بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

بینات

 
 

جنگی حالات میں اسلامی اور غیر اسلامی رویّوں کا فرق


جنگی حالات میں اسلامی اور غیر اسلامی رویّوں کا فرق

اسرائیل کے مظالم اور فلسطینی مجاہدین کا حُسنِ سلوک


الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

اسلام‘ سلامتی اور خوبیوں والا مذہب ہے۔ اسلام کےمحاسن میں سےہے کہ اس میں انسانوں بلکہ تمام جانداروں کے حقوق کی نگہداشت، حفاظت اور پاسداری ہے۔ اسلام مسلمانوں کو جانوروں سمیت تمام انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔ خلقِ خدا کے ساتھ رحمت و شفقت اور عدل و احسان کا معاملہ اسلام کا خاصہ اور طرئہ امتیاز ہے۔ جب کہ ظلم و ستم، ناحق مارپیٹ، کسی کو پریشان کرنا یا کسی کی حق تلفی کرنا، اسلام کی نظر میں انتہائی معیوب، قبیح اور مجرمانہ عمل ہے، جس سے اسلام انتہائی سختی سے منع کرتا اور روکتا ہے۔ اسلام سے پہلے انسانوں کو غلامی کی چکی میں پیسا جاتا اور اُن کے ساتھ بہیمانہ سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ اسلام ہی نے غلاموں، باندیوں اور قیدیوں کو ان کے انسانی حقوق کا مستحق ٹھہرایا، جیسا کہ کئی احادیث اس پر شاہد ہیں: 
۱- حضرت ابو ذرغفاری  رضی اللہ عنہ  راوی ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’إن إخوانکم خولکم جعلھم اللہ تحت أیدیکم، فمن کان أخوہ تحت یدہٖ فلیطعمہ مما یاکل ولیلبسہ مما یلبس ولا تکلفوھم ما یغلبھم، فإن کلفتوھم ما یغلبھم فأعینوھم۔‘‘ (صحیح بخاری ، ج : ۱ ، ص : ۳۴۶)
یعنی: ’’جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا دستِ نگر اور ماتحت بنایا ہے، وہ تمہارے بھائی ہیں( یعنی لونڈی، غلام اور خدمت گار) ان کو وہ کھانا دے جو خود کھائے، اور ان کو وہ پہنائے جس کو خود پہنے۔ ان کو ایسے کام کی تکلیف نہ دو جس سے وہ تھک جائیں، اگر اسے ایسے کام کی تکلیف دینا ضروری ہو تو پھر خود بھی اُن کا ہاتھ بٹائو۔‘‘
۲- حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے روایت ہے کہ: 
’’کان آخرُ کلام النبي صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم: الصلاۃ و ما ملکت أیمانکم ۔‘‘   (ابن ماجہ، ص:۱۹۳) 
’’آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے وصال سے قبل آخری نصیحت یہ ارشاد فرمائی کہ:ـ ’’نماز کا خیال رکھو اور اپنے زیرِدست غلاموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔‘‘ 
اسلام نے جنگوں کے احکام اور جنگوں میں دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تفصیلات بیان کی ہیں، خصوصاً جب دشمن کو قیدی بنالیا جائے تو ان کے ساتھ کس طرح سلوک کیا جائے۔ ان اسلامی محاسن ومکارم کا پہلا دستاویزی مجموعہ فقہ حنفی کے تیسرے بڑے امام محمد بن حسن شیبانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب ’’السیر‘‘ ہے۔ یہ کتاب بین الاقوامی مراسم اور جنگی آداب کے حوالے سے انسانی حقوق کا پہلا مدوّن چارٹر ہے۔ آج کی نام نہاد مہذب دنیا ان اسلامی روایات اور تہذیب و تمدن کے آگے ہیچ ہے، اس لیے کہ آج کی مہذب دنیا اپنے مخالف قیدیوں کو کسی قسم کی رعایت کا مستحق نہیں گردانتی، بلکہ ان پر ہر قسم کا ظلم و ستم روا اور جائز سمجھتی ہے۔
اسلام نے عدل و انصاف کے دونوں پلڑے قیدی (خواہ مسلم ہوں یا کافر دونوں) کے لیے برابر رکھے ہیں، چنانچہ جس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمان قیدی کو دشمن کی ظالمانہ قید سے رہا کرانے کا حکم دیا ہے، وہیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں کو دشمن قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید بھی فرمائی۔ 
قرآن کریم میں ارشاد ہے: 
’’وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا۔‘‘    (الدھر:۸)
ترجمہ:’’اور کھلاتے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو۔‘‘
تفسیرِ عثمانی میں تنبیہ کے عنوان سے مذکور ہے: 
’’قیدی عام ہے مسلم ہو یا کافر۔‘‘ حدیث میںہے کہ: ’’بدر‘‘ کے قیدیوں کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم دیا کہ جس مسلمان کے پاس کوئی قیدی رہے، اس کے ساتھ اچھا برتائو کرے۔ چنانچہ صحابہؓ اس حکم کی تعمیل میں قیدیوں کو اپنے سے بہتر کھانا کھلاتے تھے، حالانکہ وہ قیدی مسلمان نہ تھے۔ مسلمان بھائی کا حق تو اس سے بھی زیادہ ہے۔ اگر لفظ ’’أسِیْر‘‘ میں ذرا توسع کرلیا جائے، تب تو یہ آیت غلام اور مدیون کو بھی شامل ہوسکتی ہے کہ وہ بھی ایک طرح سے قید میں ہیں۔ ‘‘
اسیرانِ بدر کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے حسنِ سلوک کی تفصیل علامہ شبلی نعمانی  ؒ رقم فرماتے ہیں کہ: 
 ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان کے ساتھ یہ برتائو کیا کہ ان کو تو کھانا کھلاتے تھے اور خود کھجور کھاکر رہ جاتے تھے۔ ابوعزیز کہتے ہیں کہ مجھے شرم آتی اور میں روٹی انہیں واپس کردیتا، لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھے ہی کھلاتے، کیونکہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں قیدیوں کے ساتھ اچھے سلوک کی تاکید فرمائی تھی۔‘‘  (سیرۃ النبی، ص: ۲۳۰،ج : ۱) 
سہیل بن عمرو جو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلاف پُرزور تقریر یں کیا کرتا تھا، بدر میں قیدی بنا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے مشورہ دیا کہ اس کے نیچے کے دو دانت اُکھڑوادیجئے، تاکہ اچھی طرح بول نہ سکے، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اگر میں اس کے عضو بگاڑوں تو اگرچہ نبی ہوں، لیکن خدا اس کے بدلے میں میرے اعضاء بھی بگاڑ دے گا۔‘‘  (طبری) 
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حسنِ سلوک ہی سے متاثر ہوکر آپ کا بہت بڑا دشمن ثمامہ بن اثال جب آپ کی قید سے رہا ہوا تو ایمان لے آیا اور پھر وہ حضرت ثمامہ بن اثال  رضی اللہ عنہ  کہلائے۔ (سنن ابی دائود)
ہوازن کے قیدیوں کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مکہ مکرمہ سے عمدہ کپڑے خرید کر پہنانے کا حکم دیا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقیؒ) 
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ:’’ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک قیدی خاتون اور اس کے بچے کو جدا کرنے والے کے بارے میں وعید ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالیٰ روزِ محشر اس کے اور اس کے چاہنے والوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا۔‘‘                                                   (ترمذی) 
حضرت ابو اسید انصاری رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: ’’میں کچھ قیدیوں کو حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس لے گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیکھا کہ ایک قیدی خاتون رو رہی ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ میرا بچہ مجھ سے الگ کرکے بیچ دیا گیا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فوراً حکم دیا کہ اس کے بچے کو واپس لائو، چنانچہ اس عورت کو اس کا بچہ واپس کردیا گیا۔‘‘ (مستدرک حاکم)
اسلام کی ان سنہری ہدایات و روایات کی روشن کرنیں آج بھی جہانِ رنگ و بو میں اُجالاکررہی ہیں۔ ماضی قریب میں افغانستان کے اندر مجاہدینِ اسلام کی قید میں ایک برطانوی خاتون صحافی دس دن رہ کر جب واپس آئیں تو طالبان کو دہشت گرد، انتہا پسند، جاہل، گنوار، اجڈ، وحشی کے القاب سے یاد کرنے والی مغربی دنیا پر اس وقت سکتہ طاری ہوگیا ، جب ’’یوان ریڈلی‘‘ نے دورانِ قید طالبان کے حسنِ سلوک اور احترامِ انسانیت کے رویے کی گواہی دی۔ ان کی شرافت و وضع داری اور اخلاقی صفات سے متاثر یہ عیسائی خاتون بعد میں قرآن کریم کے مطالعے کی روشنی میں مزید حقیقت آشنا ہوئی تو اسلام کی نعمت سے بہرہ مند بھی ہوگئی، جب کہ دوسری طرف گوانتا ناموبے میں امریکی فوج کے مسلمان قیدیوں پر دل خراش مظالم کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
حال ہی میں فلسطین کے مغربی کنارہ غزہ میں صہیونی قہر و جبر کا شکار اور اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے مجاہدینِ اسلام حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوا تو حماس کی قید سے رہا ہونے والی عورتیں اور بچے ان کی تعریفوں کے پل باندھتے نہیں تھک رہے ہیںـ۔ ایک خاتون کہتی ہے کہ اس کی بیٹی حماس کی قید میں شہزادیوں کی طرح زندگی گزار رہی تھی۔ رہا ہونے والے بچوں کے ہاتھوں میں کھانے پینے کی اشیا ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم قید کا یہ وقت بھلا نہیں سکتے۔ ایک اسرائیلی خاتون ’’دینیل‘‘ اور اس کی ننھی بچی ’’ایمیلیا‘‘ نے حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے نام عبرانی زبان میں شکریہ کا خط تحریر کیا ہے، جو عالمی میڈیا سمیت قومی اخباروں میں بھی شائع ہوا ہے۔ اس کے مندرجات درج ذیل ہیں:ـ
’’مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے، لیکن میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے میری بیٹی کے ساتھ حسنِ سلوک اور محبت کا مظاہرہ کیا، آپ نے اس سے والدین کی طرح سلوک کیا، اسے اپنے کمروں میں بلاتے اور اسے یہ احساس دلایا کہ آپ سب اس کے صرف دوست نہیں، بلکہ محبت کرنے والے بھی ہیں۔ آپ کی شکر گزار ہوں اس سب کے لیے، جب آپ گھنٹوں ہماری دیکھ بھال کرتے، اور ساتھ ساتھ مٹھائیوں، پھلوں اور جو کچھ میسر تھا اس سے ہمیں نوازنے کے لیے شکریہ۔ بچے قید میں رہنا پسند نہیں کرتے، لیکن آپ اور دوسرے ملنے والے اچھے لوگوں کا شکریہ۔ میری بیٹی خود کو غزہ میں ملکہ سمجھتی تھی اور سب کی توجہ کا مرکز تھی۔ اس دوران مختلف عہدوں پر موجود لوگوں سے واسطہ رہا اور ان سب نے ہم سے محبت، شفقت اور نرمی کا برتائو کیا، میں ہمیشہ ان کی شکر گزار رہوں گی، کیونکہ ہم یہاں سے کوئی دکھ لے کر نہیں جارہے، میں سب کو آپ کے حسنِ سلوک کا بتائوں گی جو غزہ میں مشکل حالات اور نقصان کے باوجود ہم سے کیا۔ اسرائیلی خاتون نے خط کے آخر میں مجاہدین اور ان کے اہلِ خانہ کی صحت اور تندرستی کے لیے دعا کی۔‘‘
اس خط کی سطر سطر ان مجاہدین اسلام کے رویّے کا بیان ہے، جنہیں اسرائیل‘ دہشت گرد قرار دے کر اُن کی آڑ میں پندرہ ہزار سے زائد مظلوم فلسطینیوں کا قتلِ عام کرچکا ہے۔ یہ بیان گھر کی گواہی ہے، جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اور درحقیقت یہ اس بات کی بھی شہادت ہے کہ مجاہدینِ اسلام نے جہادِ اسلام کے دوران اُسوئہ نبوی اور شیوئہ محمدی(l) کو مکمل مدِنظر رکھا، اور ذرا بھی دشمنانِ اسلام کو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات پر انگشت نمائی کا موقع نہیں دیا۔ اس موقع پر تمام مسلمان بھی فلسطینی مجاہدین کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے مہمانوں کو دنیا کے سامنے اخلاقی جرأت کے ساتھ سر اُٹھانے کا حوصلہ بخشا۔ حماس کی شجاعت و بسالت، قربانی و جاں نثاری، اسلام کے ساتھ اُن کی وفاداری اور خصوصاً مظلوم مسلمانوں کے حق کے لیے دکھائی گئی اُن کی جرأت و بہادری کو آفرین اور سلام ہے! حماس کے مجاہدین نے اسلام کے اولین دور کی یاد تازہ کردی، ان شاء اللہ! ان کا کردار تاریخ کے اَن منٹ نقوش بن کر آئندہ نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہوگا۔
لیکن جہاں فلسطینی مجاہدین کا یہ قابلِ ستائش اقدام دنیا بھر کے سامنے آیا ہے، وہیں اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کے ظلم و ستم اور جور و جفا کی بھیانک اور گھنائونی تصویر بھی طشت از بام ہوئی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی یکم دسمبر ۲۰۲۳ء کی رپورٹ کے مطابق ۱۸ ؍سالہ ’’محمد نزل‘‘ جنہیں اگست میں بلاجرم اسرائیل نے گرفتار کر کے جیل میں رکھا تھا، ۷؍ اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد ’’محمد نزل‘‘ سمیت کئی فلسطینی قیدیوں کو مارا پیٹا گیا، ان پر کتے چھوڑے گئے، انہیں کپڑوں اور کمبل سے محروم کردیا گیا، نیز انہیں کھانے سے محروم رکھا گیا۔ ایک خاتون قیدی کو جنسی زیادتی کی دھمکی دی گئی، اس کے کمرے میں آنسو گیس پھینکی گئی، کچھ قیدیوں کے اوپر اسرائیلی فوجیوں نے پیشاب کیا، نیز ان پر چھریوں سے حملے کیے گئے، جس کے بعد گزشتہ سات ہفتوں میں چھ فلسطینی قیدی اسرائیلی تحویل میں جامِ شہادت نوش کرگئے ہیں۔ حالیہ جنگ بندی کے دوران قیدیوں کے تبادلے میں ’’محمد نزل‘‘ رہا کیے گئے تو ان کے طبی معائنے سے معلوم ہوا کہ ان کے دونوں ہاتھوں کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں، جس کی تفصیل انہوں نے بیان کی کہ کئی فوجیوں نے ان پر حملہ کرکے انہیں بری طرح مارا پیٹا۔ محمد نزل اپنے سر کا بچائو ہاتھوں سے کرتے رہے، کچھ دیر بعد انہیں یقین ہوگیا کہ ان کے ہاتھوں کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں اور وہ حرکت کے قابل نہیں رہے۔ رہا ہونے کے بعد ہسپتال میں ان کے ہاتھوں کے ایکسرے کرائے گئے، جس سے اس بات کی تصدیق ہو گئی۔
یہ ہے اسرائیلی مظالم کی ایک جھلک، جو دنیا کے سامنے انسانی حقوق کا رونا روتے نہیں تھکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حالیہ غزہ کی جنگ کے بعد انسانیت، انسانی حقوق، عالمی برادری، مساوات و برابری، عدل و انصاف جیسے الفاظ بے معنی ہوگئے ہیں۔ اور صاف نظر آرہا ہے کہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکا و برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک کے ہاںعدل و انصاف کے پیمانے برابر نہیں ہیں۔ نیز بعض مسلم ممالک کی بے حسی بھی اسلامی اُخوت و بھائی چارگی کے تصور کو غلط ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ بہرحال! اس کے باوصف حماس نے اپنے دشمن قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعے اسلام کی روشن تعلیمات کو ایک بار پھر مجسم کردار کی صورت میں پیش کردیا ہے، جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی و فتح نصیب فرمائے، ظالموں کونیست و نابود فرمائے اور حق کا بول بالا فرمائے، آمین!

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین