بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضرت سفیان بن عیینہ ؒ   کی اہلِ علم کو نصائح

حضرت سفیان بن عیینہ ؒ   کی اہلِ علم کو نصائح

اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدیہ (l) کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی برکت سے ایسے رجال عطا فرمائے ہیں،جن سےقرآن وسنت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انسانوں کی اصلاح وارشاد اور تزکیہ نفس کا کام بھی لیا ہے، ان شخصیات کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں اورخصوصیات وصفات سے نوازا ہے،ان ممتاز شخصیات میں سے ایک حضرت سفیان بن عیینہ  رحمۃ اللہ علیہ  بھی ہیں ،ان کی شخصیت اہلِ علم کے تمام طبقات خواہ وہ حدیث سے شغف رکھتے ہوں یاتفسیر سے، چاہے ان کا تعلق فقہ سے ہو یا تصوف سے ، نیز علم کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والے کے ہاں ان کی شخصیت ڈھکی چھپی نہیں،ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے بیک وقت کئی صفات عطا فرما رکھی تھیں، ان میں موجود منجملہ صفات میں سے ایک صفت حکمت و دانائی بھی تھی،چنانچہ اسی وجہ سے امام احمد بن عبداللہ عجلی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب ’’معرفۃ الثقات‘‘ میں ان کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’وکان يعد من حکماء أصحاب الحديث‘‘ (۱) اس تحریر میں ان کی اسی صفت کا مظہر پیش کرنا مقصود ہے۔

آپ کی اہلِ علم کو نصائح

حقیقی عالم

’’قال سفيان بن عيينۃ: ليس العالم الذي يعرف الخير والشر، إنما العالم الذي يعرف الخير فيتبعہ، ويعرف الشر فيجتنبہ۔‘‘(۲)
’’سفیان بن عیینہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: عالم وہ نہیں ہے جو خیر اور شر کو پہچانتا ہو،حقیقی عالم وہ ہے جو خیر کو پہچان کر اس کی اتباع کرے اورشر کو پہچان کر اس سے اجتناب کرے۔‘‘

علم کب نقصان پہنچاتا ہے؟

’’العلم إن لم ينفعک ضرک۔‘‘(۳)
’’اگر علم تجھے نفع نہیں دے گا تو نقصان پہنچائے گا ۔‘‘

علم کی زیادہ ضرورت کس کو ہے؟

’’قال: أحوج الناس إلی العلم العلماء، وذٰلک أنّ الجہل بہم أقبح؛ لأنّہم غايۃ الناس، وہم يسألون۔‘‘(۴)
’’ (ایک مرتبہ کچھ لوگ سفیان بن عیینہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے پاس حاضر ہوکر پوچھنے لگے کہ علم کی سب سے زیادہ احتیاج کس کو ہے؟) آپ نے فرمایا:علماء کو علم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور عالم کا علم سے دور ہونا قبیح چیز ہے؛اس لیے کہ لوگ ضرورت کے موقع پر علماء سے ہی پوچھتے ہیں اوران کی بھاگ دوڑعلماء کی طرف ہی ہوتی ہے۔‘‘

علم کی مثال

’’قال:تدرون ما مثل العلم؟ مثل العلم مثل دار الکفر ودار الإسلام، فإن ترک أہل الإسلام الجہاد، جاء أہل الکفر، فأخذوا الإسلام، وإن ترک الناس العلم، صار الناس جہالا۔‘‘ (۵)
’’ایک دفعہ سفیان بن عیینہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ: کیا تم جانتے ہو کہ علم کی کیا مثال ہے؟ پھر خود ہی فرمایا: علم کی مثال دارالاسلام اور دار الکفر کی سی ہے،چنانچہ اگر اہلِ اسلام نے جہاد چھوڑ دیا تواہلِ کفر آجائیں گے،اور اسلام کو(اپنے محروسہ علاقوں سے) ختم کر دیں گے،اسی طرح اگر لوگوں نے علم کو ترک کر دیا تو لوگ جاہل ہو جائیں گے۔‘‘

قیامت میں سب سے زیادہ حسرت کرنے والےاشخاص

’’عن سفيان بن عيينۃ، کان يقال: أشد الناس حسرۃ يوم القيامۃ ثلاثۃ: رجل کان لہٗ عبد فجاء يوم القيامۃ أفضل عملًا منہ، ورجل لہ مال، فلم يتصدق منہ، فمات، فورثہٗ غيرہ، فتصدق منہ، ورجل عالم لم ينتفع بعلمہٖ، فعلم غيرہٗ، فانتفع بہ۔‘‘(۶)
’’سفیان بن عیینہ  رحمۃ اللہ علیہ  سے منقول ہے کہ: کہا جاتا ہے کہ قیامت کےدن تین قسم کے افراد سب سے زیادہ حسرت کا شکار ہوں گے:
۱:ایک وہ مالک جس کا غلام قیامت کے دن اس سے زیادہ عمل لیے ہوئے ہو۔
۲:دوسرا وہ مالدار آدمی جو اپنے مال کا صدقہ ادا نہ کرتا ہو ،اس کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء اس کے مال کے مالک بن کر اس میں سے صدقہ ادا کریں ۔
۳:تیسرا وہ عالم جو خود تو اپنے علم سے نفع نہ اُٹھائے، البتہ اس نے جن کو سکھایا ہے، وہ اس سے منتفع ہوں۔‘‘

علم کو طلب کرنا ورع ہے

’’وسئل عن الورع، فقال: الورع طلب العلم الذي يعرف بہ الورع، وہو عند قوم طول الصمت وقلۃ الکلام، وما ہو کذٰلک، أنّ المتکلم العالم أفضل عندنا وأورع من الجاہل الصامت۔‘‘ (۷)
’’کسی نے آپ سے ورع (تقویٰ) کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ: ایسا علم حاصل کرنا جس سے ورع کی پہچان ہو، یہی حقیقت میں ورع (تقویٰ) ہے۔ پھر فرمایا کہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ زیادہ دیر خاموش رہنا اور کم گو ہونا یہ ورع ہے، حالانکہ یہ صحیح نہیں، بلکہ ہمارے ہاںمتکلم عالم ’’جاہل صامت‘‘ سے زیادہ افضل اور اورع ہے۔‘‘

سب سے زیادہ قابلِ علاج بیماریاں

’’قال سفيان: قال رجل من العلماء: اثنتان: أنا أعالجہما منذ ثلاثين سنۃ: ترک الطمع فيما بيني وبين الناس، وإخلاص العمل للہ عزوجل۔‘‘(۸)
’’سفیان بن عیینہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا :علماءمیں سے کسی نے کہا کہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کا میں تیس سال سے علاج کر رہا ہوں،(وہ یہ ہیں) ۱:ایک یہ کہ میرے اور لوگوں کے درمیان طمع نہ رہے۔ ۲:دوسرایہ کہ میرا ہر عمل خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔‘‘

عالم کے لیل و نہار

’’قال سفيان بن عيينۃ: إذا کان نہاري نہار سفيہ، وليلي ليل جاہل، فما أصنع بالعلم الذي کتبت۔‘‘ (۹)
’’آپ فرمایا کرتے تھےکہ: جب میرا دن بیوقوف آدمی کے دن کی طرح گزرے اورمیری رات جاہل آدمی کی رات کی طرح گزرے، تو میں اس علم کا کیا کروں جس کو میں لکھ رہا ہوں؟! ۔‘‘

علم کےپانچ مراحل

’’قال ابن عيينۃ: أول العلم الاستماع، ثم الإنصات، ثم الحفظ، ثم العمل، ثم النشر۔‘‘ (۱۰)
’’سفیان بن عیینہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرمایا کرتے تھے: علم (علمی میدان) میں سب سے پہلا مرحلہ استماع (غور سے سننا) کا ہے، (دوسرامرحلہ) انصات (خاموش رہنے) کا ہے، (تیسرا مرحلہ) حفظ (یاد کرنے) کا ہے، (چوتھا مرحلہ) عمل کا ہے، اور (پانچواں مرحلہ) نشر (اس علم کو دوسروں تک پہنچانے) کا ہے۔‘‘
’’لا أدري‘‘ کی اہمیت
’’قال سفيان بن عيينۃ: إذا ترک العالم لا أدري أصيبت مقاتلہ۔‘‘ (۱۱)
’’سفیان بن عیینہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:جب عالم یہ کہناچھوڑ دے گا کہ:’’میں نہیں جانتا‘‘تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دے گا۔‘‘
جب کوئی عالم اپنے اوپر یہ لازم کر لےکہ جوسوال مجھ سے کیا جائے گا،میں نے اس کا جواب دینا ہے، چاہے مجھے اس کا جواب آتا ہویا نہ آتا ہو،میں نے یہ نہیں کہنا کہ: ’’مجھے نہیں آتا‘‘ تو گویا کہ اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا۔

حواشی و حوالہ جات

۱:-معرفۃ الثقات لأبي الحسن أحمد بن عبداللہ العجلي: ۱/۴۱۷، باب سفيان، تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي، ط: مکتبۃ الدار–م- المدينۃ المنورۃ، الطبعۃ الأولی، ۱۴۰۵ھ .
۲:-تہذيب الکمال للمزي:۱۱/۱۹۱-۱۹۲، سفيان بن عيينۃ، تحقيق:د.بشار عواد، ط:مؤسسۃ الرسالۃ- بيروت، ۱۴۰۰ھ.
۳:-أیضاً:۱۱/۱۹۲.
۴:-أیضاً:۱۱/۱۹۲.
۵:-أیضاً:۱۱/۱۹۳.
۶:-أیضاً:۱۱/۱۹۳.
۷:-أیضاً:۱۱/۱۹۴.
۸:-حليۃ الأولياء لأبي نعيم الأصبہاني:۷/۲۷۱، سفيان بن عيينۃ، ط: دار الکتاب العربي- بيروت، الطبعہ الرابعۃ:۱۴۰۵ھ.
۹:-أیضاً:۷/۲۷۱.
۱۰:-أیضاً:۷/۲۷۴.
۱۱:-أیضاً:۷/۲۷۴.

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین