بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حرمتِ سودسیمینار، کراچی !

حرمتِ سودسیمینار، کراچی !

الحمد للہ و سلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

قرآنِ کریم، سنتِ نبویہ، اجماعِ اُمت اور عقلِ سلیم کی رو سے سود حرام ہے۔ سود کی حرمت، نجاست، قباحت اور شناعت کو شرعی نصوص میں بڑا واضح اور غیر مبہم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جو شخص سود جیسی لعنت کو نہیں چھوڑتا، اس کے خلاف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جانب سے کھلا اعلانِ جنگ ہے۔ یہی نظریۂ پاکستان بھی ہے، جسے روزِ اول سے تاحال موقع بموقع دہرایا جارہا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی سود اور اس کی تباہ کاریوں کو کئی باراپنی سفارشات میں واضح کیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے سود کو غیر اسلامی قراردیا اور اپنے فیصلہ میں لکھا کہ سودی نظام کو فوراًختم کیا جائے، اس لیے کہ یہ غیر اسلامی، ناجائز اور حرام ہے۔ لیکن ۱۹۹۱ء میں اس وقت کی نواز شریف حکومت اور پاکستانی بینکوں نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ اب ۲۰۲۲ء ختم ہونے کو ہے، اتنے سال اپیلوں میں ضائع ہونے کے بعد اس بار پھر عدالتِ عظمیٰ نے فیصلہ دیا کہ پانچ سال میں سود کو ہر سطح پر ختم کیا جائے۔ اس فیصلہ کے خلاف موجودہ حکومت اور کچھ پرائیویٹ بینک پھر اپیل کے لیے عدالتِ عظمیٰ میں چلے گئے۔ 
اچھا ہوا جمعیت علمائے اسلام اور دینی مذہبی طبقے کے شدید دباؤاور مطالبے کو مانتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اورحکومتِ پاکستان کے ماتحت نیشنل بینک آف پاکستان نے اپیلیں واپس لے لیں، لیکن پرائیویٹ بینکوں نےابھی تک اپیلیںواپس نہیں لیں۔ ان حالات کے تحت جمعیت علمائے اسلام کے قائد حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی فکر وراہنمائی، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ کی دعوت وسربراہی اور فیڈریشن آف پاکستان کے تعاون اور حمایت کے ساتھ پاکستان بھر میں موجود تمام مسالک کی مذہبی وسیاسی جماعتوں، دینی تنظیموں، کاروباری شخصیات، سرکاری وپرائیویٹ بینکوں کے سربراہان اور نمائندوں کو کراچی میں فیڈریشن ہاؤس کلفٹن کراچی کی بلڈنگ میں مدعوکیا گیا، سب نے اس میں بھر پور شرکت کی۔ 
وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبد الشکور صاحب، وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب، گورنرکے پی کے جناب الحاج غلام علی صاحب اور گورنر اسٹیٹ بینک جناب جمیل احمد صاحب بطور خاص اس اجتماع میں شریک ہوئے۔ اس نمائندہ اجتماع کا ایجنڈا درج ذیل تھا:
1:- حرمتِ سود کی اہمیت ۔ 
2:-پرائیویٹ بینکوں سے مطالبہ کہ وہ اپنی اپیلیں واپس لیں ۔ 
3:- حکومت سے مطالبہ کہ وہ سود کے خاتمے کے لیے وزارتِ خزانہ میں ایک مستقل ڈویژن اور اس کے تحت ایک ٹاسک فورس قائم کرے جو مالیاتی اداروں کو سود سے پاک کرنے کا مرحلہ وار طے کرکے اسے نافذ کرے۔ 
4:- بعض اداروں سے فوری طور پر سود ختم کرنے کا مطالبہ۔ 
5:- علمائے کرام کی ایک ٹیم قائم کرنا جو حکومتی اقدامات پر نظر رکھتے ہوئے وقتاًفوقتاًان کے بارہ میں حکومت کی راہنمائی کرے۔ 
اس اجتماع میں درج ذیل قرارداد یں پاس کی گئیں ، جن کی تمام شرکا ء نے بالاتفاق تائید کی۔ 
’’1:-تمام مکاتبِ فکر کے علماء ، دینی تنظیموں اور تاجر برادری کا یہ نمائندہ اجتماع وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہے، جس میںحکومتِ پاکستان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پانچ سال کی مدت میں ملکی معیشت کو سود سے پاک کرکے غیر سودی اسلامی نظامِ معیشت قائم کرے۔ 
پاکستان کے مقصد ِوجود کا یہ تقاضا تھا کہ ہماری معیشت سود کی لعنت سے پاک ہو، چنانچہ ملک میں جتنے دستور بنے، ان میں اور آخر کار ۱۹۷۳ء کے دستور میں جو تمام جماعتوں کے اتفاق سے منظور ہوکر بفضلہ تعالیٰ آ ج بھی نافذ ہے، دفعہ ۳۸(ایف) میں یہ صراحت موجود ہے کہ ملک میں ربا کو جتنی جلدی ممکن ہو، ختم کیا جائے گا، لیکن افسوس ہے کہ پچھتر سال گزرنے کے باوجود ہم ملکی سطح پر قرآن کریم کے اس اہم حکم پر عمل کرنے سے قاصر رہے ۔ 
اس موقع پر محترم وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب نےیہ اعلان کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک آف پاکستان کی طرف سے دائر کی ہوئی اپیلیں واپس لی جارہی ہیں اور وفاقی شرعی عدالت کے حالیہ فیصلے پر عمل کرتے ہوئے ملک سے سود کو ختم کرنے کےلیے سنجیدگی سے کام کیا جائے گا۔
ہر مکتبِ فکر کے علماءکرام، دینی تنظیموں اور تاجر برادری کا یہ نمائندہ اجتماع اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے حکومت کو اس کام میں ہرممکن تعاون کا یقین دلاتا ہے، اور مطالبہ کرتا ہے کہ اس اہم کام کے لیے ایسے فوری اقدامات اٹھائے جائیں، جن سے اس مقصد کی طرف بامعنیٰ پیش رفت واضح طور پر نظر آئے۔ 
2:- یہ نمائندہ اجتماع اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہےکہ اگرچہ اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک آف پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلےکے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں واپس لینے کا اعلان کردیا ہے، لیکن جن پرائیویٹ بینکوں اور مالیاتی اداروں نے اپیلیں دائر کی تھیں ، انہوں نے ابھی تک وہ اپیلیں واپس نہیں لیں اور ان میں یہ موقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ بینکوں اورمالیاتی اداروں میں جو سود لیا اور دیا جاتا ہے، وہ ’’ربا‘‘ کی تعریف میں نہیں آتا، حالانکہ یہی وہ موقف ہے جو تین مرتبہ اعلیٰ عدالتوں نے مستحکم دلائل کے ساتھ مکمل طور پر رد کردیا ہے، پہلے یہ مسئلہ وفاقی شرعی عدالت میں زیرِ بحث آیا، اور ۱۹۹۱ء میں اس نے حکومت کو سودختم کرنے کی ہدایت کی۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بینچ میں آٹھ سال زیرِ التوا رہی، اور آخر کار اس نے بھی سپریم کورٹ کی تاریخ کا سب سے ضخیم فیصلہ دیا، جس میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اس کے خلاف ایک ریویو پٹیشن دائر کی گئی، اور بینچ کوتوڑ کر ایک نئی بینچ بنائی گئی، جس نے یہ مسئلہ دوبارہ وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا، جہاں وہ بیس سال تک پڑا رہا۔ اب ۲۰۲۲ء میں اس عدالت نے بھی تفصیلی سماعت کے بعد وہی فیصلہ دیا جو اس سے پہلے دو اعلیٰ عدالتیں دے چکی ہیں ۔ اس طرح یہ تین اعلیٰ عدالتوں کا متفقہ فیصلہ ہے جو قرآنی احکام کے عین مطابق ہے۔ اس کے خلاف ایک بار پھر اپیلیں دائر کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس متفقہ مسئلے کو اکتیس سال کی جدوجہد کے بعد پھر غیر معینہ مدت کے لیے سردخانے میں ڈالنے کا بہانہ بنایا جائے۔ 
یہ نمائندہ اجتماع ان پرائیویٹ بینکوں اور مالیاتی اداروں سے پُرزور مطالبہ کرتا ہے کہ اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کی طرح وہ بھی اپنی اپیلیں فوراًواپس لےکر اپنے نظام کو سود سے پاک کرنےکی کوشش میں لگ جائیں، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سے جنگ ٹھاننےکے گناہ سے اپنے آپ کو بچائیں، اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو یہ اجتماع عوام سے یہ اپیل کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ ایسے بینکوں اور مالیاتی اداروں کا بائیکاٹ کریں، اور یہ اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جنگ ٹھاننےکا کم سے کم نتیجہ ہوگا۔ 
3:- یہ نمائندہ اجتماع حکومت سے یہ مطالبہ کرتاہے کہ وہ اپنے خوش آئندہ اعلان کے مطابق مقررہ مدت میں ملک کو سودی نظام سے نجات دلانے کے لیے فوری طورپر عملی اقدامات کا آغاز کرے۔ اس کےلیے فوری طورپر مندرجہ ذیل کام ضروری ہیں :
1:- وزارتِ خزانہ میں فوری طورپر غیر سودی نظام قائم کرنے کے لیے ایک مستقل ڈویژن اور اس کے تحت ایک مؤثر ٹاسک فورس قائم کرے جو اس اہم کام کے لیے ایک عملی نقشہ تیار کرکے مرحلہ وار سود کاخاتمہ کرنےکی مجاز ہو۔ اب تک اس کام کے لیے مختلف زمانوں میں آٹھ کمیشن اور کمیٹیاں قائم ہوئی ہیں ، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے :
ٰٰ i: ii.council of Islamic Ideology (CII) Report on Elimination of Riba from the Economy 1978 and 2006.
ii: Report on Bank and finanical Institutions (FIs) by the commission for Islamization of ecocomy .June ,1992.
iv: Report of commission for Transformation of financial system (CTFS).august 2001.
v: Report og the task force of Ministry of Law ,Justice and Human Right .2002.
vi: Report of The Task Force of Ministry of Finance (MoF)to propose measures to convert government borrowings into project related financing according to Shari,a .june 2002.
vii: The report of ,Self Reliance Commission ,prepared under the Ministry of planning .1991.
viii: Report of streeing Committee for the promotion of Islamic Banking in pakistan December 2015.
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۸ء سے ۲۰۱۵ء تک مختلف اداروں نے اس موضوع پر تفصیلی غور وغوض کرکے ضخیم رپورٹیں تیار کی ہیں ۔ 
یہ تمام کمیشن اور کمیٹیاںعلما ئے کرام اور مالیاتی ماہرین پر مشتمل تھیں، اور سب کا متفقہ نقطہ نظر یہی تھا کہ ملک سے سود کا خاتمہ قابلِ عمل ہے، اور ان میں کام کا طریقہ کار بھی بتایاگیا تھا، لیکن ان کا کام سفارشات پیش کرنے کی حد تک محدود تھا ۔ اب کسی مزید سفارشی کمیٹی یا کمیشن کی ہر گز ضرورت نہیں ہے، اس کے بجائے ایسی بااختیار ٹاسک فورس کی ضرورت ہے جو ان سفارشات کو عملی طور پر نافذ کرنے کا اختیار رکھتی ہو۔ 
2:- بعض صوبوں میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جن میں انفرادی یا مہاجنی قرضوں پر سود کی ممانعت کی گئی ہے، یہ قوانین پورے ملک میں نافذ کیے جائیں۔
3:- بعض ادارے ایسے ہیں جنہیں فوری طور پر سود سے پاک کرنے میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہے، مثلاً این آئی ٹی یونٹ ہاؤس، بلڈنگ فائنانس کارپوریشن، پنشن فنڈ، اور کنزیومر فائنانس کے دوسرے شعبے، ان کو بلاتاخیر فوراًسود سے پاک کیا جائے۔
4:-قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ: ’’وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا۔‘‘ (البقرہ :۲۷۵) یعنی ’’اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیاہے، اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ اس آیت کےمطابق ’’سود ‘‘کا اصل متبادل ’’بیع‘‘ ہے۔ لیکن موجودہ قوانین بینکوں اور مالیاتی اداروں کو براہِ راست بیع اور تجارت سے منع کرتے ہیں، ان قوانین پر نظر ثانی کرکے بینکوں اور مالیاتی اداروں پر سے یہ پابندی اُٹھائی جائے ۔ 
5:-الحمد للہ! ملک کے دستور کی دفعہ ۲۲۷ غیر مبہم الفاظ میں یہ اقرار کرتی ہےکہ ملک کے موجودہ تمام قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق بنایا جائے گا، اور قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ 
اس دفعہ کو عملی طور پر مؤثر بنانے کےلیے دفعہ ۲۰۳ کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، اس کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کے لیے سپریم کورٹ میں شریعت اپیلیٹ بینچ تشکیل دی گئی تھی، ان دونوں عدالتوں میں علماء ججزکی شمولیت ضروری تھی، تمام مکاتبِ فکر کے علماء، دینی تنظیموں اور تاجر برادری کا یہ نمائندہ اجتماع اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کرتاہے کہ اس وقت یہ اہم ترین ادارے تقریباًمعطل پڑے ہوئے ہیں ۔ وفاقی شرعی عدالت میں اس وقت صرف دو جج ہیں ، اورکوئی عالمِ دین اس میںشامل نہیں، جبکہ شروع میں یہ عدالت سات ججوں پر مشتمل تھی، جن میں تین جج علماء دین تھے۔ اسی طرح سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بینچ عرصۂ دراز سے تقریباً معطل ہے۔ بہت سے اہم مقدمات سالہاسال سے زیرِ التوا ہیں، اور بینچ کا اجلاس شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ 
یہ نمائندہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتاہے کہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی شریعت بینچ کو فعال بنایا جائے، اور ان کی خالی جگہوں کو علماء سے پُر کیا جائے۔ 
6:- یہ نمائندہ اجتماع پچھلی حکومت میں منظور کیے ہوئے ’’ٹرانس جینڈر ایکٹ‘‘ کے بارے میں مطالبہ کرتا ہے کہ اس میں ترمیم کرکے اسے شریعت کے مطابق بنایا جائے ۔ جن لوگوں میں مرد اور عورت دونوں کی مشابہت پائی جاتی ہے، ان کے حقوق کا تحفظ اورمعاشرے میںانہیں باعزت مقام دینا بےشک ضروری ہے، لیکن ان کی صنف (sex) کا تعین ایک خالص حیاتیاتی (Biological) مسئلہ ہے، اور شریعت نے بھی اس کو طبی اصولوں پر چھوڑا ہے۔ اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ ایک شخص کو جو طبی اعتبار سے مرد ہو، صرف اس کی خواہش کی بنیاد پر عورت قراردیا جائے، یا جو شخص طبی اعتبار سے عورت ہو، صرف اس کی خواہش کی بنیادپر مرد تصور کیا جائے۔ 
ٹرانس جینڈر کی اصطلاح اسی غیر معقول اور غیر شرعی تصور پر مبنی ہے، اس لیے اس ایکٹ کےبارے میں پار لیمنٹ میں جو ترمیمیں پیش کی گئی ہیں ، ہم ان کی تائید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس ایکٹ میں فوری طورپر وہ ترمیمیں نافذ کی جائیں۔
ٹرانس جینڈر کی اسی غیر معقول اور غیر شرعی بنیاد پر ’’جوائے لینڈ‘‘ کے نام سے جو بدنامِ زمانہ فلم جاری کی گئی ہے، وہ اسلامی اور پاکستانی اقدار کے یکسر خلاف ہے، اس کی نمائش پر پابندی کا جو فیصلہ پنجاب حکومت نے کیا ہے، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اور وفاق اور دوسرے صوبوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھی اس پر پابندی عائد کریں ۔ ‘‘
حکومت سے یہ مطالبہ درست اور صحیح ہے کہ حکومت بینکوں کو کاروباری ادارہ بنادے تو اُمید ہے کہ سود کے معاملہ میں حائل رکاوٹیں تقریباً ختم ہوجائیں گی۔ 
اسی طرح راقم الحروف کی یہ بھی تجویز ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے طرز پر تمام مسالک کے علمائے کرام، معیشت کے ماہرین، تاجر برادری اور قانون دان حضرات پر مشتمل ایک متفقہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے جو اسلامی قوانین کی روشنی میں غیر سود ی بینکاری کے ایسے قواعد اور اصول وضع کرے، جن میں کسی بھی مکتبِ فکر کے عالم دین، ماہرینِ معیشت، تاجر حضرات اور قانون دان طبقے کو کوئی اشکال یا اعتراض باقی نہ رہے، کیوں کہ غیرسودی بینکاری کے نام سے موجودہ نظام پر جمہور اہلِ افتاء اور بڑے معاشی ماہرین کے قابلِ التفات تحفظات موجود ہیں، غالباً انہی کے اعتراف وازالہ کے طور پر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ نے اسی اجتماع میں اپنے بیان میں یہ فرمایا تھا کہ: 
’’ہم نے غیر سودی بینکاری کے لیے کئی جگہ ابتدائی طورپر کمپرومائز کیا ہے، یہ کام جیسے جیسے آگے بڑھے گا تو ان شاء اللہ! اس سقم کو بھی دور کیا جائے گا۔‘‘
اس اجتماع میں موجود علماء کرام اور مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے حکومت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی کہ مدارس، مساجد اور عبادت گاہیں جو خالصۃً عوامی اور رفاہی خدمات کے لیے مصروفِ عمل اور مختص ہیں، ان کو کمرشل کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کے بجلی اور گیس کے بل میں کئی قسم کے ٹیکسز شامل کیے گئے ہیں، ان ٹیکسز اور بلوں سے مساجد، مدارس اور عبادت گاہوں کو مستثنیٰ کیا جائے۔ وفاقی وزیر جناب اسحاق ڈار صاحب نے کہا کہ آپ حضرات اس بارہ میں درخواست دیں، حکومت اس بارے میں ضرور غور کرے گی۔
اسی طرح ان کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی گئی کہ ایک طرف ہر سطح پر شفافیت کا دعویٰ ہے تو دوسری طرف کئی بینک اب بھی مدارس، مساجد اور ٹرسٹ کے اکاؤنٹ نہیں کھول رہے، تو جناب اسحاق ڈار صاحب نے گورنر اسٹیٹ بینک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: اس بارہ میں آپ رپورٹ لیں اور بینکوں کو ہدایات دیں کہ اس معاملہ میں وہ مساجد اور مدارس کے ذمہ داران سے تعاون کریں۔
اسی طرح صدرِ مجلس مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ہم ایک ماہ تک انتظار کریں گے، اگر پھر بھی وفاقی حکومت کی جانب سے حرمتِ سود کی جانب کچھ پیش رفت اور اقدامات ہوتے نظر نہ آئے تو آئندہ ’’حرمتِ سود سیمینار‘‘ پشاور میں منعقد کیا جائے گا۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک کو سود کی لعنت سے پاک کردے، حکومتِ وقت کو اس جانب عملی اقدامات اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے، ملک کو معاشی واقتصادی طور پر مستحکم بنائے، اور ہمارے ملک کو داخلی وخارجی تمام بحرانوں اور فتنوں سے محفوظ سے محفوظ تر بنائے، آمین ثم آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین