بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حجاب، اسلام اور پاکستان

حجاب، اسلام اور پاکستان


اسلام دشمن قوتیں جب دلائل، واقعیت، حقیقت اور افادیت کی بنیاد پر اسلام کے خوبصورت نظام، اسلام کی حسین تہذیب وتمدن اور دل کو لبھانے والے اسلامی کلچر ومعاشرہ کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگئیں تو انہوں نے الیکٹرانک میڈیا کی ایجاد کرکے اس سے دو کام لیے: 
۱:-ایک تو اس کی افادیت کا اتنا چرچا اور شوروغوغا کیا کہ نظر بظاہر یہ میڈیا ہر گھر اور ہر فرد کی ضرورت ہی باور نہیں کرایا گیا، بلکہ کسی ریاست کا چوتھا ستون بھی قرار دلوادیا گیا، جس کی بناپر ہر ریاست، ہر حکومت، بلکہ ہر ملکی جماعت وادارہ اس کا دست نگر اور محتاج نظر آیا۔ میڈیا پر بھاری بھرکم سرمایہ کاری کرکے اپنی ڈھب، اپنی پسند، مادیت سے مغلوب، تعلیماتِ اسلام سے دور اور ملکی حیا وغیرت سے ناآشنا مردوزن کو ترجیحی بنیادوں پر اس کے لیے منتخب کیا گیا جو اپنی طلاقتِ لسانی اور چرب زبانی کے بل بوتے پر سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید، صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح، جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز باور کرانے میں نہ صرف یہ کہ ماہر بلکہ ایکسپرٹ اور شیطان کو مات دینے والے ہوں۔ مزید یہ کہ میڈیا کے اربابِ بست وکشاد اور ان کے سرپرستوں نے میڈیا کے زور پر جس معاملے اور جس مسئلے کو حل کرانا چاہا، وہ نا صرف یہ کہ حل ہوا، بلکہ جس ملک اور اس میں جس پارٹی اور اس کے سربراہ سے اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کی یقین دہانی اور سودے بازی میں مخلص اور قریب پایا، اس کو اقتدار دلوادیا اور جس کو اپنے مقاصد اور پالیسیوں کے سامنے رکاوٹ محسوس کیا، اسے اقتدار سے نہ صرف یہ کہ باہر کرادیا، بلکہ اسے چور، لٹیرا، بلکہ ملک کا غدار ، قوم کا مجرم اور پتہ نہیں کیا کیا قرار دلوادیا۔
۲:- دوسرا اس سے یہ کام لیا کہ اس کے ذریعہ اپنا متعفن وبدبودار کلچر اور اپنی ایسی غلیظ وگندی تہذیب جسے حیوان بھی دیکھ کر شرما جائیں، پوری دنیا میں پھیلادی، جس کی سڑاند اور بدبو سے معطر ومنور، صاف وشفاف اور پاک وپاکیزہ مسلم معاشرہ بہت حد تک آلودہ اور متاثر ہوا۔ رہی سہی کسر اس طرح پوری کی گئی کہ تعلیم کے نظام پر ’’کوایجوکیشن سسٹم‘‘ یعنی مخلوط نظامِ تعلیم متعارف کراکر مرد وزن میں فطری اور خلقی شرم وحیا اور عفت وعصمت کو تارتار کردیا گیا۔ اسی کا شاخسانہ ہے جو اِن تعلیم گاہوں سے فارغ ہوکر حکومتی نظام میں شامل ہوتا ہے، وہ اپنے ماتحت ادارہ اور نظام میں وہی کچھ کرنا اور دیکھنا چاہتا ہے جس میں اس کی پرورش اور تربیت ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں کوئی ادارہ یا وزارت اپنی مسلم عوام کی اقدار، تہذیب اور کلچر کو دیکھ کر کوئی اسلامی حکم نافذ بھی کرنا چاہے تو یہ میڈیا اور ملکی اداروں کو چلانے والی بیوروکریسی دونوں دیوار بن کر سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں، اور ان کو اس وقت تک چین اور سکون نہیں آتا، جب تک وہ حکم واپس نہ لے لیا جائے۔
ہمارا ملک پاکستان اسلام کے نام پر بنا، لیکن آج ۷۲ سال ہوگئے، اس میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکا۔ بانیانِ پاکستان کے مخلص ساتھیوں نے قراردادِ مقاصد اور ان کے بعد پارلیمنٹ کے محبِ وطن اراکین نے پاکستان کے آئین کو قرآن وسنت کی روشنی میں مرتب اور مدوَّن کیا اور اس میں اسلامی حدود، ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت کو تحفظ فراہم کیا اور ایک اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ادارہ بنایا، تاکہ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی نظام کے سانچے میں ڈھالا جائے، لیکن آج تک اس ادارہ کی کسی ایک سفارش کو بھی قانون کی شکل نہیں ہونے دی گئی۔ ابھی حال ہی میں ’’کے پی کے‘‘ کے صوبائی محکمہ تعلیم نے صوبے میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے علاقائی کلچر کو سامنے رکھتے ہوئے والدین، اساتذہ اور عمائدین کی تجویز پر اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر عبایا اور برقع کو طالبات کے ڈریس کوڈ کا حصہ بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، تاکہ طالبات کو تعلیم کے لیے محفوظ ماحول میسر ہو اور والدین اپنی بچیوں کو اسکولوں اور کالجوں میں بھیجتے ہوئے روایتی خوف اور خدشات سے نکل کر سوچ سکیں، لیکن اس نوٹیفکیشن کے سامنے آتے ہی دین بیزار افراد اور میڈیا نے اس کے خلاف اتنا شوروغوغا کیا اور اس کی آڑ لے کر پردہ اور حجاب کے متعلق قرآنی حکم کے خلاف ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا کیا، یوں لگتا ہے جیسے یہ ملک مسلمانوں کا نہیں، اس کی بنیاد اسلام کے نام پر نہیں، اس کا آئین اسلامی نہیں اور قرآن وسنت اس کا سپریم لاء نہیں، بلکہ یہ ملک کافروں کا اور کسی مغربی یونین کا رکن ملک ہے، جہاں مغربی تہذیب اپنی تمام آلودگیوں کے ساتھ ناچ رہی ہے، جس کو میڈیا اور بیوروکریسی پورا پورا ایندھن فراہم کررہی ہے، یہاں تک کہ اس ابلاغی دہشت گردی کے ذریعہ ہراساں کرکے ’’کے پی کے‘‘ کی حکومت کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا، اس نوٹیفکیشن کا عکس یہ ہے:


اور اس کا ترجمہ یہ ہے :

’’دفتر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (فی میل) پشاور
آفیسر سرکیولر

گورنمنٹ کے تمام گرلزمڈل، ہائی اور ہائز سیکنڈری اسکولز آف ڈسٹرکٹ پشاور کے سربراہان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ تعلیمی اوقات کی پابندی کریں اور تمام طالبات کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ گون/ عبایا/ یا چادر استعمال کریں۔ پردہ، اپنے آپ کو چھپانے اور آستینوں کو ڈھانپنے کے لیے، تاکہ کسی غیراخلاقی واقعہ سے حفاظت کی جاسکے، اس نہایت اہم حکم پر فوری طور پر عمل درآمد کیا جائے۔                            ثمینہ غنی
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                 ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر(فی میل) پشاور
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                            (16-09-19ء)‘‘
حالانکہ پردہ کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ دیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
’’یَأَیُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَائِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ أَدْنٰی أَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَایُؤْذَیْنَ۔‘‘                        (الاحزاب: ۵۹)
’’اے نبی! کہہ دے اپنی عورتوں کو اور اپنی بیٹیوں کو اور مسلمانوں کی عورتوں کو نیچے لٹکالیں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں، اس میں بہت قریب ہے کہ پہچانی پڑیں تو کوئی ان کو نہ ستائے۔‘‘ 
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی قدس سرہٗ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:’’یعنی بدن ڈھانپنے کے ساتھ چادر کا کچھ حصہ سرسے نیچے چہرہ پر بھی لٹکالیویں۔ روایات میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر مسلمان عورتیں بدن اور چہرہ چھپا کر اس طرح نکلتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ دیکھنے کے لیے کھلی رہتی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ فتنہ کے وقت آزاد عورت کو چہرہ بھی چھپا لینا چاہیے۔ ‘‘
حضرت شاہ (عبدالقادر)صاحبؒ لکھتے ہیں: ’’یعنی پہچانی پڑیں کہ لونڈی نہیں ، بی بی ہے‘ صاحب ناموس۔ بدذات نہیں، نیک بخت ہے۔ تو بدنیت لوگ اس سے نہ اُلجھیں۔ گونگھٹ اس کا نشان رکھ دیا۔ ‘‘ 
شریعت کا مزاج یہ ہے کہ آزاد عورت بلاضرورت گھر سے باہر نہ جائے، جیسا کہ ’’وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ‘‘ اس پر دال ہے۔ اگر گھر سے باہر جانا ہی ہو تو باپردہ، نظروں کو جھکائے ہوئے اور اپنی زیب وزینت کو چھپائے ہوئے جایا کریں، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’الْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ۔‘‘   ( مشکوٰۃ:۲۶۹، ط: قدیمی)
’’ عورت سراپا ستر ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی تانک جھانک کرتا ہے۔‘‘
اگر اچانک کسی نامحرم عورت پر نظر پڑجائے تو اُسے فوراً ہٹالے اور دوبارہ قصداً دیکھنے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
’’یَا عَلِيُّ! لَا تُتْبِعِ النَّظْرَۃَ النَّظْرَۃَ فَإِنَّ لَکَ الْأُوْلٰی وَلَیْسَتْ لَکَ الْآخِرَۃُ۔‘‘ (مشکوٰۃ:۲۶۹)
’’ اے علی! اچانک نظر کے بعد دوبارہ نظر مت کرو، پہلی تو بے اختیار ہونے کی بناپر معاف ہے، مگر دوسری کا گناہ ہوگا۔‘‘ 
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاتون کے خط کے چند اقتباسات یہاں نقل کیے جائیں جو حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ نے ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں ’’پردہ‘‘ کے عنوان کے تحت نقل کیا ہے، جو حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی قدس سرہٗ کو موصول ہوا، اس میں وہ صاحبہ لکھتی ہیں:
’’ لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوکر پختہ ہوگیا ہے کہ حکومتِ پاکستان پردے کے خلاف ہے۔ یہ خیال اس کوٹ کی وجہ سے ہوا ہے جو حکومت کی طرف سے حج کے موقع پر خواتین کے لیے پہننا ضروری قرار دے دیا گیا ہے، یہ ایک زبردست غلطی ہے، اگر پہچان کے لیے ضروری تھا تو نیلا برقع پہننے کو کہاجاتا۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔ ’’فلم کے پردے پر اسلام اور اسلامی شعائر کی اس قدر توہین و استہزاء ہو رہا ہے اور علمائے کرام تماشائی بنے بیٹھے ہیں، سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور بدی کے خلاف‘ بدی کو مٹانے کے لیے اللہ کے اَحکام سنا سناکر پیروی کروانے کا فریضہ ادا نہیں کرتے، خدا کے فضل و کرم سے پاکستان اور تمام مسلم ممالک میں علماء کی تعداد اتنی ہے کہ ملت کی اصلاح کے لیے کوئی دِقت پیش نہیں آسکتی۔ جب کوئی بُرائی پیدا ہو‘ اس کو پیدا ہوتے ہی کچلنا چاہیے، جب جڑ پکڑ جاتی ہے تو مصیبت بن جاتی ہے۔ علماء ہی کا فرض ہے کہ ملت کو بُرائیوں سے بچائیں، اپنے گھروں کو علماء رائج الوقت بُرائیوں سے بچائیں، اپنی ذات کو بُرائیوں سے دُور رکھیں، تاکہ اچھا اثر ہو۔ تعلیمی ادارے جہاں قوم بنتی ہے غیراسلامی لباس اور غیرزبان میں ابتدائی تعلیم کی وجہ سے قوم کے لیے سودمند ہونے کے بجائے نقصان کا باعث ہیں۔ معلّم اور معلّمات کو اسلامی عقائد اور طریقے اختیار کرنے کی سخت ضرورت ہے، طالبات کے لیے چادر ضروری قرار دی گئی، لیکن گلے میں پڑی ہے، چادر کا مقصد جب ہی پورا ہوسکتا ہے جب معمر خواتین باپردہ ہوں، بچیوں کے ننھے ننھے ذہن چادر کو بار تصوّر کرتے ہیں، جب وہ دیکھتی ہیں معلمہ اور اس کی اپنی ماں گلی بازاروں میں سر برہنہ، نیم عریاں لباس میں ہیں تو چادر کا بوجھ کچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگتا ہے۔ بے پردگی ذہنوں میں جڑ پکڑ چکی ہے، ضرورت ہے کہ پردے کی فرضیت واضح کی جائے، اور بڑے لفظوں میں پوسٹر چھپواکر تقسیم بھی کیے جائیں۔ ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’جو اخبار ہاتھ لگے، دیکھئے! جلوۂ رقص و نغمہ، حسن و جمال، رُوح کی غذا کہہ کر موسیقی کی وکالت! کوئی نام نہاد عالم ٹائی اور سوٹ کو بین الاقوامی لباس ثابت کرکے اپنی شناخت کو بھی مٹا رہے ہیں، ننھے ننھے بچے ٹائی کا وبال گلے میں ڈالے اسکول جاتے ہیں، کوئی شعبہ زندگی کا ایسا نہیں جہاں غیروں کی نقل نہ ہو۔‘‘۔۔۔۔۔ ’’ہماری بدقسمتی، مسلم ممالک کی نکیل ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو ایمان بالمغرب میں اہلِ مغرب سے بھی دو قدم آگے تھے، جن کی تعلیم و تربیت اور نشوونما خالص مغربیت کے ماحول میں ہوئی تھی، جن کے نزدیک دِین و مذہب کی پابندی ایک لغو اور لایعنی چیز تھی اور جنھیں نہ خدا سے شرم تھی، نہ مخلوق سے۔ یہ لوگ مشرقی روایات سے کٹ کر مغرب کی راہ پر گامزن ہوئے، سب سے پہلے انہوں نے اپنی بہو، بیٹیوں، ماؤں، بہنوں اور بیویوں کو پردۂ عفت سے نکال کر آوارہ نظروں کے لیے وقفِ عام کیا، ان کی دُنیوی وجاہت و اقبال مندی کو دیکھ کر متوسط طبقے کی نظریں للچائیں، اور رفتہ رفتہ تعلیم، ملازمت اور ترقی کے بہانے وہ تمام اِبلیسی مناظر سامنے آنے لگے جن کا تماشا مغرب میں دیکھا جاچکا تھا۔ عریانی و بے حجابی کا ایک سیلاب ہے، جو لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا ہے، جس میں اسلامی تہذیب و تمدن کے محلات ڈُوب رہے ہیں، انسانی عظمت و شرافت اور نسوانی عفت و حیا کے پہاڑ بہہ رہے ہیں۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ سیلاب کہاں جاکر تھمے گا اور انسان، انسانیت کی طرف کب پلٹے گا؟ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ جب تک خدا کا خفیہ ہاتھ قائدینِ شر کے وجود سے اس زمین کو پاک نہیں کردیتا، اس کے تھمنے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘ (آپ کے مسائل اور ان کا حل، ج:۸، ص:۴۰- ۴۳)
امام ابونعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے حلیۃ الاولیاء میں یہ حدیث نقل کی ہے:
’’عَنْ أَنَسٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا خَیْرٌ لِلنِّسَائِ ؟ - فَلَمْ نَدْرِ مَا نَقُوْلُ- فَجَائَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی فَاطِمَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھَا فَأَخْبَرَھَا بِذٰلِکَ، فَقَالَتْ: فَھَلَّا قُلْتَ لَہٗ خَیْرٌ لَھُنَّ أَنْ لَّا یَرَیْنَ الرِّجَالَ وَلَا یَرَوْنَھُنَّ۔ فَرَجَعَ فَأَخْبَرَہٗ بِذٰلِکَ، فَقَالَ لَہٗ: مَنْ عَلَّمَکَ ھٰذَا؟ قَالَ: فَاطِمَۃُ! قَالَ: إِنَّھَا بِضْعَۃٌ مِّنِّيْ۔سَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہٗ قَالَ لِفَاطِمَۃَ: مَا خَیْرٌ لِلنِّسَائِ ؟ قَالَتْ: لَا یَرَیْنَ الرِّجَالَ وَلَا یَرَوْنَھُنَّ، فَذَکَرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّمَا فَاطِمَۃُ بِضْعَۃٌ مِّنِّيْ۔‘‘  (حلیۃ الاولیاء ، ج:۲، ص:۴۰-۴۱)
ترجمہ: ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے فرمایا: بتاؤ! عورت کے لیے سب سے بہتر کون سی چیز ہے؟ ہمیں اس سوال کا جواب نہ سوجھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں سے اُٹھ کر حضرت فاطمہ t کے پاس گئے، ان سے اسی سوال کا ذکر کیا، حضرت فاطمہ t نے فرمایا: آپ لوگوں نے یہ جواب کیوں نہ دیا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہے کہ وہ اجنبی مردوں کو نہ دیکھیں اور نہ ان کو کوئی دیکھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے واپس آکر یہ جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جواب تمہیں کس نے بتایا؟ عرض کیا: فاطمہ نے۔ فرمایا: فاطمہ آخر میرے جگر کا ٹکڑا ہے نا۔ سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت فاطمہ t سے پوچھا کہ: عورتوں کے لیے سب سے بہتر کون سی چیز ہے؟ فرمانے لگیں:یہ کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور نہ مرد اُن کو دیکھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا تو فرمایا: واقعی فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔‘‘
آج میڈیا پر بے لباسی اور بے شرمی کے جو دلائل دیئے جارہے ہیں اور اسلامی تعلیمات کے خلاف جو کچھ کہاجارہا ہے اس پر اظہارِ افسوس اور ’’إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون ‘‘ پڑھنے کے اور کیا کہاجاسکتا ہے۔ بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ شرم وحیا عورت کی زینت اور پردہ اس کی عزت وعصمت کا نگہبان ہے۔ سب سے پہلی ذمہ داری ہماری خواتین، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی ہے کہ شریعتِ اسلامی کے پردہ اور حجاب کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو ازواجِ مطہرات اور حضرت فاطمہ t کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔
۲:- دوسری ذمہ داری والدین، بھائیوں،شوہروں اور بیٹوں کی ہے کہ جو چیز اسلامی غیرت کے خلاف ہے، اسے برداشت نہ کریں، بلکہ اس کی اصلاح کے لیے فکر مند ہوں۔حدیث میں آتا ہے:
’’حیا اور ایمان لازم وملزوم ہیں، جب ایک جاتا ہے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔‘‘
۳:-تیسری ذمہ داری معاشرہ کے برگزیدہ اور معزز افراد کی ہے کہ اس بے پردگی اور طغیانی کے خلاف جہاد کریں اور اپنے اثرورسوخ کی پوری طاقت کے ساتھ معاشرے کو نکالنے کی فکر کریں۔
۴:-چوتھی ذمہ داری حکومت کی ہے کہ اس کے انسداد کے لیے عملی اقدامات کرے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا معاشرہ ملعون اور اخلاق باختہ قوموں کی روش پر چل نکلا ہے۔ وضع، قطع، نشست وبرخاست اور طوروطریق سب بدکردار وبداطوار قوموں کے اپنائے جارہے ہیں۔ اگر اس خوفناک ذلت وگراوٹ اور شروفساد کی اصلاح کی طرف توجہ نہ دی گئی تو اندیشہ اس بات کا ہے کہ خدانخواستہ اس قوم پر قہرِ الٰہی نازل نہ ہو، نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں تمام اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو مغربی تہذیب کے زہریلے اثرات سے محفوظ فرمائے اور آخرت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے، آمین، إن أرید إلا الإصلاح مااستطعت وما توفیقی إلا باللّٰہ علیہ توکلت وإلیہ أنیب۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین