بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت سید عشرت جمیل کا سانحہ ارتحال

 

حضرت سید عشرت جمیل میر v کا سانحۂ اِرتحال

۱۳؍ رجب المرجب ۱۴۳۶ھ مطابق ۲؍ مئی ۲۰۱۵ء بروز ہفتہ بعد نمازِ عشاء رات ساڑھے دس بجے عارف باللہ حضرت مولانا حکیم محمد اختر نور اللہ مرقدہٗ کے خادم خاص اور خلیفہ مجازِ بیعت حضرت سید عشرت جمیل میر صاحبؒ طویل علالت کے بعد ۷۸؍ برس کی عمر میں راہیِ سفر آخرت ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہٗ ماأعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمی۔ حضرت میر صاحبv ۱۹۳۷ء میں ہندوستان کے شہر یوپی کے علاقہ نگینہ میںپیدا ہوئے۔ ۱۹۶۹ء میں بی کام کیا۔ پاکستان اسٹیل ملز میں بڑی پوسٹ پر تھے۔ حضرت حکیم صاحبv کے ساتھ تعلق ہونے کے بعد انہوں نے حضرتؒ کے سفر وحضر میں خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا اور حضرت حکیم صاحبv کے وصال تک آپ کے ساتھ رہے اور اس کے بعد اپنے شیخ کی جدائی میں ایسے بستر پر لگے کہ انتقال تک اس سے اُٹھ نہ سکے۔ ۴۶؍ سال تک انہوں نے اپنے شیخ کی خدمت کی اور میر صاحبv ہی وہ واحد مسترشد اور مرید ہیں جو ہر سفر میں حضرت حکیم صاحبv کے ساتھ رہے۔ حضرت حکیم صاحبv نے ایک بار فرمایا تھا: ’’ میر صاحب سید بھی ہیں، بڈھے بھی ہوگئے اور بیمار بھی ہیں۔ اگر بیمار نہ ہوتے تو یہ کسی کو میری خدمت کے لیے موقع نہیں دے سکتے تھے، آگے آگے رہتے۔ لیکن چونکہ ہمارے بزرگوں نے سیدوں سے خدمت نہیں لی، لہٰذا اب ان کو علمی کام میں لگادیا، یہ میری باتیں نوٹ کرتے ہیں اور اس کو چھپواتے ہیں تو یہ کام صدقہ جاریہ بن رہا ہے۔ خدمت تو میرے بعد ختم ہوجائے گی اور یہ کام ان شاء اللہ تعالیٰ! ہمیشہ قیامت تک جاری رہے گا۔ میر عشرت جمیل صاحب سے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے کام لے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔‘‘                        (پردیس میں تذکرۂ وطن،ص:۳۷۰) حضرت حکیم اختر صاحب قدس سرہٗ کی وفات سے قبل جو ۱۰۹؍ مواعظ حسنہ شائع ہوئے، ان کا سلسلہ ۱۹۸۲ء سے شروع ہوا، جب حضرت میر صاحبؒ اسٹیل مل میں ملازم تھے تو حضرت حکیم صاحبv کی تقاریر اور علمی مضامین کو کیسٹوں میں محفوظ کرتے تھے اور یہ تمام قیمتی ذخیرہ کیسٹوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا۔ اپنے شیخ کے مواعظ وملفوظات ٹیپ سے کاغذ پر لاتے، پھر اس کی کمپوزنگ اور تصحیح کرکے حضرت کو سناتے تھے۔ حضرت حکیم صاحبv کی نظر ثانی اور ضروری ترامیم کے بعد وہ مواعظ وملفوظات طباعت کے لیے دیے جاتے۔ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبv کے وصال کے بعد حضرت میر صاحبv نے یہ فیصلہ فرمایا کہ آئندہ مواعظ ’’مواعظِ اختر‘‘ کے نام سے شائع کیے جائیں، تاکہ حضرت شیخ حکیم صاحبv کی حیات اور رحلت کے بعد شائع ہونے والے مواعظ میں فرق ہوجائے۔ موجودہ مواعظ ’’ادارہ تالیفاتِ اختریہ‘‘ سے شائع کیے جارہے ہیں، جن کی تعداد ۸۹؍ مواعظِ اختر تک پہنچ چکی ہے۔ حضرتv کی بڑی کتابیں ’’ خزائن القرآن، خزائن الحدیث، درسِ مثنوی، فغانِ رومی، مواہب ربانیہ، تربیت ِعاشقانِ خدا (تین جلدیں) پردیس میں تذکرۂ وطن، ارشاداتِ دردِ دل، آفتابِ نسبت مع اللہ‘‘۔ حضرت میر صاحبv ہی کے قلم سے اپنے شیخ کی زیر نگرانی مرتب ہوئیں۔ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبv کے دردِ دل اور ملفوظات کا فیض سارے عالم میں پھیلا ہوا ہے۔ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں حضرت حکیم صاحب vکے ملفوظات، بیانات اور کتابوں کی برکت سے راہِ راست پر آچکی ہیں۔ خوبرؤوں سے ملا کرتے تھے میر

اب ملا کرتے ہیں اہل اللہ سے مت کرے تحقیر کوئی میر کی

رابطہ رکھتے ہیں اب اللہ سے یہ قطعہ عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نور اللہ مرقدہٗ کا ہے، صرف یہی قطعہ نہیں حضرت والا کے نظم ونثر میں جابجا حضرت میر صاحبv کا ذکر ملتا ہے۔ بیان کے دوران بھی علالت اور دواؤوں کے اثر کے باوجود، اگر میر صاحبؒ کی آنکھ جھپک جاتی تو فوراً حضرت والا فرماتے:’’ میر صاحب! آنکھیں کھول کر بیان سنو، ورنہ ابھی یہاں سے اٹھادوں گا۔‘‘ کبھی فرماتے: ’’ابھی آپ کے سامنے قورمہ، بریانی موجود ہو تو کیوں نیند نہیں آتی۔‘‘ یہ سارے محبوبانہ عتاب میر صاحبؒ ہی پر اس لیے نازل ہوتے تھے کہ حضرت والا جانتے تھے کہ میرصاحبؒ ڈانٹ سے ذرا کبیدہ خاطر نہیں ہوتے، بلکہ مزید فدا ہوتے ہیں۔ بعض اوقات دورانِ بیان اس وجہ سے بھی عتاب نازل ہوتا کہ میر صاحبؒ حضرت والاv کا بیان ریکارڈ کرنے میں منہمک اور متحرک ہوتے تھے، اس موقع پر حضرت والاv فرمایا کرتے: ’’میر صاحب!چھوڑو ریکارڈنگ کو، دل میں ریکارڈ کرو، صحابہs کے زمانے میں یہ سب چیزیں کہاں تھیں۔ مگر میر صاحب اس کے باوجود ایک بیان کیا ایک ملفوظ بھی ضائع ہونے دینا نہیں چاہتے تھے اور یقینا اسی محبت کے ثمرات تھے کہ حضرت والا کے تقریباً دو سو مواعظ کی اشاعت حضرت میر صاحبv کی کاوشوں سے ہوئی، اس کے علاوہ میر صاحبv کے پاس غیر مطبوعہ مواد اتنا تھا کہ اس کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے۔     درحقیقت حضرت میر صاحب v صرف جامع الملفوظات ہی نہیں تھے، بلکہ شیخ کے مسلک اور رنگ میں سب سے زیادہ رنگے ہوئے سالک بلکہ امام السالکین تھے۔ یہی وجہ تھی حضرت والا v کے وصال کے بعد حضرت کے انتہائی قریبی خدام اور خلفائے اجل نے حضرت میر صاحبv  ہی سے رجوع کیا اور حضرت والا vکی حیات میں بھی حضرتؒ کے ضعف کی وجہ سے اکثر سالکین حضرت میر صاحبv سے ہی مشورے لیا کرتے تھے اور سب اس پر متفق تھے کہ حضرت والا اور میر صاحبv کے مشورے میںکوئی فرق نہیں ہوتا۔حضرت شیخ v فرمایا کرتے تھے کہ: ’’محبت ِ شیخ تمام مقاماتِ سلوک کی کنجی ہے۔‘‘ حضرت مولانا جلال الدین رومی v اپنے شیخ حضرت شمس الدین تبریزی v کے عاشق تھے۔ حضرت امیر خسرو v اپنے شیخ حضرت نظام الدین اولیائv کے عاشق تھے۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب v اپنے شیخ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی v کے عاشق تھے۔ اور فرمایا: اِک میرِ خستہ حال بھی اخترؔ کے ساتھ ہے گزرے ہے خوب عشق کی لذت لیے ہوئے حضرت میر صاحب v بوجہ مناسبتِ قلبی حضرتv سے بیعت ہوئے، بالآخر حضرتv نے ان کو خلافت سے نوازا۔ اُن کو اپنے شیخ کے ساتھ کیسی محبت اور کیسا عشق تھا؟ اس کی ایک جھلک اس واقعہ میں دیکھئے! حضرت حکیم صاحبv فرماتے ہیں کہ: ’’جب انہوں نے آنا شروع کیا تو صبح فجر کے بعد آتے تھے اور رات کو جاتے تھے۔ میں نے اُن کو کہا کہ تیسرے دن آیا کرو، لیکن ایک ہی دن میں وہ تڑپ گئے۔‘‘ حضرت سید عشرت جمیل میر صاحبv کی نماز جنازہ اتوار صبح سوا چھ بجے جامعہ اشرف المدارس گلستانِ جوہر بلاک:۱۲ سندھ بلوچ ہاؤسنگ سوسائٹی میں ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ مولانا شاہ حکیم محمد مظہر صاحب نے پڑھائی اور حضرت حکیم محمد اختر صاحبv کے پہلو میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت سید عشرت جمیل صاحبv کی بال بال مغفرت فرمائے، آپ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے، آپ کو جنت الفردوس کا مکین بنائے اور آپ کے جملہ متعلقین ومریدین ، اعزہ واقرباء کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین