرام بالخصوص حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحب کی مبارک دعاؤں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس حقیر کو بالآخر دارالعلوم دیوبند پہنچا ہی دیا، جس کی محبت نے میرے دل کو ایک بے خودی اور مدہوشی کی کیفیت میں مبتلا کردیا تھا۔ دارالعلوم دیوبند میں رواں صدی ہجری کے پہلے سال یعنی ۱۴۰۱ھ کو احقر نے دورۂ حدیث میں داخلہ لیا اور اساتذۂ دارالعلوم کے پاس احادیثِ نبویہ کی مشہور کتبِ ستہ کے ساتھ ساتھ دورۂ حدیث کے نصاب میں شامل دیگر کتبِ حدیث پڑھنے اور اکابر واسلاف کے حالات سے واقف ہونے کا بہترین موقع نصیب ہوا۔
اس موقع پر حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے حالات سے مزید آگاہی کی سعادت میسر ہوئی، اس لیے کہ ترمذی شریف جلد اول کی تدریس حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم (موجودہ شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند) سے متعلق تھی اور وہ سبق کے دوران کتبِ حدیث کی مختلف شروح اور بالخصوص ’’معارف السنن شرح سنن الترمذي‘‘ کا حوالہ کثرت سے دیا کرتے تھے اور طلبہ کو اس کے مطالعہ کی ترغیب دیتے ہوئے اس کی اہمیت اور حضرت علّامہ بنوریؒ کے علمی مقام کا تذکرہ فرماتے اور ان کو حضرت علّامہ سید محمد انور شاہ صاحب نوَّر اللہ مرقدہٗ (سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند)کے خصوصی شاگرد اور ان کے علوم کا امین وترجمان قرار دیتے ہوئے ’’معارف السنن‘‘ کو ترمذی شریف کی دیگر تمام شروح پر فوقیت وترجیح دیتے تھے۔
میرے پاس نہ تو اپنی ذاتی ’’معارف السنن‘‘ تھی اور نہ ہی اس کے خریدنے کی استطاعت! اس لیے کہ میں ایک ایسا غریب الوطن مسافر طالبِ علم تھا کہ چھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ’’معارف السنن‘‘ تو درکنار ایک معمولی قلم وکاپی خریدنا بھی میرے لیے مشکل تھا، لہٰذا میں فرصت کے وقت دارالعلوم کی لائبریری میں اس کے محدود اوقات کے اندر جاکر کتبِ حدیث کی شروح کا بالعموم اور ’’معارف السنن‘‘ کا بالخصوص مطالعہ کرنے کی کوشش کرتا۔ ’’معارف السنن‘ ‘ کے علمی مباحث نے مجھے بے حد متأثر کردیا جو حدیث واصولِ حدیث، فقہ واصولِ فقہ، صرف ونحو اور علم لغت کی تحقیقات اور اختلافی مسائل کے اندر مشہور ائمہ کی آراء ودلائل اور پھر ان دلائل کی روشنی میں مسلکِ راجح کی تعیین اور مسالکِ مرجوحہ کے دلائل کے علمی جوابات پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ’’معارف السنن‘‘ کی عربی شستہ اور ادبی زبان اور مرتَّب ومنظَّم انداز سے بھی میں کافی متأثر ہوا اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا کہ ’’معارف السنن‘‘ میں بعض ایسے دقیق وباریک مباحث بھی موجود ہیں جو ’’فتح الباري شرح صحیح البخاري‘‘ اور ’’عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري‘‘ میں (ان دونوں کے بلند علمی مقام کے اعتراف کے باوجود) دستیاب نہیں، اور یہ بات اس وجہ سے باعثِ تعجب نہیں کہ حضرت علّامہ بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  اپنی کتاب ’’معارف السنن‘‘ میں بعض علمی تحقیقات کے اندر ’’فتح الباري‘‘ اور ’’عمدۃ القاري‘‘ کے ساتھ ساتھ دسیوں دیگر علمی وتحقیقی مراجع کی طرف رجوع فرماتے ہوئے ان سب کا خلاصہ قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور پھر اپنے استاذِ محترم حضرت علّامہ سید محمد انور شاہ کشمیری  رحمۃ اللہ علیہ  کی اگر کوئی مخصوص تحقیق ہو یا خود ان کی اپنی کوئی تحقیق ہو اس سے بھی قاری کو نوازتے ہیں۔
’’معارف السنن‘‘ کی جامعیت کو دیکھ کر احقر نے یہ طے کرلیا تھا کہ صرف ترمذی شریف کی احادیث اور ان سے متعلقہ مسائل ومباحث کے حل کے لیے نہیں، بلکہ صحیحین اور حدیث کی دیگر داخلِ نصاب کتابوں کی احادیث اور حل طلب مسائل ومباحث کی تشریح کے لیے بھی اس سے استفادہ کروں گا، اس لیے کہ حضرت علّامہ بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  اپنی کتاب کے اندر کسی علمی موضوع کی تحقیق وتشریح کرتے ہوئے صرف سننِ ترمذی کی احادیث پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ موضوع سے متعلق صحیحین اور حدیث کی دیگر کتابوں کی احادیث کو بھی ذکر کرتے ہوئے ان کی تشریح اور ان کے درمیان تطبیق بیان کرتے ہیں۔ البتہ ایک مشکل ضرور درپیش تھی کہ میرے پاس نہ تو اپنی ’’معارف السنن‘‘ تھی اور نہ ہی خریدنے کی استطاعت، تاکہ جب بھی رات یا دن میں فرصت ملتی تو اس کے مطالعہ سے اپنی علمی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا، اُدھر دارالعلوم کی لائبریری کے اوقات محدود تھے اور دورۂ حدیث کے طالبِ علم ہونے کی بنیاد پر خود میری فرصت کے اوقات بھی محدود تھے، اس وجہ سے ’’معارف السنن‘‘ کا تفصیلی مطالعہ میرے لیے مشکل تھا، لیکن اس کے اجمالی اور جزوی مطالعہ سے بھی میں نے کافی فائدہ محسوس کیا اور کتاب اور مؤلف  رحمۃ اللہ علیہ  دونوں سے عقیدت ومحبت میں اضافہ ہوا اور مؤلفِ محترم حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی زندگی اور عادات وخصائل سے واقف ہونے کی رغبت بڑھ گئی۔

دارالعلوم دیوبند میں احقر کا تدریسی مشغلہ اور پھر کراچی منتقلی

دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اپنے اساتذۂ کرام کے حکم ومشورے سے احقرنے اپنی مادرِ علمی ہی میں تدریس کی خدمت انجام دینے کی درخواست پیش کی اور دارالعلوم کے نظام کے مطابق اکابرین کی ایک کمیٹی نے انٹرویو لیا اور بحیثیت مدرّس احقر کا تقرُّر عمل میں آیا، اور دس سال تک تدریس اور مسجدِ دارالعلوم کی امامت وخطابت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انجام دیتارہا، ان دس سالوں میں دارالعلوم دیوبند اور اس کی پُرکیف علمی وعملی فضاء سے محبت وتعلق اتنا مضبوط ہوگیا کہ میرے تصوُّر میں بھی نہیں تھا کہ اپنی زندگی میں کبھی اس بابرکت ماحول سے جدا ہوں گا، بلکہ یہی تمنا دل میں بسی ہوئی تھی کہ اپنی زندگی کی آخری رمق تک یہیں رہُوں اور یہیں سے میرا جنازہ اُٹھے، لیکن چونکہ تقدیرِ خداوندی کچھ اور تھی تو اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کردیئے کہ مجھے زندگی ہی میں دارالعلوم دیوبند کو خیرباد کہنا پڑا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ۱۴۱۲ھ ماہِ شعبان میں میرے والد ماجد کا مضافاتِ ’’کوئٹہ‘‘ میں انتقال ہوگیا اور اپنے پیچھے میری والدہ محترمہ اور خود میرے علاوہ مزید چھ بیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑیں، اور چونکہ ایسی صورتِ حال میں اپنی والدہ محترمہ اور چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی خدمت ودیکھ بھال کی ذمہ داری مجھ ہی پر عائد ہوتی تھی، اس لیے والدہ محترمہ مُدَّظِلُّہا نے مجھے دیوبند سے پاکستان منتقل ہونے اور وہاں پر تدریس کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری انجام دینے کا حکم دے دیا، مذکورہ بالا ضرورت اور والدہ محترمہ کے دو ٹوک حکم کے بعد میرے لیے سرِ تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا، چنانچہ غمِ فراق کو برداشت کرتے ہوئے ماہِ شوال ۱۴۱۲ھ کو دارالعلوم دیوبند سے کراچی منتقل ہوگیا۔

میرے مستقبل کے بارے میں دارالعلوم دیوبند کے ایک طالبِ علم کا خواب

جس وقت احقر دارالعلوم دیوبند میں مدرّس اور امام وخطیب کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہا تھا اور دارالعلوم دیوبند سے جدائی کا کوئی تصوُّر بھی ذہن میں نہیں تھا، اس وقت کی بات ہے کہ ایک بنگلہ دیشی طالبِ علم عزیز القدر مولوی مسعود الرحمن صاحب نے مجھے ۲۰؍رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ کو بتایا کہ انہوں نے آج یہ خواب دیکھا ہے کہ: ’’احقر کسی دارالحدیث میں صحاحِ ستہ میں سے کوئی کتاب پڑھا رہاہے اور سامنے کچھ طلبہ بیٹھے ہوئے ہیں جن کو میں (خواب دیکھنے والا) نہیں جانتا۔‘‘ عزیز القدر مولوی مسعود الرحمن صاحب دارالعلوم کے ایک باصلاحیت اور نیک وصالح طالبِ علم تھے جو سالِ ہفتم سے فارغ ہوکر چھٹیوں کے بعد دورۂ حدیث میں جانے والے تھے۔ موصوف کے مذکورہ خواب کی تعبیر جو اس وقت سمجھ میں آئی، یہ تھی کہ ان شاء اللہ! خدمتِ حدیث کا موقع نصیب ہوگا، لیکن دارالعلوم دیوبند کے علاوہ کسی ایسے دینی مرکز کے اندر جسے خواب دیکھنے والے نے اب تک نہ دیکھا ہو۔

دارالعلوم دیوبند سے جدائی کا غم

جب احقر نے دارالعلوم دیوبند کو الوداع کہا اور کراچی منتقل ہوا تو دارالعلوم کے غمِ فراق نے مجھے اتنا بے تاب وبے قرار کردیاتھا کہ میری مثال اس تڑپتی ہوئی مچھلی کی تھی جو تالاب سے الگ کردی گئی ہو، اس لیے کہ دارالعلوم دیوبند کی یہ خصوصیت ہے کہ اگر کوئی طالب علم صرف ایک ہی سال وہاں پڑھ کرفارغ التحصیل ہوجاتاہے اور اگلے سال اس کو جانا پڑتا ہے تو وہ غمِ فراق میں تڑپتے ہوئے اپنی مادرِ علمی سے جدائی کو بڑی مشکل سے برداشت کرتاہے، اب غور فرمایاجائے جس شخص کو فراغت کے بعد وہاں پر مزید دس سال تک اپنے اساتذۂ کرام کی زیرِسرپرستی تدریس کرنے اور امامت وخطابت کا فریضہ انجام دینے کا موقع نصیب ہواہو اور مجموعی طور پر گیارہ سال اس فضاء میں رہ کر دارالعلوم دیوبند کی محبت اس کی رگ وپے میں پیوست ہوچکی ہو، ایسے شخص کے لیے دارالعلوم کا فراق کتنا مشکل ہوگا؟
خلاصہ یہ کہ دارالعلوم دیوبند سے کراچی منتقلی کے بعد اگرچہ اللہ کی توفیق سے تدریس سے تو وابستہ رہا، تاہم دارالعلوم دیوبند کو یاد کرتے ہوئے یہ تمنا دل ودماغ میں برابر قائم رہی کہ کسی ایسے مرکز میں خدمت کا موقع ملے جس کا ماحول دارالعلوم دیوبند سے ملتا جلتا اور اس کی فضاؤں میں اسی کی خوشبو مہک رہی ہو! اس تمنا وبے قراری میں تین سال کا عرصہ گزر چکا اور مجھے یہ اُمید تھی کہ ان شاء اللہ! کسی ایسے مرکز میں خدمت کا موقع ملے گا جو دلِ بے قرار کے لیے مرہم بنے گا، اس لیے کہ میں نے دارالعلوم کو کسی ذاتی مصلحت کے تحت نہیں بلکہ والدہ محترمہ کی خدمت اور اپنے چھوٹے بھائیوں بہنوں کی دیکھ بھال کی ضرورت کے تحت خیر باد کہہ دیاتھا، اور والدہ محترمہ برابر میرے لیے دعائیں بھی فرمارہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ اسے قابلِ اطمینان مرکز میں خدمت کا موقع عنایت فرمادیں، بالآخر والدہ محترمہ کی دعائیں رنگ لے آئیں اور میں جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے منسلک ہوگیا۔

جامعہ بنوری ٹاؤن میں احقر کی تقرری اور حضرت علّامہ بنوریؒ کے تفصیلی حالات سے واقفیت

دارالعلوم دیوبند کے فراق کا غم اور اس کے متبادل کی تمنا کو دل میں لیے ہوئے کراچی میں تین سال کا صبر آزما مرحلہ گزرگیا، جس کے بعد دارالعلوم دیوبند کی نسبت کی برکت اور اپنی والدہ محترمہ کی شب خیز دعائیں رنگ لے آئیں اور جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی (جسے اگر پاکستان کا دارالعلوم دیوبند کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا) کے مہتمم حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید رحمۃ اللہ علیہ  (تاریخِ شہادت ۱۴۱۸ھ) نے مجھے ماہِ شوال ۱۴۱۵ھ کو جامعہ میں تدریس اور عربی مجلہ ’’البینات‘‘ کے اجراء کو عملی جامہ پہنانے اور اس کے مدیر کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دینے کی دعوت دی، اور مجھے چونکہ جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کی چند دفعہ زیارت کا موقع اس وقت نصیب ہوا تھا، جب میں دارالعلوم دیوبندمیں مدرس تھا، میں اس وقت سے ہی جامعہ بنوری ٹاؤن کے پرکیف علمی ماحول سے کافی متأثر ہوگیا تھا اور اس کی فضاؤں میں دارالعلوم دیوبند کی مہک محسوس کرچکا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے بانی حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے علمی مقام سے ان کی کتاب ’’معارف السنن‘‘ اور اپنے اساتذہ کے توسُّط سے واقف ہوچکا تھا، اس لیے کراچی منتقلی کے بعد میرے دل میں یہ تمنا چُھپی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس علمی مرکز میں خدمت کا موقع عنایت فرمادیں، البتہ شرم وحیاء کی وجہ سے اس تمنا کو زبانی یا تحریری طور پر جامعہ بنوری ٹاؤن کے اربابِ انتظام کے سامنے ظاہر نہیں کرپارہا تھا، اس لیے کہ نہ تو میں نے اس جامعہ میں پڑھاتھا اور نہ ہی ایک سرسری جان پہچان کے علاوہ اربابِ انتظام حضرات سے کوئی پختہ تعلق ورابطہ تھا۔
جب حضرت مولانا محمد حبیب اللہ مختار شہید  رحمۃ اللہ علیہ  نے از خود وہاں پر خدمت کرنے کی دعوت دی تو میں نے ان کی دعوت پر لبَّیک کہتے ہوئے اس یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نعمت کا اصل سبب میری علمی یا عملی صلاحیت نہیں، اس لیے کہ مجھ سے علمی وعملی صلاحیتوں میں کئی گُنا فائق خود جامعہ بنوری ٹاؤن اور دیگر مدارس کے ایسے فضلاء موجود ہیں جن کو ان کی گہری تمناؤں کے باجود اس جامعہ میں خدمت کا موقع نہیں ملتا، اور میں نہ تو اس جامعہ کا فاضل ہوں اور نہ کسی ممتاز صلاحیت کا حامل، اور نہ ہی اربابِ انتظام حضرات میں سے کسی سے کوئی خصوصی تعلق وواسطہ رہاہے، پھر بھی مجھے خود جامعہ کی طرف سے دعوت دی جارہی ہے! یقینا اس میں کچھ دیگر اسباب کار فرما ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل وکرم، دارالعلوم دیوبند کی نسبت اور والدہ محترمہ کی دُعائیں۔
بہرصورت! اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت مولانا محمد حبیب اللہ مختار شہید  رحمۃ اللہ علیہ  کی دعوت پر ماہِ شوال ۱۴۱۵ھ کو جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے احقر بحیثیت مدرس اور مدیر مجلہ عربی ’’البینات‘‘ وابستہ ہوگیا اور یہیں سے حضرت علّامہ بنوری قُدّس سرُّہٗ کے تفصیلی حالات سے واقفیت کا ایک نیا موقع میسَّر ہوا، اس لیے کہ اگرچہ ان کی وفات کو تو تقریباً اٹھارہ سال کا عرصہ گزرچکا تھا، تاہم جامعہ کی چار دیواری کا ہرہرکونہ اور ان کے بنائے ہوئے اور سجائے ہوئے دارالحدیث کا ہر ہر زاویہ زبانِ حال سے ان کی زندگی کی ترجمانی کررہا تھا، اور جامعہ میں موجود اُن کے فیض یافتہ لائق وفائق شاگرد حضرات کے توسُّط سے ان کے ایمان افروز واقعات، اخلاقِ فاضلہ ،تقویٰ، اخلاص، دینی حمیت اور خداداد صلاحیتوں کا پتہ چلتا رہتا تھا۔
مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن میں خدمتِ حدیث کا موقع عنایت فرمایا اور تادمِ تحریر (۱۴۴۱ھ) اس خدمت کو تقریباً چھبیس سال کا عرصہ بیت چکاہے، اس عرصے میں ایک طرف حضرت علّامہ بنوری قُدّس سرُّہٗ کے تفصیلی حالات سے واقفیت کا موقع میسَّر ہوا، دوسری طرف ان کی تصانیف کا مطالعہ اور بالخصوص ’’معارف السنن شرح سنن الترمذي‘‘ کا تفصیلی مطالعہ نصیب ہوا، کیونکہ جامعہ میں سترہ سال سے ترمذی شریف کا سبق مجھ سے متعلق اور اس مناسبت سے ’’معارف السنن‘‘ خصوصی طور پر زیرِ مطالعہ ہے، اس لیے کہ ترمذی شریف کی اس سے بہتر اور مفصل کوئی شرح نہ تو اب تک میرے علم کے مطابق لکھی گئی ہے اور نہ ہی بظاہر لکھی جاسکے گی۔
حضرت علّامہ بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کے تفصیلی حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد احقر نے چاہا کہ ان کی زندگی اور ایمان افروز واقعات سے متعلق ایک مضمون اس اعتراف کے ساتھ قلمبند کروں کہ حضرتِ والا کی سیرتِ عالیہ میری ٹوٹی پھوٹی تحریر کی محتاج ہرگز نہیں، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ حضرت کی زندگی سے خود بھی راہنمائی حاصل کرتے ہوئے قیامت کے دن ان کے محبّین میں شامل ہوجاؤں اور اپنے ہم عصر حضرات کو بھی ان کے حالات یاددلاتے ہوئے ان جیسے اکابرین کے نقشِ قدم پر چلنے کی ترغیب دوں۔

حضرت علّامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کی ولادت وپرورش

محدّث العصر حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی ولادت حُسَینی سادات کے ایک خاندان میں بروز جمعرات بوقتِ سحر بتاریخ ۶؍ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ مطابق ۱۹۰۸ء ’’پشاور‘‘ کے مضافات میں واقع ایک بستی ’’مہابت آباد‘‘ میں ہوئی۔ آپ کے نویں جدِ امجد حضرت سید آدم بنوری حسینی  رحمۃ اللہ علیہ  ہیں، جن کو مجدِّد الفِ ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی قُدّس سرُّہٗ کے اجل خلفاء میں شمار کیا جاتا ہے۔ حضرت سید آدم بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی جائے پیدائش ’’بَنُوْر‘‘ تھی جو ریاست پٹیالہ میں سرہند کے قریب ایک قصبہ کا نام ہے، اسی کی نسبت سے آپ کی اولاد ’’بنوری‘‘ کہلاتی ہے۔ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کا سلسلۂ نسب آگے حضرت سیدنا حسین بن علی  رضی اللہ عنہما  نواسۂ سید الاولین والآخرین حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔
بچپن ہی میں آپ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا اور آپ کے والد محترم حضرت مولانا سید محمد زکریا صاحب بنوریؒ اور آپ کی پھوپی صاحبہ نے پرورش وتربیت کی ذمہ داری سنبھالی۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا سید محمد زکریا صاحب بنوریؒ ایک متقی وپرہیزگار عالمِ دین اور طبیبِ حاذق تھے، اور آپ کی پھوپھی صاحبہ بھی ایک عابدہ، زاہدہ اور اللہ والی خاتون تھیں، ان دونوں نے ایک پاکیزہ ماحول میں آپ کی پرورش وتربیت فرمائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچپن میں بچے کی تربیت کا اثر اس کی آنے والی زندگی پر پڑتاہے۔ اگر صاف وعمدہ ماحول میں مناسب انداز کے ساتھ اس کی تربیت کی گئی ہو تو اس کے مثبت وخوشگوار اثرات اس کی آنے والی زندگی میں نمودار ہوتے ہیں، اور اگر اس کی تربیت پر توجُّہ نہ دی گئی ہو اور اس کو ناکارہ ماحول میں رہنے دیا گیا ہو تو اس کے منفی وخراب اثرات اس کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی تربیت وپرورش کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے والد ماجد اور پھوپھی صاحبہ کو منتخب فرماکر بچپن ہی سے ان کو صراطِ مستقیم پر لگانے اور ناکارہ ماحول سے بچانے کا انتظام فرمایا۔

ابتدائی تعلیم

حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  نے قرآن کریم اپنے والد ماجد حضرت مولانا سید محمد زکریا بنوری رحمۃ اللہ علیہ  اور اپنے ماموں جناب مولانا فضل صمدانی رحمۃ اللہ علیہ  سے پڑھا۔ صرف ونحو، فقہ واُصولِ فقہ، منطق وفلسفہ، معانی وادب وغیرہ کی کتابیں کچھ ’’پشاور‘‘ کے علماء سے اور کچھ اپنے والد ماجد کے ساتھ کابل جاکر وہاں کے علماء سے پڑھیں، اس وقت کے مشہور اساتذہ میں سے شیخ حافظ عبد اللہ بن خیر اللہ پشاوری اور حضرت مولانا عبد القدیر افغانی (قاضی مرافعہ محکمہ شرعیہ جلال آباد) اور شیخ محمد صالح افغانی تھے۔
آپ کے والد ماجد چونکہ ایک طبیب حاذق بھی تھے، اس لیے ان کی طبی مہارت، دیانت وتقویٰ اور خاندانی وجاہت کی بنیاد پر کابل حکومت کے بادشاہ امیر امان اللہ خان اور وزراء ودیگر اعلیٰ افسران ان کی بڑی عزت کرتے تھے اور ان سے علاج معالجہ کراتے تھے، اسی مناسبت کے تحت حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اپنے والد ماجد کے ساتھ کابل جاکر وہاں کے علماء سے کچھ کتابیں پڑھ کر استفادہ کیا۔ اسی زمانے میں امیر امان اللہ خان کے ایک وزیر نے جو جدید عربی ادب اور مصری طرزِانشاء سے شغف رکھتے تھے، حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کی ذہانت اور علمی انہماک کو دیکھ کر کچھ جدید مصری اُدباء کی کتابیں ہدیہ کیں، حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  نے ان کا مطالعہ کرکے خوب استفادہ کیا اور عربی ادب میں ایسی مہارت حاصل کرلی کہ شستہ عربی زبان میں بولنے اور ادبی طرزِ نگارش میں لکھنے لگے۔                              (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین