بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حصولِ علم کےلیے مطلوب صفات


حصولِ علم کےلیے مطلوب صفات


مورخہ ۸؍ ربیع الاول ۱۴۴۴ھ مطابق ۵؍اکتوبر ۲۰۲۲ء بروز بدھ حضرت مفتی رضاء الحق صاحب مدظلہٗ (سابق استاذ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن وحال شیخ الحدیث ورئیسِ دار الافتاء دار العلوم زکریا، جنوبی افریقہ) جامعہ تشریف لائے۔ اس موقع پر حضرت نے دار الحدیث میں اساتذہ وطلبہ کے مجمع سے صحیح بخاری ’’کتابُ العلم‘‘ کے بعض تراجمِ ابواب کی وضاحت اور حدیثِ مسلسل بالاوّلیت سے متعلق ایک علمی خطاب فرمایا، جسے جامعہ کے دورہ حدیث کے طالب علم مولوی محمد طیب حنیف نے ریکارڈنگ سے کاغذ پر منتقل اور مرتب کیا۔ افادۂ عام کی غرض سے شاملِ اشاعت کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)


محترم طلباء کرام! اللہ رب العزت نے آپ حضرات کو علم کی گراں قدر دولت سے نواز کر عزت ورِفعت عطا فرمائی ہے۔ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی طرف یہ اشعار منسوب ہیں:

ما الفخرُ إلاّ لأہل العلم أنَّہم

علی الہدی لمن استہدَی أدِلاءُ
وقدرُ کلِّ امرئ ما کان یُحسِنہ

والجاہلونَ لأہل العلم أعداءُ
ففُزْ بعلمٍ تعِشْ حیّاً بہ أبدًا

الناسُ موتی وأہل العلم أحیاءُ

ترجمہ: ’’فضیلت و بڑائی کا حق صرف اہلِ علم کو حاصل ہے، چونکہ وہ خود ہدایت پر قائم ہیں ، ہدایت کے متلاشی افراد کے لیے بمنزلہ رہبر ورہنما کے ہیں۔ہر انسان کی قدر ومنزلت اس کے حسنِ عمل سے عیاں ہوتی ہے، اور علم کی دولت سے محروم افراد اہلِ علم کے دشمن ہوتے ہیں (ان سےبغض وعداوت رکھتے ہیں)۔ لہٰذا تم علم کی گراں قدر دولت حاصل کرکے تاحیات زندگی حاصل کرلو، عوام تو مردہ کی حیثیت رکھتےہیں، جبکہ اہلِ علم زندہ وجاوید ہیں۔‘‘

علمی ہنر اورکمال خود بخودظاہر ہوجاتا ہے

انسان کا مرتبہ ا ور فضیلت اس میں موجود علم و ہنر کی وجہ سے خود اُجاگر ہوتا ہے، لہٰذا اس علم کو شہرت طلبی اورحصولِ جاہ کے لیے ہرگز حاصل مت کرنا۔ اس سے متعلق سخت وعید وارد ہے۔ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی روایت آپ حضرات نے سنی ہوگی، جس کا حاصل یہی ہے کہ :’’جہنم میں سب سے پہلے اُس شخص کو ڈالا کیا جائے گا‘ جس کا پڑھنا پڑھانا شہرت وجاہ کے حصول کی غرض سے ہو ۔‘‘ اگر آپ کے اندر علمی ہنر وکمال موجود ہے تو اللہ رب العزت اس کو ضرور ظاہر فرمائیں گے۔
’’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘‘
یعنی مشک وہ ہے جس کی مہکتی خوشبو اس کی گواہی دیتی ہو، عطر فروش کو جس کی تعریف کی ضروت پیش آتی ہو، وہ مشک کہلانے کے قابل نہیں ۔
کسی زمانہ میں انوری شاہ نامی ایک شاعر گزرا ہے، وہ دنیاوی معاش ا ورتنگیِ رزق کی وجہ سے ہندوستان آیا۔ اس زمانہ میں مشاعرے کی مجالس و محافل زور وشور سے منعقد کی جاتی تھیں، چنانچہ اس نے بھی شرکت کی غرض سے اجازت کے لیےدرخواست پیش کی، جب اس کو بلایا گیا تو اس نے مشاعرے کے نگراں کے سامنے غلط اشعار پڑھے، جس سے وہ خوب محظوظ ہوا۔ اس نے کہا :اس کو بھی مجلس میں شریک کرنا چاہیے، تاکہ لوگوں کے لیے تفریح کا سامان بھی فراہم ہو۔ بہرحال اگلے دن مجلسِ مشاعرہ میں اس نے خوب حیران کن اشعار پڑھے، اور لوگوں سے داد وصول کی۔ شرکاء مجلس نے اسے نیچے کی نشست پر بٹھایا ہوا تھا، جب اس نے یہ آخری شعر پڑھا :

قل ہو اللہ کہ وصفِ خالقِ ماست
زیر ِتبّت يدا أبي لہب است

ترجمہ: ’’قل ہو اللہ خالقِ کائنات کا کلام ہے، لیکن تبّت يدا أبي لہب (سورہ لہب) کے بعد واقع ہے۔‘‘
اس شعر کا سننا تھا کہ لوگوں نے نہایت عزت وتکریم کے ساتھ اسے اونچی نشست پر بٹھایا۔
اس سے متعلق ایک (اور)واقعہ یاد آیا۔ افغانستان میں دو عالم تھے:ایک کانام مولانا عبدالحکیم اور دوسرے کا نام مولانا عبدالباقی تھا، انہوں نے ہجرت کی نیت سے سرزمینِ شام کا رُخ کیا، وہاں کسی سے شناسائی اور تعلق نہیں تھا، ایک معمار کے پاس مزدور کی حیثیت سے کام کرنے لگے، اور اپنے علم و لیاقت کو مخفی رکھا،ایک دن کا واقعہ ہے کہ دمشق کے مفتی عام محمود حمزہ نے ایک دعوت کا اہتمام کیا، یہ دونوں بحیثیت مزدور مدعو ہوئے، جب گھر میں داخل ہوئے تو فتاویٰ کی کتب سے معمور الماریوں کو دیکھااور ایک فتوی کی کتاب اٹھائی، کافی دیر ورق گردانی کے بعد ایک مسئلہ پر درج حوالہ جات میں اپنی طرف سے اضافہ کیا اور بعض مسائل پر تعقُّبات بھی درج کردیئے۔شام کو جب وہ عالمِ دین آئے اور اپنی کتابوں کو ٹٹولا توا ن کی نگاہ حوالہ جات میں اضافہ اور تعقُّبات پر پڑی۔اس پروہ بہت حیران ہوئے اور گھر کے خدام سے اس بارے میں دریافت کیا، انہوں نے بتایا کہ فلاں مزدورنے کیا ہے، انہوں نے مزدور کو بلایا او ر فرمایا :آج سے آپ فلاں مسجد میں قیام کریں، جہاں آپ کے لیے کتب خانہ کی سہولت موجود ہے، چنانچہ (بعد میں )انہوں نے ’’کشفُ الحقائق‘‘ کے نام سے ’’کنز الدقائق‘‘ کی ایک بہترین شرح تصنیف کی، جو ہمارے دوست (شيخ الحدیث) مولانا محمدانور بدخشانی حفظہم اللہ کے مقدمہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔
انہی شیخ عبدالحکیم ؒسے متعلق میں نے شیخ محمدعوامہ سے براہِ راست سنا کہ شیخ  ؒ پیرانہ سالی کے سبب اپنے پاؤں پھیلاکر درس دیتے تھے۔ ایک مرتبہ دمشق کا گورنر ملاقات کے لیے ان کے مدرسہ حاضر ہوا، ملاقات سے فارغ ہوکر دراہم کی تھیلی ایک ملازم کے ہاتھوں روانہ کی۔ شیخ عبدالحلیمؒ نے شکریہ ادا کرتے ہوئےواپس لوٹادی اور سبق آموز جملہ ارشاد فرمایا: ’’الذي یمدُّ رجليہ لایمدُّ یديہ‘‘ یعنی ’’جو دوسروں کے آگے پاؤں پھیلاتا ہے، وہ کبھی دستِ سوال دراز نہیں کرتا۔‘‘

محدّث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کا ذکرِخیر 

اس مدرسہ کا سنگِ بنیاد رکھنے والے حضرت بنوری رحمہ اللہ سال کے آغاز میں اخلاص پر تقریر فرماتے تھے۔ حضرتؒ کی یہ کرامت تھی کہ ہر سال کی تقریر پرانی ہوتی تھی، مگر نئی معلوم ہوتی تھی۔ طلبہ سے بڑے درد ِ دل سے فرماتے تھے:جو طالب ِعلم حصولِ جاہ اورشہرت کی غرض سے داخلہ کا خواہشمند ہے‘ وہ ہمارے ادارے میں نہ آئے۔ میں خود اس کے لیے درخواست لکھ کر کسی دوسرے ادارے میں داخلہ کراؤں گا۔ آپؒ دورانِ درس فرماتے تھے:میرا حج و عمرہ کی وجہ سےحرمین شریفین کا سفرصرف اپنی خاطرنہیں ہوتا، بلکہ اس مدرسے، طلباء و اساتذہ اور عملہ(سب) کے لیے دعا کرتا ہوں۔ آپؒ مستجاب الدعوات تھے، آپ کی دعا کا اثر ہے کہ اس مدرسہ کے فضلاء کو اللہ رب العزت نے خصوصی مقام وعزت سے نوازا ہے۔

حضرت بنوری ؒوحضرت شیخ الحدیثؒ کے تعلیمِ خدمت کے واقعات
 

محمد علی نامی ایک( طالب علم) حضرتؒ کے خادم تھے، جو پڑھائی میں نہایت کمزور تھے، مگر خدمت کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، چنانچہ روزانہ درس سے قبل حضرتؒ کے(گھر کے) دروازے کے باہر حاضر ہو جاتےتھے، جب آپ باہر تشریف لاتے تو ان کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر سہارا لیے مسجد تشریف لےجاتے تھے۔ اسی طرح وہ حضرتؒ کی جوتیاں نہایت سلیقہ سے محفوظ رکھتے تھے۔ان کی ایک خصوصیت قابلِ ذکر ہے کہ: جب وہ کسی اور طالب ِعلم کو حضرتؒ کی خدمت کے لیے آگے بڑھتادیکھتے تو فوراً پیچھے ہٹ جاتےتھے اور اسے خدمت کا موقع دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک طالب علم نے خدمت کی غرض سے حضرتؒ کی جوتیاں اُٹھائیں، آپؒ نہایت نفیس جوتیاں پہنتے تھے،اس طالب علم نے جوتیوں کی پائنتی کا رُخ مشرق کی طرف پھیر کر رکھ دیا، آپ ؒنے طبیعت میں غیر معمولی حساسیت کی وجہ سے اس پرناراضگی کا اظہار فرمایا۔
اس قسم کا (ایک اور) واقعہ یاد آیا، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی رحمہ اللہ جن کو حضرت بنوریؒ سے گہری رفاقت حاصل رہی، اخیر عمر میں پیرانہ سالی کے سبب عصا (لاٹھی) کے سہارے چلتے تھے، ایک مرتبہ حرمِ مکی میں تشریف فرماتھے، شیخ یونسؒ نے آپ کی لاٹھی کو رکھنا چاہا تو بے دھیانی میں اُس کا دستہ قبلہ سے منحرف حالت میں رکھا، حضرت شیخ الحدیثؒ نے فورا ًتنبیہ کی، اور فرمایا : اس کا دستہ بمنزلہ چہرہ کے ہے، جس کا رُخ قبلہ کی جانب ہونا چاہیے۔ ہمارے اکابرین نے اس قدر معمولی آداب کا بھی لحاظ کیا ہے۔

کتاب کے ساتھ قلبی تعلق ہونا ضروری ہے

طلبِ علم میں دل لگاکر محنت کرنی چاہیے،ا س پر ایک واقعہ عرض کرتا ہوں، جوتفسیروں میں موجود ہے۔ حضرت داؤد  علیہ السلام  کی خدمت میں دو عورتیں آئیں، ان میں سے ایک کا بچہ بھیڑیا اٹھاکر لے گیا تھا، اور ایک بچہ موجود تھا، جس پر دو نوں عورتیں دعوےدار تھیں۔ حضرت داؤد  علیہ السلام  نے قبضہ کی بنا پر بڑی عورت کے حق میں فیصلہ سنایا۔ جب ان دونوں عورتوں کا گزر آپ کے صاحبزادہ سلیمان  علیہ السلام  پر ہوا ، ان کو قضیہ اور فیصلہ پر آگاہ کیا، تو والد کی خدمت میں اس فیصلہ میں ترمیم کی اجازت چاہی، اور ایک تدبیر اختیار کی کہ دونوں عورتوں کی موجودگی میں چھری منگوائی اور بچہ کو ذبح کرنے کی غرض سے قدم بڑھایا تو یک دم چھوٹی عورت پکار اٹھی کہ اس بچہ کو دوسری عورت کے سپرد کردو، مگر اس کو قتل مت کرو۔ دراصل بڑی عورت کا بچے کے ساتھ ہاتھ کا تعلق تھا، لیکن چھوٹی عورت کا Heart (دل) کا تعلق تھا، لہٰذا کتاب کے ساتھ بھی Heart کا مضبوط تعلق ہونا چاہیے۔
اس سلسلہ میں بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک نبی نے جنگ پر روانگی سے قبل اعلان کیا:جو شخص گھر کی تعمیر سے فارغ ہواہو ،مگر چھت ڈالنا ابھی باقی ہو، یا جس کی اونٹنی گابھن ہو، یاوہ شخص جو عقدِ نکاح میں داخل ہوچکا ہو، مگر رخصتی ابھی نہ ہوئی ہو، تو ایسے لوگ ہمارے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوں۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ ان کا دل مذکورہ چیزوں کے ساتھ معلق ہوگا،اور جہاد میں یکسو نہیں ہوگا۔

حصولِ علم کےچھ درجات

علماء نے حصولِ علم کے چھ درجات ذکر کیے ہیں:
1-   الاستماع: استاذ کا سبق پورےغور وتوجہ سے سننا۔
2-      الإنصات: دورانِ درس گفتگو اور ہنسی مذاق سے اجتناب کرنا۔
3-   الفہم: سبق کو سمجھنے کی ہر ممکن کوشش کرنا، حاشیہ وغیرہ کی مدد لینا۔
4-   الحفظ: سبق کو ضبط او رمحفوظ کرنے کی کوشش کرنا۔
5-   العمل: مضمونِ درس کو عملی زندگی میں زندہ کرنا۔
6-   الدعوۃ : لوگوں کو خیر وبھلائی کی دعوت دینا او ربرائی سے روکنا۔

احسان کے چھ معانی 

درس کی ابتداء میں‘ میں نے جو اشعار پڑھے، ان میں ایک مصرعہ ہے: وقدرُ کلِّ امرئ ما کان یُحسِنہ، اس میں ایک کلمہ ’’احسان ‘‘آیا ہے، جس کے متعدد معانی ہیں: 
1-   الإخلاص في النيۃ، 2- الإحسان بالعمل (عبادت کو بخوبی انجام دینا)،3-الإحسان إلی الأقارب، 4-الإحسان إلی الأجانب، 5- الإحسان إلی غير المسلمين، 6-الإحسان إلی العبادات۔ یہ احسان کے چھ نمبرہیں۔یہاں شعر میں دوسرا معنی، یعنی الإحسان بالعمل مراد ہے۔

صحیح بخاری ’’کتابُ العلم‘‘ کےچند ابتدائی تراجمِ ابواب کی وضاحت

آپ حضرات کے سامنے عبارت پڑھی گئی، امام بخاری رحمہ اللہ نے حسبِ عادت ’’ترجمۃُ الباب‘‘ میں آیت: ’’يَرْفَعِ اللہُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِيْنَ أُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ۔‘‘ (المجادلۃ:۱۱)  پیش کرکے اہلِ علم کی رفعت ومنزلت کو بیان کیا ہے۔ آیت کا اختتام ’’وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ‘‘ لاکر اشارہ فرمادیا کہ علم کی اصل غرض اور مقصود اس کے مقتضیات پر عمل پیرا ہونا ہے۔ معروف جملہ ہے: ’’العلمُ بلا عملٍ عقیمٌ، والعملُ بلاعلمٍ سقیمٌ،وکلاہما طریقٌ مستقیمٌ‘‘، یعنی حصولِ علم‘ عمل کے بغیر بانجھ ہے۔ اور عمل‘ علم کےبغیر مریض اورکمزو ر ہے، اور علم وعمل کا مجموعہ ‘یہ سیدھی راہ ہے۔ 
امام بخاری ؒ نے حسنِ ترتیب کےساتھ ابواب باندھےہیں، چنانچہ پہلے باب میں غیر اہم امور کو ترک کرکے اہمیت کے حامل کام کو مقدم کرنے پر زور دیا ہے۔ اگلے باب میں مدرّس ومحدّث کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے انتظام پر توجہ مبذول کرائی ہے۔ چونکہ اس کے بغیر طالب علم کو سبق سننے میں دشواری ہوتی ہے، اس کے متصل باب میں درسِ حدیث کے افتتاح میں ’’وبہٖ قال: حدّثنا‘‘ کے ذریعہ اتصالِ سند کےساتھ سبق کا آغاز کرنے کی ترغیب دی ہے۔
اس بات سے آپ بخوبی واقف ہیں کہ: ’’وبہٖ قال:حدّثنا‘‘ کہہ کر درس کا افتتاح کرناحضرت شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا طریقہ رہا ہے، جبکہ (امام العصر) حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے درس میں ’’وبہٖ‘‘ کا اضافہ نہیں کیا جاتا تھا، جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بسااوقات تمام مرویات کی سماعت حاصل نہیں ہوتی تھی، لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ جب مجموعہ کتاب کی اجازت حاصل ہوگئی تو اس کے ذیل میں، اس میں درج تمام مرویات کی اجازت شمار ہوگی۔
اس سے اگلے باب میں استاذ کا تلامذہ سے سوالات پوچھنے کو ذکر کیا ہے، جس کو سہہ ماہی امتحان کے نام سے جانا جاتا ہے، اسی طرح (آخرتک ) آدابِ تعلیم وتعلم سے متعلق (مختلف) ابواب باندھے ہیں۔

’’حدیثِ مسلسل بالاوّلیت ‘‘کا تسلسل اور اس کی سند

ہمارے اکابرین کا طریقہ رہا ہے کہ وہ حدیث کی مجلس میں سب سے پہلے اس حدیث کو بیان فرماتے تھے۔ اس میں میری اور آپ حضرات کے استاذ ِحدیث حضرت مفتی عبدالرؤوف غزنوی صاحب مدظلہم کی سند یکساں ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’الرّاحمونَ یرحمُہم الرحمٰن، ارحموا من في الأرض یَرحمْکم-أو يَرحمُکم- مَن في السَّماء۔‘‘
ہم نے اپنے شیخ حضرت مفتی محمود حسن صاحب ؒسے سب سے پہلے یہ حدیث سنی ، انہوں نے اپنے شیخ حضرت مولانا محمدزکریا صاحبؒ سے، انہوں نے اپنے شیخ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب ؒ سے، انہوں نے حضرت مولانا عبدالقیوم بُڈھانوی صاحبؒ سے ، انہوں نےحضرت شاہ محمد اسحاق ؒ سے ، انہوں نےحضرت شاہ عبدالعزیز ؒ سے، انہوں نے حضرت شاہ ولی اللہ ؒ سے سنی۔ اس کے بعد والی اسانید کو حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنے رسائل ’’الفضلُ المبين‘‘ اور ’’النوادر‘‘ میں ذکر کیا ہے(یہ کتاب حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ کی تعلیقات اور حواشی کے ساتھ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے)۔
یہ بات یاد رہے کہ’’حدیثِ مسلسل بالاوّلیت ‘‘ کا تسلسل حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ تک رہا ہے، اس کے بعد عمرو بن دینار ؒ، ابو قابوسؒ اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص  رضی اللہ عنہ  میں اس کا تسلسل باقی نہیں رہا ، البتہ ہمارے اکابرین اس کا بہت اہتمام فرماتے تھے۔

’’مسلسل بیوم عاشورا‘‘سے متعلق ایک حیرت انگیز واقعہ
 

دار العلوم کراچی کے نائب رئیس حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے ایک جگہ لکھا ہے: میں جدہ میں کسی کانفرنس میں شریک تھا، کانفرنس سے فارغ ہوکر عصر کے بعد موقع ملا تو میں نےٹیکسی کرائے پر لی اور عمرےکے لیے چلا گیا، عمرےکے لیےجانے کے بعد جب سیڑھیوں سے اتر رہا تھا تووہاں ایک طالب ِعلم میرے انتظار میں کھڑا تھا ، اس نے مجھ سے کہا :آپ کوشیخ یاسین فادانی یاد فرمارہے ہیں، انہوں نےمجھے حکم دیا تھا کہ اس جگہ کھڑے رہنا، مولانا تقی صاحب ملیں گے، انہیں میرے پا س لائیے۔
شیخ یاسین فادانی اصلاً انڈونیشیا کے عالم تھے، وہ ’’جامع المسانيد‘‘ تھے، بڑے بڑے مشائخ ان کے پاس اجازتِ حدیث کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ مولانا تقی صاحب فرماتے ہیں : میں نے اس طالب علم سےپوچھا:انہیں میری آمد کا کیسے علم ہوا؟ اس نے کہا: مجھے اس کا علم نہیں،انہوں نے مجھے صرف اتنا فرمایا تھاکہ فلاں دروازہ پر ان کا انتظار کرنا اور میرے پاس لےآنا۔جب مولاناتقی صاحب ان کی مجلس میں پہنچے تو شیخ یاسین فادانی نے فرمایا :دراصل میرے پاس ایک حدیث’’مسلسل بیوم عاشورا‘‘ ہے ، اور آج عاشورا کا دن ہے، میں نے آپ کو اس کی اجازت دینے کے لیے بلایا ہے، اس لیےکہ یہ دن سال میں ایک دفعہ آتا ہے ، معلوم نہیں آئندہ سال آپ یا میں زندہ رہیں یا نہیں؟زندہ رہیں تو یہاں موجودہوں گے یانہیں؟ اس لیے میں نےآپ کو تکلیف دی، مولانا تقی صاحب فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: حضرت! آپ کو کیسےپتہ چلا کہ میں یہاں آیا ہوا ہوں؟ وہ فرمانے لگے: بس باقی باتوں کو چھوڑیں، آپ حدیث کی اجازت لیں۔ یہ ’’کشف الصدور والإلہام‘‘ کہلاتا ہے، جو دائمی نہیں ہوتا۔

’’حدیثِ مسلسل‘‘ کی چھ قسمیں 

۱:مسلسلِ قولی، ۲:مسلسلِ فعلی، ۳:مسلسلِ زمانی، ۴:مسلسلِ مکانی، ۵:مسلسل بالحالۃ العارضۃ، ۶:مسلسل بالحالۃ الدائمۃ۔

حاضرین کو اجازت ِحدیث

مجلس کے اختتام پر حضرت مفتی صاحب نے دورہ حدیث کے طلباء کواپنی تمام مرویات کی اجازت مرحمت فرمائی، اور فرمایا: ’’ہمارے اساتذہ ومشائخ کے حالاتِ زندگی پر عبدالرحمٰن نیمویؒ نے ایک کتاب مرتب کی ہے، جس کا نام ’’جواہر الأصول‘‘ تجویز کیاہے۔ اس پر ہم نے کام بھی کیا ہے۔ ایک بار اس کی اشاعت ہوئی تھی اور ہاتھوں ہاتھ اس کے نسخے ختم ہوگئے تھے، اب عنقریب دوبارہ اس کی اشاعت ہوگی ۔‘‘

حضرت بنوریؒ سے اجازت حاصل نہ ہونے کاذکر 
 

ایک بات عرض کرکے مجلس کا اختتام کرتا ہوں، اس مدرسہ کے مؤسس وبانی علامہ بنوری ؒ سے مجھے براہِ راست اجازت ِحدیث حاصل نہیں ہے۔ یہ تکوینی فیصلہ تھا، حالاں کہ میں ۱۹۷۲ء میں آیا اور حضرتؒ کی رحلت کا سانحہ سن ۱۹۷۷ء میں پیش آیا۔ ان کی مجالس ا وردروس میں شرکت اور ان سےاستفادہ کا موقع ملا ہے،ا س وجہ سے ان کا ذکر اپنے اساتذہ میں کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں، بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں جو کچھ ملا، وہ اس مدرسہ اور اس کے بانی کی برکت سے ملا، ورنہ ہم خود کچھ نہیں ہیں۔

اردو اورعربی میں لفظ ِ’’مہتمم‘‘کے تلفظ میں فرق 

مہتمم کا لفظ عربی میں استعمال کرتے ہوئے میم کو میم میں ادغام کرنا ضروری ہوگا، جبکہ اردو زبان میں بغیر ادغام مستعمل ہے۔ اس سے اشارہ ہوگیا کہ مہتمم اورنگراں حضرات کو نرم اورسخت دونوں لہجوںمیں سمجھانا چاہیے، جس کی بہترین تعبیر یہ ہے: سختی کی جگہ پر سخت رویہ ا ورلہجہ ہو، مگر نرمی کی جگہ پر نرمی اختیا ر کرے۔

وصلی اللہ علٰی محمد وعلی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین!

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین