بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

بینات

 
 

حدیث کے اسباق میں قراءتِ حدیث  اور اُس کی اقسام

حدیث کے اسباق میں قراءتِ حدیث  اور اُس کی اقسام


علوم وفنون کے حصول اور ان میں مہارت پیدا کرنے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ یہ بات کسی ذہین وماہر اور باکمال عقل مند شخص سے پوشیدہ نہیں ۔ علمِ حدیث انہی علوم وفنون کا حصہ ہے، اسے حاصل کرنے کے بھی بہت سے طریقے ہیں، ان تمام طریقوں کا خلاصہ تین قسموں میں بیان کیا جاسکتا ہے: 
۱-مکمل تفصیل سےبحث وتحقیق کے ساتھ علم حدیث پڑھا جائے۔
۲- حدیث پڑھتے ہوئے متوسط درجے کی تشریح کی جائے۔
۳- حدیث کی صرف قراءت کی جائے۔
اب میں ناواقف یا تجاہلِ عارفانہ سے کام لینے والوں کےلیے ان تینوں اقسام کی تشریح کرتا ہوں: 
قسمِ اول: طالب علم اپنے استاذ کے سامنے بیٹھ کر حدیث کی مکمل کتاب یا اس کا کچھ حصہ پڑھے۔ استاذ پڑھاتے ہوئے عبارت کی تصحیح اور ضبط واتقان کاخیال رکھے ، متن کی تفصیلی تشریح کرے اور سند و متن کی ہر آسان ومشکل چیز کی وضاحت کرے۔ اس طریقے سے طالب علم اسماءالرجال ، طبقاتِ محدثین، سند ومتن میں موجود علل، الفاظ کے معانی، متونِ حدیث میں موجود مشکل مقامات اور فقہاء کے اختلافات سیکھ جاتا ہے۔ اس طریقۂ تدریس میں تفصیلی تشریح اور کامل وضاحت ہوتی ہے۔
اس میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے، اصولِ ستہ میں سے کسی کتا ب کو بھی اس طریقے کے مطابق ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین پہلے سند سے خالی متون طلبہ کو پڑھاتے ہیں، پھر اسی نہج کو سامنے رکھتے ہوئے کتب اصول میں سے چند ابواب پڑھاتے ہیں، جس سے علم اور اس کے متعلقات کے طالب علم کے سامنے واضح تصور آجاتاہےاور فہمِ حدیث کی مکمل مشق ہوجاتی ہے۔ عام اساتذہ اس حوالے سے بہ تدریج آگے بڑھتے ہیں۔ سب سے پہلے ’’أربعین للنووي، تہذیب الأخلاق،ریاض الصالحین‘‘ اور ’’بلوغ المرام‘‘ پڑھاتے ہیں۔ اس کے بعد ’’مشکاۃ المصابیح‘‘ اور آخر میں جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، صحیح مسلم، صحیح بخاری اور تمام کتبِ اصول کی تدریس ہوتی ہے۔ 
قسم دوم : طالب علم‘ استاذ کے سامنے موطا، اصولِ ستہ، مسند احمدبن حنبل وغیرہ پڑھے۔ استاذ کلمات کے زیر زبر کا خیال رکھے، مشکل مقامات کو حل کرے، روات کے ناموں ، کنیتوں، صفات اور نسخوں کے اختلافات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اسانید ومتون کی ہلکے پھلکے انداز میں تشریح کرتا جائے۔ حدیث پڑھنے کا یہ طریقہ مضبوط اور بہت عمدہ ہے۔ یہی طریقہ محدثین کے ہاں رائج رہا ہے۔ اس میں اعتدال ہے، بڑے محدثین کا طریقۂ تدریس بھی یہی تھا، ان کی یہ مختصر تشریحات متونِ حدیث کے ساتھ نقل ہوتی آئی ہیں، جنھیں ’’مدرجات‘‘ کہا جاتا ہے۔
*    شیخ عابد سندھیؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ کتبِ ستہ روایت ودرایت دونوں کا لحاظ رکھتے ہوئے چھ مہینوں میں ختم کرتے تھے ۔
*    مولانا فضل الرحمٰن گنج مرادآبادیؒ کے شاگر د ومرید‎‎احمد ابو الخیر مکیؒ فرماتے ہیں کہ: میرے شیخ نے اپنے استاذ مولانا محمد اسحاق دہلویؒ سے صحیح بخاری دس سے زیادہ دنوں میں پڑھ کر ختم کی۔
*    حافظ عبد الحی کتانیؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ انھوں نے ’’جامع قرویین‘‘ کی بیرونی محراب میں بیٹھ کرپچاس مجالس میں صحیح بخاری تحقیق وتدقیق کے ساتھ پڑھا کر ختم کی۔ اس میں وہ ابوابِ حدیث اور محلِ استدلال سے متعلق ہرچھوٹی بڑی چیز بیان کرنے کے علاوہ خوب صورت نکات بھی ذکر کرتے گئے۔ یہ سب مثالیں اسی دوسری قسم میں شامل ہیں۔ 
قسم سوم: سردِ حدیث،یعنی طالب علم استاذ کےسامنےصرف حدیث کی قراءت کرتا جائے اور استاذ اس پر کوئی تشریح یا تبصرہ نہ کرے۔ قراءت کا یہ انداز پہلے دو طریقوں سے فارغ ہونے کے بعد اختیار کیا جاتا ہے۔ طالب علم متونِ حدیث کا مفہوم جان چکا ہے ، اسانید کے مباحث اسے معلوم ہوچکے ہیں، لہٰذااس اندازِ قراءت میں اس کی دہرائی اور یاددہانی ہوجاتی ہے، اسی طرح نئی اسانید وطرق بھی اس کی نظر سے گزر جاتے ہیں۔ 

سردِ حدیث کے فوائد 

’’سردِ حدیث‘‘ کے کئی فوائد ہیں، ان میں سے چند فوائد ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں:

۱- کتبِ حدیث کی حفاظت
 

اگر محدثین صرف انہی احادیث کوہی پڑھتے پڑھاتے رہتے ، جو انہوں نے اپنے شیوخ سے ضبط وتشریح کے ساتھ پڑھی ہیں، تو ہزاروں کی تعداد میں موجود دیگر تصنیفات ضائع ہوجاتیں، اوربہت سی احادیث نظروں سے اوجھل رہتیں، لہٰذا اپنی عقلِ سلیم کی بہ دولت انھوں نے ’’سردِ حدیث‘‘ کے طریقے کو اپنایا اور ہزاروں احادیث سننے اور بے شمار کتب واجزاء پڑھنے کا انہیں موقع ملا۔

۲-یاددہانی (مذاکرہ)

ایک عالم اپنی پڑھی اور سنی ہوئی چیزوں کو بھول سکتا ہے۔ ’’سردِ حدیث‘‘ کے ذریعے وہ احادیث یاد رکھ لے گا۔ مذاکرہ ایک معروف طریقہ ہے۔ محدثین ایک ہی مجلس میں ہزار یا اس سے زیادہ احادیث پڑھ لیتے تھے۔

۳-احادیث کی تلاش میں مدد

سردِ حدیث سے متابعات وشواہد کی تلاش میں مدد ملتی ہے۔ کبھی کبھار یہ لگتا ہے کہ فلاں حدیث (مثال کے طور پر) صحابہؓ میں سے صرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے یا ائمۂ کرام میں صرف سفیان بن عیینہؒ نے ہی اسے روایت کیا ہے۔ جب ’’سردِ حدیث‘‘ کے طریقے کو اپنا کر تصنیفات واجزائے حدیث کی قراءت کی جاتی ہےتو جلد ہی حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث کے شواہد اور سفیان بن عیینہؒ کے متابع مل جاتے ہیں۔

۴-فہمِ دین(تفقہ)

کتابوں کے مصنفین ایک ہی حدیث کو مختلف ابواب میں نقل کرکے اس پر ’’تراجم‘‘ کی شکل میں مختلف عناوین ذکر کرتے ہیں۔’’سردِ حدیث ‘‘ سے (ان تراجم کی بدولت) حدیث کے دیگر مطالب بھی طالب علم کے سامنے آجاتے ہیں ، جس سے اس کے فہمِ دین میں اضافہ ہوتا ہے۔  

۵-کثرتِ ذکر

’’سردِ حدیث ‘‘ کی وجہ سے خد اکے ناموں اورصفات کاذکر، اس کی حمدوتسبیح، بزرگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھنے کا موقع زیادہ حاصل ہوتا ہے۔

۶-نیکوکاروں سے تعلق

’’سردِ حدیث‘‘ کے دوران میں محدثین کے سامنے صحابہ  رضی اللہ عنہم ، ائمۂ تابعین اور تمام صلحائے امت کے نام آتے ہیں، جس کی وجہ سے پڑھنے والوں کے دل میں ان کی محبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں اورپھر سیرت وکردار میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق ملتی ہے۔ اسی بنا پر ہم نے دیکھا ہےکہ اس طرزِ عمل کو اپنانے سے محدثین سنت کی پیروی اور نیکی میں آگے بڑھنے کے لیے مثال بنتے چلے آرہے ہیں۔

۷-رحم دلی

تلاوتِ حدیث کی مجلس میں مختلف قبیلوں ، زبانوں اور دور دراز علاقوں کے لوگ مل بیٹھ کر آپس میں رحم دلی اور محبت بانٹتے ہیں اور دوست بن جاتے ہیں۔ محض یہ رحم دلی بھی شریعت کا بہت بڑا مقصد ہے۔

سرعتِ قراءت سے متعلق علماء کی رائے

سرعتِ قراءت کے جواز سے متعلق علماء کی رائے مشہورہے۔ تیزی سے پڑھنے کی بناپر اگر کچھ کلمات وحروف سننے سے رہ جائیں تو اس کمی کو ’’اجازتِ حدیث‘‘ کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے۔ ابن صلاحؒ وغیرہ فرماتے ہیں کہ: اگر حدیث پڑھنے والا تیزی سے پڑھے او ر دور بیٹھا سامع متن کا کچھ حصہ صحیح نہ سن سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں، ایسی حدیث کو آگے بیان کیا جاسکتا ہے۔اگر سننے والا پڑھی جانے والی چیز کوسمجھ پارہا ہے تو اس کا ’’سماع‘‘ صحیح ہے۔ مناسب یہی ہے کہ اس کے ساتھ ’’اجازتِ حدیث‘‘ بھی شامل کرلی جائے، تاکہ سننے میں اگر کوئی کمی ہو تو ’’اجازت‘‘ سے پوری ہوجائے۔امام عبد الرحمٰن مہدی اور دیگر کئی حفاظِ حدیث سے روایت ہے:’’يکفيک من الحديث شمّہٗ۔‘‘ یعنی ’’تمہارے لیے حدیث کی خوش بو سونگھنا بھی کافی ہے۔‘‘

سلفِ صالحین اور سرعتِ قراءت

خطیب بغدادی  رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں کریمہ مروزیہ کے سامنے پانچ دن میں صحیح بخاری پڑھ کر ختم کی اورلوگوں نے ان کی قراءت سے صحیح بخاری سنی۔ ’’شذرات الذہب‘‘ میں برہان ابراہیم بن محمد بن ابراہیم بقاعی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ  کے حالات میں لکھا ہے کہ انہوں نے علامہ بدر الغزی کے سامنے بیٹھ کر مکمل صحیح بخاری چھ دن میں ختم کی۔ حافظ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ ان کے شیخ حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  نے سنن ابن ماجہ چار مجلسوں میں ختم کی اور اختتامی مجلس کو چھوڑ کر صحیح مسلم چار مجالس میں پڑھ کر ختم کی، اس سارے عمل میں تقریباً دو سے کچھ زیادہ دن لگے۔ حافظ سخاویؒ کہتے ہیں: سرعتِ قراءت میں ہمارے شیخ کی جو سب سے بڑی مثال سامنے آئی کہ انہوں نے سفرِ شام کے دوران میں ظہر اور عصر کے درمیان ایک مجلس میں طبرانی کی معجم صغیر پڑھ کر ختم کی۔ حافظ ابن حجرؒ کی زندگی میں سرعتِ قراءت کی یہ سب سے بڑی مثال ہے۔ فرماتے ہیں: ایک جلد کی اس کتاب میں تقریباً پندرہ سو احادیث ہیں۔ 

مجلسِ سماع میں کم عمر بچوں کی حاضری
 

قراءتِ حدیث کی پہلی دو اقسام حاصل کیے بغیر چھوٹے بچوں کو’’سردِ حدیث‘‘ کی مجالس میں محدثین حاضرہونے کی اجازت دیتے ہیں ، تاکہ انہیں ان مجالس کی برکت حاصل ہو، حدیث سے ان کا تعلق مضبوط ہو اور محبتِ حدیث میں ان کی اٹھا ن ہو۔ اس کےبعدوہ ضبط و اتقان اور تشریح کے ساتھ حدیث پڑھ لیں گے۔ حافظ ابوالحجاج مزیؒ کے زمانے میں مجلسِ سماع میں چھوٹے بڑے اور عرب وعجم وغیرہ حاضر ہوتے ، ان میں سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ بھی ہوتے اور ایسے بھی ہوتے جو کلامِ نبوی سمجھ نہ سکتے۔ حافظ مزیؒ کے سامنے ہی ان سب کا نام ’’سماعِ حدیث‘‘ میں لکھا جاتا۔ قاضی تقی الدین سلیمانؒ کے حالات میں لکھاہے کہ ان کی مجلس میں کسی نے بچوں کو کھیلنے کی وجہ سے جھڑکا، انھوں نے کہا: انہیں نہ جھڑکو، ہم نے انہیں کی طرح حدیث سنی، تم بھی پہلے اسی طرح تھے ، پھر اللہ نے تم پر احسان کیا۔

کیا ’’سردِ حدیث‘‘ کا ‎ ‎انداز روایت ِحدیث میں معتبر ہے؟

اگر کوئی سوال کرے کہ روایتِ حدیث میں ’’سردِ حدیث‘‘ کے طریقے پرکیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرونِ اولیٰ میں احادیث و روایات ایسی تیزرفتاری سے پڑھ کرنقل نہیں کی گئیں، یہ انداز اس وقت اختیار کیا گیا جب کتابیں لکھی جاچکیں، تصنیفات منظرِ عام پر آگئیں اوراحادیث وآثار مضبوطی اور عمدگی کے ساتھ محفوظ ہوگئے۔
جیساکہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ ’’سردِ حدیث‘‘ مختلف ذرائع میں سے صرف ایک ذریعۂ علم ہے، جس کا نمبر پہلی دو قسموں کے بعد آتا ہے۔ ان دوقسموں میں ضبط وتصحیح اور تشریح وتوضیح کا خیال رکھا جاتا ہے۔ مولانا محمد یونس جون پوری، شیخ محمد عوامہ، شیخ نور الدین عتر، شیخ عبد الوکیل ہاشمی، شیخ احمد علی سورتی اور شیخ یحییٰ ندوی وغیرہ ایسے شیوخ ہیں، جو پہلے دو طریقوں سے حدیث پڑھانے میں مشہور ہیں ، عموماً ایسے ہی شیوخ سے ہم نے’’سردِ حدیث‘‘ کے ذریعے کلامِ نبوی حاصل کیا۔ ہمارے دوستوں میں حدیث کی قرا ءت کرنے والے ، جن کی قراءت کے ذریعے ہم نے حدیث سنی، بہت زیادہ ہیں۔ ان لوگوں نے اولین درجے میں عربی زبان کی نحو ، صرف و بلاغت پر عبور حاصل کیا اور پہلے دو طریقوں کے مطابق حدیثِ نبوی کا علم حاصل کیا، اس کے بعد’’سردِ حدیث‘‘ کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔ 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین