بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے بکثرت روایات کے اسباب اور بعض شبہات کا اِزالہ    (دوسری اور آخری قسط)

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے بکثرت روایات کے اسباب

اور بعض شبہات کا اِزالہ    (دوسری اور آخری قسط)

 

مرویاتِ ابوہریرہؓ کے متعلق معاصر اہلِ علم کے اعداد وشمار

بعض معاصر اہلِ علم نے بھی اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے دست یاب کتبِ حدیث کے پیشِ نظر حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی مرویات کو شمار کیا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ جن احادیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  دیگر صحابہؓ سے منفرد ہیں، اُن کی تعداد زیادہ سے زیادہ اندازے کے مطابق(۲۰۰) سے متجاوز نہیں۔ ذیل میں بعض ایسے مقالات وتحقیقات کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے، جن میں اہلِ علم نے مرویاتِ ابوہریرہؓ کو شمار کیا ہے:

1: ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی کی تحقیق

ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی نے جامعہ اُم القری (مکہ مکرمہ) میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے ’’أبو ہريرۃ في ضَوءِ مَرويَّاتِہٖ بشواہدِہا وحال انفرادِہا‘‘ کے عنوان پر مقالہ لکھا تھا۔ موصوف اپنے مقالے کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں: 
’’ ایک پہلو یہ ہے کہ طعنہ زنوں کے طعنوں اور ہولناکیوں کا ایک اہم محور حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے بکثرت احادیث بیان کرنے کا معاملہ ہے۔ چوں کہ یہ کثرتِ روایت حیرت کا باعث بنتی ہے، اس لیے وضاحت کے لیے اس معاملے کے حدود کی تعیین اور مختلف پہلوؤں کی توضیح مناسب معلوم ہوتی ہے، مثلاً: کیا یہ کثرتِ احادیث، غیر فطری ہے؟ یا حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے گردو پیش کے حالات کا معقول اور فطری نتیجہ ہے؟ 
اگر یہ حقیقت واضح ہوگئی اور کثرتِ متون کا سبب بننے والی مکرر سندوں کو حذف کرکے انہیں شمار کرنا بھی ممکن ہوگیا تو اُس وقت مرویاتِ ابوہریرہؓ کے متعلق بحث وتحقیق کے میدان میں ایک اور قدم اُٹھایا جا سکے گا:کیا حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  احادیث کی اتنی کثیر تعداد کی روایت میں اکیلے ہیں؟ یا ان کی علاوہ دیگر صحابہؓ نے بھی انہیں روایت کیا ہے؟ یا پھر ان میں سے بعض روایات میں وہ منفرد ہیں اور بعض میں منفرد نہیں؟ ان سوالات کا تقاضا ہے کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی احادیث کے شواہد تلاش کرکے یکجا کیے جائیں، تاکہ واضح ہو کہ کن احادیث میں وہ منفرد ہیں؟ اور کن روایات کو اُن کے علاوہ دیگر صحابہ  رضی اللہ عنہم  نے بھی روایات کیا ہے؟ 
تب ایک اور حقیقت بھی واشگاف ہوسکے گی کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی اکثر احادیث کے شواہد موجود ہیں اور اُن کی بنسبت دوسری قسم کی اُن احادیث کی تعداد کم ہے، جن احادیث کے شواہد سے ہم واقف نہیں۔ 
چوں کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی احادیث کسی کتاب میں یکجا نہیں، اور کسی ایک کتاب میں مرتب صورت میں موجود نہیں، اس لیے اُنہیں اُن کے مظان سے یکجا کرنا ضروری ہے۔ اور اُن کے اہم مظان مسندِ احمد، پھر کتبِ ستہ ہیں، اس لیے میں نے اُن مصادر سے ان کی مرویات یکجا کیں، اور پھر مراجعت میں سہولت کے لیے انہیں کتب وابواب میں تقسیم کیا ہے۔ 
پھر میں نے مرویاتِ ابوہریرہؓ کو دو قسموں میں تقسیم کیا: 
پہلی قسم:     وہ مرویات جن کے شواہد دیگر صحابہؓ سے بھی ملے ہیں، اور وہ اُن روایات میں حضرت ابوہریرہؓ کے موافق ہیں۔ (ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی نے اس قسم میں حضرت ابوہریرہؓ کی(۹۳۹)  احادیث ذکر کی ہیں، اور مقالہ کے آخر میں مزید دس احادیث ذکر کی ہیں، اور حواشی میں اُن کے شواہد درج کیے ہیں، مقالہ کا یہ حصہ۴۴۴  صفحات کا احاطہ کیے ہوئے ہے)۔
دوسری قسم:     وہ مرویات جن کے شواہد مجھے نہیں ملے، اور میں نے اُن کی سندوں کی تحقیق کی ہے، تاکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی انفرادی روایات میں صحیح یا حسن روایات کی مقدار معلوم ہوسکے۔ واضح رہے کہ ممکن ہے ہمیں بعد میں دیگر مصادر میں اُن میں سے بعض روایات کے شواہد مل جائیں۔ (ڈاکٹر اعظمی نے اس قسم میں(۶۳۶) احادیث درج کی ہیں، حاشیہ میں اُن کے مصادر درج کیے ہیں، اور اس قسم میں ۱۱۳۱  نمبر پر (ص:۵۳۴) حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی حدیث : کلمتانِ خفيفتان ... إلخ (جو صحیح بخاری کی آخری حدیث ہے) ذکر کی ہے)۔ ‘‘
ڈاکٹر اعظمی رقم طراز ہیں: 
’’دوسری قسم بھی تین انواع پر مشتمل ہے: 
نوعِ اول: صحیح احادیث، ان کی تعداد(۲۱۴)  ہے۔ 
نوعِ دوم: حسن احادیث، ان کی تعداد(۵۳) ہے۔ 
نوعِ سوم: ضعیف احادیث، ان کی تعداد (۱۰۲) ہے۔ 
حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی شخصیت، خاندان اور قبیلے سے متعلق روایات کو حذف کرنے کے بعد دونوں قسموں کا کل مجموعہ (۱۳۳۶) ہے۔‘‘

ڈاکٹر اعظمی کی تحقیق کا نتیجہ

’’اس تحقیق سے یہ واضح ہوگیا کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی مرویات کی کثرت‘ باعثِ حیرت نہیں؛ کیوں کہ اگر ان احادیث کو ان کے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحبت میں گزرے ایام میں تقسیم کریں تو ہر دن میں حاصل شدہ کا تناسب ڈیڑھ حدیث ہے، جن میں صحیح وضعیف سب احادیث داخل ہیں۔ یہ تناسب بہت معقول ہے۔ باقی رہی وہ احادیث جن میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  منفرد ہیں تو اُن کی تعداد بہت کم ہے؛ کیوں کہ اُن میں صحیح احادیث کی تعداد (۲۲۰) سے متجاوز نہیں۔‘‘ (مقدمہ، ص: ح)

2: ڈاکٹر محمد مَطَری کا مقالہ، ڈاکٹر اعظمی کے کام کا تتمہ

ڈاکٹر محمد بن علی بن جمیل مطری نے ڈاکٹر اعظمی کے کام کا تتمہ کیا ہے، اُنہوں نے اُن احادیث کی تحقیق کی ہے جنہیں شیخ محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی نے اپنے مقالہ کے دوسرے حصہ میں ذکر کیا ہے۔ صحت وضعف کے اعتبار سے اُن روایات کی تحقیق کی، اور اُن کے شواہد تلاش کرنے کی کوشش کی۔ شیخ مطری رقم طراز ہیں:
’’شیخ محقق محدّث اعظمی نے گزشتہ صدی ہجری کے آخر میں ۱۳۹۳ھ میں ایک مفید مقالہ لکھا ہے، جب کہ کمپیوٹر کی مدد سے علمی تحقیق کی آسانیاں نہ تھیں، اس بنا پر بہت سی احادیث کے متعلق انہوں نے ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  اُن میں متفرد تھے، جب کہ آج کا محقق یہ جان کاری حاصل کرلیتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  اُن احادیث میں متفرد نہ تھے۔ میں نے شیخ اعظمی کے مقالہ میں مذکور تفرداتِ ابوہریرہؓ کا جائزہ لیا تو اُن میں سے بہت سی روایات کے شواہد دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم  سے مل گئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی احادیث کے شواہد کی جان کاری کے لیے میں نے زیادہ تر مسندِ امام احمد پر (شیخ شعیب) ارناؤوط اور کے معاون محققین کی تحقیق سے استفادہ کیا ہے؛ کیوں کہ یہ حضرات امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کی سنن کے طرز پر شواہد ذکر کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ   کی حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:’’وفِي البابِ حَديثُ فلانٍ وفلانٍ ‘‘ (اس موضوع سے متعلق فلاں فلاں دیگر صحابہؓ سے بھی احادیث ملتی ہیں)۔ پھر اُس حدیث کے شواہد ذکر کرکے اُن کی تخریج کرتے ہیں۔ ان محققین کی تحقیق کے جامع اور مفید ہونے کے باوجود مکتبہ شاملہ میں تلاش کرکے مجھے احادیثِ ابوہریرہؓ کے بہت سے ایسے شواہد بھی ملے جو انہوں نے ذکر نہیں کیے۔ خاص طور پر المعجمُ الکبيرُ للطبراني، مُسندُ البزَّار، کنزُ العُمَّال، السِّلسِلۃُ الصَّحِيحۃ اور إرواءُ الغَليلِ للألباني میں (ایسے بہت سے شواہد ملے)۔ 
بعد ازاں ویب سائٹ الدررُ السنيّۃ (الموسوعۃُ الحديثيّۃ)میں دیگر شواہد کی تلاش وجستجو کرتے ہوئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی بعض احادیث کے ایسے شواہد بھی ہاتھ آئے جو پہلے مرحلے میں نہیں ملے تھے، سچ ہے:’’ وَمَا اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيْلاً‘‘(تمہیں تو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے)۔
اس تحقیق وجستجو کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے تفردات میں صحیح وحسن احادیث کی تعداد محض (۱۱۰) ہے، واللہ اعلم۔ 
اس موقع پر وہ بات کہنا نہ بھولوں گا جو محدّث اعظمی نے اپنے مقالہ (جس کے تتمہ کے طور پر میں نے یہ مقالہ ترتیب دیا ہے) میں کہی تھی: ’’آج کے دن تک مجھ پر یہ نتائج واضح ہوئے ہیں، ممکن ہے کل میں خود یا کوئی اور محقق ان منفرد روایات کے شواہد سے واقف ہوجائے۔ ‘‘
ڈاکٹر مطری مزید لکھتے ہیں: 
’’میں اس پہلو سے بھی آگاہ کرنا چاہوں گا کہ یہ اعداد وشمار‘ تقریبی ہیں، قطعی نہیں۔ اور اس کے دو اسباب ہیں: 
سببِ اول:     ہم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی بعض صحیح احادیث اُن کے شواہد کے موجود ہونے کی بنا پر یہاں ذکر نہیں کیں، لیکن ممکن ہے کہ وہ شاہد ضعیف ہو؛ کیوں کہ شاہد کا صحیح ہونا شرط نہیں۔ مجھے اور مجھ سے قبل شیخ اعظمی کو جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی کوئی صحیح حدیث ملی اور ہمیں اُس کا کوئی شاہد بھی مل گیا، اگرچہ ضعیف سند سے ہی کیوں نہ ہو، تو ہم اُس حدیث کو تفرداتِ ابوہریرہؓ میں ذکر نہیں کرتے۔ 
سببِ دوم:     حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی بعض صحیح احادیث کو اُن کا شاہد موجود ہونے کی بنا پر ہم نے یہاں ذکر نہیں کیا، لیکن ممکن ہے کہ اُس شاہد کا سیاق وسباق حدیثِ ابوہریرہؓ کے سیاق وسباق سے مختلف ہو، یا اُس روایت میں ایک دو جملوں کے علاوہ اکثر حصہ حدیثِ ابوہریرہؓ کا شاہد ہو، ایسے موقع پر ایک جملے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کے تفرد ہونے کے باوجود ہم اُس روایت کو تفردِ ابوہریرہؓ میں ذکر نہیں کرتے؛ کیوں کہ حدیث کی اصل کا شاہد موجود ہے۔ ‘‘
بعد ازاں ڈاکٹر مطری نے وہ احادیث درج کی ہیں جن کے شواہد اُنہیں نہیں ملے، اور اُن کی تعداد (۱۱۰) ہے، یوں یہ تعداد‘ تفرداتِ ابوہریرہؓ کے حوالے سے ڈاکٹر اعظمی کے ذکر کردہ عدد (۲۲۰) سے کم ہو کر نصف تک جا پہنچی ہے۔ موصوف نے بھی نمبر (۲۹) پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی حدیث: ’’کلمتانِ خفيفتانِ عَلی اللسانِ ۔۔۔۔ ‘‘ ذکر کی ہے، لہٰذا (اُن کی تحقیق کے مطابق بھی) اس حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  دیگر صحابہ  رضی اللہ عنہم  سے متفرد ہیں۔ 

3:ڈاکٹر محمد عبدہ یمانی کی شماریات

ڈاکٹر محمد عبدہ یمانی اپنی کتاب ’’أبوہُريرۃَ والحقيقۃُ الکاملۃُ‘‘ (ص:۱۹۳) میں رقم طراز ہیں: 
’’حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی احادیث کے موضوعات پر گہرے غور وتدبر سے اہم حقائق سامنے آتے ہیں، جن سے آگاہی اور علمی وموضوعاتی دیانت کے ساتھ اُن کی تحقیق ضروری ہے۔ 
پہلی حقیقت:        حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی جانب یہ نسبت درست نہیں کہ اُنہوں نے اکیلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے (۵۳۷۴) احادیث روایت کی ہیں، یہ احادیث محض حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی روایت کردہ نہیں (بلکہ اُن میں بہت سی احادیث کی روایت میں دیگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  بھی حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے شریک ہیں) یہی نکتہ میری بحث وتحقیق کا موضوع تھا، جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع عنایت فرمایا۔ ابتدا میں، میں نے کمپیوٹر سے استفادہ کیا، نیز ان علمی مراکز سے استفادہ کیا جنہوں نے کتبِ حدیث کو داخل کیا اور اُن کی تصنیف وترتیب کا عمل کیا ہے، مثلًا: ’’مرکزُ خِدمۃِ السُّنۃ النَبويَّۃ‘‘ (جامعہ ازہر) اور احادیث کا سافٹ وئیر ’’مَوسوعۃُ صَخر‘‘۔ 
تحقیق کے بعد ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی جانب منسوب(۵۳۷۴) احادیث میں سے (۴۰۷۴) بعینہ اسی عبارت اور معنی کے ساتھ مکرر ہیں۔ یہ پہلی حقیقت ہوئی۔ 
دوسری حقیقت:    حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی(۵۳۷۴) احادیث میں سے تمام روایات کو اُنہوں نے اکیلے روایت نہیں کیا، بلکہ (اُن کے علاوہ) مزید ایک، دو یا دو سے زیادہ صحابہؓ نے بھی روایت کیا ہے۔ چنانچہ مکرر روایات کو حذف کرنے کے بعد حقیقت میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی مرویات کی تعداد (۱۳۰۰)باقی رہ جاتی ہے، نیز اُن (۱۳۰۰)احادیث کی روایت میں بھی اُن کے ساتھ دیگر صحابہ  رضی اللہ عنہم  شریک ہیں، اور اُنہوں نے دیگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے ساتھ جو احادیث روایت کی ہیں، مکررات کو حذف کرنے کے بعد اُن کی تعداد(۱۲۹۲) ہے، بعد ازاں محض ان کی روایت کردہ احادیث کی تعداد دس سے بھی کم ہے۔‘‘
موصوف ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں: 
’’جب میں نے کمپیوٹر کے ماہرین کی ایک خصوصی ٹیم کے تعاون سے بذاتِ خود اس مسئلہ کی تحقیق کی تو حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی روایات کے متعلق اہم حقائق سامنے آئے۔ جب ہم نے ان کی روایات کی کھود کرید کی تو واضح ہوا کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے آٹھ سو سے زائد صحابہؓ وتابعینؒ نے روایت کی ہے، اور وہ سب ثقہ وبا اعتماد ہیں۔ 
لیکن کمپیوٹر کے استعمال سے ہمیں بنیادی نکتہ یہ معلوم ہوا کہ جب ہم نے اُن سے مروی احادیث کو حدیث کی کتبِ ستہ میں داخل کیا تو حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی احادیث کی تعداد (۵۳۷۴) تک پہنچی، پھر کمپیوٹر کے ذریعے مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ اُن میں سے (۴۰۷۴) مکرر ہیں، یوں غیر مکرر روایات کی تعداد (۱۳۰۰)ہوئی۔ پھر اس تعداد کی مزید تحقیق کے بعد واضح ہوا کہ کئی صحابہ رضی اللہ عنہم  نے یہی احادیث حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی سند کے بغیر روایت کی ہیں۔ یہ ایک پہلو ہوا۔ 
دوسرا پہلو:     یہ ہے کہ کتبِ صحاحِ ستہ میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی سند کے علاوہ روایت کی گئی احادیث کو حذف کرنے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جن احادیث میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  منفرد ہیں، اُن کے علاوہ کسی صحابیؓ نے اُن کو روایت نہیں کیا، اُن احادیث کی تعداد، دس سے کم ہے۔ 
مذکورہ تحقیق سے روایتِ حدیث میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی امانت وصداقت نمایاں ہوتی ہے، اور اُن پر باندھی گئی تہمتوں سے اُن کا دامن صاف معلوم ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں سیرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کے خدمت کرنے والے رجالِ کار نے حصہ لیا ہے، جن میں (ڈاکٹر) محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی بھی شامل ہیں، موصوف نے دقیق تحقیقی کام کیے اور قابلِ قدر جدوجہد کی ہے، اور اس موضوع کے حوالے سے میرا تعاون کیا ہے۔ 
پھر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے احادیثِ ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے متعلق کام کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کتبِ ستہ سے کتبِ تسعہ (صحیحین، سنن اربعہ، موطا مالک، مسند احمد اور سنن دارمی) کی طرف منتقل ہوئے، اور ہمیں معلوم ہوا کہ کتبِ تسعہ میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے منسوب احادیث کی تعداد (۸۹۶۰) ہے، اُن میں سے(۸۵۱۰) روایات، سندِ متصل کے ساتھ اور(۴۵۰) احادیث، سندِ منقطع کے ساتھ مروی ہیں۔ باریک بینی کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کتبِ تسعہ میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی روایت کردہ احادیث کی تعداد مکررات کو حذف کرنے کے بعد(۱۴۷۵) ہے، اور ان احادیث کی روایت میں بھی اُن کے ساتھ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی ایک تعداد شریک ہے۔ 
بعد ازاں دیگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی سند سے روایت کردہ احادیث کو حذف کرنے کے بعد ہمیں ایک اہم حقیقت تک رسائی حاصل ہوئی کہ کتبِ تسعہ میں مکررات سمیت حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی احادیث کی تعداد(۲۵۳) ہے، اور ایسی روایات جن میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  تکرار کے بغیر منفرد ہیں اور کتبِ تسعہ میں اُن کے علاوہ کسی صحابیؓ نے اُنہیں روایت نہیں کیا، اُن احادیث کی تعداد (۴۲) ہے۔ 
ہم اپنی تحقیق کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن مذکور امور وحقائق نے اُن تمام بے بنیاد و خود غرضانہ شبہات اور اتہامات کو دور کردیا ہے جو حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  پر تھوپے جاتے تھے، اور اُنہیں کثرتِ احادیث کی تہمت لگاتے ہوئے کہا جاتا تھا: ’’انہوں نے اکیلے(۸۰۰۰) روایات نقل کی ہیں۔‘‘ اور بعض لوگوں نے کہہ دیا: ’’انہوں نے (۵۰۰۰) احادیث اکیلے روایت کی ہیں۔‘‘ یوں ہی بنا سوچے سمجھے، باریک بینی اور تحقیق کیے بغیر (اُن پر اتہامات لگائے جاتے ہیں)۔‘‘

4: شیخ سید محمد مُنتصِر کتّانی  رحمۃ اللہ علیہ  کے اعداد وشمار

ڈاکٹر محمد عبدہ یمانی نے اپنی کتاب ’’أبوہُريرۃَ والحقيقۃُ الکاملۃُ‘‘ ( ص:۴۴و۴۸) میں لکھتے ہیں:
’’علمائے حدیث میں سے ڈاکٹر خلیل ملا خاطر نے ذکر کیا ہے کہ وہ سنہ ۱۳۹۲ھ میں مسجدِ نبوی میں سید محمد منتصر کے درس میں شریک رہا کرتے تھے، شیخ کتانی مسندِ امام احمد بن حنبل کا درس دیتے تھے، اور اُس میں ’’مُسندُ أبي ہُريرۃؓ ‘‘ کی احادیث زیرِ درس تھیں، چنانچہ وہ حدیث کو ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتاتے تھے کہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے علاوہ کن صحابہؓ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے، اور ایک، دو، تین یا زیادہ صحابہؓ کو شمار کرتے تھے۔ اور ’’مُسندُ أبي ہُريرۃؓ‘‘ کے اختتام پر فرمانے لگے: ’’(احادیثِ ابوہریرہؓ کے متعلق) ہم ایک اہم نتیجے تک پہنچے ہیں کہ (مسندِ احمد میں مذکور روایات میں سے) جن روایات میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  منفرد ہیں، اُن احادیث کی تعداد محض سات یا آٹھ ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمد عبدہ یمانی نے مذکورہ کتاب (ص:۵۰تا۵۴) میں نمونہ کے طور پر حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی احادیث میں سے چالیس مثالیں درج کی ہیں، اور ساتھ ساتھ اُن صحابہؓ کا بھی ذکر کیا ہے جو ان احادیث کی روایت میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے شریک ہیں۔ 

5: ’’مُنتدَی أہلِ البيت‘‘ کے مُشرف کی شماریات

استاذ محمد امین ’’مُلتقی أہلِ الحديث‘‘ (معروف عرب ویب سائٹ) میں ’’مُنتدَی آلِ البَيت‘‘ کے مُشرف محترم سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’کتبِ تسعہ (صحیحین، سننِ اربعہ، موطا مالک، مسند احمد اور سنن دارمی) میں روایاتِ ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی محض آٹھ احادیث کے علاوہ دیگر تمام روایات میں بہت سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  اُن کے شریک ہیں، کیا آپ اس کی تصدیق کریں گے؟! 
وہ آٹھ احادیث درج ذیل ہیں: 
۱: (بَينما رجلٌ راکبٌ بقرۃً ...) إلی آخرِ الحديث، سنن الترمذي، أبواب المناقب، رقم الحدیث: ۳۶۱۰
۲: (قَرأ رسولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم: يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا ...)، سنن الترمذي، أبواب صفۃ القيامۃ، رقم الحدیث: ۲۳۵۳
۳: (اَتدرُونَ مَنِ المُـفلِسُ ... )، صحيح مسلم، کتاب البر والصلۃ، رقم الحدیث: ۴۶۷۸
۴: (أوَّلُ مَن يُدعٰی يَومَ القِيامۃِ ... )، مسند أحمد، باقي مسند المکثرين، رقم الحدیث: ۸۵۵۸
۵:  (أظلَّکُم شہرُکم ... )، مسند أحمد، باقي مسند المکثرين، رقم الحدیث: ۱۰۳۶۵۔
۶: (أعذَرَ اللہُ إلی امرِئ ... )، صحيح البخاري، کتاب الرقاق، رقم الحدیث: ۴۹۴۰
۷: (أقربُ ما يکونُ العبدُ ... )، صحيح مسلم، الصلاۃ، حديث رقم: ۷۴۴
۸: (بَينا أيوبٌ يغتسلُ ... )، صحيح البخاري، کتاب الغسل، رقم الحدیث: ۲۷۰

(مذکورہ تفصیل سے) معلوم ہوا کہ کتبِ تسعہ میں درج (حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے مروی) احادیث میں مذکورہ آٹھ احادیث کے علاوہ ہر حدیث میں ایک یا زیادہ صحابہؓ حدیث کو روایت کرنے میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کے شریک ہیں، (کتبِ تسعہ میں) محض ان آٹھ احادیث میں وہ منفرد ہیں۔ ‘‘
راقم (مولانا طلحہ بلال احمد منیار مدظلہم) کا خیال ہے کہ محترم مشرِف صاحب نے یہ تحقیق ڈاکٹر محمد عبدہ یمانی کی کتاب (ص:۱۶۴) سے اخذ کی ہے، کیوں کہ انہوں نےکتبِ تسعہ میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی جو منفرد روایات ذکر کی ہیں، وہ ڈاکٹر محمد عبدہ کے بیان کے مطابق ہیں۔ 

6:ڈاکٹر عبد السميع انیس حفظہ اللہ کے اعداد وشمار 

ڈاکٹر صاحب موصوف اپنی ’’بحوثٌ في السُّنۃِ الـمُطہَّرۃ‘‘ (ص:۱۷) میں رقم طراز ہیں: 
’’حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی احادیث کو شمار کرنے کی غرض سے میں نے اہم کتبِ سنت میں سے درج ذیل پندرہ کتابوں کی مراجعت کی ہے: 
مُسندُ الإمامِ أحمد، والکتبُ السِّتۃُ، مُوطأ مالِک، مُسندُ الحُميدِيّ، سُننُ الدارميّ، صَحيحُ ابنِ خُزيمۃ، اور الأدبُ المُـفردُ۔ نیز کتبِ ستہ کے مصنفین کی چند اور کتابیں۔ 
میں نے مکرر سندوں کو حذف کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی احادیث کی تعداد (۱۵۰۰) سے زیادہ نہیں۔ 
واضح رہے کہ مذکورہ تمام احادیث (سندًا) صحیح نہیں، بلکہ ان میں حسن اور ضعیف روایات بھی شامل ہیں۔ اگر ہم ضعیف روایات (ان روایات کے ضعف کی بنیاد حضرت ابوہریرہؓ نہیں، دیگر ضعیف راوی ہیں) کو حذف کردیں تو مذکورہ تعداد میں کمی آجائے گی۔ ‘‘

7: استاذ علی عبد الباسط مزيد کی شماریات 

استاذ علی عبد الباسط نے اپنی کتاب ’’منہاجُ المحدِّثينَ في القرنِ الأوَّل الہجريِّ وحتّٰی عصرِنا الحاضِر‘‘ (ص:۹۴) میں مروياتِ ابوہریرہؓ کے بعض اعداد وشمار درج کیے ہیں:
’’۱:صحیحین میں اُن کی(۶۰۹) احادیث ہیں، اُن میں سے(۳۲۶) متفق عليہ ہیں، اور (۹۳)روایات میں امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  منفرد ہیں، جب کہ(۱۹۰) روایات میں امام مسلم  رحمۃ اللہ علیہ  منفرد ہیں۔ 
۲:سننِ اربعہ کے مصنفین اور امام مالک  رحمۃ اللہ علیہم  نے موطامیں اُن کی (۱۶۰۹) روایات درج کی ہیں۔ 
۳: امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مسند میں تکرار سمیت اُن کی (۳۸۴۸) روایات ذکر کی ہیں۔ 
۴: امام بَقِی بن مَخلد  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مسند میں اُن کی(۵۳۷۴)  احادیث روایت کی ہیں۔ 
۵: ابو اسحاق ابراہیم بن حرب عسکری  رحمۃ اللہ علیہ (ت:۲۸۲ھ) نے ’’مُسندُ أبي ہُريرۃؓ‘‘ یکجا کی ہے، اس کا ایک نسخہ ترکی کے کتب خانہ کوپریلی میں موجود ہے۔‘‘

مروياتِ ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی کثرت کے اسباب

شیخ احمد محرم ناجی کی کتاب ’’الضوءُ اللامعُ المبينُ عَن مَناہجِ المحدِّثين‘‘ (ص:۱۳۴) میں لکھا ہے:
’’مُنصفانہ غور وفکر کے نتیجہ میں مرویاتِ ابوہریرہ ؓ کے درج ذیل اسباب سامنے آتے ہیں: 
1: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحبت میں بکثرت حاضری۔ 
2:صفائے ذہن، شدتِ ذکاوت، جس نے اُنہیں صحابہؓ میں سب سے بڑے حافظ ِ(حدیث) کا مقام دلایا۔ 
3: احادیث کی حرص، اور مجلسِ حدیث کی نگہداشت۔ 
4: علمِ حدیث کے لیے فراغت، اور اُس سے غافل کرنے والے امور نہ ہونا۔ 
5:نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے کے بعد حکومتی امور یا دنیاوی مشغولیات نہ ہونا، کیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی جانب سے بحرین سے معزولی کے بعد اُنہوں نے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔ 
6:(دیگر صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی بنسبت) تاخیر سے وفات، اس بنا پر اُنہیں بہت سے تابعینؒ سے ملاقات کے مواقع ملے، کہا جاتا ہے کہ اُن سے آٹھ سو (صحابہؓ وتابعینؒ) راویوں نے روایت کی ہے۔ 
7: مذکورہ تمام امور سے اہم نکتہ یہ ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُن کے لیے حافظے میں برکت کی دعا کی اور انہیں اپنے سینے سے چمٹالیا، حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  نے اُس دعا کی برکتوں سے خوب فائدہ اٹھایا۔ ‘‘
ذیل میں مروياتِ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے متعلق مذکورہ اعداد وشمار کا خلاصہ نقشہ کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے:

نامِ محقق

اعداد وشمار کے مآخذ ومراجعکل احادیث کی تعدادمکررات کے حذف کے بعد تعداد

حضرت ابوہریرہؓ  کی متفردات

ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن اعظمی

مسند أحمد والکتب الستۃ ۱۳۳۶۲۲۰

ڈاکٹر محمد مَطَری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۱۰

ڈاکٹر عبدہ یمانی

الکتب الستۃ۵۳۷۴۱۳۰۰۱۰

ڈاکٹر عبدہ یمانی

الکتب التسعۃ۸۹۶۰۱۴۷۵۴۲

ڈاکٹر عبدہ یمانی

الکتب الستۃ۔۔۔۔۔۔۸
ڈاکٹر منتصر کتانیمسند احمد۔۔۔۔۔۔۸
ڈاکٹر عبدالسمیع الانیس۱۵ کتابا۔۔۔۱۵۰۰۔۔۔
ڈاکٹر علی عبدالباسطمسند احمد۳۸۴۸۔۔۔۔۔۔

 


 دیگر کتب سے حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی مرویات کے اعداد وشمار 

نامِ کتاب

نامِ مصنفمرویات کی اجمالی تعداد

تحفۃ الأشراف، ط: عبدالصمد

مزی۳۳۴۳

أطراف المسند الحنبلي

ابن حجر۲۲۸۳

مسند أحمد، ط: الرسالۃ

ابن حنبل۳۸۶۵

المسند الجامع (۱۲ کتاب)

معاصرین۲۷۳۹

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین