بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ  سے بکثرت روایات کے اسباب اور بعض شبہات کا اِزالہ (پہلی قسط)

حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ  سے بکثرت روایات کے اسباب

اور بعض شبہات کا اِزالہ

(پہلی قسط)

 

تمہید 

ذخیرۂ حدیث پر مستشرقین اور ان کے علمی پیرؤوں کی جانب سے مختلف جہتوں سے قدغن لگائے جاتے ہیں اور اسے مشکوک قرار دینے کی سعیِ نامراد کی جاتی ہے، یوں بزعمِ خویش دینِ حق کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی تدبیریں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں دو شخصیات‘ ناقدین کے تیروں کا خاص نشانہ رہتی ہیں: حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  اور طبقۂ تابعین میں امام محمد بن شہاب زہری  رحمۃ اللہ علیہ ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اول الذکر دست یاب ذخیرے کے مطابق سب سے زیادہ احادیث کے راوی ہیں اور ثانی الذکر قرونِ اولیٰ کے دوران تدوینِ حدیث کے کارنامے میں بنیادی کردار کے حامل ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے ہجرت کے ساتویں برس اسلام میں داخلے کے بعد دیگر قدیم الاسلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی بنسبت دربارِ نبوت میں حاضری کا زمانہ کم پایا ہے، پھر مرویات کی تعداد کے اعتبار سے وہ مُکثرین صحابہؓ میں بھی پہلے درجے پر کیوں کر فائز ہوگئے؟! اس نوع کے بے سر وپا اور پُھسپُھسے دلائل کی بنیاد پر ان کی شخصیت وکردار اور احادیث ومرویات کے متعلق وضع کے اتہام سمیت گوناگوں شبہات پھیلائے جاتے ہیں۔ یہ نادان طبقہ‘ زمانۂ صحبت کے کم ہونے کے باوجود الفاظِ نبوت کے تئیں ان کی محنت و جفاکشی سے نابلد اور دعائے نبوی کی بدولت ان کی قوتِ حافظہ کی وسعت سے ناواقف ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کے لیے کتبِ سیر وتراجم میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے تذکرہ کی مراجعت کی جا سکتی ہے۔ ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے طور پر دو شہادتیں ملاحظہ ہوں: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  نے ان کے جنازے پر دعائے رحمت کرتے ہوئے فرمایا: ’’وہ مسلمانوں کے لیے احادیثِ نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی حفاظت فرماتے تھے۔‘‘ جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا بیان ہے: ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ   اپنے زمانے میں روایتِ حدیث کے سب سے بڑے حافظ تھے۔‘‘ (تدریب الراوی للسیوطي، بتحقیق الشیخ محمد عوامۃ، النوع التاسع والثلاثون: معرفۃ الصحابۃ رضي اللہ عنہم، ۵/ ۱۸۹، دار المنہاج، جدۃ، الطبعۃ الاولٰی، ۱۴۳۷ھ / ۲۰۱۶م) سرزمینِ شام کے بلند پایہ محدث ومحقق عالم شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ، علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  کی شہرہ آفاق کتاب ’’تدریب الراوي‘‘ کی تعلیقات میں رقم طراز ہیں: ’’ہر صحابیؓ کی روایات کی تعداد کے متعلق علماء جو اعداد وشمار ذکر کرتے ہیں، وہ ابنِ حزم  رحمۃ اللہ علیہ  کے جزء ’’أسماء الصحابۃ الرواۃ وما لکل واحد من العدد‘‘ کے اعتماد پر ہیں، یہ جزء پہلے پہل (ابنِ حزم  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب) ’’جوامع السیرۃ‘‘ کے ساتھ شائع ہوا تھا، پھر ایک ضخیم جلد میں مستقل طور پر طبع ہوا ہے۔ اسی طرح کے اعداد وشمار ابن جوزی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’تلقیح فہوم أہل الأثر‘‘ میں درج کیے ہیں۔ 
اس موقع پر اس نکتے سے آگاہی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی روایات کی تعداد کے متعلق اس بڑے عدد (۵۳۷۴) میں ان سے مروی تمام مکرر روایات، اور (سندًا) صحیح وضعیف احادیث سبہی داخل ہیں، اور (ان تمام روایات کی) چھان پھٹک کے بعد اس عدد کا ایک چوتھائی باقی رہ جاتا ہے۔ مزید براں ان بقیہ احادیث پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہوگی کہ کن روایات میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  دیگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے متفرد ہیں؟ تب (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی منفرد روایات کی) تعداد بہت کم بلکہ انتہائی نادر درجہ میں باقی رہے گی، اور ان کے تعلق سے کینہ وروں کے اشکالات ہواؤں میں اُڑ جائیں گے۔ نیز دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم  کی احادیث کی تعداد کے متعلق بھی یہی کہا جائے گا کہ ان میں مکررات، اور صحیح وضعیف تمام روایات شامل ہیں، اور ایسی روایات بھی داخل ہیں جن میں وہ صحابی متفرد نہیں۔ (ایضًا ، ۵ / ۱۸۸۸، ۱۸۸۹) 
بہر کیف! یہ ایک وسیع موضوع ہے، جس کی مختلف جہتوں پر اہلِ علم کی مستقل کاوشیں ہیں، خاص طور پر عالمِ عربی کے نام وَر عالم شیخ مصطفیٰ حسنی سباعی  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب ’’السنۃ ومکانتُہا في التشريع الإسلامي‘‘ میں اس حوالہ سے خاصی تفصیل کے ساتھ مفید مواد یکجا ہوگیا ہے۔ شیخ کی کتاب کا اردو ترجمہ ’’اسلام میں سنت وحدیث کا مقام‘‘ کے نام سے مولانا ڈاکٹر احمد حسن ٹونکی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کیا تھا، اور ہماری جامعہ کے شعبہ ’’مکتبہ بینات‘‘ نے کچھ عرصہ قبل اس کا دوسرا دیدہ زیب ایڈیشن دو جلدوں میں شائع کیا ہے۔ اہلِ علم اور طلبۂ علومِ حدیث کو اس کتاب سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بعض دیگر اہلِ علم نے جوابِ آں غزل کے طور پر مستشرقین کے جدید سائنسی طریقۂ تحقیق (Scientific Research) کے اصول اپناتے ہوئے ان کے مزعومہ دلائل کے تار وپود بکھیرے ہیں۔ پیشِ نگاہ مضمون میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی شخصیت وخدمات کی ایک اہم جہت ’’مرویاتِ ابوہرہرہ  رضی اللہ عنہ ‘‘ کے متعلق قدیم وجدید مواد کی روشنی میں تجزیہ وتلخیص پیش کی گئی ہے، اس مضمون میں یہ نکتہ واضح کیا گیا ہے کہ بلاشبہ دست یاب ذخیرے کے مطابق کثرتِ روایات‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کا امتیاز ہے، لیکن ان میں سے بیشتر روایات میں دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ان کے شریک ہیں، متعدد اہلِ علم نے اپنی تحقیقات کے نتائج میں یہ واضح کیا ہے کہ محض حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی متفرد روایات کی تعداد نہایت کم ہے، لہٰذا کثرتِ مرویات کی بنا پر ان پر وضع کا الزام دھرنا‘ ذخیرۂ حدیث کو مشکوک ٹھہرانے کی مذموم کوشش ہے۔ اس ضمن میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی کثرتِ روایت کے مختلف اسباب کی نشان دہی بھی کی گئی ہے، جنہیں پیشِ نظر رکھنے سے زیرِ بحث مسئلہ بے غبار ہو جاتا ہے۔ بہرکیف حدیثی نقطۂ نظر سے مضمون کی اہمیت کی بنا پر افادۂ عام کی غرض سے اسے ’’ریختہ‘‘ کے قالب میں ڈھال کر ہدیۂ قارئین کیا جارہا ہے۔‘‘ (مترجم)

مرویاتِ صحابہ  رضی اللہ عنہم  ومرویات کی شماریات کے مختلف انداز

محدثین نے عموماً تمام راویوں اور خاص طور پر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی احادیث ومرویات کی تعداد شمار کرنے کا اہتمام کیا ہے، اور ان اعداد وشمار کے حوالے سے اُن کے متعدد انداز ہیں: 
۱:بعض محدثین نے اپنی مرویات ومحفوظات کو خود ہی ذکر کیا ہے، مثلاً: امام بخاری، امام مسلم، امام ابوداود اور امام احمد  رحمۃ اللہ علیہم  جیسے ائمہ کبار سے لاکھوں احادیث یاد کرنے کے اقوال ملتے ہیں، اور پھر اُنہوں نے اُس وسیع ذخیرہ میں سے چند ہزار احادیث کا انتخاب کرکے اُنہیں اپنی مشہور کتبِ حدیث میں درج کیا ہے۔ 
۲: بعض حضرات، مشہور محدثین یا راویوں کی کسی متعین شیخ یا متعین سند سے مروی روایات کو ذکر کرتے ہیں، جنہیں وہ ’’نُسخہ‘‘ کا نام دیتے ہیں، کتبِ تاریخ ورجال میں اس نوعیت کے اشارات ملتے ہیں، یا کسی متعین کتاب یا کتابوں (مثلاً:کتبِ ستہ وغیرہ) میں راویوں کی مرویات ذکر کرتے ہیں، جیسے: ابن حوط اللہ اَندی  رحمۃ اللہ علیہ  سے منسوب کتاب ’’زَہْرَۃُ المتعلِّمين في  ذکرِ أسماءِ مشاہيرِ المحدِّثين‘‘ میں بخاری، مسلم، ترمذی اور ابوداود  رحمۃ اللہ علیہم  کے مشائخ کی مرویات شمار کی گئی ہیں۔ یہ کتاب اگرچہ مفقود ہے، لیکن امام مُغلطائی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’إکمالُ تہذيب الکمال‘‘ میں اس سے کافی اعداد وشمار نقل کیے ہیں۔ 
۳:بعض محدثین نے خاص طور پر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی مرویات شمار کرنے کا اہتمام کیا ہے، جیسے: امام ابوبکر احمد بن عبداللہ بن عبدالرحیم بَرقی مصری  رحمۃ اللہ علیہ    (۲۷۰ھ) تاریخِ صحابہؓ سے متعلق کتاب میں، اور محدّث بَقِی بن مَخْلَد رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک جزء میں یہ کوشش کی ہے۔ 

مسندِ بَقِی بن مَخْلَد اندلسی میں صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی مرویات کی تعداد

کتبِ علومِ حدیث میں مشہور ہے کہ صحابہؓ میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سب سے زیادہ احادیث روایت کی ہیں، اور اُن کی احادیث کی تعداد (۵۳۷۴) ہے۔ بعض علماء نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی مرویات کی یہ تعداد امام ابنِ جوزی  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب ’’تلقيحُ فُہومِ أہلِ الأثر في عيونِ التاريخِ والسِّيَر‘‘ (ص:۲۶۳-۲۸۰) کی جانب منسوب کی ہے، اور اُنہوں نےاس تعداد کے متعلق کتبِ حدیث میں سب سے بڑی مسند (’’مسندُ بَقِی بن مَخْلَد الأندلسي‘‘ (ت:۲۷۶ھ)، جو تاحال مفقود ہے) میں مذکور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ   کی مرویات پر اعتماد کیا ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ علامہ ابنِ جوزی  رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ تعداد از خود شمار نہیں کی، بلکہ انہوں نے مُکثّرین (بکثرت روایات نقل کرنے والے) صحابہؓ کی روایات کے تذکرہ میں امام بقی بن مخلد اندلسی  رحمۃ اللہ علیہ  کے جزء ’’عَددُ ما لکلِّ واحدٍ منِ الصَّحابۃ منِ الحديث‘‘ پر اعتماد کیا ہے، جسے بعد ازاں امام ابنِ حزم اندلسی رحمۃ اللہ علیہ   (ت:۴۵۶ھ) نے مرتب کیا اور اس کا نام ’’أسماءُ الصَّحابۃِ الرُواۃ وما لکلِّ واحدٍ منَ العدد‘‘ رکھا ہے۔ 
امام ابنِ حزم  رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ جزء‘ مرویاتِ صحابہؓ کی کثرت وقلت کی بنیاد پر ترتیبِ نزولی کے لحاظ سے مرتب کیا ہے، چنانچہ مُکثرین سے ابتدا کی اور اصحابِ اَفراد (جن سے ایک ہی روایت مروی ہے) پر اختتام کیا ہے۔ ابنِ حزم  رحمۃ اللہ علیہ  کتاب کے مقدمہ میں اپنی ترتیب ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: 
’’ذکر من رَوَی عنِ النبيِّ -صلّی اللہ عليہ وسلّم- من الصَّحابۃ حديثاً فما فوقہ ، ممن نُقِل إلينا الحديثُ عنہم ، علی مَرَاتبہم في ذلک : أصحابُ الألوف منہم، ثُمَّ أصحابُ ألفينِ، ثُمَّ أصحابُ الألف فما دون ذٰلک ، ثُمَّ أصحابُ المِئينَ وشيءٍ، ثم أصحابُ المِئتينِ وشيءٍ، ثُمَّ أصحابُ المِئۃِ وشيءٍ، ثُمَّ أصحابُ العشراتِ وشيءٍ، ثُمَّ أصحابُ العِشرينَ، ثُمَّ أصحابُ التسعۃ عشرَ، ثُمَّ أصحابُ الثَّمانيۃ عشرَ، ثُمَّ أصحابُ السبعۃ عشرَ، ثُمَّ کذٰلک نقصُ واحدٍ واحدٍ، إلی أصحابِ الأفرادِ۔‘‘
’’یہ ان صحابہ  رضی اللہ عنہم  کا تذکرہ ہے جنہوں نے نبی کریم  رضی اللہ عنہ  سے ایک یا ایک سے زائد روایات نقل کی ہیں، جو اُن سے ہم تک پہنچی ہیں۔ اس حوالے سے (درج ذیل ترتیب کے مطابق) اُن کے مراتب کا لحاظ کیا گیا ہے: 
پہلے کئی ہزار روایات نقل کرنے والوں کا ذکر ہے، پھر دو ہزار کے لگ بھگ احادیث کے راوی صحابہؓ کا، پھر ایک ہزار یا اس سے کم مرویات والوں کا، پھر سینکڑوں روایات کے ناقلین کا، پھر دو سو کے لگ بھگ تعداد والوں کا، پھر جن کی احادیث کی تعداد دہائیوں میں ہے، پھر بیس کے آس پاس کی تعداد والوں کا، پھر اُنیس عدد کے راویوں کا، پھر اٹھارہ، پھر سترہ، یوں ایک ایک عدد کم کرتے کرتے آخر میں محض ایک حدیث‘ روایت کرنے والوں کا تذکرہ ہے۔ ‘‘

امام ابنِ حزم  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب کے مختلف طبعات

ابنِ حزم  رحمۃ اللہ علیہ  کی مذکورہ کتاب ’’أسماء الصحابۃ الرواۃ‘‘کئی بار شائع ہوئی ہے: 
1: اُن کی کتاب ’’جوامعُ السيرۃ‘‘ ودیگر رسائل کے مجموعہ میں شیخ احسان عباس کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی۔ 
2: ڈاکٹر اکرم ضياء عمری  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’بقيُ بنُ مَخلد القُرطبي ومقدَّمۃُ مُسندِہ‘‘ کے نام سے امام بقی  رحمۃ اللہ علیہ  کی جانب نسبت کے ساتھ شائع کی ہے، جب کہ اس نسخہ میں موجود مواد ابن حزمِ  رحمۃ اللہ علیہ  کا مرتب کردہ ہے۔ 
3:  سید حسن کسروی کی تحقیق کے ساتھ دارُالکتبِ العلمیَّۃ بیروت نے بھی یہ کتاب شائع کی ہے۔ 
4:  مسعد عبد الحمید سعدنی کی تحقیق کے ساتھ مکتبۃُ القرآن مصر نے بھی شائع کی ہے۔ 
5: کتاب کے تونسی نسخہ (جو مؤلف ابنِ حزم  رحمۃ اللہ علیہ  کی جانب اُن کے شاگرد حُمَیدی کی سند سے منسوب نسخے سے نقل کیا گیا ہے، اُس نسخے) کے متعلق ڈاکٹر عبد المجید ترکی نے ایک مقالہ شائع کیا ہے، اُس مقالے میں کافی اضافات اور مفید تصحیحات ہیں، جن سے سابقہ طبعات خالی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی مرویات کی تعداد (۵۳۷۴)کے متعلق چند تنبیہات 

تنبیہِ اول

یہ تعداد حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی تمام احادیث کی ہے، اس میں اُن سے مروی صحیح احادیث، ضعیف روایات اور وہ مکرّر روایات بھی داخل ہیں، جو اسی متن اور سند کے ساتھ یا کسی اور سند کے ساتھ اُن سے مروی ہیں۔ 

تنبیہِ دوم

یہ اعداد وشمار امام بقی بن مخلد  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے جزء ’’عَددُ ما لکلِّ واحدٍ منَ الصَّحابۃِ منَ الحديث‘‘ میں ذکر کیے ہیں، جو ہماری جستجو کے مطابق اُن کی مسند میں درج مرویات کی بنیاد پر ہیں۔ ممکن ہے کہ یہی جزء ’’مسندُ بقي‘‘ کا مقدمہ ہو، جیسا کہ ڈاکٹر اکرم ضیاء عمری  رحمۃ اللہ علیہ  کی رائے ہے۔ 
محدثین کی عادت ہے کہ وہ ایک حدیث کی متعدد سندوں کو بھی مستقل حدیث کے طور پر شمار کرتے ہیں۔ اسی طرح آثارِ صحابہؓ وتابعینؒ اور اُن کے فتاویٰ کو بھی احادیث کے ضمن میں شمار کرتے ہیں۔ یوں یہ اعداد وشمار، مرفوع، موقوف اور مقطوع سبھی روایات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ 
امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  کا بیان ہے: ’’اَحْفَظُ مِئَۃَ اَلْفِ حَدِيْثٍ صَحِيْحٍ، وَمِئَتَيْ اَلْفِ حَدِيْثٍ غَيْرِ صَحِيْحٍ۔‘‘ یعنی مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث اور دو لاکھ غیر صحیح احادیث یاد ہیں۔ 
حافظ ابنِ صلاح  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس بیان کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے: 
’’ہٰذِہِ الْعِبَارَۃُ قَدْ يَنْدَرِجُ تَحْتَہَا عِنْدَہُمْ آثَارُ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِيْنَ، وَرُبَّمَا عُدَّ الْحَدِيْثُ الْوَاحِدُ الْمَـرْوِيُّ بِإِسْنَادَيْنِ حَدِيْثَيْنِ۔‘‘ (معرفۃ أنواع علم الحدیث، النوع الأول، فوائد مہمۃ، ص:۸۷، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۳۵ھ
یعنی اس عبارت کے تحت محدثین کے نزدیک آثارِ صحابہؓ وتابعینؒ بھی درج ہیں، اور بسا اوقات دو سندوں سے مروی ایک ہی حدیث کو تعداد میں دو شمار کیا جاتا ہے۔
علامہ زرکشی  رحمۃ اللہ علیہ  ’’النکت علی ابن الصلاح‘‘ میں رقم طراز ہیں: 
’’الأقدمونَ يُطلقونَ العددَ منَ الأحاديث علی الحديثِ الواحدِ المرويِّ بعدۃِ أسانيدَ، وعَلی ہٰذا يَسہلُ الخَطْبُ ، فرُبَّ حديثٍ لہ مئۃُ طريقٍ أو أکثرُ۔‘‘
یعنی ’’متقدمین (محدثین) کئی سندوں سے مروی ایک حدیث کو تعداد کے اعتبار سے کئی احادیث شمار کرتے ہیں، یوں (کثیر تعداد کا) معاملہ آسان ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ بسا اوقات ایک حدیث کی سو یا زیادہ سندیں بھی ہوتی ہیں۔ ‘‘ (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشي، النوع الأول، تنبیہ:۱/۱۸۱، أضواء السلف، الریاض، ۱۴۱۹ھ)
’’الوسيطُ في علوم ومُصطلحِ الحديث‘‘ (ص:۲۲) میں لکھا ہے: 
’’قَد يقولُ قائلٌ: إنَّ ما ذکرتَہ عَن الألوفِ المؤلَّفۃِ التيْ کانَ يحفظُہا الأئِمۃُ الکبارُ وما نُقِل عنہم في ہٰذا لايصدِّقہ المُـدَوَّنُ في کتبِ الحديثِ علی کَثرتِہا، فإنَّ ما يُوجَد فيہا منَ الأحاديثِ المرفوعۃِ لا يبلغ عُشْر ہٰذا المقدارِ۔
والجوابُ: أنّہٗ ليسَ المرادُ بِہٰذہِ الألوفِ أنَّہا کُلَّہا أحاديثُ متغايرۃٌ، کَما ہو الظَّاہرُ، وإِنَّما يدخلُ في ہٰذہِ الطُرقُ المتعدَّدۃُ للحديثِ الواحدِ، فقدْ يُروی الحديثُ الواحدُ بعَشرۃِ اَسانيدَ، ومَا ہِي في الحقيقۃِ والواقعِ إلاّ طرقٌ لحديثٍ واحدٍ ، فَيتخيَّرُ أيُّ إمامٍ منہا أصحَّہا وأوثقَہا في نظرِہٖ ، ويَدَعُ ما عَدا ذٰلک ، وقدْ يکونُ فيما ذکرَہٗ ما ليسَ صحيحاً عندَ غيرِہٖ. وقدْ يکونُ فيما يترکُہٗ مَا ہُو صحيحٌ في الواقعِ. وأيضاً يدخلُ في ہٰذِہ الألوفِ آثارُ الصَّحابۃِ والتابعينَ وغيرِہم ، وہذِہ الآثارُ تُعتَبرُ من الأحاديثِ عند کثيرٍ من المحدَّثين ، ومَا أکثرُ ما رُوِي منَ الآثارِ! فکُنْ علی ذُکْرٍ مِن ذٰلک حتّٰی لايلتبسُ عليک الأمرُ، وحتّٰی تدفعَ تشکيکاتِ المشکِّکِين في السُّننِ والأحاديثِ۔
‘‘
’’اشکال: کوئی معترض کہہ سکتا ہے کہ ائمہ کبار کے محفوظ کردہ ذخیرۂ حدیث کے متعلق جو ہزاروں احادیث کی تعداد آپ ذکر کرتے ہیں، کتبِ حدیث کی کثرت کے باوجود اُن میں مدوّن ذخیرہ سے تو اُن دعووں کی تائید نہیں ہوتی، کیوں کہ اُن کتابوں میں موجود مرفوع احادیث کی تعداد تو اُس مقدار کے دسویں حصے تک بھی نہیں پہنچتی؟ 
جواب: ان ہزاروں احادیث سے یہ مراد نہیں کہ ان تمام احادیث (کے متون) میں فرق ہے اور سب ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں، بلکہ ان میں ایک حدیث کی متعدد سندیں بھی داخل ہیں؛ کیوں کہ کبھی ایک حدیث دس سندوں سے مروی ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ ایک حدیث کی سندیں ہوتی ہیں، اور ہر امامِ حدیث اپنی تحقیق کے مطابق اُن میں سے زیادہ صحیح اور معتمَد سند منتخب کرتے ہیں، اور دیگر سندوں کو ترک کر دیتے ہیں، کبھی اُن کی ذکر کردہ سند دیگر محدثین کے نزدیک صحیح نہیں ہوتی، اور درحقیقت اُن کی ترک کی ہوئی سندوں میں سے کوئی سند، صحیح ہوتی ہے۔ 
نیز ان ہزاروں روایات میں آثارِ صحابہؓ وتابعینؒ وغیرہ بھی داخل ہوتے ہیں، اور یہ آثار بہت سے محدثین کے نزدیک احادیث میں شمار ہوتے ہیں، ایسے روایت کردہ آثار بھی بکثرت ہیں۔ یہ اہم نکتہ یاد رکھیے، تاکہ (کثرتِ تعداد کا) معاملہ آپ کے لیے اُلجھن کا باعث نہ بنے، اور آپ سنن واحادیث کے متعلق شکوک وشبہات پھیلانے والوں کے شبہات کے جوابات دے سکیں۔ ‘‘
شیخ احمد شاکر  رحمۃ اللہ علیہ  ’’الباعثُ الحثِیث‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’ومِن المہمِّ مَعرفۃُ العَددِ الحقيقيِّ للأحاديثِ في ’’مُسندِ أحمد‘‘ بِحذفِ المکرَّر واعتبارِ کلِّ الطُرقِ للحديثِ حديثاً واحدا ، ولم أتمکَّنْ مِن ذٰلک إلّا في مُسند أبي ہُريرۃَ، فَظہرَ ليْ أنَّ عددَ أحاديثِہٖ في مُسند أحمد بعد حذف المُـکرَّر منہا ہو  ۱۵۷۹ حَديثاً فقط۔
فأينَ ہٰذا منَ العددِ الضَّخمِ الذي ذکرَہ ابنُ الجوزي وہو ۵۳۷۴؟! وہل فاتَ أحمدَ ہٰذا کلُّہ؟ ! ما أظنُّ ذٰلک.
وإنَّما الَّذيْ أرجِّحُہٗ أنَّ ابنَ الجوزي عَدَّ ما رَواہ بَقيُّ بنُ مَخلد لأبي ہُريرۃ مُطلقاً وأدخل فيہ المکرَّر، فَتعددُ الحديثِ الواحدِ مِراراً بِتعدُّدِ طُرقِہٖ ، وقَدْ يکونُ بقيٌّ أيضاً يروي الحديثَ الواحدَ مقطَّعاً أجزاءَ باعتبارِ الأبوابِ والمَـعانيْ کما يفعلُ البُخاريُّ ، ويُؤيِّدُہٗ أنَّ ابنَ حزْمٍ يصِفُہ بأنَّہٗ رتَّبَ أحاديثَ کلِّ صَحابيٍّ عَلٰی اَبوابِ الفِقہ ۔
وأيضاً فإنَّ في ’’مُسندِ أحمد‘‘ أحاديثَ کثيرۃً يَذکرُہا استِطراداً في غيرِ مُسندِ الصَّحابيِّ الذيْ رَواہا، وبعضُہا يکون مَروياً عن اثنينِ أو أکثرَ منَ الصَّحابۃِ،  فَتارۃً يذکرُ الحديثَ في مُسندِ کلِّ واحدٍ مِنہما، وتارۃً يذکرُہ في مُسندِ أحدِہما دُونَ الآخرِ. وقَدْ وجدتُ فيہ أحاديثَ لبعضِ الصَّحابۃ ذکرَہا أثناءَ مُسندٍ لِغيرِ راوِيْہا ولم يَذکرْہا في مُسندِ راويہا اَصلاً۔
ولٰکنْ ہٰذا کلُّہ لا يَنتجُ منہ ہٰذا الفرقُ الکبيرُ بينَ العددينِ في مثلِ مُسندِ أبي ہُريرۃؓ. ولعلَّنا نُوَفَّق لتحقيقِ عددِ الأحاديثِ التيْ رَواہا عنْ کلِّ صَحابيٍّ، کَما صَنعنَا في روايۃِ أبي ہُريرۃؓ إنْ شاءَ اللہُ۔ وقد جمعتُ عددَ الأحاديثِ التي نسبَہا ابنُ الجوزيِّ للصَّحابۃِ في مُسند بَقيٍّ، فکانتْ ۳۱۰۶۴ حديثاً، وہٰذا يقِلُّ عن مُسندِ أحمد أو يُقاربُہ۔
‘‘
’’ایک اہم نکتہ، تکرار کو حذف کرکے مسندِ احمد کی احادیث کی حقیقی تعداد کو جاننا اور ایک حدیث کی تمام سندوں کو ایک شمار کرنا ہے۔ میں نے صرف ’’مُسندُ أبي ہُريرۃ‘‘ میں یہ کام کیا تو معلوم ہوا کہ تکرار کو حذف کرنے کے بعد مسندِ احمد میں (حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی) احادیث کی تعداد صرف (۱۵۷۹) ہے۔ کہاں یہ تعداد اور کہاں ابنِ جوزی  رحمۃ اللہ علیہ  کی ذکر کردہ تعداد (۵۳۷۴) ؟! کیا باقی تمام روایات امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  سے رہ گئیں؟! میرا یہ گمان نہیں۔ 
میرے نزدیک زیادہ راجح یہ ہے کہ ابنِ جوزی  رحمۃ اللہ علیہ  نے حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے بقی بن مخلد رحمۃ اللہ علیہ  کی روایت کی ہوئی تمام روایات شمار کی ہیں اور اُن میں مکرر روایات کو بھی داخل کر دیا ہے۔ اور یوں متعدد سندوں کی وجہ سے ایک حدیث بھی کئی بار شمار ہوگئی۔ نیز ممکن ہے کہ امام بقی رحمۃ اللہ علیہ  بھی امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  کی طرح ایک حدیث کی تقطیع کرتے ہوئے اُس کے مختلف حصوں کو ابواب اور معانی کے اعتبار سے کئی بار روایت کرتے ہوں، مذکورہ نکتے کی تائید ابنِ حزم  رحمۃ اللہ علیہ  کے اُس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ بقی بن مخلدؒ نے ہر صحابیؓ کی احادیث کو ابوابِ فقہ کے اعتبار سے مرتب کیا ہے۔ 
مزید براں مسندِ احمد میں بہت سی ایسی احادیث ہیں، جنہیں امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  نے استطراداً راوی صحابیؓ (کی مسند) کے علاوہ کسی اور صحابیؓ کی مسند میں ذکر کیا ہے۔ نیز بعض احادیث، دو یا دو سے زیادہ صحابہؓ سے بھی مروی ہوتی ہیں، اور امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  کبھی ایسی حدیث کو اُن صحابہؓ میں سے ہر ایک کی مسند میں ذکر کرتے ہیں، اور کبھی کسی ایک کی مسند میں ہی ذکر کردیتے ہیں، دوسرے راوی کی مسند میں ذکر نہیں کرتے۔ مجھے بعض صحابہؓ کی ایسی احادیث بھی ملی ہیں جو اُنہوں نے راوی صحابیؓ کی مسند میں ذکر نہیں کیں، بلکہ کسی اور صحابیؓ کی مسند میں درج کی ہیں، لیکن اس پوری تفصیل کے نتیجے میں بھی ’’مُسندُ أبي ہُريرۃ‘‘ کے متعلق مذکورہ دونوں تعدادوں جیسے بڑے فرق کی گُتھی نہیں سلجھتی۔ اللہ نے چاہا تو اُمید ہے کہ ہمیں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی روایات کی طرح ہر صحابیؓ سے مروی احادیث کو شمار کرنے کی توفیق ملے گی۔ میں نے اُن احادیث کی تعداد کو جمع کیا، جنہیں ابنِ جوزی  رحمۃ اللہ علیہ  نے مسندِ بقی میں مذکور احادیث کے اعتبار سے صحابہؓ کی جانب منسوب کیا ہے، نتیجتًا احادیث کی تعداد (۳۱۰۶۴) ہوئی، یہ تعداد مسندِ احمد میں مذکور روایات کی تعداد سے کم یا اُس کے قریب قریب ہے۔‘‘

تنبیہِ سوم

سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے سنہ سات ہجری میں غزوۂ خیبر سے قبل اسلام قبول کیا تھا، اور پھر ربیع الاول سنہ۱۱ ہجری میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات تک آپ کے درِ اقدس سے چمٹے رہے، یوں اُنہوں نے حیاتِ نبوی کے لگ بھگ چار برس اور چند راتیں پائی ہیں۔ 
ڈاکٹر محمد عبدہ یمانی اپنی کتاب ’’أبوہُريرۃَ والحقيقۃُ الکاملۃُ‘‘ (ص:۴۳) میں رقم طراز ہیں:
’’لَو حَسِبنا عَددَ أيَّام صُحبۃِ أبي ہُريرۃَ لِرسولِ اللہِ وہي تبلغُ أکثرَ من (۱۴۶۰) يومًا ، وقسَمنا ہٰذہ الأحاديثَ (۵۳۷۴ حديث) علٰی ہٰذِہ الأيَّام ۔۔۔۔ وجَدنا أنَّہٗ يَرويْ کلَّ يومٍ مَا يُقارِبُ ثَلاثۃَ أحاديثَ ونِصفاً ، وفي کُلِّ مئۃِ يومٍ (۳۶۷) حَديثاً ، أو کانَ يحفظُ مِئۃَ حديثٍ في کلِّ سبعۃٍ وعشرينَ يومًا . زِدْ عَلی ذٰلک أنَّہ إذا حذَفنا المکرَّر مِنْ أحاديثِ أبي ہريرۃؓ نجدُ أنَّ العددَ الأصليَّ لا يصِلُ إلٰی (۱۳۰۰) حديث۔‘‘
’’اگر ہم حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحبت میں گزرے ایام شمار کریں تو اُن کی تعداد (۱۴۶۰) سے زیادہ بنتی ہے۔ اب ہم اُن سے مروی احادیث کی تعداد(۵۳۷۴) کو اُن ایام میں تقسیم کریں تو نتیجتًا اُنہوں نے ہر روز تقریباً ساڑھے تین حدیثیں روایت کی ہیں، اور ہر سو دنوں میں (۳۶۷) احادیث روایت کیں، یا بالفاظِ دیگر وہ ہر ستائیس دنوں میں سو احادیث یاد کرتے تھے۔ مزید براں اگر حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی احادیث میں سے مکرر روایات کو حذف کریں تو اصل تعداد(۱۳۰۰) تک بھی نہیں پہنچے گی۔ ‘‘

تنبیہِ چہارم

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی روایت کردہ اکثر احادیث کے الفاظ تھوڑے ہیں، اگر (ان کی) حدیثیں (الفاظ کی تعداد کے اعتبار سے) تھوڑی لمبی بھی ہیں تو مختصر جملوں پر مشتمل ہیں۔ آدھے صفحے پر مشتمل یا اس سے زیادہ لمبے متون زیادہ نہیں، اگر حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی سینکڑوں مختصر متونِ حدیث جمع کریں تو سب متون تھوڑے اوراق میں سمٹ جائیں گے، اور چند مہینوں میں اُن کو یاد کرنا بھی دشوار نہیں۔
’’الضوءُ اللامعُ المبينُ عَن مَناہجِ المحدِّثين‘‘ (ص:۱۳۳) میں مذکور ہے: 
’’لَو جمَعنا کلَّ مرويَّاتِ أبي ہُريرۃ في کتابٍ واحدٍ فَلنْ تزيدَ عَنْ جزءٍ صغيرٍ، ذٰلک أنَّ الکثيرَ مِنَ الخَمسۃِ آلافٍ والثَّلاثِ مِئۃِ والأربعِ والسبعينَ ، عَددُ ما رَواہ لايُجَاوِزُ السَّطْرَ والسَّطْرَيْنِ۔‘‘
’’اگر ہم حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی مرویات ایک کتاب میں یکجا کرنا چاہیں تو ایک چھوٹے جزء سے زیادہ نہ ہوں گی، اس لیے کہ پانچ ہزار تین سو چوہتر احادیث میں سے اکثر روایات ایک دو سطروں سے متجاوز نہیں۔‘‘

تنبیہِ پنجم

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی صحیح وثابت احادیث میں سے اکثر کی روایت میں وہ اکیلے نہیں، بلکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اُن کو روایت کرنے میں اُن کے ساتھ دیگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  بھی شریک ہیں۔

(جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین