بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حجازِمقدس کی والہانہ حاضری (چوتھی قسط)

حجازِمقدس کی والہانہ حاضری (چوتھی قسط)

فضیلۃ الشیخ محمدبن صالح العُثیمین کی خدمت میں حاضری فضیلۃ الشیخ محمدبن صالح العثیمین v سعودی عرب کے ان چیدہ علماء میں سے تھے جن پر وہاں کی سرزمین نازکرتی ہے، وہ علم وتقویٰ، زہدوقناعت اور ہمدردی واخلاص کے پیکر تھے۔ شیخ ابن عُثیمین اپنے ملک میں ’’انجمن کبارالعلمائ‘‘ کے رکنِ رکین اور کلیۃ الشریعۃ جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ (شاخ قصیم) کے استاذ اور ’’عُنَیزہ‘‘ شہر کی مشہور جامع مسجد ’’الجامع الکبیر‘‘ کے امام وخطیب تھے۔ ان کے علم وتقویٰ سے متعلق میں نے بہت کچھ سنا تھا اور غائبانہ طور پر ان سے کافی متأثر ہوگیا تھا اور دل چاہ رہا تھا کہ ان کی خدمت میں حاضری اور ان کے علوم وفیوض سے استفادہ کرنے کا کوئی موقع ملے۔ اللہ کی توفیق سے یہ تمنا اس طرح پوری ہوئی کہ ’’جامعۃ الملک سعود ریاض‘‘ میں پڑھنے کے زمانہ میں چھٹیوں کے دوران چند مرتبہ ’’عُنَیزہ‘‘ جاکر ’’الجامع الکبیر‘‘ کے اندر ان کے حلقۂ درس میں شرکت اور ان سے ملاقات کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حالات سے واقفیت کا موقع بھی ملا، اسی طرح رمضان المبارک میں مسجد حرام کے اندر دوسری منزل پر اُن کا درس ہوا کرتا تھا، اس میں بھی حسبِ موقع چند مرتبہ شرکت نصیب ہوئی۔ شیخ کو اللہ تعالیٰ نے حکومت اورعوام دونوں کی سطح پر مقبولیتِ عامّہ عطا کی تھی۔ سعودی عرب جیسے مالدار ترین ملک میں اپنی مقبولیت سے شیخ نے کوئی ذاتی مفاد حاصل نہیں کیا، بلکہ اپنے اختیار سے اپنے لیے فقرکی زندگی کو ترجیح دی،ان کی زندگی کوسامنے رکھ کرایسامحسوس ہوتاتھاکہ شیخ نے مندرجہ ذیل تین حدیثوں اوران سے ملتی جلتی دیگرحدیثوں کو صرف پڑھا اور پڑھایا نہیں تھا، بلکہ ان کو حرزِ جان بناکر اپنی عملی زندگی کا حصہ بنالیا تھا، اور ان حدیثوں میں واقع مسنون دعائیں صرف پڑھتے نہیں تھے بلکہ ان کے مفہوم کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے اپنی طاقت کے بقدر مکمل جدوجہد اور سعی پیہم فرماتے تھے، تین حدیثیں بطور نمونہ ملاحظہ ہوں: ۱:۔۔۔۔۔’’عن أبی سعید رضی اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: اللّٰھم أحینی مسکینا وتوفَّنی مسکینا واحشرنی فی زمرۃ المساکین۔‘‘                                   (  رواہ الحاکم وصحَّحہ ووافقہ الذھبی ) ترجمہ:’’حضرت ابوسعیدخدری q سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ a کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا: اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں دنیا سے اُٹھانا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔‘‘ ۲:۔۔۔۔۔’’عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ  أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اللّٰھم اجعل رزقَ أٰلِ محمد قُوْتًا وفی روایۃ کفافاً۔‘‘                     (متفق علیہ) ترجمہ :’’حضرت ابو ہریرہ q سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکی کہ: اے اللہ ! محمد کے گھر والوں کی روزی بس بقدر کفاف ہی رکھیے۔‘‘ ۳:۔۔۔۔۔’’عن أبی أمامۃ  رضی اللّٰہ عنہ  قال: قال رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عرض علٰی ربی لیجعل لی بطحائَ مکۃ ذھبًا، فقلت: لایارب! ولکن أشبع یومًا وأجوع یومًا، فإذا جعتُ تضرّعت إلیک وذکرتک وإذا شبعت حمدتک وشکرتک۔‘‘                                              (  رواہ الترمذی وحسَّنَہ)   ترجمہ :’’حضرت ابو اُمامہ q سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے یہ بات رکھی کہ میرے لیے وہ مکہ کی وادی کے سنگریزوں کو سونا بنادے (اور مجھے اس کا مالک بنادے) تو میں نے عرض کیا کہ: میرے پروردگار! میں اپنے لیے یہ نہیں مانگتا بلکہ میں (ایسی حالت میں رہنا پسند کرتاہوں کہ) ایک دن پیٹ بھرکے کھاؤںاور ایک دن بھوکا رہوں ،پس جب مجھے بھوک لگے تو آپ کے سامنے گریہ وزاری کروں اور آپ کو یاد کروں ،اور جب آپ کی طرف سے مجھے کھانا ملے اور میرا پیٹ بھرے تو میں آپ کی ستایش اور آپ کا شکر کروں۔‘‘ شیخ ابن عثیمینv کے تقویٰ و استغناء کا یہ عالم تھا کہ شاہ خالد مرحوم نے اپنے زمانۂ بادشاہت میں ’ــ’الجامع الکبیر‘‘ سے متصل ان کے لیے ایک اچھا اور وسیع گھر بنانے کا حکم جاری کردیا، تاکہ شیخ اپنے پرانے کچے گھر سے اس نئے گھر میں منتقل ہوجائیں، جب نیا گھر بن گیا اور شیخ سے کہاگیا کہ یہ گھرآپ کا ہے، تو انہوں نے ’’وقفٌ للطلاب‘‘ کہہ کر اس عمارت کو ان طلبہ کے لیے وقف کردیا جو دور دور سے آکر اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے شیخ کے پاس قیام پذیر ہوجاتے اور خود اپنے لیے پرانے اور کچّے گھر میں رہنے کو ترجیح دی۔ احقر نے بھی اس وقف شدہ عمارت میں شیخ کی خدمت میں حاضری کے موقع پر مختصر قیام کیا تھا۔اس عمارت میں طلبہ کے لیے رہائش اور کھانے پینے کے انتظام کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ لائبریری بھی موجود تھی، جہاں یکسوئی کے ساتھ طلبہ مطالعہ کرتے۔ شیخ اپنے  کچّے گھر میں قیام پذیر رہے، یہاں تک کہ شاہ فہد مرحوم کا زمانہ آیا، شاہ فہد نے بھی یہ محسوس کیا کہ سعودی عرب جیسے خوشحال ملک کے اتنے بڑے عالمِ دین کچّے گھر میں رہیں! یہ ہرگز مناسب نہیں، چنانچہ انہوں نے مسجد سے کچھ فاصلے پر شیخ کے لیے دوسرا مکان بنانے کا حکم صادر کردیا، جب وہ مکان تیار ہوگیا تو شیخ اس گھر میں پھر منتقل ہونے کے لیے تیا رنہ تھے، البتہ ان کے استاد شیخ عبد العزیز بن بازؒ نے ان کو منتقل ہونے کی دعوت و ترغیب دی، تب وہ منتقل ہوگئے، لیکن طرزِ حیات میں پھر بھی کوئی فرق نہیں آیا اور اپنی عمر کے آخری لمحات تک فقیرانہ زندگی گزارتے رہے۔ احقر نے ڈاکٹر عبد اللہ عبد المحسن الترکی جنرل سیکریٹری رابطۂ عالم اسلامی (سابق مدیر جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض) کا ایک عربی مضمون پڑھا تھا، جس میں انہوں نے لکھاتھا کہ جب میں ’’جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ‘‘ کا مدیر تھا تو اس وقت ہم نے جامعہ کے تمام اساتذہ کے نام ایک فارم جاری کیا، جس میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ آپ اپنی تمام علمی سرگرمیوں کی وضاحت تحریر فرمائیں، چاہے وہ سرگرمیاں تصنیف و تالیف کے میدان سے تعلق رکھتی ہوں، یا تدریس و تعلیم کے میدان سے یا دعوت واصلاح کے میدان سے ان کی وابستگی ہو، تاکہ آیندہ ان سرگرمیوں اور صلاحیتوں کی بنیاد پر آپ کو ترقی دی جاسکے۔ شیخ ابن عثیمینؒ چونکہ منطقۂ قصیم میں واقع جامعہ کی شاخ میں استاد تھے، اس لیے یہ فارم ان کی خدمت میں بھی بھیج دیا گیا تھا، آگے ہوا یہ کہ دیگر اساتذہ نے تو اپنی اپنی سرگرمیوں کو نمایاں طور پر تحریر فرماکر فارم واپس کردیئے، لیکن شیخ کی طرف سے خالی فارم واپس آگیا ، میں (مدیر جامعہ) چونکہ ذاتی طور پر شیخ کی صلاحیتوں اور اعلیٰ علمی و اصلاحی سرگرمیوں سے واقف تھا، حیران رہ گیا کہ شیخ نے کیوں اپنی علمی سرگرمیوں اورتعلیمی و تصنیفی کارناموں کا کوئی تذکرہ نہیں فرمایا ہے؟ بالآخر میں نے ان سے رابطہ کیا کہ: شیخِ محترم ! آپ نے اپنی علمی سرگرمیوں اور اصلاحی و دعوتی کارناموں میں سے کسی کا ذکر نہیں فرمایا ہے اور خالی فارم واپس بھیج دیاہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ شیخ نے فرمایا کہ:’’ آپ نے اساتذہ کو اپنی اپنی سرگرمیاں تحریر کرنے کی وجہ یہ تحریر فرمائی ہے کہ ان سرگرمیوں کی بنیاد پر ان کو ترقی دی جائے گی،میں نہ تو ترقی کا خواہشمند ہوں اور نہ ہی میری جو تھوڑی بہت سرگرمیاں ہیں‘ وہ دنیوی ترقی پر فائز ہونے کے لیے ہیں ، اس لیے میں نے کچھ لکھنا مناسب نہیں سمجھا ۔‘‘ شیخ ابن عثیمین v چلنے پھرنے ، اُٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے ،رہنے سہنے ، پہننے ،ملنے جلنے اور زندگی کے ہر پہلو میں اتباعِ سنت کا اہتمام فرماتے۔ ایک دفعہ میں شیخ سے استفادہ کی غرض سے ’’عُنَیزہ‘‘ شہر حاضر ہوا تھا، میں نے خود مشاہدہ کیاکہ شیخ’’الجامع الکبیر‘‘میں نماز پڑھانے کے بعد اپنے گھر کی طرف پیدل روانہ ہوگئے جوکہ مسجدسے تقریباً پون کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا، راستہ کہیں پکا اور کہیں کچا تھا، مسجد سے گھر جاتے ہوئے ان کے شاگردوں کی ایک جماعت بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی، تاکہ راستہ میں بھی اپنے شیخ سے استفادہ کرتے رہیں، میں بھی استفادہ کی غرض سے ان میںشامل ہوگیا، اس دوران میں نے دیکھا کہ شیخ ننگے پائوں چل رہے ہیں جبکہ راستہ پورا پکا بھی نہیں تھا ،کہیں کہیں مٹی بھی پڑی ہوئی تھی، شیخ کو ننگے پائوں چلتے ہوئے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی! کیونکہ سعودی عرب میں مسجدوں سے چپل چوری ہونے کے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے، پھر خیال آیا کہ شاید شیخ کے چپل ادھر اُدھر ہوگئے ہوں گے یا کسی نے غلطی سے پہن لیے ہوںگے، اس لیے شیخ کو ننگے پائوں چلنا پڑا ہوگا، ارادہ کیا کہ میں اپنا چپل ان کو پیش کروں ، لیکن ان کے شاگردوں کا اطمینان دیکھ کر کچھ شک سا ہوگیا کہ یہ حضرات اپنے شیخ کو ننگے پائوں چلتے دیکھ کر چونکتے کیوں نہیں ؟ اپنے شک کو دور کرنے کے لیے میں نے ان کے ایک شاگردِ رشید سے پوچھا کہ شیخ ننگے پائوں کیوں چل رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ شیخ مندرجہ ذیل حدیث نبوی پر عمل کے لیے کبھی کبھی ننگے پائوں چلاکرتے ہیں : ’’حضرت عبد اللہ بن بریدہ v کہتے ہیں کہ: نبی a کے ایک صحابیؓ نے حضرت فَضَالہ بن عُبید q سے - جو کہ مصر میں مقیم تھے - پوچھا کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے کیوں ہیں؟ جبکہ آپ اس سرزمین کے امیر بھی ہیں،انہوں نے فرمایا کہ: رسول اللہ a ہمیں زیادہ خوش عیشی سے روکا کرتے تھے۔ صحابیؓ نے ان سے پوچھا کہ: آپ کے پائوں میں جوتا کیوں نہیں؟ فرمایا کہ: نبی a ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ وقتاً فوقتاً ننگے پائوں چلاکرو ۔‘‘   (سنن ابو دائود، کتاب الترجّل، ج:۲، ص:۲۲۰۔ مشکاۃ المصابیح، ج: ۲، ص:۳۸۲) شیخ کے شاگرد رشید کی بات سن کر میں شرمندہ بھی ہوا اور اپنی غفلت پر نادم بھی ، اور یہ احساس ہوگیا کہ مذکورہ حدیثِ پاک تو ہم نے بھی پڑھی تھی، لیکن اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے یاد نہیں رہی تھی ، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو نبی کریم a کی تمام سنتوں پر عمل کی توفیق عطافرمائے ۔ موصوف کی رقّتِ قلبی کا ایک واقعہ جو ہفتہ وار عربی مجلہ ’’المجتمع‘‘شمارہ نمبر: ۱۴۳۵، تاریخ: ۲۸ ماہ شوال تا ۵ ماہ ذوالقعدہ ۱۴۲۱ھ میں شائع ہوا ہے، ترجمہ کے بعد نقل کیا جارہاہے : ’’سعودی عرب ریڈیو سے ایک دینی پروگرام ’’نورٌ علی الدّرب ‘‘کے نام سے نشر ہوتا ہے جس میں ملک کے مشہور علمائے کرام میں سے کسی عالم کومدعوّ کیاجاتاہے اور وہ لوگوں کے دینی سوالات کے جوابات دیتے ہیں ، سوالات تحر یر ی بھی ہوتے ہیں اور زبانی بھی ،تحریری سوالات اس طرح ہوتے ہیں کہ پروگرام کے میزبان آئے ہوئے خطوط پڑھ کرسناتے ہیں اورزبانی سوالات اس طرح ہوتے ہیں کہ پروگرام کے دوران بذریعہ فون لوگ رابطہ کرکے سوال کرتے ہیں ، اور بلائے گئے عالمِ دین جواب دیا کرتے ہیں، اس پروگرام کے لیے وقتاً فوقتاً شیخ ابن عُثیمینؒ کو بھی بلایا جاتا تھا۔ ایک دفعہ کسی نے فون کر کے شیخ سے عرض کیاکہ: میں نے ایک مختصر سا خواب دیکھا ہے، اس کی تعبیر بتادیجئے۔ شیخ نے فرمایا کہ: یہ پروگرام فقہی سوالات کے لیے ہے ، خوابوں کی تعبیر کے لیے نہیں ، اور مجھے خوابوں کی تعبیر سے زیادہ مناسبت بھی نہیں ،اس لیے آپ مجھے معاف فرمائیں۔ انہوں نے اصرار کیا کہ شیخ ! چونکہ آپ ہی پر میرا اعتماد ہے، لہٰذا ازراہِ کرم آپ میرا یہ مختصر خواب سن لیجئے اور اگر کوئی تعبیر ذہن میں آجائے‘ وہ بھی بتادیجئے۔ شیخ نے ان کے اس اصرار پر کہا کہ بتادیجئے! آپ نے کیا خواب دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ: اپنے ایک جاننے والے شخص کو میں نے خواب میں اس طرح دیکھا ہے کہ وہ کعبۃ اللہ کے ارد گرد ننگا ہوکر طواف کررہا ہوتا ہے۔ شیخ نے علی الفور تعبیر بتادی کہ اس خواب سے اس شخص کی عظمت اور قربتِ خداوندی کا پتہ چل رہا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرمائی ہے، اس لیے کہ حدیثِ نبوی ہیـ: ’’من حجّ لِلّٰہِ فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمّہ‘‘(متفق علیہ) یعنی’’ جس نے اللہ کے لیے حج کیا پھر اس میں شہوت اور گناہ کی بات نہیں کی تو وہ اس دن کی طرح ہوکر لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اُسے جناتھا۔‘‘  مذکورہ حدیث میں مکمل مغفرت سے تعبیر اس طرح کی گئی ہے کہ انسان گناہوں سے ایساپاک ہوجاتا ہے جیسا کہ ولادت کے وقت اس کی حالت ہوتی ہے ،اور ظاہر بات ہے کہ ولادت کے وقت آدمی کے جسم پر کپڑا تو نہیں ہوتا، لہٰذا! اس خواب سے اس شخص کی عظمت اور دربارِ الٰہی میں مقرب ہونے کا پتہ چلتا ہے جس کو آپ نے خواب میں دیکھا ہے۔ اس پر خواب دیکھنے والی شخصیت نے کہا کہ شیخِ محترم ! مبارک ہو، جس شخص کو میں نے مذکورہ حالت میں طواف کرتے ہوئے خواب میں دیکھا ہے، وہ آپ ہی (شیخ محمد بن صالح العُثیمین)تھے، یہ سنتے ہی شیخ پر ایسی رقّت اور رونے کی کیفیت طاری ہوگئی کہ ان کے لیے بولنا مشکل ہوگیا اور اس دن اپنے پروگرام ’’نورٌ علی الدّرب‘‘ کو بھی پورانہ کرسکے اور واپس تشریف لے گئے۔‘‘   شیخ ابن عثیمینv کو اللہ تعالیٰ نے افہام و تفہیم کا خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا، جب و ہ ’’الجامع الکبیر،عُنیزہ‘‘ یا مسجدِ حرام کی دوسری منزل پر فصیح و بلیغ عربی زبان میں درس دیا کرتے تو ان کے سمجھانے کے منفرد انداز کی بدولت شرکاء ہمہ تن گوش رہتے اور خاص و عام بہ یک وقت مستفید ہوجاتے، شیخ اپنے درس کے دوران طلبہ سے سابقہ در وس سے متعلق سوالات بھی کرتے، تاکہ وہ غور سے سنا کریں اور دروس کو یاد بھی رکھا کریں۔ احقر کو اپنی تعلیمی زندگی میں چار شخصیات کے اندازِ تدریس نے کافی متاثر کیا ہے، ان شخصیات میں سرفہرست حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری صدر المدرسین و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند دامت برکاتہم ہیں - جن سے احقر نے اپنی تعلیمی زندگی میں سب سے زیادہ استفادہ کیا ہے- حضرت مفتی صاحب مشکل سے مشکل مسئلہ کو محسوس مثالوں کے ذریعہ اس انداز پر سمجھادیتے کہ اعلیٰ اور متوسط صلاحیت والے طلبہ کے ساتھ ساتھ ادنیٰ صلاحیت والے بھی آسانی سے سمجھ جاتے۔  دوسری شخصیت شیخ محمد بن صالح العثیمین v کی تھی، جن کے دروس میں احقر کو چند دفعہ شرکت کی سعادت نصیب ہوئی اور ان کی فصیح عربی زبان اور سمجھانے کے منفرد انداز نے کافی متاثر کیا۔  تیسری شخصیت استاذ حسن خمیس الملیجی کی تھی جن سے ’’جامعۃ الملک سعود ریاض‘‘ میں احقر اور اس کے ہم جماعت ساتھیوں نے عربی ادب کا درس لیا۔ موصوف کا تعلق مصر سے تھا اور عربی ادب میں مہارت کے ساتھ ساتھ سمجھانے کی صلاحیت اور خوش مزاجی کی صفت سے بھی خوب مالامال تھے۔ میں اپنے ساتھیوں سے کبھی ان کے بارہ میں کہا کرتا تھا کہ ہمارے محترم استاذ کے افہام و تفہیم کا انداز تو ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ زیر بحث موضوع کا ایک خوبصورت و باذائقہ لقمہ بناکر طالب علم کے منہ میں رکھ دیتے ہیں، ساتھی میری اس گفتگو اور مثال سے اتفاق کرلیتے۔  چوتھی شخصیت حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب مدظلّہم العالی (اور اب بہ وقتِ اشاعت ’’رحمہ اللّٰہ‘‘ متوفّٰی: ۱۷/۴/۱۴۳۸ھ) صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور بانی جامعہ فاروقیہ کراچی کی ہے، جن سے باضابطہ طور پر احقر کو پڑھنے کا موقع تو نہیں مل سکا ہے، البتہ ان کے بخاری شریف کے صرف ایک سبق میں ایک مرتبہ شرکت کا موقع ملا، جس سے ان کے افہام و تفہیم کے طریقہ کا اندازہ ہوا، موصوف نہایت سہل انداز میں مسائل کو حل کرلیتے اور طلبہ بہ آسانی ان کی بات کو سمجھ لیتے، اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں صحت و عافیت کے ساتھ برکت عطا فرمائے (اور اب یہ دعا کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلندفرمائے)۔ شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ اگرچہ فرعی مسائل میں اکثر مذہبِ حنبلی کے مطابق فتویٰ دیاکرتے تھے ، تاہم وہ اپنے آپ کو مقلِّد یا کلی طور پر کسی متعین مذہب کے متبع نہیں کہتے تھے، بلکہ وہ اپنی رائے میں جس دلیل کو قوی سمجھتے تھے‘ اُسی کو ترجیح دینے کے قائل تھے۔ شیخ اور اُن کے ہم مشرب سعودی عرب کے دیگر علمائے کرام کا مذکورہ بالا نقطۂ نظر اگرچہ جمہورعلمائے امت کے نقطۂ نظر سے مختلف ہے، جن کا مسلک یہ ہے کہ اس دورِ انحطاط اور زمانہ ٔخود غرضی و فساد کے اندر مذاہبِ اربعہ مروّجہ میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے اور اس کے اصول و فروع کی پابندی کے علاوہ کوئی چارئہ کار نہیں، اور اُن کی آراء کو چھوڑ کر دلیلِ قوی تک پہنچنا اگرچہ ناممکن نہیں، مشکل ضرور ہے۔ راقم بھی ان ہی جمہور علماء کا خوشہ چین اور ان کے شاگردوں میں سے ایک ادنیٰ شاگرد ہے، اس لیے وہ بھی شیخ ابن عثیمینv والے مسلک سے اتفاق نہیں کرسکتا، تاہم یہ ناانصافی ہوگی کہ شیخ کی اس خصوصیت و خوبی کو نظر انداز کیا جائے کہ وہ اپنے مذکورہ نقطئہ نظر کے باوجود ائمہ اربعہ اور ان کی اتّباع کرنے والے اہل علم کا بے حداحترام کرتے تھے اور ان کے علمی مقام کے معترف اور تقویٰ و طہارت کے قائل تھے۔ شیخ کے شاگردوں میں سے ایک پکے حنفی المذہب شخص مولوی ہدایت اللہ صاحب زید مجدہم نے براہ راست مجھے بتایا کہ میں تقریباً چھ سال تک شیخ کے پاس مقیم رہ کر ان سے پڑھتا رہا اور اُن کے پیچھے نمازیں پڑھتا رہا، ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میں نمازوں میں رفعِ یدین نہیں کرتا اور بوقتِ قیام اپنے ہاتھوں کو ناف سے نیچے باندھتا ہوں اور اوقاتِ مکروہہ میں تحیۃ المسجد نہیں پڑھتا وغیرہ ، لیکن چونکہ ان کو یہ معلوم تھا کہ میں حنفی المذہب ہوں اور حنفی مسلک کے مطابق عمل کررہاہوں، اس لیے مجھے کبھی نہیں ٹوکا ، بلکہ اگر کوئی دوسرا شخص مجھے ٹوکنے کی کوشش کرتا اس کو بھی منع کردیتے۔ اسی طرح کوئٹہ بلوچستان کے رہنے والے جناب بھائی علاء الدین صاحب تقریباً سترہ سال تک شیخ کی زندگی میں ان کے پاس مقیم رہے اور ان کے طلبہ کی خدمت پر مامور رہے اور تادم تحریر ـ’’الجامع الکبیر ‘‘سے متصل عمارت میں مقیم ہیں ، حال ہی میں وہ پاکستان آئے ہوئے تھے تو میں نے ان سے شیخ کے کچھ حالات معلوم کیے،وہ شیخ کانام سن کر اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکے اور بتانے لگے کہ: ’’ ایسا علم دوست اور شفیق و ہمدرد شخص میں نے اپنی زندگی میں ان کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا ہے، جب ان کو کسی طالبِ علم کے بارہ میں یہ اندازہ ہوجاتا کہ یہ صحیح معنوں میں طلب علم میں لگا ہوا ہے تو اس کو اپنے بیٹے سے بھی زیادہ اہمیت دیتے اور ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کا متبع شخص اگر ان سے مسئلہ معلوم کرلیتا اور انہیں معلوم ہوجاتا کہ یہ فلا ں مسلک کا متبع ہے تو اُسے اس کے مسلک کے مطابق جواب دیتے اور کبھی اس پر ناراضگی کا اظہار نہ فرماتے۔‘‘ شیخ v کو اپنی زندگی کے آخری دو سالوں میں کینسر کا عارضہ لاحق ہوگیا، اس حالت میں بھی انہوں نے اپنے معمولات کو برقرار رکھا اور صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر راضی رہے۔ سعودی حکومت نے بارہا بیرونِ ملک علاج کرانے کی پیشکش کی، جسے وہ ٹالتے رہے، بالآخر حکومت اور بعض متعلقین کے اصرار پر بادل ناخواستہ تیار ہوگئے اور حکومت کی طرف سے امریکا میں ان کے علاج کا بندوبست کیا گیا، لیکن وہاں پر پہنچنے کے بعد ڈاکٹروں کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ علاج کی صورت میں دوائوں کی شدّت سے ان کے بال جھڑ جائیں گے، اس پر شیخ نے یہ کہتے ہوئے علاج سے انکار کردیا کہ موت تو برحق اور اس کا وقت مقرر ہے، میں ایسا علاج نہیں کرانا چاہتا جس سے میری داڑھی کے بال نہ رہیں اور میں داڑھی کے بغیر قبر میں پہنچ جائوں! لہٰذا علاج کرائے بغیر واپس تشریف لائے، اور اپنے معمولات کو بیماری کی شدّت کے باوجود جاری رکھنے کی کوشش فرماتے رہے، جب بیماری نے زیادہ شدّت اختیار کی تو جدّہ کے ایک ہسپتال ’’المستشفی التخصّصی‘‘میں ان کو داخل کرایا گیا، چنانچہ ماہ ِرمضان کے آخری ایام میں وہ مذکورہ ہسپتال میں رہے۔ ان کے صاحبزادے کا بیان ہے کہ رمضان کی آخری رات میں انہوں نے مسجد حرام جانے کا اصرار شروع کیا اور فرمایا کہ: مجھے رمضان کی برکات سے محروم نہ کریں، لہٰذا ان کے اصرار پر اسٹریچر پر لیٹے ہوئے ایسی حالت میں ان کو مسجد حرام منتقل کیا گیا کہ آکسیجن کی نلکیاں لگی ہوئی تھیں، اسی حالت میں مسجد حرام میں مغرب و عشاء کی نمازیں ادا کیں اور تراویح کے بعد اپنے سابقہ معمول کے مطابق لائوڈ اسپیکر کا تقاضا کیا اور درس دینے لگے، ڈاکٹر تو ان کے ضعف و نقاہت اور بیماری کی کیفیت کو دیکھ کر سخت اضطراب میں مبتلا تھے، لیکن شیخ اطمینان کے ساتھ درس دیتے رہے، یہ مسجد حرام میں ان کی زندگی کا آخری درس تھا، اس لیے کہ عید کے دن پھر ان کو مذکورہ ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں چند ہی دن بعد ان کا انتقال ہوگیا۔   شیخ محمد بن صالح العُثیمینؒ کی ولادت ۲۷/۹/۱۳۴۷ھ کو منطقۂ ’’قصیم‘‘میں واقع ’’عُنیزہ‘‘ شہر میں ہوئی، اور جیسے ہی پڑھنے کے قابل ہوئے تو والد ماجد نے دینی تعلیم میں لگادیا، چنانچہ بچپن ہی میں قرآن پاک کا حفظ مکمل کیا، پھر فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی سے صرف ونحو، تفسیر و حدیث، سیرت و عقیدہ، فقہ و اصول فقہ اور علمِ میراث کی تعلیم حاصل کی، پھر اپنے مذکورہ شیخ کی اجازت سے ’’المعہد العلمی‘‘  ریاض میں د اخل ہوئے اور فضیلۃ الشیخ المفسّر محمد الأمین الشنقیطی اور فضیلۃ الشیخ الفقیہ عبد العزیز بن ناصرؒ جیسے اہل علم سے استفادہ کیا، اُسی دوران سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز ؒسے تعلق پیدا ہوا اور مسجد میں ان سے بخاری شریف اور دیگر مختلف کتابیں پڑھیں اور شیخ عبد الرحمن السعدیؒ کے بعد سب سے زیادہ استفادہ شیخ ابن بازؒ سے کیا اور اسی وجہ سے شیخ عبد الرحمن السعدیؒ کو ان کے شیخِ اول اور شیخ ابن بازؒ    کو ان کے شیخِ ثانی کہا جاتا ہے۔ فراغت کے بعد اپنے شیخ اول کے حکم سے ’’المعہد العلمی عنیزہ‘‘ میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا، ۱۳۷۶ھ کو ان کے شیخِ اول کا انتقال ہوا تو ان کو اپنے شیخ اول کی جگہ ’’الجامع الکبیر عنیزہ‘‘ میں امام و خطیب مقرر کیا گیا، جہاں امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ تدریس کی ذمہ داری بھی نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی وفات تک انجام دیتے رہے، اور ۱۳۹۸ھ سے اپنی وفات تک ’’کلیۃ الشریعۃ، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ‘‘ (شاخ قصیم) میں بھی تدریس کی ذمہ داری انجام دیتے رہے، اس کے علاوہ ماہِ رمضان اور ایامِ حج اور سالانہ چھٹیوں میں مسجدِ حرام کی دوسری منزل میں ان کا حلقۂ در س ہوتا تھا، جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے۔ شیخ ابن عثیمین ’’انجمن کبار العلماء ‘‘کے رکن رکین اور چالیس سے زیادہ کتابوں اور رسائل کے مؤلف بھی تھے۔ان کے بے شمارشاگرد ملک و بیرون ملک پھیلے ہوئے ہیں۔وہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنی گفتار و کردار کے ذریعہ طلبہ کی تربیت پربھی خوب توجہ دیتے تھے۔ ان کے سامنے قضاء کا منصب بھی پیش کیاگیا، لیکن انہوں نے قبول کرنے سے معذرت کی۔ شیخ ابن عثیمینv کا وصیت نامہ شیخ نے اپنی وفات سے پہلے اپنی اولاد اور طلبہ کے لیے ان کی خواہش پر مندرجہ ذیل وصیت نامہ تحریر فرمایا:  ’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا معاملہ کیساہو؟ ۱:… اللہ تعالیٰ کو ہر حالت میں یاد رکھئے اور اس کی قدرت کی نشانیوں جیسے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور ان میں اللہ کی پوشیدہ حکمتوں، رحمتوں اور احسانات پر غور کیجئے اور اللہ تعالیٰ کے ان احکام شرعیہ پر بھی غور کیجئے جن کے ساتھ اپنے انبیاء اور بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد a کو مبعوث فرمایا ہے۔ ۲:… آپ کا دل اللہ کی محبت سے اتنا لبریز ہونا چاہیے کہ اس کی محبت سب پر غالب رہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار انعامات سے نوازا ہے، بالخصوص ایمان اور دین پر استقامت کی نعمت سے، اور شرور و فتن سے بچایاہے۔ ۳:… آپ کے قلب میں اللہ کی بے پناہ محبت کا یہ اثر ہونا چاہیے کہ آپ اللہ کے تمام اوامر کی پابندی کریں اور منہیات سے اجتناب کریں۔ ۴:… اللہ کی تمام عبادات میں اخلاص کا استحضار رکھئے اور اپنی زندگی کے تمام امور میں اللہ تعالیٰ ہی پر توکل کا اہتمام کیجئیــ، تاکہ آپ ’’إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘کہنے میں سچے ثابت ہوں۔ رسول اللہ a کے حق میں آپ کا معاملہ کیسا ہو؟ـ ۱:…اللہ کی مخلوق میں نبی a کی محبت دیگر تمام محبتوں پر غالب رہے اور آپ a کے ہر طریقہ و سنت کو دوسرے لوگوں کے طریقوں پر ترجیح دیجئے۔  ۲:… تمام عبادات و اخلاق میں آپ a کو اپنا پیشوا بنالیں اور ہر عبادت میں اس بات کا استحضار رکھئے کہ آپ ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، اسی طرح لوگوں سے ملنے جلنے میں بھی آپa کے اخلاق فاضلہ کی پیروی کیجئے جن سے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’وإنک لعلٰی خلق عظیم‘‘ (اور بے شک تم اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو) مذکورہ اہتمام سے آپ کے اندر نبی a کی شریعت سمجھنے اور آپ کے اخلاق جاننے کا جذبہ بھی پیدا ہوگا ۔ ۳:…نبی a کی سنتوں کا دفاع کیجئے اور لوگوں کو ان کی طرف بلانے اور دعوت دینے کا اہتمام کیجئے اور آپ جتنا بھی شریعتِ مصطفوی کا دفاع کریں گے، اللہ تعالیٰ اتنا ہی آپ کے ساتھ تعاون فرمائیں گے۔ فرائض کے علاوہ آپ کے روز مرہ معمولات کیاہوں ؟ ۱:…رات کے آخری حصہ میں اُٹھ کر اللہ کو یاد کیجئے اور اللہ سے جو چاہیں مانگیں ،اس لیے کہ رات کا وہ حصہ دعاکی قبولیت کا وقت ہوتاہے اور سورئہ آل عمران کی آخری آیتیں ’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰواتِ وَالْأَرْضِ ‘‘سے لے کر اختتام سورت تک پڑھاکیجئے۔ ۲:… رات کے آخری حصہ میں تہجّد کی نماز جتنی ہوسکے اداکیجئے اورآخر میں وتر پڑھا کیجئے۔ ۳:… صبح کے ذکر واذکار کی پابندی کیجئے، ایک سو دفعہ ’’ لا إلٰہ إلااللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علٰی کلّ شیء قدیر‘‘ پڑھا کیجئے۔ ۴:…اشراق کی دو رکعت نماز پڑھا کیجئے۔ ۵:…شام کے ذکر واذکار کی حسبِ توفیق پابندی کیجئے۔ علم حاصل کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ ۱:… حفظِ قرآن کا اہتمام کیجئے اور روزانہ ایک متعین حصہ کی تلاوت پابندی اور غور وخوض کے ساتھ کیجئے ،اور تلاوت کے دوران جو علمی فوائد ذہن میں آجائیں‘ انہیں قلمبند کیجئے۔   ۲:…مستند احادیث نبویہ میں سے جتنی حدیثیں حفظ کرسکتے ہیں کرلیجئے،اور بالخصوص ’’عمدۃ الأحکام‘‘ (تالیف : حافظ عبد الغنی مقدسیv ) حفظ کرنے کی کوشش کیجئے۔ ۳:…علم پوری توجہ و ترتیب کے ساتھ حاصل کیجیے ،ایسا نہ ہو کہ کچھ اِدھر سے لیا، کچھ اُدھر سے لیا، اس لیے کہ اس سے آپ کا وقت ضائع ہوگا اور ذہن بھی تردّد میںمبتلا ہوگا۔ ۴:…ہر فن کی ابتدائی کتابیں پوری توجّہ کے ساتھ پڑھئے، پھر بتدر یج آگے بڑھتے رہیے، تاکہ علم میں پختگی اور اطمینان پیداہوجائے۔ ۵:… ہر فن کے اصول و قواعد کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کیجئے اور اہم باتوں کو قلمبند بھی کیجئے، مشہور مثال ہے: ’’من حُرِم الأصولَ حُرِم الوصولَ ‘‘(جو اصول و قواعد سے محروم ہوا وہ منزل مقصود تک پہنچنے سے محروم ہوا)۔ ۶:… اپنے استاد یا قابل اعتماد ذی علم ساتھیوں میں سے کسی کے ساتھ علمی مسا ئل میں بحث و مباحثہ کا اہتمام کیجئے اور اگر علمی مباحثہ کے لیے کوئی میسّر نہ ہو تو اپنے ذہن میں یہ تصور قائم کیجئے کہ علمی مسائل کے اندر آپ کے ساتھ کوئی بحث و مباحثہ کررہاہے ،تاکہ آپ مسائل کی گہرائی تک پہنچ سکیں۔   اللہ تعالیٰ آپ کو علمِ نافع و عملِ صالح عطافرمائے اور آپ کے علم میں اضافہ کردے اور آپ کو نیک اور کامیاب لوگوں میں شامل فرمادے۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  ‘‘ فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمینؒ نے اس دارِفانی میں تقریباً پچھتر سال کی زندگی گزار کر بروز بدھ ۱۵/ ۱۰/ ۱۴۲۱ھ مطابق  ۱۰/ ۱/ ۲۰۰۱ء کو مغرب سے ذرا پہلے شہرِ جدّہ میں داعی اجل کو لبّیک کہا،اور اگلے دن عصر کی نماز کے بعد مسجدِ حرام میں امامِ حرم فضیلۃ الشیخ محمد بن عبد اللہ السُّّبَیِّل کی امامت میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی، جس میں سعودی اخبارات کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ آدمیوں نے شرکت کی ،جو خصوصی گاڑیوں ،بسوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ ملک کے طول و عرض سے ان کی نمازِجنازہ میں شرکت کے لیے مسجد حرام پہنچے تھے۔ بعد نمازِ جنازہ ان کے جسد خاکی کو مکّہ مکرمہ کے قبرستان ’’مقبرۃ العدل ‘‘میں سپردِ خاک کیاگیا،جہاں ان کے محترم استاذ سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن بازv کو سپردِ خاک کیا گیا تھا۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن بن جِبْرین سے استفادہ فضیلۃ الشیخ الد کتور عبد اللہ بن عبدالرحمن بن جبرینv بھی سعودی عرب کے مایۂ ناز اور مشہور علماء میں سے تھے، علمی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ان کی سادگی اور دنیا سے بے رغبتی ضرب المثل تھی، ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ میں قیام کے دوران احقر اپنے مخلص دوستوں اور ساتھیوں کے ذریعہ غائبانہ طور پر ان کی علمی صلاحیتوں اور زہد و تقویٰ سے واقف ہوچکا تھا اور یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ ریاض کی مختلف مساجد میں وہ درس دیا کرتے ہیںاور وقتاً فوقتاً ان کے بیانات ہوتے ہیں، میری ایک دلی تمنا تھی کہ ان کی خدمت میں حا ضری اور ان سے استفادہ کا کوئی موقع میسّر آجائے، حسنِ اتفاق سے ایک دن ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ کی مرکزی جامع مسجد میں اعلان آویزاں ہوگیا کہ بروز اتوار ۱۱؍ رجب ۱۴۰۸ھ مطابق ۲۸ فروری ۱۹۸۸ء عصر کی نماز کے بعد ’’أھمیّۃ عمارۃ المساجد عمارۃً معنویۃً‘‘ (مسجدوں کو معنوی طور پر آباد کرنے کی اہمیت) کے موضوع پر فضیلۃ الشیخ الدکتور عبد اللہ بن عبد الرحمن بن جبرین کا خطاب ہوگا، اس اعلان کو دیکھ کر دل بہت خوش ہوا اور اتوار کے دن کا انتظار کرتا رہا، اتوار کو عصر سے پہلے مذکورہ مسجد پہنچ کر میں نے دیکھاکہ شیخ کا بیان سننے کے لیے عام دنوں کے اعتبار سے لوگوں کی زیادہ تعداد اس مسجد کی طرف متوجہ ہے، ان لوگوں کے درمیان میں نے یہ بھی دیکھا کہ عربی لباس میں ملبوس ایک معمّر شخص اسی مسجد کی طرف جارہے ہیں اور لباس و رفتار میں اتنی سادگی ہے کہ میرے ذہن میں یہ آیا کہ غالباً یہ ایک عام دیہاتی شخص ہیں جن کو یہ معلوم ہوا ہوگا کہ یہاں پر شیخ ابن جبرین کا بیان ہونے والا ہے، اس لیے وہ بھی سننے کے لیے آگئے اور دل میں یہ بھی آرہا تھا کہ یہ بے چارے سیدھے سادے دیہاتی شخص اتنے بڑے شیخ کا علمی بیان کیسے سمجھیں گے؟ بہر صورت! عصر کی نماز ادا کی گئی اور امام مسجد نے اعلان کیا کہ فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن عبدالرحمن بن جبرین کا بیان ہونے والا ہے، آپ حضرات شرکت فرمائیں اور یہ بھی کہا کہ شیخ سے درخواست ہے کہ آگے منبر کی طرف تشریف لے آئیں، اس اعلان کے بعد احقر کی نگاہیں اس تجسُّس میں لگی ہوئی تھیں کہ کون شخص منبر کی طرف بڑھتے ہیں، اتنے میں وُہی شخص جن کو میں دیہاتی سمجھ رہاتھا آگے بڑھے اور منبر پر تشریف فرما ہوئے، مجھے اپنی خام خیالی پر دل دل میں ندامت و شرمندگی محسوس ہوئی، اس لیے کہ جن کو میں ایک معمولی شخص سمجھ رہاتھا‘ وہی فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن جبرین تھے۔   ان کی خاکساری اور سادگی کو دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ سعودی عرب جیسے خوشحال ملک کے اندر اتنے مشہور و جلیل القدر عالمِ دین کی اتنی فروتنی و خاکساری اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انہوں نے دنیا کی بے وقعتی اور آخرت کی اہمیت کا صحیح معنوں میں ادراک کیا ہے اور معلوم ہوتاہے کہ وہ اپنی مستعار زندگی کے قیمتی لمحات اور اپنی صلاحیتوں کو دنیوی خواہشات و ذاتی مفادات میں ضائع کرنے کے ہر گز قائل نہیں، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی رضااور دین کی خدمت میں خرچ ہو۔ شیخ نے فصیح عربی زباں اور بے تکلف انداز میں مساجد کی اہمیت اور ان کومعنوی طور پر آباد کرنے سے متعلق قرآن و سنت اور سلفِ صالحین کے اقوال و واقعات کی روشنی میں علمی بیان کیا اور لوگوں کو ترغیب دی کہ مساجد کو نماز و عبادت اور تعلیم و دعوت الیٰ اللہ کے ذریعہ آباد کرنے کی کوشش کریں۔ شیخ کے اندازِ بیان سے یہ محسوس ہورہاتھا کہ ان کے دل میں ایک درد ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر مسلمان اپنے دین پر استقامت کے ساتھ قائم رہے اور مساجد پانچوں اوقات میں نمازیوں سے آباد رہیں، اور چونکہ کندھے سے کندھا ملاکر باجماعت نماز ادا کرنے سے مسلمانوں کو آپس میں اتحاد و اتفاق کا درس ملتا ہے، اس لیے مسلمان اس درس کو ہمیشہ یاد رکھیں اور اس کو عملی جامہ ضرور پہنائیں ۔ شیخ ابن جبرین سے احقر کی یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی، دلی تمنا کے باوجود دوبارہ ان سے ملاقات یا ان کے کسی درس میں شرکت کی سعادت حاصل نہ کرسکا، البتہ ان کے شاگردوں اور جاننے والوں سے ان کے واقعات و احوال دریافت کرتارہتا۔ ایک دفعہ ایک با اعتماد سعودی ساتھی نے ان کی خاکساری کا ایک عجیب واقعہ سنایا ، اور وہ یہ کہ ایک مرتبہ شیخ کسی رَش والی جگہ میں گزرگاہ کے کنارے کسی کے انتظار میں زمین پر بیٹھے ہوئے تھے، اتفاق سے وہاں پولیس والوں کی گاڑی گزررہی تھی، پولیس والوں کو ان کے سادہ لباس اور گزرگاہ کے کنارے بیٹھنے سے شبہ ہوا کہ یہ کوئی مانگنے والا شخص ہے، پولیس والے شیخ کے نام سے تو واقف تھے، البتہ شکل و صورت سے ان کو نہیں جانتے تھے اور نہ ہی یہ اندازہ کرسکے کہ یہ کوئی عالمِ دین ہیں، اور چونکہ سعودی عرب میں سوال کرنا منع ہے ، اس لیے ان کو سائل سمجھ کر گاڑی میں بٹھاکر پولیس اسٹیشن لے گئے، پولیس اسٹیشن میں موجود افسر جو شیخ کو جانتے تھے، بے حد شرمندہ ہوئے اور معافیاں مانگنے لگے اور اپنے ماتحتوں کو ڈانٹا کہ تمہیں پتہ بھی ہے کہ یہ کون ہیں ؟ شیخ نے کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا، بلکہ سب کو معاف کردیا۔ موصوف کے شاگردوں میں سے ایک نوجواں شاگرد شیخ اسحاق بن ہارون الرشید ہیں، جو مکہ مکرمہ میں مقیم اور مسجدِ حرام میں مدرس ہیں ،ان کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ شیخ بے انتہا رحم دل اور صاحب ِ سخاوت انسان تھے، جب کسی شخص کے بارہ میںان کو معلوم ہوتاکہ وہ حاجت مند ہے اور اس کو اور اس کے خاندان کو کھا نے پینے کے سامان کی ضرورت ہے تو ضروری سامان لے کر اس کے گھر پہنچ جاتے اور گھر کے دروازے کے ساتھ سامان رکھ کر دستک دے دیتے اور چلے جاتے، تاکہ ضرورت مند کوسامان بھی ملے اور یہ بھی پتہ نہ چلے کہ یہ کس نے دیا ہے؟ شیخ اسحاق نے اپنے استاذ محترم فضیلۃ الشیخ ابن جبرینv کا یہ واقعہ بھی بتایاکہ ایک مرتبہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ مکّہ مکرمہ جارہے تھے، سفر کے دوران کسی سائل نے ان سے کچھ مانگا، انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر سائل کو دینے کے لیے کوئی چھوٹا نوٹ تلاش کیا، لیکن اتفاق سے پانچ سو ریال کا نوٹ نکل آیا، جسے سائل نے دیکھ لیا، شیخ نے اسے دوبارہ جیب میں ڈال کر چھوٹا نوٹ تلاش کرنا چاہا، اس دوران اُسے محسوس ہواکہ سائل کے چہرہ پر مایوسی چھاگئی، شیخ نے مایوسی کی تلافی کے لیے پھر سے وہی پانچ سو کا نوٹ نکال کر سائل کو دے دیا۔ احقر کو فضیلۃ الشیخ ابن جبرینv کی اس ایک ملاقات اور ایک بیان میں شرکت کرنے اور دوستوں و ساتھیوں سے ان کے مذکورہ بالا جیسے عبرت انگیز واقعات سننے سے بڑا فائدہ محسوس ہوا، اور آج تک جب بھی دنیا کی زیب و زینت اور اس کی آرائش و رعنائیت میں پھنسنے کے مواقع سامنے آتے ہیں تو شیخ ابن جبرینv اور ان جیسے دیگر اکابرین کی سادگی اور دنیا سے بے رغبتی کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دنیا کی محبت سے نجات کی دعا کرتا ہوں ۔ فضیلۃ الشیخ الدکتور عبد اللہ بن عبد الرحمن بن جبرین کی ولادت ان کے شاگرد شیخ اسحاق کے بقول ۱۳۴۹ھ کو اور عربی ماہنامہ ’’مجلّۃ الحجّ والعمرۃ‘‘ ماہِ رمضان ۱۴۳۰ھ کی تصریح کے مطابق ۱۳۵۲ھ کو ہوئی تھی، اور انہوں نے اپنی مستعار زندگی کے تقریباً اٹھتر یا اکیاسی سال اس دنیائے فانی میں گزار کر نیک اعمال کے ایک بڑے ذخیرہ کے ساتھ ۲۰ ؍ رجب ۱۴۳۰ھ کو داعیِ اجل کو لبّیک کہا۔ اللہ تعالیٰ ا ن کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں درجات ِ عالیہ عطا فرمائے۔          (جاری ہے)

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین