بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت علّامہ بنوری رحمہ اللہ  ایک بلند پایہ محدّث، مایۂ ناز ادیب اور خدا ترس مہتمم (تیسری قسط)

حضرت علّامہ بنوری رحمہ اللہ 

ایک بلند پایہ محدّث، مایۂ ناز ادیب اور خدا ترس مہتمم

(تیسری قسط)

 

اخلاص وللہیت میں حضرت بنوریؒ کا منفرد مقام اور مالیات میں احتیاط

حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوریؒ اخلاص و للہیت کے ایک ممتاز مقام پر فائز تھے، وہ رجوع الی اللہ کو دنیا وآخرت کی کامیابی کا اہم ذریعہ اور تمام مسائل ومشکلات کا بہترین حل سمجھتے تھے۔ سفر وحضر میں نمازِ تہجُّد کے پابند اور زاری وعاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عادی تھے۔ جب مدرسے کا کوئی بھی مسئلہ یا ضرورت درپیش ہوتی تو آپ صبح وشام اور بالخصوص رات کی آخری تہائی میں جس وقت صحیح حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو مخاطب بناکر اعلان فرماتا ہے کہ: ’’کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے؟ تاکہ میں اس کی مانگ پوری کروں۔‘‘ اللہ کی طرف متوجّہ ہوکر صرف اسی ذات سے اس کا حل طلب کرتے۔ آپ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں کسی انسان کی خوشامد کی ضرورت نہیں، جو ضرورت پیش آتی ہے ہم اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کرتے ہیں اور وہ خود پوری کردیتا ہے۔
حضرت بنوریؒ کا یہ مقولہ بھی مشہور و معروف ہے کہ: ’’ہمیں دو باتوں پر کامل یقین ہے: پہلی بات یہ کہ مال ودولت کے تمام خزانے اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہیں، اور دوسری یہ کہ انسانوں کے قلوب بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر ہم اخلاص کے ساتھ کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قلوب کو خود بخود ہماری طرف متوجّہ کرکے اپنے خزانوں سے ہماری مدد کرے گا۔‘‘
اس سے پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ حضرت بنوریؒ کے قائم کردہ مدرسے میں دس طلبہ اور ان کے دو اساتذہ (حضرت علّامہ بنوریؒ خود اور حضرت مولانا لطف اللہ پشاوریؒ) سے تدریس کا سلسلہ شروع ہوا۔ دونوں اساتذہ نے بے سروسامانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے بغیر معاوضہ کے پڑھانا شروع فرمایا، اور حضرت علّامہ بنوریؒ نے ابتداء ہی سے یہ طے کرلیا تھا کہ اس مدرسہ کے لیے کسی سے مدد کی اپیل نہیں کی جائے گی۔ ہاں! اگر کسی نے از خود اللہ کی رضا کے لیے مدرسہ کی کسی مدّ میں اعانت کی پیش کش کی تو اس کی اعانت شکریہ کے ساتھ قبول کی جائے گی اور اس کی طرف سے متعیّن شدہ مدّ میں خرچ کی جائے گی۔ زکوٰۃ کی مد میں آنے والی امداد کسی حیلے کے ذریعے مدرسین کی تنخواہوں یا مدرسہ کی تعمیرات یا مدرسہ کی کتابوں کی خریداری پر ہرگز خرچ نہیں ہوگی، بلکہ صرف مستحق طلبہ پر صرف کی جائے گی۔ مدرسین کی تنخواہوں، درسی کتابوں کی خریداری اور تعمیری ضرورتوں پر صرف عطیات وتبرُّعاتِ نافلہ خرچ ہوں گے۔
اسی اصول کے تحت حضرت علّامہ بنوریؒ مدرسہ کے ابتدائی دور میں جب مدرسہ کی مالی حالت کافی کمزور تھی‘ ہر مدرس کے ساتھ تقرُّری کے وقت یہ طے فرماتے کہ مدرسہ میں چونکہ فی الحال عطیات کے فنڈ میں کچھ بھی نہیں، اس لیے اگر آپ للّٰہ فی اللہ مشاہرہ کے بغیر پڑھانے کے لیے تیار ہیں تو آپ تشریف لاکر پڑھائیں، پھر اگر اللہ کی طرف سے عطیات کا کوئی انتظام ہوگیا تو ہم از خود آپ کی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ممکنہ مالی خدمت کریں گے، اور اگر آپ مشاہرہ کے بغیر پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو ہم آپ کی تقرُّری سے معذرت کرتے ہیں۔

مروَّجہ حیلۂ تملیک سے حضرت بنوریؒ کا مکمل اجتناب

حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوری قدس اللہ سرَّہ العزیز کی احتیاط کا یہ عالَم تھا کہ آپ نے مالیات کے لیے دو الگ الگ فنڈ مقرَّر کردیئے تھے، ایک فنڈ زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کے لیے، دوسرا فنڈ عطیات وتبرعاتِ نافلہ کے لیے، اور خزانچی کو یہ ہدایت کی تھی کہ دونوں فنڈ میں سے ہرایک کو دوسرے سے اس طرح جدا رکھا جائے کہ خلط ہونے کا امکان باقی نہ رہے، اور ہر مدّ میں آنے والی رقم صرف اسی مدّ میں خرچ کی جائے، دوسری مدّ میں ہرگز صرف نہ کی جائے۔
یہ تو حضرت علّامہ بنوریؒ کے اصول تھے، دوسری طرف یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ اکثر اصحابِ خیر وثَرْوت حضرات سب سے پہلے زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ جیسے صدقۃ الفطر وغیرہ اپنے اموال میں سے ادا کرتے ہیں، اس کے بعد وہ یہ سوچتے ہیں کہ چونکہ فرض و واجب تو ہم ادا کرچکے ہیں، اس لیے عطیات وتبرعاتِ نافلہ کی مدّ میں خرچ کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں، لہٰذا! اس مدّ میں یاتو وہ بالکل خرچ ہی نہیں کرتے یا اگر کرتے ہیں تو بہت ہی کم مقدار میں۔ چنانچہ دیکھا یہ گیا ہے کہ دینی مدارس کے اندر زکوٰۃ کی مدّ میں رقوم وافر مقدار میں دستیاب ہوجاتی ہیں، تاہم عطیات وتبرُّعات کی مدّ میں ضرورت کے مطابق رقوم فراہم نہیں ہوتیں، جب کہ دینی مدارس میں جہاں مستحق طلبہ کی ضرورت پر خرچ کرنے کے لیے زکوٰۃ وصدقاتِ واجبہ کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں تعمیرات، مدرسین وملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی، درسی کتابوں کی خریداری اور دیگر ضروریات کے لیے عطیات کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے بعض دینی مدارس کے اربابِ انتظام حضرات، عطیات کی کمی کی وجہ سے حیلۂ تملیک کے ذریعے (جس کی اجازت کچھ مخصوص شرائط کے ساتھ بعض فقہاء نے دی ہے) زکوٰۃ وصدقاتِ واجبہ کی رقوم سے مذکورہ بالا ضرورتیں بھی پوری کرلیتے ہیں اور اکثر اوقات حیلۂ تملیک کے جواز کی شرائط کی پوری پابندی بھی نہیں کرتے جو ایک خطرناک بات ہے۔
حضرت علّامہ بنوریؒ کے ذوق نے مروَّجہ حیلۂ تملیک کو قبول نہیں کیا، چنانچہ مدرسہ کی تاسیس سے لے کر اپنی وفات تک کسی بھی مشکل صورتِ حال میں ایک مرتبہ بھی حیلۂ تملیک کے ذریعے زکوٰۃ وصدقاتِ واجبہ کی رقوم کو کسی دوسری مدّ میں خرچ نہیں فرمایا، اور جب آپ کو یہ محسوس ہوتا کہ زکوٰۃ کے فنڈ میں سال بھر کے لیے بقدرِ ضرورت رقوم جمع ہوچکی ہیں تو مزید آنے والی رقوم کو واپس کردیتے، اور دینے والے کے اصرار کے باوجود یہ فرماتے کہ ہمارے مدرسے کی ضرورت فی الحال پوری ہوچکی ہے، آپ یہ رقم کسی ایسے مدرسے کو دے دیں جو فی الحال ضرورت مند ہو۔
احقر کہتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں حضرت علّامہ بنوریؒ کے علاوہ کسی اور شخص کے متعلق جو کسی دینی مدرسے کا ذمہ دار ہو‘ یہ نہیں سنا ہے کہ انہوں نے اپنے زیرِ انتظام مدرسے کے لیے پیش شدہ رقم کو اس وجہ سے واپس کردیا ہو کہ ہمارے مدرسے کی ضرورت فی الحال پوری ہوگئی ہے، لہٰذا یہ رقم کسی اور مدرسے کو دے دی جائے، اس لیے کہ ایسی صورت میں وہ ضروریہ سوچتے ہوںگے کہ فی الحال اگرچہ ضرورت نہیں، بعد میں تو پڑسکتی ہے، پھر یہ رقم میں کیوں واپس کروں؟ اس سے حضرت بنوریؒ کے اخلاص و توکل علی اللہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مالیات میں حضرت بنوریؒ کی احتیاط کا ایک واقعہ

مالیات و اماناتِ مدرسہ کے سلسلہ میں حضرت علّامہ بنوریؒ کی بے مثال احتیاط کے واقعات بے شمار ہیں، جن میں سے صرف دو واقعات بطور نمونہ پیش کیے جارہے ہیں، پہلا واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ایسی صورتِ حال پیدا ہوئی کہ مدرسہ میں عطیات وتبرُّعات کا فنڈ بالکل خالی تھا، البتہ زکوٰۃ فنڈ میں پچیس ہزار روپیہ جمع ہوگیا تھا، ادھر مدرسین کی تنخواہوں کا وقت آگیا، تو خزانچی حاجی محمد یعقوب کالیہ صاحب نے حضرت علّامہ بنوریؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ تنخواہوں کے لیے عطیات فنڈ میں کچھ بھی نہیں ہے، اگر آپ اجازت دیں تو زکوٰۃ فنڈ سے قرض لے کر مدرسین کی تنخواہیں ادا کردی جائیں، بعد میں زکوٰۃ فنڈ میں وہ رقم لوٹا دی جائے گی! آپ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہرگز نہیں! اس قرض کی ادائیگی کا کون ذمہ دار ہوگا؟ موت وزندگی کا کچھ بھروسہ نہیں، اگر اس حالت میں موت آگئی تو یہ قرض کون ادا کرے گا؟ میں مدرسین کی آسائش کے لیے دوزخ کا ایندھن نہیں بننا چاہتا، مدرسین کو صبر کرنا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ ان کے فنڈ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کچھ بھیج دیں، اور جو مدرس صبر نہیں کرسکتا اس کو اختیار ہے کہ مدرسہ چھوڑ کر چلاجائے۔‘‘

آپ کی حیرت انگیز احتیاط کی دوسری مثال

مالیات و امانات میں حضرت بنوریؒ کی احتیاط کی دوسری مثال یہ ہے کہ آپ اپنے ذاتی خطوط کے لیے کبھی بھی مدرسے کے کاغذ وقلم کو استعمال نہیں فرماتے تھے، بلکہ مدرسے کے دفتر میں اپنے میز کے پاس اپنا ذاتی قلم وکاغذ اس مقصد کے لیے احتیاطاً رکھتے تھے کہ بوقتِ ضرورت اپنے ذاتی خطوط کے لیے اپنا ہی سامانِ خط وکتابت استعمال کیا جائے، مدرسے کی امانات کو استعمال میں نہ لایا جائے۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ ہی پر توکل وبھروسہ کرتے ہوئے مشکل گھڑیوں میں کسی انسان کی خوشامد کرنے اور اُس سے امید وابستہ کرنے کے بجائے اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوکر اسی سے مانگنے لگتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات کو حل فرماتے ہوئے اپنے غیب کے خزانوں سے اس کی مدد کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 
’’وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبُ، وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ۔‘‘                                                   (الطلاق:۲-۳) 
ترجمہ ومفہوم: ’’اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا اور اس کو ایسی جگہ سے روزی عطا کرے گا جہاں سے اُسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ اور جو کوئی اللہ پر توکل کرے گا تو اللہ اس کے لیے کافی ہوگا۔‘‘

حضرت علّامہ بنوریؒ کے ساتھ امدادِ غیبی کا ایک واقعہ

حضرت علّامہ بنوریؒ کی زندگی اللہ تعالیٰ پر بھروسے اور توکل سے عبارت تھی، وہ ہرمشکل گھڑی میں اللہ کے بندوں کے بجائے خود اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرتے اور اللہ تعالیٰ مذکورہ بالا اپنے وعدے کے مطابق مشکل سے نکلنے کا راستہ بنادیتا۔ اسی سلسلے کے واقعات میں سے بھی صرف ایک ہی سبق آموز واقعہ نمونے کے طور پر ماہنامہ ’’بینات‘‘ خصوصی نمبر سے آپ کے مخلص اور بے تکلف ساتھی حضرت مولانا لطف اللہ صاحب پشاوریؒ کی زبانی نقل کیا جارہا ہے، جنہوں نے حضرت علّامہ بنوریؒ کے ساتھ مل کر ابتداء ہی سے محض اللہ کی رضا کے لیے بے سروسامانی کی حالت میں مدرسے میں پڑھانا شروع کردیا تھا:
’’یہاں درس کو جاری ہوئے جب چار مہینے گزر گئے، تو میں نے مولانا سے کہا کہ میری گزر بسر کھیتی باڑی پر ہے (مدرسہ میں تنخواہ کے لیے نہ رقم آئی، نہ تنخواہ ملی، بس فی سبیل اللہ کام چل رہاتھا اور مولانا مرحوم کہیں سے قرض لے کر اپنا اور اہل وعیال کا گزارہ چلاتے تھے) میری فصل کی کٹائی کے دن ہیں، آپ مجھے ایک ماہ کے لیے گھر جانے کی اجازت دیں، تاکہ فصل سمیٹنے کا کچھ بندوبست کرآؤں، مولانا مرحوم نے ہنس کرفرمایا کہ: میں نے خواب دیکھا ہے کہ مدرسین کے لیے میرے پاس کچھ رقم آئی ہے، ذرا انتظار کرو، تاکہ تمہارے کرائے وغیرہ کا تو بندوبست ہوجائے، میں نے ہنسی میں کہا کہ: بلی کو چھیچھڑوں کے خواب آیاکرتے ہیں۔ ایک گھنٹے بعد مولانا مسکراتے ہوئے میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: لو مولوی صاحب! چھیچھڑے آگئے ہیں۔ کسی صاحب نے (غالباً حاجی وجیہ الدین مرحوم نے) مدرسہ کو چھ سو روپے چندہ بھیج دیا تھا۔ یہ مدرسین کے فنڈ میں مدرسہ کا پہلا چندہ تھا۔ اس میں سے مجھ کو بھی دو سو روپیہ دے دیا۔ میں چھٹی پر گھر چلا آیا اور چھٹی گزار کر واپس چلا گیا۔ نیوٹاؤن کے قیام کے زمانہ میں ایک سال بڑی تنگی اور عسرت کا گزارا، تاہم سال کے آخر تک مدرسے کی حالت مالی طور پر قدرے اچھی ہوگئی۔‘‘ (بینات ، خصوصی نمبر بیاد:’’محدث العصر حضرت بنوریؒ ‘‘ ، ص:۴۱-۴۲)

موجودہ دور میں مدارس کے اربابِ انتظام کے لیے سبق

اس میں تو کوئی شک وشبہ نہیں کہ دینی مدارس دین کی حفاظت کے قلعے ہیں، اور ظاہری اسباب کے تحت دینی شعائر کی بقاء وفروغ کے لیے ان کا وجود ناگزیر ہے، لہٰذا! ہر مسلمان کو اس کا اعتراف کرنا چاہیے کہ دینی مدارس کے اربابِ انتظام اور ان کے معاونین حضرات نہایت اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ تاہم اس میں بھی کوئی تردُّد نہیں کہ ہردینی کام اسی وقت کامیاب اور باعثِ اجر وثواب بن سکتاہے جب اس میں اخلاص اور اس کے شرعی آداب کی مکمل رعایت موجود ہو۔
ہمارے اسلاف میں اخلاص، توکل علی اللہ، مشکل حالات میں صرف اللہ کی ذات کی طرف رجوع کرنا اور مخلوق سے مستغنی رہنا، یہ تمام صفات موجود تھیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر مشکل گھڑی میں ان کی مدد فرمائی اور ان کی کوششوں کو کامیاب بنایا۔ انار کے درخت کے نیچے بے سروسامانی کی حالت میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی سرکردگی میں ایک استاذ اور ایک شاگرد سے شروع ہونے والا ایک چھوٹاسا ادارہ جو بعد میں دنیا کا سب سے عظیم اور بابرکت غیر سرکاری دینی ادارہ ’’جامعہ اسلامیہ دارالعلوم دیوبند‘‘ کے نام سے متعارف ہوا، اور حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کی سرپرستی میں دو اساتذہ اور دس طلبہ سے (جن کے لیے نہ کوئی مستقل درسگاہ تھی اور نہ ہی رہائش ودیگر ضروریات کا مستقل انتظام) شروع ہونے والا ایک اور مختصر دینی ادارہ جو چند ہی سال بعد دوسرا بڑا غیر سرکاری دینی ادارہ ’’جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی‘‘ کے نام سے اُبھرا، اللہ کی مدد کی زندہ ایسی مثالیں ہیں جن سے موجودہ دور میں مدارس کے اربابِ انتظام حضرات سبق حاصل کرسکتے ہیں۔
دینی مدارس کے موجودہ اربابِ انتظام حضرات بھی دینی مدارس کی خدمت کرتے ہوئے پوری اُمت کی طرف سے ما شاء اللہ بہت ہی اہم فریضہ ادا کررہے ہیں۔ ان میں سے بعض منتظمین حضرات تو اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یکسوئی اور اخلاص وللہیت کے ساتھ دین کی خدمت کررہے ہیں، البتہ بعض دیگر منتظمین حضرات ایسے بھی ہیں جن کی مندرجہ ذیل سرگرمیوں کو دیکھ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے توکل اور رجوع الی اللہ میں کچھ کمزوری واقع ہوئی ہے، وہ ظاہری اسباب ووسائل کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے اپنے اسلاف کے طریقوں کو یا تو بھول چکے ہیں، یا ان پر اعتماد کھوچکے ہیں۔ نیچے ان کی قابلِ اصلاح سرگرمیاں درج کی جارہی ہیں:
۱:-مالدار طبقے سے تعلُّقات بڑھانا اور ان کی غیر ضروری بلکہ بے جا خوشامد کرنا، جس سے اہلِ علم کا مقام عامۃ الناس کی نظروں میں گرنے لگتاہے، اور پھر ان کی نصیحتوں اور دینی باتوں پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
۲:-اپنے رہنے سہنے میں سادگی کے بجائے پرتکلُّف زندگی کو ترجیح دینا، جب کہ انبیاء علیہم السلام  اور صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  اور ہمارے اسلاف رحمۃ اللہ علیہم  نے ہمیشہ سادگی کو پسند فرمایا ہے۔ لہٰذا موجودہ زمانے کے اہلِ علم اور اربابِ انتظام حضرات کو بھی پر تکلُّف زندگی کے بجائے سادگی زیب دیتی ہے۔
۳:- اپنے اپنے مدارس کی تشہیر کے لیے ضرورت سے زیادہ اقدامات کرنا اور ان پر پیسے خرچ کرنا، اور نیٹ ودیگر ذرائع استعمال کرنا جو ایک نامناسب اور توکل علی اللہ کے برخلاف عمل ہے۔
۴:- حفظِ قرآن پاک، ختم بخاری شریف اور دستاربندی کے عنوان سے بڑے بڑے اجتماعات منعقد کرنا، شرکت کے لیے دور دور سے لوگوں کو بلانا، ان اجتماعات کی تشہیر وانتظام پر اچھے خاصے پیسے خرچ کرنا اور پھر اختیاری یا غیر اختیاری طور پر ان میں تصویر کشی جیسے ناجائز عمل کا شامل ہوجانا، جس سے عامّۃ الناس اس بنیاد پر تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ایک جانب سے تو تصویرکشی کی حرمت کا فتویٰ دیاجاتاہے اور دوسری طرف علماء ہی کے اجتماعات میں وہ شامل ہوجاتی ہے!۔
۵:- تعلیم کی ترقی اور طلبہ کی تربیت ونگرانی پر توجہ دینے کے بجائے غیر ضروری اسفار اور اپنے متعلقین سے ملاقاتوں کو اہمیت دینا جو تعلیمی وتربیتی نظام کے لیے بے حد مضرّ ہے۔
مذکورہ بالا سرگرمیوں کو انجام دینے والے منتظمین حضرات کی نظروں میں کچھ دینی مصلحتیں ضرور ہوں گی، جن کے تحت وہ ان سرگرمیوں کو اختیار کرتے ہیں۔ مجھے کسی کی نیت پر شبہ کرنے کا حق نہیں پہنچتا، اور بالخصوص اہلِ علم حضرات کی نیتوں پر مجھ جیسے گوشہ نشین، موجودہ حالات کے تقاضوں سے ناواقف اور ایک ادنیٰ طالب علم کو تو ہرگز شک کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ تاہم! اپنے اسلاف واکابرین کی تاریخ سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کے سامنے اتنی بات تو بالکل عیاں ہے کہ بانیِ ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ حُجَّۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہٗ سے لے کر بانیِ ’’جامعہ علوم اسلامیہ کراچی‘‘ محدث العصر حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوری  رحمہ اللہ  تک دینی مدارس کے اربابِ انتظام واہلِ علم حضرات نے جو خدماتِ جلیلہ انجام دی ہیں اور کامیابیوں نے ان کے قدم چومے ہیں، انہوں نے مذکورہ بالا یا ان سے ملتی جلتی دیگر سرگرمیوں کو نہ تو خود اپنا یا تھا اور نہ ہی انہیں پسند فرمایاتھا۔

جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن ایک نظر میں

اس سے پہلے یہ واضح ہوچکا ہے کہ اس مدرسے کو محدّث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ نے بے سروسامانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ماہِ محرم ۱۳۷۴ھ مطابق ۱۹۵۴ء میں ’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ‘‘ کے نام سے قائم فرمایا۔ ابتداء میں یہ مدرسہ عبارت تھا‘ ٹین کی چھت والے ایک کمرے، دس طلبہ اور ان کے دو اساتذہ سے ، جن میں سے ایک خود ہی حضرت علّامہ بنوریؒ تھے۔ اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل وکرم اور حضرت علّامہ بنوریؒ کے اخلاص وتقویٰ، توکل علی اللہ ومسلسل محنت، اور امانت داری وشب خیز دعاؤں کی برکت سے ترقی کرتے ہوئے ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ کے بعد پورے برّ صغیر کے سب سے بڑے دینی اداروں میں اس کا شمار ہونے لگا، اور دنیا کے کونے کونے سے تشنگانِ علوم نبوت اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے اس کا رخ کرنے لگے، اور بجا طور پر ’’مدرسہ عربیہ اسلامیہ‘‘ کے بجائے ’’جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی‘‘ کے نام سے موسوم ہوا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ’’جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی‘‘ نے بتدریج اتنی ترقی کی ہے کہ اس وقت وہ ایک مرکز اور گیارہ شاخوں پر مشتمل ایک عظیم الشان ادارہ بن چکا ہے۔ اس ادارے میں اس کے مرکزی دفتر کی رپورٹ کے مطابق سال رواں ۱۴۴۱ھ کے اندر مدرسین ومعلمات کی مجموعی تعداد چار سو آٹھ، ملازمین کی تعداد دوسوپینتالیس اور طلبہ وطالبات کی مجموعی تعداد بارہ ہزار سات سوچھبیس ہے۔ یہ ادارہ اپنے طلبہ کے لیے رہائش، درسگاہیں، درسی کتابیں، ماہانہ وظائف، کھانا پینا اور علاج معالجہ بالکل مفت میں فراہم کرتا ہے۔ اور اپنے مدرسین وملازمین کے لیے گنجائش کے مطابق رہائش مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ماہانہ مناسب تنخواہیں بھی پیش کرتاہے۔
ادارہ نہ تو حکومت سے کوئی امداد لیتاہے اور نہ ہی اس کے پاس آمدنی کا کوئی متعین ذریعہ یا چندہ جمع کرنے والا کوئی سفیر موجود ہے! بلکہ بانیِ جامعہ حضرت علّامہ بنوریؒ کی للہیت واخلاص، سنتوں کی پیروی اور توکل علی اللہ کا یہ کرشمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی محسنین کے دل میں امداد کرنے کا جذبہ پیدا کردیتاہے اور وہ آکر حسبِ توفیق اس عظیم الشان دینی ادارے کی مالی خدمت کرتے ہوئے ثوابِ دارَین حاصل کرتے ہیں، علّامہ اقبالؒ نے خوب کہا ہے: 

ماسوی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح وقلم تیرے ہیں

حضرت علّامہ بنوریؒ کی تصانیف ومقالات

محدّث العصر حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کو اللہ تعالیٰ نے تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی اعلیٰ صلاحیت سے نوازاتھا۔ احقر جب ان کی تصانیف بالخصوص ’’معارف السنن شرح سنن الترمذي‘‘ پر غو ر کرتاہے تو اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ اگر ان کو یکسوئی وتسلسل کے ساتھ تصنیف وتالیف کے میدان میں کام کرنے کا موقع ملتا تو شاید ایسے تحقیقی وتالیفی کام کرچکے ہوتے کہ دنیا حیران رہ جاتی اور بعض مشہور متقدمین پر بھی سبقت لے جاتے، لیکن تقدیرِ خداوندی سے آپ کی زندگی میں کچھ ایسے اسباب پیدا ہوتے رہے کہ کسی ایک ہی جگہ جم کر یکسوئی کے ساتھ تحقیق وتصنیف کے کام میں مسلسل لگنے کا موقع میسر نہ رہا۔
پہلے لکھا جاچکا ہے کہ فراغت کے بعد آپ چند سال پشاور میں مصروفِ عمل رہے، پھر ’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل‘‘ میں شیخ الحدیث و مجلسِ علمی کے رکن کی حیثیت سے تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تحقیق کے کام سے وابستہ ہوگئے۔ اس دوران انہوں نے ’’نفحۃ العنبر‘‘ ، ’’یتیمۃ البیان‘‘ اور ’’بغیۃ الأریب‘‘ لکھنے کے ساتھ ساتھ ’’العَرْف الشذي شرح سنن الترمذي‘‘ پر بھی شروع سے ’’أبواب الحج‘‘ کے وسط تک بے مثل تحقیقی کام کیا، آخر الذکر تحقیقی کام اگر پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتا تو ایک بے نظیر علمی سرمایہ ہوتا، لیکن ایسا اس لیے نہ ہوسکا کہ اس درمیان میں ملک تقسیم ہوگیا اور حضرت علّامہ بنوریؒ کو بھی پاکستان ہجرت کرنی پڑی۔ پاکستان آنے کے بعد تین سال کا عرصہ ’’دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈوالہٰ یار‘‘ کے اندر کچھ ایسی حالت میں بیت گیا کہ آپ وہاں کے ماحول سے مطمئن نہ ہوسکے۔ پھر وہاں سے کراچی تشریف لاکر یہاں اُن پر بے سروسامانی کی حالت میں ایک نئے مدرسے کی تاسیس واہتمام اور تدریس کی ذمہ داری عائد ہونے کے ساتھ ساتھ قادیانیت ودیگر فتنوں کے تعاقب کی ذمہ داری بھی عائد ہوگئی، جس کی وجہ سے تحقیق و تصنیف کے لیے درکار یکسوئی کا موقع میسر نہ ہوسکا۔
تحقیق و تصنیف کے میدان میں ان کی بے مثال صلاحیت کے باوجود، مکمل اور مسلسل یکسوئی نہ ملنے کی دو اہم وجوہات سمجھ میں آتی ہیں (واللہ اعلم بالصواب): پہلی وجہ یہ ہے کہ حکمتِ خداوندی نے چاہا کہ اخلاص وللہیت پر مبنی ’’جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن‘‘ کی شکل میں ایک ایسا ادارہ حضرت بنوریؒ کے ذریعے وجود میں آئے جس کے انوار وبرکات سے صرف پاکستان کے مسلمان نہیں، روئے زمین کے مختلف حصوں میں بسنے والے دیگر مسلمان بھی تسلسل کے ساتھ مستفید ہوتے رہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اسلام کے خلاف سر اُٹھانے والے فتنوں بالخصوص قادیانیت کے خلاف علّامہ بنوریؒ کے توسُّط سے ایک مؤثر انداز میں ایسا تعاقب ہو جس کے بعد وہ سر نہ اُٹھاسکے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں ایسے بڑے کام حضرت بنوریؒ سے لیے جن کی اہمیت کا اندازہ ایک حد تک تو دردِ دل رکھنے والا ہرانسان لگاسکتاہے، تاہم! ان دونوں کارناموں کی وجہ سے ان کے محبوب استاذ و مُربی محدّث العصر حضرت علّامہ سید محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہٗ کی روح کو کتنا سکون ملا ہوگا؟ اور اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کے عوض استاذِ محترم حضرت علّامہ کشمیریؒ اور ان کے تربیت یافتہ شاگرد حضرت علّامہ بنوریؒ کو قیامت کے دن کیا کیا مقام عطا فرماتا ہے؟ اس کا صحیح اندازہ اسی وقت ہوگا۔
بہرصورت! حضرت علّامہ سید محمد یوسف بنوریؒ مختلف عوارض اور تدریسی وانتظامی مصروفیات کے باوجود تصنیف وتالیف کے لیے جو وقت میسر ہوتا نکالتے رہے اور عربی زبان میں لکھنے کو اس کی اہمیت وفضیلت کے پیشِ نظر ترجیح دیتے رہے، اگرچہ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں بھی آپ کو مہارت حاصل تھی۔ آپ کی عربی تصانیف یہ ہیں:
۱…’’معارف السنن شرح سنن الترمذي‘‘ (شروع سے ’’أبواب الحج‘‘ کے اختتام تک چھ ضخیم جلدوں پر مشتمل نہایت اہم کتاب)
۲… ’’نفحۃ العنبر في حیاۃ إمام العصر الشیخ محمد أنور‘‘ (حضرت شاہ صاحبؒ کی سوانح پر مشتمل ۳۳۷ صفحات کی کتاب)
۳… ’’یتیمۃ البیان في شیئ من علوم القرآن‘‘ (۱۷۴ صفحات پر مشتمل مشکلات القرآن کا مقدمہ)
۴… ’’بغیۃ الأریب في مسائل القبلۃ والمحاریب‘‘ (۱۷۳ صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی رسالہ)
۵… ’’القصائد البنوریۃ‘‘ (۲۲۸ صفحات پر مشتمل آپ کے عربی قصیدوں کا مجموعہ)
۶… ’’الأستاذ المودودي وشیئ من حیاتہ وأفکارہ‘‘ (تقریباً پچاس پچاس صفحات کے دو اجزاء پر مشتمل ایک تحقیقی وعلمی رسالہ)
۷… ’’المقدمات البنوریۃ‘‘ (مختلف کتابوں پر آپ کے علمی مقدمات کا مجموعہ جو ۳۶۱ صفحات پر مشتمل ہے)
ان کے علاوہ آپ اپنی زندگی میں اردو ماہنامہ ’’بینات‘‘ کے لیے ’’بصائر وعبر‘‘ کے عنوان سے حالاتِ حاضرہ پر مسلسل اداریہ بھی لکھتے رہے، ان تمام مضامین کو ترتیب دے کر دو ضخیم جلدوں میں آپ کے وصال کے بعد شائع کیاگیا، جن میں سے پہلی جلد سات سو صفحات پر اور دوسری جلد سات سو بیس صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’بصائر و عبر‘‘ کا مذکورہ مجموعہ ایک بیش بہا علمی خزانہ ہے۔

معارف السنن کی اشاعت اور اللہ کی غیبی مدد

اوپر عرض کیاگیا ہے کہ مختلف عوارض کی بنیاد پر ’’العَرْف الشذي شرح سنن الترمذي‘‘ پر جو حضرت علّامہ بنوریؒ نے تحقیقی کام شروع فرمایا تھا، وہ ’’أبواب الحج‘‘ کے وسط تک پہنچ کر رُک گیا تھا، بالآخر بعض مخلصین کے اصرار پر آپ نے ’’أبواب الحج‘‘ کے بقیہ ابواب کی تشریح بھی کردی اور شروع سے ’’أبواب الحج‘‘ کے آخر تک جو کام ہوچکا تھا، ’’معارف السنن شرح سنن الترمذي‘‘ کے نام سے چھ جلدوں میں اسے شائع فرمادیا۔ اس اشاعت کے سلسلے میں جو اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد شامل رہی، اس کا تذکرہ حضرت علّامہ بنوریؒ نے خود ہی ’’معارف السنن‘‘ کے آخر میں فرمایا ہے، جس کا مفہوم و ترجمہ راقم الحروف کی طرف سے درج کیا جارہا ہے:
’’معارف السنن‘‘ کی اشاعت سے متعلق اللہ تعالیٰ کے غیبی انتظام کا یہ عجیب واقعہ پیش آیا کہ سب سے پہلے ’’معارف السنن‘‘ کا وہ حصہ جو مباحثِ وتر سے متعلق ہے ایک رسالہ کی شکل میں ’’جزء الوتر‘‘ کے نام سے شائع ہوکر علماء حرمین شریفین تک پہنچا، تو انہوں نے بے حد پسند فرمایا، اور میرے نہایت ہی مخلص وگہرے دوست، جلیل القدر ومتقی عالم شیخ حسن محمد مشاط مالکی نے ’’جزء الوتر‘‘ سے متأثر ہوکر اصرار فرمایا کہ: اس کتاب کے جتنے اجزاء لکھے جاچکے ہیں، یہ پورے آپ ضرور شائع کیجئے۔ میں نے یہ عذر پیش کیاکہ ایک طرف تو حالات بدل چکے ہیں اور وہ علمی ذوق لوگوں میں اب نہیں رہا جو پہلے تھا، لہٰذا ایسی ضخیم تالیفات کی ان حالات میں ضرورت باقی نہیں رہی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس پوری کتاب کی اشاعت کے لیے توکافی مال کی ضرورت ہے، جوکہ میرے پاس نہیں، اور نہ یہ میری عادت ہے کہ ایسے مسائل مال داروں کے سامنے پیش کیا کروں۔
میری اس معذرت کے باوجود شیخِ موصوف کے اصرار میں اضافہ ہوا، اور فرمایا کہ: آپ کتاب کی اشاعت کی طرف توجہ فرمائیں اور یاد رکھئے کہ تجربہ نے یہ ثابت کردیاہے کہ تین کام ایسے ہیں کہ اگر آدمی ان کے لیے ہمہ تن متوجہ ہوکر بجالانے کی کوشش کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اسباب مہیا فرماتا ہے اور تینوں کام مکمل کراہی دیتا ہے: ایک نکاح، دوسرا حج اور تیسرا کتاب کی اشاعت۔
ہماری یہ گفتگو مسجد حرام میں ہورہی تھی، شیخ کے اصرار کو دیکھ کر میں فکر مند ہوا اور مجلس کے اختتام پر سیدھے بیت اللہ کی طرف آکر اسی مقصد کے لیے طواف کیا، اور ملتزم کے پاس کعبۃ اللہ کا غلاف پکڑ کر والہانہ انداز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی: اے اللہ! اگر موجودہ حالات میں اس کتاب کی اشاعت میں دین وعلم کا کوئی فائدہ مضمر ہے، اور اُمت کے لیے اس میں کوئی نفع کا پہلو ہے تو آپ ہی اس کی اشاعت پر قادر ہیں، میرے پاس قدرت نہیں اور آپ ہی عالم الغیب ہیں، اس کی مصلحت کو جانتے ہیں، میرے پاس انجام ومصلحت کا علم نہیں، کچھ ایسے ہی کلمات کے ساتھ میں نے دعا کی اور اپنے ملک واپس چلا آیا۔
میری واپسی کے بعد ہی میاں برادری سے تعلُّق رکھنے والے جنوبی افریقا کے میرے ایک مخلص و صالح دوست کا پیغام موصول ہوا کہ آپ یہ کتاب جو آپ نے لکھی ہے ضرور شائع کردیں۔ میں نے ان کے سامنے بھی وہی عذر پیش کیا جو حضرت شیخ مشاط کے سامنے پیش کرچکا تھا تو انہوں نے جواباً فرمایا کہ: طباعت کی پوری ذمہ داری میری ہے، لیکن کتاب ہر صورت میں چھپنی چاہیے۔ پھر تقریباً ایک سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد مجھے لکھا کہ اصل بات یہ تھی کہ میں نے حضرت امام العصر علّامہ محمد انور شاہ کشمیری  رحمہ اللہ  کو ایک طویل خواب میں دیکھا تھا، جس میں یہ بھی دیکھا تھا کہ میں حضرت امام العصرؒ سے مشورہ لے رہا ہوں کہ علمِ حدیث میں کس کتاب کی اشاعت اُمت کے لیے مفید رہے گی؟ حضرت مشورہ دے رہے ہیں کہ: بنوری نے جو لکھا ہے اسی کو شائع کردیا جائے۔
یہ خواب اُن ہی دنوں میں دیکھا گیا تھا جب میں نے ملتزم کے پاس اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے کسی بندے کو اس طرح آمادہ کرکے کتاب کی اشاعت کا انتظام فرمایا۔‘‘ (معارف السنن، ج:۶، ص:۴۳۹-۴۴۰)
اللہ اکبر! اندازہ کیجئے اخلاص وتقویٰ اور رجوع الی اللہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کیسے کرشمے ظاہر ہوجاتے ہیں!۔ غلافِ کعبہ کو پکڑے ہوئے ایک مؤمنِ مخلص کی طرف سے مسجد حرام میں ملتزم کے پاس والہانہ انداز میں دعا کی جاتی ہے، اور اُدھر ہزاروں میل دور اسی وقت ایک دوسرے مخلص مسلمان کے قلب کو خواب کی حالت میں الہام ہوجاتاہے! اور دعا کی قبولیت کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں۔ حضرت بنوری  رحمہ اللہ  کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقبولیت عطاء فرمائی تھی کہ اگر وہ ادنیٰ اشارہ بھی کسی کو کردیتے تو اسی وقت طباعت کا انتظام ہوجاتا، لیکن انہوں نے علم کے وقار اور علماء کے مقام کی حفاظت کرتے ہوئے اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے ذکر کرنے کو مناسب نہیں سمجھا، اور اپنے رب کریم ہی سے بہتری کی دعا کی، دیکھئے! پھر ربِ کریم نے کس طریقہ سے انتظام فرمایا! اور کتاب کو کتنی مقبولیت عطا کی!۔
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین