بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حجازِمقدس کی والہانہ حاضری (تیسری قسط)

 

حجازِ مقدس کی والہانہ حاضری            (تیسری قسط)

مسجد نبوی کی اذانیں  مدینہ منورہ کی اس پہلی حاضری کے موقع پر جب مسجدِ نبوی کے احاطہ سے پُر اثر آواز میں اذان کی تکبیریں بلند ہوئیں تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ دل پر پڑے ہوئے غفلت کے پردوں کو ہٹایا جا رہا ہے اور ایمانی کیفیت میں اضافے کا سامان مہیّا کیا جارہا ہے، اور نبی کریم a کے مندرجہ ذیل فرمان کے مطابق شیطان لعین کو بھاگنے پر مجبور کیاجارہاہے۔ حضرت ابو ہریرہ q سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا: ’’إذا نُودیَ للصلوۃ أدبرالشیطن لہٗ ضُراطٌ حتی لایسمع التأذین فاذا قُضی النداء أقبل حتی إذا ثُوّب بالصلوۃ أدبرَ حتی إذا قُضی التثویب أقبل حتی یخطر بین المرء ونفسہٖ یقول اذکر کذا اذکر کذا لما لم یکن یذکر حتی یظل الرجل لایدری کم صلیّٰ۔‘‘  (بخاری شریف، ج:۱، ص:۸۵)  یعنی ’’جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان آواز کے ساتھ گوز خارج کرتا ہوا پشت پھیر کر بھاگتا ہے، تاکہ اذان نہ سنے ،پھر جب اذان پوری ہو جاتی ہے تو واپس آجاتا ہے، یہاں تک کہ جب اقامت شروع ہوتی ہے پھر پیٹھ دے کر بھاگتا ہے ،اور جب اقامت پوری ہوجاتی ہے پھر واپس آجاتاہے ،یہاں تک کہ نمازی اور اس کے نفس کے درمیان حائل ہوجاتاہے ،کہتاہے کہ فلاں بات یاد کرو،فلاں بات یاد کرو جو باتیں نمازی کو یاد بھی نہیں تھیں، یہاں تک کہ نمازی اس بات سے غافل ہوجاتاہے کہ اس نے کتنی رکعت نماز پڑھی ہے ۔‘‘ جب مسجدِ نبوی کے قابل صداحترام مؤذن صاحب نے اذان دیتے ہوئے ’’أشھد أن محمدا رسول اللّٰہ‘‘ کی آواز اپنے مخصوص انداز و لہجے کے ساتھ بلند کی تو اس کے اثر و کشش سے ذہن سوچنے لگا کہ جب پندرہویں صدی ہجری میں مسجدِ نبوی کی اذان اتنی با اثر ہے تو ’’اذان ِ بلالی‘‘ کی کیا کیفیت رہی ہوگی؟ ایسے موقع پر رسول اللہ a کے مؤذن و صحابی حضرت بلال بن رباح q (متوفّٰی: ۲۰ھ) سے محبت رکھنے والے اور ان کی زندگی سے ایک حد تک واقفیت رکھنے والے شخص کے ذہن میں ان کا وہ تاریخی واقعہ گھومنے لگتا ہے جو حضرت عمر فاروقq کے دورِ خلافت میں پیش آیا تھا  جس زمانہ میں حضرت بلالq نے سرزمینِ شام کے اندر ’’داریا‘‘ قصبہ میںسکونت اختیار کر رکھی تھی۔ حضرت بلال q کا ایک واقعہ امام نور الدین علی بن احمد السمہودی v (متوفّٰی :۹۲۲ھ) نے اپنی کتاب ’’خلاصۃ الوفاء  بأخبار دار المصطفٰی‘‘ میں ابن عساکر کے حوالہ سے سند ِ جیّد کے ساتھ حضرت بلال q کے اس زمانہ کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے جب وہ دمشق کے مضافات میں واقع ’’داریا‘‘ قصبہ میں مقیم تھے، اس قصہ کا خلاصہ اردو زبان میں پیش کیاجارہاہے: ’’حضرت بلالq نے خواب میں نبی a کی زیارت کی، آپ فرمارہے ہیں :اے بلال! یہ کیا زیادتی ہے؟ اے بلال! کیا آپ کے لیے میری زیارت کرنے کا وقت نہیں آیا؟ حضرت بلالq حزن و ملال کی حالت میں بیدار ہوتے ہی اپنی سواری پر سوار ہوکر مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، مدینہ منورہ پہنچ کر روضۂ اقدس پر رونے دھونے کے ساتھ حاضری دی، اس دوران حضرت حسن و حسینr ان کے پاس تشریف لائے جنہیں حضرت بلالq نے سینے سے لگاکر پیار کیا ،ان دونوں نے حضر ت بلالq سے کہا کہ ہماری تمنّا ہے کہ آپ مسجدِ نبوی میں کم از کم ایک مرتبہ تو ایسی اذان دیں جس طر ح آپ نبی کریم a کی ز ندگی میں دیاکرتے تھے، حضرت بلالq آلِ نبی (a) کی اس خواہش کو پورا کیے بغیر نہ رہ سکے اور اذان دینے کے لیے آمادہ ہوگئے اور جیسے ہی مدینہ کی فضاء میں بلالی آواز کے ساتھ’’اللّٰہ أکبر  اللّٰہ أکبر ‘‘کی صدا بلند ہوئی تو شہر میں کہرام مچ گیا، اور جب ’’أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کی آواز بلند ہوئی تو کہرام میں اضافہ ہوگیا اور جب ــ’’أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ‘‘ کا جملہ بلالی لہجہ کے ساتھ مدینہ منورہ کی فضاء میںگونجنے لگا تو پردہ نشین خواتین تک بھی باہر نکل آئیں اور کہنے لگیں کہ کیا نبی کریم a دوبارہ دنیا میںتشریف لائے؟ رونے والوں اور رونے والیوں کی اتنی بڑی تعداد نبی a کے سانحہ وفات والے دن کے علاوہ مدینہ میں کسی نے نہیں دیکھی ہوگی۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت بلال q پر خود بھی اتنا اثر ہواکہ اذان مکمل نہ کرسکے ۔‘‘      (خلاصۃ الوفاء باخبار دار المصطفیٰ ،ص: ۹۸ ،مطبوعہ دمشق) مسجدِ نبوی کی نمازیں اور امام حرم سے پہلی ملاقات امام بخاری v نے صحیح البخاری میں اپنی سند سے حضرت ابو ہریرہq کی یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم a  نے ارشاد فرمایا: ’’صلوۃٌ فی مسجدی ھٰذا خیر من ألف صلوۃٍ فیما سواہ إلا المسجد الحرام‘‘ یعنی: ’’میری اس مسجد میں ایک نمازمسجدِ حرام کے علاوہ دیگر مسجدوں کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے۔‘‘                                                (بخاری شریف ،ج:۱،ص:۱۵۹) ہمیں حرمین شریفین کی اس پہلی زیارت کے لیے جامعۃ الملک سعود کی طرف سے مختصر وقت کے لیے اجازت ملی تھی ،اس لیے مسجدِ نبوی میں ظاہری گنتی کے اعتبار سے تو چند ہی نمازیں ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، لیکن مندرجہ بالا صحیح حدیث کی روشنی میں اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ان کی معنوی تعداد بڑھ گئی ہوگی، اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ احقر نے حجازِ مقدس کی حاضری سے پہلے امام مسجدِ نبوی شیخ علی عبد الرحمن الحذیفی زید مجدہم کی بااثر و پرکیف تلاوت ٹیپ ریکارڈ کے ذریعہ دارالعلوم دیوبندمیں سنی تھی، جس سے غائبانہ طور پر ان سے ایک قلبی اور گہری محبت پیدا ہوگئی تھی ،مسجدِنبوی کی اس پہلی حاضری کے موقع پر دل میں یہ تمنا تھی کہ شیخ حذیفی کی تلاوت براہِ راست سننے اور ان کی زیارت کرنے کا موقع ملے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمنا اس طرح پوری کردی کہ شب ِ جمعہ کو عشاء کی نماز کے وقت محافظین کے درمیان ایک نورانی چہرہ والے میانہ قد شخص جن کے چہرے پر معصومیت و سادگی کے آثار نمایاں تھے‘ تشریف لائے اور نماز پڑھانے کے لیے مسجدِ نبوی کی محراب کی طرف آگے بڑھے، میں محراب کے سامنے غالباً چوتھی صف میں تھا، نماز شروع ہوئی اور ثناء کے بعد جیسے ہی امام صاحب نے سورئہ فاتحہ کی پہلی آیت پڑھی‘ احقرکو یقین ہو گیا کہ یہی تو امام الحرم شیخ علی عبدالرحمن الحذیفی ہیں، شیخ نے نماز کی دونوں جہری رکعتوں میں سورئہ احزاب کا آخری حصہ پڑھا ۔ غور کیا جائے! سالوں سال کی تمنا ئو ں کے بعد مسجدِ نبوی کی پہلی زیارت حاصل ہورہی ہو اور اسی فضاء میں فرض نماز باجماعت ادا کی جارہی ہو جس میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شریک ہوں، اُن مسلمانوں میں عرب و عجم ،مسافر ومقیم ،بوڑھے و جوان، مردوخواتین اورامیر وفقیر سب کی شمولیت ہو، تھوڑی دیر پہلے اسی فضاء سے ایک ایسی اذان کی آواز بلند ہوچکی ہو جس نے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہو، نماز میں شیخ حذیفی کی تلاوت ہورہی ہو اور وہ بھی سورئہ احزاب کے اس حصہ کی جس میں نافرمان لوگوں سے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد موجود ہو: ’’یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْھُھُمْ فِیْ النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَاأَطَعْنَا اللّٰہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُوْلَا‘‘ یعنی: ’’جس دن ان کے چہرے (جہنم کی) آگ میں اُلٹ پلٹ کیے جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ: اے کاش !ہم اللہ کی فرمانبرداری کرتے اور اس کے رسول کا حکم مانتے ۔‘‘ (الاحزاب:۶۶) اور ذرا آگے فرماں برداروں سے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہو: ’’وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِیْمًا‘‘ یعنی ’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گا تو یقینا وہ بڑی کامیابی پائے گا۔‘‘        (الاحزاب :۷۱) زندگی میں پہلی بار حاضری دینے والا شخص جب مسجد ِ نبوی کے احاطہ اور روضۂ اقدس کے جوار میں فرض نماز کے اندر مذکورہ بالا جیسی آیتوں کی تلاوت شیخ حذیفی کی زبان سے سماعت کرے گا تو اس کا دل جتنا بھی غفلتوں میں ڈوبا ہواہوگا پھر بھی خوف ورجاء کی ملی جلی کیفیت سے لَرزے بغیر نہیں رہ سکتااور اس کا بدن جتنا بھی گناہ آلود ہوگا وہ بھی کانپے بغیر نہیں رہ سکتااوراس کی آنکھیں بھی آنسوبہائے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ سلام پھیرنے کے بعد شیخ حذیفی نے حسب ِ معمول مڑ کر اپنا رخ مقتدیوں کی طرف کردیا اور اذکارِ مسنونہ میں مشغول ہوگئے ،مجھے چونکہ محراب کے بالکل سامنے چند ہی صفیں چھوڑ کر جگہ ملی تھی، اس  لیے ان کے بابرکت اور نورانی چہرہ کی زیارت کا ایک اچھا موقع تھا، لہٰذا اپنی جگہ پر کھڑے ہوکر ذرا فاصلہ سے ان کی زیارت کی، اور اگلے دن بروز جمعہ فجر کی نماز کے بعد جب وہ مسجد ِ نبوی سے واپس قیام گاہ کی طرف تشریف لے جارہے تھے راستہ میں ان سے مختصر ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ روضۂ جنت میں حاضری  مدینہ منورہ کے اس والہانہ سفر کے دوران روضۂ جنت میں حاضری کاموقع بھی ربّ کریم نے عنایت فرمایا ،مسجد نبوی میں منبر سے بائیں طرف تقریباً پچاس ہاتھ کے فاصلے پر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدّیقہ tکا حجرہ مبارکہ ہے، جہاں پیغمبر اسلام a آرام فرمارہے ہیں ،منبر اور حجرے کے درمیان والے حصہ سے متعلق نبی کریم a کا یہ ارشاد ہے:’’مابین بیتی ومنبری روضۃٌ من ریاض الجنۃ‘‘ یعنی: ’’ جو جگہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔‘‘                                                                (بخاری شریف ، ج:۱، ص:۱۵۹)  اس حدیث کی تشریح میںعلماء کرام کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ لفظ اپنی حقیقت پر محمول ہے اور مسجدِ نبوی کا مذکورہ بالا حصہ بعینہٖ قیامت کے دن جنت میں منتقل کیا جائے گا، اور حضرت مولانا سید فخرالدین احمد صاحبv سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند (متوفّٰی: ۱۳۹۲ھ) کے حوالہ سے ان کے خصوصی شاگرد اور ہمارے محترم اُستاذ حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری دامت برکاتہم العالیہ استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند نے ’’ایضاح البخاری، ج:۶، ص:۸۱‘‘ میں ایک عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے کہ روضۂ جنت میں داخل ہوکر عبادت کرنے والے کو نیک فالی کے طور پر یہ اُمید رکھنی چاہیے کہ ان شاء اللہ! وہ جنت سے محروم نہیں ہوگا، اس لیے کہ جنت میں جانے کے بعد کسی کو پھر اس سے نکال کر محروم نہیں کردیا جاتا۔ نبی کریم a کی زندگی کے آخری دن کا ایک منظر روضۂ جنت میں حاضری کا موقع ہو یا غائبانہ طور پر اس کا اور حجرۂ مبارکہ و محراب ومنبر کا تذکرہ ہو، احقر کو بخاری شریف کی وہ روایتیں ضرور یاد آتی ہیں جن میں نبی کریم a کے مرض الموت اور زندگی کے آ خری دن کا ایک منظر بیان کیا گیا ہے، ان روایات کا مفہوم و خلاصہ یہ ہے: ’’نبی a اپنے مرض الموت کے دوران بھی جب ذراسی طاقت رہتی مسجد میں تشریف لاکر نماز پڑھادیتے، جب ضعف کافی بڑھ گیا تو وفات والے دن سے پہلے مسلسل تین دن (جمعہ، ہفتہ، اتوار) تک آپ a مسجد میں تشریف نہ لاسکے اور حضرت ابو بکر صدیقq آپ a کے حکم سے نمازیں پڑھاتے رہے۔ حضرت ابو بکر صدیقq اور دیگر صحابہ کرامs آپ a کی بیماری میں اضافے اور مسجد میں عدمِ تشریف آوری کی وجہ سے کافی غمگین تھے، چوتھے دن بروز پیر ایک ایسے وقت میں کہ صحابہ کرامs فجر کی نماز میں صف باندھے کھڑے تھے اور حضرت ابو بکر صدیقq نماز پڑھا رہے تھے، آپ a نے اچانک حضرت عائشہt کے حجرہ کا پردہ ہٹایا اور صحابہs کا منظر دیکھ کر خوشی اور اطمینان کی وجہ سے مسکرانے اور پھر ہنسنے لگے، حضرت انسq کہتے ہیں کہ آپa کا چہرئہ مبارک اتنا منوّر و پاکیزہ اور پر رونق معلوم ہورہاتھا جیسے قرآن کریم کا ورق ہو، اور چونکہ کئی نمازوں کے بعد ہمیں آپ a کے چہرئہ انور کی زیارت نصیب ہورہی تھی، اس لیے قریب تھا کہ فرطِ مسرت سے ہمارے اندر ایک ایسی اضطرابی کیفیت پیداہوجائے جو نماز میںنقصان کا باعث بنے، صدّیق اکبرq یہ سمجھ کر کہ شاید آپ تشریف لارہے ہیں اُلٹے پائوں پیچھے ہٹنے لگے، لیکن آپ a نے اشارہ سے بتادیا کہ تم اپنی نماز پوری کرلو اور آپ a نے پردہ جو ہٹایا تھا واپس ڈال دیا، اس کے بعد ہمیں آپa کی زیارت میسر نہ ہوسکی اور اُسی دن حضور a کی وفات ہوگئی۔‘‘       (بخاری شریف ،ج:۱،ص: ۹۳-۹۴ نیز ج:۲،ص: ۶۴۰)  راقم نے بخاری شریف جلد اوّل حضرت الاستاذ مولانا نصیر احمد خان صاحب قدس سرہٗ (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) (متوفّٰی:۱۴۳۱ھ ) اور جلد ثانی حضرت الاستاذمولانا مفتی سعید احمدصاحب پالن پوری دامت برکاتہم (موجودہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) سے تعلیمی سال ۱۴۰۱ھ-۱۴۰۲ھ کو دارالعلوم دیوبند میں پڑھی تھی، نبی کریم a  کے مرض الموت اور زندگی کے آخری دن کے مذکورہ بالا منظر سے متعلق حدیثیں چونکہ بخاری شریف جلد اول میں ’’بابٌ أھلُ العلم والفضل أحق بالامامۃ‘‘ کے تحت بھی آ گئی ہیںاور جلد ثانی میں ’’بابُ مرض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ووفاتہ‘‘ کے تحت بھی! اس لیے دونوں اکابرین نے اپنے اپنے اندازکے مطابق ان پر گفتگو فرمائی تھی ۔ حضرت الاستاذ مولانا نصیر احمد خاں صاحب قدّس اللہ سرّہٗ پر تو ایسے مضمون کو بیان کرتے ہوئے اس طرح رقت طاری ہوجاتی تھی کہ زیادہ تفصیل سے بات کرنا ان کے لیے دشوارہوجاتا، لیکن ان کی رقت ِقلبی اور اخلاص کی برکت سے طلبہ کو پھربھی بہت کچھ مل جاتا،اور حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم نے اپنے خداداد ملکۂ افہام و تفہیم اور حبّ نبوی کی بدولت اس مضمون کو ایک ایسے انداز میں فرمایا تھا کہ طلبہ یہ محسوس کررہے تھے کہ شاید ہم بھی پیر کے دن کی صبح کا یہ مبارک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور پھر اُسی دن کے آخر میں نبی کریم a فداہ أبی وأمّی کے وصال کا مشکل ترین مرحلہ بھی ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوتاہے : ’’اللّٰھم صل علٰی محمدنِ النبی الأمی وعلیٰ آلہٖ وسلِِّم تسلیما۔‘‘ ستو نہائے رحمت کی زیارت روضۂ جنت میں سات ستون ہیں جن کو اسطواناتِ رحمت کہا جاتا ہے ، ان کے نام حسبِ ذیل ہیں:۱:…اسطوانۂ حنّانہ، ۲:…اسطوانۂ أبولبابہؓ ، ۳:…اسطوانۂ حرس، ۴:…اسطوانہ ٔوفود، ۵:…اسطوانۂ سریر، ۶:…اسطوانۂ جبریل ؑ، ۷:…اسطوانۂ عائشہ ؓ۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان ستونہائے رحمت کی زیارت کاشرف بھی حاصل ہوا اور ہر ایک ستون نے اپنی تاریخ یاد دلائی، اول الذکر دوستونوں سے متعلق کچھ تفصیل درج کی جارہی ہے: اسطوانۂ حناّنہ اُسطوانہ حنّانہ اس جگہ پر بنایا ہواستون ہے جہاں کھجور کا ایک تنا تھا، جو نبی کریم a کے فراق پر زور زور سے رویا تھا، اس تنے سے متعلق صحیح البخاری’’کتاب الجمعۃ، ج:۱،ص:۱۲۵‘‘ اور ’’کتاب المناقب،ج: ۱، ص:۵۰۶‘‘ اور سنن ترمذی ’’ابواب الجمعۃ،ج:۱، ص:۱۱۳‘‘ میں روایات موجود ہیں، اسی طرح امام عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمیv (متوفّٰی: ۲۵۵ھ) نے سنن دارمی میں مقدمہ کے اندر ایک مستقل باب بعنوان ’’باب ما أکرم اللّٰہُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحَنین المنبر‘‘ قائم کرکے گیارہ روایتیں ذکر کی ہیں، مذکورہ تمام روایات کاخلاصہ ومفہوم یہ ہے: ’’مسجد نبوی میں منبر بننے سے پہلے جب نبی کریم a  خطبہ دیتے تھے تو کھجور کے ایک تنے کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے تھے، اور جب آپa  کے لیے منبر کا انتظام کردیا گیا اور آپa  اس منبر پر خطبہ دینے کے لیے تشریف لے گئے تو وہ تنا فراقِ نبی (a) کا صدمہ برداشت نہ کرسکا، اور اس سے دس ماہ کی گابھن اونٹنی کے رونے کی طرح آوازآنے لگی اور اتنا رویا گویاپھٹ جائے گا، اس کے رونے کی آواز صحابہ کرامs بھی سنتے رہے، یہاں تک کہ حضور a  منبر سے نیچے اترے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر سینے سے لگایا جس سے وہ اس بچے کی طرح جسے تھپکیاں دے کر خاموش کیا جاتا ہے ہچکیاں لیتے ہوئے خاموش ہوگیا، نبی a  نے فرمایا کہ: اگر میں نے اس تنے کو اپنے سینے سے نہ لگایا ہوتا تو یہ اسی طرح قیامت تک روتا رہتا، پھر آپ a  نے دفنانے کا حکم دے دیا، چنانچہ اُسے دفنادیاگیا۔‘‘ راقم عرض کرتا ہے کہ اسطوانہ حنّانہ کی زیارت کرنے والوں کو مذکورہ واقعہ کا استحضار کرتے ہوئے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جب ایک غیرمکلف خشک تنا جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی اُس مخلوق سے ہو جس نے امانتِ خداوندی (شریعت کاملہ کی پابندی) کے بوجھ اُٹھانے سے ابتداء ہی سے معذرت کرلی ہو وہ بھی نبی کریم a  سے اتنی محبت کرتا ہے کہ غمِ فراق میں بلک بلک کر رو رہاہے تو اُس انسان کو جس نے امانتِ خداوندی کے بوجھ اُٹھانے کے لیے شروع ہی سے آمادگی ظاہرکی ہو اور پھر ’’لا إلٰہَ إلا اللّٰہُ محمدٌ رسولُ اللّٰہ‘‘ پڑھنے کا اظہار بھی کیا ہو اُسے اپنے نبی a  سے کتنی محبت کرنی چاہیے؟ اس سوال کا واضح جواب یہ ہے کہ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور اللہ کے فرمان ’’أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ ‘‘پرعمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور نبی کریم a  کے ہر ہر حکم کی اطاعت وپیروی کرے اور نبی a  کی سنتوں کوزندہ کرنے کی کوشش کرے۔ اسطوانہ حنّانہ کی زیارت کے وقت اس کے مذکورہ بالا واقعہ اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اگر زائر اپنی استقامت کے لیے لجاجت کے ساتھ دعاکرے گا اُمیدہے کہ ربّ کریم اس کی دعا کو قبولیت سے نوازے گا۔ اسطوانۂ ابولبابہ ؓ اسطوانۂ ابولبابہؓ وہ ستون ہے جس کے ساتھ حضرت ابولبابہ q نے اظہارِ توبہ وندامت کے طور پر اپنے آپ کو باندھ لیا تھا، کیونکہ وہ غزوۂ تبوک میں شریک نہیں ہوسکے تھے، اور بالآخر اُن کی توبہ قبول ہوگئی تھی،اس ستون کی زیارت نے سورۂ توبہ کی آیت نمبر:۱۰۲ یاد دلائی جس کے بارے میں علّامہ ابن کثیر v نے اپنی تفسیرمیں حضرت عبداللہ بن عباس rکاقول نقل کیاہے کہ : ’’یہ آیت نبی a  کی غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد حضرت ابولبابہq اوران کے ساتھیوں کے حق میں نازل ہوئی، جن کی کل تعداد چھ یاآٹھ یادس تھی‘‘ ، ان حضرات میں سے حضرت ابولبابہ q کے نام پر تمام روایات متفق ہیں، باقی حضرات کی تعداد اور ناموں میں مختلف روایات ہیں۔ نبی کریم a  نے غزوۂ تبوک میں شرکت کے لیے اعلانِ عام فرمایا تھا، اور سب مسلمانوں کو چلنے کا حکم دیا تھا، البتہ کچھ ایسے مخلص مسلمان تھے جن کے پاس معقول عذر تھا، ان کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا، کچھ منافقین تھے جنہوں نے جھوٹے اعذار پیش کردیئے، اور شریک نہیں ہوئے، ان منافقین کے بارہ میں سورۂ توبہ میں سخت وعیدیں نازل ہوئیں، مسلمانوں میں کچھ ایسے حضرات بھی تھے جو صرف وقتی سستی کی بنیاد پر نبی a  کے اس اعلانِ عام پر تو عمل نہ کرسکے اور غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے، مگر بعد میں اخلاص کے ساتھ نادم وتائب ہوگئے اور منافقین کی طرح جھوٹے اعذار تلاش نہیں کیے، اور بالآخر اُن سب کی توبہ قبول ہوگئی، بلاعذر پیچھے رہنے والے ان حضرات کی بھی دوجماعتیں ہوگئی تھیں، ایک جماعت وہ تھی جنہوں نے نبی a  کی واپسی کے بعد فوراً اپنی ندامت وتوبہ کے لیے یہ طریقہ اختیارکیاکہ اپنے آپ کومسجدِ نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا، اور یہ عہد کیا کہ جب تک ہماری توبہ قبول نہ ہوگی اور ہمیں خود رسول اللہ a  نہیں کھولیں گے ہم اسی طرح بندھے ہوئے قیدی رہیں گے، رسول اللہ a  کو جب ان کے اس عہدکاپتہ چلا تو فرمایا کہ: اللہ کی قسم! میں بھی ان کو اس وقت تک نہیں کھولوں گا جب تک اللہ تعالیٰ مجھے ان کے کھولنے کاحکم نہیں دے گا، اس پر سورۂ توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی: ’’وَآخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحاً وَّآخَرَ سَیِّئاً عَسَی اللّٰہُ أَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْْہِمْ إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔‘‘                                    (التوبۃ:۱۰۲) ’’اورکچھ اورلوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کااقرارکرلیاانہوں نے ملے جلے عمل کیے کچھ اچھے اورکچھ برے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے،بلاشبہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ اس جماعت میں حضرت ابولبابہ q بھی شامل تھے، جب مذکورہ آیت اتری اوررسول اللہa  نے ان کی توبہ قبول ہونے کی خوشخبری سنائی اور صحابہ ؓ  کو اُن کے کھولنے کا حکم دے دیا، تو حضرت ابولبابہ q نے کہا کہ جب تک نبی a  راضی ہوکر مجھے اپنے دستِ مبارک سے نہیں کھولیں گے میں بندھا رہوں گا، چنانچہ فجر کی نماز میں آپ تشریف لائے تو اپنے دستِ مبارک سے ان کو کھولا، حضرت ابولبابہq والی اس جماعت نے توبہ کرنے کا ایسا مخلصانہ طریقہ اختیار کیا کہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمادی جس میں تا روزِ قیامت آنے والے ان تمام مسلمانوں کے لیے جن کے اعمال نیک وبد ملے جلے ہوں اور وہ اپنے گناہوں سے اخلاص کے ساتھ تائب ہوجائیں معافی اور مغفرت کی امید ہے۔ غزوۂ تبوک میں صرف سستی کی وجہ سے شرکت نہ کرنے والے مخلص مسلمانوں کی دوسری جماعت مندرجہ ذیل تین انصاری صحابہؓ پر مشتمل تھی:  ۱:…حضرت کعب بن مالکؓ    ۲:…حضرت مرارہ بن ربیع  ؓ    ۳:…حضرت ہلال بن امیہؓ یہ حضرات اگرچہ حضرت ابولبابہq والی جماعت کی طرح طریقہ تو اختیار نہ کرسکے، تاہم نبیa کی واپسی کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر صاف صاف اپنی سستی اور کوتاہی کا اعتراف کرلیا اور کوئی جھوٹا عذر پیش نہیں کیا، ہاں! یہ وضاحت ضرور کردی کہ یہ کوتاہی صرف سستی کی بنا پر ہوئی ہے، نفاق کی وجہ سے نہیں، نبی a نے ان کی سچائی کو تسلیم فرماتے ہوئے ان کی کوتاہی کی بنیاد پر صحابہ کرامs کو یہ حکم دیا کہ جب تک اللہ تعالیٰ ان کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں فرمائیں گے تب تک ان سے سلام اور کلام کا مقاطعہ کیا جائے، رسول اللہ a کے اعراض اورصحابۂ کرامs کے مقاطعۂ سلام وکلام کی انتہائی مصیبت پچاس دن تک جھیلنے کے بعد ان تینوں حضرات کی توبہ کو بھی ربّ کریم نے قبول فرماکر ان کے حق میں سورۂ توبہ کی مندرجہ ذیل آیت نازل فرمادی: ’’ وَعَلَی الثَّلاَثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰی إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْْہِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْْہِمْ أَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوْا أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّٰہِ إِلاَّ إِلَیْْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْْہِمْ لِیَتُوْبُوْا إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔‘‘                                                     (التوبہ:۱۱۸) ’’اوران تین شخصوں پربھی (اللہ نے مہربانی کی )جن کامعاملہ ملتوی رکھاگیاتھا،یہاں تک کہ جب زمین باوجود اس قدر وسیع ہونے کے ان پرتنگ ہوگئی،اوروہ خودبھی اپنی جانوں سے تنگ آگئے اورانہوں نے سمجھ لیاکہ اللہ کی گرفت سے انہیں کہیں پناہ نہیں مل سکتی،مگریہ کہ اسی کی طرف رجوع کیاجائے،پھراللہ نے ان پرمہربانی کی تا کہ وہ توبہ کریں ،بلاشبہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والامہربان ہے‘‘۔ آیت اترنے کے بعد نبی کریم a اورصحابۂ کرامs نے ان تینوں کوتوبہ قبول ہونے کی خوشخبری سناکر مبارکباد دی، اور آپ a نے ان الفاظ کے ساتھ کعب بن مالکؓ کو مبارکباد دی: ’’بشارت ہوتمہیں ایک ایسے مبارک دن کی جو تمہاری زندگی میں پیدائش سے لے کرآج تک سب سے زیادہ بہتر دن ہے۔‘‘ اس واقعہ کی پوری تفصیل (صحیح البخاری،ج:۲،ص: ۶۳۴-۶۳۶) اور حدیث کی دیگر کتابوں میں حضرت کعب بن مالکq کی روایت سے درج ہے۔ بہرکیف!روضۂ جنت میں اسطوانہ ابولبابہ کی زیارت حضرت ابولبابہq اوران کے ساتھیوںs کا مذکورہ واقعہ یاد دلاتی ہے، اور پھر اُن کی مخلصانہ توبہ کی قبولیت کے نتیجہ میں اُتری ہوئی سورۂ توبہ کی آیت نمبر:۱۰۲ پر جب غور کرنے کا موقع ملتا ہے تو اس کے الفاظ کے عموم سے اندازہ ہوتا ہے کہ ارحم الراحمین نے صرف حضرت ابولبابہq والی جماعت کے حق میں نہیں بلکہ بعد میں آنے والے تائبین (چاہے وہ پندرہویں صدی ہجری کے پرفتن زمانہ کے تائبین کیوں نہ ہوں) کے حق میں بھی قبولیتِ توبہ کا وعدہ فرمایا ہے، اور پھر اسی مناسبت سے حضرت کعب بن مالک q والی جماعت کا مذکورہ واقعہ اور ان کے حق میں اُتری ہوئی سورۂ توبہ کی آیت نمبر:۱۱۸ خود بخود یاد آتی ہے، اور ایک ایسی کیفیت زائر کے اندر پیدا ہوجاتی ہے جس کا مفہوم شیخ فریدالدین عطارv نے مندرجۂ ذیل دو شعروں میں بیان کیا ہے: بر درآمد بندۂ بگریختہ

آبروئے خود بعصیاں ریختہ مغفرت دارد امید از لطفِ تو

زانکہ خود فرمودۂ لاتقنطوا قارئین کرام سے عاجزانہ درخواست ہے کہ حقیر راقم الحروف، اس کے والدین واقارب ، اس کے اساتذۂ کرام اوراس کے محبین ومحسنین کوبھی دعائے خیرمیں شامل فرمالیں،وجزاکم اللّٰہ تعالٰی خیرالجزائ۔ حجازِ مقدس سے واپسی اس سے پہلے عرض کیاجاچکاہے کہ ہمیں’’جامعۃ الملک سعود ،ریاض ‘‘کی طرف سے مختصروقت کے لیے حجازِ مقدس جانے کی اجازت ملی تھی،اس لیے حرمین شریفین کی ہماری یہ پہلی حاضری مختصر ہی رہی، اتنے مختصر وقت میں واپسی اورحرمین شریفین کی بابرکت فضاؤں سے جدائی کے لیے دل آمادہ نہ تھا، تاہم قانونی مجبوری کے سامنے سرِتسلیم خم کرناپڑااوربروزجمعہ ۲۰؍ربیع الاول ۱۴۰۸ھ بعدالعصر مدینہ منورہ سے پرنم آنکھوں کے ساتھ ریاض روانہ ہوئے: حیف! در چشم زدن صحبتِ یار آخر شد روئے گل سیر ندیدیم بہار آخر شد ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ کے شب وروز احقرنے ’’جامعۃ الملک سعود، ریاض‘‘ میں اپنے اساتذۂ کرام کے مشورہ واجازت سے چار بنیادی مقاصد کے پیشِ نظر داخلہ لینے کی سعی کی تھی: پہلامقصد:یہ تھاکہ اس صورت میں حرمین شریفین کی حاضری اورحج کی سعادت میسر ہوجائے گی،جس کے لیے عرصہ سے دل تڑپ رہاتھا،اوروسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔  دوسرامقصد: یہ تھاکہ عربی زباں جوکہ قرآن کریم اورنبی کریمa کی زباں ہے اور ہر طالب علم بلکہ ہرمسلمان کی ایک دینی ضرورت ہے، اس میں نکھاراس وقت پیداہوسکتاہے جب کہ طالب علم کوماحول میں رہنے اوراس زباں کواس کے اصلی سرچشموں سے تلاش کرنے کاموقع ملے، احقر کو یہ امید تھی کہ ’’معہداللغۃ العربیۃ جامعۃ الملک سعود‘‘ میں داخلہ ملنے کی صورت میں اس مقصد کے حصول کا راستہ ہموارہوجائے گا۔ تیسرامقصد: یہ تھاکہ دیارِ عرب کے علماء ومشایخ جو نجی اور بالکل سادہ طریقے سے مساجد میں علوم دینیہ پڑھاتے ہیں اور اصلاحی بیانات کرتے ہیں ان سے خارجی اوقات میں کچھ نہ کچھ استفادہ کرنے کا موقع ملے گا۔  چوتھامقصد: یہ تھاکہ بالخصوص حضرت شیخ عبدالفتاح ابوغدّہ حلبی شامیv کی صحبت میں رہنے اور ان کے علوم ومعارف سے استفادہ کرنے کا شاید کوئی موقع نصیب ہوگا۔ شیخ ابوغدّہؒ ایک متبحر،متقی اورحنفی المسلک عالمِ دین تھے، اور دارالعلوم دیوبند اور اس کے اکابرین سے والہانہ تعلق رکھتے تھے، دارالعلوم دیوبند میں ان کے علوم وتصانیف کا چرچہ تھا، اور وہ میرے زمانۂ قیام سے پہلے دارالعلوم تشریف بھی لاچکے تھے، موصوف’’جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، ریاض‘‘ کے استاذ تھے جوکہ ’’جامعۃ الملک سعود، ریاض ‘‘کے بعد دوسر ا بڑا جامعہ تھا،البتہ اُس جامعہ میں داخلہ کی صورت نہیں تھی، تاکہ شیخ ابوغدہv سے براہ راست استفادہ کاموقع مل جاتا، تاہم احقر کو یہ امید ضرور تھی کہ خارجی اوقات میں کسی نہ کسی طرح ان سے فیض حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مذکورہ چاروں مقاصد کے حصول کے راستے ہموار ہوگئے، چنانچہ ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ میں دوسالہ قیام کے دوران پہلامقصد اس طرح پورا ہوگیاکہ اس مدّت کے اندر حرمین شریفین کی بار بار حاضری اور حج کی سعادت میسر ہوئی، پہلی حاضری ماہ ربیع الاول ۱۴۰۸ھ کو میسر ہوئی، جس کی تفصیل درج کی جاچکی ہے، اسی سال اپنی زندگی کا پہلا حج بھی میسر ہوا، اگلے سال ۱۴۰۹ھ کو بھی حج کی سعادت حاصل کرسکتا تھا، اس لیے کہ میں حج کے ایام میں ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ میں موجود تھا اور جامعہ میں چھٹیاں بھی چل رہی تھیں، لیکن اس وقت سعودی عرب کا قانون یہ تھا کہ جس شخص نے ایک مرتبہ حج کیا ہو وہ اگلے پانچ سال تک حج نہ کریں، تاکہ حج کے ایام میں زیادہ رَش کی صورت پیدا نہ ہو اور زندگی میں پہلی بار حج کرنے والے حضرات سہولت کے ساتھ فریضۂ حج ادا کرسکیں، اس قانون کی زَد سے بچنے کے لیے لوگوں نے مختلف راستے ڈھونڈلیے تھے، لیکن احقر کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ میں داخلہ ملنے کے ذریعہ تواللہ تعالیٰ نے حرمین شریفین کی زیارت اور فریضۂ حج ادا کرنے کی سعادت سے مجھے نوازا ہے، اب سعوی عرب اور ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ کے قانون سے بچنے کے لیے راستے ڈھونڈنا بے وفائی ہوگی اور ایسے حج کو ’’حج مبرور‘‘ کہنا بھی مشکل ہوگا، لہٰذا حرمین شریفین کی زیارت کے لیے بے تابی کے باوجود حج کے ایام میں جامعہ میں رہا اور دوسرا حج نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ صلہ عطا فرمایا کہ ۱۴۰۸ھ کے بعد سے تادمِ تحریر جو تقریباً اٹھائیس سال کا عرصہ گزرچکا ہے، اس دوران وقفہ وقفہ سے مزید چار دفعہ (۱۴۱۴ھ-۱۴۲۷ھ- ۱۴۲۹ھ-۱۴۳۳ھ) کو حج پر جانے کا موقع نصیب ہوا جس سے مجموعی تعداد پانچ ہوگئی اور متعدد بار عمرہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی: ’’رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔‘‘ احقرجب اپنی حقیقت اورکوتاہیوں پر غور کرتا ہے تو اپنے آپ کو ان سعادتوں کا اہل ہرگز نہیں پاتا، اور جب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْیئٍ‘‘(اورمیری رحمت ہرچیز کو شامل ہے) پر غور کرنے کاموقع مل جاتاہے تویہ سمجھ میں آتاہے کہ ارحم الراحمین تومجھ جیسے نااہلوں کو بھی محروم نہیں فرماتا، لہٰذا یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اپنے بزرگوں اور بالخصوص حضرت حافظ عبدالستار صاحب v کی خصوصی دعا (جس کاتذکرہ ہوچکا ہے) کا اثر ہے۔ اللہ تعالیٰ روزِ محشرمیں بھی اسی طرح رحمت وفضل اورعفو ودرگزرکامعاملہ فرمائے۔ ’’جامعۃ الملک سعود‘‘کے ماحول میں عربی زباں سیکھنے کاایک اچھاموقع اوپرعرض کیاجاچکاہے کہ ’’معہداللغۃ العربیۃ جامعۃ الملک سعود‘‘میں داخلہ لینے کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ ماحول میں رہ کر عربان زباں سمجھنے ، بولنے اور لکھنے کا ایک اچھا موقع ملے گا، اسی جذبہ کے تحت میں نے طے کیا تھا کہ ’’جامعۃ الملک سعود‘‘میں اگر ممکن ہوا تو متشرع، بااخلاق اور باصلاحیت عرب طلبہ کے ساتھ رہائش رکھوں گا، تاکہ ان سے بیک وقت عربی زباں اور اسلامی آداب واخلاق میں استفادہ کیا جاسکے، اور یہ بھی طے کیاتھاکہ ’’جامعۃ الملک سعود‘‘کے قیام کے دوران صرف فصیح عربی زباں میں گفتگو کرنے کی کوشش کروں گااوراپنے ہم وطنوں اورہم زبانوں سے بھی بوقتِ ملاقات وگفتگو کسی اور زباں کے بجائے عربی زباں کو ترجیح دوں گا۔ رہائش سے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ کرم کیا کہ سعودی عرب کے ’’شقرائ‘‘ نامی شہرکے رہنے والے چندنیک وصالح، پابندِ شریعت اور باصلاحیت طلبہ کے ساتھ رہائش ملی، جن سے روز مرہ کی گفتگو فصیح عربی زبان میں ہوا کرتی تھی، اور کبھی علمی وادبی موضوعات سے متعلق بھی تبادلۂ خیال ہوجاتا، وہ حضرات آپس میں تو ’’اللغۃ العامّیۃ‘‘ (بگڑی ہوئی زباں) بولتے تھے، لیکن میری رعایت میں مجھ سے ’’اللغۃ الفصیحۃ‘‘ (فصیح زباں)میں بات کرتے تھے، جس سے مجھے کافی فائدہ ہوا، اپنے ہم وطنوں اور ہم زبانوں سے جب مسجد، مطعم، درسگاہ وغیرہ آتے جاتے ملاقات ہوجاتی اورمیں عربی میں بات کرتاتووہ کچھ ناراض ہوجاتے کہ تم اپنی زبان میں گفتگوکیوں نہیں کرتے؟ میں عربی زباں کی محبت میں ان کی ناراضگی کو بادِلِ نخواستہ برداشت کرلیتا، اس تھوڑی سی محنت وقربانی کا فائدہ یہ ہوا کہ ’’وحدۃ اللغۃ والثقافۃ‘‘ کا دو سالہ کورس احقر نے بتوفیق اللہ ایک ہی سال میں پوراکرکے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرلی، اور اگلے سال شعبہ’’اعداد المعلمین‘‘میں داخلہ ہوا اور اس کاایک سالہ کورس بھی پورا کیا، اس کے علاوہ پورے جامعہ کی سطح پر منعقد کیے جانے والے تین مسابقاتِ علمیۃ میں بھی حصہ لیااوراللہ تعالیٰ کی توفیق سے دومسابقات میں پہلی اورایک مسابقہ میں دوسری پوزیشن حاصل کی، جن کی بنیادپرچارسونے کے تمغے (گولڈمیڈل) نقد انعامات اور اپنے کورس کی سندکے علاوہ ’’طالب مثالی‘‘ کی ایک خصوصی سند بھی ملی، اور جب دوسال ’’جامعۃ الملک سعود‘‘میں گزار کر دارالعلوم دیوبندواپسی ہوئی تو دارالعلوم میں بھی احقرکی ہمت افزائی کی گئی اور ’’ماہنامہ دارالعلوم‘‘ (ماہِ رجب ۱۴۱۰ھ)اورپندرہ روزہ ’’آئینہ دارالعلوم‘‘(یکم تاپندرہ ماہ ِ جمادیٰ الاولیٰ ۱۴۱۰ھ) دونوں نے حضرت الاستاذ مولانا معراج الحق صاحبv( صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند) (متوفّٰی: ۱۴۱۲ھ) کے ایما پر احقر کی کامیابی کی رپورٹ شائع کردی۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ’’آئینۂ دارالعلوم دیوبند‘‘کے ایڈیٹر جناب مولانا کفیل احمدعلوی صاحب (فاضل دارالعلوم دیوبند) کی رپورٹ کامتن پیش کیا جارہا ہے: مولاناعبدالرؤف صاحب افغانی مدرس دارالعلوم دیوبندکی ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ سے دارالعلوم واپسی     ’’جامعۃ الملک سعود(ریاض)خلیجی ممالک کاسب سے بڑا علمی مرکز ہے، جس میں سعودی عرب اور دیگر مختلف ممالک کے تقریباً ۳۶؍ہزار طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں، جامعہ میں مختلف ۱۴؍ کلیات اورایک ’’معہداللغۃ العربیۃ‘‘ ہے، دارالعلوم دیوبندکی سفارش پر مولانا کا داخلہ ۱۴۰۸ھ میں شعبہ ’’وحدۃ اللغۃ والثقافۃ‘‘ میں ہوا،جس کادوسال کا کورس ہے،موصوف نے اپنی محنت اور خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے یہ کورس جوکافی اہم ہے ،ایک ہی سال میں پورا کرلیا، صرف اتناہی نہیں بلکہ اس میں امتیازی سندبھی حاصل کرلی،۱۴۰۹ھ میں یعنی دوسرے سال شعبہ ’’اعدادالمعلمین ‘‘میں داخلہ ہوا،اس کا ایک سالہ کورس ہے،اس شعبہ میں عام طور پر انہی طلبہ کوداخلہ کامجاز قراردیا جاتا ہے، جو سعودی جامعات سے فارغ ہوتے ہیں، اور جن کے نمایاں نمبرات ہوتے ہیں،مولاناعبدالرؤف صاحب کو ’’وحدۃ اللغۃ العربیۃ‘‘ میں اول پوزیشن حاصل کرنے کی وجہ سے داخلہ کامستحق قرار دیا گیا، ’’معھداللغۃ العربیۃ‘‘ جس کے تحت تین شعبے ہیں: ۱:… وحدۃ اللغۃ والثقافۃ ،۲:…تدریب المعلمین، ۳:…اعداد المعلمین، اس میں تقریباً چالیس ملکوں کے طلبہ پڑھتے ہیں، اس پورے ’’معھداللغۃ العربیۃ‘‘ سے ہرسال ایک ہی طالب علم کا ’’طالب مثالی‘‘ کے عنوان سے انتخاب کیا جاتا ہے ،جس کو خصوصی انعام کے علاوہ ایک خصوصی سند’’طالب مثالی‘‘ کے نام سے دی جاتی ہے، انتہائی مسرت کی بات ہے کہ گزشتہ سال ۱۴۰۹ھ میں ’’طالب مثالی‘‘ کا عظیم اعزاز مولانا عبدالرؤف صاحب نے حاصل کیا۔ اس کے علاوہ موصوف نے تین مسابقات میں جوکہ پورے جامعہ کی سطح پر منعقد ہوئے شرکت کی:۱:…قرآن کریم (حفظ تجوید وتفسیر)، ۲:… القراء ۃ الحُرّۃ، ۳:…خطابت (عربی زبان میں تقریر)۔اول الذکر: ۱،۲ میں مولانانے فرسٹ پوزیشن اور۳ میں سیکنڈپوزیشن حاصل کی۔     مذکورہ تینوں مسابقات میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے اور’’طالب مثالی‘‘ منتخب ہونے کی وجہ سے تین ہزارسات سوپچاس نقد ریال ،متعدداہم کتابیں،ایک خوبصورت قیمتی بریف کیس،بہترین کاغذ پر طبع شدہ دوقرآن پاک،عربی تقاریرکے کیسٹ اورسونے کے چارمیڈل انعام میں دیے گئے۔     پورے جامعہ میں مولاناکی ذہنی وفکری اورعلمی صلاحیتوں کوقدرکی نگاہ سے دیکھاگیا اور یہ تمام تفاصیل سعودیہ کے ہفت روزہ اخبار ’’رسالۃ الجامعۃ‘‘ میں نمایاں سرخی کے ساتھ شائع کی گئی۔     مولاناعبدالرؤف صاحب دارالعلوم دیوبندکے ایک لائق استاذہیں،طلبہ میں مقبول ہیں، اور ذمہ دارانِ دارالعلوم کی نگاہ میں بھی ان کامقام بلندہے،درس وتدریس میں انہماک کے ساتھ اہتمام کی جانب سے انہیں دوسری ذمہ داریاں بھی سونپی جاتی رہتی ہیں،ہم موصوف کوان کی عظیم الشان کامیابیوں پرتہہ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔             (ادارہ)‘‘ عرب علماء سے استفادہ کاموقع ’’جامعۃ الملک سعود‘‘ کے زمانۂ قیام میں اللہ تعالیٰ نے تیسرے مقصدکے حصول کے لیے اس طرح آسانی پیدافرمادی کہ خارجی اوقات کے اندر اُن عرب علماء سے استفادہ کرنے کا موقع میسر ہوا جو مساجدمیں سادہ طریقے سے پڑھاتے تھے اوراصلاحی بیانات بھی کرتے تھے،جامعہ میں ہفتہ وار دو چھٹیاں (جمعرات اورجمعہ )تومستقل طورپرہواکرتی تھیں،امتحانات سے آگے پیچھے یاکسی اور مناسبت سے چھٹیاں ان کے علاوہ تھیں،اِن چھٹیوں میں میری کوشش ہوتی تھی کہ اُن عرب علماء کی خدمت میں حاضری دیاکروں جومختلف مساجد میں در س دیاکرتے تھے یا ان کے بیانات ہوتے تھے، تاکہ ان کے علوم واخلاق ،عادات وخصائل ، طرزِتدریس وطریقۂ بیان اورعربی لب ولہجہ سے استفادہ کیا جاسکے، میرے پاس نہ توذاتی کوئی سواری تھی اورنہ راستوں سے واقفیت اورنہ ہی اُن مشہورعلمائے کرام کے نظام الاوقات کاصحیح علم !اللہ تعالیٰ جزائے خیرعطافرمائے ان مقامی عرب طلبہ اورساتھیوں کو جو مشہور علمائے کرام کے نظام الاوقات سے متعلق میری راہنمائی فرماتے رہے،اورمناسب وقت پر اپنی ذاتی سواریوں کے ذریعہ بلاتکلف مجھے ان کی مساجداوردروس وبیانات کے مقامات تک پہنچاتے رہے اور وہ خودبھی ان کے دروس میں شریک ہوتے رہے۔ سعودی عرب کے جن علمائے کرام کے دروس وبیانات میں شرکت اوران سے استفادہ کا موقع ملا ، ان میں سماحۃ الشیخ عبدالعزیزبن عبداللہ بازv (متوفّٰی: ۱۴۲۰ھ)،فضیلۃ الشیخ محمدبن صالح العُثَیمینv (متوفّٰی: ۱۴۲۱ھ)،فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن بن جبرینv( متوفّٰی:۱۴۳۰ھ)  سرِفہرست ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان علمائے کرام کا کچھ تذکرۂ خیر ہوجائے: سماحۃ الشیخ عبدالعزیزبن بازv کاذکرِخیر شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز v اپنے زمانہ میں سعودی عرب کے مایۂ ناز عالمِ دین اور مفتی اعظم تھے، ۱۲/۱۲/۱۳۳۰ھ کو سعودی عرب کے شہرریاض میں آپ کی پیدائش ہوئی ،تین سال کی عمر میں والدِ ماجدکاانتقال ہوا،اور والدہ ماجدہ نے آپ کی تربیت کی ذمہ داری سنبھالی،بچپن میں حفظِ قرآن مکمل کیا اور پھر مزید دینی علوم حاصل کرنے کے لیے کمربستہ ہوگئے،بیس سال کی عمرمیں ان کی بینائی مکمل طور پر چلی گئی،لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری،اوربڑے بڑے اہل علم حضرات سے مروجہ علوم کی تکمیل کی،ان کے مشہوراساتذہ میں سے شیخ محمدبن ابراہیم آل الشیخ،شیخ محمدبن عبداللطیف آل الشیخ، شیخ سعدبن حمدعتیق ،شیخ صالح عبدالعزیزآل الشیخ اور شیخ سعیدوقاص بخاری w ہیں۔ علومِ مروجہ سے فارغ ہونے کے بعداپنی خدادادصلاحیت وتقویٰ کی بنیاد پر مختلف علمی وانتظامی مناصب پر فائز رہے، چنانچہ ۱۳۵۷ھ تا ۱۳۷۱ھ منطقۂ خرج میں منصبِ قضاء کی نازک ذمہ داری انجام دیتے رہے، اور پھر ’’کلیۃ الشریعۃ ‘‘ریاض میں مدرس رہے، اس کے بعد ۱۳۸۱ھ تا ۱۳۹۰ھ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نائب رئیس اور۱۳۹۰ھ تا ۱۳۹۵ھ اس کے رئیس رہے، اور بالآخر ’’إدارۃ البحوث العلمیۃ والإفتائ‘‘ کے رئیس ،ملک کے مفتی اعظم اور ’’انجمن کبارالعلمائ‘‘ کے رئیس نامزدکیے گئے، اوراِن عہدوں پر تاوفات فائز رہے۔ ۱۴۰۸ھ کوجب احقر کاداخلہ ’’جامعۃ الملک سعودریاض‘‘ میں ہوا تو ابتدائی دنوں میں ایک روز مطالعہ کے دوران ’’حدیثِ قرطاس‘‘ سے متعلق جو امام بخاری v نے صحیح البخاری ’’کتاب العلم‘‘ (ج:۱،ص:۲۲) کے اندر ذکر کی ہے، کچھ اشکال پیش آیا، جس کے حل کے لیے جامعہ کی لائبریری کا رُخ کیاجہاں صحیح البخاری کی دواہم شروح (فتح الباری ،ج:۱،ص:۲۵۱-۲۵۳) اور (عمدۃ القاری جلد اول جزء ثانی،ص: ۱۶۹-۱۷۲) کا مطالعہ کیا، لیکن اشکال پھر بھی مکمل طور پر حل نہ ہوسکا، اس وقت دل میں آیا کہ کیوں نہ سماحۃ الشیخ عبدالعزیزبن بازؒ سے بذریعۂ فون اس سلسلہ میں استفادہ کیا جائے، کیونکہ ساتھیوں نے بتایا تھا کہ شیخ ابن باز ایک مقررہ وقت پر فون پر بھی سوالات کے جوابات دیتے ہیں، احقر نے مقررہ وقت پر جامعہ کے اندرطلبہ کے لیے لگے ہوئے مفت فون سروس کے ذریعہ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، شیخ کا فون مسلسل مصروف جارہا تھا، لیکن آخرکار رابطہ ہوگیا، احقر نے سلام مسنون کے بعد اپنا مختصر تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں عبدالرؤف نامی ’’معہداللغۃ العربیۃ جامعۃ الملک سعود ریاض‘‘ کا ایک جدیدغیرملکی طالبِ علم ہوں،اوربخاری شریف کی ’’حدیثِ قرطاس‘‘ میں مجھے یہ اشکال (تفصیل کایہ موقع نہیں) درپیش ہے، امید ہے کہ آپ اس کا حل بتادیں گے۔ شیخ نے اپنے الفاظ میں تقریباً وہی پوری بات ذکر فرمادی جو حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ بدرالدین عینیE نے ذکر کی ہے، جس سے ان کے زبردست حافظہ کا اندازہ ہوا، احقر نے مذکورہ حدیث سے متعلق مزید کچھ اشکالات پیش کیے ،جن کے بارہ میں شیخ نے فرمایا کہ: یہ تفصیل طلب اشکالات ہیں، بہتر یہ ہوگا کہ آپ جمعرات کو میرے گھر پر بعدالظہر تشریف لاکر اس موضو ع پر گفتگو کریں، اور میرے ساتھ دوپہر کا کھانا بھی کھائیں، میں نے کہا: یہ تو میری سعادت ہوگی! ضرور حاضر ہوں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ! ہماری یہ گفتگوعربی زبان میں ہورہی تھی جس کی بنیاد پر شیخ نے دورانِ گفتگو احقر کی ہمت افزائی فرماتے ہوئے عربی لہجہ میں گفتگو کی تحسین فرمائی، اور مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ گفتگو آپس میں غیرمتعارف دو آدمیوں کے درمیان نہیں بلکہ ایک مشفق والد اور ان کے بیٹے کے درمیان ہورہی ہے، ان کے طرزِ گفتگو سے یہ بھی اندازہ ہورہا تھا کہ وہ اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود بات کو جلد از جلد ختم کرنا نہیں چاہتے، جب کہ میں تو دل دل میں شرمندہ ہورہا تھا کہ ایک عظیم اور مصروف ترین عالمِ دین کا زیادہ وقت لے رہا ہوں، بات چیت کے دوران میں نے شیخ سے اپنی ’’لِلّٰہ فی اللّٰہ‘‘ محبت کا اظہار بھی کردیا جس کے جواب میں انہوں نے اللہ کی محبت نصیب ہونے کی دعاسے مجھے نوازا،اورآخرمیں مَیں نے ان سے دعائے خیرمیں فراموش نہ کرنے کی درخواست کی، انہوں نے درخواست کو قبول فرماتے ہوئے مجھ سے بھی یہی فرمائش کی اور بات ختم ہوگئی۔ جمعرات کو حسبِ وعدہ سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز کی قیام گاہ پر بعدنمازِ ظہرحاضرہواجہاں ان کے مہمان خانے میں زائرین ومہمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود تھی، احقر بھی مہمان خانے کے ایک کونے میں شیخ کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد شیخ اپنی قیام گاہ کے اندر والے حصہ سے مہمان خانہ تشریف لائے اور محبت بھرے لہجہ میں مہمانوں کو سلام کرنے کے ساتھ ساتھ خوش آمدید کہا اور سب سے بالترتیب مصافحہ کیا، جب میری باری آئی اور میں نے ان کو سلام کرکے مصافحہ کیا اور آگے اپنا نام بتانے اور فون پر کی گئی گفتگو کا حوالہ دینے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ شیخ نے آواز سے پہچان کر خود ہی میرا نام لیا اور فون پر ’’حدیثِ قرطاس ‘‘ سے متعلق گفتگو کا حوالہ بھی دے دیا، میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ ایک ایسے شخص جن سے روزانہ بے شمار لوگ ملتے ہیں، اورلاتعدادلوگ فون پربھی ان سے رابطہ میں رہتے ہیں اوراسّی سال کے قریب ان کی عمرہے،وہ صرف ایک ہی مرتبہ ایک ادنیٰ اور اجنبی طالبِ علم کی آواز ونام فون پر سن لیتے ہیں اور پھر درمیان میں ایک یا دو دن گزر بھی جاتے ہیں، اس کے بعد لوگوں کے ازدحام کے باوجود جب دوبارہ اس کی آواز سن لیتے ہیں تو فوراً پہچان لیتے ہیں اور نام بھی بتادیتے ہیں!! اب اسے یا تو قوتِ حافظہ کہاجائے، یا فراستِ ایمانی کا نام دیا جائے، یا پھر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے بصارت تو ان سے لے لی تھی، لیکن اس کے عوض ان کوبے نظیربصیرت اور رسوخ فی العلم کی دولت سے مالا مال فرمایا تھا۔ سلام ومصافحہ کے بعد میں نے شیخ کے سامنے’’حدیثِ قرطاس‘‘ کا ذکر کیا، شیخ نے حسبِ وعدہ اس پر سیر حاصل بحث کی، جس سے مجھے کافی حد تک تشفی ہوئی، البتہ مکمل تشفی کچھ عرصہ بعد اس وقت ہوئی جب امامِ ربانی مجددالف ثانی حضرت شیخ احمدسرہندی قدس سرہٗ(متوفّٰی: ۱۰۳۴ھ) کے مکتوبات (بزبانِ فارسی)میں سے ایک مفصل اورتحقیقی مکتوب پڑھنے کاموقع ملا۔ اگرکسی کواس موضوع پر تحقیق درکار ہو تو ’’فتح الباری‘‘اور’’عمدۃ القاری‘‘ کے مذکورہ بالا مقامات کے ساتھ ساتھ مکتوباتِ امامِ ربانی دفتردوم ، حصۂ ہفتم، مکتوب نمبر:۹۶،صفحہ نمبر:۱۰۲تا۱۱۰(مطبوعہ: امرتسروکراچی)کا مطالعہ فرمائیں۔ تھوڑی دیربعد عربی پلاؤ کے بڑے بڑے گول تھال زمینی دسترخوان پررکھے گئے اورہرتھال میں سنت کے مطابق چند افراد شریک ہوئے، شیخ بھی زمین پر بیٹھ کرمہمانوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہوئے، ان کے لیے کوئی مخصوص جگہ یاکوئی مخصوص کھانا نہیں تھا، اور نہ ہی لباس یانشت وبرخاست وگفتگو میں کسی قسم کا تکلف شامل تھا، ان کی سادگی کو دیکھ کر کوئی نیا آنے والا زائر یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ اپنے زمانہ میں سعودی عرب کے سب سے مشہورعالمِ دین سماحۃ الشیخ عبدالعزیزبن باز جن کوسرکاری طور پر بھی وزیر کا مقام وعہدہ حاصل ہے اور جن کو سعودی عرب کے بادشاہ بھی والد کا مقام دے کر ’’والدُناوشیخُنا‘‘ سے یادکرتے ہیں ،وہ یہی سادہ شخص ہوں گے،ا س نشست میں احقر نے دیکھاکہ شیخ مہمانوں کی مزاج پرسی بھی فرمارہے ہیں اور بلاامتیاز ہر ایک کی بات کو غور سے سن بھی رہے ہیں اور ہر ایک کے سوال کا جواب بھی عنایت فرماتے ہیں۔ شیخ کی مصروفیت اور ان کے علمی وعرفی مقام کے باوجود اتنی خاکساری وفروتنی کہ ہرخاص وعام کی بات کو غورسے سننااورکسی کوبھی اپنے عالی مقام کااحساس نہ دلانااس بات کی واضح دلیل تھی کہ وہ آقائے نامدارحضرت محمد a کی سنتوں اورطریقوں کوہمیشہ سامنے رکھتے تھے اور ان کے مطابق عمل بھی کرت

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین