بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حج کے بہترین انتظامات اور حُجاج کو پیش آمدہ چندفقہی مسائل!

حج کے بہترین انتظامات  اور حُجاج کو پیش آمدہ چندفقہی مسائل!

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

ماہنامہ بینات ذوالحجہ ۱۴۳۷ھ کے شمارہ میں بصائر وعبر کے تحت ’’حجاج کرام سے چند گزارشات‘‘ کے عنوان سے اداریہ تحریر کیا گیا تھا، اس اداریہ میں حجاج کرام سے کئی اہم گزارشات کے علاوہ دو مسائل کے حل کی طرف نشان دہی کی گئی تھی۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذِ محترم، تخصص فی الفقہ کے نگران، ہمارے رفیق کار، محترم ومکرم حضرت مولانا مفتی رفیق احمد بالاکوٹی مدظلہٗ اس سال حج کی ادائیگی کے لیے تشریف لے گئے تھے، جنہوں نے حج کے متعلق انتظامات اور معاملات کے علاوہ حج کی ادائیگی میں پیش آمدہ مسائل کو بنظر غائر قریب سے مشاہدہ کیا اور دیکھا، اس لیے انہوں نے جہاں دورانِ حج دونوں حکومتوں کے بہترین انتظامات پر اُن کو مبارک باد اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا، وہاں انہوں نے حُجاج کرام کو دینی مسائل میں جو مشکلات اور اُلجھنیں پیش آتی ہیں، انہیں حل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ چونکہ ایسے مسائل حکومتی سطح پر ہی اُٹھائے جاسکتے ہیں اور حکومتیں ہی اُنہیں حل کراسکتی ہیں، اس لیے انہوں نے دونوں حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ وہ ان مسائل کو باہم مشاورت سے حل کریں، تاکہ حجاج کرام کا حج طریق سنت کے مطابق ادا ہوسکے۔ حضرت مفتی صاحب کی یہ تحریر کسی قدر حک و اضافہ کے بعد افادۂ عام کی غرض سے بطورِ اداریہ نقل کی جاتی ہے۔ ’’مسلمان بیت اللہ شریف کاحج کرنے کے لیے ہر سال دنیا بھر سے تیس سے چالیس لاکھ کی تعدادمیں مکہ مکرمہ کے مشاعر مقدسہ میں جمع ہوتے ہیں۔ حج کا یہ اجتماع دنیا کا سب سے بڑا اجتماع شمار ہوتا ہے۔ اتنی بڑی تعدادکے لیے رہن سہن ، خورد و نوش، صفائی وستھرائی اور نظم ونسق کرنا اور ہر طرح ان کی سہولت اور آرام کا خیال رکھنا ایسا کارنامہ ہے، جس کی نظیر اور مثال مشکل ہے۔ یہ تمام تر انتظامات اور سہولیات حضرت ابراہیم خلیل اللہ m کی اُن دعاؤں کا ثمر ومظہرہیں جو انہوں نے بیت اللہ کی آبادی اور یہاں کے زائرین کے لیے اللہ تعالیٰ سے مانگی تھیں، اسے آپ m کامعجزہ اوربیتِ حرام کی زندہ وتابندہ برکت وکرامت ماننے کے علاوہ کوئی اور توجیہ سمجھ میں نہیں آتی۔ جتنے حجاج کرام حرمین شریفین میں جمع ہوتے ہیں، ان کا مکمل ڈیٹا محفوظ رکھنا، ان کی رہائش کے انتظامات، ٹرانسپورٹ کی سہولیات اور تمام مراحل میں ایک نظم میں سب کو چلانا اور سنبھالنا یہ سعودی حکومت کا ایسا کارنامہ ہے جس پر پوری امت مسلمہ کو سعودی حکومت کا شکرگزار ہونا چاہیے اور ان کی خدمات کا برملا اعتراف کرنا چاہیے۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق اسباب کی دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی مرتب اورمنظم اجتماع نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح حج آپریشن کے حوالے سے حکومت پاکستان کی حالیہ توجہات اورمساعی کے اعتراف میں بخل وتأمل سے کام لینابھی ناانصافی ہوگی۔ الحمدللہ! ہماری موجودہ حکومت بالخصوص وزارتِ مذہبی امورنے جس نیک دلی سے حج جیسے اسلام کے رکن کو عبادت اور فرض سمجھتے ہوئے اُس کے لیے انتظامات کیے، اس سے اسلامی دنیامیں پاکستان کے اسلامی تشخص کو خوب جلا ملی ہے، اور ہر پاکستانی حاجی اپنے ملک اور وزارتِ مذہبی امور کے وزیرمحترم کے لیے دعاگو اور ان کی تعریف میں رطب اللسان دکھائی دیا۔ حج کے ابتدائی مراحل سے لے کر حرمین شریفین پہنچنے تک ہر ہر مرحلہ میں واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ پاکستانی حجاج کسی خیرخواہ، ہمدرد اور فرض شناس حکومت کے زیرانتظام مذہبی فریضہ ادا کررہے ہیں۔  مدینہ طیبہ میں تمام حجاج کرام کی رہائش مرکزیہ میں اتنی قریب تھی کہ معذور، کمزور اور ضعیف حجاج بھی بآسانی حرم نبوی میں حاضرہوجاتے تھے، جبکہ مکہ مکرمہ میں ٹرانسپورٹ کے انتظامات کو مسلسل متحرک چین سے تعبیر کرنا مبالغہ نہیں ہوگا۔ کوئی بھی حاجی کسی بھی وقت حرم آنا یا جانا چاہتا، اُسے بروقت سواری کی سہولت میسر تھی۔ٹرانسپورٹ کے حوالے سے حکومتی انتظامات میں کوئی کمی نہیں تھی، اگر کمی تھی تو وہ صرف ہمارے قومی مزاج کی تھی، یعنی حرم سے واپسی پر ہزاروں لوگ چالیس سیٹر پہلی بس میں سوار ہونے کی کوشش کرتے تھے، جس سے دھکم پیل کی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی، مگر شاباش ہے خدام الحجاج کو جنہوں نے اس بے ہنگم صورتِ حال میں انتظامات کو بحال رکھا اور بعض حجاج کے بے جا فرمودات کو بڑے حوصلے اور بردباری سے سنا اور اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھا۔ ہم نے اپنی زندگی میں اپنے پاکستانی منتظم بھائیوں کو اتنی برداشت اور بردباری میں کبھی نہیں دیکھا۔ ہمارے ہاں تو معمولی ذمہ دار بڑے سے بڑے عزت دار کی اہانت سے بھی نہیں کتراتا، مگر ہمارے خدام الحجاج نے ہر ہر موقع پر تحمل و بردباری اور فرض شناسی کی بہترین مثال قائم کی۔ اس پراللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے نیک دل، فرض شناس اور خداترس وزیر مذہبی امور جناب سردار محمد یوسف صاحب کے لیے حجاج نے حرمین میں بہت دعائیں کیں، شاید ان دعاؤں ہی کے نتیجے میں پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت تمام تر سازشوں اور بحرانوں کے باوجود اطمینان کے ساتھ اپنا حکومتی دورانیہ پورا کرنے جارہی ہے۔ اس پر مستزاد حکومت کی طرف سے مختلف مینیو کے ساتھ تینوں وقت تازہ کھانا باوقار انداز میں معزز مہمانوں کو پیش کیا جاتا تھا جو حج وعمرہ کی ایک بڑی مشکل کا انتہائی موزوں حل اور بڑی خدمت ہے۔ الغرض انتظامی لحاظ سے جتنی بہتری ہوسکتی تھی، ہماری وزارتِ مذہبی امور نے اس میں کوئی کمی نہیں کی، یہ تسلسل اگر اسی طرح جاری رہا تو امید ہے کہ حج کے بہترین انتظامات کرنے میں سعودی حکومت کے بعد پاکستانی حکومت کا ہی نمبر ہوگا۔ البتہ حج کے دوران کچھ شرعی مسائل قابل توجہ محسو س ہوئے جو سعودی اور پاکستانی دونوں حکومتوں کے باہمی تعاون کے محتاج ہیں، اس لیے کہ یہ ایسے مسائل ہیں جن میں سے بعض سے حج فاسد ہونے یا دم واجب ہونے کے سوالات بھی پیدا ہورہے ہیں۔ ہمارا حسن ظن ہے کہ پاکستانی حنفی حجاج کی ان مشکلات سے شاید سعودی اور پاکستانی حکومتیں آگاہ نہیں ہیں، ورنہ دیگر بہترین انتظامات کے ساتھ ساتھ ان فقہی مشکلات کا مناسب حل بھی تجویز ہوچکا ہوتا۔  ہماری حکومت بالخصوص وزیرمذہبی امور محترم جناب سردار محمد یوسف صاحب خصوصی دلچسپی لے کر حکومتی سطح پرسعودی حکومت سے بات چیت کرکے ان مسائل کو حل کرائیں، تاکہ فریضۂ حج تمام مسالک کی رعایت کے ساتھ ادا ہو اور کسی کوفقہی اشکال یا مخصوص فکر و عمل کی تسلیط کی بدگمانی بھی نہ ہو، اس لیے کہ اس وقت باہمی اتحاد، مؤاسات اور مواخات کی اشد ضرورت ہے۔ بہرحال چند مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے: ۱:… حرمین شریفین میں گزشتہ کچھ عرصہ سے جمعہ کی پہلی اذان زوال سے پہلے دے دی جاتی ہے، اور اس کے بعد لوگ کھڑے ہوکر سنتیں اورنوافل پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ جب کہ مذاہب اربعہ کے ائمہ مجتہدین کااس پراتفاق ہے اور اب تک معمول بھی یہی چلا آرہا ہے کہ جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے اور ظہر کا وقت زوال کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ زوال سے پہلے جمعہ کی نماز جائز نہیں، جب جمعہ کی نماز زوال سے پہلے نہیں ہوسکتی تواس جمعہ کی نماز کے لیے زوال سے پہلے دی جانے والی اذان بھی قبل از وقت ہی شمار ہوگی۔ جیسے مغرب کے وقت سے پہلے مغرب کی اذان کہی جائے تواس اذان کا مغرب کی نماز کے ساتھ تعلق نہیں، اسی طرح زوال سے پہلے دی جانے والی اذان کا جمعہ کی نماز کے ساتھ تعلق نہیں۔ ممکن ہے سعودی حکومت نے امام احمد بن حنبل v کے اس قول کی پیروی میں یہ فیصلہ کیاہوکہ امام احمدبن حنبل v کے ہاں زوال سے قبل بھی جمعہ کی ادائیگی ہوسکتی ہے، یا یہ کہ جمعہ کے دن زوال نہیں ہوتااورسعودی حکومت چونکہ امام احمدبن حنبلv کے مسلک کی حامل ہے، اس لیے انہوں نے یہ فیصلہ کررکھاہو، مگر اس فیصلہ اورعمل میں اصولی اور فقہی اعتبار سے کئی اشکالات ہیں: الف…امام احمدبن حنبل v کامذکورہ قول محض جوازی ہے، مفتیٰ بہ اورمعمول بہ نہیں، بلکہ متروک اورعمل متوارث کے خلاف ہے۔ اب تک حرمین اور دیگر بلادِ اسلامیہ کا عمل اس پر شاہد عدل ہے۔ حنابلہ کی بنیادی کتاب ’’المغنی لابن قدامۃ‘‘ اور ’’کشاف القناع لمنصور البہوتی‘‘ میں جمعہ کی نماز کاصحیح وقت زوال کے بعد ہی منقول ہے اور اس کوصحیح دلائل سے مدلل ہونے کے علاوہ اختلاف سے دوری کا ذریعہ بھی بتایا ہے۔ لہٰذا جب حنابلہ کے ہاں راجح،معمول بہ اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق جمعہ کی نماز زوال کے بعدہی پڑھی جاتی ہے تواس نمازِ جمعہ کے لیے دی جانے والی اذان بھی زوال کے بعد ہی مشروع کہلائے گی۔ اس لیے زوال سے پہلے دی جانے والی اذان گویا حنابلہ کے مرجوح اور غیرمعمول بہ قول کے مطابق دی جارہی ہے، جب کہ فقہائے کرام اوراہل فتویٰ کے نزدیک ایسا قول قابل عمل یالائق افتاء نہیں ہوا کرتا۔ (’’صفۃ الفتوی والمفتی والمستفتی‘‘ لأحمدحمدان الحنبلی،تحقیق ناصرالالبانی) ب…پہلی اذان کے بعدلوگ مکروہ وقت کا دھیان رکھے بغیرجمعہ کی سنتیں اورنوافل وغیرہ پڑھنا شروع کردیتے ہیں ، جوکہ مکروہ اوقات میں نمازپڑھنے کی ممانعت والی صریح، صحیح اور مطلق احادیث کے سراسر خلاف ہے۔ ج… اس عمل کے مطابق نمازِ جمعہ سے پہلے کی سنتیں یا تو وقت داخل ہونے سے پہلے ہی پڑھ لی جاتی ہیں، یا سرے سے پڑھی ہی نہیں جاتیں، کیونکہ زوال ہوتے ہی بلاتاخیر خطبۂ جمعہ کے لیے امام حرم تشریف لے آتے ہیں۔ امام صاحب کے آنے کے بعد ’’إذا ظہرالإمام فلاصلوۃ ولاکلام‘‘ کی رو سے نماز یا کسی قسم کی عبادت ممنوع ہے۔ اب جن حجاج کرام کے مسلک کے مطابق جمعہ نماز سے پہلے چاررکعت سنت موکدہ ہیں، وہ مجبوراًیہ سنتیں چھوڑتے ہیں ، اور احناف کے ہاں جمعہ نماز کی پہلے والی سنتوں کی نمازِجمعہ کے بعد قضاء بھی نہیں ہے۔ بایں طوریہ طرزِ عمل ایک اعتبار سے مستقل طورپرترکِ سنت کے لیے مجبورکرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ د… اگر مذکورہ طرزِ عمل کو حنابلہ کے فتویٰ کے مطابق درست طرزِ عمل قرار دیا جائے اور اُسے متروک اور مرجوح نہ کہاجائے تو بھی دیگر فقہی مذاہب کی رعایت کے پیش نظر یہ طرزِ عمل درست نہیں،کیونکہ احناف کے علاوہ مالکیہ اور شافعیہ کے مسلک کی روسے بھی جمعہ کی اذان زوال سے پہلے دینا یا جمعہ کی پہلے والی سنتوں کو مستقل طور پر ترک کرنا جائز نہیں۔ اس لیے امت ِمسلمہ کی اکثریت کی رعایت کرنا دینی وانتظامی لحاظ سے سعودی حکومت کا فرض بنتا ہے۔ اور اب تک جو معمول چلا آرہا تھا، اسی پر عمل پیرا رہنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ اس میں سب کی رعایت ہے، ورنہ ممکن ہے کہ انتہاء پسندلوگ اس طرزِ عمل کو مخصوص فقہ کے شعوری تسلط کے کھاتے میں ڈال کر کوئی فتنہ وفساد کھڑا کردیں، اُمتِ مسلمہ جس کی قطعاً متحمل نہیں اور موجودہ نازک حالات میں دانشمندی کے سراسر خلاف ہے۔ الغرض جمعہ کی اذان کا قبل از وقت ہونا اور اس کے نتیجے میں جمعہ کے مسنون اعمال کا ترک لازم آتا ہے۔ اُمت ِمسلمہ کے اکثریتی نقطۂ نظرکی رعایت کی خاطر اس کی اصلاح واجب اور ضروری ہے۔ اگر حرمین شریفین اور مشاعر اسلامیہ کے مؤقر منتظمین اس دینی مشکل کا احساس فرمالیں اور اس کا حل چاہیں تو صرف پانچ منٹ کی قربانی سے یہ اشکال رفع ہوسکتا ہے، وہ یوں کہ: جمعہ کی پہلی اذان زوال ہوتے ہی فوراً دے دی جائے، اس کے بعد پانچ منٹ سنتوں کی ادائیگی کے لیے وقفہ کرلیا جائے۔ اس کے بعد امام وخطیب منبر نشین ہوجائیں اور جمعہ کے بقیہ اعمال ا س کے بعد شروع کردیئے جائیں تو اس میں حنفیہ ،شافعیہ اور مالکیہ سب مسالک کی رعایت ہوگی،اورجمعہ کی سنتیں ادا کرنے کا موقع مل جائے گا، اور ان سنتوں کو مستقل طور پر ترک کرنے کا مفسدہ بھی لازم نہیں آئے گا، بلکہ اس طرزِ عمل سے خود حنابلہ کے اصل مذہب کی رعایت بھی ہوجائے گی۔ ۲:…ظہر کی اذان واقامت کے دوران وقفہ بھی قدرے بڑھانے کی ضرورت ہے، عام طور پر یہ وقفہ اتنا معمولی ہوتا ہے کہ چار رکعت کی مسنون طریقے سے اعتدال کے ساتھ ادائیگی مشکل ہوجاتی ہے، جبکہ ظہرسے پہلے کی چار سنتیں حنفیہ کے ہاں سنت موکدہ کے درجہ میں ہیں۔ ۳:…امام حرم مکی پہلے بیت اللہ کے ارکان میں سے کسی رکن کے پاس دیوارِ کعبہ کے قریب کھڑے ہوتے تھے اور اس جہت سے مقتدی حضرات لازماً امام سے پیچھے ہی رہتے تھے۔ امام سے آگے ہونے کی نوبت نہیں آتی تھی، لیکن اب کچھ عرصہ سے بعض ائمہ بعض نمازوں میں مطاف کے بعد چبوترے میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور مقتدیوں کو امام کی جگہ کا اندازہ نہیں ہوتا، وہ مطاف میں امام کے آگے صفیں باندھ لیتے ہیں، اس صورت حال میں جو حنفی نمازی امام سے آگے مطاف میں کھڑے ہوں گے، ان کی نماز فقہ حنفی کی روسے فاسد ہوگی، یہ مفسدہ بھی معمولی توجہ اور مختصر انتظام سے دور ہوسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ یا تو امام حرم حسب سابق دیوارِکعبہ کے قریب جاکر کھڑے ہوں، جیسا کہ پہلے ہوتا رہا ہے، اور اب بھی بعض کا معمول ہے۔ اس طریق میں سب کی رعایت رہے گی، یا کم ازکم امام کے سامنے والے مطاف کے حصے کو کچھ دیرکے لیے اس طرح پیک کرلیا جائے، جیسے صفائی اور دھلائی کے لیے پیک کرلیا جاتا ہے تو یہ مشکل آسان ہوسکتی ہے، اور کسی کی نماز فاسد ہونے کا اشکال بھی نہیں رہے گا۔ ۴:…حرمین شریفین میں دروس اور دیگر خدمات پر مامور ہمارے ہندی، پاکستانی یا بنگلہ دیشی بھائیوں کا لب ولہجہ اور حجاج کرام کے ساتھ ان کا برتاؤ اور اختلافی مسائل پر زور دینے کا طرزِعمل بھی قابل غور ہے۔ گوکہ سعودی حکومت نے اختلافی مسائل کے بیان پر قانونی طور پر کنٹرول کی کافی کوشش کر رکھی ہے، مگر کئی مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے قومی بھائی یہاں کی ناراضگی اور ناگواری کا اظہار وہاں حاجیوں پر کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں، اور یہ جرأت سعودی لال رومال کے ’’سدل‘‘کی بدولت ہی اُنہیں حاصل ہوئی ہے۔ اس لیے سعودی حکومت کو ایسے لوگوں پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ سعودی نمک خواری پر سعودی حکومت کے لیے نفرت کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اس موضوع پر فی الحال اسی اجمال پر اکتفاء ہے، اللہ کرے تفصیلات میں جانے کی نوبت نہ آئے۔ ۵:…حجاج کرام کے کیمپوں اورہوٹلوں میں بعض ہندی یا پاکستانی نژاد لوگ حج تربیت کے نام پر آتے ہیں جو سعودی حکومت کی تشکیل سے زیادہ ان لوگوں کی اپنی بامعاوضہ خدمات ہوتی ہیں۔ یہ لوگ حج تربیت کے نام پر حجاج کے درمیان اختلافی مسائل کو ہوا دیتے ہیں۔ حج سے متعلق مسائل کی تعلیم وتربیت چھوڑ کر تین طلاقوں کی بحث، فاتحہ خلف الامام یامسجد عائشہ ؍تنعیم سے عمرہ کی صحت وعدم صحت، زیارتِ قبور جیسے مسائل چھیڑ کر سادہ لوح مسلمانوں کو پریشان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اصولاً تو انہیں حج کے مسائل سے بحث کی ضرورت ہی نہیں، اس لیے کہ ہرملک کے حجاج اپنے ملک سے حج کی تربیت لے کر اپنے اپنے مسالک کے مطابق حج کے مسائل یاد کرکے آتے ہیں، اور بعض کے ساتھ تو باقاعدہ سرکاری طور پر ٹرینرز مقرر ہوتے ہیں۔ پھر بھی ان لوگوں کا سرکاری کیمپوں میں جاکر تربیت حج کے نام سے تشویش پھیلانا، حاجیوں کا اپنے مسلک کے مطابق یاد کیا ہوا طریقہ ٔحج خلط ملط کرنا یقینا حجاج یا سعودی حکومت کی ضرورت نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ نوآموز مربی حضرات واقعتاسعودی حکومت کی طرف سے نامزد و مقرر ہوئے ہیں تو پھر سعودی حکومت کو ان لوگوں کے طرزِعمل اور ان کے تربیتی مواد کا خوب جائزہ لینا چاہیے، بلکہ سعودی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے نفرت پھیلانے اور اختلافات کو ہوا دینے والے ناپختہ کار لڑکوں کی بجائے ہر ملک کے حجاج کے لیے ان کے ہم مسلک علمائے کرام کو مقرر کرے۔ بالخصوص پاکستان، ہندوستان، ترکی، بنگلہ دیش اورافغانستان کے لیے خالص حنفی ٹرینرز کا انتظام کرے، جو صحیح معنوں میں معلم ہوں۔ صرف ٹرانسپورٹ کے انتظام اور پاسپورٹ کی حفاظت تک محدود نہ ہوں۔ اگرحکومت پاکستان اس مسئلہ کی نزاکت کا ادراک کرے اوراپنے حسن انتظام میں مزیدبہتری کی کوشش کرتے ہوئے اس مشکل کو حل کرنا چاہے تو اس کی آسان تدبیر یہ ہے کہ وہ ہر ملک سے حجاج کے ساتھ اپنے مسلک کے ایسے ماہرعلماء کا انتظام بھی کرے جو ہمہ وقت حجاج کی تربیت میں مصروف رہیں یا سعودی حکومت وہاں سے نوآموز لڑکوں کو تربیت حجاج کا وظیفہ دینے کی بجائے ہر ملک کے پختہ کار علمائے کرام کا انتظام اپنے ذمہ لے لے توا س سے نہ صرف یہ کہ حجاج کو کسی قسم کے خلجان وخلفشار کا سامنا نہ ہوگا، بلکہ سعودی حکومت کی نیک نامی کا ذریعہ ہوگا۔ اور اُمتِ مسلمہ کے دلوں میں سعودی حکومت سے متعلق احترام کے جذبات میں مزید اضافہ ہوگا، ان شاء اللہ! ۶:…یومِ ترویہ (آٹھویں ذو الحجہ) کی ظہر سے لے کر یومِ عرفہ (نویں ذو الحجہ) کی فجر تک منیٰ میں وقت گزارنا یعنی پانچ نمازیں یہاں پڑھنا سنت ہے۔ اور یہ ایسے ہی سنت ہے جس طرح رفع یدین، آمین بالجہر یا فاتحہ خلف الامام ہمارے میزبانوں کے ہاں سنت ہے۔ مگرسرکاری انتظام میں اس سنیت کا مستقل طور پر ترک کرنا معمول بنتا جارہا ہے۔ حجاج کرام کو رات مغرب یاعشاء کے بعد سے عرفات منتقل کرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس سے حج کے خلافِ سنت شروع ہونے کی خرابی لازم آتی ہے۔جس سے واضح طورپریہ تأثرملتاہے کہ سنتوں کے چھوڑدینے اورچھوٹ جانے کا ایک ہی حکم ہے۔ حالانکہ علماء کرام جانتے ہیں کہ سنت کے چھوٹ جانے میں تو سنت کا درجہ واجب اور فرض کے بعد ہے، مگر سرے سے سنت کی اہمیت کو نظر انداز کرنا استخفاف تک پہنچادیتا ہے، اور استخفافِ سنت کا حکم علمائے کرام سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس مشکل کا مناسب حل درکار ہے۔ ۷:…منیٰ سے عرفات کوچ کرانے میں عجلت کے لیے انتظامی مجبوری ظاہرکی جاتی ہے، اور منیٰ میں قیام کو محض مسنون ہونے کی بنا پر ادھورا چھوڑنے کی خطرناک گنجائش دے دی جاتی ہے، مگر یہی عجلت کا معاملہ عرفات سے کوچ کرنے کے سلسلہ میں بھی دیکھنے میں آیا ہے، اور یوم عرفہ کو غروبِ آفتاب سے تقریباً ڈیڑھ دوگھنٹے قبل معلمین ومنتظمین کا شدید اصرار دیکھنے میں آیا۔ حالانکہ وقوف عرفہ رکن ہے اور غروبِ آفتاب تک رُکناواجب ہے۔ اگر کوئی غروب سے ذرا پہلے بھی عرفات سے نکل پڑا تو اس پر دم واجب ہوجاتا ہے۔ جن حجاج کو مسئلہ معلوم نہیں ہوتا یا مقامی نوآموز معلمین ومربیین کی ہدایات کے پیش نظر غروب سے قبل عرفات سے چل پڑتے ہیں تو لازماً ان کا حج خراب ہوگا۔ عرفات سے جلدی لانے کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہوتی، فجر تک پورا وقت اس منتقلی کے لیے وسیع ہے۔ مختلف اوقات میں مختلف مکاتب کے حجاج کو منتقل کیا جاسکتا ہے، اس کے باوجودمعلمین ومنتظمین کی عجلت سمجھ سے بالاتر ہے۔ بلکہ حجاج کا حج فاسدکرنے یادم واجب کرنے کا ذریعہ ہے، اس پر بطور خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ عرفات سے منتقلی کا عمل بہرصورت غروب آفتاب کے بعدہی شروع ہونا لازمی ہے۔ ۸:… عرفات سے مزدلفہ روانگی کے کھلے وقت سے استفادہ کرتے ہوئے رات کا کچھ حصہ مبیتِ مزدلفہ کے لیے ہرکسی کو میسر آسکتا ہے، اور طلوعِ فجرکے بعد وقوفِ مزدلفہ واجب ہے۔ مگر یہاں بھی دیکھا گیا ہے کہ رات کو بارہ بجے معلمین کے مرشدین (رہنمائی کرنے والے) لاؤڈ اسپیکر لے کر حجاج کے پاس پہنچ گئے اور حجاج کو منیٰ پہنچانے کے لیے اصرار کرتے رہے۔ حجاج کی طرف سے احتجاج یا فہمائش کے بعد کہیں جاکر اُنہیں فجر تک اصرار نہ کرنے کے لیے آمادہ کیا جاسکا۔ حالانکہ مزدلفہ آنے کے بعد اگر کوئی حاجی فجر کے بعد لمحہ بھر کا وقوف نہ کرسکا تو اس پر دم واجب ہوگا۔ مگر نہ جانے معلمین ومنتظمین کو یہ مسئلہ معلوم نہیں یاوہ سنن وواجبات کے بغیر حج کو کافی سمجھتے ہیں، اور سب کو عملاً اس کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ یہ انتہائی قابل توجہ معاملہ ہے۔ اس لیے کہ اگر یہ سلسلہ یوں ہی قائم رہا تو ممکن ہے کہ آگے جاکر حج کی ساری سنتوں اور واجبات سے آزاد ہوکر حج کے ارکان واعمال: وقوفِ عرفہ اور طوافِ زیارت تک محدود ہوکر رہ جائیں گے، کیونکہ حج کے واجبات اور سنتیں چھوڑنے کی گنجائش اور ضرورت کا بے جا تقاضا بڑھتا ہی رہے گا، ولاسمح اللّٰہ۔ بہرکیف یہاں معلمین ومنتظمین کے بارے میں کسی قسم کی بدگمانی کی بجائے غالب گمان یہی ہے کہ انہیں ان احکام کی پوری تفصیل معلوم نہیں، اس لیے وہ جلد از جلد اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوناچاہتے ہیں، ورنہ وہ ہرگز ایسا نہ کرتے۔ ۹:…گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو رمی جمرات کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس سے قبل اگر کوئی رمی کرے تو اس کی رمی نہیں ہوگی، اور بعد میں دوبارہ رمی نہ کرنے کی صورت میں دم واجب ہوگا۔ مگر اس سال بعض حجاج کے لیے رمی کے اوقات زوال سے پہلے دس بجے، گیارہ، ساڑھے گیارہ بجے مقررکیے گئے تھے۔ اب اگر کسی نے اسی شیڈول کے مطابق رمی کرلی توفقہ حنفی کی روسے رمی نہیں ہوگی۔رمی نہیں کی تودم واجب ہوگا، دم نہیں دیا تو حج خراب ہوگا۔ اتنے اہم معاملے کو اتنا ہلکا لینا قابل غور ہے۔ امیدہے یہ عارضی نظم ہوگا، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ مگر جن حجاج نے اس شیڈول کے مطابق رمی کی ہے، ان کی طرف سے دم سعودی حکومت کے معلمین کو ادا کرنا چاہیے۔ ۱۰:… منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں نمازوں کی قصر اور اتمام کا مسئلہ تو میزبانوں اور بعض ہمارے کرم فرماؤں کی کرم فرمائی کے نتیجے میں تقریباً ہرخیمے میں اختلاف کی بجائے خلاف وشقاق بلکہ نزاع کا باعث بن چکا ہے، اور اکثر اوقات دعا، ذکر، تلبیہ اور عبادت کی بجائے ایک دوسرے کی تغلیط اور فہمائش میں گزر جاتے ہیں۔ فقہ حنفی کی روسے منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں نمازوں کی قصر کا تعلق سفر کے ساتھ ہے، ’’نسک ‘‘کے ساتھ نہیں ہے، جو حاجی پندرہ دن یا اس سے زائدمکہ مکرمہ میں مقیم بن گیا، اس کے لیے فقہ حنفی کے مطابق مکہ اور دیگر مشاعر میں پوری نماز پڑھنا ہی لازم ہے۔ اس کے حق میں قصر کرنا ایسا ہی ہے، جیسے وہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے چارکی بجائے دورکعت پڑھے۔ مگر ہمارے ہاں سے سعودیہ گئے ہوئے بعض نوآموز ٹرینرز یا ہمارے بعض لوگ بڑے اصرارکے ساتھ بلاتفریق بدون تفصیل سب حاجیوں کو منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں قصر پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سعودی لباس میں جو لوگ یہ کوشش کرتے ہیں وہ احترامِ مسالک کی حدود کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں، انہیں اس سے بازرہنا چاہیے۔ اور ہمارے جو لوگ اس طرح کی کوشش کرتے ہیں، منیٰ اور عرفات میں اپنے خیموں میں قصر اور جمع کرتے ہیں اور اپنے ذاتی اذواق دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں ان مقدس مقامات میں جاکر یہ انتشار پھیلانے کی بجائے حج پر جانے سے پہلے یہاں ان مسائل کا تصفیہ اور حل کے لیے سنجیدہ علمی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ عام حجاج کرام ہمارے نزاعات کی وجہ سے پریشان نہ ہوں، اور اگر یہاں اتفاق نہیں ہوپاتا تو اکثریتی فقہی رائے، پرانے فتویٰ اور معمول بہ طریقہ کارکے مطابق لوگوں کو حج کرنے دیا جائے۔ آپ اپنے علمی تفردکو، انفرادی عمل کے لیے استعمال فرماتے رہیں، اپنی رائے اور عمل دوسروں پر مسلط نہ فرمائیں۔ بہرحال منیٰ وغیرہ میں حضور a کاقصرفرماناقصرنسک تھا، یا قصر سفر؟یہ بحث امام ابوحنیفہ ، امام مالک ،امام شافعی اورامام احمدبن حنبل w اپنے اپنے ادوار میں کرچکے ہیں، اب حجاج کو اپنے اپنے مسالک کے مطابق عمل کی گنجائش اور اجازت حسب سابق میسر رہنی چاہیے۔ اس میں سعودی لباس میں ملبوس ہندی بھائی رکاوٹ نہ بنیں،نہ ہمارے بعض لوگ ان کے تملق میں حجاج کو پریشان کریں۔ البتہ اس پریشانی کا ایک مناسب حل یہ ہے کہ سعودی حکومت موسم حج میں عرفات کی طرح منیٰ اور مزدلفہ کی مساجد میں بھی اپنی طرف سے مسافر امام ہی کا انتخاب کرے، جو لوگ یہاں کی مساجدمیں ان مسافر ائمہ کے پیچھے نمازباجماعت پڑھیں گے، ان کے امام کے حق میں قصر نسک وقصرسفردونو ں جمع ہوجائیں گی، ان کی اقتداء میں چاررکعت پڑھنے والامقیم حنفی مقتدی لاحق بن کر اپنی نماز پوری پڑھ لے گا، تو کسی قسم کا اشکال یا انتشار نہیں ہوگا۔ اور جو حجاج اپنے خیموں میں انفرادی یا باجماعت نماز پڑھنا چاہیں تووہ اپنے اپنے مسالک کے مطابق اپنے ماہرین فقہ علمائے کرام کی ہدایات کے مطابق عمل کریں، اور عام واعظین اور قصّاص کی تقلید نہ کریں۔ باقی اگر مقیم امام چاررکعت والی نماز قصرنسک کے طورپر دو رکعت پڑھے اوراس کی اقتداء میں حنفی مقتدی نے بھی دورکعت پڑھ لی یاچاررکعت پڑھ لیں توحنفی مقتدی کی نمازنہیں ہوگی۔ یہ مسئلہ قرن ثانی سے چلا آرہا ہے، اور ان مشاعرمقدسہ میں جس مسلک کا امام رہا ہے، وہ دوسروں کی رعایت کرتا چلا آیا ہے، لہٰذا اب بھی اس رعایت کی ضرورت ہے۔  اس مرتبہ سنا گیا ہے کہ مسجد نمرہ میں خطبۂ حج مقیم امام نے دیااورقصرنسک کے طور پر ظہرو عصر کی دودو رکعت پڑھائی ہیں، یہ بات اگر واقعہ کے مطابق ہو تو اس میں ایک تو اس معاہدہ کی خلاف ورزی ہے جس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ خطبۂ حج اور عرفات میں نمازوں کا امام ریاض وغیرہ دور کے شہروں سے لانے کا اہتمام کیا جائے گا۔ اور دوسرا حنفی حجاج جو تمام مسالک کی بہ نسبت تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، ان کی رعایت نہیں فرمائی گئی۔ جن حجاج نے امسال مقیم امام کے پیچھے عرفہ میں ظہروعصر کی اقتداء لاحق مقتدی کی حیثیت سے کی تھی، انہیں دونوں نمازوں کااعادہ بھی کرنا ہوگا، وہ اپنے کسی قریبی دارالافتاء سے ضرور رجوع فرمائیں۔ بہرکیف یہ چندایسے مسائل ہیں جو فریضۂ حج کی ادائیگی کے حوالے سے انتہائی قابل توجہ ہیں، بالخصوص حنفی حجاج کے لیے کافی مشکلات کا ذریعہ ہیں۔ لیکن ان کا حل انفرادی کوشش کی بجائے حکومتی سطح پر ہی ممکن ہے۔ اس وقت حج کے حوالے سے سعودی حکومت کی توجہات اورحکومت پاکستان کی ترجیحات سے امیدہے کہ وہ باہمی مشاورت اورکوششوں سے ان مشکلات کو حل فرمائیں گے، بالخصوص ہماری موجودہ وزارتِ مذہبی امور اور اس کے نیک دل، فرض شناس اور خداترس وزیرمحترم جناب سردار محمد یوسف صاحب سے بجاطور پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ان مسائل کو حکومتی سطح پر اُٹھاکر اگلے حج سے قبل سعودی حکومت کے ساتھ معاملات طے کرلیں گے۔ ہمیں یہ خدشہ ہے کہ اگر محترم وزیرصاحب اور ان کی ٹیم نے ان مسائل کا حل اپنے دور میں نہ ڈھونڈا تو ممکن ہے کہ آئندہ یہ قابل توجہ امور کسی کی توجہ حاصل نہ کرسکیں اور ہمارا حج واجبات وسنن سے خالی ہوکر محض عرفہ اور طوافِ زیارت تک محدود ہوکر رہ جائے گا اور آگے چل کر اُمتِ مسلمہ کا یہ طرزِ عمل ترکِ سنن پر اجماع کہلائے گا، ولاسمح اللّٰہ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصرہو۔‘‘ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین