بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو الحجة 1446ھ 02 جون 2025 ء

بینات

 
 

حج کے محاسن 

حج کے محاسن 


کسی حکم کا اصل حسن اور خوبی اس کا شریعتِ مطہرہ کی طرف سے مامور بہ ہونے میں مضمر ہے، کیونکہ اللہ جل شانہ حکیم ذات ہے اور حکیم کبھی بھی ایسے کام کا حکم نہیں دیتا جس میں ذرہ بھر قباحت اور برائی ہو۔ شریعت کے ہر حکم میں بے پناہ حکمتیں اور بے شمار خوبیاں پنہاں ہوتی ہیں جن تک ہر شخص کی رسائی نہیں ہوتی، لیکن بعض خوبیاں ایسی کھلی ہوئی اور ظاہر ہوتی ہیں کہ بعض دفعہ ایک عام انسان بھی ان کا اِدراک کرلیتا ہے۔ ہم ذیل کی سطور میں دین اسلام کے ایک اہم رکن حج کے بارے میں - بطور مشت نمونۂ خروارے- چند محاسن اور خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں:
1- ـ حج کا معنی ہے: کسی چیز کا عزم کرنا - عزم کا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے اور پورے بدن میں دل اشرف الاعضاء ہے، تو حج کا نام ’’حج‘‘ رکھنے میں ایک باریک سا اشارہ ہے کہ حج عبادات میں ایک بلند مقام رکھتا ہے، اس وجہ سے تو اس کو حج (قصد و عزم) کا نام دیا گیا، جس کا تعلق اعضاء انسان میں سب سے اہم عضو (قلب) کے ساتھ ہے۔ نیز عزم و ارادہ آدمی کو منزلِ مقصود تک پہنچاتا ہے، تو حج بھی جس کا معنی ہی عزم ہے‘ انسان کو اپنے مقصود یعنی رضائے الٰہی کی طرف پہنچاتا ہے ۔
2- اعمالِ حج کی عمومی کیفیت میدانِ حشر کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے کہ جس طرح لوگ اپنی خواب گاہوں یعنی قبروں سے اُٹھ کر محشر میں اس حالت میں جمع ہوں گے کہ وہ بے لباس، ننگے سر، ننگے پیر، اضطراب و پریشانی کی حالت میں ہوں گے ، کچھ اسی طرح کی کیفیت حجاج کرام کی بھی ہوتی ہے، کیونکہ ان کے بھی نہ سر پر ٹوپی ہوتی ہے نہ بدن پر کرتا، نہ خوشبو اور نا ہی زیب و زینت کا کوئی سامان، بلکہ ایک مجنونانہ انداز سے کرب اور بے چینی کی حالت میں مارے مارے پھر کر میدانِ عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔
3- ـ حج کے لیے ظاہر ہے سفر اختیار کرنا پڑتا ہے، اس لیے جب حاجی رختِ سفر باندھ کر نکلتا ہے تو اس سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال اور محبین سے فراق کا خوگر بنتا ہے اور ایک دن دنیا سے تو بہرحال کوچ کرنا ہے، لہٰذا سفرِ حج کی وجہ سے جدائی اور فراق کے ساتھ اُنس حاصل ہوتا ہے، جس سے موت کے ذریعے واقع ہونے والی جدائی حاجی کے لیے قابلِ تحمل ہو جاتی ہے، ورنہ سفرِ آخرت کی جان گداز جدائی پر طرفین (مسافر اور پس ماندگان) سے خوف، پریشانی اور بے صبری کے احوال اور جزع فزع کے دردناک مناظر سب کے سامنے ہیں ۔
4-ـ جب حاجی حج کے لیے عازمِ سفر ہوتا ہے تو وہ سفر کے متعلق ضروریات کو جمع کرنے لگتا ہے اور باتجربہ لوگوں سے پوچھ پوچھ کر ایک ایک چیز کا خوب اہتمام کرتا ہے، حالانکہ یہ ایسا سفر ہے کہ جس میں اگر کسی چیز کی کمی محسوس ہو بھی جائے تو وہ اس کو حرم کی سرزمین میں پوری کر سکتا ہے، بلکہ وہاں تو ہر چیز کی فراوانی ہوتی ہے، نیز یہ ایسا سفر ہے کہ اس سے حاجی واپس بھی آجاتا ہے تو وسائل جمع کرنے کی اس تگ ودو میں اس کو یہ فکر بھی دامن گیر ہو جائے گی کہ جب اس عارضی چند روزہ سفر کے لیے اتنی محنت اور بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے تو سفرِ آخرت کے لیے تو اس سے کہیں زیادہ محنت اور تیاری کی ضرورت ہے، کیونکہ وہاں پر تو صرف وہ چیز دستیاب ہوگی جو آدمی دنیا سے لے کر جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ سفر انوکھا بھی ہے، اس لیے کہ اس سے واپس آنے کا بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔
5-ـ جب حاجی سفر کے لیے نکلتا ہے اور ان لوگوں کو راحت و آرام میں پاتا ہے جو اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ سہولت کا سامان لے کر گئے ہوتے ہیں تو چونکہ حاجی کی ادائیں اور حج کا ماحول آخرت کی بھر پور منظر کشی ہے، اس لیے حاجی کو یہ عبرت حاصل ہوجاتی ہے کہ کل محشر میں بھی وہ شخص زیادہ خوش و خرم ہوگا جو ایمان کے بعد زیادہ سے زیادہ اعمال لے کر گیا ہوگا، یہ سوچ کر اس کے عملِ صالح بجا لانے کے شوق اور ولولے میں اضافہ ہو گا ۔
6-ـ یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ حج کی برکت سے آدمی بڑی حد تک بخل اور کنجوسی جیسے مہلک روحانی امراض سے نجات پا لیتا ہے، کیونکہ سفرِ حج میں دل چاہے یا نہ چاہے‘ اپنی صحت کو برقرار رکھنے اور موت سے بچنے کے لیے اس کو مال خرچ کرنا پڑتا ہے، جس کی برکت سے مال خرچ نہ کرنے کی بری عادت چھوٹ جاتی ہے ۔
7- ـ حج کے مبارک سفر کی بدولت مسلمان توکل علی اللہ کی صفت سے آراستہ ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ سفر حج میں ضرورت کی چیزیں ساتھ لے جانے کی مقدور بھر کوشش کرتا ہے اور یہ تو ممکن نہیں کہ ہر وہ چیز اپنے ساتھ لے کر جائے جس کی ضرورت اس کو پیش آتی ہے، اس لیے وہ زیادہ اہم چیزیں اُٹھا کر باقی کو چھوڑ دیتا ہے کہ چلو اللہ عافیت کا معاملہ فرما دے گا اور یہی توکل علی اللہ کی حقیقت ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: ’’توکل یہ ہے کہ تمام اسبابِ ظاہری کو اپنی قدرت کے مطابق جمع کرے اور اختیار کرے اور پھر نتائج اللہ کے سپرد کرے اور ان ظاہری اسباب پر فخر اور ناز نہ کرے، بلکہ اعتماد صرف اللہ پر رہے۔ (معارف القرآن:۲/۱۶۹)
8- ـ حج کے محاسن میں سے ایک یہ ہے کہ سفر حج کی وجہ سے اس کے اعمال کی قیمت بڑھ جاتی ہے، مثلاً: حرمِ مکی میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ اور حرمِ مدنی میں ۵۰ ہزار نمازوں کے برابر ہے ۔
 اسی طرح حدیث شریف میں وارد ہے کہ: ’’جو شخص حج کے لیے پیدل جائے اور آئے، اس کے لیے ہر ہر قدم پر حرم کی نیکیوں میں سے سات سو نیکیاں لکھی جائیں گی، کسی نے عرض کیا کہ حرم کی نیکیوں کا کیا مطلب؟ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ: حرم کی ہر نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔‘‘ (فضائلِ حج بحوالۂ حاکم وصححہ)
حضرت حسن بصری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: ’’حرم میں ایک روزہ ایک لاکھ روزوں کا، اور ایک درہم صدقہ کرنا ایک لاکھ درہم کا ثواب رکھتا ہے اور اسی طرح ہر نیکی جو حرم میں کی جائے، غیر حرم کی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔‘‘ (فضائلِ حج بحوالہ اتحاف)  اس کے علاوہ سفرِ حج میں وہ اپنے دوست و احباب اور دیگر حجاج کی طرف سے پہنچائی گئی تکالیف پر صبر بھی کرتا ہے، جس پر اس کو اجر ملتا ہے ۔ امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: ’’حج کے راستے میں تکلیفیں اُٹھانا جہاد میں تکلیف اٹھانے کے برابر ہے۔‘‘ (فضائل حج بحوالہ اتحاف)
9- ـ سفرِ حج میں حاجی کافی مشقتیں برداشت کرتا ہے، سفر در سفر اور مسلسل بے خوابی کی وجہ سے اس کا بدن چور چور ہو جاتا ہے، لیکن جب حرم شریف پہنچ کر بیت اللہ کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرتا ہے تو اس کی تمام تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔ اندازہ لگائیں جب بیت اللہ کے دیکھنے کی یہ شان ہے تو خود خالقِ بیت اللہ کے دیدار کا کیا عالم ہوگا، سبحان اللہ ! تو قیامت کے دن مسلمان جتنا بھی کٹھن اور پریشان کن حالات سے گزر جائے، مگر جب اس کی نجات کا فیصلہ ہو جائے گا اور دیدارِ الٰہی سے بہرہ ور ہوگا تو اس کی تمام پریشانیوں کا یوں خاتمہ ہو جائے گا، گویا اس نے کبھی مشقت نام کی کوئی چیز دیکھی ہی نہ تھی ۔
10-ـ جس طرح مرنے کے بعد میت سے سلے ہوئے کپڑے اُتار کر کفن پہنایا جاتا ہے اور زیب و زینت کی تمام چیزوں کو اس سے الگ کیا جاتا ہے، چنانچہ نہ اس کے ناخن اور مونچھیں کترے جاتے ہیں، نہ اس کے بالوں کو کنگھا کیا جاتا ہے اور نہ ہی تیل اور سرمہ لگایا جاتا ہے، بالکل اسی طرح حاجی احرام باندھتا ہے تو کُرتا اور سلے ہوئے کپڑے جو زندوں کا لباس ہے دور کر کے دو کفن نما چادریں اوڑھ لیتا ہے اور آرائش کی تمام چیزوں سے اجتناب کرتا ہے، اس میں یہ اشارہ مقصود ہے کہ حاجی جب احرام باندھتا ہے تو گویا وہ مر جاتا ہے اور جب سفرِ حج پر روانہ ہوتا ہے تو گویا وہ عالمِ آخرت کی طرف چلا جاتا ہے، پھر جب حج سے فراغت کے بعد بخیر و عافیت گھر لوٹتا ہے تو گویا عالمِ آخرت میں اسی کی یہ تمنا پوری کر دی گئی ہے: ’’ يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰيَاتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ مِنَ المُؤْمِنِيْنَ‘‘ اور اس کو ایک بار پھر آخرت کی تیاری کا موقع دے دیا گیا ہے۔ حاجی اس مماثلت کو خاطر میں لا کر سابقہ گناہوں کے دوبارہ ارتکاب سے بچنے کی کوشش کرتاہے اور اب خوب اہتمام کے ساتھ اعمال کی پابندی شروع کر کے عمل کا سچا اور وعدے کا پکا مسلمان بننے کی سعی کرتا ہے، تاکہ وہ وعیدِ خداوندی ’’ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُہُوْا عَنْہُ‘‘ کا مصداق نہ بن جائے۔ ایک بزرگ کے بارے میں قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں قبر نما ایک گڑھا کھود رکھا تھا، وہ گاہے گاہے اس میں اُتر کر اپنے آپ کو مردہ تصور کرتے اور یہ آرزو کرتے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے دوبارہ زندگی عطا فرمائی تو میں ذرہ برابر اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا، اس کے بعد گڑھے سے نکل کر کہتے: اللہ نے میری تمنا پوری کر دی اور مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج کر تیاری کا ایک اور موقع فراہم کیا ۔ اس طریقے کے اپنانے سے ان کو گناہوں سے بچنے کا ایک نیا شوق و حوصلہ مل جاتا ۔
11- ـ جس طرح نمازی نماز کے آخر میں سلام پھیر کر نماز سے نکل جاتا ہے جس کے بعد اس کے لیے نماز کے منافی جائز کام حلال ہو جاتے ہیں، اسی طرح مُحرم حلق یا قصر کے ذریعےاحرام سے نکل جاتا ہے، جس کے بعد اس کے لیے حالت احرام میں ممنوع چیزیں جائز ہو جاتی ہیں، چنانچہ وہ سلے ہوئے کپڑوں، ٹوپی اور عام چپل کا استعمال شروع کرتا ہے اور اپنے جسم سے میل کچیل اور طبیعت کو ناگوار چیزیں دور کر دیتا ہے تو گویا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ حاجی سے فرماتے ہیں کہ تو نے اپنے بدن سے وہ ظاہری چیزیں جو تجھ کو ناگوار تھیں، میرے حکم کے مطابق دور کیں تو میں اس کا زیادہ لائق ہوں کہ اس کے بدلے میں اپنی معافی کے ذریعے تجھ سے وہ مخفی کدورتیں یعنی معاصی دور کر دوں جو مجھے نا گوار ہیں ۔
12 ـ- حج کے محاسن میں سے ایک طوافِ صدر (الوداعی طواف) ہے، جس طرح ایک آدمی کسی کے ہاں مہمان بن کر کئی دن ٹھہرتا ہے اور جب لوٹنے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے میزبان سے باقاعدہ اجازت لے کر رخصت ہوجاتا ہے، اسی طرح حاجی اللہ کا مہمان بن کر اللہ کے گھر میں کئی دن گزارتا ہے، جب واپسی کا ارادہ کرتا ہے تو عین انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ گھر کے مالک یعنی اللہ جل مجدہٗ سے اجازت مانگ کر واپس ہو جائے، جس کے لیے طوافِ صدر یعنی رخصتی کا طواف مشروع ہوا۔ پھر جس طرح میزبان واپسی کے وقت مہمان کا تحفے تحائف سے اعزاز و اکرام کرتا ہے، خاص کر جب میزبان بادشاہِ وقت ہو اور مہمان کو بلایا بھی اسی نے ہو، بالکل اسی طرح اللہ جل شانہ بھی حاجی کو رخصت کرتے وقت قیمتی تحائف سے نوازتا ہے، جس کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اس کو بخشتا ہے، کیونکہ وہ تو شہنشاہ (بادشاہوں کا بادشاہ ہے) اور دینے کے لیے اس کے پاس کروڑوں نعمتیں ہیں، جن میں سے سب سے بڑی نعمت، اللہ کی رضا اور مغفرت کا اعلان ہے۔

(ماخوذ من محاسن الإسلام لأبي عبد اللہ محمد بن عبد الرحمٰن البخاري المتوفی ۵۴۶ھ بتغيير وتفصيل)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین