بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

بینات

 
 

حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور غزنوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ  .... ایک نابغۂ روزگار شخصیت

حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور غزنوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ 

ایک نابغۂ روزگار شخصیت


حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور صاحب قُدِّس سرُّہٗ فاضل وسابق استاذ جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد (انڈیا) وشیخ الحدیث جامعہ نور المدارس فاروقی، غزنی افغانستان، اپنے زمانے کی ایک ایسی نابغۂ روزگار شخصیت تھے، جن کی تعلیم وتربیت کا فیض جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد کی وساطت سے متحدہ ہندوستان کے کونے کونے تک اور پھر جامعہ نور المدارس فاروقی، غزنی میں ایک طویل عرصے تک شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہونے کے ذریعہ افغانستان کے چپے چپے تک پھیل گیا تھا۔
موصوف کے علوم سے جہاں حضرت مولانا مفتی محمود صاحب سابق شیخ الحدیث وصدر مفتی مدرسہ قاسم العلوم ملتان وسابق ناظم عمومی جمعیت علمائے اسلام پاکستان (متوفّٰی: ۱۴۰۰ھ مطابق ۱۹۸۰ء) قُدِّس سرُّہٗ جیسے مفکرِ اسلام وعلمبردارِختمِ نبوت فیض یاب ہوئے، وہاں افغانستان کی سرزمین پر شہیدِ اسلام ضیاء المشایخ حضرت مولانا ابراہیم مجدّدی فاروقی نقشبندی سرپرستِ اعلیٰ جامعہ نور المدارس فاروقی، غزنی قُدِّس سرُّہٗ جیسے اہلِ علم وتقویٰ نے زانوئے تلمذ تہ کیا۔
واضح رہے! صوبۂ غزنی میں واقع جامعہ نور المدارس فاروقی، افغانستان کا سب سے مشہور دینی ادارہ ہے، جس کی بنیاد کابل میں مقیم مجدّدی خاندان کے ایک بزرگ وروحانی عالمِ دین نور المشایخ حضرت مولانا فضل عمر مجدّدی فاروقی نقشبندی صاحب (متوفّٰی: ۱۳۷۶ھ) رحمۃ اللہ علیہ نے سال ۱۳۶۱ھ کو رکھی تھی۔ حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور غزنوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس ادارے میں پینتیس سال تک شیخ الحدیث رہے، جہاں ان کے علوم سے فیض یاب ہوکر بے شمار علماء، مفکّرین اور مجاہدین پیدا ہوئے، جن میں بانی جامعہ کے فرزندِ ارجمند ضیاء المشایخ حضرت مولانا ابراہیم مجدّدی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل تھے، جو اپنے والد ماجد کے وصال کے بعد سے ۱۳۹۹ھ تک جامعہ کے سرپرست رہے۔ ۱۳۹۹ھ کو روس نواز نور محمد ترکئی کی ظالم وجابر حکومت نے ان کو اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو گرفتار کرکے سب کو شہید کردیا، تقبَّل اللہُ شہادتَہم۔

جامعہ نور المدارس اور مجدّدی خاندان سے حضرت علّامہ بنوریؒ کا تعلُّق

مذکورہ بالا جامعہ نور المدارس فاروقی، غزنی اور مجدّدی خاندان سے محدّث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کا خصوصی تعلُّق رہا ہے، چنانچہ ’’بصائر وعبر‘‘ (جلد دوم، ص:۴۹۲) میں انہوں نے مذکورہ بالا دونوں بزرگوں (باپ بیٹے) کا بلند القاب کے ساتھ تذکرہ فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ ’’کچلاک‘‘ صوبہ بلوچستان میں مقیم میرے محترم استاذ حضرت مولانا احمد سعید آخوندزادہ صاحب مدظلُّہم العالی فاضل جامعہ نور المدارس فاروقی (سالِ فراغت: ۱۳۸۹ھ) نے ایک دفعہ فرمایا کہ محدّث العصر حضرت علّامہ بنوری قُدِّس سرُّہٗ کا کابل کے مجدّدی خاندان اور ان کے قائم کردہ دینی ادارے جامعہ نور المدارس فاروقی سے گہرا تعلُّق تھا اور میں جس زمانے میں جامعہ نور المدارس فاروقی میں زیر تعلیم تھا، اس زمانے میں حضرت علّامہ بنوریؒ نے اپنے خصوصی تعلُّق کی بنیاد پر اس جامعہ کا دورہ فرمایا تھا، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا تھا، اس زمانے میں ضیاء المشایخ حضرت مولانا ابراہیم مجدّدی رحمۃ اللہ علیہ جامعہ کے سرپرستِ اعلیٰ اور حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی رحمۃ اللہ علیہ اس کے شیخ الحدیث تھے۔

حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حالات کا ماخذ

راقم الحروف کو اللہ تعالیٰ کی توفیق وخصوصی فضل وکرم سے حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ان کی زندگی کے آخری حصے میں زانوئے تلمذ تہ کرنے، ان سے استفادہ کرنے اور ان کے سبق آموز واقعات سے واقف ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ سب سے پہلے ان ہی کے توسط سے احقر کو دارالعلوم دیوبند سے واقفیت بھی حاصل ہوئی ہے، جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
احقر نے حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کے حالاتِ زندگی قلمبند کرنے میں ذاتی معلومات کے ساتھ ساتھ ان کے محترم صاحبزادے حضرت مولانا عبد الحی غزنوی صاحب (متوفّٰی: ۱۴۴۱ھ) رحمۃ اللہ علیہ سے بذریعۂ تحریر سال ۱۴۳۷ھ کو اور پھر ایک دفعہ بذریعۂ فون معلومات حاصل کرلی تھیں، اور اسی طرح حضرت الاستاذؒ کے شاگرد وخادمِ خاص استاذ الحدیث حضرت مولانا محمد جعفر صاحب مدظلُّہم سے بتاریخ ۲۸؍شعبان ۱۴۴۲ھ ملاقات کرکے بالمشافہہ کچھ حالات معلوم کیے تھے، اس کے علاوہ بعض مقامات میں ماہنامہ ’’ندائے شاہی‘‘ کی خصوصی اشاعت سے بھی مدد حاصل کی گئی ہے۔

ولادت وبچپن

حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کی ولادت ۱۳۱۳ھ کے آس پاس افغانستان کے صوبہ ’’غزنی‘‘ ضلع ’’آب بند‘‘ میں واقع ’’دوکوہی‘‘ نامی گاؤں کے ایک غریب گھرانے میں ہوئی۔ والد کا نام عبد الوہاب تھا، وہ عالمِ دین تو نہیں تھے، البتہ ایک مخلص ومتدیّن محنت کش مسلمان ضرور تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو تین بیٹوں سے نوازا، جن میں سے بڑے کا نام خدائے داد، دوسرے کا عبد الغفور اور تیسرے کا عبدالقادر تھا۔ یہ تینوں بھائی بچپن ہی میں اپنے والدین کے سایہ سے محروم ہوکر یتیم ہوگئے اور مالی مجبوری کے تحت مزدوری کرتے ہوئے اُجرت پر اپنے گاؤں والوں کی بھیڑ بکریاں چَرانے لگے۔ ایسا لگتا ہے کہ چونکہ ان تینوں حضرات کو آگے چل کر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے علمائے حق بن کر انبیاء عَلَیہم السَّلام کی علمی وراثت کو نبھانا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو بکریاں چَرانے کا موقع عنایت فرمایا، جو ایک صحیح حدیث کے مطابق تمام انبیاء عَلَیہم السَّلام کا طریقہ رہاہے۔

دینی تعلیم کا آغاز اور ایک حیرت انگیز غیبی مدد

بچپن میں اپنے والد ماجد کے سایۂ عطوفت سے محروم ہونے اور پھر مجبوری کے تحت بکریاں چَرانے کے باوجود حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ اور ان کے دونوں بھائیوں کے دل میں دینی تعلیم کا رجحان کیسے پیدا ہوا؟ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل ایک حیرت انگیز غیبی مدد کا واقعہ احقر نے براہِ راست حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور غزنوی صاحب قُدِّس سرُّہٗ سے سنا ہے اور پھر ان کے حالات سے سب سے زیادہ واقفیت رکھنے والے ان کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا عبد الحی غزنوی صاحبؒ اور ان کے شاگرد وخادمِ خاص حضرت مولانا محمد جعفر صاحب مدظلُّہم سے بھی تصدیق کرائی ہے، جس سے مزید اطمینان حاصل ہوگیا۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولانا عبد الغفور صاحبؒ نے فرمایا کہ میری عمر تقریباً دس برس کی تھی اور میں حسبِ معمول جنگل میں بکریاں چَرا رہاتھا کہ ایک دن اچانک سفید لباس وعمامہ میں ملبوس ایک سفید ریش آدمی ظاہر ہوا اور مجھے اپنے ساتھ گاؤں کی جانبِ شرقی میں واقع ایک پہاڑ کے دامن کی طرف لے گیا، اور وہاں پر قبلہ رخ ہوکر تشہد کی ہیئت میں بیٹھ کر مجھے اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف اپنے ساتھ کھڑا کردیا، اس دوران پہاڑ کی چوٹی پرایک تیز روشنی نمودار ہوئی، جو آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھتی رہی، مجھ پر ایک خوف کی کیفیت طاری ہوگئی اور جسم کانپنے لگا، جب روشنی بالکل قریب آئی تو سفید لباس وعمامہ میں ملبوس کالے بال والا دوسرا ایک خوبصورت جوان آدمی ظاہر ہوا، جس نے میرے ساتھ بیٹھے ہوئے بزرگ کو سلام کیا، بزرگ نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اس جوان شخص سے کہا کہ اس لڑکے کے حق میں دعا کیجئے کہ اللہ اسے بہترین عالمِ دین بنادے! اس پر دونوں نے میرے حق میں دعا کی اور پھر اس بزرگ شخص نے میرے سامنے والے دانتوں پر اپنی شہادت کی انگلی مارتے ہوئے کہا کہ: ’’یہ دانت چرواہے کے ہرگز نہیں! یہ تو ایک ممتاز عالمِ دین کے دانت ہیں، تم بکریاں چَرانا چھوڑدو اور جاکر علمِ دین حاصل کرنے کے لیے کمربستہ ہوجاؤ اور گھبراؤ مت۔‘‘
حضرت الاستاذؒ نے فرمایا کہ جب میں وہاں سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہونے لگا تو پیچھے دیکھا، وہاں کوئی آدمی نظر نہیں آیا، دونوں حضرات غائب ہوگئے تھے۔ ادھر میرے بڑے بھائی کو جب اندازہ ہوا کہ میں مقررہ وقت پر گھر نہیں پہنچا تو وہ فکرمند ہوکر گاؤں کے اندر مجھے جگہ جگہ ڈھونڈنے لگے، وہ میری تلاش میں تھے کہ میں گھر پہنچ گیا اور مذکورہ واقعہ ان کوسنایا، وہ چونکہ مجھ سے دوسال بڑے اور فہمیدہ تھے، اس لیے انہوں نے کہا کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، کاش! آپ ان حضرات سے میرے حق میں بھی دعا کرواتے۔
حضرت والاؒ فرمایا کرتے تھے کہ مذکورہ بالا واقعہ کے بعد ہی میری کیفیت یہ ہوگئی کہ اپنے بڑے بھائی سے اصرار کرنے لگا کہ مجھے آج ہی علمِ دین حاصل کرنے کے لیے نکلنا ہے، بڑے بھائی نے سمجھایا کہ رُک جاؤ، آج کچھ تیاری کرلیتے ہیںاور کل ہی ان شاء اللہ تینوں بھائی اس مقصد کے لیے روانہ ہوںگے۔ چنانچہ اگلے دن ہی تینوں بھائی خدائے داد (عمر تقریباً بارہ سال)، عبد الغفور (عمر تقریباً دس سال) اور عبدالقادر (عمر تقریباً آٹھ سال) اپنے ماموں کی خدمت میں جو ذرا فاصلے پر دوسرے گاؤں میں رہتے تھے اور عالم دین تھے حاضر ہوئے اور ان کے پاس اپنی تعلیم کا آغاز کردیا۔ ان کی ذہانت ودلچسپی کو دیکھتے ہوئے ماموں جان نے بڑی توجہ سے تعلیم دیتے ہوئے قاعدہ، ناظرہ قرآن پاک، ابتدائی فارسی اور پھر علمِ صرف کی ابتدائی کتاب ’’صرفِ بہائی‘‘ ان کو پڑھائی۔

ڈیرہ اسماعیل خان کا سفر اور حضرت سید عبد الحلیم شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری

اپنے ماموں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تینوں بھائیوں نے مزید تعلیم کے حصول کے لیے اپنے علاقے سے روانہ ہوکر ڈیرہ اسماعیل خان کا رخ کیا، جہاں ’’پنیالہ‘‘ مقام میں واقع ’’خانقاہ یٰسین زئی‘‘ کے حضرت سید عبد الحلیم شاہ صاحب (متوفّٰی: ۱۳۵۴ھ) رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مذکورہ خانقاہ میں حضرت سید عبد الحلیم شاہ صاحبؒ کی زیرِسرپرستی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت واصلاح کا بھی بہترین انتظام تھا۔ حضرت سید عبد الحلیم شاہ صاحبؒ ایک صاحبِ بصیرت وفراست بزرگ تھے، جو تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ اور عام لوگوں کی تربیت پر بھی بہت توجہ دیا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ اس میدان میں ان سے بڑا کام لے رہے تھے۔
آپ کے خلفاء میں دوسری عظیم شخصیات کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب قُدِّس سرُّہٗ سابق ناظم عمومی جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے والد ماجد حضرت خلیفہ محمد صدیق صاحب (متوفّٰی: ۱۳۷۱ھ) رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل تھے۔
حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ اور ان کے دونوں بھائیوں نے حضرت سید عبد الحلیم شاہ صاحبؒ کی زیرِسرپرستی ’’خانقاہ یٰسین زئی‘‘ میں کچھ عرصے تک رہتے ہوئے ’’شرح جامی‘‘ تک تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے تربیت بھی حاصل کرلی۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اپنی خداداد فراست کے ذریعے حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کی غیر معمولی ذہانت وفطانت کو محسوس کرتے ہوئے انہیں ’’جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد‘‘ جانے اور وہاں پر بقیہ تعلیم مکمل کرنے کا مشورہ دیا اور ایک سفارشی تحریر بنام حضرت مولانا سید فخر الدین احمد صاحبؒ صدر المدرسین جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد اور دوسری بنام حضرت مولانا عجب نور صاحب بنویؒ استاذِ جامعہ لکھ کر دونوں تحریریں اور راستے کا خرچہ ان کے حوالہ کرتے ہوئے شروع میں تو صرف ان ہی کو اور کچھ عرصہ بعد ان کے دونوں بھائیوں کو بھی خرچہ دے کر جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد روانہ کردیا۔

جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد سے فراغت اور پھر تدریس

جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد ہندوستان کے مشہور ومعروف دینی اداروں میں سے ہے۔ اس کی بنیاد بانی دارالعلوم دیوبند قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قُدِّس سرُّہٗ نے دارالعلوم دیوبند کی تأسیس کے تقریباً تیرہ سال بعد اسی کے نہج پر رکھی ہے۔ یہ دینی ادارہ بڑے بڑے اکابرین کے فیوض وبرکات کا مرکز رہا ہے۔ حضرت مولانا سید احمد حسن امروہویؒ تلمیذ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا عبد الرحمٰن امروہویؒ تلمیذ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا سید فخر الدین احمد صاحب مراد آبادیؒ جیسے جبال العلم وہاں کے صدر المدرسین کے علمی منصب پر فائز رہے ہیں۔ وہاں کے فیض یافتگان میں مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ، حضرت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ، حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ ناظمِ عمومی جمعیت علمائے اسلام پاکستان اور حضرت مولانا سید حامد میاں صاحب دیوبندیؒ جیسے اہلِ علم شامل رہے ہیں۔
حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ نے اپنے مربّی وسرپرست حضرت سید عبد الحلیم شاہ صاحبؒ کے مشورے سے ۲۲؍ شوال ۱۳۴۷ھ کو جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد میں داخلہ لیا اور ۱۳۵۴ھ کو دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی۔ آپ کی اعلیٰ صلاحیت وصالحیت کو دیکھتے ہوئے جامعہ شاہی کے اربابِ انتظام نے فراغت کے بعد آپ کو اپنی مادرِ علمی ہی میں تدریس کے لیے منتخب فرمایا، چنانچہ محرم ۱۳۵۵ھ سے شعبان ۱۳۵۸ھ تک آپ اس خدمت کو کامیابی ومقبولیت کے ساتھ انجام دیتے رہے، اس دوران انہوں نے اپنی خداداد صلاحیت ومحنت اور اخلاص وتقویٰ کی بنیاد پر مایۂ ناز شاگرد پیدا کیے، جن میں سے بعضوں کو آگے چل کر عالمی شخصیات کا مقام حاصل ہوگیا۔

حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ آپ کی تربیت وشاگردی میں

جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد میں پڑھاتے ہوئے حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ نے جو نامور شاگرد پیدا کیے، ان میں سے ایک حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ سابق ناظمِ عمومی جمعیت علمائے اسلام پاکستان بھی تھے۔ حضرت مفتی صاحبؒ اپنے استاذ حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کے بڑے مداح واحسان مند رہے۔ حضرت سید عبد الحلیم شاہ صاحبؒ نے حضرت مفتی صاحبؒ اور اپنے بچوں اور بھتیجوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد بھیجنے کا فیصلہ بھی اسی بنیاد پر کیا تھا کہ وہاں پر حضرت مولانا سید فخر الدین احمد صاحب مراد آبادیؒ کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا عجب نور بنوی صاحبؒ اور سید عبد الحلیم شاہ صاحبؒ کے مخلص وتربیت یافتہ شاگرد حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ جیسے قابلِ فخر اساتذہ موجود تھے۔ حضرت مفتی صاحبؒ زندگی بھر اپنے استاذ حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کو یاد کرتے ہوئے ان کے احسانات کے معترف رہے، یہاں تک کہ وہ اپنے علمی مقام وترقی اور خداداد مقبولیت کا ظاہری سبب حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کو قرار دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الحکیم اکبری صاحب خطیب جامع مسجد گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان مدظلُّہم نے حضرت مولانا مفتی محمود صاحب قُدِّس سرُّہٗ کے حالاتِ زندگی پر جو پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار کیا ہے، اس میں سے ایک عبارت کا خلاصہ نقل کیا جارہا ہے:
’’حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ حضرت مفتی صاحبؒ کے مراد آباد کے اساتذہ میں سے ہیں، حضرت مفتی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ: مجھے استاذِ محترم مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کی تربیت نے مولوی بنادیا ہے۔ زندگی میں قدم قدم پر میں ان کی تعلیمات اور ہدایات سے مستفید رہا ہوں۔‘‘ (مفتی اعظم مولانا مفتی محمودؒ کی علمی ودینی اور سیاسی خدمات، ص:۷۳)

عقدِ مسنون کی پیشکش اور حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کی معذرت

جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد میں تدریس کے دوران حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کے ایک مایۂ ناز استاذ نے آپ کی صلاحیت ومقبولیت اور اخلاص وتقویٰ سے متاثر ہوکر اپنی صاحبزادی کو آپ کے عقد میں دینے اور ایک دوسرے استاذ نے آپ کے لیے رہائش مہیا کرنے کی پیشکش کردی! تاہم آپ نے اپنے بڑے بھائی حضرت مولانا قاری خدائے داد صاحبؒ کے مشورے سے اپنے ملک افغانستان کی دینی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہاں پر دینی خدمت انجام دینے اور اپنے اکابر کی آواز کو وہاں تک پہنچانے کو ترجیح دیتے ہوئے مستقل طور پر جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد میں قیام کرنے اور وہاں پر عقدِ نکاح کرنے سے ادب کے ساتھ معذرت پیش کی۔

افغانستان واپسی اور حدیثِ نبوی کی پر خلوص خدمت

جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد میں چند سال پڑھانے کے بعد حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ اور آپ کے دونوں بھائیوں کو یہ احساس ہوا کہ اپنے ملک افغانستان میں حدیثِ نبوی کی خدمت کی زیادہ ضرورت ہے، اس لیے کہ افغانستان کے اکثر علمائے کرام کی زیادہ توجہ صرف علومِ عقلیہ، فقہ، اصولِ فقہ اور دیگر فنون کی طرف ہوتی ہے، جب کہ حدیث وعلومِ حدیث کی طرف ان کی توجہ نسبۃً کم ہوتی ہے، لہٰذا ہمیں اپنے ملک جاکر حدیث کی خدمت کرنی چاہیے۔
اس مقصد کے لیے افغانستان پہنچ کر انہوں نے اپنے ہی گاؤں ’’دوکوہی‘‘ میں جو شمال مشرقی غزنی میں واقع ہے، بے سرو سامانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے حدیث کی خدمت شروع کی۔ یہ گاؤں ایک معمولی اور غیر معروف گاؤں تھا، لیکن ان حضرات کے اخلاص ومحنت کی برکت سے آہستہ آہستہ پورے ملک میں مشہور ہوا، اور حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ بھی ’’مولانا صاحبِ دوکوہی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔

حسد ومخالفت کا ایک طوفان اور نصرتِ خداوندی

حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کو اللہ تعالیٰ نے علمی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ وعظ وتقریر کا ملکہ اور فصاحت وبلاغت کا وافر حصہ بھی عطا فرمایا تھا۔ اپنی خداداد علمی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے جب انہوں نے تشنگانِ علومِ نبوت کو تدریس کے ذریعے سیراب کرنا شروع کیا، اور اپنی فصاحت وبلاغت اور وعظ وتقریر کے ذریعے عامۃ الناس کی اصلاح اور بدعات ورسومات کے خاتمے کی کوشش شروع کی، تو ایک طرف علمِ دین حاصل کرنے والے طلبہ اور عامۃ الناس کے درمیان ان کو زبردست مقبولیت حاصل ہوئی اور دوسری طرف بعض حاسدین نے ان کی مقبولیتِ عامہ سے خائف ہوکر ان کے خلاف محاذآرائی شروع کی، ان کے مسلک وعقیدے پر بے جا اعتراضات واتہامات کا طوفان کھڑا کردیا۔
آپ کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری تھا کہ بعض علمائے حق جن میں سرفہرست راقم الحروف کے سگے دادا حضرت مولانا عبد الرحمٰن صاحب قُدِّس سرُّہٗ عرف ’’مولانا صاحبِ نانگہ‘‘ جو جنوبی غزنی میں واقع ’’نانگہ‘‘ نامی گاؤں میں درس وتدریس میں مصروف تھے اور پورے افغانستان میں ان کے علوم کا چرچا تھا، ان کی حمایت کے لیے آمادہ ہوئے۔ حضرت مولانا عبد الرحمٰن صاحبؒ کا حلقۂ اثر ورسوخ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اور ’’جامعہ نور المدارس فاروقی، غزنی‘‘ کے بانی وسرپرست اعلیٰ نور المشایخ حضرت مولانا فضل عمر صاحب مجدّدی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی خصوصی مراسم رکھتے تھے، اس لیے ان کی حمایت کا یہ اعلان بہت مؤثر ثابت ہوا اور اللہ تعالیٰ نے حاسدین کی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کی مقبولیت میں مزید اضافہ کردیا۔

جامعہ نور المدارس فاروقی میں بحیثیت شیخ الحدیث

حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ چند سال تک تو اپنے گاؤں ’’دوکوہی‘‘ میں تشنگانِ علومِ نبوت کو سیراب کرتے رہے، چند سال کے بعد افغانستان کی مشہور اور سب سے بڑی دینی درس گاہ ’’جامعہ نور المدارس فاروقی، غزنی‘‘ میں بحیثیت شیخ الحدیث مقرر ہوئے اور پینتیس سال تک اس منصب پر فائز رہے۔ اس دوران ملک کے گوشے گوشے سے طالبانِ علومِ نبوت نے آکر آپ سے بخاری شریف اور دیگر کتب پڑھیں اور آپ کے شاگردوں میں بے شمار مدرسین، مفکرین، مصنفین، مبلغین اور جہادی کمانڈر پیدا ہوئے۔ آپ اور آپ کے تربیت یافتہ شاگردوں نے جہاں جہاں بدعات ورسومات پھیلے ہوئے تھے، ان کی بیخ کنی اور اصلاحِ معاشرہ میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔

حضرت والا ؒ کی گرفتاری ورہائی

سال ۱۹۷۸ء کو جب افغانستان میں منحوس روسی انقلاب آیا تو اس نے سب سے پہلے علمائے کرام، دینی مدارس ومساجد کو نشانہ بنایا، چنانچہ جامعہ نور المدارس فاروقی اور اس کے علماء ومنتظمین بھی اس کی زد میں آگئے، مدرسہ کو ویران کردیاگیا اور منتظمین حضرات کے پورے خاندان کو جو مجدّدی خاندان سے مشہور اور ایک اطلاع کے مطابق تقریباً ساٹھ افراد پر مشتمل تھا اور پورے ملک میں ان کے متوسلین ومعتقدین پھیلے ہوئے تھے، شہید کر ڈالا۔ اس دوران حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کو بھی نہ بخشا گیا جو اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے کافی کمزور بھی ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود انہیں بھی حکومت نے گرفتار کیا۔ تاہم علاقے کے غیور عوام ایک بڑی تعداد میں حکومت کے سامنے جاکر ڈٹ گئے کہ ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک حضرت مولانا کو رہا نہ کیاگیا ہو، یا ہم سب کو پھانسی نہ دی گئی ہو۔ اس پر حکومت نے مجبور ہوکر حضرت مولانا کو رہا کردیا۔

جنوبی غزنی میں حضرت والا کا قیام اور احقر کے لیے آپ کے شاگرد بننے کا سنہرا موقع

روسی منحوس انقلاب کی زد میں آکر جب جامعہ نور المدارس فاروقی اور دیگر ادارے سب ویران ہوگئے تو حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ نے جنوبی غزنی میں واقع ’’قریب الدین‘‘ نامی ایک گاؤں کو اس کے باشندگان کے اصرار پر اپنا مقر بنایا۔ یہاں پر آپ بخاری شریف اور دیگر کتب بھی پڑھاتے تھے اور عوام کے فائدے اور اصلاح کے لیے درسِ قرآن بھی دیا کرتے تھے۔ ’’قریب الدین‘‘ نامی گاؤں راقم الحروف کے آبائی ’’نانگہ‘‘ نامی گاؤں سے صرف ایک کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا، احقر کی عمر سولہ سترہ سال کی تھی اور وہ اس وقت تفسیر وفقہ اور دیگر فنون کا طالب علم تھا۔ ’’قریب الدین‘‘ نامی گاؤں میں حضرت مولاناؒ کے قیام کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے والد ماجد کے توسُّط سے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے طالب علم بننے کی درخواست کی۔ حضرت والاؒ کو چونکہ میرے دادا مرحوم حضرت مولانا عبد الرحمٰن صاحبؒ عرف ’’مولانا صاحبِ نانگہ‘‘ سے کافی تعلُّق رہا تھا اور میرے والد ماجد سے بھی اچھے مراسم تھے، اس لیے انہوں نے درخواست بخوشی قبول فرمائی اور احقر کو اپنے درس میں شامل فرمایا۔ احقر نے علمِ تفسیر اور اصولِ فقہ میں استفادے کے ساتھ ساتھ ہدایہ اخیرین بھی سب سے الگ ہوکر ایک استاذ اور ایک ہی طالب علم کی صورت میں اُن سے پڑھی۔
یہ ایک سنہرا اور نہایت بابرکت موقع تھا کہ ایک کم مایہ طالب علم کو ایک بزرگ شیخ الحدیث اور استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ سے براہِ راست اور بلاشرکتِ غیر پڑھنے کی سعادت حاصل ہو رہی تھی، حقیقت یہ ہے کہ میری اس کیفیت پر حضرت سعدی شیرازیؒ کا مندرجہ ذیل شعر صادق آرہا تھا:

کلاہ گوشۂ دہقان بہ آسمان رسید
کہ سایہ بر سرش انداخت چوں تو سلطانی

ترجمہ ومفہوم: ’’ایک گنوار کاشت کار کی ٹوپی کا کنارہ اس وقت آسمان کو چھونے لگا، جب آپ جیسا عظیم المرتبت بادشاہ اس کے اوپر سایہ فگن ہوگیا۔‘‘

علمائے دیوبند اور بالخصوص شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ سے ان کی بے پایاں محبت اور احقر پر اس کا اثر

حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ سبق کے دوران اور اپنی عمومی مجالس میں علمائے دیوبند اور بالخصوص شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے ایمان افروز واقعات سناتے رہتے تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے اکثر وہ آبدیدہ بھی ہوجاتے تھے۔ احقر نے اس سے پہلے دارالعلوم دیوبند یا علمائے دیوبند کا کوئی تذکرہ نہیں سنا تھا، حضرت الاستاذؒ جیسے مایۂ ناز شیخ الحدیث سے اُن کا تذکرہ اور ایمان افروز واقعات سن کر میں یہ سوچتا کہ آخر یہ کیسے جلیل القدر علماء ہوںگے؟ کہ حضرت مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ جیسے عظیم المرتبت شیخ الحدیث بھی ان کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں! اور ان کے حیرت انگیز واقعات سناتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں!
یہاں سے احقر کے قلب میں دارالعلوم دیوبند اور وہاں کے اکابر بالخصوص شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب قُدِّس سرُّہٗ کی محبت وعقیدت جاگزیں ہوگئی، اور کم مائیگی اور ظاہری اسباب کے فقدان کے باوجود دل میں یہ تمنا روز بہ روز بڑھتی چلی گئی کہ کاش! اس ادارے کے سرچشمۂ فیض سے بہرہ مند ہونے اور وہاں کے مرحوم اکابرین کے موجودہ جانشینوں سے استفادہ کرنے اور ان کے سامنے زانوئے تلمذتہ کرنے کا موقع مل جاتا۔ خلاصہ یہ کہ احقر کے قلب میں دارالعلوم دیوبند اور وہاں کے اکابر سے متعلّق محبت وعقیدت کی داغ بیل سب سے پہلے حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ نے ڈالی تھی اور آج دارالعلوم دیوبند کی نسبت کی برکت سے اس سیاہ کار کو جو اپنی بےبساطی کے باجود دین کی ٹوٹی پھوٹی خدمت کا موقع مل رہا ہے، وہ حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ کا مرہونِ منت ہے۔

آپ کی طرف سے احقر کو دارالعلوم دیوبند جانے کا حکم

حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ سے تسلسل کے ساتھ اکابرِ دارالعلوم دیوبند کا تذکرہ سنتے ہوئے احقر کا قلب دارالعلوم دیوبند کے لیے بے تاب ہونے لگا، یہاں تک کہ حضرت الاستاذؒ نے دوٹوک الفاظ میں مجھے یہ حکم دیا کہ: ’’تم دارالعلوم دیوبند انڈیا تک جو برِصغیر کے تمام مدارس کی ماں کی حیثیت رکھتا ہے‘ پہنچنے اور وہاں پر بقیہ تعلیم مکمل کرنے کی کوشش کرو، میں تمہارے حق میں دعا کرتاہوں۔‘‘ اس وقت افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کا آغاز ہوگیا تھا، جس میں علمائے کرام اور دینی مدارس کے طلبہ پیش پیش تھے۔ احقر کو بھی جزوی طور پر اس جہاد میں کچھ نہ کچھ شرکت کا موقع ملاتھا، البتہ اپنی کم عمری کے باعث باقاعدہ شرکت نہ کرسکا تھا، بلکہ حتی الامکان اپنی تعلیمی مصروفیت میں لگا ہوا تھا۔ بعض علمائے کرام نے یہ فتویٰ بھی صادر کردیا تھا کہ: ’’اس ہنگامی صورت حال میں تعلیم سے زیادہ جہاد ضروری ہے، طلبہ اپنی تعلیم کو موقوف کرکے جہاد میں شرکت کریں۔‘‘
احقر نے حضرت الاستاذؒ سے مذکورہ فتویٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ جہاد کے بجائے اپنی تعلیم کو آگے بڑھانے کی صورت میں شریعت کی رو سے کوئی مؤاخذہ تو نہیں ہوگا؟ حضرت الاستاذؒ نے فرمایا کہ: جہاد کے لیے موزوں اور تجربہ کار افراد کی الحمد للہ کوئی کمی نہیں ہے، اور میںنے تمہارے علاوہ دیگر طلبہ کو جہاد کے بجائے تعلیم کی تکمیل کا حکم نہیں دیاہے، جن حضرات نے مذکورہ فتویٰ جاری کردیاہے، اسے عموم پر محمول نہ کیاجائے، وہ اکثر میرے شاگرد ہیں، تم ان کی بات کو چھوڑ کر میری بات پر عمل کرو، اور بطور استدلال اپنے فصیح وبلیغ انداز میں سورۂ توبہ کی مندرجہ ذیل ۱۲۲ نمبر آیت تلاوت کی: 
’’وَمَاکَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَافَّۃً ط فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ۔‘‘
ترجمہ: ’’اور مسلمانوں کو یہ نہیں چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں، لہٰذا ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ان کی ہرجماعت میں سے کچھ لوگ نکلتے، تاکہ دین میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنے لوگوںکے پاس جاتے تو ان کو آگاہ کرتے، تاکہ وہ بھی برائیوں سے بچ کر رہتے۔‘‘
حضرت الاستاذؒ کے حکم ووصیت کے بعد احقر نے سال ۱۴۰۰ھ مطابق ۱۹۸۰ء کے بالکل شروع میں رختِ سفر باندھ کر دار العلوم دیوبند جانے کے لیے سفر شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم اور حضرت الاستاذؒ کی دعاؤں کی برکت سے ایک ایسا کام جو ظاہری اسباب کے تحت ناممکن تھا، اس کو ممکن بنادیا، اور بے سروسامانی کی حالت میں احقر کو بالآخر دارالعلوم دیوبند پہنچا ہی دیا اور شروع میں وہاں کے طالب علم اور چند ہی مہینے بعد جامع مسجد دارالعلوم دیوبند کے امام وخطیب اور فراغت کے بعد وہاں کے مدرس بننے کی سعادت سے نوازا۔

حضرت الاستاذؒ کا تقویٰ وطہارت

حضرت الاستاذؒ قُدِّس سرُّہٗ کو جہاں رب العزت نے اعلیٰ علمی صلاحیتوں سے نوازا تھا، وہاں تقویٰ وطہارت، اخلاص وللہیت اور سنن وآدابِ اسلامیہ کی مکمل پابندی کی دولت سے بھی مالا مال فرمایاتھا۔ جس زمانے میں راقم الحروف کوان سے پڑھنے کی سعادت نصیب ہو رہی تھی، اس وقت ان کی عمر نوے سال کے قریب تھی، اس عمر میں بھی وہ تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ صفِ اول میں پانچوں نمازیں باجماعت ادا فرماتے تھے۔ رات کے آخری حصے میں کسی کو آگاہ کیے بغیر اپنی قیام گاہ سے اُٹھ کر ذرا فاصلے پر واقع پانی کی چھوٹی نالی پر (جسے مقامی زبان میں کاریز کہاجاتاہے) جاکر وضو فرماتے اور پھر مسجد میں جاکر تہجد کی نماز میں دیر تک مصروف رہتے۔ غزنی جیسے سرد علاقے میں سردی کے موسم کے اندر رات کے آخری حصے میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کے بعد تہجد کی نماز کے دوران کانپتے ہوئے ان کے دانتوںکے بجنے کی آواز احقر نے اپنے کانوں سے سنی ہے۔ آپ خود بھی ہرہر سنت کی پابندی فرماتے اور اپنے شاگردوں، متعلّقین اور عامۃ المسلمین کو بھی سنتوں کی پابندی کی تاکید فرماتے، اور آپ چونکہ جو بھی نصیحت فرماتے سب سے پہلے خود اس پر عمل کرتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان میں ایک غیر معمولی تاثیر پیدا کردی تھی، جس سے لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوجایا کرتی تھیں۔ آپ کی اصلاح وتلقین، دعوت وارشاد اور تعلیم وتربیت سے بے شمار خواص وعوام کو شریعت کی پابندی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی نصیب ہوئی۔

آپ کے تلامذہ وفیض یافتگان

آپ سے جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد انڈیا میں اور پھر افغانستان جاکر جامعہ نور المدارس فاروقی، غزنی میں اور اپنے آبائی گاؤں ’’دوکوہی‘‘ اور دوسرے گاؤں ’’قریب الدین‘‘ میں بے شمار تشنگانِ علومِ نبوت نے تعلیم وتربیت حاصل کی۔ احقر کو نہ تو ان سب کی تعداد کا پتہ ہے اور نہ ہی ان کے حالات کا علم، اور نہ ہی اس مختصر مضمون میں ان سب کا احاطہ ممکن ہے۔ آپ کے تمام تلامذہ وفیض یافتگان آپ کے لیے ان شاء اللہ صدقۂ جاریہ اور رفعِ درجات کا ذریعہ بنیں گے، تاہم اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ قیامت کے دن آپ کی نجات کے لیے صرف حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ جیسے شاگردِ رشید بھی کافی ہوںگے۔احقر نے دارالعلوم دیوبند میں اپنے اساتذۂ کرام سے سناہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے دن اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ محمود! کیا ذخیرہ اپنے ساتھ لے کر آئے ہو؟ تو میں عرض کروںگا کہ اے میرے رب! حسین احمد کو لایاہوں۔ اسی تناظر میں احقر عرض کرتاہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ سے پوچھا کہ کیا ذخیرہ اپنے ساتھ لے کر آئے ہو؟ تو شاید حضرت والاؒ یہ عرض کریںگے کہ: اے رب! مفتی محمود کو لایاہوں۔ حضرت مولانا عبد الغفور صاحب غزنویؒ کے چند تلامذہ کے نام نمونے کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں:
۱:-حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ ، سابق صدر مفتی وشیخ الحدیث مدرسہ قاسم العلوم ملتان وسابق ناظمِ عمومی جمعیت علمائے اسلام پاکستان۔
۲:- ضیاء المشایخ حضرت مولانا ابراہیم مجدّدی نقشبندی شہیدؒ ، سابق سرپرستِ اعلیٰ جامعہ نور المدارس فاروقی، غزنی، افغانستان۔
۳:- حضرت الاستاذ مولانا سید حبیب آخوندزادہ صاحبؒ عرف (آخوندزادہ صاحبِ لونگ)
۴:- حضرت مولانا عبد الحی غزنوی صاحبؒ صاحبزادہ محترم وسابق مدرس مسجد ’’دوکوہی‘‘۔
۵:- حضرت مولانا نصر اللہ منصور صاحب شہیدؒ ، سابق جہادی کمانڈر۔
۶:- حضرت الاستاذ مولانا احمد سعید آخوند زادہ صاحب مدظلُّہم، مقیم کچلاک، صوبہ بلوچستان۔
۷:-حضرت مولانا محمد جعفر صاحب مدظلُّہم، استاذ الحدیث وامام مسجد خٹاخیل۔
۸:-حضرت والاؒ کا سب سے ادنیٰ شاگرد عبد الرؤف غزنوی، سابق مدرس دارالعلوم دیوبند وموجودہ خادمِ حدیث جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی۔

آپ کے دونوں بھائیوں کا مختصر تذکرہ

آپ کے بڑے بھائی حضرت مولانا قاری خدائے داد صاحبؒ اور چھوٹے بھائی حضرت مولانا عبد القادر صاحبؒ دونوں بھی جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد سے فارغ التحصیل ہوئے۔ حضرت مولانا قاری خدائے داد صاحبؒ آپ کی طرح وہاں پر مدرس بھی رہے۔ وہ حضرت مولانا قاری عبداللہ صاحبؒ صدر شعبۂ تجوید وقراءت جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد (متوفّٰی: ۱۳۶۲ھ) کے خصوصی شاگرد اور فنِ تجوید میں ان کے سند یافتہ تھے۔ حضرت مولانا قاری خدائے داد صاحبؒ اگرچہ تمام مروجہ علوم وفنون میں اعلیٰ صلاحیت کے مالک تھے، لیکن انہوں نے افغانستان واپسی کے بعد پوری توجہ فنِ تجوید وقراءت کی تدریس پر مرکوز رکھی، جس کی ضرورت افغانستان میں بہت زیادہ تھی۔ وہ ایک متقی اور صاحبِ کرامت بزرگ تھے۔ ان کی کرامات کے مختلف واقعات میں نے اپنے اساتذۂ کرام اور دیگر علمائے کرام سے سنے ہیں۔ انہوں نے فنِ تجوید کے میدان میں نہایت قابل وباصلاحیت افراد تیار کردیئے، جن کے توسط سے افغانستان کے کونے کونے تک فنِ تجوید وقراءت کو پھیلنے کا موقع ملا۔
راقم الحروف کو ان کی زیارت یا ان سے براہِ راست فیض حاصل کرنے کی سعادت تو حاصل نہ ہوسکی، البتہ ان کے ایک مایۂ ناز شاگرد حضرت مولانا قاری سید حبیب آخوندزادہ صاحب (متوفّٰی: ۱۳۹۶ھ) رحمۃ اللہ علیہ سے اور پھر حضرت مولانا قاری محمد منیر عرف آغا آخوند زادہ صاحب (متوفّٰی: ۱۴۴۱ھ) رحمۃ اللہ علیہ سے جو حضرت قاری سید حبیب آخوند زادہ صاحبؒ کے براہِ راست اور حضرت مولانا قاری خدائے داد صاحب قُدِّس سرُّہٗ کے بالواسطہ شاگرد تھے، ان دونوں حضرات سے احقر کو اپنے تعلیمی زمانے کی ابتدا میں کچھ عرصے تک تجوید کی مشق کا موقع میسّر رہا۔ احقر مذکورہ دونوں حضرات سے اگرچہ فنِ تجوید کی تکمیل تو نہ کرسکا، تاہم اس مختصر عرصے کی مشق کا یہ فیض ضرور دیکھا کہ سال ۱۴۰۱ھ میں جب احقر کو دورۂ حدیث دارالعلوم دیوبند میں داخلہ نصیب ہوا تو دورۂ حدیث کے سال ہی اربابِ انتظام کی طرف سے دارالعلوم دیوبند کی مسجد قدیم میں امامت وخطابت کی ذمہ داری انجام دینے پرمامور ہوا، جس کا سلسلہ آگے تدریس کے زمانے میں بھی تقریباً دس سال تک جاری رہا۔ اس موقع پر میں یہ سوچا کرتا تھا کہ احقر اگرچہ اس اہم ذمہ داری کا استحقاق تو اب بھی نہیں رکھتا، تاہم اگر اپنی تعلیمی زندگی کے اندر فنِ تجوید کی مشق کا مذکورہ بالا موقع میسر نہ ہوا ہوتا تو یہ ذمہ داری ہرگز میرے سپرد نہ ہوئی ہوتی۔
حضرت مولانا عبد القادر صاحبؒ بھی باصلاحیت عالمِ دین تھے اور وہ بھی جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد سے فراغت کے بعد اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ واپس افغانستان آکر اپنے آبائی گاؤں ’’دوکوہی‘‘ میں اپنی پوری زندگی دین کی خدمت میں مصروف رہے۔
حضرت مولانا قاری خدائے داد صاحبؒ کا وصال ان کے خاندانی ذرائع کے بقول سال ۱۳۸۷ھ کو اور حضرت مولانا عبد القادر صاحبؒ کا وصال سال ۱۴۰۰ھ کو اپنے آبائی علاقے میں ہوا۔ رحمہما اللہ تعالٰی رحمۃً واسعۃً ۔

حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور صاحبؒ کا وصال اور پسماندگان

سال ۱۴۰۳ھ کو حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور غزنوی صاحبؒ قُدِّس سرُّہٗ بیمار ہوئے اور تقریباً ۹۱ سال کی عمر میں اپنے آبائی گاؤں ’’دوکوہی‘‘ میں دارالفناء سے دارالبقاء کی طرف کوچ فرما گئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ آپ نے اپنے پیچھے بے شمار شاگردوں اور محبین ومعتقدین کے ساتھ ساتھ اپنے دو صاحبزادوں اور ایک بھتیجے کو سوگوار چھوڑا۔ بڑے صاحبزادے کا نام حضرت مولانا عبد الحی غزنوی صاحب تھا جو ایک ممتاز عالمِ دین، مبلغِ اسلام اور کامیاب مدرس تھے اور اپنے ہی گاؤں میں خدمتِ دین میں مصروف رہے۔ سال ۱۴۴۱ھ کو اپنے ہی گاؤں میں انتقال ہوگیا،دوسرے صاحبزادے حضرت مولانا عبدالبر غزنوی مدظلُّہم ہیں، اپنے علاقے میں ایک مسجد میں امامت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے بھتیجے مولوی محمود صاحب زیدمجدہم جو حضرت مولانا عبد القادر صاحبؒ کے صاحبزادے ہیں، آپ کے خادمِ خاص رہے اور آپ ان پر بے حد شفقت فرماتے تھے۔ آپ کے وصال کے بعد سے لے کر تادمِ تحریر مولوی محمود صاحب اپنے علاقے میں خدمتِ دین میں مصروف ہیں۔
اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ مولانا عبد الغفور غزنوی صاحب قُدِّس سرُّہٗ اور ان کے دونوں بھائیوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی طویل وبے شمار دینی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماتے ہوئے ان کے بدلے اجرِ عظیم نصیب فرمائے۔ (آمین) 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین