بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت بنوریؒ کے شاگرد، جامعہ کے قدیم استاذ حضرت مولانا عبدالرزاق لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ 

حضرت بنوریؒ کے شاگرد، جامعہ کے قدیم استاذ حضرت مولانا عبدالرزاق لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ 


محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ ، حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدسواتی اور امامِ اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نور اللہ مراقدہم کے شاگرد، جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے قدیم استاذ‘ استاذ العلماء حضرت مولانا عبدالرزاق لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ  اس دنیائے رنگ وبو میں ۸۲ برس گزار کر راہیِ عالمِ عقبیٰ ہوگئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ماا ٔخذ ولہٗ ماأعطٰی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
آپ کی پیدائش ۱۹۴۲ھ میں محترم جناب علی محمدؒ کے گھر ہندوستان کے ضلع لدھیانہ ’’نیا محلہ‘‘ میں ہوئی، ابھی آپ چھ ماہ کے تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تھا، آپ کی پرورش آپ کی پھوپھی صاحبہ نے کی۔ ابتدائی تعلیم لدھیانہ میں آپ کے آبائی گاؤں میں ہوئی۔ پاکستان بن جانے کے بعد پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں سکونت اختیار کی، شروع میں چار جماعت اسکول پڑھا۔ آپ کا دل قرآن کریم کی طرف راغب ہوا تو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں داخلہ لیا، تمام کتب یہیں پڑھیں۔ محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ سے دورہ حدیث کی کتابیں پڑھنے کا شرف حاصل کرنے کے لیے اس وقت کے مدرسہ عربیہ کراچی اور آج کے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کا قصد کیا۔ ۱۹۶۴ء میں دورہ حدیث سے فاتحہ فراغ پڑھا۔ حضرت بنوری قدس سرہٗ نے اپنے ادارہ میں ان کا تقرر کیا، اس وقت سے تادمِ واپسیں تقریباً ۵۶، ۵۷ سال اسی ادارہ کے ہوکر رہے اور مختلف شعبوں میں کام کرتے رہے، کچھ عرصہ ماہنامہ بینات کے ناظم بھی رہے۔ حضرت کے حالات پر ہماری جامعہ کے ہونہار استاذ حضرت مولانا عمر انور بدخشانی حفظہ اللہ نے مختصر مگر پر اثر شذرہ لکھا ہے، اسی کو کسی قدر حک واضافہ کے بعد یہاں نقل کرتا ہوں، آپ لکھتے ہیں:
استاذ جی کا تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بہت زور ہوتا تھا ، یہ ان کا خاص امتیازی وصف تھا ، طلبہ کی وضع قطع ، نشست برخاست اور بول چال پر گاہے بگاہے تنبیہ و اصلاح فرماتے تھے۔ شاگردوں اور طلبہ پر ان کی نگاہ صرف جامعہ کے احاطہ تک محدود نہ تھی ، بلکہ جامعہ سے باہر بھی وہ طلبہ پر کڑی نگاہ رکھتے اور وقتاً فوقتاً تنبیہ فرماتے رہتے تھے ، وہ صحیح معنوں میں استاذ بھی تھے اور مشفق ومربی بھی تھے۔
استاذ جی اپنے خاص منفرد مزاج اور طبیعت کے اعتبار سے درویش صفت انسان تھے۔ ان کی زندگی میں سادگی حد درجہ غالب تھی ، اس حوالے سے وہ عجیب وغریب اوصاف کے مالک تھے۔ ایک بار سبق کے دوران بتایا کہ میں کپڑوں کے دو جوڑے سے زیادہ نہیں رکھتا۔ ہدیہ میں کوئی شاگرد جوڑا لے جاتا تو صاف کہہ دیتے کہ میرے پاس ضرورت کے کپڑے موجود ہیں، ضرورت سے زائد میں رکھتا نہیں، کسی اور کو دے دیں۔ اپنے کام خود کرنے کے عادی تھے ، گھر کا سودا سلف آخر عمر تک خود لاتے رہے، بیٹوں اور شاگردوں نے کئی بار اصرار کیا کہ ہم  لے آئیں گے ، لیکن انہوں نے سختی سے منع کردیا ۔ ابھی گزشتہ چند سال قبل تک بھی گھر کا سامان لینے کے لیے خود سائیکل پر نکل پڑتے۔ کتنی بار مخلص شاگردوں نے خواہش ظاہر کی اور اس کا انتظام بھی کردیا کہ استاذ جی حج یا عمرہ کے لیے تشریف لے جائیں ، ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ میرا فرض حج اور نفلی عمرہ دونوں ادا ہوگئے ہیں، اب میں اس کا مستحق نہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کوئی شاگرد تحفہ میں ان کے لیے گوشت لے گیا تو فرمایا کہ گھر میں ہماری ضرورت کا گوشت موجود ہے ، یہ کسی اور کو دے دیں۔
مزاج میں احتیاط کا یہ عالم تھا کہ تعلیمی سال کے آخر میں جامعہ کے دفتر محاسب میں پابندی سے ایک مخصوص رقم صرف اس مد میں جمع کراتے کہ میں درسگاہ یا دفتر وغیرہ میں جامعہ کی بجلی پانی ودیگر لازمی وضروری اسباب وغیرہ میرے استعمال میں آجاتے ہیں تو اس کا حق تو ادا نہیں ہوسکتا، البتہ میری طرف سے کچھ مداوا ضرور ہوجائے۔
چند سال قبل جامعہ میں اساتذہ کرام کے مشاہروں میں اضافہ ہوا تو استاذ جی نے وہ اضافہ لینے سے سختی سے انکار کردیا کہ جتنا مشاہرہ ابھی ہے، یہ میرے اور گھر والوں کے لیے کافی ہے ، اس سے زیادہ میں نہیں لوں گا ، کئی ماہ تک انہیں وہ اضافہ پیش کیا جاتا رہا ، لیکن استاذ جی اپنی بات پر قائم رہے اور وصول نہ فرمایا ، بالآخر جامعہ کی انتظامیہ کی طرف سے محاسب سے یہ کہا گیا کہ یہ اضافہ ان کے نام سے الگ جمع کرتے جائیں ، ان کی طبیعت ، مزاج اور عادات کے بے شمار واقعات ہیں، جنہیں یہاں اس وقت نقل کرنا ممکن نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ استاذ جی کی علمی وعملی خدمتوں کو قبول فرمائے ، (آمین) یقیناً گزشتہ ۵۶ برس سے متواتر پڑھانے والے استاذ و مربی کے شاگرد اس وقت ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے مختلف علاقوں میں دین کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں، وہ بھی استاذ جی کے لیے صدقہ جاریہ ہوں گے۔
استاذ جی کو قریب سے دیکھنے اور جاننے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ وہ جن منفرد اوصاف کے حامل تھے، انہیں دیکھتے ہوئے یہ کہنا یقیناً مبالغہ نہ ہوگا کہ وہ واقعتاً حقیقی معنوں میں ’’اسلاف کی یادگار‘‘ تھے اور ایسے لوگوں کا اُٹھ جانا ہمارے لیے خیر اور برکتوں سے محرومی کا سبب نہ ہو : اللّٰہم لاتحرمنا أجرہ ولا تفتنا بعدہ۔ (آمین)۔
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم 
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم 
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک 
اے اہل زمانہ! قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم ‘‘
دو ماہ قبل ۲۱؍ ربیع الاول مطابق ۱۳ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو شدید بیماری میں ہسپتال میں داخل ہوئے، ۱۸ دن آئی سی یو میں داخل رہے، آپ کا ایک گردہ تقریباً ۳۰ سال قبل نکال دیا گیا تھا، اسی مرض کی تشخیص ہوئی، کچھ افاقہ کے بعد ہسپتال سے گھر واپس آگئے، ۱۲، ۱۳ دن گھر میں گزارے، پھر طبیعت خراب ہونے پر دوبارہ ہسپتال میں داخل ہوئے، کچھ دن ہسپتال میں داخل رہے، پھر کچھ افاقہ ہونے پر گھر تشریف لے آئے، وفات سے پہلے تقریباً دو ماہ اسی طرح بیماری کی حالت میں گزرے، ۲۳؍ جمادی الاولیٰ مطابق ۲۸ ؍دسمبر ۲۰۲۱ء بروز منگل ایک بج کر دس منٹ پر انتقال فرمایا۔ اس دن مغرب کی نماز کے بعد جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جس کی امامت آپ کے بڑے صاحبزادے اور جامعہ کے استاذ مولانا محمد طیب لدھیانوی طول عمرہٗ نے کرائی اور ڈالمیا قبرستان میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
آپ نے پسماندگان میں ایک بیوہ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ 
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرتؒ کی کامل مغفرت فرمائے، آپ کی حسنات وخدمات کو قبول فرمائے، اور پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین