بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حج بیت اللہ

حج بیت اللہ  

    اللہ تعالیٰ شانہٗ نے یوں تو ہر عبادت کے لیے قدم قدم پر رحمت وعنایت اور اجر و ثواب کے وعدے فرمائے ہیں۔ نمازوزکاۃ اور روزہ واعتکاف وغیرہ سب پر جنت اور جنت کی بیش بہا نعمتوں کے وعدے ہیں، لیکن تمام عبادات میں ’’حج بیت اللہ‘‘ کی شان سب سے نرالی ہے۔ حج گویا دبستانِ عبدیت کا آخری نصاب ہے جس کی تکمیل پر بارگاہِ عالی سے رضا وخوشنودی کی آخری سند عطا کی جاتی ہے:کتنے عجیب انداز سے فرمایا گیا ہے : ’’والحج المبرور لیس لہٗ جزاء إلا الجنۃ۔‘‘ (مشکوۃ،کتاب المناسک،الفصل الاول، ص:۲۲۱،ط:قدیمی) ’’اور حج مبر ور کا بدلہ تو بس جنت ہی ہے ۔‘‘     گویا حج مبرور ایک ایسی عالی شان عبادت ہے کہ بجزجنت کے اس کا اور کیا بدلہ ہوسکتاہے! حج مبرور جس کا بدلہ صرف جنت ہی ہوسکتی ہے، اس کی تشریح یہ ہے کہ اس میں گناہ کی آلودگی اور ریاکاری کا شائبہ نہ ہو ،یعنی تمام سفر حج میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے آدمی بچے اور محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر حج کیا جائے، بلاشبہ اس شرط کا نبھانا بھی بہت مشکل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی تو فیق اور اس کے فضل ہی سے ہی مشکل مر حلہ طے ہوسکتا ہے ۔ عشق و محبت کا سفر     حج کی ظاہری صورت بھی عجیب وغریب ہے اور اس میں غضب کی جاذبیت ہے، قدم قدم پر عشق ومحبت کی پُربہار منزلیں طے ہوتی ہیں، سب سے بڑے دربار کی حاضری کا قصد ہے، دل میں دیارِ محبوب کی آرزو ئیں مچلتی ہیں،سفر طویل ہے، حلال وطیب تو شۂ سفر کا اہتمام کیا جارہا ہے، نیک اور صالح رفیق کی تلاش ہورہی ہے، چشم پر نم کے ساتھ عزیز واقارب سے رخصت ہورہے ہیں، لین دین کا حساب  باق کیا جارہا ہے، حق حقوق کی معافی طلب کی جارہی ہے، کوشش یہ ہے کہ اس دربار میں حاضر ہوں تو کسی کا معمولی حق بھی گر دن پر نہ ہو، لیجئے! روانگی کا وقت آیا، غسل کر لیجئے اور دو سفید نئی چادریں پہن لیجئے، گویا انسان خود اپنے ارادہ واختیار سے سفر آخرت پر روانہ ہورہا ہے، پہلے غسل سے بدن کے ظا ہری میل کچیل کو صاف کرتا ہے اور پھر کفن کی چادریں اوڑھ کر دو گانہ احرام ادا کرتا ہے، اس طرح گویا توبہ وانابت سے دل کے میل کچیل سے اپنے  باطن کو پاک صاف کرتا ہے اور ظاہری وباطنی نظافت کے ساتھ شاہی دربار میں نذرانۂ عشق ومحبت پیش کر نے کا عہد کرلیتا ہے۔ ارحم الراحمین نے دعوت دے کر بلایا ہے اور شاہی دربار سے بلاوا آیا ہے، یہ فورًابیت اللہ الحرام کے شوقِ دیدار میں اس دعوت پر ’’لبیک أللّٰھم لبیک‘‘ ( میں حاضر ہوں، اے میرے اللہ! میں حاضر ہوں) کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مستانہ وار سوئے منزل روانہ ہوجاتا ہے۔      یہ اس والہانہ وعاشقا نہ عبادت کی ابتدا ہے۔ زیب وزینت کے تمام مظاہر ختم، راحت وآسائش کے تمام تقاضے فراموش، نہ سر پر ٹوپی، نہ پاؤں میں ڈھب کا جوتا، نہ بدن پر ڈھنگ کا کپڑا، دیوانہ وار رواں دواں منازل عشق طے کر تا ہوا جارہا ہے، دیارِمحبوب کی دھن میں بادہ پیمائی ہورہی ہے۔  در بیابانہا ز شوقِ کعبہ خواہی زد قدم  سرزنشہا گر کند خارِ مغیلاں غم مخور      پہنچتے ہی مر کز تجلیات ( کعبہ) پر نظر پڑی تو بے ساختہ دارِمحبوب کا طواف کرتا ہے، بار بار چکر لگاتا ہے، حجرِ اسود جو ’’ یمین اللّٰہ فی الأرض‘‘کی حیثیت رکھتا ہے اس کو چو متا ہے، آنکھوں سے لگا تا ہے، ملتزم سے چمٹتا ہے، زار و قطار روتا ہے، گویا زبانِ حال سے کہتاہے: نازم بچشمِ خود کہ روئے تو دیدہ است رفتم بپائے خویش کہ بکویت رسیدہ است  ہزار بار بوسہ زنم من دستِ خویش را کہ بدامنت گرفتہ بسویم کشیدہ است     اس بے خود عاشق زار کو جو قلبِ تپاں اور جگر سوزاں لے کر آیا تھا، پہلی مہمانی کے طور پر آبِ زمزم کا تحفۂ شیریں پیش کیا جاتا ہے، جس سے تسکین قلب بھی ہوگی اور جگر کی پیاس بھی بجھے گی اور حکم ہوتا ہے کہ جتنا پانی پیا جاسکے پی لے، خوب دل ٹھنڈا کر لے، کوئی کسر نہ چھوڑے۔ یہاں سے فارغ ہوکر صفا و مر وہ کے درمیان چکر لگاتا ہے، پھر منیٰ پہنچتا ہے، پھر اس کے آگے عرفات کا رخ کر تا ہے۔آج وادیِ عرفات سچ مچ ہنگامۂ محشر کا منظر پیش کررہی ہے، حیرت انگیز اجتماع ہے، رنگا رنگ مختلف شکلیں، مختلف زبانیں، بوقلموں مناظر۔ یہ سب رب العالمین کے در بارِقدس کے مہمان ہیں۔ یہ شاہی دربار میں عبدیت وبندگی، ضعف وبے کسی، عجز و درماندگی اور ذلت و مسکنت کا نذرانہ پیش کریں گے اور رضا و مغفرت، فضل واحسان اور انعام واکرام کے گو ہرِمقصود سے جھولیاں بھرکر لے جائیں گے۔ اپنے لیے، اپنے اعزہ واقارب اور دوست احباب کے لیے آج جو کچھ ما نگیں گے نقد ملے گا۔ زوال ہوا تو ہر چہار طرف سے آہ وبکا کا شور برپا ہوا، اس کی آواز بھی اس حیرت انگیز طوفانِ گریہ وزاری میں ڈوب گئی، شام تک کا سارا وقت اسی عالم تحیر میں گزار تا ہے، کبھی خوب رو رو کر مانگتا ہے، کبھی’’ لبیک أللّٰھم لبیک ‘‘ کا نعرہ لگاتا ہے، کبھی تکبیر کی گونج سے ز مزمہ آراء ہوتا، کبھی تہلیل سے نغمہ سرا ہوتا ہے، کبھی ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ‘‘سے وحدانیت و ربوبیت کی صدائیں بلند کرتا ہے، عابد و معبود کا یہ تعلق کتنا دلربا ہے؟ اور  بندگی وسرافگندگی کا یہ منظر کس قدر حیرت افزا ہے؟     آفتاب غروب ہوا اور اس دشت پیما نے بوریا بستر باندھ مزدلفہ کا رخ کیا، شب بیداری وہاں ہوگی، مغرب وعشاء کی نماز وہاں پڑھی جائے گی۔ اظہارِ آدابِ بندگی میںکچھ کسر باقی رہ گئی ہے تو وہاں نکالی جائے گی، کبھی رکوع وسجود ہے، کبھی وقوف وقیام ہے، کبھی تہلیل وتکبیر ہے، کبھی تسبیح وتلبیہ ہے۔ گریہ وزاری، دعا ومناجات اور تضرع و ابتہال کا نصاب پورا ہوا تو کامیابی وکامرانی کی نعمت سے سرشار ہوکر وہاں سے منیٰ کو چلا۔ دشمنِ انسانیت، عدوّ مبین، راندۂ بارگاہ، ابلیس لعین کی سرکوبی کے لیے جمرہ کی رمی کی۔ خلیل وذبیح ( علٰی نبینا وعلیہما الصلاۃ والسلام)کی سنتِ قربانی کی یاد تازہ کر نے کے لیے اللہ تعالیٰ کے نام پر قربانی دی اور رضائے محبوب کے لیے جان ومال کے ایثار وقربانی کا عہد تازہ کرلیا، وہاں سے بارگاہِ قدس کے مرکز انوار کی زیارت کو چلا اور طوافِ کعبہ کے انوار وبرکات سے دیدہ ودل کی تسکین کا سامان کیا۔     الغرض اس عاشقانہ ووالہانہ عبادت میں دیوانہ وار ایثار وقربانی اور عبد یت وفنائیت کا ریکارڈ قائم کرلیتا ہے اور تجلیاتِ ربانی کے انور وبرکات سے سراپا نور بن جاتا ہے اور رحمت ورضوان کے تحفوں سے مالا مال ہوکر اور استحقاقِ جنت کی آخری سند لے کر اپنے وطن کو واپس لوٹتا ہے۔ اس طرح بندہ بندگی کا ثبوت دے کر جنت ورضوان الٰہی کی نعمتوں سے سرفرزای کے تمغے وصول کر لیتا ہے:۔     ’’والحج المبرور لیس لہٗ جزاء إلا الجنۃ‘‘ کے آخری انعام سے مطمئن ہوجاتا ہے۔ دیکھئے! کس انداز سے عشق ومحبت کی منزلیں طے کی گئیں اور کس کس طرح شاباشوں سے نواز اگیا!!! یہ اس عاشقانہ وعارفانہ عبادت کا بہت ہی مختصر سا نقشہ ہے ۔ سفر عشق میں امتحان     ظاہر ہے کہ مقصد بہت ہی اعلیٰ ہے، اس لیے کبھی کبھی اس مقصد کے حصول کے لیے امتحان بھی ناگزیر ہوتا ہے، مدتوں کے جمے ہوئے تہ بر تہ زنگ وغبار کو دور کرنے کے لیے شدید تنقیہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ کبھی جان پر امتحان آتا ہے، کبھی مال پر، کبھی رفقاء سے تنہا کراکر تڑپایا جاتا ہے، کبھی پٹوا کر رُلایا جاتا ہے، کبھی ہر آسائش وراحت چھین کر آخرت کی آسائش وراحت کی نعمت سے نوازا جاتا ہے۔ بہرحال یہ راز سربستہ کسی کے بس کی بات نہیں، شانِ ربوبیت کے کریمانہ کرشمے ہیں، شانِ صمدیت کا ظہور ہے اور ارحم الراحمین کی رحمت خفیہ کے شیون ہیں۔ رحمت الٰہی کا ظہور کبھی بصورتِ رحمت ہوتا ہے، کبھی بشکل زحمت، کسی کو چوں و چرا کی گنجائش نہیں۔ یہ وہ مقام ہے کہ عارفین جو دریائے معرفت کے غو طہ زن ہیں وہ بھی سرِحیرت جھکاکر خاموش ہیں۔ صبر آزما امتحان لیا جاتا ہے، کبھی جوع وخوف سے، کبھی انفس واموال زیر امتحان ہوتے ہیں، رضا بالقضاء کے لیے مجاہدہ کرایا جاتا ہے اور مہر بانی اور شاباش کی بارش ہوتی اور آخر میں جنت کی سند مل جاتی ہے اور’’والحج المبرور لیس لہٗ جزاء إلا الجنۃ‘‘ کا تحفہ عطا کیا جاتا ہے، بلاشبہ عبدیت کا ظہور اور شانِ عشق ومحبت کا مظاہرہ جس طرح حج بیت اللہ الحرام میں ہوتا ہے کسی اور عبادت میں نہیں ہوتا۔     امسال سالِ گزشتہ یاگزشتہ سالوں کی بہ نسبت بے حد ہجوم تھا اور تقریباً نصف ملین (۵۰۰۰۰۰) خدا کی مخلوق زیادہ پہنچ گئی تھی۔ محدود مقامات اور محدود انتظامات میں غیر محدود مخلوق کا انتظام در ہم بر ہم ہوگیا تھا، قیام وطعام کی دشواریاں تھیں، ٹریفک اور مواصلات کا نظام تقریبًابس سے باہر تھا۔ ایک ترکی قوم کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی جن کی دیوہیکل بسوں نے تمام حجاج کرام کو بے بس بنادیا تھا، سڑکیں بند، راستے مشغول، شاہ فیصل کے عہد مبارک کے شاہانہ انتظامات نے بھی عجز وتقصیر کا اعتراف کیا۔ اگرچہ قدم قدم پر حق تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کرم فرما تھی اور شاہ فیصل کے عہد کے بر کات بالکل ظا ہر وباہر تھے، لیکن پھر بھی حکومتوں کا حج پر کنٹرول کرکے حجاج کے کوٹے مقرر کرکے تحدید کرنے کی مصلحتیں تکوینی طرز پر واضح ہوگئیں، اس سلسلہ میں چند باتیں اور گزارشات ضروری خیال کرتا ہوں۔  حجاج کی لیے چند ضروری ہدایات     ۱:۔۔۔۔۔ عورتوں اور مردوں کا ناگفتہ بہ اختلاط طوافوں میں، نمازوں میں اور سلام کی حاضری میں غیر شرعی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ عورتوں کے طواف کے لیے رات یا دن میں کوئی وقت مخصوص کرلیا جائے اور اس طرح سلام کی حاضری کے لیے بھی وقت مخصوص ہو، ان اوقات میں مر دوں کو طواف یا حاضری سے روکا جائے ۔     ۲:۔۔۔۔۔ نہ تو عورتوں پر جماعت کی پابندی ہے، نہ مسجد کی حاضری کی فضلیت ہے، نہ نماز جمعہ ان پر فرض ہے، اس لیے عورتیں گھر میں نماز پڑھا کریں اور اسی طرح جمعہ میں عورتوں کی حاضری روکی جائے۔ موجودہ صورت حال نہ شرعًا درست ہے، نہ عقلاً قابل بر داشت ہے ۔     ۳:۔۔۔۔۔ رمی جمرات کے لیے عورتیں رات کو جایا کریں جس طرح بوڑھوں اور مریضوں کے لیے بھی یہی وقت مناسب ہے، بلاشبہ بغیر عذر کے یہ خلافِ سنت ہے، لیکن موجودہ صورت حال میں ان شاء اللہ! کر اہت بھی ختم ہوجائے گی ۔     ۴:۔۔۔۔۔ تمام حضرات جو حج بیت اللہ الحرام کا ارادہ کریں تمام ضروری مسائل یاد کرکے آئیں۔ فرائض وواجبات کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ بسا اوقات یہ دیکھا گیا کہ لوگ فرائض وواجبات میں تقصیر کرتے ہیں اور فضائل ومستحبات کا اہتمام ہوتا ہے۔      اس وقت جو صورتِ حال ہے قانونی وفقہی احکام کے پیش نظر تو یہ امید رکھنا بہت مشکل ہے کہ یہ عبادت صحیح ادا ہوئی یا یہ حج مبر ور ہوگا۔ صحیح طواف کیسے ہو ؟اور اس میں کیا کیا بار یکیاں ہیں؟ اگر ایک قدم طواف کا ایسا ادا ہو کہ بیت اللہ کی طرف سینہ ہوجائے تو سارا طواف بیکار ہوگیا، اگر شروع کر نے میں حجر اسود سے تقدم ہوگیا تو طواف میں نقصان آجاتا ہے، اگر ایک انچ ہٹ کر طواف شروع کیا تو سرے سے طواف ہوا ہی نہیں، خاص کر ازدہام وہجوم میں صحیح طواف کرنا بے حد دشوار مرحلہ ہے، عورتیں مردوں کے درمیان کھڑی ہوجاتی ہیں، ایک عورت اگر صف میں مردوں کے درمیان کھڑی ہو گئی تو تین مردوں کی نماز غارت ہو گئی، جو شخص دائیں ہو جو بائیں ہو، جو اس سیدھ میں پیچھے ہو۔ اگر ایک ہزار عورتیں اس طرح صفوں کے درمیان ہیں تو تین ہزار مردوں کی نماز فاسد ہوگئی۔ دورانِ سفر بہت سی نمازیں قضا ہوجاتی ہیں، اگر فرض نماز قضا ہوگئی تو حج مبرور کی تو قع رکھنا مشکل ہے۔ الغرض اس طرح دسیوں مسائل ہیں کہ جن سے عوام تو کیا علماء بھی غافل ہیں۔ رمی جمرات میں تو معمولی عذر پر دوسروں کو وکیل بنایا جاتا ہے، اس طرح وہ توکیل صحیح نہیں ہوتی، دم لازم آجاتا ہے، غور کر نے سے محسوس ہو ا کہ جہاں تک مسائل واحکام کا تعلق ہے مشکل سے یہ کہا جائے گا کہ یہ حج صحیح ادا ہو گیا،لیکن حق تعالیٰ شانہٗ کی رحمت کا ملہ کے پیش نظر کوئی بعید نہیں کہ اگر نیت صحیح ہو اور جذبہ سچا ہو تو تمام کوتاہیاں اور قانونی فروگزاشتیں سب معاف ہوں اور ارحم الراحمین کی رحمت عامہ سے یہی امید ہے کہ اپنے گنہگار بندوں کی کو تا ہیوں سے در گزر فرماکر اپنی رحمت ونعمت سے نوازے اور نہ معلوم کس کی کون سی ادا قبول ہوجائے اور کیا کچھ خزانہ رحمت سے ملے اور بلاشبہ حق تعالیٰ شانہٗ کی رحمت کا ملہ کی مو سلادھار بارش میں کوئی بد نصیب ہی محرو م رہے گا، ہوسکتا ہے کہ چند مقبولینِ بارگاہ کے طفیل سب کا حج قبول ہو، اس کی شان کر یمی کے سامنے سب کچھ آسان ہے۔ کاش! اگر حق تعالیٰ کی اتنی مخلوق قانون کے مطابق جذباتِ صادقہ سے والہا نہ انداز سے یہ فریضہ ادا کر تی تو امت کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور تمام عالم میں ان نمائندگانِ بارگاہِ قدس کا فیض جاری ہوتا جس حریمِ قدس کو ان شاندار کلمات سے وحی ربانی میں یاد کیا ہو : ’’إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰـرَکًا وَّھُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ فِیْہِ أٰیٰتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاھِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ أٰمِنًا‘‘۔                                 (آل عمران:۹۷)      ان آیاتِ بینات اور ان برکات وتجلیات کا کیا ٹھکانا؟ بہرحال کہنا یہ ہے کہ کوشش کی جائے کہ قانون کی رو سے بھی صحیح حج ہو اور نیت وجذبہ بھی سچا ہو اور قدم قدم پر تقصیر کا احساس ہو اور یہ تصور مستمر قائم ہو کہ اس حریمِ قدس میں حاضری کے آداب کی اہلیت کہاں؟ ہم جیسے نا پاکوں کو اس سر زمین میں حاضری کی دعوت دی گئی اور پہنچ گئے، یہ محض حق تعالیٰ شانہٗ کا عظیم احسان ہے کہ اس مقدس زمین اور بقعۂ نور میں سراپا ظلمات والے کو جگہ عطا فرمادی۔ توقع ہے کہ اس احساس سے بارگاہِ قدس میں شرف قبولیت نصیب ہو۔ یہ جو کچھ بیت اللہ کی عظمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ بہت سطحی حقائق کے درجہ میں بات عرض کی گئی، ورنہ جو حقائق واسرار عارفین وکبار صوفیاء کرام: شیخ اکبرؒ، امام ربانی شیخ احمد سرہندیؒ، حضرت شیخ سید آدم بنوریؒ، شاہ عبد العزیزؒ اور حجۃ الا سلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہم اللہ جمیعًا نے بیان فرمائے ہیں وہ ’’بینات‘‘ کے دائرہ بیان سے بالاتر ہیں۔     راقم الحروف نے اپنے رسالہ ’’بغیۃ الأریب فی مسائل القبلۃ والمحاریب‘‘ کے آخر میں کچھ تھوڑا سا حصہ بیان کیا ہے۔ بہرحال کعبۃ اللہ اس مادی کائنات میں شعائر اللہ میں داخل ہے۔ نماز میں اگر حق تعالیٰ شانہٗ سے مناجات وہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے تو حج میں حق تعالیٰ کے گھر میں مہمانی کا شرف ومجد حاصل ہے۔ جب ہم کلامی کی عظمت بیت الحرام میں نصیب ہو اور دونوں عظمتیں جمع ہوجائیں تو جو کچھ بھی اس کا درجہ ہوگا تصور وخیال سے بالاتر ہے: ’’ نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز ‘‘      یہ وہ مقام ہے کہ انتہائی تعظیم وادب کی ضرورت ہے، لیکن آج کل ہماری غفلت وجہالت سے جو صورت حال ہے وہ ظا ہر ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری تمام عبادات کی صرف صورت رہ گئی روح نکل گئی ہے۔ تمام عبادات بے جان لاشے ہیں، اگر ان میں جان ہو تی تو آج امت محمدیہ(l) کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ حق تعالیٰ کی رحمت ہے اور اسلام کا حکیما نہ نظام ہے کہ مساجد بھی بیوت اللہ ہیں: ’’وأن المساجد للّٰہ فلا تدعوا مع اللّٰہ أحدا۔‘‘ ’’مساجد صرف اللہ تعالیٰ کی ہیں، ان میں صرف اللہ ہی کی عبادت ہو نی چاہیے۔‘‘     آخری سب سے بڑا مرکزی گھر وہ مسجد حرام وہ بیت الحرام ہے، جس سے عالم میں بجز اس مقام کے جہاں حضرت سید الکو نین a آرام فرما رہے ہیں کوئی مقدس قطعہ نہیں، جہاں پر حق تعالیٰ کی طرف سے انوار کی موسلا دھار بارش برستی ہے، فرشتے طواف کے لیے آسمانوں سے اترتے ہیں۔ حق تعالیٰ مسلمانوں اور حجاج کرام کو تو فیق نصیب فرمائے کہ اس مقام کی صحیح معرفت نصیب ہو، بقدر طاقت بشری حق ادا کر سکیں۔ ٭٭٭

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین