بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

حالتِ جنگ میں مسلم فوج وقوم کا کردار!


حالتِ جنگ میں مسلم فوج وقوم کا کردار!


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

خطۂ کشمیر میں آج سے ۷۳۳ سال پہلے اسلام داخل ہوا۔ سب سے پہلے مسلمان سید شرف الدین عبدالرحمنؒ عرف بلبل شاہ یا بلاول شاہ نے یہاں قدم رکھا۔ اُن کے نام پر سری نگر میں آج ایک محلہ اور مسجد کا نام موجود ہے۔ اُن کے ہاتھ پر والیِ کشمیر رینٹچن نے کلمۂ اسلام پڑھا اور اپنا نام صدرالدین رکھا، اس کے بعد پانچ سو سال تک مسلمانوں نے کشمیر پر حکومت کی۔ اس کے بعد سکھوں نے اس خطہ پر قبضہ کیا، پھرسکھوں سے اس ملک کو انگریزوں نے چھینا۔ انگریزوں کو تاوان ادا کرکے ڈوگرہ قوم نے کشمیر کو ایک سو سال تک اپنے تسلُّط میں رکھا، انہیں ڈوگروں نے مسلمانوں پر ظلم وجبر کے پہاڑ توڑے، جس کی بناپر ۱۹۳۱ء میں مجلسِ احرارِ اسلام نے حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہٗ اور دوسرے اکابر زعماء کی قیادت میں اُن کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور کشمیر چلو تحریک چلائی، جس کے تحت چالیس ہزار کے قریب رضاکاروں نے کشمیر پہنچ کر اپنے کشمیری بھائیوں کی حمایت میں خود کو قیدوبند کے لیے پیش کیا، اس تحریک کے نتیجہ میں کشمیر میں سیاسی بیداری پیدا ہوئی۔
اسی اثناء میں ۱۹۴۷ء میں ہندوستان تقسیم ہوا اور ملکِ پاکستان وجود میں آیا۔ تقسیم کے وقت آزاد ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ جس ملک کے ساتھ اِلحاق کرنا چاہیں ان کو اختیار ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ جو اس وقت کشمیر کا حکمران تھا، اس نے کشمیر کی اکثریتی مسلمان قوم کی مرضی کے برعکس ہندوستان کے ساتھ اِلحاق کا فیصلہ کیا۔ مسلمانوں نے اس پر زبردست احتجاج اور علماء کرام نے جہاد کا فتویٰ دیا۔ مسلمانوں نے سری نگر کی طرف یلغار کردی۔ اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور یہ کہہ کر جنگ بندی کرادی کہ مذاکرات کے ذریعہ عوام کا یہ حق تسلیم ہے کہ انہیں آزادانہ استصوابِ رائے کے ذریعہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ تب سے بھارت کشمیر پر طاقت کے زور سے قابض ہے اور کشمیری عوام کو حقِ خود اِرادیت دینے سے انکاری ہے، آج ستر سال ہوگئے، جب سے اقوامِ متحدہ اور عالمی طاقتیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں، اور کشمیری عوام اپنی آزادی اور خود مختاری کے لیے مسلسل قربانیاں پیش کررہے ہیں۔
قرآن وسنت کی روشنی میں سات وجوہ ایسی ملتی ہیں، ان میں سے ایک وجہ بھی جہاں پیدا ہوجائے تو وہاں کے مقامی لوگوں پر فریضۂ جہاد کا بجالانا واجب ہوجاتا ہے اور جب تک وہ لوگ اس فریضہ سے سبکدوش نہ ہولیں، ان کو کسی دوسرے شغل میں بطریقِ استقلال مشغول ہونے کی اجازت نہیں۔ جہادِ کشمیر کے مسئلہ میں ان ساتوں وجوہات میں سے جس وجہ کو میزانِ عقل وخرد اور انصاف پر تولنا چاہیں تول لیں، ہر حال اور ہر صورت میں جہادِ کشمیر اس پر پورا اُترے گا، وہ سات وجوہ درج ذیل ہیں:
۱:-اعلائے کلمۃ اللہ۔۔۔۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام اور اہل اسلام کا اقتدار اس قدر مضبوط اور وسیع کیا جائے ، نہ صرف یہ کہ کسی غیر مسلم طاقت کو یہ جرأت نہ ہو کہ وہ افرادِ اُمت میں سے کسی فرد کو کسی فتنہ (خواہ وہ مذہبی ہو یا دنیوی) میں مبتلا کرسکے، بلکہ وہ سب کے سب اسلام کے سیاسی اقتدار کے سامنے سرِتسلیم خم کردیں اور اسلام کا ہر حکم ہر جگہ بلاچوں وچرا نافذ ہو، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
۱: ’’ وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ۔‘‘       (الانفال:۵)
’’اور لڑتے رہو اُن سے یہاں تک کہ نہ رہے فساد اور ہوجائے حکم سب اللہ کا۔‘‘
۲: ’’أُمرتُ أن أقاتل الناس حتی یشہدوا أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأن محمدًا رسول اللّٰہ ویقیموا الصلاۃ ویؤتوا الزکوۃ ، فإذا فعلوا ذٰلک عصموا منی دمائہم وأموالہم إلا بحق الإسلام وحسابہم علی اللّٰہ۔‘‘             (متفق علیہ، کذا فی مشکوۃ، کتاب الایمان)
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: میں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس بات پر مامور کیاگیا ہوں کہ لوگوں سے اس وقت تک لڑتا رہوں کہ وہ گواہی دیویں اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور نماز پڑھیں اور زکوۃ ادا کریں۔ ہاں! اگر قوانینِ اسلام کی خلاف ورزی سے وہ کہیں مواخذہ میں آجاویں تو یہ دوسری بات ہے اور اُن کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہے۔‘‘
۲:-حفاظتِ خود اختیاری کے لیے لڑنا ۔۔۔۔۔۔۔ اس سے مراد اس ظلم وتشدد کا دفع کرنا ہے جو مسلمانوں پر محض ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے کفار ومشرکین کے ہاتھ سے ظہور میں آتا ہے۔ ان کے ظلم وجور سے بچنے کے لیے انہیں کفار کے مقابلہ میں تلوار اُٹھانا اور تا وقتیکہ ظالموں کا زور ٹوٹ نہ جائے، جہاد برپا رکھنا ضروری ہے، چنانچہ فرمایا:
۱:’’أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ۔‘‘                        (الحج:۳۸-۳۹)
’’ان مظلوم مسلمانوں کو جن کے ساتھ مشرکین (خواہ مخواہ) جنگ وجدال برپا رکھتے ہیں، اُن کو ان کی مظلومیت کی بنا پر دفعیۂ ظلم کی خاطر (ان کفار کے مقابلہ میں) تلوار اُٹھانے کی اجازت دی جاتی ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ ان کی امداد پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ ستم رسیدہ لوگ ہیں جن کو (محض مسلمان ہونے کی بنا پر) گھروں سے نکالاگیا ہے۔ (ان کا جرم صرف یہی ہے) کہ وہ کہتے ہیں کہ پروردگار ہمارا صرف اللہ ہی ہے۔‘‘
۲:’’من قتل دون نفسہٖ فہو شہید ، ومن قتل دون مالہٖ فہو شہید ، ومن قتل دون عرضہٖ فہو شہید۔‘‘    (رواہ ابوداؤد عن سعید بن زید، کذا فی المشکوۃ، باب مالا یضمن من جنایات)
’’جو شخص اپنی جان کی حفاظت کے سلسلہ میں دشمنوں کے ہاتھ سے مارا جائے وہ شہید ہے اور جو شخص اپنے مال کی حفاظت کے ذیل میں ماراجائے تو وہ بھی شہید ہے اور جو شخص اپنی ناموس کی حفاظت کے ذیل میں ماراجائے وہ بھی شہید ہے۔‘‘
۳:-بے بس مسلمانوں کو کفار سے نجات دلانے کے لیے لڑنا۔۔۔۔۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ آزاد مسلم ممالک اور ان کے اندر بسنے والے مسلمانوں کو مظلوم اور بے بس مسلمان مردوں اور عورتوں اور بچوں کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے یوں ارشاد فرماتے ہیں:
’’وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہٰـذِہٖ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا۔‘‘                                  (النساء:۷۵)
’’اور (اے آزاد مسلمانو!) تمہارے لیے کیا عذر ہے کہ تم راہِ اللہ میں اور ان بے بس (مسلم) مردوں، عورتوں اور بچوں کی حمایت میں جو مشرکین کے بلاد میں آباد ہونے کی وجہ سے ان کے مظالم کا تختۂ مشق بنے ہوئے ہیں، اُن کو ان کے ظلم وجور سے نجات دلانے کی خاطر نہیں لڑتے ہو جو (دن رات میرے حضور میں یوں) فریاد کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس بستی سے نکلنے کی کوئی راہ پیدا کر، یہاں کے لوگ ہم پر بہت ظلم کررہے ہیں اور (خود ہی) اپنی طرف سے کسی کوہمارا حامی بنا اور (خود ہی) اپنی طرف سے ہمارے لیے کوئی مددگار مقرر کر۔‘‘
۴:- کفار سے انتقام لینے کی خاطر لڑائی کرنا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ خواہ اُن کے ہاتھ سے فقط ایک ہی مسلمان پر ظلم ہوا ہو، جس کی مثال سیدنا عثمانq کے واقعہ کے اندر پائی جاتی ہے جو بیعتِ رضوان سے مشہور ہے۔آج کشمیر کے اندر بسنے والے مسلمانوں کی مظلومیت کی داستان ایسی نہیں جو ہماری آنے والی نسلوں کو قیامت تک بھول سکے۔ کشمیر میںہرمسلم کا گھر آج ماتم کدہ دکھائی دیتا ہے۔ کوئی زبان نہیں جو اُن پر مرثیہ خواں نہ ہو اور کوئی آنکھ نہیں جو اُن پر خون کے آنسو نہ بہاتی ہو۔
۵:-عہد شکنی کی بنا پر کفار ومشرکین سے لڑنا ۔۔۔۔۔۔ یہ بھی جہاد ہے۔ جنگ وجدال برپا کرنے، دشمن کی جنگی قوت سے خالی الذہن ہوکر بے دریغ لڑنے کے بارہ میں قرآن کریم میں کئی بار تذکرہ آیا ہے اور یہ کہ مسلمانوں پر آئندہ کے ساتھ بدعہدی کرنے کی جرأت نہ ہو، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
۱:’’وَإِنْ نَّکَثُوْا أَیْْمَانَہُمْ مِّنْ بَعْدِ عَہْدِہِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْا أَئِمَّۃَ الْکُفْرِ إِنَّہُمْ لَا أَیْْمَانَ لَہُمْ لَعَلَّہُمْ یَنْتَہُوْنَ۔‘‘                                      (التوبۃ:۱۲)
’’اگر مشرکین عہد کے پیچھے اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین کے اندر مین میخ نکالیں تو تم لوگ اس نیت سے کہ وہ لوگ عہد کی خلاف ورزی اور دینِ اسلام کی توہین کے بازار میں کفر کے سرغنوں اور کفر کے لیڈروں سے خوب لڑو۔‘‘
۲:’’قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِأَیْْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ وَیُذْہِبْ غَیْْظَ قُلُوْبِہِمْ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ یَّشَائُ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔‘‘(التوبۃ:۱۴)
’’اے مسلمانو! تم ان (عہد شکن فساد پیشہ مشرکین) سے (ضرور) لڑو۔ اللہ تعالیٰ (اس کام کے چھ نتیجے پیدا کرے گا) اول: ان کو تمہارے (کمزور) ہاتھوں سے عذاب کرے گا۔ دوم: ان کو ذلیل کرے گا۔ سوم: تم کو اُن پر غلبہ دلائے گا۔ چہارم: مسلمانوں کے سینوں کے لیے (جو کفار کی مسلم کشی اور مستورات کی عصمت ریزی سے زخمی ہوچکے ہیں) مرہمِ شفا بہم پہنچائے گا۔ پنجم: مسلمانوں کے دلوں میں (مشرکین کے ظلم وتشدد کی وجہ سے) جو غیظ وغضب بھراہوا ہے، اس کو نکالنے کی راہ پیدا کرے گا۔ ششم: ان کفار ومشرکین میں سے جتنوں کو چاہے گا (اسلام کی نعمت سے سرفراز کرے گا) اپنی مہربانی کا ظہور فرمائے گا اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
عہد شکن مشرکین اور کفار کو روئے زمین کی بدترین مخلوق قرار دیاگیاہے اور میدانِ جنگ میں ان پر قابو پانے کی صورت میں اُن کے اس طرح قتلِ عام اور تعذیب کی طرف راہ نمائی کی ہے کہ اُن کی آنے والی نسلیں عبرت پذیر ہوں اور انہیں اہلِ اسلام کے ساتھ عہد شکنی کی کبھی جرأت نہ ہونے پائے۔
آنحضرت a نے سنہ ۸ ہجری میں اہلِ مکہ پر جو لشکر کشی کی، اس کی وجہ بھی عہد شکنی ہی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے سنہ ۴ ہجری میں یہود کے قبیلہ بنی نضیر کے مدینہ منورہ سے نکالے جانے کا واقعہ جس کے اندر اُن کے جوان مارے گئے اور ان کی عورتیں اور بچے اسیر ہوئے، یہ سب واقعات عہد شکنی کی وجہ سے رونما ہوئے۔
کاش! ہماری حکومت سیکورٹی کونسل کے فیصلوں پر تکیہ لگانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے اَٹل وعدوں پر بھروسہ کرتی تو آج کشمیر بھی پاکستان کے پاس ہوتا اور پاکستان ہمیشہ سے اس دشمن ملک کے خطرے سے محفوظ رہتا۔
۶:- آزادیِ وطن اور قوم کے لیے جنگ کرنا ۔۔۔۔۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک ملک پہلے مسلمانوں کے قبضہ میں تھا، اس کے بعد کسی وجہ سے اس پر کافروں کا تسلط ہوگیا اور وہاں کی مسلم آبادی کفار کی رعیت اور غلام بن گئی اور انہوں نے جس طرح چاہا، ان کے مال وجان میں تصرف کرنا شروع کردیا۔ اب اس وطن کو پھر سے کفار کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے جو جنگ لڑی جائے گی، اُسے قومی اور وطنی جنگ نہیں کہا جائے گا، بلکہ قرآن مجید کی اصطلاح میں وہ جنگ بھی ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ کے مقدس نام سے یاد ہوگی۔ کیونکہ مسلم قوم کی دنیا ‘ دین سے کوئی الگ چیز نہیں، بلکہ دونوں کے درمیان ایک ناقابلِ انفکاک رابطہ ہے۔ ایک کی زندگی دوسری کی زندگی پر موقوف ہے، جیسے روح اور بدن کا تعلق ہے۔ اگر مسلم قوم کے ہاتھ سے اس کا ملک نکل جائے اور اس پر کفار قابض ہوجائیں تو اس کے ساتھ ہی اس کا دین مفلوج ہوجاتا ہے، اس لیے اس وطن کا کفار سے نجات دلانا ہر قیمت پر مسلم قوم کے تمام مذہبی فرائض میں سے اہم فریضہ ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی مثال جالوت اور طالوت کے قصہ میں ملتی ہے۔
۷:- ایک مظلوم اور بے بس مسلم قوم کو حکومت کی غلامی اور استبداد سے نجات دلانے کی خاطر جو جنگ لڑی جائے گی، وہ بھی سب سے بڑا جہاد فی سبیل اللہ کہلائے گی اور اس کے اندر لڑنے والے ان تمام نوازشات اور مبشرات کے مستحق ہوںگے، جو قرآن مجید نے مجاہدینِ ابرار اور شہدائے صداقت شعار کے لیے مخصوص اور موعود فرمائی ہیں۔ اس کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعہ کے اندر آپ کو ملے گی۔  
یہ سات ایسی وجوہ ہیں جن کی بناپر کشمیر کے مسلمانوں کا انڈیا کی فورسز کے خلاف لڑنا جہاد ہے اور پوری اُمتِ مسلمہ کا ان کی مدد کرنا مذہبی، سیاسی اور اخلاقی فریضہ بن جاتا ہے۔ خصوصاً پاکستان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اس لیے کہ کشمیری اپنی عزت، مال، جان اور سب کچھ کی قربانیاں پاکستان ہی کے لیے دے رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کو اس مسئلہ کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ۲؍فروری ۲۰۱۹ء بروز ہفتہ کو اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام نے مسئلہ کشمیر پر ایک مشاورتی آل پارٹیز کانفرنس بلائی، جس میں پاکستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کے علاوہ آزاد کشمیر کے صدر اور وزیراعظم نے بھی شرکت کی، اس کانفرنس کے اختتام پر درج ذیل اعلامیہ جاری کیا گیا:
’’مولانافضل الرحمن نے کل جماعتی مشاورتی کانفرنس کے اختتام پراعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہاکہ: یہ اجلاس بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری غیر انسانی جبرو استبداد اور ریاستی دہشت گردی کے ذریعے غاصبانہ قبضے کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ یہ اجلاس آزادی کے شہیدوں کو سلام اور خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کو یقین دلاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر جو کہ ا یک سیاسی اور انسانی المیے میں تبدیل ہو چکاہے کے مستقل حل اور منطقی انجام تک ان کی مکمل سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت پورے عزم و استقلال کے ساتھ جاری رکھے گا۔ تمام مجاہدین اور کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ اجلاس تحریکِ آزادیِ کشمیر کو کچلنے کی غرض سے بھارتی افواج کی جانب سے غیر انسانی ہتھکنڈوں کے ذریعہ کشمیریوں کو گزشتہ ستر سالوں سے ظلم وستم کا نشانہ بنانے اور اس کے نتیجے میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیے جانے، بالخصوص عورتوں کی بے حرمتی، نوجوانوں کی گمشدگی اور گمنام قبروں جیسے روح فرسا واقعات پر عالمی اداروں اور عالمی طاقتوں کی مجرمانہ خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ اس ضمن میں یاد رہے کہ صرف اکتوبر ۲۰۱۸ء میں قابض بھارتی افواج کی جانب سے اقوام متحدہ کے تفویض کیے گئے اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے محض طاقت کا وحشیانہ، غیردانشمندانہ اور غیرانسانی مظاہرہ کیا گیا اور کشمیری نوجوانوں کو آزادی کی تحریک کے لیے آواز اُٹھانے پر عسکریت پسند اور دہشت گرد ظاہر کرکے بے دردی سے بم دھماکوں اور بے رحمانہ فائرنگ سے شہید کردیا گیا اور اُن کے جسد خاکی کی کھلے عام بے حرمتی کی گئی، جس کا مقصد مظلوم کشمیری عوام کی آزادی اور حصولِ حقِ خود ارادیت مانگنے کی وجہ سے نشانِ عبرت بنانا مقصود تھا، تاکہ اُنہیں اپنے بنیادی حق سے محروم رکھا جائے۔ ہم بھارت کی ایسی تمام ناپاک حکمت عملیوں اور استبدادی ہتھکنڈوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ یہ اجلاس اقوامِ متحدہ اور عالمی طاقتوں پر زور دیتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت کے لیے فوری طور پر اپنا بھرپور کردار ادا کریں، بالخصوص گزشتہ دنوں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، او آئی سی اور برطانوی پارلیمنٹ کی آل پارٹی کشمیر گروپ کی سفارشات کی روشنی میں ایک آزاد اور خود مختار کمیشن بنایا جائے جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے کی جانے والی غیرقانونی کارروائیوں کی تحقیق کرے۔ نیز عالمی انسانی حقوق کے نمائندہ اداروں کو مقبوضہ کشمیر میں دورے کی اجازت دلوائی جائے، تاکہ اقوامِ عالم میں بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہوسکے۔ یہ اجلاس جنوبی ایشیا میں پاک چین اقتصادی راہداری جیسے طویل المیعاد ترقیاتی منصوبوں کے لیے امن وامان اور سازگار ماحول کی ضمانت فراہم کرنے کی غرض سے جموں وکشمیر جیسے دیرینہ مسئلے کو بلاتاخیر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے، تاکہ خطے میں دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر غربت ، جہالت اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔ اجلاس مسئلہ کشمیر پر حکومتی سردمہری کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے حکومت پر واضح کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں قومی اور عوامی اُمنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کشمیر میں ہونے والے وحشیانہ مظالم پر بین الاقوامی اداروں میں مقدمۂ کشمیر پیش کرے اور بھارتی مظالم سے پوری دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے پاکستانی سفارت خانوں اور دیگر ذرائع سے مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرے۔ اجلاس دنیا پر واشگاف الفاظ میں واضح کردینا چاہتا ہے کہ امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو اس کی کمزوری سے تعبیر نہ کیا جائے۔ امن کے دشمن یاد رکھیں کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، اور وہ اپنی نظریاتی اور جغرافیائی حدود کی حفاظت اور پاسداری کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ اجلاس ایک قرارداد کے ذریعہ بھارت کی سیاسی قیادت کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ منفی اور مذہبی تنگ نظری جیسی سوچ پر نظرثانی کرے اور پرامن بقائے باہمی جیسے زریں اُصولوں پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی طرف سے پیش کردہ تجاویز پر ازسرِنو حقیقت پسندانہ غوروفکر کرے اور ایک عملی پروگرام ترتیب دیا جائے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف برطانیہ کی پارلیمنٹ میں یومِ کشمیر کی تقریب منانے کا اعلان کیا گیا، جس میں ہمارے وزیرخارجہ بھی شریک ہوئے، اس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم اور خون ریز تشدد کے مناظر سامنے لائے گئے، جس پر بھارت بہت سیخ پا ہوا اور اس تقریب کو روکنے کا اس نے مطالبہ کیا ہوا تھا، شاید اس خفت اور سبکی کو مٹانے کے لیے اس نے اپنی ایجنسیوں کے ذریعہ خود ہی پلوامہ میں خود کش بمبار کے ذریعہ اپنی فوجیوں کی بس پر حملہ کرایا ، جس سے چالیس سے زائد بھارتی فوجی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ شنید ہے کہ اکثر فوجی سکھ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ اس حملہ کی مماثلت بظاہر ۱۱/۹ کے حملہ سے بھی ہوتی ہے، جس میں اکثر یہودی اس دن چھٹی پر بھیج دیئے گئے اور بلڈنگ میں باقی موجود لوگ اس کا نشانہ بنے۔ اسی طرح اس فوجی بس میں لگتا ہے کہ شاید ہندو کمیونٹی کو چھوڑکر صرف سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کو بٹھایا گیا تھا اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انڈین آرمی کے جوانوں نے کچھ عرصہ قبل اس کشمیری بمبار نوجوان کو پکڑا اور اس کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کرتے ہوئے اُسے زمین پر ناک رگڑنے پر مجبور کیا تھا، جس کی وجہ سے اس کے اندر انتقام کی آگ جوش مارتی رہی اور اس نے اس انداز میںاپنا بدلہ لیا۔ بہرحال وجہ کوئی بھی ہو، بھارت نے بلاسوچے سمجھے اس دھماکہ کے فوری بعد اس کا الزام پاکستان پر تھوپ دیا۔ پاکستان کے وزیراعظم نے پیش کش بھی کی کہ آپ ثبوت دیں، ہم کارروائی کریں گے ، جیسا کہ وزیراعظم نے کہا:
’’ اسلام آباد (اے پی پی)وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو پلوامہ حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے حملہ کیا تو پاکستان جواب دینے کا سوچے گا نہیں، بلکہ جواب دے گا۔ جنگ شروع کرنا آسان مگر ختم کرنا انسان کے ہاتھ میں نہیں۔ جنگ شروع کی گئی تو بات کہاں تک جائے گی، یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ بھارت کے پاس پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد ہیں تو ہمیں فراہم کرے، ہم کارروائی کریں گے۔ پلوامہ حملے کا ہمیں کیا فائدہ ہے؟ انڈیا نے بغیر ثبوت الزام لگادیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افغانستان کی طرح کشمیر کا مسئلہ بھی بات چیت سے ہی حل ہوگا۔ بھارت سوچے کہ کشمیری نوجوانوں میں موت کا خوف کیوں ختم ہوگیا ہے۔‘‘   (روزنامہ جنگ، ۲۰ فروری ۲۰۱۹ء)
لیکن بھارت نے ثبوت کیا دینے تھے، اچانک اس نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ کے قریب بمباری کردی اور جھوٹ بولا کہ ہم نے پاکستان کے تین سو آدمی شہید کردیئے، حالانکہ جہاں بمباری ہوئی، وہاں چند درختوں کا نقصان اور ایک ’’کوَّا‘‘ مرا ہوا پایا گیا۔ پاکستان نے پھر بھی حوصلے سے کام لیا اور دوسرے دن پھر اس کے جہازوں نے پاکستانی حدود میں گھسنے کی کوشش کی تو پاک ائیر فورس کے جوانوںمیں سے محمد حسن صدیقی مردِ میدان، جانباز اور جواں ہمت نوجوان فوجی نے انہیں دبوچ لیا اور اس کے دو جہاز مار گرائے، ایک پاکستانی حدود میں گرا اور دوسرا بھارتی حدود میں گر کر تباہ ہوا، جب کہ اس کا ایک پائلٹ پاکستانی فوج نے پکڑ لیا، جس سے بھارت کا غرور خاک میں مل گیا۔ 
الحمد للہ! پاکستانی قوم نے اپنی افواج کی بہادری اور جرأت پر خوشیاں منائیں اور افواج کے شانہ بشانہ لڑنے کے عزم کا اظہار کیا۔ یکم مارچ ۲۰۱۹ء بروز جمعہ کو اپنی افواج کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ملک بھر کی تمام مساجد میں اپنی افواج کے حق میں بیانات کیے گئے اور پورے ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بالخصوص جمعیت علمائے اسلام اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی اپیل پرملک میں ریلیاں نکالی گئیں اور جلسے جلوس کیے گئے۔
ادھر پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا، جس میں مکمل اتحاد واتفاق سے اپنی افواج کی صلاحیتوں پر اعتماد اور ان کے پشت پر کھڑے رہنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے ایک بار پھر بھارت کو تمام تصفیہ طلب مسائل پر مذاکرات کرنے کا اعادہ کیا اور کہا کہ: پاکستانی قوم ٹیپوسلطان کو اپنا آئیڈیل مانتی ہے۔ اگر بھارت نے مزید جنگ کی کوشش کی تو پھر ہم بھی جواب دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ 
البتہ وزیراعظم نے بھارت کے پائلٹ کو چھوڑ دینے کا جو اعلان کیا، پاکستانی قوم میں سے اکثریت نے اس کی وجہ سے کافی اضطراب اور پریشانی کا اظہار کیا اور کہا کہ وزیراعظم عمران خان صاحب کو اگر پائلٹ کو چھوڑنا ہی تھا تو اتنا جلدی کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس لیے کہ جب بھارت پاکستان سے اپنے پائلٹ کو چھوڑنے کا مطالبہ کرتا تو بھارت سے پاکستانی قیدیوں کے بارہ میں کئی شرائط منوائی جاسکتی تھیں۔ بہرحال پاکستانی قوم متحد ہے اور وہ اپنی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خطہ کی موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر صرف ISPR اور وزارتِ اطلاعات کی پریس ریلیز پر اعتماد کریں اور خواہ مخواہ مواد کو بغیر تحقیق کے شئیر کرنے سے گریز کریں۔ Disinformation بھی دشمن کا ہتھیار ہوتا ہے، اس سے دشمن کو فائدہ، ملک کو نقصان اور عوام میں بددلی پیدا ہونے کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے۔ پاک فوج کی کسی بھی موومنٹ کی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر جاری کرنے سے اجتناب کیجیے، یہ ایک جرم بھی ہے اور دشمن کو بے خبر رکھنے کے لیے لازم بھی ہے، اس لیے احتیاط کیجیے اور پاکستان آرمی کی کسی بھی قسم کی مومنٹ کی ویڈیو یا تصویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہ کیجیے۔
اس کے علاوہ دشمن کی چالوں کو سمجھیے، دشمن کی جھوٹی اور من گھڑت باتوں پر یقین نہ کریں، اپنے ملک کی فوج، نیوی اور ائیرفورس پر بھروسہ رکھیں اور خصوصی طور پر ان کے لیے اور پاکستان کے لیے دعا کریں۔ اللہ پاک اس پاک دھرتی پاکستان کو تاقیامت قائم دائم رکھے، پوری قوم اپنی پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم ان ۳۱۳ کے وارث ہیں جنہوں نے ساڑھے چودہ سو سال قبل اپنے سے کئی گنا بڑے لشکروں کو شکستِ فاش دی۔ ہم خالد بن ولیدؓ ، طارق بن زیادؒ، سلطان محمود غزنویؒ، صلاح الدین ایوبیؒ، سلطان ٹیپوؒ اور محمد بن قاسمؒ کے وارث ہیں۔ تاریخ شاہد ہے، ہم طاقت میں اپنے سے کئی گناپر غالب آئے ہیں۔ 

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُترسکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

اللہ تعالیٰ ہمارے کشمیری بھائیوں کو جلدی آزادی نصیب فرمائے، ہمارے ملک پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدات کی حفاظت فرمائے۔ جس طرح آج انڈیا جارحیت کے خلاف پوری قوم متحد ومتفق ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمیشہ اُسے متحد اور متفق رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین