بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حضرت اقدس مولانا سید محمد اصلح الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت

حضرت اقدس مولانا سید محمد اصلح الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت

دار العلوم دیوبند کے قدیم فاضل و سابق مدرس ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمدمدنی نوراللہ مرقدہٗ کے تلمیذ خاص، شاگردِ رشید اور سفر و حضر کے خادم، ماہنامہ بینات کراچی کے ابتدائی دور کے معاون مدیر، شیخ المشائخ حضرت مولانا سیّد محمد اصلح الحسینی  ؒ ۷؍ شعبان المعظم ۱۴۳۵ھ مطابق ۶؍جون ۲۰۱۴ء بروز جمعہ اس دنیائے فانی میں ایک صدی رہنے کے بعد داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہوئے راہیِ عالم عقبیٰ ہوگئے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ إن للّٰہ ما أخذ ولہ ما أعطی وکل شیٔ عندہٗ بأجل مسمٰی۔ حضرت مولانا سیّد محمد اصلح الحسینی ؒ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے گوناگوں صفات سے متصف فرمایا تھا۔ آپ جید عالم، بہترین ادیب، ماہر انساب، کہنہ مشق سیاستدان اور سب سے بڑھ کر حضرت مدنی نوراللہ مرقدہٗ کے سلسلہ کو آگے بڑھانے والے اور آپ کے انداز و اطوار پرمضبوطی سے عمل پیرا اور آپ کی روایات کے امین و محافظ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہٗ کے فرزندانِ ارجمند فدائے ملت حضرت مولانا سیّد محمد اسعد مدنیv اور ان کے بعد حضرت مولانا سیّد محمد ارشد مدنی I جب بھی پاکستان تشریف لاتے تو حضرت مولانا سیّد محمد اصلح الحسینی v کی زیارت و ملاقات کے لئے ان کے ہاں ضرور تشریف لے جاتے، بلکہ ایسا بھی ہوا کہ کراچی آمد کی غرض ہی صرف چند اشخاص کی زیارت و ملاقات ہوتی تھی، جن میں سے حضرت مولانا قاری شریف احمد اور حضرت مولانا سیّد محمد اصلح الحسینی نوراللہ مرقدہما ایسے بزرگوں کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ راقم الحروف کو بھی ان بزرگوں کی معیت میںایک دو بار حضرت کے گھر جانا اور آپ کی زیارت کرنا نصیب ہوا۔ حضرت مرحوم کا وجود بامسعود اہل پاکستان اور خصوصاً اہل کراچی کے لئے اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک انعام تھا۔ یہی شخصیات ہوتی ہیں جن کی دعائوں کی برکت اور دعائے سحر گاہی سے بلائیں دور ہوتی ہیں، ان کے وجود کی برکت سے اہل زمین بہت ساری افتادوں اور آزمائشوں سے بچے رہتے ہیں۔ حضرت مولانا سید محمد اصلح الحسینی v ۲۶؍ محرم الحرام ۱۳۳۲ھ مطابق ۲۵؍دسمبر ۱۹۱۳ء پنجشنبہ کو سادات زیدیہ کی بستی گلائوٹھی ضلع بلند شہر میں حضرت مولانا سیّد محمد صالح ؒ کے ہاں پیدا ہوئے ، ننھیال نے ’’محمد اصلح‘‘ اور منجھلے دادا سیّد احمد حسنؒ نے ’’آلِ حسن‘‘ نام رکھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم سے موقوف علیہ تک اپنے آبائی مدرسہ ’’منبع العلوم‘‘ گلائوٹھی (جس کی بنیاد دارالعلوم دیوبند سے دو سال قبل رکھی گئی تھی) میں پڑھا۔ قرآن مجید حضرت حافظ بہادر خان پرتاب گڑھیؒ جیسے مشہور استاد سے پڑھا اور درجہ کتب میں حضرت مولانا شبیر احمد خانؒ جیسے حضرات آپ کے اساتذہ میں شامل ہیں۔ قریباً ۱۹۲۷ء تک آپ نے ’’منبع العلوم‘‘ میں پڑھا۔ اس کے بعد مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی میں تقریباً تین سال رہ کر بعض فنون اور عصری علوم حاصل کئے۔ ۱۹۳۰ء کا بھی کچھ حصہ وہیں گزارا، اس کے بعد آپ دارالعلوم دیوبند آگئے اور قریباً ۱۹۳۳ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی، مگر فراغت کے بعد بھی کچھ عرصہ دیوبند اور دہلی میں گزارا اور قریباً ۱۹۳۵ء تک وہیں رہے۔ ۱۹۳۵ء میں فتح پوری سے ’’مولوی فاضل‘‘ بھی کیا۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ کے اساتذۂ گرامی میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہٗ (م:۱۳/۵/۱۳۷۷ھ تا ۱۷/۹/۱۹۵۷ئ)، حضرت مولانا سیّد اصغر حسین المعروف میاں جی قدس سرہٗ (م:۲۲/۱/۱۳۶۴ھ)، حضرت مولانا ابراہیم بلیاوی قدس سرہٗ (م:۲۴/۹/۱۳۸۷ھ)، حضرت مولانا رسول خان ہزاروی قدس سرہٗ (م:۳/۹/۱۳۹۱ھ)، حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی قدس سرہٗ (م:۱۳۴۴ھ)، حضرت مولانا مفتی ریاض الدین بجنوری قدس سرہٗ (م:۲۲/۱۲/۱۳۶۲ھ) شامل ہیں۔ قریباً ۱۹۳۶ء میں آپ دہلی سے بھوپال تشریف لے گئے، وہاں ان دنوں نواب حمید اللہ خان کا دور تھا اور قاضی محمد حسین مراد آبادیؒ قاضی القضاۃ اور نواب کے اتالیق تھے۔ قاضی محمد حسن مراد آبادیؒ نے ’’شینی قصاص‘‘ کے سلسلہ میں حضرت مفتی کفایت اللہ دہلویv سے اور آپ سے رجوع کیا اور اس کے بعد آپ کا انتخاب ’’علماء کونسل بھوپال‘‘ کے رکن کے طور پر کرلیا گیا۔ علماء کونسل بھوپال میں بڑے کہنہ مشق اور پختۂ کار علماء رکنیت رکھتے تھے۔ کچھ عرصہ وہاں ٹھہرنے کے بعد بوجوہ آپ وہاں سے بہاول پور چلے گئے۔انہی دنوں آپ نے منشی فاضل اور ادیب فاضل کا امتحان بھی دیا۔ ۱۹۳۷ء کے آخر میں ایک مرتبہ پھر آپ دہلی آئے اور حضرت مولانا احمد سعید دہلوی v کی ترغیب سے دہلی میں قیام کا فیصلہ کیا۔ آپ ایک اچھے مضمون نویس اور اداریہ نگار کے طور پر شہرت رکھتے تھے اور اس سے پہلے ’’مجلس قاسم المعارف‘‘ دیوبند ’’استقلال‘‘ دیوبند اور ’’گل فروش‘‘ میں کام کرچکے تھے اور اب یہاں آپ نے حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی v اور حضرت مولانا احمد سعید دہلوی v کے ساتھ ہفت روزہ ’’الجمعیۃ‘‘ میں بطور ایڈیٹر اور ’’مؤتمرالمصنفین‘‘اور ’’ندوۃ المصنفین‘‘ میں بطور مؤلف اور مترجم کام کیا۔ دسمبر ۱۹۳۸ء کے آخر تک آپ نے وہیں قیام کیا، یہاں تک کہ ’’الجمعیۃ‘‘ کی ضمانت ضبط ہوگئی اور اخبار بند ہوگیا۔ دسمبر ۱۹۳۸ء میں الجمعیۃ دہلی کی ضمانت ضبط ہونے کے بعد حضرت مولانا ابوالمحاسن سجادؒ نائب امیر شریعت بہار نے آپ کو   ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ باقی پور پٹنہ کی ادارت کے لئے پٹنہ آنے کی دعوت دی۔ آپ پٹنہ چلے گئے اور تقریباً ۱۹۴۰ء تک آپ پٹنہ میں رہے۔ ’’الہلال‘‘ جب قریباً ۱۹۴۰ء میں بند ہوگیا تو آپ وہاں سے لاہور چلے گئے۔ ’’زمزم‘‘ لاہور اور اس کے بعد ’’مدینہ‘‘ بجنور میں بھی کچھ عرصہ کام کیا، یہ قریباً ۴۰۔۱۹۴۱ء کا زمانہ تھا۔ قریباً ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۸ء تک آپ دارالعلوم دیوبند میں بطور ’’فارسی مدرس‘‘ تدریس کرتے رہے۔ فروری ۱۹۴۸ء میں آپ کو مجبوراً پاکستان آنا پڑا، چند ماہ ٹھہرنے کے بعد آپ واپس چلے گئے، مگر جولائی ۱۹۴۸ء میں پھر پاکستان آنا پڑا اور ۱۵؍جولائی ۱۹۴۸ء میں پرمٹ لگ جانے کی وجہ سے آپ کی واپسی نہ ہوسکی، یہاں قیام کرنے کے بعد آپ کچھ عرصہ عربی لینگویج کی کلاسز کو تعلیم دیتے رہے۔ کچھ عرصہ مولانا محمد ادریس میرٹھی vکے ’’ادارہ شرقیہ‘‘ میں بھی کام کیا۔ حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری v سے دیرینہ تعلقات اور ان کی خواہش پر آپ نے ۶۴-۱۹۶۵ء کے عرصہ میں ماہنامہ’’بینات‘‘ میں بھی کچھ عرصہ کام کیا۔اور۷۹-۱۹۸۰ء کے عرصہ میں ’’دار التصنیف‘‘ تبلیغی کالج سے بھی منسلک رہے۔ ۱۹۴۹ء میں ریڈیو پاکستان میں ملازمت ہوگئی۔ آپ کی اس ۳۲ سالہ ملازمت کے دوران آپ اسلامی موضوعات پر لیکچرز بھی دیتے تھے اور عربی، فارسی، براڈ کاسٹنگ کے اپنے فرائض منصبی بھی ادا کرتے رہے۔     پاکستان میں رہتے ہوئے آپ نے علمی و سیاسی حوالوں سے زیادہ روحانی حوالوںکی طرف توجہ فرمائی۔ پاکستان آنے کے بعد اگرچہ آپ نے علمی و سیاسی معاملات کو ازسر نو شروع کرنے کے لئے کوشش کی، مگر ’’بینات‘‘ اور ’’دارالتصنیف‘‘ کے علاوہ کہیں باقاعدہ بات نہ بن سکی۔     حضرت مولانا اصلح الحسینی v کی زندگی جہد ومشقت،  مجاہدہ وجفاکشی اور صبرآزمائی سے عبارت رہی، جو حضرت مدنی نور اللہ مرقدہٗ کی حیات طیبہ کی کامل تصویر ہے۔ حضرتؒ کی نماز جنازہ ۶؍ جون ۲۰۱۴ء بروزجمعہ بعدنماز مغرب جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں حضرت مدنی v کے ایک اور نامور شاگرد رشید حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی صاحب مدظلہٗ نے پڑھائی۔ کثیر تعداد میں علماء وطلبہ نے شرکت کی۔ قارئین ’’بینات‘‘ اور ’’نسبت مدنیہ‘‘ کے عقیدت مندوں سے دعاء مغفرت اور ایصالِ ثواب کی درخواست ہے، أللّٰہم اغفر لہٗ وارحمہ۔

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلٰی آلہ وصحبہ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین