بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

جڑی بوٹیوں اور قدرتی معدنیات کا حکم!

جڑی بوٹیوں اور قدرتی معدنیات کا حکم!


کیا فرماتے ہیں علماء دین اور مفتیانِ شرع اس مسئلے میں کہ ہمارے علاقے میں قدرتی معدنیات، قیمتی پتھر، جڑی بوٹی اور درخت وغیرہ عام ہیں۔ یہ پسماندہ علاقہ ہے، لوگوں کے لیے ذریعۂ معاش اور محنت مزدوری کے ایسے ذرائع میسر نہیں، جس سے لوگ اپنی زندگی کی ضروریات پوری کریں۔ اس صورت میں لوگ اپنی ضروریاتِ زندگی کو ان جڑی بوٹیوں کے ذریعے اور بعض لوگ معدنیات کے ذریعے پوری کرتے ہیں۔
لکڑی وغیرہ کو اپنے رہنے کے لیے مکانات اور کھانے پکانے کے لیے بالن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ متبادل ایسا کوئی نظام موجود نہیں جس سے لوگ اپنے لیے مکانات اور بالن کا ذریعہ بنالیں اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی ایسے متبادل وسائل میسر ہیں، جن کے ذریعے لوگ ان چیزوں سے پرہیز کریں۔ اگر لوگ لکڑیوں سے مکان بنانا ترک کردیں تو زندہ رہنے کے لیے کوئی دوسرا وسیلہ نہیں، جب کہ حکومت کی طرف سے مذکورہ وسائل پر بھی پابندی اور ٹیکس عائد ہے، جس کی بناپر لوگ محکمہ جنگلات کے اہلکاروں سے چھپ کر جڑی بوٹی کی نکاسی اور اسے مارکیٹ تک پہنچاتے ہیں، جبکہ راستے میں چیکنگ کے دوران سیکورٹی اہلکاروں کو کچھ دے کر اپنے مال کو مارکیٹ تک پہنچاتے ہیں۔ اس صورت حال میں سوال یہ ہے کہ مذکورہ معدنیات، جڑی بوٹی اور لکڑی وغیرہ کو استعمال کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا عوام اپنی مدد آپ ان چیزوں کے استعمال کا حق رکھتی ہے یا کہ نہیں ؟ اگر حق رکھتی ہے تو کس حد تک؟ کیا اس طرح چھپ کر جڑی بوٹی کی نکاسی اور خریدوفروخت جائز ہے یا کہ نہیں؟ نیز مذکورہ اشیاء پر حکومتی ٹیکس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ براہِ کرم شریعت کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
                                                                  المستفتی: معاویہ کشمیری، آزاد کشمیر
الجواب باسمہٖ تعالٰی
واضح رہے کہ قدرتی جنگلات، نباتات(جڑی بوٹیاں) اور جملہ قیمتی معدنیات وغیرہ زمین کے اجزاء شمار ہوتے ہیں، اس لیے یہ اشیاء فقہی اصطلاح میں مباحاتِ اصلیہ کہلاتی ہیں، یعنی اپنی اصل، طبع اور وضع کے اعتبار سے کسی کی ملکیت شمار نہیں ہوتیں۔ ایسی مباحات کا شرعی حکم صاف واضح ہے کہ جو انسان اپنی محنت اور کوشش سے ان مباح اشیاء تک رسائی پا لے، وہی ان اشیاء کا حقدار بن جاتا ہے۔ اس حقداری کا مدار شریعت نے انسان کی اپنی کوشش کو قرار دیا ہے۔(۱) اس سے لازمی طور پر دو باتیں عیاں ہوتی ہیں: 
۱:- قدرتی جنگلات کی لکڑیوں کے ضروری حصول اور نباتاتی جڑی بوٹیوں اور قیمتی معدنیات کی دریافت کے لیے کوشش کرنا شرعاً جائز ہے۔
۲:- جو انسان جائز کوشش کے ذریعے ان اشیاء کو حاصل کرلے تو ان اشیاء پر شریعت محنت کش انسان کا حق تسلیم کرتی ہے ۔
 لہٰذا جنگلات کی لکڑیوں اور نباتاتی جڑی بوٹیوں اور جملہ قیمتی پتھروں سے متعلق شریعتِ اسلامیہ کے درج بالا احکام کی وضاحت کے بعد یہ معلوم ہونا چاہیے کہ:
الف:- قدرتی جنگلات، خودرو جڑی بوٹیوں اور ہر نوع کے قیمتی پتھروں سے جو لوگ اپنی ضروریات، ذریعۂ روزگار اور کسبِ معاش کے لیے استفادہ کرتے ہیں، ان کا یہ عمل شرعاً جائز ہے۔(۲)
ب:- اگر اس جائز حق میں حکومتِ وقت یا اس کا کوئی ادارہ رخنہ اندازی کرے تو یہ رعایا کی حق تلفی اور ظلم و زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔
ج:- اس لیے حکومتِ وقت کا شرعی و آئینی فرض بنتا ہے کہ وہ اشیاء بالا سے متعلق اپنے قوانین و ضوابط میں ضروری ترمیم اور سہولت کی راہ اپنائے، تاکہ لوگ ان اشیاء کے حصول کے لیے جائز قانونی طریقوں تک محدود رہیں۔
د:- اگر ایسے ضرورت مند لوگ حکومت کے غیر شرعی ظالمانہ جبر سے بچنے کے لیے خفیہ طریقے سے اشیاء بالا کے حصول کی کوشش کریں گے تو شریعت انہیں اپنا اور حکومتِ وقت کا مجرم نہیں ٹھہرائے گی۔
ہ:- جب شریعت اشیاء مذکورہ بالا پر متعلقہ لوگوں کا جائز حق تسلیم کرتی ہے تو ان اشیاء کی خرید و فروخت بھی جائز ہے۔
و:- جائز ذرائع آمدن اختیار کرنے پر حکومت کی طرف سے رکاوٹ ڈالنا ظلم و نا انصافی ہونے کے علاوہ حکومتی قوانین کی رو سے ناجائز ذرائع اور غلط راستے اپنانے کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس لیے حکومت کا یہ اقدام جائز نہیں کہ وہ ظالمانہ قوانین کے ذریعے لوگوں کو قانونی مجرم بننے کا موقع دے کر سزا کا مستوجب بنائے۔
ز:- مذکورہ اشیاء اگر کسی کا ذریعہ روزگار بن جائیں اور وہ صاحبِ نصاب بن کر اس آمدن کے مالی حقوق شریعت کے مطابق ادا کرتا ہو تو حکومتِ وقت کے لیے اس آمدن پر کسی قسم کا ٹیکس عائد کرنا جائز نہیں ہے، بالخصوص مذکورہ اشیاء پر حکومت کا ٹیکس عائد کرنا اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ حکومت کے ٹیکس کا جواز تو کسی چیز کے حصول تک سہولت فراہمی اور خدمات کے صلے میں درست ہوا کرتا ہے، جبکہ اشیاء مذکورہ بالا کے حصول اور دریافت اور اس کی پیدائش و افزائش کے ساتھ حکومت کی کسی قسم کی سہولیات اور خدمات شامل نہیں ہوتیں، اس لیے اشیاء بالا پر حکومت کا ٹیکس لاگو کرنا شرعاً ناجائز ہے۔(۳)
البتہ قدرتی جنگلات سے متعلق شریعت کے درج بالا احکام کی تطبیق و تفہیم کے موقع پر ایک ضروری واقعاتی امر کو ملحوظ رکھنا بھی مصلحتِ عامہ کے اصول کے مطابق ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ عام مشاہدہ سے ثابت ہے کہ قدرتی جنگلات کے تحفظ کے لیے سرکار کا محکمانہ بندوبست مقرر ہے۔ یہ بندوبست کسی حد تک انتظامی ضرورت بھی ہے۔(۴) جنگلات سے استفادے کے لیے عوامی بے راہ روی کی روک تھام کے لیے انتظامی قوانین کا ہونا اور ان کا پاس رکھنا دونوںامر مقتضائے شرع کے عین مطابق ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے قوانین میں انتظامی ضرورت اور عوامی مصلحت سے تجاوز پایا جاتا ہے، وہ یوں کہ عوام کو اپنے حق کے حصول میں قانونی پیچیدگیوں سے گزرنا پڑتا ہے، جن کے نتیجے میں عوام اپنے مقاصد کے حصول کے لیے غیر قانونی راستہ اپناتے ہیں اور اس غیر قانونی راستے میں محکمہ کے خائن، رشوت خور اور بد دیانت قسم کے بعض لوگ ہمراہی بن جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس غیر قانونی راستے سے اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لیے با اثر طبقہ تو کامیاب ہو جاتا ہے، لیکن عام ضرورت مند لوگ اپنے جائز شرعی حق کے حصول سے محروم رہتے ہیں اور اس غیر قانونی راستے کے موجود ہونے کی وجہ سے حکومتِ وقت کی مصلحت پر مبنی پابندیاں بھی غارت ہو جاتی ہیں اور جنگلات کا وہ عمومی نقصان ہونے لگتا ہے جس سے روکنے کے لیے سرکاری پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، نتیجۃً جنگل میں جنگل کا قانون ہی رہ جاتا ہے۔ ان مفاسد کی بنا پر حکومت کی جانب سے مصلحت پر مبنی انتظامی پالیسیوں کو بھی مصلحتِ عامہ اور مفادِ عامہ کے خلاف جانے کی وجہ سے ناجائز کہا جائے گا اور خفیہ طریقے سے عوام الناس کو اپنے ضروری حق تک رسائی کے لیے شرعاً منع نہیں کیا جاسکے گا۔
 اس لیے قدرتی جنگلات کی حفاظت اور عوام کی ضرورت، دونوں کا لحاظ ہونا چاہیے۔ اس کی ایک مناسب صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت جنگلات کی لکڑیوں، خودرو جڑی بوٹیوں اور قیمتی معدنیات وغیرہ کے حوالے سے اپنے انتظامی قوانین میں ایسی نرمیاں پیدا کرے کہ عام و خاص رعایا یکساں طور پر اپنے حق کے حصول اور جائز ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جائز قانونی راستے تک محدود رہے اور غیر قانونی طریقوں اور خفیہ راستوں کو اختیار کرتے ہوئے جنگلات کے ناقابلِ تلافی نقصان کی طرف نہ جائے۔ اگر حکومتِ وقت جائز انتظامی قوانین بناتی ہے جن کی بدولت ضرورت مند رعایا کو یکساں طور پر اپنے جائز حق تک رسائی میسر ہوسکے تو پھر رعایا پر شرعاً لازم ہوگا کہ وہ اس صورت میں حکومتِ وقت کے جائز انتظامی قوانین کی پابندی کرے اور ان قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ضرورت کی حد تک جنگلات کی لکڑیوں، نباتات اور معدنیات سے فائدہ اُٹھائے اور اس انتظامی خدمت کے صلے میں جو منصفانہ مالیہ حکومت مقرر کرے وہ بھی ادا کیا جائے۔ اس ترتیب کے مطابق عمل کرنے سے عوام کی ضرورت، حکومت کی جائز عملداری اور قدرتی اشیاء کی مناسب حفاظت بھی ہو جائے گی۔ (۵)ان شاء اللہ!
 حوالہ جات 
۱:… ہو الذی خلق لکم ما فی الأرض جمیعا ثم استوی إلی السماء فسواہن سبع سمٰوات وہو بکل شیء علیم ۔ (سورۃ البقرۃ:۲۹)
قولہ تعالی :(ہو الذی خلق لکم ما فی الأرض جمیعا) فیہ عشر مسائل
الثانیۃ- استدل من قال: إن أصل الأشیاء التی ینتفع بہا الإباحۃ بہذہ الآیۃ وما کان مثلہا- کقولہ:’’ وسخر لکم ما فی السمٰوات وما فی الأرض جمیعا منہ‘‘ (الجاثیۃ :۱۳) الآیۃ- حتی یقوم الدلیل علی الحظر۔ (سورۃ البقرۃ:۲۹، ج:۱، ص:۲۵۱، الکتاب:الجامع لأحکام القرآن =  تفسیر القرطبی، المؤلف :أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاري الخزرجي شمس الدین القرطبي (المتوفی :۶۷۱ھـ) ، الناشر: دار الکتب المصریۃ القاہرۃ)
وجمع بقولہ :ما فی الأرض جمیعا جمیع المنافع، فمنہا ما یتصل بالحیوان والنبات والمعادن والجبال ومنہا ما یتصل بضروب الحرف والأمور التی استنبطہا العقلاء وبین تعالی أن کل ذلک إنما خلقہا کی ینتفع بہا کما قال :وسخر لکم ما فی السماوات وما فی الأرض۔ (الجاثیۃ :۱۳)(سورۃ البقرۃ:۲۹ ،ج:۲،ص:۳۷۹، الکتاب :مفاتیح الغیب = التفسیر الکبیر، المؤلف :أبو عبد اللّٰہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی الملقب بفخر الدین الرازی خطیب الری (المتوفی :۶۰۶ھـ)، الناشر :دار إحیاء التراث العربی بیروت)
المادۃ (۱۲۳۴) (الماء و الکلأ و النار مباحۃ، و الناس فہ ھذہ الأشیاء الثلاثۃ شرکاء ) و الفقرۃ الثانیۃ من ھذہ المادۃ ھی ماخوذۃ من الحدیث الشریف ’’المسلمون شرکاء فی ثلاثۃ: فی الماء و الکلا و النار‘‘ والاقتصار فی ھذہ المادۃ علی ھذہ الأشیاء الثلاثۃ ھو للتبرک لأن الناس شرکاء مع بعضھم فی غیر ھذہ الأشیاء و ذلک (رابعا) فی الأشجار النابتۃ من نفسھا فی الجبال المباحۃ (خامسا) فی الصید و (سادسا) فی أثمار الأشجار النابتۃ من نفسھا فی الأراضی التی لا صاحب لھا ،و الناس فی ھذہ الستۃ شرکاء ۔(کتاب الشرکات، الباب الرابع فی بیان شرکۃ الإباحۃ، الفصل الأول فی بیان الأشیاء المباحۃ و الغیر المباحۃ، ج:۳ ،ص:۲۶۳، الکتاب :درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام، المؤلف :علی حیدر، الناشر : دار الکتب العلمیۃ)
۲:…المادۃ (۱۲۴۸) أسباب الملک ثلاثۃ ۔۔۔۔: الثالث إحراز شیء مباح لا مالک لہ و الاستیلاء علیہ و ھذا الاستیلاء و الأخذ إما أن یکون حقیقیا أو یکون بوضع الید حقیقۃ علی ذلک الشیء کأخذ الماء بإناء من النھر و کصید الصید و کقطع الخشب من الجبال و کجمع الکلأ المباح و تجریزہ الخ۔ (کتاب الشرکات، الباب الرابع فی بیان شرکۃ الإباحۃ،الفصل الثانی فی بیان کیفیۃ استملاک الأشیاء المباحۃ، ج:۳،ص:۲۷۳-۲۷۴، الکتاب :درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام، المولف :علی حیدر، الناشر :دار الکتب العلمیۃ)
المادۃ (۱۲۵۳) (لکل شخص أیا کان أن یحتطب الأشجار النابتۃ من نفسھا فی الجبال المباحۃ و بمطلق الاحتطاب یعنی بجمعھا یصیر مالکا و لا یشترط الربط)۔ (ج:۳،ص:۲۷۷، أیضا)
۳:-وعن أبی أمامۃ عن النبي - صلی اللّٰہ علیہ وسلم - قال :إن الأمیر إذا ابتغی الریبۃ فی الناس أفسدہم۔ (أفسدہم) ؛ أی أفسد علیہم أمور معاشہم، ونظام معادہم ؛ لأن الإنسان قلما یخلو عن ذم، فلو أدبہم لکل قول وفعل بہم لشق الحال علیہم۔ وعن معاویۃؓ قال :سمعت رسول اللّٰہ - صلی اللّٰہ علیہ وسلم - یقول :إنک إذا اتبعت عورات الناس أفسدتہم ، (أفسدتہم) ؛ أی حکمت علیہم بالفساد، أو أفسدت أمر المعاش والمعاد، واللّٰہ رء وف بالعباد، قال الطیبی رحمہ اللّٰہ : وإنما عم فی ہذا الحدیث بالخطاب بقولہ :إنک ؛ وخص فی الحدیث السابق بقولہ :إن الأمیر ؛ لئلا یتوہم أن النہي مختص بالأمیر، بل لکل من یتأتی من اتباع العورات من الأمیر وغیرہ۔ (کتاب الإمارۃ والقضاء ،ج:۶، ص:۲۴۱۳-۲۴۱۴، الکتاب :مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، المؤلف :علی بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروي القاري (المتوفی :۱۰۱۴ھـ)، الناشر :دار الفکر، بیروت لبنان)
(ولا تعسروا) ؛ أی بالصعوبۃ علیہم ؛ بأن تأخذوا أکثر مما یجب علیہم، أو أحسن منہ، أو بتتبع عوراتہم وتجسس حالاتہم (متفق علیہ) ورواہ أبو داود (ولا تنفروا) ؛ أی بالمبالغۃ فی الإنذار، أو بتکلیف الأمور الصعبۃ الموجبۃ للإنکار، ویؤیدہ ما فی النہایۃ ؛ أی لا تکلفونہم بما یحملہم علی النفور۔(ج:۶،ص:۲۴۲۱، أیضاً)
۴:…المادۃ (۱۱۵۴) (یجوز لکل أحد الانتفاع بالمباح ، لکنہ مشروط بعدم الإضرار بالعامۃ)(کتاب الشرکات، الباب الرابع فی بیان شرکۃ الإباحۃ، الفصل الثالث فی بیان أحکام الأشیاء المباحۃ للعامۃ، ج:۳،ص:۲۷۸، الکتاب :درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام، المؤلف :علی حیدر، الناشر :دار الکتب العلمیۃ)
۵:… أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال :ألا کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ، فالإمام الذی علی الناس راع وہو مسؤول عن رعیتہ، والرجل راع علی أہل بیتہ وہو مسؤول عن رعیتہ، والمرأۃ راعیۃ علی أہل بیت زوجہا وولدہٖ وہی مسؤولۃ عنہم، وعبد الرجل راع علی مال سیدہ وہو مسؤول عنہ، ألا فکلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ۔ قولہ :عن رعیتہ، الرعیۃ کل من شملہ حفظ الراعی ونظرہ، وأصل الرعایۃ حفظ الشیء وحسن التعہد فیہ ،لکن تختلف، فرعایۃ الإمام ہی ولایۃ أمور الرعیۃ وإقامۃ حقوقہم۔۔۔۔۔ الخ۔ (کتاب الأحکام، باب الأمراء من قریش، ج:۲۴،ص:۲۲۱، الکتاب :عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، المؤلف: أبو محمد محمود بن أحمد بن موسی بن أحمد بن حسین الغیتابی الحنفی بدر الدین العینی (المتوفی :۸۵۵ھـ)، الناشر :دار إحیاء التراث العربی بیروت)
ھذا ما ظھر لنا و العلم عند اللّٰہ العلیم الخبیر
        الجواب صحیح           الجواب صحیح                            کتبہ
    ابوبکرسعید الرحمن       محمد شفیق عارف                     رفیق احمد بالاکوٹی 
                                              جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی
                                                         ۱۴؍صفرالمظفر ۱۴۴۰ھ
                                                          ۲۴؍اکتوبر۲۰۱۸ء 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین