بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ 


حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ 


زیرِنظر مضمون محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے آج سے تقریباً ۵۷/۵۸ سال قبل صفر المظفر۱۳۸۱ھ میں عربی زبان میں تحریر فرمایا تھا، جو خاندانِ اللّٰہی کی ایک معروف بزرگ شخصیت صاحبِ ’’تقویۃ الایمان‘‘، عارف باللہ ،اتباعِ سنت کے دلدادہ ، مجاہد فی سبیل اللہ حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے فضائل ومحاسن پر مشتمل ہے، اسے اُردو کے قالب میں ڈھالنے کی سعادت جناب معراج محمد بارق مرحوم کو حاصل ہوئی۔ افادۂ عام کے لیے نذرِ قارئین ہے۔ (ادارہ)

 

جب کسی شخص کے بارے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ صحابیؓ ہے یا یہ کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اُٹھائی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کی چند خصوصیات وفضائل پر زور دینا چاہتے ہیں، مثلاً: اس کی قوتِ ایمانی، شدتِ یقین، کمالِ اخلاص، علم کی گہرائی، حسنِ عمل، جہاد فی سبیل اللہ، اس کا آخرت کو ترجیح دینا، دنیا سے زہد، گویا اس کو صحابیؓ کا لقب دے کر ہم نے اس کے ان تمام کمال وجمال اور تمام فضائل ومحاسن کا اثبات کردیا۔ اس طرح یہ ایک لفظ یا لقب اس شخص کے فضل وکمال کو ظاہر کرنے کے لیے نہایت بلیغ وجامع لفظ ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (جو ایسے جلیل القدر صحابیؓ ہیں جن کے بارے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ: وہ اصحابِ رسول اللہ میں علم وفقہ سے بھرا ہوا تھیلا ہیں) فرماتے تھے کہ: ’’یہ سب اصحابِ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں جو اس اُمت میں سب سے افضل ہیں، سب سے نیک دل ہیں اور علم میں سب سے گہرے ہیں اور سب سے کم تکلف اور بناوٹ کرتے ہیں۔‘‘ آخر میں آپؓ نے فرمایا کہ: ’’تو اے لوگو! ان کے فضل وکمال کا اعتراف کرو۔‘‘
اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول یاد کیجئے! جب ان سے پوچھا گیا کہ: کون افضل ہیں؟ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یا حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ؟ تو آپؒ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے ہوئے جو گرد وغبار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں داخل ہوا، وہ بھی حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے ہزار درجہ افضل ہے۔‘‘ (تطہیرالجنان لابن حجر العسقلانیؒ) 
اور یہ حضرت ابن مبارکؒ (کوئی معمولی آدمی نہیں) یہ فقیہ ، محدث، مجاہد، صوفی، عارف باللہ اور علم وفتویٰ میں ثقہ تھے۔ وہ دینی امور میں غیر سنجیدہ یا غیر ذمہ دارانہ باتیں کرنے یا بغیر علم ویقین کے فتویٰ دینے سے احتراز کرتے تھے۔ دراصل ان کے مذکور بالا قول کی وضاحت کے لیے ایک طویل مضمون کی ضرورت ہے، جس کا یہ موقع محل نہیں ہے۔
درحقیقت اس تمہید سے آپ پر یہ واضح ہوجائے گا کہ ہم جس شخص کے بارے میں یہ کہیں کہ: ’’ وہ اپنے ایمان، اخلاص، حسنِ عمل، جہاد فی سبیل اللہ، ایثارِ آخرت اور مصائب پر صبر کرنے اور اتباعِ سنت جیسے کمالات میں صحابہؓ کے مشابہ ہے۔‘‘ تو یہ جملہ ا س کے مآثر ومفاخر کے اظہار اور اثبات کے لیے کافی ووافی ہے۔
تو ہم یہ کہتے ہیں کہ: شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ اسی گروہ اور اسی جماعت میں سے تھے جو تمام وکمال صحابہؓ کے مشابہ تھے۔ یہ لوگ نفوسِ قدسیہ اور نیک ارواح کے حامل تھے اور پاک صاف دل کے مالک تھے۔ وہ گویا فرشتے تھے جو انسانوں کی شکل میں ظاہر ہوئے یا (یوں کہئے کہ) وہ خیر البشر وسِرُّالوجود وسرورِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے فیض سے فرشتے بن گئے تھے، حتیٰ کہ ملائکہ نے ان پر رشک اور تعجب کیا اور ان کے لیے ثناء ودعا کی اور اس طرح اس قولِ الٰہی کا راز ظاہر ہوا، جو خداوند تعالیٰ نے آفرینشِ آدم( علیہ السلام ) کے وقت ملائکہ سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا کہ: ’’إنی أعلم ما لاتعلمون‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’میں وہ باتیں جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘
سرزمینِ ہند میں پیداہونے والے لوگوں میں سے یہ صرف شاہ اسماعیل شہیدؒ تھے جو اِن اَخیار واصفیاء سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ سرزمینِ ہند کو حق ہے کہ وہ تمام دنیا کے سامنے اس بات پر فخر کرے کہ اس دورِ قحط الرجال میں ایسا باکمال انسان اس کے ہاں وجود میں آیا۔
شاہ صاحبؒ کو بڑی روشن طبیعت اور نفسِ زکیہ عطا ہوا تھا۔ آپ کا دل اتباعِ سنتِ نبویہ کے جذبہ سے سرشار تھا، اور بدعات سے متنفر تھا۔ اس کے علاوہ آپ کو اپنے خاندان کے بعض اہل علم بزرگوں کی صحبت میسر ہوئی تھی۔ یہ وہ گھرانا تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی دینی اصلاح کے لیے چنا تھا۔ قرآن وسنت کے علوم کا احیائ، دینی شعائر کی حفاظت، علومِ نبویہ کی اشاعت اور سنتِ نبوی کی ترویج اس خاندان کا مشغلہ تھا۔ علم وعمل، ذوق ووجدان اورمعرفت وایقان ہر طرح سے انہوں نے دینی علوم کی خدمت کی۔ انہی بزرگوں کی صحبت اور اپنی خصوصیات کی وجہ سے مشیئتِ الٰہی نے اپنی توفیقِ ربانی سے اُن کو نمایاں کیا اور اس قابل کیا کہ وہ سننِ نبویہ کے احیاء کے لیے اور بدعاتِ سیئہ کے خاتمہ کے لیے مسلسل جد وجہد کریں اور اس نیک مقصد کے حصول کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں سے کام لیں: اپنی زبان سے جو شمشیر برّاں کی طرح کام کرتی تھی اور اپنے قوی دل سے جو ایک مضبوط چٹان کی طرح اَٹل تھا اوراپنی قوتِ تخیُّل کے ذریعہ جو ایک کو ندتی ہوئی بجلی کی طرح تیز تھی اور اپنے عزمِ راسخ سے جو آہن کی طرح پختہ تھا اور اپنے عملِ پیہم سے جو سیلِ رواں کی طرح جاری تھا۔
جب آپ کسی موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں تو آپ کی علمیت کے جوہر کھلتے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیب کے پردوں سے اجتہاد کے چشمے اُبل پڑے ہیں جو آپ کے باغِ علم کی آبیاری کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ کی چند تصانیف کی مثال دینا کافی ہے۔
آپ کی کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ پر نظر ڈالیے جو توحید کی شرح اور شرک کے رد میں ہے اور ’’منصبِ امامت‘‘ دیکھئے جو حکومتِ الٰہیہ علیٰ منہاج النبوۃ کے موضوع پر ہے، اُس میں اِس حکومت کے اصول ومبادی کی کیسی اچھی وضاحت کی ہے اور اس کے مناصب کو کس عمدہ طریق پر بیان کیاہے اور یہ واضح کیا ہے کہ اسلامی شرعی حکومت جمہوریت اور ارسٹوکریسی ( صلی اللہ علیہ وسلم ristocr صلی اللہ علیہ وسلم cy)کی خوبیوں کی جامع ہے اور یہ کہ دولتِ اسلامیہ جدید مغربی طرز کی خالص جمہوریت بھی نہیں ہے اور نہ خالصتاً ڈکٹیٹری (آمریت) ہے جس میں حاکم کا استبداد پایا جاتا ہے، جیساکہ آج کل مروج ہے، بلکہ وہ ایک شرعی شورائی حکومت ہے جس کا دامن آمریت کی خامیوں اور خرابیوں سے پاک ہے اور اسی طرح آج کل کی جمہوریتوں کے نقائص اور گندگیوں وآلودگیوں سے بھی مُبرّا ہے۔ یہ کتاب واقعی اپنے موضوع پرایک منفرد کتاب ہے، جس میں آپ کے اجتہادی افکار پوری آب وتاب سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اپنے طرزِ بیان میں بھی منفرد ہے اور عمدہ ترتیب وعمدہ اسلوب میں بھی ممتاز ہے۔ یہ کتاب ایسی بصیرت افروز ہے کہ پڑھنے والے کے دل میں خلافت اور حکومتِ اسلامیہ کے لیے مضبوط اُمیدیں بندھ جاتی ہیں اور اس کے فوائد روشن ہوجاتے ہیں۔
اس بات کا گمان بھی نہیں تھا کہ آپ کو (اپنی مصروف زندگی میں) علوم صوفیہ میں سے علوم الحقائق پر قلم اُٹھانے کی فرصت ملے گی، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کی کتاب ’’صراطِ مستقیم‘‘ میں اس فن کے دقیق مسائل مذکور ہیں، جو آپ نے اپنے شیخ اور مرشد (شیخ سید احمد بریلوی شہیدؒ) سے مسائلِ تصوف اور اسرارِ حدیث کے سلسلہ میں حاصل کیے تھے۔ اس میں ایسے ایسے نکات موجود ہیں جن سے دوسری کتابیں عاری ہیں اور پھر اس کے بعد آپ کی کتاب ’’عبقات‘‘ آتی ہے، جس میں سے علم الحقائق جیسے گہرے اور غامض علم کی خوشبوئیں پھوٹ رہی ہیں اور معارفِ الٰہیہ کی مہک اُٹھ رہی ہے۔
اسی طرح آپ کی ایک کتاب ’’إیضاح الحق الصریح فی أحکام المیت والضریح‘‘ ہے، جس میں اس زمانہ کی بدعتوں کا رد کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر یہ کتاب لاثانی اور بے نظیر ہے، بلکہ بعض مقامات پر یہ امام شاطبیؒ کی ’’الاعتصام‘‘ سے بھی فائق نظر آتی ہے۔
ایسا نظر آتا ہے کہ شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اس قسم کے نیک کاموں اور اعلیٰ مقاصد کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ آپ جب منبر پر تقریر کے لیے کھڑے ہوتے تو دورانِ تقریر طوفانِ بادوباراں نظر آتے اور اپنے بلیغ وعظوں کے ذریعہ پتھر جیسے سخت دلوں کو موم کردیتے اور جب کفار کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے میدانِ جنگ میں اُترتے تو دھاڑتے ہوئے شیر نظر آتے اور ایسا معلوم ہوتا جیسے آپ نے ساری زندگی عسکری تربیت حاصل کرنے میں گزاری ہو اور جب حقائقِ الٰہیہ، معارفِ ربانیہ اور دقائقِ حکمت بیان کرنا شروع کرتے تو قلم آپ کا غلام نظر آتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس اخیر زمانہ میں سرزمینِ ہند پر کوئی ایسا باکمال شخص ظاہر نہیں ہوا۔ خداوند تعالیٰ نے آپ کی جامع شخصیت میں یہ تمام مختلف خصوصیات اور گوناگوں صفات جمع کردی تھیں اور اس طرح آپ نے ہرلحاظ سے صحابہ کرامؓ کی زندگی کا نمونہ پیش کردیا تھا، خواہ وہ قوتِ ایمانی کی صفت ہو یا اتباعِ سنت میں شدت کا مسئلہ، زہد فی الدنیا ہو یا حُبِّ جہاد فی سبیل اللہ، یا ہر معاملہ میں قربانی وایثار کا جذبہ، حق کی خاطر فنا ہونے کا معاملہ ہو یا فنا فی رضاء الحق کا مسئلہ۔
درحقیقت آپ علم وعمل کے بہترین، صاف شفاف چشموں سے سیراب ہوئے تھے، پس آپ اپنے جدّ ِامجد حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مثل تھے اور شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے بھی اور اپنے بھائیوں، چچاؤں اور دیگر بزرگوں کی تربیت کا آپ پر اثر تھا، اس کے علاوہ عارف باللہ ومجاہدِ کبیر شیخ سید احمد بریلوی شہیدؒ سے بھی آپ نے تربیت پائی تھی جو آپ کے امام اور مرشد تھے۔ آپ کا دل اخلاصِ عظیم کے نور سے منور تھا اور پھر آپ نے بہت مجاہدات اور ریاضتیں کرکے اپنے نفس کو مرتاض کیا تھا، لہٰذا یہ (کمالات پیدا ہونا) کوئی ایسی تعجب کی بات نہیں۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ مشیّتِ الٰہی یہ تھی کہ آپ عالم، عارف اور مجاہد فی اللہ ہوں،اتباعِ سنت کے دلدادہ ہوں، حق کے معاملہ میں جری وشجاع ہوں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں۔
آپ نے اپنی تمام زندگی وعظ وتذکیر، ردِ بدعات اور دینی اصلاح میں گزاردی اور قوم کا شیرازہ بکھرنے نہیں دیا (بلکہ ان کو صحیح راہ پر متفق ومتحد رکھا) پھر کفار سے جہاد کیا، یہاں تک کہ ہزارہ کے پہاڑوں میں بالاکوٹ کے مقام پر ۱۲۴۶ھ میں جامِ شہادت نوش فرمایا، رحمہ اللّٰہ رحمۃَ الأبرار والمجاہدین۔ 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین