بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حجاج کرام سے چند گزارشات!!!

حجاج کرام سے چند گزارشات!!!

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

حج ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ ۹ھ میں حج کی فرضیت نازل ہوئی، اس سال آپ a نے حضرت ابوبکر صدیقq کو امیرِ حج بناکر بھیجا اور اگلے سال آپ a نے حج کی ادائیگی کا ارادہ فرمایا تو عمومی طور پر اعلان کرایا، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شریک ہوکر حج کے مناسک اور احکام سیکھ سکیں، آپ a نے ہر ہر مرحلہ پر حج کے ایک ایک رکن اور ایک ایک عمل کو تعلیم کے انداز میں سکھایا۔ صحابہ کرامs نے حج کے متعلق جو سوالات کیے، آپ a نے ان کے جوابات مرحمت فرمائے، آپ a نے بڑی تاکید سے فرمایا کہ:’’ مجھ سے مناسک حج اچھے انداز میں سیکھ لو، شاید اگلے سال میں تم میں موجود نہ ہوں۔‘‘ صحابہ کرامs نے آپ a کے حج کے ایک ایک عمل کو محفوظ کیا اور اگلی نسلوں تک پہنچایا۔ اسی لیے حج پر جانے والے ہر مرد اور عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسائلِ حج اور اعمال ِ حج کو ضرور سیکھ کر جائے اور اپنے حج کو ہر قسم کے گناہوں، نافرمانیوں اور کوتاہیوں سے آلودہ ہونے سے محفوظ کرے،اس کے لیے ضروری ہے کہ حج کے مسائل اور احکام کے متعلق چھوٹی بڑی کتابیں علمائے کرام نے آسان اور بڑے سہل انداز میں لکھی ہیں، ان کو پڑھے اور ان کو اپنے ساتھ رکھے، تاکہ حج جیسی عبادت جس کو بسااوقات زندگی میں ایک بار ہی ادا کرنے کی سعادت ملتی ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی کمی کوتاہی نہ رہ جائے۔ اب ہم حجاج کرام سے چند گزارشات کرنا چاہتے ہیں، جن کی طرف حجاج کرام کو توجہ کرنا انتہائی لازمی اور ضروری ہے، تاکہ ان کا حج صحیح معنی میں حج ہو اور جو اجر وثواب اللہ تعالیٰ نے اس حج جیسی عبادت کی ادائیگی پر رکھا ہے، اس کے یہ مستحق ہوں: 1:۔۔۔۔۔ حجاج کرام کو چاہیے کہ سفرِ حج کے دوران نماز باجماعت کا خاص طور پر اہتمام فرمائیں، عام طور پر حجاج کرام اس طرف توجہ نہیں دیتے، بلکہ بعض اوقات نماز کے پابند حضرات بھی اس میں سستی کرجاتے ہیں۔ 2:۔۔۔۔۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ حج کے پورے سفر میں پردے کا ضرور اہتمام کیا کریں، یہ ٹھیک ہے کہ مستورات کا احرام چہرہ کا کھلا رکھنا ہے، لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ پردہ ہی نہ کریں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ t کا عمل ہماری مستورات کے لیے بہت ہی عمدہ نمونہ ہے، آپؓ فرماتی ہیں کہ: ہم احرام کی حالت میں عام طور پر اپنا چہرہ کھلا رکھتی تھیں، لیکن جب مرد سامنے آتے تو ہم چہرہ کے سامنے کوئی چیز کردیتیں، تاکہ غیر محرم ہمیں دیکھ نہ سکیں، حدیث کے الفاظ اور اس کا ترجمہ درج ذیل ہے: ’’عن عائشۃؓ قالت: کان الرکبان یمرون بنا ونحن مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم محرمات ، فإذا جاوزوا بنا سدلت إحدانا جلبابَھا من رأسھا علٰی وجہہا فإذا جاوزونا کشفناہ ، رواہ ابوداؤد وابن ماجۃ۔‘‘ (مشکوٰۃ،ص:۲۳۶، طبع: قدیمی کتب خانہ) ’’حضرت عائشہ t سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ : ہم (حجۃ الوداع میں) حضور a کی معیت میں حالت احرام میں تھیں، جب سوار ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم اپنے سر سے نیچے اپنے چہرے پر بھی پردہ ڈال لیا کرتیں اور جب وہ ہمارے پاس سے گزرجاتے تو ہم دوبارہ اپنا چہرہ کھول لیا کرتیں۔‘‘  ہماری مسلمان بہنوں کو بھی چاہیے کہ وہ حج کے سفر میں حضرت عائشہ t کے عمل کو اپنا نمونہ بنائیں، اس لیے علماء کرام نے کہا ہے کہ آج کے دور میں اس کی بہترین صورت وہ ہیٹ ہے جو عام طور پر احرام کے ساتھ مل جاتا ہے،عورتیں اس کے پہننے کا اہتمام کریں۔ 3:…عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ حج کے لیے دنیا بھر سے آنے والی خواتین کا لباس بہت ہی ساتر ہوتا ہے ، لیکن ہمارے پاکستان اور ہندوستان کی خواتین خصوصاً دیہات کی خواتین اس کا خیال نہیں کرتیں جو کہ انتہائی افسوس کی بات ہے۔ 4:… اسی طرح مکۃ المکرمہ میں خواتین نماز کے لیے مردوں کی صفوں میں گھس کر کھڑی ہوجاتی ہیں،جتنا بھی اس سے منع کیا جائے، وہ باز نہیں آتیں، حالانکہ ایسا کرنا شریعت میںمنع ہے، اس کی وجہ سے نہ ان کی نماز صحیح ہوتی ہے اور نہ ہی اس مرد کی جو ان کے دائیں بائیں اور ان کے پیچھے ہوتا ہے، عورتوں کو اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ 5:… ایک اہم مسئلہ جو غالباً ایک سال سے شروع ہوا ہے، وہ یہ کہ حرمین میں جمعہ کی پہلی اذان زوال سے بھی پہلے دے دی جاتی ہے، جس کے سننے کے بعد لوگ سنتوں کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں، حالانکہ صریح احادیث میں اس وقت نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ آپ a کا ارشاد ہے:  ۱:ــ۔۔۔۔۔ ’’عن عقبۃ بن عامرؓ قال: ثلٰث ساعات کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینہانا أن نصلی فیہن وأن نقبر فیہن موتانا حین تطلع الشمس بازغۃ حتّٰی ترتفع وحین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل الشمس وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب ، رواہ مسلم۔‘‘                 (مشکوٰۃ،ص:۹۴،طبع:قدیمی کتب خانہ) ’’حضرت عقبہ بن عامر q فرماتے ہیں کہ :سرورِ کونین a تین وقتوں میں نماز پڑھنے اور اپنے مردوں کو دفن کرنے سے منع فرماتے تھے، اول: آفتاب کے نکلنے کے وقت، یہاں تک کہ بلند ہوجائے، دوسرے: دوپہر کا سایہ قائم ہونے یعنی نصف النہار کے وقت، یہاں تک کہ آفتاب ڈھل جائے اور تیسرے اس وقت جبکہ آفتاب ڈوبنے لگے، یہاں تک کہ غروب ہوجائے۔‘‘ ۲:۔۔۔۔’’ عن عمرو بن عبسۃؓ قال:قدم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینۃ ، فقدمت المدینۃ فدخلت علیہ ، فقلت: أخبرنی عن الصلٰوۃ ۔ فقال : صل صلوۃ الصبح ، ثم أقصر عن الصلٰوۃ حین تطلع الشمس حتی ترتفع ؛ فإنہا تطلع بین قرنی الشیطٰن وحینئذ یجد لہا الکفار ، ثم صل فإن الصلٰوۃ مشہودۃ محضورۃ حتی یستقل الظل بالرمح ثم أقصر عن الصلٰوۃ ؛ فإن حینئذ تسجر جھنم ، فإذا أقبل الفیء فصل ؛ فإن الصلٰوۃ مشہودۃ محضورۃ حتی تصلی العصر ، ثم أقصر عن الصلٰوۃ حتی تغرب الشمس ؛ فإنہا تغرب بین قرنی الشیطٰن وحینئذ یسجد لہا الکفار، رواہ مسلم۔‘‘                                               (مشکوٰۃ، ص:۹۴، قدیمی کتب خانہ) ’’حضرت عمرو بن عبسہ q فرماتے ہیں کہ سرور کونین a مدینہ تشریف لائے تو میں بھی مدینہ آیا اور آپ a کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے نماز کے اوقات بتادیجیے۔ آپ a نے فرمایا: صبح کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رُک جاؤ، جب تک کہ آفتاب طلوع ہوکر بلند نہ ہوجائے؛ اس لیے کہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتاہے اور اس وقت کافر (سورج کو پوجنے والے) اس کو سجدہ کرتے ہیں، پھر (اشراق کی) نماز پڑھو ؛ کیونکہ اس وقت کی نماز مشہودہ ہے (یعنی فرشتے نمازی کی گواہی دیتے ہیں)اور اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ (جب) سایہ نیزہ پر چڑھ جائے اور زمین پر نہ پڑے (یعنی ٹھیک دوپہر ہوجائے) تو نماز سے رُک جاؤ؛ کیونکہ اس وقت دوزخ جھونکی جاتی ہے، پھر جب سایہ ڈھل جائے تو (ظہر کے فرض اور جو چاہو نفل) نماز پڑھو، کیونکہ یہ وقت فرشتوں کے شہادت دینے اور حاضری کا ہے، یہاں تک کہ تم عصر کی نمازپڑھ لو، پھر نماز سے رُک جاؤ، یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوجائے؛ کیونکہ آفتاب شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار (یعنی آفتاب کو پوجنے والے) اس کی طرف سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ ۳:۔۔۔۔۔’’ عن عبداللّٰہ الصنابحیؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن الشمس تطلع ومعہا قرن الشیطٰن فإذا ارتفعت فارقہا ، ثم اذا استوت قارنہا، فإذا زالت فارقہا ، فإذا دنت للغروب قارنہا ، فإذا غربت فارقہا ، ونہٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الصلٰوۃ فی تلک الساعات، رواہ مالک واحمد والنسائی۔ ‘‘ (مشکوٰۃ،ص: ۹۵، قدیمی کتب خانہ) ’’حضرت عبداللہ صنابحی q راوی ہیں کہ سرور کونین a نے فرمایا: جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کے ساتھ شیطان کا سینگ ہوتا ہے، پھر جب وہ بلند ہوجاتا ہے تو وہ الگ ہوجاتا ہے، پھر جب دوپہر ہوتی ہے تو شیطان آفتاب کے قریب آجاتا ہے اور جب آفتاب غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے تو شیطان اس کے قریب آجاتا ہے اور جب آفتاب غائب (یعنی غروب) ہوجاتا ہے تو شیطان اس سے جدا ہوجاتا ہے اور آنحضرت a نے ان اوقات میں (یعنی آفتاب کے طلوع وغروب کے وقت اور ٹھیک دوپہر کے وقت) نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ ‘‘ ٹھیک ہے کہ ایک روایت میں جمعہ کا استثناء ہے، لیکن وہ روایت ضعیف ہے، جیسا کہ صاحبِ مشکوٰۃ نے امام ابوداؤدv کے حوالہ سے نقل کیا ہے:  ’’عن أ بی الخلیل عن أبی قتادۃؓ قال: کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کرہ الصلٰوۃ نصفَ النہار حتّٰی تزول الشمس إلا یوم الجمعۃ وقال: إن جہنم تسجر إلا یوم الجمعۃ رواہ أبوداؤد وقال: ’’أبوالخلیل لم یلق أباقتادۃؓ۔ ‘‘         (مشکوٰۃ، ص:۹۵، طبع: قدیمی کتب خانہ) ’’حضرت ابوالخلیل v حضرت ابوقتادہq سے نقل کرتے ہیں کہ سرورِ کونین a ٹھیک دوپہر کے وقت جب تک کہ سورج نہ ڈھل جائے نماز پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے، علاوہ جمعہ کے دن کے، نیز آپ a کا ارشاد ہے کہ علاوہ جمعہ کے دن کے روزانہ (دوپہرکے وقت) دوزخ جھونکی جاتی ہے ۔ اس روایت کو امام ابوداودv نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت ابوقتادہؓ سے ابوالخلیلؒ کی ملاقات ثابت نہیں ہے(لہٰذا اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے)۔‘‘ حجاج کرام کو چاہیے کہ جمعہ کی پہلی اذان کے بعد سنتیں اور کوئی نفل نماز وغیرہ نہ پڑھیں، تاکہ اس وعید سے بچ سکیں اور ممنوع اوقات میں نماز پڑھنے والے فعل کے بھی مرتکب نہ ہوں۔ ہمارے مقتدا علماء حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ سعودی عرب کے حکام اور علمائے کرام کے سامنے اس مسئلہ کو اُٹھائیں اور اُنہیں باور کرائیں کہ اس غیر مشروع فعل کے ارتکاب کا وہ سبب نہ بنیں اور جس طرح پہلے جمعہ کے دن زوال کے بعد پہلی اذان دی جاتی تھی اور اس کے چند منٹ بعد دوسری اذان دی جاتی تھی، اس عمل کو جاری رہنے دیں اور اس نئے طریقے کو رائج کرکے صریح احادیث کی مخالفت کا باعث نہ بنیں۔ 6:… اسی طرح عام طور پر آج کل حجاج منیٰ میں رہنے کو غیر ضروری سمجھنے لگے ہیں، بلکہ مشاہدہ ہے کہ بعض حج گروپ کے لیڈران خاص طور پر اپنے حجاج کو اس کی ترغیب دینے لگے ہیں کہ آپ عزیزیہ میں اپنی بلڈنگ میں رہیں اور صرف جمرات کو کنکریاں مارنے کے لیے آپ منیٰ میں جائیں، اور کئی لوگ رات گزارنے کے لیے یا تو مکہ اپنی بلڈنگ میں چلے جاتے ہیں یا عزیزیہ میں اپنی رہائش پر چلے جاتے ہیں، حالانکہ آپ a صرف طواف کے لیے تو بیت اللہ تشریف لے گئے، اس کے علاوہ تینوں دن ورات منیٰ ہی میں رہے، جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ v کے نزدیک منیٰ میں رہنا سنت مؤکدہ ہے، باقی ائمہ منیٰ میں رات گزارنے کو واجب قرار دیتے ہیں۔ امیرالمؤمنین حضرت عمر q منیٰ میں نہ رہنے والوں کو تادیب فرماتے تھے۔ حضرت مولانا مفتی محمد ارشاد القاسمی اپنی تالیف ’’رسول اللہ a کا طریقۂ حج‘‘ میں منیٰ میں رہنے کے بارہ میں روایات کا اِحاطہ کیا ہے، جو کہ درج ذیل ہیں: ۱:۔۔۔۔۔ حضرت عائشہ t کی روایت میں ہے کہ ایامِ تشریق میں آپ a منیٰ میں ہی رہے۔                                          (ابوداؤد،ص:۲۷۱، اعلاء السنن، ص:۱۸۹) ۲:۔۔۔۔۔عبدالرحمن بن فروخ  ؒکی روایت میں ہے کہ آپ a منیٰ میں رہے اور وہیں آپ a نے قیام کیا۔                                           (اعلاء السنن،ص:۱۹۰) ۳:۔۔۔۔۔حضرت ابن عباس r سے مروی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے: عقبہ کے پیچھے (مکہ کے حدود میں) کوئی نہ گزارے ایام تشریق کے دنوں میں۔ ۴:۔۔۔۔۔ حضرت عمر فاروق q لوگوں کو زجروتوبیخ فرمایا کرتے تھے اس بات پر کہ منیٰ کا قیام کوئی چھوڑدے۔                                             (فتح القدیر، ص:۵۰۲) ۵:۔۔۔۔۔ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت عمر فاروق q منع فرمایا کرتے تھے جمرہ عقبہ کے پیچھے (مکہ کے حدود میں) کوئی قیام کرے۔                                (فتح القدیر) ۶:۔۔۔۔۔ حضرت عمر فاروق q ممنوع قرار دیتے تھے کہ وہ منیٰ کے دنوں میں مکہ مکرمہ میں رات گزارے۔                                             (فتح القدیر، ص:۵۰۲) حضرت مولانا فائدہ کے تحت لکھتے ہیں کہ: ’’خیال رہے کہ مزدلفہ سے ۱۰؍ کی صبح کو منیٰ آیا جاتا ہے، اب اس کا قیام منیٰ میں ہی ۱۲؍ تک یا ۱۳؍ تک رہے گا۔ ۴؍ دن ہوئے اور ایک قیام ۸؍ تاریخ کو مکہ مکرمہ سے آنے اور عرفات جانے سے قبل کیا تھا۔ یہ منیٰ کے ۵؍ ایام ہیں، یہ ایام منیٰ میں گزارنا سنت مؤکدہ ہے۔ رات کو کسی دوسرے مقام حتیٰ کہ مکہ مکرمہ میں بھی قیام درست نہیں۔ آپ نے منیٰ میں قیام بھی فرمایا اور یہی حکم فرمایا، چنانچہ آپ رات کو نفلی طواف کرنے جاتے تو رُکتے نہیں، منیٰ چلے آتے۔ ۷:۔۔۔۔ اسی طرح طوافِ زیارت کے لیے خواہ دس یا گیارہ کو جائے تو طواف سے فارغ ہوکر منیٰ چلا آئے گا اور رات منیٰ میں ہی گزارنی ہوگی، جیسا کہ شرح لباب میں ہے: ’’ولایبیت بمکۃ ولا فی الطریق لأن البیتوتۃ بمنٰی لیالیہا سنۃ عندنا واجبۃ عند الشافعیؒ۔‘‘                                                     (شرح لباب،ص:۲۳۵) ۸:۔۔۔۔ ہدایہ میں ہے: منیٰ کے علاوہ میں رات گزارنی مکروہ ہے۔ حضرت عمر فاروق  ؓ رات نہ گزارنے پر لوگوں پر زجروتوبیخ فرمایا کرتے تھے: ’’ولایکرہ أن لایبیت بمنٰی لیالی الرمی لأن النبی علیہ الصلٰوۃ والسلام بات بمنٰی وعمر رضی اللّٰہ عنہ کان یؤدب علٰی ترک المقام بھا۔‘‘                                      ( فتح القدیر:۵۰۱) ۹:۔۔۔۔عنایہ میں ہے کہ منیٰ کا قیام اس لیے مقرر کیا گیا تاکہ رمی جو حج کے مناسک میں ہے آسان ہو۔                                                   (عنایہ علی الفتح،ص:۵۰۱) ۱۰:۔۔۔۔جزء حجۃ الوداع میں ہے کہ جمہور علماء منیٰ میں رات گزارنے کو واجب قرار دیتے ہیں اور امام ابوحنیفہv سنت قرار دیتے ہیں۔             (حجۃ الوداع،ص:۱۷۲) ۱۱:۔۔۔۔طحاویv نے لکھا ہے کہ ایام تشریق کے دنوں میں منیٰ میں قیام نہ کرنا مکروہ تحریمی ہے: ’’دلالۃ الأثر علٰی لزوم المبیت بمنٰی فی لیالیہا ظاھرۃ أن لفظ ظاہر الہدایۃ یشعر بوجوبہا عندنا۔‘‘ ( اعلاء السنن،ص:۱۹۰)                 (بحوالہ رسول اللہ aکا طریقۂ حج،ص:۴۷۶-۴۷۷) حجاج کرام سے درخواست ہے کہ حج کے اعمال کو اسی انداز میں ادا فرمائیں، جس طرح آپ a، صحابہ کرامs، تابعین اور ہمارے اسلاف نے ادا فرمائے ہیں۔ اپنی تن پسندی کی بنا پر اپنی طرف سے ہر ہر عمل میں اپنے خام خیالات اور آراء پر عمل شروع کردیا تو حج کا حلیہ ہی بگڑجائے گا۔ اس لیے خدارا! حج کے اعمال میں جدتیں پیش کرنے سے باز رہیں، اور مخلوقِ خدا کو اسی راستے پر رکھیں، جو حضور اکرم a اور صحابہ کرام sنے ان کے لیے طے کیا ہے، وماذٰلک علٰی اللّٰہ بعزیز۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔ 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین