بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حج بیت اللہ

حج بیت اللہ

    اللہ تعالیٰ شانہٗ نے یوں تو ہر عبادت کے لیے قدم قدم پر رحمت وعنایت اور اجر وثواب کے وعدے فرمائے ہیں۔ نماز وزکوٰۃ اور روزہ واعتکاف وغیرہ سب پر جنت اور جنت کی بیش بہا نعمتوں کے وعدے ہیں، لیکن تمام عبادات میں ’’حج بیت اللہ‘‘ کی شان سب سے نرالی ہے۔ حج گویا دبستانِ عبدیت کا آخری نصاب ہے، جس کی تکمیل پر بارگاہِ عالی سے رضا و خوشنودی کی آخری سند عطا کی جاتی ہے، کتنے عجیب انداز سے فرمایا گیا ہے: ’’  والحج المبرور لیس لہٗ جزاء إلا الجنۃ ۔‘‘   ترجمہ:…’’ اور ’’حج مبرور‘‘ کا بدلہ تو بس جنت ہی ہے۔‘‘     گویا ’’حج مبرور‘‘ ایک ایسی عالی شان عبادت ہے کہ بجز جنت کے اس کا اور کیا بدلہ ہوسکتا ہے!۔ ’’ حجِ مبرور‘‘ جس کا بدلہ صرف جنت ہی ہوسکتی ہے، اس کی تشریح یہ ہے کہ اس میں گناہ کی آلودگی اور ریاکاری کا شائبہ نہ ہو، یعنی تمام سفرِ حج میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے آدمی بچے اور محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر حج کیا جائے، بلاشبہ اس شرط کا نبھانا بھی بہت مشکل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فضل ہی سے یہ مشکل مرحلہ طے ہوسکتا ہے۔ عشق ومحبت کا سفر     حج کی ظاہری صورت بھی عجیب وغریب ہے اور اس میں غضب کی جاذبیت ہے۔ قدم قدم پر عشق ومحبت کی پُر بہار منزلیں طے ہوتی ہیں، سب سے بڑے دربار کی حاضری کا قصد ہے، دل میں دیارِ محبوب کی آرزوئیں مچلتی ہیں، سفر طویل ہے، حلال وطیب توشۂ سفر کا اہتمام کیا جارہا ہے، نیک اور صالح رفیق کی تلاش ہورہی ہے، چشم پُرنم کے ساتھ عزیز واقارب سے رخصت ہورہے ہیں، لین دین کا حساب بے باق کیا جارہا ہے، حق حقوق کی معافی طلب کی جارہی ہے، کوشش یہ ہے کہ اس دربار میں حاضر ہوں تو کسی کا معمولی حق بھی گردن پر نہ ہو۔ لیجئے! روانگی کا وقت آیا، غسل کر لیجئے اور دو سفید نئی چادریں پہن لیجئے، گویا انسان خود اپنے ارادہ واختیار سے سفرِ آخرت پر روانہ ہورہا ہے۔ پہلے غسل سے بدن کے ظاہری میل کچیل کو صاف کرتا ہے اور پھر کفن کی چادریں اوڑھ کر دوگانۂ احرام ادا کرتا ہے، اس طرح گویا توبہ وانابت سے دل کے میل کچیل سے اپنے باطن کو پاک صاف کرتا ہے اور ظاہری وباطنی نظافت کے ساتھ شاہی دربار میں نذرانۂ عشق ومحبت پیش کرنے کا عہد کرلیتا ہے۔ ارحم الراحمین نے دعوت دے کربلایاہے اور شاہی دربار سے بُلاوا آیاہے، یہ فوراً ’’بیت اللہ الحرام‘‘ کے شوقِ دیدار میں اس دعوت پر ’’ لبیک أللّٰہم لبیک‘‘ (میں حاضر ہوں، اے میرے اللہ!میں حاضر ہوں) کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مستانہ وار سوئے منزل روانہ ہوجاتا ہے۔     یہ اس والہانہ وعاشقانہ عبادت کی ابتدا ہے، زیب وزینت کے تمام مظاہر ختم، راحت و آسائش کے تمام تقاضے فراموش، نہ سر پر ٹوپی، نہ پاؤں میں ڈھب کا جوتا، نہ بدن پر ڈھنگ کا کپڑا، دیوانہ وار رواں دواں منازلِ عشق طے کرتا ہوا جارہا ہے، دیارِ محبوب کی دھن میں بادہ پیمائی ہورہی ہے: در بیابانہا زِ شوقِ کعبہ خواہی زد قدم سرزنشہا گر کند خارِ مغیلاں غم مخور     پہنچتے ہی مرکزِ تجلیات (کعبہ) پر نظر پڑی تو بے ساختہ دارِ محبوب کا طواف کرتا ہے، باربار چکر لگاتا ہے، حجرِ اسود جو ’’  یمین اللّٰہ فی الأرض‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے، اس کو چومتا ہے، آنکھوں سے لگاتا ہے، ملتزم سے چمٹتا ہے، زار وقطار روتا ہے، گویا زبانِ حال سے کہتا ہے: نازم بچشمِ خود کہ روئے تو دیدہ است رفتم بپائے خویش کہ بکویت رسیدہ است ہزار بار بوسہ زنم من دستِ خویش را کہ بدامنت گرفتہ بسویم کشیدہ است     اس بے خود عاشقِ زار کو جو قلبِ تپاں اور جگرِ سوزاں لے کر آیا تھا، پہلی مہمانی کے طور پر ’’آبِ زمزم‘‘ کا تحفۂ شیریں پیش کیا جاتا ہے، جس سے تسکینِ قلب بھی ہوگی اور جگر کی پیاس بھی بجھے گی اور حکم ہوتا ہے کہ جتنا پانی پیا جا سکے پی لے، خوب دل ٹھنڈا کرلے، کوئی کسر نہ چھوڑ، یہاں سے فارغ ہوکر صفا ومروہ کے درمیان چکر لگاتاہے، پھر منیٰ پہنچتا ہے، پھر اس کے آگے عرفات کا رُخ کرتا ہے۔ آج وادیِ عرفات سچ مچ ہنگامۂ محشر کا منظر پیش کررہی ہے، حیرت انگیز اجتماع ہے، رنگا رنگ مختلف شکلیں، مختلف زبانیں، بوقلموں مناظر، یہ سب رب العالمین کے دربارِ قدس کے مہمان ہیں، یہ شاہی دربار میں عبدیت وبندگی، ضعف وبے کسی، عجز ودرماندگی اور ذلت ومسکنت کا نذرانہ پیش کریں گے اور رضا ومغفرت، فضل واحسان او رانعام واکرام کے گوہر مقصود سے جھولیاں بھر کرلے جائیں گے، اپنے لیے، اپنے اعزہ واقارب اور دوست احباب کے لیے آج جو کچھ مانگیں گے نقد ملے گا،زوال ہوا تو ہر چہار طرف سے آہ وبکا کا شور برپا ہوا، اس کی آواز بھی اس حیرت انگیز طوفانِ گریہ وزاری میں ڈوب گئی، شام تک کا سارا وقت اسی عالم تحیر میں گزارتا ہے، کبھی خوب رورو کر مانگتا ہے، کبھی ’’ لبیک أللّٰہم لبیک‘‘ کا نعرہ لگاتا ہے، کبھی تکبیر کی گونج سے زمزمہ آراء ہوتا، کبھی تہلیل سے نغمہ سرا ہوتا ہے، کبھی ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہٗ‘‘سے وحدانیت و ربوبیت کی صدائیں بلند کرتا ہے،عابد ومعبود کا یہ تعلق کتنا دل ربا ہے؟! اور بندگی وسرافگند گی کا یہ منظر کس قدر حیرت افزا ہے؟!     آفتاب غروب ہوا اور اس دشت پیمانے بوریا بستر باندھ مزدلفہ کا رُخ کیا، شب بیداری وہاں ہوگی، مغرب وعشا کی نماز وہاں پڑھی جائے گی، اظہارِ آدابِ بندگی میں کچھ کسر باقی رہ گئی ہے تو وہاں نکالی جائے گی، کبھی رکوع وسجود ہے، کبھی وقوف وقیام ہے، کبھی تہلیل وتکبیر ہے، کبھی تسبیح وتلبیہ ہے۔ گریہ وزاری، دعا ومناجات اور تضرع وابتہال کا نصاب پورا ہوا تو کامیابی وکامرانی کی نعمت سے سرشار ہوکر وہاں سے منیٰ کو چلا، دشمنِ انسانیت، عدو مبین، راندۂ بارگاہ ابلیس لعین کی سرکوبی کے لیے جمرہ کی رمی کی، خلیل ؑوذبیح  ؑ(علی نبینا وعلیہما الصلاۃ والسلام) کی سنت ِقربانی کی یاد تازہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے نام پر قربانی دی اور رضائے محبوب کے لیے جان ومال کے ایثار وقربانی کا عہد تازہ کرلیا۔ وہاں سے بارگاہِ قدس کے مرکزِ انوار کی زیارت کو چلا اور طوافِ کعبہ کے انوار وبرکات سے دیدہ ودل کی تسکین کا سامان کیا۔     الغرض اس عاشقانہ ووالہانہ عبادت میں دیوانہ وار ایثارو قربانی اور عبدیت وفنائیت کاریکارڈ قائم کرلیتا ہے اور تجلیاتِ ربانی کے انوار وبرکات سے سراپا نور بن جاتا ہے اور رحمت و رضوان کے تحفوں سے مالا مال ہوکر اور استحقاقِ جنت کی آخری سند لے کر اپنے وطن کو واپس لوٹتا ہے، اس طرح بندہ بندگی کا ثبوت دے کر جنت ورضوانِ الٰہی کی نعمتوں سے سرفرازی کے تغمے وصول کرلیتا ہے ’’والحج المبرور لیس لہٗ جزاء إلا الجنۃ‘‘ کے آخری انعام سے مطمئن ہوجاتا ہے۔ دیکھئے! کس انداز سے عشق ومحبت کی منزلیں طے کی گئیں اور کس کس طرح شاباشوں سے نوازا گیا، یہ اس عاشقانہ وعارفانہ عبادت کا بہت ہی مختصر سا نقشہ ہے۔ سفرِ عشق میں امتحان     ظاہر ہے کہ مقصد بہت ہی اعلیٰ ہے، اس لیے کبھی کبھی اس مقصد کے حصول کے لیے امتحان بھی ناگزیر ہوتا ہے۔ مدتوں کے جمے ہوئے تہ برتہ زنگ وغبار کو دور کرنے کے لیے شدید تنقیہ کی ضرورت پڑتی ہے، کبھی جان پر امتحان آتا ہے، کبھی مال پر، کبھی رفقاء سے تنہا کراکر تڑپایا جاتا ہے، کبھی پٹوا کر رُلایاجاتا ہے، کبھی ہرآسائش وراحت چھین کر آخرت کی آسائش وراحت کی نعمت سے نوازا جاتا ہے۔ بہرحال یہ راز سربستہ کسی کے بس کی بات نہیں، شانِ ربوبیت کے کریمانہ کرشمے ہیں، شانِ صمدیت کا ظہور اور ارحم الراحمین کی رحمت ِ خفیہ کے شیون ہیں، رحمتِ الٰہی کا ظہور کبھی بصورتِ رحمت ہوتا ہے، کبھی بشکلِ زحمت، کسی کو چوں وچرا کی گنجائش نہیں۔ یہ وہ مقام ہے کہ عارفین جو دریائے معرفت کے غوطہ زن ہیں، وہ بھی سرِ حیرت جھکا کر خاموش ہیں، صبر آزما امتحان لیا جاتا ہے ، کبھی جوع وخوف سے ،کبھی انفس واموال زیرِ امتحان ہوتے ہیں، رضا بالقضاء کے لیے مجاہدہ کرایا جاتاہے اور مہربانی اور شاباش کی بارش ہوتی اور آخر میں جنت کی سند مل جاتی ہے اور ’’الحج المبرور لیس لہٗ جزاء إلا الجنۃ‘‘ کا تحفہ عطا کیا جاتاہے، بلاشبہ عبدیت کاظہور اور شانِ عشق ومحبت کا مظاہرہ جس طرح حج بیت اللہ الحرام میں ہوتا ہے، کسی اور عبادت میں نہیں ہوتا۔     امسال سالِ گزشتہ یا گزشتہ سالوں کی بہ نسبت بے حد ہجوم تھا اور تقریباً نصف ملین (۰۰۰،۰۰،۵) خدا کی مخلوق زیادہ پہنچ گئی تھی، محدود مقامات اور محدود انتظامات میں غیر محدود مخلوق کا انتظام درہم برہم ہوگیا تھا، قیام وطعام کی دشواریاں تھیں، ٹریفک اور مواصلات کا نظام تقریباً بس سے باہر تھا، ایک ترکی قوم کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی، جن کی دیوہیکل بسوں نے تمام حجاج کرام کو بے بس بنادیا تھا، سڑکیں بند، راستے مشغول، شاہ فیصل کے عہدِ مبارک کے شاہانہ انتظامات نے بھی عجز وتقصیر کا اعتراف کیا، اگرچہ قدم قدم پر حق تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کرم فرما تھی اور شاہ فیصل کے عہد کی برکات بالکل ظاہر و باہر تھیں، لیکن پھر بھی حکومتوں کا حج پر کنٹرول کرکے حجاج کے کوٹے مقرر کرکے تحدید کرنے کی مصلحتیں و حکمتیں تکوینی طرز پر واضح ہوگئیں، اس سلسلہ میںچند باتیں اور گزارشات ضروری خیال کرتا ہوں۔ حجاج کے لیے چند ضروری ہدایات     ۱:…عورتوں اور مردوں کا ناگفتہ بہ اختلاط طوافوں میں، نمازوں میں اورسلام کی حاضری میں غیرشرعی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ عورتوں کے طواف کے لیے رات یا دن میں کوئی وقت مخصوص کرلیا جائے اور اس طرح سلام کی حاضری کے لیے بھی وقت مخصوص ہو، ان اوقات میں مردوں کو طواف یا حاضری سے روکا جائے۔     ۲:…نہ تو عورتوں پر جماعت کی پابندی ہے، نہ مسجد کی حاضری کی فضیلت ہے، نہ نمازِ جمعہ ان پر فرض ہے، اس لیے عورتیں گھر میں نماز پڑھا کریں اور اسی طرح جمعہ میں عورتوں کی حاضری روکی جائے، موجودہ صورتِ حال نہ شرعاً درست ہے، نہ عقلاً قابل برداشت ہے۔     ۳:…رمی جمرات کے لیے عورتیں رات کو جایا کریں، جس طرح بوڑھوں اور مریضوں کے لیے بھی یہی وقت مناسب ہے، بلاشبہ بغیر عذر کے یہ خلافِ سنت ہے، لیکن موجودہ صورتِ حال میں ان شاء اللہ! کراہت بھی ختم ہوجائے گی۔     ۴:…تمام حضرات جو حجِ بیت اللہ الحرام کا ارادہ کریں تمام مسائل یاد کرکے آئیں، فرائض وواجبات کا اہتمام بہت ضروری ہے، بسا اوقات یہ دیکھا گیا کہ لوگ فرائض وواجبات میں تقصیر کرتے ہیں اور فضائل ومستحبات کا اہتمام ہوتاہے۔     اس وقت جو صورتِ حال ہے قانونی وفقہی احکام کے پیشِ نظر تو یہ امید رکھنا بہت مشکل ہے کہ یہ عبادت صحیح ادا ہوئی یا یہ حجِ مبرور ہوگا، صحیح طواف کیسے ہو؟ اور اس میں کیا کیا باریکیاں ہیں؟ اگر ایک قدم طواف کا ایسا ادا ہو کہ بیت اللہ کی طرف سینہ ہوجائے تو سارا طواف بیکار ہوگیا، اگر شروع کرنے میں حجر ِ اسود سے تقدم ہوگیا تو طواف میں نقصان آجاتا ہے، اگر ایک انچ ہٹ کر طواف شروع کیا تو سرے سے طواف ہواہی نہیں، خاص کر ازدحام وہجوم میں صحیح طواف کرنا بے حد دشوار مرحلہ ہے۔ عورتیں مردوں کے درمیان کھڑی ہوجاتی ہیں، ایک عورت اگر صف میں مردوں کے درمیان کھڑی ہوگئی تو تین مردوں کی نماز غارت ہوگئی: جو شخص دائیں ہو، جو بائیں ہو،جو ا س کی سیدھ میں پیچھے ہو، اگر ایک ہزار عورتیں اس طرح صفوں کے درمیان ہیں تو تین ہزار مردوں کی نماز فاسد ہوگئی۔ دورانِ سفر بہت سی نمازیں قضا ہوجاتی ہیں، اگر فرض نماز قضا ہوگئی تو حج مبرور کی توقع رکھنا مشکل ہے۔ الغرض اس طرح دسیوں مسائل ہیں کہ جن سے عوام تو کیا علماء بھی غافل ہیں۔ ’’رمی جمرات‘‘ میں معمولی عذر پر دوسروں کو وکیل بنایا جاتا ہے، اس طرح وہ توکیل صحیح نہیں ہوتی، دم لازم آجاتا ہے۔      غور کرنے سے محسوس ہوا کہ جہاں تک مسائل واحکام کا تعلق ہے، مشکل سے یہ کہا جائے گا کہ یہ حج صحیح ادا ہوگیا، لیکن حق تعالیٰ شانہٗ کی رحمت ِ کاملہ کے پیشِ نظر کوئی بعید نہیں کہ اگر نیت صحیح ہو اور جذبہ سچا ہو تو تمام کو تاہیاں اور قانونی فروگزاشتیں سب معاف ہوں اور ارحم الراحمین کی رحمتِ عامہ سے یہی امید ہے کہ اپنے گنہگار بندوں کی کوتاہیوں سے در گزر فرما کر اپنی رحمت ونعمت سے نوازے اور نہ معلوم کس کی کونسی ادا قبول ہوجائے اور کیا کچھ خزانۂ رحمت سے ملے اور بلاشبہ حق تعالیٰ شانہٗ کی رحمتِ کاملہ کی موسلادھار بارش میں کوئی بدنصیب ہی محروم رہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ چند مقبولینِ بارگاہ کے طفیل سب کا حج قبول ہو، اس کی شان کریمی کے سامنے سب کچھ آسان ہے، کاش! اگر حق تعالیٰ کی اتنی مخلوق قانون کے مطابق جذباتِ صادقہ سے والہانہ انداز سے یہ فریضہ ادا کرتی تو امت کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور تمام عالم میں ان نمائندگانِ بارگاہِ قدس کا فیض جاری ہوتا، جس حریمِ قدس کو ان شاندار کلمات سے وحی ربانی میں یاد کیا ہو: ’’إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا وَّہُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ فِیْہِ أٰ یَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ آمِنًا‘‘۔            (آل عمران:۹۶،۹۷)      ان آیاتِ بینات اور ان برکات وتجلیات کا کیا ٹھکانا؟ بہرحال کہنا یہ ہے کہ کوشش کی جائے کہ قانون کی رو سے بھی صحیح حج ہو اور نیت وجذبہ بھی سچا ہو اور قدم قدم پر تقصیر کا احساس ہو اور یہ تصور مستمر قائم ہو کہ اس حریم قدس میں حاضری کے آداب کی اہلیت کہاں؟ ہم جیسے ناپاکوں کو اس سرزمین میں حاضری کی دعوت دی گئی اور پہنچ گئے، یہ محض حق تعالیٰ شانہٗ کا عظیم احسان ہے کہ اس مقدس زمین اور بقعۂ نور میں سراپا ظلمات والے کوجگہ عطا فرمادی، توقع ہے کہ اس احساس سے بارگاہِ قدس میں شرفِ قبولیت نصیب ہو۔      یہ جو کچھ بیت اللہ کی عظمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یہ بہت سطحی حقائق کے درجہ میں بات عرض کی گئی، ورنہ جو حقائق واسرار ‘عارفین وکبارِ صوفیاء کرام، شیخ اکبرؒ، امام ربانی شیخ احمد سرہندیؒ، حضرت شیخ سید آدم بنوریؒ، شاہ عبد العزیزؒ اور حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہم اللہ جمیعاً نے بیان فرمائے ہیں، وہ ’’بینات‘‘ کے دائرۂ بیان سے بالاتر ہیں۔ راقم الحروف نے اپنے رسالہ ’’بغیۃ الأریب فی مسائل القبلۃ والمحاریب‘‘ کے آخر میں کچھ تھوڑا سا حصہ بیان کیا ہے۔ بہرحال کعبۃ اللہ اس مادی کائنات میں ’’شعائر اللہ‘‘ میں داخل ہے۔ نماز میں اگر حق تعالیٰ شانہٗ سے مناجات وہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے تو حج میں حق تعالیٰ کے گھر میں مہمانی کا شرف ومجد حاصل ہے، جب ہم کلامی کی عظمت بیت الحرام میں نصیب ہو اور دونوں عظمتیں جمع ہوجائیں تو جو کچھ بھی اس کا درجہ ہوگا، تصور وخیال سے بالا تر ہے: نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز     یہ وہ مقام ہے کہ انتہائی تعظیم وادب کی ضرورت ہے، لیکن آج کل ہماری غفلت وجہالت سے جو صورت حال ہے، وہ ظاہر ہے۔ افسوس یہ کہ ہماری تمام عبادات کی صرف صورت رہ گئی، روح نکل گئی ہے۔ تمام عبادات بے جان لاشے ہیں، اگر ان میں جان ہوتی تو آج امت محمدیہ کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا، حق تعالیٰ کی رحمت ہے اور اسلام کا حکیمانہ نظام ہے کہ مساجد بھی بیوت اللہ ہیں: ’’وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ أَحَدًا‘‘ مساجد صرف اللہ تعالیٰ کی ہیں، ان میں صرف اللہ ہی کی عبادت ہونی چاہیے، آخری سب سے بڑا مرکزی گھر وہ مسجد حرام بیت الحرام ہے، جس سے عالم میں بجز اس مقام کے جہاں حضرت سید الکونین a آرام فرمارہے ہیں، کوئی مقدس قطعہ نہیں، جہاں پر حق تعالیٰ کی طرف سے انوار کی موسلادھار بارش برستی ہے، فرشتے طواف کے لیے آسمانوں سے اترتے ہیں۔ حق تعالیٰ مسلمانوں اور حجاج کرام کو توفیق نصیب فرمائے کہ اس مقام کی صحیح معرفت نصیب ہو، بقدرِ طاقت بشری حق ادا کرسکیں۔ ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین