بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حجازِمقدس کی والہانہ حاضری (پہلی قسط)

 

حجازِمقدس کی والہانہ حاضری            (پہلی قسط)

ایک مسلمان بچہ اپنے بچپن کے اندر جیسے ہی کچھ ہوش سنبھالنے اور بات سمجھنے لگتا ہے تواپنے والدین اور بڑوں سے کعبۃ اللہ اور روضۂ رسول مقبول (l) کا تذکرہ سنتا رہتا ہے، اور جب وہ تقریباً سات سال کی عمر میں نماز پڑھنا شروع کردیتا ہے اور اس کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ نماز کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ نمازی کارُخ کعبۃ اللہ کی طرف ہو تو اس کے دل میں کعبۃ اللہ کی عظمت اور اس کی طرف ایک غیراختیاری کشش پیداہوجاتی ہے، اور جب اس کویہ بتایا جاتا ہے کہ اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود اور محمد a کواللہ تعالیٰ کابندہ اورا س کاآخری نبی مان لیاجائے اورساتھ ساتھ یہ بھی کہ اسلام کے بنیادی احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عاقل بالغ صاحبِ استطاعت مسلمان کے ذمہ زندگی میں ایک مرتبہ حج بیت اللہ فرض ہے تواس کادل حجازِ مقدس کی حاضری کے لیے بے تاب ہوجاتا ہے، اور آگے چل کرجب اس کو نبی کریم a کی سیرتِ طیبہ کاکچھ حصہ اورا س کے ضمن میں مدینہ منورہ کا تعارف اور روضۂ رسول (l) کاتقدس وعظمت بتائی جاتی ہے تواس کی بے تابی ایک تڑپ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ راقم الحروف کے بچپن اورطالب علمی کا زمانہ حرمین شریفین کی محبت اور وہاں پر حاضری کی تمنا کے حوالہ سے مذکورہ بالا کیفیت کے ساتھ گزر گیا، اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے حاضری کا موقع نہ مل سکا، درسِ نظامی سے فراغت کے بعدہی اپنی مادرعلمی دارالعلوم دیوبندمیں تعلیمی سال ۱۴۰۲ھ-۱۴۰۳ھ کو تدریس کی خدمت پر مامور ہوا، جب کہ مسجد دارالعلوم کی امامت وخطابت کی ذمہ داری دورۂ حدیث پڑھنے کے سال سے احقرکے سپرد ہوچکی تھی، تدریس وامامت دونوں کے عوض دارالعلوم دیوبند سے مجھے چھ سو نوے روپے مشاہرہ ملتا تھا، جس میں ظاہری قلت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت رکھی تھی،تاہم اس معمولی مشاہرہ سے اتنا بچانا جو حج کے اخراجات کے لیے کافی ہوجاتا‘ ناممکن تھا، لہٰذا! دل ہی دل میں حرمین شریفین کی حاضری کی تمنا جمی رہتی تھی، اور اس تمنا کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دعا کے علاوہ کوئی اور ظاہری سبب نظر نہیں آرہا تھا: اے غائب از نظر کہ شدے ہمنشینِ دل  میگویمت ثنا و دعا مے فرستمت ایک عارف باللہ صاحبِ حال بزرگ کی دعا کا اثر دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے زمانہ میں جناب قاری عبدالحفیظ صاحب زیدمجدہم - استاذ شعبۂ تجوید دارالعلوم دیوبند - کی معیت میں ان ہی کی موٹرسائیکل پر ایک دفعہ بروز اتوار ۱۷/۱۲/۱۴۰۶ھ کو شیخ علاء الدین علی بن احمد صابر  v (متوفّٰی ۱۳؍ربیع الاول ۶۹۰ھ) خلیفۂ اجل حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر v (متوفّٰی ۵؍محرم ۶۶۴ھ) کے مزار پر حاضری دینے کے لیے کلیرشریف جو دیوبند سے تقریباً پچاس کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، جانے کا پروگرام بنا، قاری صاحب چونکہ دیوبند کے مضافات اور ان کے راستوں سے خوب واقف تھے، اس لیے یہ راستہ مختصر وقت میں طے ہوا۔ آستانۂ صابری پر حاضری دینے سے سکون واطمینان کے بجائے وہاں پر موجود بدعت کے ماحول کو دیکھ کر کدورت لاحق ہوگئی۔ فاتحہ خوانی وایصالِ ثواب کے لیے بھی مزار کے بجائے قریب میں واقع مسجد کو منتخب کرنا پڑا، کیونکہ مزار کے پاس موجود بدعات کو روکنا ہمارے بس میں نہ تھا، البتہ وہاں سے الگ ہونا ہمارے بس میں تھا، اس لیے جلدازجلد وہاں سے الگ ہونے کو ترجیح دی، اور میں نے رفیق سفر اور اپنے کرم فرما جناب قاری صاحب موصوف سے یہ بات بھی عرض کردی کہ اگر پہلے سے یہ معلوم ہوتا کہ یہاں ایسا ماحول ہے تو حاضری کی کوشش نہ کی جاتی۔ مسجد میں فاتحہ خوانی اورایصالِ ثواب کرکے ہم نے واپسی کا پروگرام بنایا، جناب قاری صاحب نے واپسی میں بتایا کہ راستہ میں ایک گاؤں ’’نانکہ‘‘ آتا ہے، جہاں حضرت حافظ عبدالستار صاحب دامت برکاتہم رہتے ہیں، جوکہ تارک الدنیا، صاحبِ حال، مستجاب الدعوۃ اور حضرت شاہ عبدالقادررائے پوری قدس سرہٗ (متوفّٰی۱۴؍ربیع الاول۱۳۸۲ھ ) کے خلیفہ ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں تو ان کی خدمت میں بھی حاضری دیتے ہیں۔ میں نے کہا: یہ تومیری بڑی سعادت ہوگی، اور اس حاضری سے اس کدورت کی بھی بڑی حد تک تلافی ہوجائے گی، جو آستانۂ صابری پر حاضری کے وقت وہاں پر موجود بدعات کے ماحول کو دیکھ کر لاحق ہوگئی ہے۔ بہرصورت حضرت حافظ عبدالستارصاحب سے ملاقات کے لیے اُن کے گاؤں ’’نانکہ‘‘ پہنچے، اور اُن کے مکان پر (جو ایک سادہ سا مکان تھا) حاضری دی، اس سے قبل کہ ہم کسی سے یہ معلوم کرلیتے کہ حافظ صاحب تشریف فرما ہیں یانہیں؟ ملاقات ہوسکتی ہے یانہیں؟ اس مکان سے سادہ لباس میں ملبوس ایک شخص باہر تشریف لائے اور مکان سے ذرا فاصلہ پر واقع مسجدکی طرف روانہ ہوگئے۔ میرا تو یہ خیال ہوا کہ حافظ صاحب کے خدام یامتعلقین میں سے یہ کوئی صاحب ہوں گے، لیکن قاری عبدالحفیظ صاحب چونکہ پہلے ہی سے ان سے واقف تھے ،فرمانے لگے: یہی حضرت حافظ عبدالستارصاحب زیدمجدہم ہیں۔ سلام ومصافحہ تو اسی وقت ہم نے آگے بڑھ کر ان سے کرلیا، لیکن انہوں نے سلام کے جواب ومصافحہ کے علاوہ ہم سے اور نہ ہی وہاں پر موجود کسی اور شخص سے کوئی خاص بات کی، اور مسجد کی طرف چلے گئے، ہم بھی پیچھے پیچھے مسجد تک گئے، مسجد پہنچ کر حضرت حافظ صاحب مسجد کے ایک حصہ میں بچھی ہوئی ریت پر پشت کے بل لیٹ گئے، اور کسی سے کوئی بات نہیں کی، اور چونکہ کسی نمازکاوقت نہیں تھا، اس لیے ہم بھی ان کے قریب بیٹھ گئے، ان کی سادگی اور اونچی نسبت کو دیکھتے ہوئے نبی کریم a کی وہ حدیث پاک یاد آنا ایک قدرتی بات تھی جو آپ a نے حضرت براء بن مالک q کودیکھ کر ارشاد فرمائی تھی کہ: ’’کم من أشعثَ أغبرَ ذی طَمرین لایُؤْبَہُ لہٗ لوأقسم علی اللّٰہ لأبرّہٗ منھم البراء بن مالکؓ۔(  رواہ الترمذی بسندہٖ عن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ )۔‘‘ یعنی ’’بہت سے پراگندہ بال، غبار آلود جسم، دو پرانے کپڑے پہننے والے جن کو عام طور پر کوئی اہمیت نہ دی جاتی ہو، (اللہ کے یہاں ان کا اتنا اونچا مقام ہوتا ہے کہ) اگروہ کسی بات کی قسم بھی کھالیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ (ان کی بات کی لاج رکھتے ہوئے) ان کی قسم کو پوری کردیتا ہے، جن میں سے ایک براء بن مالکؓ بھی ہیں۔‘‘ قاری عبدالحفیظ صاحب نے حضرت حافظ صاحبؒ سے نہایت ادب کے ساتھ عرض کیاکہ میرے ساتھ آنے والے یہ شخص دارالعلوم دیوبند کے نوجوان اساتذہ میں سے ہیں اور دارالعلوم دیوبند کی مسجد کے امام بھی ہیں، آپ سے ملنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں، حافظ صاحب ایک دم اُٹھ گئے، میں نے ان سے ادب کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے مزاج پرسی کی، انہوں نے بھی خیریت پوچھی، میں نے ان سے تین دعاؤں کی درخواست کی، جن میں سے ایک دعا حج بیت اللہ نصیب ہونے سے متعلق تھی، انہوں نے فوراً دونوں ہاتھ اُٹھاکرذرا لمبی سی خفیہ دعا کی، دعا کے بعد ہم نے اُن سے رخصت لی، اور واپس دیوبند آگئے۔ ان خدا رسیدہ بزرگ حضرت حافظ عبدالستارصاحب رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً کی دعاکااثرراقم نے اس طرح دیکھا کہ ۱۷؍ذو الحجہ ۱۴۰۶ھ کومذکورہ دعا ہوئی تھی۔ ۲۱؍ذو القعدۃ ۱۴۰۷ھ کو غیرمتوقع طور پر جامعۃ الملک سعود ریاض میں احقر کے داخلہ کی اطلاع موصول ہوئی۔ یکم صفر ۱۴۰۸ھ کو ریاض پہنچا، ۱۹؍ربیع الاول۱۴۰۸ھ کو بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب حرمِ مکی کی پہلی زیارت اور عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی اور شبِ جمعہ ۲۰؍ربیع الاول ۱۴۰۸ھ کو مسجد نبوی اور روضۂ اقدس(l) کی پہلی حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، اور ماہِ ذو الحجہ ۱۴۰۸ھ ہی کو پہلے حج کی سعادت میسر ہوئی۔ مذکورہ اجمال کی تفصیل درج کرنے سے پہلے حضرت حافظ عبدالستارصاحب قدس سرہٗ کا مختصر تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ عارف باللہ حضرت حافظ عبدالستارصاحب کا مختصر تذکرہ حضرت حافظ عبدالستار صاحب v نے ۱۴؍شعبان ۱۳۲۷ھ مطابق ۲؍ستمبر۱۹۰۹ء موضع ’’ہرچندپور‘‘ تحصیل ’’روڑکی‘‘ ضلع ’’سہارن پور‘‘ میں ایک ایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں، جہاں تعلیم وتربیت سے کوئی آشنا نہ تھا، اس لیے ان کا نام بھی اسی ماحول کے مطابق شبِ براء ت سے منسوب کرتے ہوئے ’’شبراتی‘‘ رکھا گیا۔ بچپن میں ان کے والدصاحب کا انتقال ہوگیا تو پرورش کی ذمہ داری دادا محترم نے اپنے کندھوں پر لی۔ کچھ عرصہ بعد دادا جان کا بھی انتقال ہوگیا تو ان کی پرورش کی ذمہ داری نانا محترم پر آگئی۔ ناناجان نے ان کو کچھ ابتدائی دینی تعلیم اور پھر کچھ ابتدائی عصری تعلیم دلادی، پھر انہوں نے بدرجۂ مجبوری تعلیم کا سلسلہ موقوف کرکے گھر کا کام اور والدہ محترمہ کی خدمت شروع کردی، اس کے بعد دل میں حفظِ قرآن کا ولولہ پیدا ہوا اور اپنی والدہ محترمہ سے اس کا تذکرہ کردیا۔ والدہ نے اجازت دی، تو انہوں نے حفظ قرآن کے ارادہ سے رائے پور کا سفر شروع کیا، لیکن راستہ میں ایک قصبہ ’’بہٹ‘‘ پڑتا ہے، جو رائے پور سے تقریباً آٹھ کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، یہاں انہوں نے ظہر کی نماز پڑھی اور معلوم ہوا کہ یہاں پر بھی حفظ قرآن کرایا جاتا ہے، تو انہوں نے رائے پور کا ارادہ ملتوی کردیا، اور ’’بہٹ‘‘ میں حفظ قرآن شروع کیا‘ جہاں کھانے کا کوئی نظم نہیں تھا، البتہ ایک طالب علم نے جس کا کھانا کسی کے گھر سے آتا تھا، بہ خوشی اپنے کھانے میں ان کو شریک کیا، اور اس طرح انہوں نے حفظ قرآن مکمل کرلیا۔ حفظ قرآن کے بعدمزیدتعلیم کے لیے مدرسہ رکنیہ جو ’’سکروڈہ‘‘ نامی بستی میں واقع تھا‘ داخل ہوئے، جہاں انہوں نے فارسی کی کئی کتابیں مولانا خدابخش صاحب سے پڑھیں، آپ کی تواضع وخاکساری اور اساتذہ کی خدمت واحترام کی وجہ سے منتظمین واساتذہ بالخصوص مولانا خدابخش صاحب آپ پر بے حد شفقت وعنایت فرماتے، اور مولانا موصوف ہی آپ کو رائے پور حضرت اقدس مولانا عبدالقادر صاحب رائے پوریؒ کی خدمتِ بابرکت میں لے جاتے رہے،یہاں تک کہ آپ کوحضرت رائے پوری قدس سرہٗ سے والہانہ محبت وعقیدت پیدا ہوگئی، اور ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے، حضرت رائے پوریؒ نے آپ کا نام تبدیل کرکے ’’شبراتی‘‘ کے بجائے ’’عبدالستار‘‘ تجویز فرمایا، اور آپ کی اصلاح پر خوب توجہ دی، یہاں تک کہ ماہِ فروری ۱۹۵۰ ء کو انہیں اجازتِ بیعت مرحمت فرماتے ہوئے خلافت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریv کی توجہ ونسبت کا یہ کرشمہ ظاہر ہوا کہ ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولنے والے ’’شبراتی‘‘ جہاں تعلیم وتربیت کا کوئی انتظام نہ تھا، عارف باللہ حضرت حافظ عبدالستارصاحب نانکوی کے نام سے مرجع خاص وعام بن گئے۔ بڑے بڑے اہل علم ان کے معتقدومداح ہو گئے۔ دارالعلوم دیوبند کے ماحول میں بھی ان کے جاننے والوں کے درمیان یہ مشہور ہوگیا کہ وہ صاحبِ حال اور مستجاب الدعوۃ بزرگ ہیں۔ ہمارے استاذ و مرشد فقیہ الامّت حضرت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہی صاحب قدس سرہٗ-صدر مفتی دارالعلوم دیوبند- اور دیگر اکابرین بھی ان سے کافی محبت فرماتے تھے۔ حضرت مولانا محمد سعیدی صاحب دامت برکاتہم-ناظم ومتولی مدرسہ مظاہر علوم (وقف) سہارن پور- ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : ’’وہ ممتازمستجاب الدعوات اورمرجع خلائق ہستی تھے، جہاں حضرت اقدس شاہ عبدالقادر رائے پوری نوراللہ مرقدہٗ سے انتساب نے ان کی عظمت کو چارچاندلگائے ہیں، وہیں حضرت حافظ صاحب موصوف کی ذات گرامی کی نسبت سے ’’نانکہ‘‘ نامی بستی کی شہرت ونیک نامی کو قابل رشک عروج حاصل ہوا۔‘‘                    (تذکرہ حافظ عبدالستار نانکویؒ) حضرت مولاناافتخارالحسن کاندہلوی صاحب ان سے متعلق رقم طرازہیں کہ :  ’’وہ حضرت شاہ عبدالقادررائے پوری نوّراللہ مرقدہٗ وبرّداللہ مضجعہٗ کے اجل خلفاء میں سے تھے،مستجاب الدعوات تھے،سادگی ، بے تکلفی طبیعت ثانیہ بن گئی تھی، اپنے شیخ سے بے حد محبت اور عقیدت تھی، تاآنکہ شکل وشباہت میں حضرت رائے پوری کا عکس نظر آنے لگا تھا، اور شیخ ومرشد ہی کی نسبت سے رائے پور سے بے انتہاء تعلق تھا، رائے پور کی طرف پیر پھیلانا بھی پسند نہیں فرماتے تھے۔‘‘                                      (تذکرہ حافظ عبدالستارنانکویؒ) حضرت حافظ عبدالستار صاحب ؒ اگرچہ اصطلاحی عالم نہیں تھے، لیکن علمائے ربّانیین بالخصوص ان کے شیخ حضرت اقدس مولانا عبدالقادررائے پوری v کی صحبت ونسبت کی برکت سے عالِم گر ہوگئے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے تعلیم وتربیت کے میدان میں ان سے بڑا کام لیا۔ انہوں نے اگست۱۹۳۱ء کو نانکہ نامی گاؤں کی مسجد میں وہاں کے لوگوں کی درخواست پر امامت کا سلسلہ شروع فرمایا، اور پوری زندگی اسی مسجد میں امامت کے ساتھ ساتھ تعلیم وتربیت ، اصلاح وتزکیۂ نفس کی قندیلیں روشن کرتے ہوئے گزار دی۔ ۱۹۳۳ء کو مسجد کی شرقی سمت میں ایک مکتب قائم کیا‘ جس کا نام ’’مکتبِ اسلامی امدادی‘‘ تجویز فرمایا۔ رفتہ رفتہ طلبہ کی تعداد بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ انہوں نے اس مکتب کو موضع ’’گندیوڑہ‘‘ کی سرحد میں منتقل کرایا، اور اپنے شیخ الشیخ حضرت مولاناشاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری نور اللہ مرقدہٗ (متوفّٰی۲۶؍ ربیع الثانی ۱۳۳۷ھ) سے منسوب فرماتے ہوئے اس کانام ’’مدرسہ فیض الرحیم‘‘ رکھ دیا، جہاں تعلیم وتربیت ،مردم سازی وتزکیہ کا سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا، اور حضرت حافظ صاحبؒ کے وصال کے بعد ان کے متوسلین ومتعلقین نے اس ادارہ کو ’’جامعہ ستاریہ فیض الرحیم‘‘ کا عنوان دیا، جس سے تادم تحریر لوگ استفادہ واستفاضہ کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تاروزِ قیامت اس سلسلہ کو جاری رکھیں۔ حضرت حافظ صاحبؒ  کو حرمین شریفین سے عشق کی حد تک محبت تھی، اور یہ دعا بکثرت فرماتے تھے: ’’یااللہ !مجھے اپنے گھر بلالے اور وہیں موت نصیب فرمادے ‘‘، اللہ تعالیٰ نے ان کو پانچ مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت سے نوازا۔ آخری حج۱۴۱۰ھ مطابق ۱۹۹۰ء کو ادا فرمایا، جہاں ان کی آخری تمنا پوری ہوگئی، اور حج سے فارغ ہوتے ہی بروز اتوار ۱۶؍ ذو الحجہ ۱۴۱۰ھ مطابق ۸؍جولائی ۱۹۹۰ء اذانِ ظہر کے وقت مکہ مکرمہ میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اسی دن بعد نمازِ عصر مدرسہ صولتیہ میں ان کی پہلی نمازِجنازہ حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کاندہلوی دامت برکاتہم -صاحبزادہ محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی قدس سرہٗ- کی اقتدا میں ادا کی گئی، اور دوسری نمازِجنازہ بعد نمازِ مغرب مسجد حرام میں امامِ حرم کی اقتداء میں ادا کی گئی، اور پھر جنت المعلّٰی میں ان کو سپردخاک کیا گیا۔ کسی نے ان کے بارے میں خوب کہاہے: پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ستار پیر بھی صاحبِ نسبت فقیر تھا اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ نوٹ: حضرت حافظ عبدالستارصاحب نانکوی قدس سرہٗ کی زندگی سے متعلق مذکورہ بالامضمون میں اپنی ذاتی معلومات کے ساتھ ساتھ ’’تذکرہ حافظ عبدالستارنانکویؒ‘‘ تالیف:مولانامحمدعابدندوی زیدمجدہم سے بھی کافی استفادہ کیا گیا ہے۔ مذکورہ کتاب کافی تلاش کے بعد میرے ہم نام اوردورۂ حدیث کے محترم ساتھی برادرِ مکرم جناب مولاناقاری عبدالرؤف صاحب بلندشہری زیدمجدہم استاذِ تجوید وقراء ت دارالعلوم دیوبندنے’’نانکہ‘‘ گاؤں سے منگوا کر کراچی بھجوادی۔جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء جامعۃ الملک سعودریاض میں داخلہ لینے کاداعیہ حضرت حافظ عبدالستار صاحبؒ کی خدمت میں حاضری اوران سے دعاکی درخواست کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک مرتبہ جناب مولانامجیب اللہ صاحب گونڈوی استاذدارالعلوم دیوبند(حال استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند) کے کمرہ میں جو دارِجدید کے مشرقی حصہ میں دوسری منزل پر واقع تھا، محض ایک ملاقات کے لیے فارغ وقت میں میری حاضری ہوئی، وہاں پر چند نوجوان اساتذۂ دارالعلوم کی مجلس جمی ہوئی تھی، اور جامعۃ الملک سعود ریاض سعودی عرب کے شعبۂ معہد اللغۃ العربیۃ میں غیر عرب معلّمین ومدرّسین کے داخلہ سے متعلق گفتگو فرمارہے تھے۔ وہ حضرات کہہ رہے تھے کہ اس شعبہ میں غیرعرب معلّمین کو عربی زبان میں تدریس کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے، لہٰذا ہمیں بھی اس کورس میں داخلہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ داخلہ کی صورت میں عربی زبان میں استفادہ کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین حاضری کا موقع بھی میسر رہے، میں تو بالکل خالی الذہن اور نووارد تھا، اور صرف ایک ملاقات کے لیے حاضر ہوا تھا، تاہم ان کی مذکورہ بالا گفتگو سن کر میرا جذبۂ محبت بھی بیدار ہوا، اور دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ مجھے بھی اس نعمت کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اُدھر اُن حضرات سے اپنے اس داعیہ کے اظہار کے لیے حیاء مانع بن رہی تھی، لیکن چونکہ وہ حضرات بے تکلف دوست تھے، اس لیے بالآخر میں نے ان سے یہ گزارش کر ہی لی کہ اگر اجازت ہو تو میں بھی داخلہ کی کوشش کروں، اور آپ حضرات سے راہنمائی حاصل کروں؟ اللہ تعالیٰ ان کوجزائے خیر عطا فرمائے، اُنہوں نے اجازت دینے کے ساتھ ساتھ طریقۂ کار اورکاغذات بھیجنے کا پتہ بھی بتادیا۔ راقم نے عربی زبان میں ایک درخواست برائے داخلہ لکھ کر اپنی سندوں اور دارالعلوم کی طرف سے ایک سفارشی تحریرکے ساتھ بروز جمعہ ۲؍ربیع الثانی ۱۴۰۷ھ کو مذکورہ پتہ پر ارسال کردی۔ ظاہری اسباب کے اعتبارسے داخلہ کی امیداس وجہ سے کچھ کم تھی کہ داخلے محدود تھے، اور امیدوار لامحدود! صرف دارالعلوم دیوبند کی طرف سے بھی جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا، میرے علاوہ کئی دوسرے حضرات نے بھی درخواستیں بھیجی تھیں، اور ’’ندوۃ العلمائ‘‘ اور دیگر اداروں سے متعلق حضرات بھی کافی دلچسپی لے رہے تھے، اور مؤثر سفارشات کے ساتھ درخواستیں بھیج رہے تھے۔ احقر کاایک خواب اورجامعۃ الملک سعودکی طرف سے ہمت افزا اطلاع ۴؍جمادی الثانیۃ۱۴۰۷ھ کو منگل اوربدھ کی درمیانی شب احقر نے خواب دیکھا کہ’’کوئی شخص احقر کا سر مونڈ رہا ہے اور سامنے پانی کا ایک چشمہ بھی نظر آرہا ہے۔ ‘‘آنکھ کھلنے کے بعد اس مختصر خواب کی تعبیر احقر کے ذہن میں یہ آئی کہ ان شاء اللہ! حجِ بیت اللہ نصیب ہوگا، سر مونڈنا احرام کھولنے کی طرف اشارہ ہے، اور پانی کا چشمہ آبِ زمزم ہے۔ فجر کی نمازکے بعد اس خواب کا تذکرہ دارالعلوم دیوبند کے ایک بڑے استاذِ حدیث حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم سے کردیا تو انہوں نے مذکورہ بالا تعبیر کی تحسین فرمائی۔ اس خواب کے گیارہ دن بعد بروز ہفتہ ۱۴؍جمادی الثانیۃ ۱۴۰۷ھ کو جامعۃ الملک سعودکی طرف سے ایک جوابی تحریرموصول ہوئی، جس میں میری بھیجی ہوئی درخواست موصول ہونے اور اس پر غور کرنے کا تذکرہ تھا اور ساتھ ساتھ ایک فارم بھی بھیجا گیا تھا اور مجھے اس فارم کو پُرکرنے اور سعودی عرب کے سفارت خانے سے تصدیق شدہ اسناد کے ساتھ جلد از جلد بھیجنے کا حکم دیا گیا تھا۔ احقر نے حکم کے مطابق فارم کو پُر کر کے مطلوبہ کاغذات کے ساتھ بروز پیر ۲۳؍جمادی الثانیۃ ۱۴۰۷ھ کو بذریعۂ ڈاک ارسال کردیا۔ حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری زیدمجدہم کا ایک خواب ۲۱؍جمادی الثانیۃ ۱۴۰۷ھ کو بروز ہفتہ دارالحدیث تحتانی دارالعلوم دیوبند میں جلسہ انعامیہ ہورہا تھا۔ حسب معمول اساتذۂ دارالعلوم بشمولاستاذحدیث حضرت الاستاذ مولانامفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری زیدمجدہم(حال شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند) اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔ احقر بھی حضرت الاستاذکے قریب ذراپیچھے کی طرف بیٹھاہواتھا،اسی دوران حضرت الاستاذ مدظلہم نے مجھے اپنے قریب بلاکرآہستہ آوازمیں بتایاکہ میں نے خواب دیکھاہے کہ ’’میں حج پرگیاہوں اور آپ (عبدالرؤف) بھی ساتھ ہیں۔‘‘ حضرت الاستاذ کے اس مبارک خواب کو’’بشارتِ منامی‘‘سمجھ کرحرمین شریفین حاضری کی امیدمیں اضافہ ہوگیا۔ حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحبv کی ایک کارآمد نصیحت جامعۃ الملک سعودریاض میں داخلہ ملنے اوراس بہانے حرمین شریفین حاضری کی امیدوں میں اضافہ ہورہاتھا،لیکن اپنے محترم استاذ حضرت مولانا معراج الحق صاحب رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃً -صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند-(متوفّٰی ۱۴۱۲ھ )کی ایک قیمتی نصیحت جس سے انہوں نے اس موقع پر احقر کو نوازا‘ برابر پیشِ نظررہی،حضرتؒ نے فرمایا: ’’کسی مفیدیاکم ازکم جائزمقصدکے حصول کے لیے مناسب طریقہ سے کوشش کرنے اور جائز وسائل بروئے کار لانے میں توکوئی حرج نہیں،البتہ یہ بات ہمیشہ پیشِ نظررکھنی چاہیے کہ اس کوشش کے بعد اگر وہ مقصد حاصل ہوا تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے، اور اگر حاصل نہ ہوا تب بھی پریشانی کی ضرورت نہیں، بلکہ سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت ضرور ہوگی کہ یہ مقصد بروقت حاصل نہ ہوسکا اور اسی میں میری بہتری ہوگی۔‘‘ مذکورہ بالانصیحت کی روشنی میں احقر ذہنی طور پر اس کے لیے بھی آمادہ تھاکہ اگر یہ داخلہ ہوگیا تو اس کو اللہ تعالیٰ کاایک انعام سمجھوں گااورا س کے لیے بھی تیارتھاکہ داخلہ نہ ہواتوپریشان نہیں ہوں گا، بلکہ یہی سوچوں گاکہ اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت اورمیری بہتری اسی میں ہوگی۔ حضرت الاستاذقدس سرہٗ کی مذکورہ نصیحت کی برکات آج تک محسوس کررہا ہوں، اس لیے کہ اپنی محدودزندگی میں مختلف معاملات ومقاصدسے واسطہ پڑتا رہا اور بعض امور کو بہتر سمجھ کر اُن کے حصول کے لیے مناسب انداز سے کوششیں بھی کی گئیں، آگے کبھی تو ایسا ہوا کہ مقاصد حاصل ہوئے اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ بروقت حاصل نہیں ہوئے، لیکن اطمینان دونوں صورتوں میں قائم رہا، فللّٰہ الحمد و المنۃ۔ جامعۃ الملک سعودمیں داخلہ کی اطلاع ۲۱؍ذوالقعدۃ ۱۴۰۷ھ بروز ہفتہ جامعۃ الملک سعود ریاض سے احقر کے نام دارالعلوم دیوبند کے پتہ پر ایک تحریرموصول ہوئی، جس میں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ آپ کا داخلہ ’’معہداللغۃ العربیۃ‘‘ میں منظور ہوچکا ہے۔ آپ ۲۳/۲/۱۴۰۸ھ سے کم ازکم ایک ہفتہ قبل پاکستان جاکرسعودی سفارت خانہ سے رابطہ کریں، جہاں سے آپ کو تعلیمی ویزا اور ریاض جانے کا ٹکٹ دونوں مل جائیں گے، میں سمجھتاہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خصوصی کرم اور حضرت حافظ عبدالستارصاحب رحمہ اللہ کی دعا کا اثر تھا کہ دارالعلوم دیوبند سے احقر کے علاوہ اور بھی چند ہم عصر اساتذہ نے داخلہ کے لیے درخواستیں بھیجی تھیں، بلکہ احقر نے تو ان ہی کو دیکھ کر اور ان ہی سے راہنمائی حاصل کرکے درخواست بھیجی تھی، لیکن داخلہ صرف احقر کو نصیب ہوا۔ اس داخلہ کی اطلاع اپنے اساتذۂ کرام اور حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمہٗ اللہ -مہتمم دارالعلوم دیوبند- کو پہلی ہی فرصت میں کردی، جنہوں نے خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے مبارک باد، دعاؤں اور گراں قدر نصیحتوں سے نوازا۔ اس کے بعد پاکستان جانے کی تیاری کرلی، اور تدریس وامامت دونوں سے متعلق دارالعلوم دیوبند کو چھٹی کی درخواست پیش کردی، جوکہ خوشی کے ساتھ منظور ہوگئی، اور یکم محرم الحرام ۱۴۰۸ھ بروز جمعرات بذریعہ ہوائی جہاز دہلی سے کراچی پہنچا، اور کراچی سے بذریعہ بس کوئٹہ پہنچ کر عزیزواقارب سے ملاقات کرکے ان سے رخصت لی، پھر اسلام آباد جاکر سعودی سفارت خانہ سے تعلیمی ویزا اور کراچی تا ریاض ہوائی جہاز کا ٹکٹ حاصل کرکے ۲۹؍محرم الحرام ۱۴۰۸ھ کو بروز جمعرات اسلام آبادسے کراچی آگیا۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں قیام اورحضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی ؒ کی ایک قیمتی نصیحت دارالعلوم دیوبند کے بعد احقر کو جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ماحول اور اس کی عالی شان مسجد میں ایک غیراختیاری خوشی اور سکونِ قلب محسوس ہوتا تھا، حالانکہ نہ تو اس ادارے میں مجھے پڑھنے کا موقع ملا تھا، اور نہ ہی بانیِٔ جامعہ حضرت علّامہ سیدمحمدیوسف بنوری صاحب قدس سرّہٗ کی زیارت کی سعادت ملی تھی، ہاں! معارف السنن مطالعہ کرنے اور دارالعلوم دیوبند میں حضرت بنوری قدس سرّہٗ کا تذکرۂ خیر سننے کا موقع ضرور ملا تھا، اور اپنے اساتذۂ کرام سے یہ بھی سنا تھا کہ محدّث العصر حضرت علّامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری قدس سرّہٗ کے شاگردوں میں سے سب سے فائق اور اُن کے علوم ومعارف کے امین حضرت بنوری قدس سرّہٗ تھے۔ اس بنیاد پر حضرت بنوریؒ اوران کے ادارہ سے ایک قلبی محبت ضرور تھی، لہٰذا میری کوشش ہوتی تھی کہ جب بھی دیوبند سے کراچی آنا ہوتا تو قیام جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن میں کرتا، چنانچہ اِس مرتبہ بھی اسلام آباد سے کراچی پہنچ کر ایک دن کے لیے جامعہ ہی میں قیام کیا۔ جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں احقرکے قیام کے دوران دارالعلوم دیوبند کی نسبت کی وجہ سے حضرت مولانا سید رشیدالحسن صاحبv- امام وخطیب جامع مسجدعلامہ بنوری ٹاؤن- (متوفّٰی ۱۴۲۱ھ) وقتافوقتاً مغرب یا فجر کی نماز پڑھانے کے لیے مجھے حکم دے دیاکرتے، چنانچہ ۳۰؍محرم ۱۴۰۸ھ بروزجمعہ بھی فجر کی نماز پڑھانے کا مجھے حکم دے دیا گیا، نماز ودعا سے فارغ ہونے کے بعد حضرت مولانا محمد ادریس صاحب میرٹھی قدس سرہٗ -فاضلِ دارالعلوم دیوبند و استاذِحدیث وتفسیر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن- (متوفّٰی ۱۴۰۹ھ) جو پہلی صف میں مولوی سیدیوسف حسن طاہرصاحب مؤذن مسجد (حال امام وخطیب مسجد) کے بغل میں تشریف فرما تھے، ان سے دریافت فرمانے لگے کہ یہ نماز پڑھانے والا کون ہے؟ انہوں نے میرا تعارف کراتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کی نسبت کا ذکر بھی کردیا، میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھ کر حضرتؒ سے مصافحہ کیا اور دارالعلوم دیوبند کی سفارش پر جامعۃ الملک سعودریاض میں داخلہ ملنے اورآج ہی بعد نمازِ جمعہ ریاض روانہ ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے ان سے دعا کی درخواست کی۔ حضرتؒ نے فرمایاکہ: ’’جاؤ! لیکن خیال رکھنا کہیں وہاں پر اغواء نہ ہوجاؤ۔‘‘ حضرت مولانا ادریس صاحب قدس سرہٗ کی یہ مخلصانہ، مختصر اور جامع نصیحت آگے چل کر احقر کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔ کراچی سے ریاض روانگی ۳۰؍محرم ۱۴۰۸ھ مطابق ۲۵؍ستمبر۱۹۸۷ء بروز جمعہ نمازِ جمعہ سے فارغ ہوکر کراچی ایئرپورٹ پہنچ کر تقریباً چھ بجے شام کو بذریعہ سعودی ایئرلائنز ریاض روانہ ہوا، اور تقریباً تین گھنٹے میں سعودی عرب کے وقت کے مطابق شام سات بجے ریاض ایئرپورٹ پہنچ گیا، جہاں مغرب کی نماز پڑھ کر سیدھا جامعۃ الملک سعود پہنچ کر اپنی آمدسے جامعہ کے ذمہ داروں کو آگاہ کردیا جنہوں نے قیام ودیگر ضروریات کا فوری طور پر انتظام کردیا۔ احقر کا داخلہ ’’وحدۃ اللغۃ والثقافۃ‘‘ میں ہوا تھا جو کہ معہد اللغۃ العربیۃ کے تین شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے۔ ایک ہفتہ رہائش کے انتظام، تعلیمی درسگاہوں کی تعیین ،ضروری اور قانونی کاغذات کی فراہمی میں خرچ ہوا۔ اس ابتدائی ہفتہ میں دو مرتبہ اپنے استاذ و مرشد حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی قدس سرہٗ کو اور ایک مرتبہ حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری مدظلہم کو خواب میں دیکھا جس سے یہ امیدقائم ہوگئی کہ اپنے بڑوں کی دعائیں اورتوجہات شامل ہیں۔ بروز ہفتہ ۸؍ماہِ صفر۱۴۰۸ھ تعلیم کا آغاز ہوا، میں اپنے اسباق میں تو برابر حاضری دیتا رہا، البتہ حرمین شریفین کی زیارت کے لیے دل کی بے چینی میں بھی اضافہ ہوتا رہا: منزلِ دوست چوں شود نزدیک  آتشِ شوق تیز تر گردد اور صورت حال یہ تھی کہ جامعۃ الملک سعود کی تحریری اجازت کے بغیر ہم ریاض سے باہرنہیں جاسکتے تھے، اور تعلیمی ایام میں جامعہ کی طرف سے اجازت ملنا دشوار تھا، لہٰذا اسی بے چینی کی کیفیت میں تقریباً ڈیڑھ مہینہ گزر گیا، بالآخر ایک مختصروقت کے لیے عمرہ کی ادائیگی کی غرض سے جامعہ سے تحریری اجازت نامہ حاصل کرنے میں بحمداللہ! کامیابی ہوئی اور ہم لوگ چار ساتھی جن میں سے ایک مولوی محمد اشرف علی صاحب جن کاتعلق سرگودھا پاکستان سے تھا اور آج کل جامعہ اسلامیہ محمودیہ سرگودھا کے مہتمم ہیں، دوسرے مولوی عبدالستارصاحب جن کا تعلق لودھراں ملتان سے تھا، تیسرے جناب دوست محمد صاحب جن کا تعلق سرگودھا سے تھا اور چوتھا راقم السطور تھا۔ ہم نے مل کر ایک کار کرایہ پر لی اور بروز منگل ۱۷؍ربیع الاول ۱۴۰۸ھ مطابق ۱۰؍نومبر۱۹۸۷ء جامعۃ الملک سعودریاض سے حرمین شریفین کی پہلی حاضری کے ارادہ سے اپنی پوری زندگی کے اس یادگار سفر پر روانہ ہوگئے۔ راستہ میں اس تصور سے کہ ہم ان شاء اللہ! عنقریب کعبۃ اللہ (حرسہااللّٰہ) کی زیارت اور روضۂ رسول (l) پرحاضری کی سعادت سے بہرہ ورہونے والے ہیں، ہماری کیفیت ایسی ہوجاتی کہ اس کو تحریر میں لانا میرے کمزور قلم کے بس سے باہر ہے۔ واضح رہے کہ میرے مذکورہ تینوں ساتھیوں کو ’’چنیوٹ‘‘ صوبہ پنجاب پاکستان میں واقع حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ کے مدرسہ ’’ادارۃ الدعوۃ والارشاد‘‘کی معرفت سے جامعۃ الملک سعود میں داخلہ ملا تھا، اور حرمین شریفین کی زیارت سے یہ حضرات بھی پہلی بار مشرف ہورہے تھے، اس لیے ہم سب کی کیفیت تقریباً یکساں تھی۔ مرکزِتجلیات کی پہلی زیارت بہرصورت! ہم لوگ منگل اور بدھ کی درمیانی شب مکہ مکرمہ پہنچے اور تقریباً رات کے دوبجے ذرا فاصلہ سے مسجدحرام کے مبارک میناروں کی زیارت ہوئی، اور یہ تصور قائم رہاکہ یہ وہ مسجدحرام ہے جس کاذکراللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں بار بار فرمایا ہے، اور ہمیں ان شاء اللہ! چندہی منٹ بعد اس مبارک مسجدکے اندر حاضر ہونے اور کعبۃ اللہ کی زیارت کرنے کا موقع ملنے والا ہے، چنانچہ ایساہی ہوا اور تھوڑی دیر بعد ہم دنیا کی اس جنت میں پہنچ کر کعبۃ اللہ کی زیارت سے مستفیض ہونے لگے، ہماری خوش قسمتی یہ تھی کہ ہم کعبۃ اللہ کی اس پہلی زیارت اورعمرہ کی ادائیگی سے رات کے اس حصے میں فیض یاب ہورہے تھے جس میں حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنی خاص شانِ رحمت کے ساتھ بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اور خود ہی ان کودعااورسوال واستغفارکی ترغیب دیتاہے،حدیث نبوی ملاحظہ ہو: ’’عن أبی ھریرۃ -رضی اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ینزل ربنا تبارک وتعالٰی کل لیلۃ إلی السماء الدنیا حین یبقی ثلث اللیل الآخر، یقول: من یدعونی فأستجیب لہٗ ؟ من یسألنی فأعطیہ ؟ من یستغفرنی فأغفرلہ؟۔‘‘                                                             (متفق علیہ) ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہ q سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ہمارامالک اوررب تبارک وتعالیٰ ہررات کوجس وقت آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے سماء دنیاکی طرف نزول فرماتاہے، اور ارشاد فرماتا ہے: کون ہے جومجھ سے دعا کرے، تاکہ میں اس کی دعاقبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے، تاکہ میں اس کو عطا کروں؟ کون ہے جومجھ سے مغفرت چاہے، تاکہ میں اس کو بخش دوں؟۔‘‘                           (صحیح بخاری ومسلم) غور کیا جائے! مسجدحرام کی فضا ہو، مرکزِتجلیات سامنے ہو، حجر اسود کو بوسہ دینے اور کعبۃ اللہ کے اردگرد طواف کرنے کا وقت آگیا ہو، ملتزم سے لپٹنے اور ربِّ کعبہ کے سامنے اپنی معروضات پیش کرنے کا ایک بہترین موقع مل رہا ہو، آبِ زمزم کے ذریعہ ظاہری اور روحانی طور پر سیراب ہونے کی سہولت میسر ہورہی ہو، اور حسن اتفاق سے رات کا وہ حصہ چل رہا ہو جس میں اللہ تعالیٰ خود اپنے عاجز بندے کو دعا، سوال اور استغفار کرنے کی دعوت دے رہا ہو، اور ہو بھی کعبۃ اللہ کی پہلی زیارت، جس کی تمنا میں سالوں سال بیت چکے ہوں! ایسے ماحول میں زائر کی کیاکیفیت ہوگی؟اس سوال کا جواب مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ اس کی تمام پریشانیاں کافور ہوجاتی ہیں اور دل کو ایک ایسا سکون ملتا ہے جس کو تحریر میں پوری طرح بیان نہیں کیا جاسکتا: ذوقِ ایں مَیْ نہ بدانے بخدا تا نہ چشے اور زائر کا دل زبانِ حال سے اِس کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے: اگر فردوس بر روئے زمین است ہمین است وہمین است وہمین است اور دنیاکی اِس رحمت کوسامنے رکھتے ہوئے آخرت کی جنت اورجنت والوں کی اُس کیفیت کو بھی یاد کرلیتا ہے ، جو اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں ذکر فرمایا ہے: ’’وَقَالُوْا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرٌ ‘‘۔(الفاطر:۳۴) ترجمہ: ’’ اور جنت والے (جنت میں داخل ہونے کے بعد) کہیں گے کہ اللہ کا شکرہے جس نے ہم سے غم دور کیا، بے شک ہمارا پروردگار بخشنے والا قدردان ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مذکورہ بالا کیفیت کے ساتھ ہم لوگ فجر کی اذان سے پہلے عمرہ کی ادائیگی سے فارغ ہوگئے، تھوڑی دیر بعد حرمِ پاک کی پُرکیف فضا میں فجر کی اذان دلوں کو جھنجھوڑنے لگی، جس کی تکبیروں سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اورشہادتَیْن سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی کریم a کی رسالت کا اعلان ہورہا تھا: حی علی الصلوۃ، حی علی الفلاح اور الصلوۃ خیرمن النوم سے نماز کی اہمیت اُجاگر ہو رہی تھی اور نماز و کامیابی کی طرف آگے بڑھنے کی دعوت دی جارہی تھی، حرمِ پاک کی در و دیوار سے ٹکرا کر اذان کے یہ کلمات جب کانوں میں پہنچتے تو غفلت میں ڈوبے ہوئے قلوب کوجگادینے کے لیے کافی ہوجاتے، اذان ونماز کے درمیان وقفہ کے اندر فجر کی دوسنتیں پڑھنے اور اس بات پر غور کرنے کا موقع ملا کہ تھوڑی دیرکے بعدجس مسجدمیں باجماعت نمازشروع ہونے والی ہے،وہ اُن تین مساجدمیں سے ایک ہے جن کے لیے صحیح حدیث کے مطابق رختِ سفرباندھنے کی اجازت دی گئی ہے،اورجن میں ایک نمازپڑھنے کاثواب دوسری مساجدکی ایک کثیرتعدادنمازوں سے زیادہ بتایاگیاہے،اسی پرغورکرتے ہوئے نگاہیں کعبۃ اللہ کے مبارک منظرسے محظوظ ہورہی تھیں،تھوڑی دیرکے بعدفجرکی نمازامامِ حرم کی اقتداء میں شروع ہوگئی،اورروئے زمین کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے مہمانانِ حرم نے کعبۃ اللہ کے اردگرد صفیں باندھ کر کندھوں سے کندھے ملادیئے،جب تلاوتِ قرآن شروع ہوئی تو ایسا محسوس ہورہا تھا جیساکہ قرآن کا نزول ہورہاہو اوردل یہ چاہ رہاتھاکہ یہ تلاوت جلدی ختم نہ ہو،نمازِفجر کے بعددوپہرتک آرام کیا، اور دوپہر کو اُٹھ کر پہلے کھانا کھایا اور پھر حرم حاضری ہوئی، ظہر سے عصر تک حرم میں رہے اور عصر کے بعد ہم سب ساتھیوں نے غارِ حرا جانے کاپروگرام بنایا۔                             (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین