بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حجازِ مقدس کی والہانہ حاضری (چھٹی اور آخری قسط)

 

حجازِ مقدس کی والہانہ حاضری

      (چھٹی اور آخری قسط)

شیخ عبدالفتاح أبوغدّہؒ کاتذکرۂ خیر (گزشتہ سے پیوستہ) خوش اخلاقی و خاکساری میں یکتا  شیخ ابو غدّہ v کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ خوش اخلاقی و خاکساری کے ایک بلند مقام پرفائز تھے۔ جس وقت احقر کو ان کی زیارت اور ان کی درسگاہ میں سامع کی حیثیت سے حاضری کا شرف میسّر رہا، اس وقت شیخ کی عمر ستّر سال سے کچھ اوپر ہوچکی تھی اور ان کے علوم و تصانیف کی شہر ت عالمِ اسلام کے گوشے گوشے تک پھیل چکی تھی ،لیکن اس کے باوجود ان کی کسی ادا سے یہ محسوس نہیں ہوتاتھا کہ وہ کسی عُجب یاخودپسندی میں مبتلاہیں ،بلکہ ان کی گفتار و کردارسے واضح طور پر یہ محسوس ہوتاتھا کہ وہ اپنے آپ کو ایک ادنیٰ طالب علم تصور کرتے ہیں ، چنانچہ میں دیکھتاتھاکہ درسگاہ میں پڑھاتے وقت جب کوئی طالبِ علم ان سے سوال کرتا تو وہ اپنی کرسی سے اُٹھ کر طالب علم کے قریب آکر بہت ہی اہتمام و شفقت کے انداز میں اُسے سمجھادیتے، اسی طرح میں نے یہ بھی مشاہدہ کیاہے کہ بعض مرتبہ شیخ مطالعہ کے لیے اپنے دفتر سے جامعہ کی لائبریری کی طرف پیدل نکلتے اور خادم کی حیثیت سے احقر بھی کبھی ساتھ ہوجاتا، تاکہ لائبریری میں ان کی مطلوبہ کتابوں کوتلاش کرنے اور ان کی میز تک پہنچانے کی سعادت مجھے میسّر رہے اور اس دوران ان سے استفادہ کرنے کاکچھ موقع بھی ملے ، لائبریری کی طرف جاتے ہو ئے راستہ میں احقر یہ دیکھتا کہ جب سامنے سے آتے ہوئے کوئی طالب علم شیخ کو دیکھ کر ان سے مصافحہ کے لیے مڑنے کاارادہ کرتاتو اس طالب علم کے مڑنے سے پہلے شیخ اس کی طرف مڑ جاتے اورہاتھ بڑھاکر سلام و مصافحہ اورمزاج پرسی کرتے، میں اس منظر کو دیکھ کر محوِ حیرت ہوجاتا کہ اتنی مصروفیت اور بڑھاپے کے باوجود شیخ کے بلند اخلاق و تواضع کا کیا ٹھکانہ ہے! کوئی بھی ادنیٰ طالب علم جب مصافحہ کرنے کے لیے ان کی طرف مڑنے کاارادہ کرتا ہے وہ خود مڑ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں اور سلام و مصافحہ کے ساتھ نہایت شفقت کے انداز میں مزاج پرسی بھی کرنے لگتے ہیں ۔  شام کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے فضیلۃ الشیخ عبد الفتاح ابو غدّہؒ کے اخلاقِ فاضلہ اور صلاحیت و تقویٰ کو دیکھتے ہوئے مجھے نبی کریم a کی مندرجہ ذیل وہ دُ عایادآجاتی، جو آپ a نے سرزمین شام ویمن کی برکت کے لیے فرمائی تھی : ’’عن ابن عمرؓ عن النبی a قال: اللّٰہم بارک لنا فی شامنا و فی یمننا ۔‘‘ (رواہ البخاری ،ج:۱،ص:۱۴۱) اور یہ سوچتا کہ شاید نبی کریم a کی مذکورہ عمومی دُعااور اس کی برکات میں سے ایک حصہ حضرت شیخ ابوغدّہ کو علمِ نافع،عملِ صالح اور بلنداخلاق کی صورت میں ملاہے۔ شیخ ابو غدّہ اور شام سے تعلق رکھنے والے چند دیگر علمائے کرام کے علم و فضل ، تقویٰ وطہارت اور تواضع و خاکساری کوسامنے رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل اُس حدیث کی طرف بھی ذ ہن منتقل ہوجاتاجس میں سرزمینِ شام کے حق میں خوشحالی اور اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ اس پر اللہ کے فرشتوں نے اپنے پر بچھائے ہوئے ہیں:  ’’عن زید بن ثابت q قال: قال رسول اللّٰہ a  : طوبٰی للشام، قلنا: لأیّ ذٰلک یارسول اللّٰہ ؟ قال لأن ملائکۃ الرحمٰن باسطۃ أجنحتَہا علیہا۔‘‘   (رواہ الترمذی ،ج:۲،ص:۲۳۲) تحقیقی ذوق اور صحیح الفاظ کے انتخاب میں مہارت و پختگی  شیخ عبد الفتاح ابوغدّہv کو عربی زبان کے مفردات اوراس کی نثرو نظم کاایک بڑا سرمایہ محفوظ تھا، اسی طرح قواعدِ صرف و نحو اور مسائلِ فصاحت و بلاغت پر عبور حاصل تھا، وہ اپنے مضامین کے اندر مبہم، پیچیدہ یا ایسے الفاظ کو جگہ دینے کے روادار نہیں تھے جو غلط ہونے کے باوجود رواج پاگئے ہوں، اپنی تحریروں میں ان کی کوشش ہوتی کہ قاری کوکوئی دقت و پریشانی لاحق نہ ہونے دیں ، وہ واضح الفاظ اور صاف ستھرے جملوں کو ترجیح دیتے، اور اگر ان کی تحریر میں کوئی ذراسامشتبہ یامشکل لفظ آجاتاتواس پر اعراب و حرکات و سکنات ظاہر کردیتے ،اسی طرح اگر کسی دوسرے مصنف کی کتاب میں کوئی مبہم لفظ ان کے سامنے آتا تو اس کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے اور جب تک اُسے حل نہ کرلیتے انہیں چین نہیں آتا۔ ان کے شاگردِ رشید اور علمی جانشین شیخ محمد عوّامہ حفظہٗ اللہ نے ان کے تحقیقی ذوق سے متعلق ایک چشم دید واقعہ لکھاہے، جس کامفہوم و ترجمہ پیش کیاجارہاہے: ’’ایک مرتبہ میں اپنے استاذ محترم کی خدمت میں حاضر ہوا ،وہ اپنی عادت کے مطابق مجھے اپنے مہمان خانے لے گئے ،میں نے دیکھاکہ مہمان خانہ کی تمام کرسیوں میں سے جن کی تعدادا چھی خاصی تھی ایک بھی بیٹھنے کے لیے خالی نہیں ،سب کے اوپر کتابیں رکھی ہوئی ہیں، میں نے ہنستے ہوئے ان سے عرض کیا کہ خیریت تو ہوگی ان شاء اللہ ! (یہ کیامنظر دیکھ رہاہوں ؟)شیخ نے ایک کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: اس کتاب کے اندر لفظِ ’’إِ حالۃ ‘‘ حاء مہملہ کے ساتھ میرے سامنے آیاجس سے متعلق مصنف لکھتے ہیں کہ: امام شافعی ؒ اس کے قائل ہیں، میرے سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ ’’إِ حالۃ ‘‘ سے ان کی مراد کیا ہے؟ اور میں نے اِس لفظ کی تلاش میں تین مہینے محنت کی اور اپنے چند مشایخ سے بھی معلوم کیا، لیکن جواب نہیں ملا ،پھر میں نے ان تمام کتابوں میں سے ایک ایک کو یہاں لاکر اس کے اندر اس لفظ کوتلاش کیا ،بالآ خر مسئلہ حل ہوگیا اور معلوم ہواکہ یہ لفظ ’’إِ حالۃ ‘‘ نہیں، بلکہ خاء معجمہ کے ساتھ ’’خَالَ یخَالُ‘‘ سے لیاگیالفظ ’’إِخالۃ ‘‘ہے بمعنی گمان کرنا،اور حضرات شوافع کے نزدیک اصول الفقہ کی کتابوں میں بابِ قیاس کے اندر علّت سمجھنے کاایک طریقہ ’’إِخالۃ ‘‘ہے۔‘‘                                         (امداد الفتّاح، ص : ۱۳۰)  اسی طرح شیخ محمد عوّامہ نے اپنے استاذ ِ گرامی سے متعلق ایک دوسراواقعہ اس طرح لکھاہے: ’’جب ہم مرحلہ ثانویہ کے سالِ اول کے طالبِ علم تھے تو ہمارے استاذ(شیخ امین اللہ عیروض v) نے واقعہ بیان کیاکہ وہ چند ساتھیوں سمیت جن میں شیخ عبد الفتاح ابو غدّہ بھی شامل تھے دمشق گئے اور ایک عالم کے حلقۂ درس میں شریک ہوئے،اس دوران ایک لفظ کے تلفُّظ یامفہوم میں (جو مجھے یاد نہیں رہا) شرکائے حلقہ کو اشکال پیش آیا، مدرّس صاحب نے ایک طالب علم کو ’’القاموس المحیط ‘‘ لانے کا حکم دے دیاتوہمارے استاذ جنہوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے ان سے کہنے لگے کہ قاموس لانے کی کوئی ضرورت نہیں، اس لیے کہ یہاں پر بولتاہوا قاموس شیخ عبد الفتّاح ابو غدّہ موجود ہیں ،آپ لوگ جو چاہیں ان سے دریافت کرلیں ‘‘۔                                       (امدادالفتاح، ص : ۱۲۲)ـ راقم الحروف عرض کرتاہے کہ شیخ عبدالفتاح ابو غدّہv غلط لفظ کو ہرگز برداشت نہیں کرتے تھے اور طلبہ کوبھی اس کے استعمال سے روکتے تھے ، اور سبق کے دوران اہتمام کے ساتھ ایسے الفاظ کی نشاندہی کرتے جوغلط ہونے کے باوجود زباں زد ہوچکے ہُوں، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ میں علوم الحدیث پڑھانے کے لیے جب شیخ درس گاہ تشریف لائے تو تخریجِ احادیث کے طریقے بتاتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی v کی کتاب ’’التلخیص الحبیر فی تخریج أحادیث الرافعی الکبیر‘‘ کا ذکر فرمایا، اور اس مناسبت سے کہا کہ بعض لوگ اس کتاب کو الف لام کے بغیر مضاف و مضاف الیہ سمجھ کر ’’تلخیص الحبیر‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیںجوکہ غلط ہے ، اس لیے کہ یہ موصوف وصفت ہے اور صحیح لفظ الف لام کے ساتھ ’’التلخیص الحبیر‘‘ ہے، اور افسوس ہے کہ بیروت کے بعض اشاعتی اداروں نے بھی مذکورہ کتاب کانام اس کی جلد پر غلط شائع کیا ہے، پھر شیخ نے تختۂ سیاہ پر (نوٹ)لکھ کر اس کے نیچے مذکورہ بالا تحقیق کا خلاصہ لکھااور طلبہ کو اپنی کاپیوں میں نقل کرنے کا حکم دے دیا ۔ شیخ عبد الفتاح ابوغدّہv کی خدمت میں مزید کچھ عرصہ تک رہنے کی تمناو کوشش احقر نے ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ میں دوسال (۱۴۰۸ھ-۱۴۰۹ھ) گزار کر شعبہ ’’معہد اللغۃ العربیۃ‘‘ کے آخری کورس ’’إعداد المعلّمین ‘‘ سے بھی فراغت حاصل کرلی، اس کے بعد قانونی طورپر میں ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ میں مزید قیام نہیں کرسکتا تھا ۔ اُدھر دارالعلوم دیوبند کی تدریسی خدمت سے بھی مجھے صرف دوسال کی چھٹی ملی تھی جس کی مدت پوری ہوگئی تھی، لیکن دل یہ چاہ رہاتھا کہ فضیلۃ الشیخ عبد الفتاح ابو غدّہ کی خدمت میں مزید کچھ عرصہ تک رہنے کا موقع ملے، تاکہ صرف سامع کی حیثیت سے نہیں بلکہ باضابطہ طور پر ان کے حلقۂ درس میں شامل ہوکر ان سے استفادہ کرسکوں، میں نے اپنی اس آرزو کا اظہار جب شیخ ابوغدّہ سے کیاتو انہوں نے اس کی تائید فرمائی، اور ان ہی کے مشورہ سے میں نے اگلے تعلیمی سال ۱۴۱۰ھ کے لیے ’’کلیۃ التربیۃ‘‘ کے شعبہ ’’الثقافۃ الاسلامیۃ - تخصص فی التفسیر والحدیث ‘‘مرحلہ ایم -اے میں داخلہ لینے کی د رخواست پیش کردی۔ مذکورہ مرحلہ میں غیر ملکیوں کا داخلہ تقریباً ممنوع تھا، لیکن احقر کی درخواست کو اس وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھاگیاکہ احقر نے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اپنے بزرگوں کی دعائوں کی برکت سے شعبہ ’’معہداللغۃ العربیۃ ‘‘ میں اعلیٰ اور امتیازی نمبرات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ طالب ِ مثالی کی سند اور پورے جامعہ کی سطح پر چار سونے کے تمغے (گولڈ میڈل) بھی حاصل کرلیے تھے، چنانچہ میری درخواست کارروائی کے لیے منظور ہوگئی اور جامعہ کے نظام کے مطابق پانچ پروفیسروں پر مشتمل کمیٹی نے میرا انٹرویو لیا، کمیٹی میں محترم ڈاکٹر نعمان السامرّائی، محترم ڈاکٹر احمد جِلبی، محترم ڈاکٹر حسین الترتوری، محترم ڈاکٹر شاکر فیّاض، محترم ڈاکٹر عبد الرحمن المطرودی شامل تھے۔ انٹرویو میں پانچ چیزیں پیش نظر تھیں: نمبر ایک یہ کہ طالب کی سابقہ سند کس حیثیت کی حامل ہے؟ نمبر دو یہ کہ تفسیر و حدیث میں اس کی صلاحیت کیسی ہے؟ نمبر تین یہ کہ معلومات ِ عامّہ میں اس کی قابلیّت کتنی ہے؟ نمبر چار یہ کہ طالبِ علم کی شخصیت کیسی ہے؟ نمبر پانچ یہ کہ عربی زبان میں اس کی صلاحیت کیسی ہے؟ ۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے انٹرویو میں کامیابی ہوئی اور مذکورہ پانچوں امور میں سے ہر ایک کے سامنے بالترتیب ’’ممتاز ‘‘لکھاگیا اور آخر میں یہ لکھاگیاکہ مقرّرہ کمیٹی مذکورہ طالب علم کے داخلہ کی سفارش کرتی ہے اور پھر پانچوں پروفیسر حضرات نے دستخط کردیئے ، اس انٹرویو کی بنیاد پر ’’کلیۃ التربیۃ - قسم الثقافۃ الإسلامیۃ‘‘ کے محترم نگراں ڈاکٹر حمدان بن محمد الحمدان نے داخلہ کے لیے میری نامزدگی کی تصدیق کرتے ہوئے اگلے سال کے لیے میرا تعلیمی وظیفہ جاری کرنے کی تحریر متعلقہ شعبہ جات کو ارسال کردی، جس کی بنیاد پر سالانہ چھٹیوں کے بعد مجھے نیا تعلیمی ویزا مل جاتا اور دارالعلوم دیوبند میں میرے پتہ پر ارسال کردیا جاتا۔ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب کے نام شیخ عبد الفتاح ابو غدّہ کی ایک تحریر  مذکورہ بالا مراحل کے بعداگلے سال ۱۴۱۰ھ کے لیے دراساتِ علیاکلیۃ التربیۃ میں میرا داخلہ یقینی ہوگیاتھا جس سے شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی خدمت میں مزید کچھ عرصہ تک رہنے اوران سے استفادہ کرنے کاموقع مل جاتا،البتہ ایک اہم مرحلہ ابھی باقی تھا اور وہ دارالعلوم دیوبندکی طرف سے مزید چھٹی ملنے کا مرحلہ تھا! کیونکہ میں دارالعلوم کا مدرس تھااور دارالعلوم نے میری صرف دوسال کی چھٹی کی منظوری دی تھی جس کی مدّت پوری ہوچکی تھی، لہٰذا میں نے شیخ عبد الفتاح ابو غدّہ سے درخواست کی کہ آپ حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے نام ایک تحریر عنایت فرمادیں جس میں ان  سے میری مزید چھٹی منظور کرنے کی سفارش کی گئی ہو! شیخ نے خوشی کے ساتھ میری گزارش منظور فرماتے ہوئے حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب کے نام مندرجہ ذیل سفارشی تحریر لکھ کر میرے حوالہ کردی۔ تحریر کے ایک ایک لفظ سے شیخ کی بے انتہا تواضع و بلند اخلاق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اور انہوں نے اس ناکارہ شاگردسے متعلق جوکچھ فرمایاہے وہ میںاپنے لیے فالِ نیک اور باعثِ سعادت تو ضرور سمجھتا ہوں ، تاہم اپنے آپ کوان اوصاف کاحامل ہرگز تصور نہیںکرتا جو شیخ نے ذر ّہ نوازی فرماتے ہوئے میرے متعلق ذکر کردیئے ہیں ،بلکہ میں وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتاہوں کہ انہوں نے حسنِ ظن (جو ایک کامل و متقی مؤمن کا شیوہ ہواکرتاہے )اور خورد نوازی و شفقت کے تحت اپنے اس ادنیٰ شاگرد کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے، تحریرکا عکس اردو ترجمہ کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے:

 

 

 

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم بخدمت شیخ معظم و مکرم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم جامعہ اسلامیہ دارالعلوم دیوبند حفظہ اللہ وأ مْتَع بِہ، ان کے مخلص دوست اور ان کی دعاؤں کے طلبگار عبد الفتاح أبو غدّہ کی طرف سے  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد از سلام الحمد للہ! میں ٹھیک ہوں اور امید کرتاہوں کہ آپ اور آپ کے متعلقین خیرو خوشی اور عافیت و نعمت سے سرشار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کے ایک سچے ترجمان اور بہترین نمایندہ برادرِ باکمال شیخ عبد الرؤف خان عبدالودود کے ذریعہ ہمیں اعزاز بخشا، موصوف آپ کے جامعہ کے ایک بہترین نمایندے اور آپ کے ایک سچے شاگرد ثابت ہوئے ،وہ اپنے صاف ستھرے طرزِ عمل و بلند اخلاق، علمی جدوجہد و فطری ذہانت اور روحانی و نفسیاتی پاکیزگی کی بدولت اپنے تمام جاننے والوں کی محبت سے بہرہ ور ہوگئے، جس سے یہ اندازہ ہواکہ آپ نے اچھاپودالگایاہے اور عمدہ نمایندہ کا انتخاب فرمایاہے۔ موصوف نے اس کمزور بندہ سے عقیدت و محبت کا تعلق قائم رکھا (جو در حقیقت ورم والے کو موٹا سمجھنے کے مترادف ہے ) اورجامعہ میں مزید پڑھنے کی درخواست پیش کی اور جامعہ کے ذمہ داروں نے ان سے محبت کی خاطر اور ان کی صلاحیتوں اور پاکیزہ اخلاق کے احترام میں شرحِ صدر و خوشی کے ساتھ ان کی درخواست کو شرفِ قبولیت سے نوازا۔ لہٰذا اگر آپ بھی ان کو یہاں پر مزید رہنے کی اجازت عنایت فرمائیں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ! یہ موصوف کے حق میں اور آپ کے جامعہ اور ہمارے جامعہ کے حق میں زیادہ بہترہوگا، اس لیے کہ بہترین نمونہ کا وجود شاذونادر بنتاجارہاہے اور ناقص نمونوں کے وجود میں اضافہ ہوتاجارہاہے، پس کم از کم ایک سال کے لیے آپ ان کو ہمارے پاس رہنے کی اجازت مرحمت فرمائیں، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو جزائے خیر عطافرماتے ہیں ، اور ایک مرتبہ پھر آپ کے حضورمیں خراجِ عقیدت و احترام پیش کرتاہوں اس امید کے ساتھ کہ آپ ہمیں دعامیں یاد فرمائیں گے اور آپ کے یہاں جو دیگر ہمارے قابلِ احترام مشایخ ہیں ان کی خدمت میں بھی سلام پیش فرمائیں گے، اور آپ کو اس امید کے ساتھ اللہ کے سپرد کرتاہوں کہ اللہ عن قریب ایک خوشگوار ملاقات کاموقع عطافرمائیں گے۔والسلام علیکم ورحمۃ اللہـ۔                                                      آپ کا مخلص                                                                      عبد الفتاح أبو غدّہ                                                                      ۲۸/۱۱/۱۴۰۹ھ  ’’جامعۃ الملک سعود ‘‘سے احقر کی دارالعلوم دیوبند واپسی  ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ میں اپنا دوسالہ کورس ۱۴۰۸ھ -۱۴۰۹ھ مکمل کرنے کے بعد حضرت شیخ ابوغدّہ کی مذکورہ بالاتحریر کے ساتھ احقر کی دارالعلوم دیوبند واپسی ہوئی ،ارادہ یہ تھا کہ اگر دارالعلوم نے اجازت دی تومزید کچھ عرصہ تک ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ جاکر حضرت شیخ ابوغدّہ سے استفادہ کروں گا، لیکن جب میں نے شیخ کی تحریرحضرت مہتمم صاحب کی خدمت میں پیش کردی اور ان سے اور اپنے اساتذئہ کرام سے مشورہ طلب کیاتو سب نے یہ مشورہ دیاکہ تمہیں دارالعلوم دیوبند میں تدریس کا جو موقع نصیب ہواہے یہ بہت بڑی سعادت اور علمی ترقی کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے، اور سلسلۂ تدریس میں طویل انقطاع مناسب نہیں معلوم ہوتا ، لہٰذا بہتر یہ ہوگاکہ تم نے جو دو سال ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ میں گزارے ہیں اور اس دوران شیخ ابو غدّہ سے استفادہ کاموقع بھی ایک حدتک حاصل کرلیاہے‘ اسی پر اکتفا کریں اور دارالعلوم کی ضرورت اور تدریس کی اہمیت کو مدِّ نظررکھتے ہوئے سعودی عرب جانے کا ارادہ ترک کریں۔ حضرت مہتمم صاحب اور اساتذہ کرام کے اس مشورہ کے بعد سرِ تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا، اس لیے ان کا حکم اپنے لیے سعادت سمجھتے ہوئے سعودیہ جانے کا ارادہ ترک کردیا اور فوری طور پر سال ۱۴۱۰ھ کو دوبارہ دارالعلوم دیوبند میں تدریس کا آغاز کردیااور حضرت شیخ ابوغدّہ سے مزید استفادہ کرنے کی تمنا پوری نہ ہوسکی، جس کا احساس آج تک باقی ہے ۔ ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ کے ماحول میں اپنے مسلک پر احقر کا ثابت قدم رہنااور اس کے اسباب سعودی عرب کی درسگاہوں میں پڑھنے والے اپنے ہی مسلک کے بعض طلبہ کودیکھاگیاہے کہ وہ وہاں کے ماحول سے متاثر ہوکر اپنے مسلک میں کمزور پڑ جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا احقرپر یہ خصوصی کرم رہاکہ تقریباً دوسال تک وہاں پر رہنے کے باوجود مسلک میں کوئی کمزوری پیدانہیںہوئی، بلکہ غیر مقلدین کی بے ضابطگیوں کو قریب سے دیکھ کر اپنے مسلک میں مزید پختگی پیداہوئی۔اللہ تعالیٰ کی توفیق و فضل و کرم کے بعد اس ثابت قدمی کے ظاہری اسباب چارتھے: ۱:…میرے استاذومرشد فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرّہٗ صدر مفتی دارالعلوم دیوبند کی دعاؤں اور ان سے رابطہ میں رہنے کا اثر اور ان کی نسبت و تربیت کی برکات ۲:…حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مد ظلّہم العالی شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند سے بذریعہ تحریر مسلسل رابطہ اور ان کی نصیحتیں  ۳:…حضرت شیخ عبد الفتاح ابو غدّہ v سے خصوصی تعلق اور ان کی شفقتیں  ۴:…حضرت مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھی قدّس سرہٗ فاضل دارالعلوم دیوبند و استاذِ حدیث و تفسیر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی ایک پراثر اور جامع و مختصر نصیحت ’’جاؤ! لیکن خیال رکھناکہیں وہاں پراغواء نہ ہوجاؤ‘‘جس کاتذکرہ اس سے پہلے کرچکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مذکورہ بالاچاراسباب کی برکت سے یہ بھی ہواکہ جب میرا اپنا دوسالہ کورس مکمل ہوگیااور طالبِ مثالی کی خصوصی سند اور سونے کے چار تمغوں اوردیگرانعامات سے مجھے نوازا گیا تو ’’معہداللغۃ العربیۃ ‘‘کے مدیر جناب ڈاکٹر محمدیاسین ألْفی کے توسط سے سعودی عرب کی وزارۃ الاعلام نے پرکشش رعایتوں کے ساتھ مجھے ملازمت دینے اور سعودی عرب میں بچوں سمیت مقیم ہونے کی تحریری پیشکش کردی!اللہ تعالیٰ نے اسی وقت حضرت مولانا محمدادریس میرٹھی قدس سرہٗ کی مندرجہ بالا نصیحت یاد دلادی،اور بغیر کسی تأمل کے میں نے شکریہ کے ساتھ اس پیشکش کوقبول کرنے سے معذرت کرلی ، اور شاید اسی نصیحت پر عمل کرنے کا ثمرہ ہے کہ چند سال بعد اللہ تعالیٰ نے جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں حدیث کی خدمت کا موقع نصیب فرمایا، وللّٰہ الحمد و المنۃ ۔ شیخ عبد الفتاح ابو غدّہ سے احقر کی آخری ملاقات، ان کی طرف سے اجازت ِ حدیث اور ایک اہم نصیحت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ماہِ رجب ۱۴۱۵ھ کو احقر زیارتی ویزا پر سعودی عرب گیااور ارادہ یہ تھا کہ حرمین شریفین کی حاضری کے ساتھ ساتھ ’’جامعۃ الملک سعود ریاض‘‘ جاکر وہاں کے اساتذئہ کرام اور بالخصوص حضرت شیخ عبد الفتاح ابو غدّہ کی خدمت میںبھی حاضری دوں گا، چنانچہ ۱۸؍ رجب ۱۴۱۵ھ کو ریاض میں شیخ کی قیام گاہ پر حاضری نصیب ہوئی ،شیخ نے اپنی عادتِ جمیلہ کے مطابق مہمان خانہ میں بٹھایا اور میری حیثیت سے کافی بڑھ کر اکرام فرمایا اور اپنی تصنیفی و تحقیقی مصروفیات میں سے ایک اچھا خاصا وقت نکال کر مجھے اپنے علمی ملفوظات اور پندو نصائح سے نوازا اور ساتھ ساتھ انہوں نے افغانستان کے اپنے تازہ سفر کاتذکرہ بھی فرمایاجومجاہدین کے درمیان مصالحت کے لیے کیاگیاتھا اور افغانستان کے چند شہروں جیسے ہرات،کابل اور بلخ اور وہاں کے علماء کے علمی کارناموں اور تاریخی واقعات کاتذکرہ کیا، جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ شاید وہ اس سلسلہ میں کوئی مضمون یارسالہ لکھناچاہتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے تحقیقی ذوق کے مطابق افغانستان کے ایک شہر ’’شین ڈَنْڈ ‘‘کاتذکرہ بھی کیا جس کی زیارت انہوں نے اس تازہ سفر میں کی تھی ،اور چونکہ اس شہر کانام پشتو زباں کا لفظ ہے، اس لیے مجھے حکم دیاکہ زبانی طور پر اس کاصحیح تلفُّظ اور تحریری طور پر اس کی صحیح کتابت دونوں بتادو ،تعمیل حکم پر مجھے دعاؤں سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ: میں اس میں ایک الف کا اضافہ کرتے ہوئے ’’شین دَانْد ‘‘ بولتااور لکھتا تھا۔ اس نشست میں میں نے ادب کے ساتھ شیخ سے اجازت ِ حدیث کی درخواست کی،اس لیے کہ جس وقت ’’جامعۃ الملک سعود ‘‘میں سامع کی حیثیت سے میں ان کے درسِ اصول الحدیث میں حاضر ہواکرتاتھا اس وقت میں ان کے حلقۂ درس کا باضابطہ طالب ِ علم نہیں بلکہ صرف سامع تھا،اور سامع بھی روایتِ حدیث کانہیں بلکہ درسِ اصول الحدیث کا ،اور چونکہ اس وقت ارادہ یہ تھا کہ اگلے سال ان شاء اللہ! ان کے باقاعدہ شاگرد کی حیثیت سے حاضری ہوگی اور پھر اجازت ِ حدیث کی صورت بھی پیدا ہوجائے گی، لہٰذا اُس سے پہلے ان سے اجازت ِ حدیث کی درخواست نہ کرسکا ، لیکن جیساکہ اس سے پہلے لکھ چکاہوں دارالعلوم دیوبند کی طرف سے مجھے مزید چھٹی نہ مل سکی اور شیخ کی خدمت میں باضابطہ طالب ِ علم کی حیثیت سے حاضری کی تمنادل ہی دل میں رہ گئی ۔ بہر صورت ! اِ س ملاقات میں ہمّت کرکے میں نے ان سے اجازتِ حدیث کی درخواست کی! انہوں نے صرف زبانی ہی نہیں بلکہ تحریری طور پر ایک خصوصی اجازت نامہ سے سرفراز فرمایا،اور وہ اس طرح کہ ان کے سب سے محبوب استاذ حضرت علّامہ محمد زاہد کوثری v (متوفّٰی ۱۳۷۱ھ) کی اسانید کا مجموعہ جو ’’التحریر الوجیز فیمایبتغیہ المستجیز‘‘کے نام سے ایک سوساٹھ صفحات پر مشتمل ایک رسالہ کی شکل میں چھپ چکاتھا دکھایااور فرمایاکہ اس مجموعہ کے محدود نسخے میں نے اس مقصد کے لیے چھپوائے ہیں کہ اپنے بعض مخصوص ساتھیوں (شاگردوں ) کو اجازت ِ حدیث دیتے ہوئے اپنے شیخ حضرت علّامہ محمد زاہد کوثری v کایہ ’’ثَبَت‘‘(اسانید کامجموعہ )بھی پیش کیا کروں گا، تاکہ ان کو شیخ کی اسانید کا پتہ بھی چلے اور میرے ساتھ ساتھ میرے شیخ اور ان کے مشایخ سب کو دعاؤں میں یاد رکھا کریں ، پھر انہوں نے اُ س رسالہ کے سرورق پر اپنے ہاتھ سے تحریری اجازت نامہ لکھ کر مجھے عنایت فرمایا، قارئین کی دلچسپی کے لیے اجازت نامہ کا عکس درج کیاجارہاہے :

 

 

حضرت شیخ ابو غدّہ نے اس نشست میں اجازت ِ حدیث کی مناسبت سے برّ صغیر کے دینی مدارس کاذکر کرتے ہوئے ان کی دینی اور اصلاحی خدمات کوسراہااور ساتھ ساتھ حدیث پڑھانے والے بعض حضرات کے طرزِتدریس کے ایک قابلِ اصلاح پہلو کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایاکہ: ’’برصغیر کے مدارس میں حدیث پڑھانے والے بعض حضرات سال کے شروع میں اتنی لمبی تقریر یں کرتے ہیں کہ زیادہ تطویل کی وجہ سے طلبہ کے لیے ناقابلِ فہم اور غیر مفید ہواکرتی ہیں اور سال کے آخر میں چونکہ کتاب کااکثر حصہ باقی رہ جاتا ہے اور ختم کراناضروری ہوتاہے تونہایت مختصر بات کرتے ہیں یاصرف عبارت پر اکتفاکرتے ہوئے ایک ہی گھنٹہ میں تقریباًایک سوحدیثیں پڑھاتے ہیں ،جس سے طلبہ کو بڑا نقصان ہوتاہے، شیخ نے اس طرزِ تدریس پر تنقید فرماتے ہوئے مجھے نصیحت کی کہ تم شروع سے آخر تک اعتدال و پابندی کے ساتھ پڑھانے کی کوشش کرو اور میری یہ گزارش حدیث پڑھانے والے دوسرے حضرات تک بھی پہنچادو۔‘‘ حضرت علّامہ شیخ عبد الفتاح ابو غدّہ قدّس سرّہٗ العزیز کی مذکورہ بالا نصیحت سے مجھے بڑا فائدہ محسوس ہوا، اور میں اس مضمون کے ذریعہ شیخ کے حکم کے مطابق ان کی مذکورہ نصیحت کو حدیث پڑھانے والے دوسرے اہل علم حضرات تک بھی پہنچاناچاہتا ہوں ، جیساکہ اس سے قبل عربی مجلّہ ’’البیّنات‘‘ شمارہ نمبر: ۴ ،۱۴۲۵ھ اور دارالعلوم دیوبند کے عربی مجلّہ ’’الدّاعی ‘‘شمارہ نمبر ۳،۴ ماہِ ربیع الاوّل-ربیع الثانی ۱۴۲۶ھ میں میرے عربی مضمون کے اندر شیخ کی یہ نصیحت شائع ہوچکی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ شیخ ابو غدّہ کی وفات اور مسجدِ نبوی میں نمازِ جنازہ اور جنت البقیع میں تدفین  حضرت علّامہ شیخ عبد الفتاح ابو غدّہ v نے سنہ ہجری قمری کے حساب سے اپنی مستعار زندگی کے اکیاسی سال اور چند مہینے ،اور سنہ میلادی شمسی کے حساب سے تقریباً اُناسی سال اس دارِ فانی میں گزار کر بروزِ یکشنبہ ۹/۱۰/۱۴۱۷ھ مطابق۱۶/۲/۱۹۹۷ء فجر کے وقت ریاض کے ایک ہسپتال ’’مستشفی الملک فیصل التخصُّصی‘‘ میں داعی اجل کولبیک کہا اور بروز دوشنبہ ۱۰/۱۰/۱۴۱۷ھ شاہی فرمان کے مطابق ان کی نعش کو خصوصی طیارہ کے ذریعہ مدینہ منورہ منتقل کیا گیا، جہاں مسجدِ نبوی میں بعد نمازِعشاء ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی جس میں ایک جمِّ غفیر نے شرکت کی، نماز جنازہ کے بعد ان کے جسدِ خاکی کو جنّت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔ اللہ اُن کی لحد پر شبنم افشانی کرے  شیخ نے اپنے پیچھے ہزاروں شاگرد اور تالیفات و تحقیقات کا ایک بڑا ذخیرہ چھوڑا، جن میں سے باسٹھ کتابیں ان کی زندگی میں شائع ہوکر مقبولِ خاص و عام بن گئی تھیں، اور بعض زیرِ طباعت اور بعض پر کام جاری تھا کہ ان کا وصال ہوگیا، اب ان کے علمی و تحقیقی کاموں کی تکمیل میں ان کے باکمال و باصلاحیت صاحبزادے شیخ سلمان أبو غدّہ حفظہٗ اللہ لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شیخ ابو غدہ کو جنت الفردوس میں درجات ِ عالیہ نصیب فرمائے اور ان کی تالیفات اور علمی و اصلاحی کارناموں سے لوگوں کو تاروزِ قیامت مستفید و مستفیض ہونے کا موقع عنایت فرمائے۔

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین