بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

جناب حامد میر کے نام کھلا خط!

جناب حامد میر کے نام کھلا خط!



السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
لال مسجد کے سانحے پر جس طرح پوری قوم صدمے سے نڈھال ہے‘ اس سے آپ سے زیادہ کون واقف ہوگا؟ اور اس سلسلے میں آپ نے جو موقف اختیار کیا‘ اور جو کوششیں کیں‘ اللہ تعالیٰ اس کا بہترین اجر آپ کو عطا فرمائے‘ آمین۔ مؤرخہ ۱۶/ جولائی کو ”انتہاء پسند کون“ کے عنوان سے آپ کا جو کالم جنگ میں شائع ہوا ہے‘ اس میں بھی آپ نے بڑی دردمندی سے صورتِ حال کے اصل اسباب کی نشان دہی کی ہے‘ لیکن مذاکرات کی آخری رات کے بارے میں آپ نے چند باتیں ایسی لکھی ہیں جن کے بارے میں آپ کو کسی نے غلط معلومات فراہم کی ہیں‘ کیونکہ آپ بذاتِ خود وہاں موجود نہیں تھے‘ چونکہ ان باتوں سے سنگین غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں‘ اس لئے صحیح صورتِ حال آپ کے سامنے لانا ضروری ہے۔ آپ نے اس رات کے واقعات جس طرح بیان فرمائے ہیں ان سے تأثر یہ ملتا ہے کہ مذاکرات ٹوٹنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ علمأ کو جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ وفاق المدارس کی تحویل میں دینے پر اصرا ر تھا‘ اور جب حکومت اس پر راضی نہیں ہوئی تو علمأ ناراض ہوکر اور مذاکرات کو ادھورا چھوڑ کر چلے آئے،حالانکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ہم لوگوں سے عبد الرشید غازی صاحب مرحوم نے جن نکات پر رضامندی کا اظہار کیا تھا‘ ان میں سب سے پہلا نکتہ یہ تھا:
۱:- انہیں گرفتار یا نظربند نہ کیا جائے گا‘ بلکہ ان کو اہل وعیال اور ذاتی سامان کے ساتھ ان کے اپنے گاؤں کے گھر بحفاظت پہنچادیا جائے گا‘ پھر وہ وہیں قیام کریں گے۔
۲:-دوسرا نکتہ یہ تھا کہ وہ اپنے تمام ساتھیوں اور طلبہ وطالبات کے ساتھ باہر آئیں گے اور طالبات کو علمأ اور وزراء کی موجودہ مشترکہ کمیٹی اپنی نگرانی میں محفوظ مقام پر پہنچا کر ان کے سرپرستوں کے حوالے کرے گی اور طلبہ میں سے جن پر جامعہ حفصہ کے نزاع سے پہلے کے مقدمات نہیں ہیں ان کو رہا کردیا جائے۔
۳:- تیسرا نکتہ یہ تھا کہ وہ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو وفاق المدارس کی تحویل میں اور لال مسجد کو محکمہٴ اوقاف کی تحویل میں دے کر جائیں گے۔ ان کی یہی باتیں وزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ میں طے ہوگئیں‘ جس میں چودھری شجاعت حسین صاحب اور کئی وفاقی وزراء بھی شریک تھے اور وفاق المدارس کا مصالحتی وفد بھی۔ پھر شام کو وفاق المدارس کے علماء کرام‘ وفاقی وزراء اور چودھری شجاعت حسین صاحب نے لال مسجد کے پاس ایک جگہ بیٹھ کر انہی نکات پر مشتمل متفقہ تحریر اس طرح تیار کرلی تھی کہ اس کے کسی حصے پر اختلاف نہیں تھا‘ لیکن چودھری صاحب اور وزراء اس تحریر پر دستخط کرنے کے بجائے اس تحریر کی منظوری لینے کے لئے ایوانٍ صدر چلے گئے اور جب یہ حضرات ایوانِ صدر سے واپس آئے تو ایک دوسری تحریر لے کر آئے جس میں یہ تینوں نکات بدل دئے گئے تھے‘ اس نئی تحریر میں پہلا نکتہ اس طرح لکھا گیا تھا کہ: عبد الرشید غازی صاحب کو ”گھر“ میں (نہ کہ ان کے گھر میں)رکھا جائے گا اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔ ایک نکتہ یہ تھا کہ باہر آنے والے تمام لوگوں پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ اور ایک نکتہ یہ تھا کہ جامعہ حفصہ‘ جامعہ فریدیہ اور لال مسجد کا مستقبل محکمہٴ اوقاف اور وفاق المدارس اور دیگر حکومتی اداروں کے مشورے سے طے کیا جائے گا۔ اس پر ہم نے وزراء سے کہا کہ جن باتوں پر عبد الرشید غازی بمشکل اضی ہوئے تھے‘ اس تحریر میں وہ باتیں موجود نہیں ہیں‘ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کو بحفاظت ان کے گاؤں کے گھر پہنچانے کی جو بات طے ہوئی تھی‘ اس نئی تحریر میں اس کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ نیز عبد الرشید غازی صاحب جامعہ حفصہ چھوڑنے پر اس شرط سے راضی ہوئے تھے کہ انہیں وفاق المدارس کے حوالے کردیا جائے گا۔ ہم نے وزراء سے کہا کہ عبد الرشید غازی کو بار بار فون کرکے ہم نے بمشکل پہلی تحریر پر راضی کیا ہے‘ اب انہیں اس سے بالکل مختلف نئی تحریر پر راضی کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ لہذا اس تحریر کو پہلی تحریر کے مطابق بنانا ضروری ہے،اس پر حکومت کے نمائندوں نے ہم سے کہا کہ اس نئی تحریر میں ایک لفظ کی بھی کمی بیشی کرنے کا ہمیں اختیار نہیں ہے‘ اور ہمیں صرف آدھا گھنٹہ دیا گیا ہے جس میں سے پندرہ منٹ گذر چکے ہیں‘ اور صرف پندرہ منٹ باقی ہیں‘ ان پندرہ منٹ میں آپ ہاں یا نہیں کا فیصلہ کرالیں۔ ہم نے کہا کہ اب ہم عبد الرشید غازی صاحب کو اس نئی تحریر پر راضی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں‘ لیکن ان کے نمائندے مولانا فضل الرحمن خلیل صاحب موجود ہیں‘ آپ ان سے بات کرلیں‘ وہ ان کو راضی کرلیں تو بہت اچھی بات ہے۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمن خلیل صاحب نے عبد الرشید غازی صاحب مرحوم سے رابطہ کیا تو جیساکہ خطرہ تھا انہوں نے اس تحریر کا پہلا نکتہ سنتے ہی اس نئی تحریر کو ماننے سے صاف انکار کردیا،اسی دوران فوج کے ایک افسر نے ہمارے ساتھیوں سے کہا کہ اب آپ حضرات یہاں سے چلے جائیں‘ چنانچہ اس کے بعد ہم انتہائی صدمے کی حالت میں ڈھائی بجے رات کو واپس آئے۔ اوپر کی تفصیل سے واضح ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کا اصل سبب وفاق المدارس کی تحویل میں دینے کا مسئلہ ہرگز نہیں تھا‘ بلکہ اصل سبب یہ تھا کہ نئی تحریر میں انہیں بحفاظت گھر پہنچانے کے بجائے قانونی کارروائی کرنے کا ذکر تھا‘ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ انہیں گرفتار کیا جائے گا اور یہ وہ بات تھی جس پر غازی صاحب مرحوم ہم سے باربار کئی دن سے کہہ رہے تھے کہ میں گرفتار ی نہیں دوں گا‘ اگرچہ شہید کردیا جاؤں۔ وفاق المدارس کی تحویل میں دینے کی بات بھی غازی صاحب مرحوم کی شرائط میں داخل تھی‘ اور ہم نے اس کا ذکر اسی حیثیت میں کیا تھا‘ چنانچہ ساتھ ہی یہ واضح کردیا تھا کہ ہمیں اپنی طرف سے اس پر کوئی اصرار نہیں ہے‘ ان کو دینی مدرسہ کی حیثیت میں باقی رکھتے ہوئے آپ اگر چاہیں تو اسلام آباد وراولپنڈی کے علمأ کے سپرد کردیں یا چودھری شجاعت حسین صاحب کے سپرد کردیں۔ہماری تو شب وروز کی انتھک کوشش اسی لئے تھی کہ کسی طرح لال مسجد کے طلباء وطالبات کی زندگیاں خطرے سے نکلیں ‘ ہم ان دو مدرسوں کو وفاق المدارس کی تحویل میں دینے یا نہ دینے کی بحث میں الجھ کر اس عظیم مقصد کو کیسے خطرے میں ڈال سکتے تھے؟ کھانا منگوانے کی بات بھی آپ کے کالم میں سیاق وسباق سے کٹ کر آئی ہے‘ یہ کھانا بازار سے چودھری شجاعت حسین صاحب نے از خود منگوایا تھا اور اس وقت منگوایا تھا جب حکومتی مذاکراتی ٹیم اور وفاق المدارس کے نمائندوں کے درمیان مصالحتی فارمولے پر اتفاق ہوگیا تھا‘ اور مولانا عبد الرشید غازی مرحوم نے بھی اس سے اتفاق کرلیا تھا‘ اور تمام شرکاء پر امید اور قدرے مطمئن تھے‘ جب چودھری صاحب نے اپنے رفقاء اور ہم سمیت کمرے میں موجود لوگوں کے لئے کھانا منگوایا تو اس وقت علمأ نے چودھری صاحب سے کہا کہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں موجود افراد کئی دن سے کچھ نہیں کھا رہے‘ ہمیں ان کے لئے بھی کھانے کا ابھی سے انتظام کرنا چاہئے اور جب مصالحتی قرار داد پر دستخط ہوجائیں تو ہم خود اپنے ساتھ ان کے لئے کھانا لے کر جائیں گے‘ چنانچہ چودھری شجاعت حسین صاحب نے اس سے اتفاق کیا۔ اسی طرح دورانِ گفتگو قہقہے لگانے کی بات بھی درست نہیں ہے‘ اتنی طویل سنجیدہ اور نازک گفتگو کے دوران اگر کسی نے کوئی ہنسی کی بات بھی کہہ دی ہو اور اس پر کچھ لوگ ہنس پڑے ہوں تو اسے اصل معاملے سے بے تعلق ہوکر قہقہے لگانے سے تعبیر کرنا بالکل غلط ہے،جن لوگوں نے کئی دن سے ملک کو خون ریزی سے بچانے کی کوشش میں اپنی نیندیں حرام کررکھی تھیں‘ ان کے بارے میں جن حضرات نے بھی آپ کو یہ غلط معلومات فراہم کی ہیں‘ انہوں نے بڑی زیادتی کی ہے‘ اور آپ سے یہ امید تھی کہ اس طرح کی اطلاعات ملنے سے پہلے ان باتوں کی تحقیق فرمالیتے۔
والسلام محمد رفیع عثمانی(۱۷/۷/۲۰۰۷ء)
من جانب :
۱-محمد رفیع عثمانی صاحب رکن مجلس عاملہ وفاق المدارس
۲- مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب ناظم اعلیٰ وفاق المدارس
۳- مولانا زاہد الراشدی صاحب رکن مجلس عاملہ وفاق المدارس
۴- مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان صاحب نمائندہ (صدر وفاق المدارس)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین