بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے فرمایا!


حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے فرمایا!


برکۃ العصر، قطب الاقطاب، شیخ الحدیث، حضرت مولانا محمد زکریا قدس اللہ سرہٗ العزیز کی ذات سے کون ناواقف ہوگا۔ ان کی مایہ ٔ ناز تصنیف ’’فضائلِ اعمال‘‘ دنیا کے چپے چپے میں پڑھی جاتی ہے، سنائی جاتی ہے اور اس کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔ یہ مصنف v کے اخلاص ہی کانتیجہ ہے۔ موصوف کی اس کے علاوہ بہت سی کتب ہیں، خصوصاً ’’أوجزالمسالک‘‘، ’’بذل المجہود‘‘ ، ’’خصائلِ نبوی شرح شمائلِ ترمذی‘‘ وغیرہ‘ شروحِ حدیث میں نہایت اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔ اسی طرح ان کی تقریرِ بخاری جو مولانا محمد شاہد صاحب سہارنپوری کی جمع کردہ ہے، بہت پرمغز شرح ہے۔ اساتذہ فرمایاکرتے ہیں کہ: ’’تم کوئی شرح دیکھویانہ دیکھو، تقریرِ بخاری ضرور دیکھا کرو۔‘‘ اور اکثر علماء اس تقریرِ بخاری کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اسی تقریرِ بخاری میں ’’کتاب العلم‘‘ میں حضرت قدس سرہٗ نے کہیں درس کے دوران‘ علم، طلبِ علم اورطلبہ کے متعلق (اپنے یامنقول) فوائد بیان کیے، کہیں نصائح کیں، تو راقم نے حسبِ استطاعت کوشش کی کہ اُنہیں یک جاکر دیا جائے، تاکہ اس سے دورہ حدیث کے طلبہ کے علاوہ دوسرے طلبہ بھی مستفید ہوسکیں ۔حضرت شیخ الحدیث قدس اللہ سرہٗ نے فرمایا:
٭۔۔۔’’معلم کوچاہیے کہ علمی بات کونہایت ڈٹ کر اور زورو شور سے کہے۔‘‘ (۱) 
٭۔۔۔’’استاذکو چاہیے کہ وہ شاگردوں کاامتحان لیتارہے اور ان سے پوچھتارہے۔‘‘(۲) 
فرمایا: ’’استاذ اگر تشحیذِ اذہان کے طور پر کوئی مسئلہ طلبہ کے سامنے پیش کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘(۳) 
٭۔۔۔’’اگر کوئی مسئلہ مفتی سے دریافت کرنا ہو تو توڑ موڑ کر غلط کر کے پوچھے، یہ البتہ ناجائز ہے۔‘‘(۴) 
٭۔۔۔’’آپ a اپنے اصحابؓسے مل کربیٹھتے تھے، کوئی امتیاز نہیں فرماتے تھے ،یہی ہمارے مشائخ کاطریقہ تھا، اس زمانہ کی طرح نہیں کہ ممتاز جگہ پربیٹھیں۔‘‘ (۵) 
٭۔۔۔’’اگر استاذ کی مجلس میں مجمع زیادہ ہوتو جہاں جگہ ملے، وہیں بیٹھ جائے اور اگرقریب بیٹھنے کی خواہش ہو تو پہلے سے آیاکرے۔ اور اگر پہلے ہی بیٹھنے والے اس طرح بیٹھے ہوں کہ اگلی صف میں یا بیچ میں جگہ خالی ہو توپھاند کر آگے جاسکتاہے، اگرچہ تخطیِ رقاب سے منع کیاگیا ہے، مگر یہ اس لیے جائز ہے کہ پہلے سے بیٹھنے والوں ہی نے خودبے تمیزی کی کہ آگے جگہ چھوڑدی۔ اور بھائی یہی حال صفوف کاہے کہ اگر لوگ اگلی صف میں جگہ چھوڑ کربیٹھیں تو آنے والے کوجائز ہے کہ ان کوپھاند کر خالی جگہ میں جاکربیٹھ جائے کہ انہوں نے خود کوذلیل کیا،کیوں نہیں آگے جاکر بیٹھے۔‘‘ (۶) 
٭۔۔۔’’اگرکوئی شخص معانیِ حدیث کونہ سمجھتاہو تو اس کو چاہیے کہ وہ ان کومحفوظ کرلے اور پھر دوسروں کو سمجھادے، ممکن ہے کہ کوئی اس کے شاگردوں میں اس سے زیادہ سمجھ دار ہو اور ان میں امام ابوحنیفہؒ اور امام شافعیؒ وغیرہماجیسے مجتہدین ہوں اور وہ ان احادیث کو سن کر ان سے مسائل کااستنباط کریں۔‘‘(۷)
٭۔۔۔ ’’اگرکوئی طالب علم بڑافہیم وذکی ہو اور استاذ اس جیسا نہ ہو تو اس کو استاذ سے استنکاف فی طلب العلم نہ کرنا چاہیے کہ میں تو اتنابڑافہیم اور یہ ایسا؟بھلا میں اس سے علم حاصل کروں؟‘‘(۸)
٭۔۔۔’’امام بخاریؒ کامقولہ اوجزمیں مَیں نے نقل کیا ہے کہ:أربع فی أربع عن أربع علی أربع الخ‘‘ یہ سولہ (۱۶)چوکڑے ہیں اور انہیں میں سے ایک یہ ہے کہ:آدمی اس وقت تک محدث نہیں ہوسکتاجب تک کہ علم اپنے بڑے اور ساتھی اور چھوٹے اور کتابوں سے حاصل نہ کرے۔‘‘(۹)
٭۔۔۔’’آدمی پہلے علم حاصل کرے، پھر عمل کادرجہ ہے، کیوں کہ زمانۂ علم میں تعلم میں مشغولیت ہوتی ہے عمل نہیں کرسکتا،تویہ عمل نہ کرنا اس وعید میں داخل نہیں۔‘‘(۱۰)
٭۔۔۔’’جیسے مالِ وراثت بغیر عمل کے حاصل ہوتاہے، اسی طرح علم بھی بغیر عمل کے حاصل ہوسکتاہے۔‘‘ (۱۱)
٭۔۔۔’’علم کو اس وجہ سے نہ چھوڑاجائے کہ عمل نہیں ہوگا، بلکہ اگر علم کے بعد خشیت کسی وقت حاصل ہوجائے تویہ بھی فائدہ دے گی۔‘‘ (۱۲)
٭۔۔۔’’علم‘تعلّم سے حاصل ہوگا ،مطالعہ سے حاصل نہیں ہوگا۔  یہ بالکل دھوکہ ہے کہ صرف کتب وشروح کودیکھ کر بغیر استاذ سے پڑھے علم حاصل ہوسکتاہے۔‘‘ (۱۳)
٭۔۔۔’’علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ جوباقاعدہ تعلیم یافتہ نہ ہوتووہ صرف کتابیں دیکھ کر فتویٰ نہ دے۔‘‘ (۱۴)
٭۔۔۔’’علم توضرورحاصل کرنا چاہیے، مگرایساطریقہ اختیارکرے کہ ’’مفضی إلی الملال‘‘ اور موجبِ نفرت نہ ہو، چنانچہ نبی کریم a کے یہاں ہرچیز کے اوقات مقرر تھے، اس لیے کہ ہر وقت ایک ہی کام کرنے سے دل اُکتاجاتاہے۔‘‘ (۱۵)
٭۔۔۔’’اگرکوئی شخص وعظ ،تبلیغ کے لیے کوئی خاص دن مقرر کرلے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، جائز ہے اور اس کو بدعت نہیں کہاجائے گا، کیوں کہ بدعت میں تعیین کے ساتھ ساتھ اس تعیین میں ہی ثواب سمجھاجاتاہے اور یہ کہ اس دن نہ ہو تو پھر کوئی ثواب نہیں ملے گا، ایسے ہی چہلم وغیرہ بدعت ہے، کیوں کہ عوام کا لانعام اس تعیین سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس دن یااس وقت میں کوئی خاص ثواب ہے۔ اسی وجہ سے وہ ان اوقات کو تبدیل نہیں کرتے۔ قاعدۂ طبعی یہ ہے کہ ایک چیز سے طبیعت اُکتاجاتی ہے، اسی لیے مشائخ درس میں مختلف کتابیں ایک ایک دن میں رکھتے ہیں، تاکہ تنفّرنہ پیدا ہو، البتہ میراتوجی رمضان میں قرآن سے نہیں اُکتاتا، یہ میرے نزدیک مستثنیٰ ہے۔ ‘‘(۱۶)
٭۔۔۔’’ (علم)عطاء فرماناتواللہ تعالیٰ ہی کاکام ہے، تم اپنی کوشش جاری رکھواور اس کے حاصل کرنے کے لیے دعاکرتے رہو۔ خود حضورa کااپنے بارے میں ارشادہے :’’إنما أنا قاسم‘‘ کہ: میں توصرف تقسیم کاحق دار ہوں، ورنہ اصل عطافرمانے والاتوخداہے، لہٰذامحض اپنی محنت پر اعتماد نہ کرے، بہت سے محنتی کچھ نہ کرسکے اور بہت سے محنت نہ کرنے والوں کوبہت کچھ مل گیا۔ ‘‘(۱۷)
٭۔۔۔’’اگرچہ عطافرمانے والے صرف اللہ تعالیٰ ہیں اور کوئی نہیں، لیکن صرف اس پر اعتماد کرکے نہ بیٹھو،بلکہ اپنی کوشش اور فہم سے کام لینابھی ضروری ہے۔ ‘‘(۱۸)
٭۔۔۔’’طالب علم کومطالعہ کرنا چاہیے اور قوتِ مطالعہ بڑھانی چاہیے۔ ‘‘(۱۹)
٭۔۔۔’’مطالعہ کاطریقہ یہ ہے کہ ہرعلم کی مناسبات کودیکھے اورغور کرے اور مطالعہ کرتے وقت اوپرنیچے سب طرف نظررکھے۔ ‘‘(۲۰)
٭۔۔۔’’علم میں رشک کرنا چاہیے اپنے سے اونچے والوں پر،توگویاقابل رشک علم وحکمت ہے ،نہ کہ دنیا کی چیزیں۔ یہ نہیں کہ فلاں کاکرتہ اچھا ہے اور میرانہیں، بلکہ علم وحکمت قابل غبطہ ورشک ہیں۔ ‘‘(۲۱)
٭۔۔۔’’بڑے اور سردار بننے سے پہلے فقاہت حاصل کرلو، اس لیے کہ بڑے ہونے کے بعدعلم جلدی نہیں حاصل ہوسکتا اور عوائق وموانع علم حاصل کرنے سے روک دیں گے۔ ‘‘(۲۲)
٭۔۔۔’’پیارو!ہمارے مشائخ اور بزرگوں کایہی رویہ رہا ہے کہ وہ جمع نہیںفرماتے تھے، بلکہ جوآیا، خرچ کردیا ۔بڑے حضرت رائے پوری یعنی حضرت شاہ عبد الرحیم صاحبؒ اور حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحبؒ کاطریقہ یہ رہاکہ جوآتابس اس کودے ڈالتے تھے، پھرکہیں سے کچھ آجاتا، فرماتے: یہ دوسرا آگیا، اس کوبھی خرچ کردیتے ۔میرے والد صاحبؒمقروض بہت تھے، اگر کہیں سے روپے آجاتے تو اس کو قرض خواہوں کو دے دیتے اور اگر پیسے وغیرہ ہوتے تو وہ بچوں کودے دیتے اور فرمایاکرتے تھے: جی نہیں چاہتاکہ اس مصیبت کولے کر سوؤں اور میرے چچاجان نوراللہ مرقدہٗ نے ایک بار فرمایاکہ:بکریوں کی تجارت کروں گا، سنت ہے، چناں چہ بکریاں خرید کرمضاربت پردے دیں، کچھ دنوں بعد جب میں دِلّی گیاتوفرمایاکہ: بکریاں تومرگئیں۔ ان لوگوں کے ہاتھ میں روپیہ رکتاہی نہ تھا، یہ قدرت کی طرف سے تھا۔ ‘‘(۲۳)
٭۔۔۔’’علم حاصل کرنے میں جومشقت اور تکالیف آئیں، ان کوبرداشت کرناچاہیے، جیساکہ حضرت موسیٰ mنے حضرت خضرm سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے میں مشقت اور تکالیف برداشت کیں کہ سمندر کے اندرتک تشریف لے گئے۔ ‘‘(۲۴)
٭۔۔۔’’سردار بننے کے بعد بھی بے فکر ہوکرنہ بیٹھنا چاہیے، بلکہ تعلیم حاصل کرے ۔حضرت موسیٰm نبوت (سرداری)کے مل جانے کے باوجود کلیم اللہ اور نبی مرسل اور دیگر خصوصیات کے باوجود حضرت خضرmسے علم حاصل کرنے تشریف لے گئے، جن کی نبوت میں بھی اختلاف ہے۔ ‘‘(۲۵)
٭۔۔۔’’جب حضرت موسیٰ m سے یہ سوال ہواکہ آپ اپنے سے زیادہ کسی کوعالم جانتے ہیں؟ تو حضرت موسیٰm نے جواب میں فرمایاکہ: نہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت موسیٰ m نبی تھے اور ظاہر ہے کہ نبی کاعلم اوروں سے زیادہ ہواکرتاہے، مگرچوں کہ انانیت اللہ کوپسند نہیں، بلکہ تواضع پسند ہے، اس لیے عتاب ہوا۔‘‘ (۲۶)
٭۔۔۔’’انانیت اللہ کوپسندنہیں تو اس پسند نہ ہونے کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ: ’’الکبریاء ردائی‘‘ کے مطابق کبریائی اللہ کی ذات میں ہے، وہاں پستی نہیں ہے، وہاں عظمت ہی عظمت ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جہاں جوچیز نہیں ملتی، وہاں اس کی قدر ہوتی ہے، اسی لیے تواضع کی وہاں بڑی قدر ہے اور چوں کہ وہاں علوہی علو، عظمت ہی عظمت ہے، اس لیے اس کی کوئی قدرنہیں۔خوب سن لو پیارو! جواللہ کے لیے اپنے آپ کو ذلیل سمجھے، اس کو اللہ اور بلند فرمادیتے ہیں، ’’من تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ‘‘ کامطلب یہی ہے۔ ‘‘(۲۷)
٭۔۔۔’’محض ذہانت پر اعتماد نہ کرے اورمحنت پربھروسہ نہ رکھے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے۔‘‘ (۲۸)
٭۔۔۔’’مشائخ کی خدمت کرناچاہیے اور اگر اولیاء اور بزرگوں سے دعالیناچاہتے ہو تو ان کی خوب خدمت کرو۔ اور یہ اصولِ موضوعہ میں سے ہے کہ استاذکی خدمت، اس کااحترام وغیرہ علم میں برکت کاسبب ہوتاہے اور نافرمانی وغیرہ علم میں کمی کاباعث ہے اور والدین کااحترام وسعتِ رزق کاباعث ہے اور عدم احترام موجبِ تنگیِ رزق ہے۔ ‘‘(۲۹)
٭۔۔۔’’طلبِ علم کے لیے سفر کرنامندوب ہے۔ ‘‘(۳۰)
٭۔۔۔’’تعلُّم کی فضیلت مسلَّم اور علم کے فضائل تسلیم مگربقائے علم، تعلیم سے ہوتاہے۔ ‘‘(۳۱)
٭۔۔۔ ’’بقائے علم اس وقت ہوگا جبکہ اس کے موانع کورفع کردیا جائے۔ اورظہورِ جہل اور رفعِ علم سے بچا جائے۔ ‘‘(۳۲)
٭۔۔۔ ’’تعلیم نہایت ضروری ہے، ورنہ علم اُٹھ جائے گااور قیامت قائم ہوجائے گی۔‘‘(۳۳)
٭۔۔۔’’ علم تدریس سے باقی رہتاہے اور اضاعتِ علم میں اضاعتِ نفس ہے۔‘‘(۳۴)
٭۔۔۔ ’’اہلِ علم کوچاہیے کہ وہ اپنے آپ کو زرخرید نہ سمجھیںاور تنخواہوں پر نہ مریںکہ اگر تنخواہ نہ ہو تو تعلیم ہی چھوڑدیں، بلکہ تعلیم وتدریس اللہ کے لیے ہواورتنخواہ یہ سمجھ کرلے کہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے، کفاف کے لیے لیتاہوں، اگرتم دنیاکوٹھوکرماروگے تویہ دنیاخودتمہارے قدموں میں آکررہے گی۔ ‘‘(۳۵)
٭۔۔۔’’اپنے علم پر عمل کرے، کیوں کہ دس بارہ سال میں حاصل ہونے والے علم کوضائع کردینا خود اپنے آپ کوضائع کردینا ہے۔ ‘‘(۳۶)
٭۔۔۔ ’’اگر کوئی ایسا ہو کہ اس کو کسی خاص علم کی ضرورت نہ پڑتی ہو تو وہ اس سے اعراض نہ کرے، بلکہ اس کو حاصل کرکے دوسروں کو سکھادے، مثلاً: مُقْعَد ہے کہ اس کو جہاد کرنے کی تو طاقت نہیں اور یہ سمجھ کر کہ مجھ کو جہاد تو کرنا نہیں، پھر کیا ضرورت جہاد کا علم سیکھنے کی؟ ایسا نہ کرے، بلکہ سیکھے اور دوسروں کو سکھلائے۔ اسی طرح عتاق کا مسئلہ ہندوستان میں کہ یہاں تو اس کی ضرورت نہیں، کیوں کہ ترقیق قانوناً بند ہے، مگر یہ سوچ کر کہ یہاں کیا ضرورت ہے؟ ایسا نہ کرے، بلکہ سیکھے اور دوسروں کو سکھادے اور ممکن ہے کہ آئندہ کام آجائے۔ ‘‘(۳۷)
٭۔۔۔’’ اگر کوئی ذی علم راستہ میں چلا جارہا ہو یا سوار ہو تو لوگوں کو اس سے مسئلہ پوچھنا جائز ہے۔ ‘‘(۳۸)
٭۔۔۔’’ کوئی اس حال میں مسئلہ پوچھے کہ وہ سوار ہوکر کہیں جارہا ہو تو مسئلہ بتلادینا چاہیے۔‘‘(۳۹)
٭۔۔۔’’قاضی اگر راستے چلتے ہوئے فیصلہ کردے تووہ معتبر نہیں ہوگا، بلکہ اس کو دار القضاء میں فیصلہ کرنا ضروری ہے، بخلاف فتوی کے کہ وہ جائز ہے۔ ‘‘(۴۰)
٭۔۔۔’’امام بخاریؒ تشحیذِ اذھان بھی کرتے ہیں، وہ تمہیں محدث بناناچاہتے ہیں اور تمہارے اندر قوتِ مطالعہ بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘(۴۱)
٭۔۔۔’’ہاتھ اور سر کے اشارے سے نفیاً واثباتاً فتویٰ دینا تو جائز ہے، مگر قضا میں جائز نہیں۔‘‘ (۴۲)
٭۔۔۔ ’’اگرکوئی پورا عالم نہ ہو اور وہ تبلیغ کرے توجائز ہے، کیوں کہ حضور a نے جن لوگوں کو یہ فرمایا ہے: ’’وأخبروھن من ورائکم ‘‘وہ لوگ تمام دینی باتوں سے واقف نہ تھے اور ان کو صرف چار باتوں کا حکم اور چار باتوں سے منع فرماکر اس کی تبلیغ کا حکم فرمادیا۔ ‘‘(۴۳)
٭۔۔۔ ’’اگر کوئی مسئلہ وقتی طور پر پیش آجائے اور وہاں کوئی بتلانے والا نہ ہو تو اس کے واسطے سفر کرنا واجب ہے، یہ نہ سوچے کہ ایک ہی مسئلہ توہے، اس کے لیے سفر کرنے کی کیاضرورت؟۔ ‘‘(۴۴)
٭۔۔۔’’اگرکوئی مشغول ہوتو اس کو علم روزانہ سیکھناضروری نہیں، بلکہ تناوب کرسکتاہے ۔‘‘ (۴۵)
٭۔۔۔’’اگراستاذطلبہ سے کوئی ناگوار بات دیکھے تو ان کوتنبیہ کردے ،ڈانٹ دے۔ ‘‘(۴۶)
٭۔۔۔’’قضاء اور فتوی کے درمیان فرق ہے کہ اگر فتویٰ اور درس حالتِ غضب میں ہو تو جائز ہے، لیکن قضاء حالتِ غضب میں ہو تو جائز نہیں۔ ‘‘(۴۷)
٭۔۔۔’’رکبتین پر بیٹھنا یہ طالب علم کی ہیئت ہے کہ محدث کے سامنے اس طرح بیٹھنا چاہیے۔‘‘ (۴۸)
٭۔۔۔’’ائمہ ومشائخ واساتذہ کے سامنے دوزانوہوکربیٹھناچاہیے،یہی اولیٰ وبہترہے۔ ‘‘(۴۹)
٭۔۔۔’’اعادہ وہاں ہوتا تھا، جہاں افہام کی ضرورت ہو۔ ‘‘(۵۰)
٭۔۔۔’’آج کل یہ مدارس بن گئے اور پھر ان میں سہولتیں کھانے پینے وغیرہ کا اہتمام ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ یہ طالبِ علم قدرنہیں کرتے، اگریہ سہولتیں میسرنہ ہوتیں، بلکہ اس میں مشقت اُٹھانی پڑتی تو قدر کرتے، لیکن اب تویہ حال ہے کہ اگر پڑھانے میں بیس (۲۰) ملتے ہیں اور کھیتی میں سو (۱۰۰) تو کھیتی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ سب اس وجہ سے ہے کہ بغیر مشقت کے حاصل ہوگیا اور اگر مشقت سے حاصل کرتے تو ہرگز یہ نہ ہوتا۔ ‘‘(۵۱)
٭۔۔۔’’ ( امام اور امیر ) کوچاہیے کہ مدارس کا انتظام کریں اور ان کی تعلیم کا بندوبست کریں۔ ‘‘(۵۲)
٭۔۔۔’’امام اور امیربلدہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم وتربیت کامعقول انتظام کریں، کیوں کہ ہرشخص کافریضہ ہے کہ وہ اپنی رعایا یعنی اہل وعیال کوتعلیم دے ۔‘‘(۵۳)
٭۔۔۔’’عورتیں رقیق القلب ہوتی ہیں، ذراسی بات ان پر اثر کرجاتی ہے۔ ‘‘(۵۴)
٭۔۔۔’’علوم میں علم حدیث سب سے افضل واعلیٰ ہے اوربہت ہی مہتم بالشان ہے۔ ‘‘(۵۵)
٭۔۔۔’’جب منع وجواز میں تعارض ہوا کرتا ہے تو منع کو ترجیح ہوا کرتی ہے۔ ‘‘(۵۶)
٭۔۔۔’’ محدثین کا قاعدہ یہ ہے کہ اگرکتاب میں غلطی خود اس لکھنے والے کی طرف سے ہو تو اس میں اصلاح کرناجائزنہیں ،لیکن محقق طورپریہ معلوم ہوجائے کہ یہ غلط ہے توکیاکرے؟اس میں دوقول ہیں:ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ جب غلطی پرپہنچے تویوں پڑھے :’’الصحیح ہٰکذا، وفی الکتاب ہکذا‘‘تاکہ ابتداء ً غلط پڑھ کر ’’من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہٗ من النار ‘‘میں داخل نہ ہو۔او ردوسری جماعت کی رائے یہ ہے کہ پڑھتاچلاجائے اورجب غلط پڑھ چکے تو اس کے بعد فور اً  ’’والصحیح ہٰکذا‘‘پڑھے۔ ‘‘(۵۷)
٭۔۔۔’’حضرت ابوبکر وعمرr حضوراقدسa کے وزیراورمشیرتھے خاصۃً اور دیگر امور میں دخیل تھے عامۃً۔ ‘‘(۵۸)
٭۔۔۔’’تمام دھندوں کوچھوڑکرعلم میں لگ جانے سے ہی علم آتاہے، جیسے حضرت  ابوہریرہq کہ حضوراکرم a پرتمام چیزیں قربان کرکے ہمہ تن لگ گئے تھے۔ ‘‘(۵۹)
٭۔۔۔’’متعلم کوچاہیے کہ استاذکے سامنے ادب سے خاموش رہے۔ ‘‘(۶۰)
٭۔۔۔’’جب استاذ کچھ بیان کرے توپوری توجہ کے ساتھ اس کی باتوں کو سنے، تاکہ کوئی بات سننے سے باقی نہ رہے ۔‘‘(۶۱)
٭۔۔۔’’اگرکوئی عالم بات کہہ رہا ہو تولوگوں کو اس کے سننے کے لیے خاموش کیا جاسکتا ہے، اس سے اجلال العلماء معلوم ہوا۔ ‘‘(۶۲)
٭۔۔۔’’جب کسی سے پوچھاجائے کہ کون اعلم ہے ؟ تو’’اللّٰہ أعلم‘‘ ،یا  ’’فوق کل ذی علم علیم‘‘ کہہ دے، یہ نہ کہے کہ لوگوں کی نظر مجھ پر ہی پڑتی ہے، جیسے گیدڑی سے اس کے بچے نے پوچھا کہ: اماں پری کسے کہیں؟ تو اس نے کہا: چپ چپ ! لوگوں کی نگاہ مجھ پر ہی ہے۔ ‘‘(۶۳)
٭۔۔۔’’اپنے آپ کو بڑاعلامہ نہ سمجھے، جبکہ اللہ نے اتنے بڑے نبی کے متعلق یہ پسند نہیں فرمایا کہ وہ اپنے آپ کو اَعلم کہیں، تو اوروں کا کیا منہ ہے۔ ‘‘(۶۴)
٭۔۔۔’’رمی جمار کے وقت سوال کرنااورفتویٰ پوچھنا جائز ہے۔ ‘‘(۶۵)
٭۔۔۔’’علم کامرتبہ ذکر اللہ سے مقدم ہے،لہٰذا اگرکوئی رمی جمار وغیرہ کے وقت مسئلہ پوچھے تو ذکر قطع کرکے جواب دے دے، بعض جاہل صوفیہ کی طرح نہیں کہ سورج تو طلوع ہونے والا ہے اور وہ اپنے اوراد میں مشغول ہیں، اب اگر ان سے کوئی وقت پوچھتاہے توزبان سے توبتلاتے نہیں، انگلی سے اشارہ کرتے ہیں، فرمایا: حالاںکہ وظیفہ وغیرہ کے دوران مسئلہ بتانے سے وظیفہ پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔ ‘‘(۶۶)
٭۔۔۔’’جب کوئی طالب علم لائق ہوتاہے تووہاں اولاد وغیرہ کونہیں دیکھاجاتا۔ ‘‘(۶۷)
٭۔۔۔’’اگر استاذکسی ذہین وفطین شاگرد کو کوئی خاص وقت دے دے یاکسی خاص جماعت کو کوئی خاص وقت عنایت فرمادے کہ وہ اس وقت استفادہ کرایاکریں تویہ جائز ہے اور یہ تخصیصِ علم اور کتمانِ علم میں داخل نہیں اور دوسروں کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں، جیسے امام ابوحنیفہؒکی دومجلسیں ہوا کرتی تھیں: ایک عمومی، اس میں ہر کوئی بیٹھ سکتا تھا۔ دوسری خصوصی، اس میں وہ لوگ شریک ہوسکتے تھے جو حافظ ہوں۔ ‘‘(۶۸)
٭۔۔۔’’اکثر علمائ‘ موالی اور عتقاء تھے، سارے سادات ہی نہیں تھے۔ ‘‘(۶۹)
٭۔۔۔’’حیاہر جگہ محمود ہے، مگر علم میں اس کومانع نہ ہونا چاہیے ۔‘‘(۷۰)
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں طالب علم اور علم پر عمل کرنے والا بنائے ، آمین۔
حوالہ جات
۱:-تقریربخاری،کتاب العلم، باب من سئل علما،ج:۱ ص:۶، مکتبۃ الشیخ، بہادرآباد، کراچی
۲:-ایضاً ،  باب طرح الامام المسئلۃ، ج:۱، ص:۸         ۳:-ایضاً، باب طرح الامام المسئلۃ،ج:۱،ص:۸
 ۴:-ایضاً، باب طرح الامام المسئلۃ،ج:۱،ص:۹         ۵:-ایضاً، باب القراء ۃ والعرض علی المحدث،ج:۱،ص:۱۰
 ۶:-ایضاً، باب من قعد حیث ینتہی بہ المجلس:ص:۱۲         ۷:-ایضاً، باب قول النبی a: رب مبلغ،ج:۱،ص:۱۴
 ۸:-ایضاً، باب قول النبی a: رب مبلغ،ج:۱،ص:۱۴         ۹:-ایضاً، باب قول النبی a: رب مبلغ،ج:۱،ص:۱۴ 
۱۰:-ایضاً ، باب العلم قبل القبول والعمل،ج:۱،ص:۱۵         ۱۱:-ایضاً ،  باب العلم قبل القبول والعمل:ایضا:۱۵
 ۱۲:-ایضاً ، باب العلم قبل القبول والعمل،ج:۱،ص:۱۵         ۱۳:-ایضاً ، باب العلم قبل القبول والعمل،ج:۱،ص:۱۵
 ۱۴:-ایضاً ، باب العلم قبل القبول والعمل،ج:۱،ص:۱۵         ۱۵:-ایضاً ، باب ماکان النبی a یتخولہم،ج:۱،ص:۱۶
 ۱۶:-ایضاً ، باب من جعل لاہل العلم،ج:۱، ص:۱۶         ۱۷:-ایضاً، باب من یرد اللہ بہ خیر ایفقہ فی الدین،ج:۱،ص:۱۶
 ۱۸:-ایضاً، باب الفہم فی العلم،ج:۱،صـ:۱۶         ۱۹:-ایضاً ، باب الفہم فی العلم،ج:۱،ص:۱۶
 ۲۰:-ایضاً ، باب الفہم فی العلم،ج:۱،ص:۱۷         ۲۱:-ایضاً، باب الاغتباط فی العلم والحکمۃ،ج:۱،ص:۱۷
 ۲۲:-ایضاً ، ج:۱،ص:۱۷                ۲۳:-ایضاً ، ج:۱،، ص:۱۷-۱۸ 
۲۴:-ایضاً، باب ماذکرفی ذہاب موسیٰ m، ج:۱،ص:۱۹          ۲۵:-ایضاً، باب ماذکرفی ذہاب موسیٰ m،ج:۱،ص:۱۹ 
 ۲۶:-ایضاً، ج:۱،ص:۲۰                 ۲۷:-ایضاً ، ج:۱، ص:۲۰
 ۲۸:-ایضاً، باب قول النبی a،ج:۱، ص:۲۰         ۲۹:-ایضاً، باب قول النبی a،ج:۱، ص:۲۱ 
 ۳۰:-ایضاً، باب الخروج فی طلب العلم،ج:۱ ،ص:۲۱         ۳۱:-ایضاً، باب فضل من علم وعلم،ج:۱، ص:۲۲
 ۳۲:-ایضاً، باب رفع العلم وظہور الجہل،ج:۱ ،ص:۲۳         ۳۳:- ایضاً، باب رفع العلم وظہور الجہل،ج:۱ ،ص:۲۳
۳۴:-ایضاً ، ج:۱ ،ص:۲۳                ۳۵:-ایضاً ، ج:۱ ،ص:۲۳ 
 ۳۶:-ایضاً ، ج:۱ ،ص:۲۳                  ۳۷:-ایضاً، باب فضل العلم،ج:۱ ،ص:۲۴ 
 ۳۸:-ایضاً، باب الفتیاوہوواقف علی الدابۃ وغیرہا،ج:۱ ،ص:۲۵      ۳۹:-ایضاً، باب الفتیاوہوواقف علی الدابۃ وغیرہا،ج:۱ ،ص:۲۵ 
 ۴۰:-ایضاً، باب الفتیاوہوواقف علی الدابۃ وغیرہا،ج:۱ ،ص:۲۵      ۴۱:-ایضاً، ج:۱ ،ص:۲۵ 
 ۴۲:-ایضاً، باب من أشارالفتیاباشارۃ الید والرأس،ج:۱ ،ص:۲۶      ۴۳:-ایضاً، باب تحریض النبی a، ج:۱ ،ص:۲۷ 
 ۴۴:-ایضاً، باب الرحلۃ فی المسئلۃ النازلۃ،ج:۱ ،ص:۲۸          ۴۵:-ایضاً، باب التناوب فی العلم، ج:۱ ،ص:۲۸ 
 ۴۶:-ایضاً، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذارأی مایکرہ،ج:۱ ،ص:۲۹      ۴۷:-ایضاً، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذارأی مایکرہ،ج:۱ ،ص:۲۹ 
 ۴۸:-ایضاً، ج:۱ ،ص:۳۰                  ۴۹:-ایضاً، باب من برک علی رکبتیہ عند الامام اوالمحدث،ج:۱ ،ص:۳۰ 
 ۵۰:-ایضاً، باب من أعادالحدیث ثلاثاًلیفہم،ج:۱ ،ص:۳۰     ۵۱:-ایضاً، ج:۱ ،ص:۳۲ 
۵۲:-ایضاً، باب عظۃ الامام النساء وتعلیمہن،ج:۱ ،ص:۳۲      ۵۳:-ایضاً، باب عظۃ الامام النساء وتعلیمہن،ج:۱ ،ص:۳۲
 ۵۴:-ایضاً، باب عظۃ الامام النساء وتعلیمہن،ج:۱ ،ص:۳۲     ۵۵:-ایضاً، باب الحرص علی الحدیث،ج:۱ ،ص:۳۳
 ۵۶:-ایضاً، باب کتابۃ العلم،ج:۱ ،ص:۳۸              ۵۷:-ایضاً، ج:۱ ،ص:۴۰ 
 ۵۸:-ایضاً، ج:۱ ،ص:۴۳                  ۵۹:-ایضاً، باب حفظ العلم،ج:۱ ص:۴۶ 
۶۰:-ایضاً، باب الانصات للعلمائ،ج:۱ ص:۴۸          ۶۱:-ایضاً، باب الانصات للعلمائ،ج:۱، ص:۴۸ 
 ۶۲:-ایضاً، باب الانصات للعلمائ،ج:۱، ص:۴۸          ۶۳:-ایضاً، باب مایستحب للعالم،ج:۱ ،ص:۴۸-۴۹
 ۶۴:-ایضاً، باب مایستحب للعالم،ج:۱، ص: ۴۹         ۶۵:-ایضاً، باب السؤال والفتیاعندرمی الجمار،ج:۱، ص:۴۹
 ۶۶:-ایضاً، باب السؤال والفتیاعندرمی الجمار،ج:۱، ص:۴۹      ۶۷:-ایضاً، باب من ترک بعض الاختیار،ج:۱، ص:۵۰ 
 ۶۸:-ایضاً، باب من ترک بعض الاختیار،ج:۱، ص:۵۱          ۶۹:-ایضاً، باب من ترک بعض الاختیار،ج:۱، ص:۵۱ 
 ۷۰:-ایضاً، باب الحیاء فی العلم،ج:۱، ص:۵۲
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین