بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

بینات

 
 

جلوۂ دانشِ فرنگ (مغرب سے مرعوبیت) The Dazzle of Western Knowledge

جلوۂ دانشِ فرنگ (مغرب سے مرعوبیت)

The Dazzle of Western Knowledge


خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

اس مضمون کا عنوان علامہ اقبالؒ کے مذکورہ بالا شعر سے مستعار ہے، جس سے اُمت کو درپیش ایک اہم بنیادی مسئلہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے اور وہ مغربی علوم سے مرعوبیت کا مسئلہ ہے۔ اس وقت اُمت مغربی علوم سے اتنا متاثر و مرعوب ہو چکی ہے کہ اپنی موجودہ پستی کا علاج بھی انہی علوم میں ڈھونڈ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں یہ بات نظروں سے اوجھل ہو چکی ہے کہ وہ قرآنی علوم ہی تھے، جن کی بدولت زمانۂ جاہلیت کے پسماندہ اور دیہاتی مزاج بدو دنیا میں علمی سطح کی معراج پر پہنچ گئے تھے۔ 
اس مضمون میں ہم یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح مغرب نے اپنے ایک مخصوص علمی نظام کے ذریعے انسانیت کو دھوکے میں ڈالا ہوا ہے اور یہ نظام کیسے انسانیت کے لیے حقیقت میں مضر ہے، مگر اس کا لوگوں کو ادراک ہی نہیں۔ نیز اس نظام کو رائج کرنے کے لیے کس طرح مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، جس کے نتیجے میں ایک طرف انسانیت کو مغربی علوم کی افادیت پر یقینِ کامل ہوگیا تو دوسری طرف خود مسلمانوں نے بھی اسلامی علمی نظام سے -جو مغرب سے یکسر مختلف ہے- عملی طور پر صرفِ نظر کر لیا اور اسے دنیوی مسائل کے لیے غیر متعلق سمجھنے لگے۔ سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں علم کا کیا مقام ہے۔ 

اسلام میں علم کی اہمیت

قرآن اور حدیث دونوں میں علم کی اہمیت پر غیر معمولی زور دیا گیا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام  کو علم الاسماء ودیعت کیے جانے کے بعد ہی فرشتوں نے انہیں سجدہ کیا۔ خود نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ دعا کرنے کو کہا گیا ہے کہ: ’’اے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘ اہلِ علم کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون سے زیادہ قیمتی ہے۔ علم کی راہ کے متلاشی کے لیے اللہ تعالیٰ جنت کے راستوں کو آسان بنا دیتے ہیں۔ ہمیں مہد سے لحد تک حصولِ علم کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ اور اس طرح کی دیگر نصوص علم کی اہمیت پر دلالت کرتے ہیں۔ 

خدا کا عطا کردہ علم کون سا ہے؟ 

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ابتدائی مسلمانوں کے پاس ایک ایسا علم تھا جس نے ان پر زبردست اثرات مرتب کیے۔ اس نے اَن پڑھ اور پسماندہ بدوؤں ہی میں سے عالمی سطح کے رہنما پیدا کر دیئے۔ آج پھر مسلمان علمی میدانوں میں بھی پسماندگی اور قحط کا شکار ہیں اور بظاہر کرۂ ارض کی دیگر اقوام سے پیچھے ہیں۔ سو وہ علم کون سا ہے، جو خدا نے عطا کیا ہے؟ اور کیا وہ علم آج بھی وہی معجزہ دکھا سکتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ علم ہمارے لیے اجنبی بن چکا ہو، جیسا کہ حدیث میں بھی اس طرف اشارہ ہے ؟ (۱)
 جواب کے لیے ہم قرآن کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: ہمیں ایک ایسا علم دیا گیا ہے جو کامل و مکمل ہے، ہمیں اللہ تعالیٰ نے بہترین عطا کیا ہے:
’’قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْيَـفْرَحُوْا ہُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ‏۔‘‘         (یونس:۵۸)
’’ آپ (ان سے) کہہ دیجیے تو بس لوگوں کو خدا کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے، وہ اس (دنیا) سے بدرجہ بہتر ہے جس کو جمع کر رہے ہیں۔ ‘‘           (بیان القرآن)
اس آیت کی عموماً یہ تفسیر کی جاتی ہے کہ یہاں ’’مَا‘‘ سے مراد دنیاوی دولت ہے۔ میرے نزدیک اس کا مصداق یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قرآن میں ہمیں جو علم دیا گیا ہے، وہ ان تمام علوم سے افضل ہے جو مغرب نے پروان چڑھائے۔ 

اصل مسئلہ روحانی ہے

اب جب ہمیں خدا کی طرف سے کامل و مکمل شکل میں انسانیت کی رہنمائی کے لیے سب سے عظیم تحفہ دیا جا چکا ہے تو ایسے میں کسی اور طرف نظریں اُٹھانا حد درجے کی ناشکری ہے۔ آج قریب قریب پوری اُمت اس بات کی قائل ہو چکی ہے کہ عصرِ حاضرکے مسائل کا حل صرف اور صرف مغربی علم ہی فراہم کرتا ہے۔ ہم اور ہمارے بچوں کے اوقات کا وافر حصہ اسی قسم کی تعلیم کی تحصیل میں صرف ہوتا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ مختلف جدید مسائل کے حوالے سے مغرب نے کیا حل پیش کیے ہیں۔ ہم اس بات پر غور ہی نہیں کرتے کہ قرآن و حدیث بھی ہمیں ان مسائل پر کوئی مناسب رہنمائی دے سکتے ہیں۔ مغربی علم کی چمک دمک سے مرعوبیت اور خدا کے عظیم ترین تحفے کی قدر کے فقدان کے باعث ہمارے قلوب اس بات سے قاصر ہیں کہ قرآن و سنت کی فراہم کردہ، بنی نوع انسان کو درپیش مسائل کی عقدہ کشائیوں کی طرف توجہ کر سکیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس امت کو لاحق اصل مرض روحانی ہے۔ مادیت نے روحانیت پر غلبہ حاصل کر لیا ہے، جس کے سبب فکر و خیال کی ترتیب اُلٹ چکی ہے۔ 

مسئلہ کی جڑ
 

اس مسئلے کا تجزیہ کرنے سے پہلے ہمیں اس بیماری کی جڑ پر نظر کرنی ہوگی۔ ہم کیوں یہ سوچ بیٹھے ہیں کہ مغربی علم ہمیں قرآن سے اعلیٰ رہنمائی فراہم کرتا ہے؟ ہم ہمہ قسم کے مسائل کے حل کے لیے کیوں مغرب کی طرف دیکھتے ہیں؟ نظامہائے معیشت کے لیے، نظامہائے تعلیم کے لیے، نظام ہائے سیاست کے لیے، نظامہائے معاشرت کے لیے، یہاں تک کہ زندگی کے ہر پہلو میں انہی کے پیش کردہ نظریات ہمیں متاثر کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا اب قرآن و سنت کے پاس ہمیں پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے؟ کن تاریخی عوامل نے انسانیت کے لیے خدا کے آخری پیغام پر اعتماد اور بھروسے کی یہ کمی پیدا کی؟ دراصل اہلِ مغرب نے اپنے نظامِ علم کو واحد حل باور کروانے اور دیگر نظاموں کو یکسر نقصان دہ ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی چالوں اور ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔ ذیل میں ہم ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں:

مغرب کی پہلی چال: تعلیم کے ذریعے تسخیرِ اذہان

لارڈ ببنگٹن میکالے نے تعلیم کے حوالے سے ہندوستان میں جو میمورنڈم پیش کیا، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نوآبادیاتی محکومین کو مسخر کرنے کے لیے کس طرح کے نظریاتی حربے استعمال کیے گئے اور کس طرح غلامانہ ذہنیت تشکیل دی گئی، چنانچہ وہ کہتا ہے: 
’’ مجھے سنسکرت یا عربی کا کوئی علم نہیں۔ (کوئی بھی) اس بات سے انکار نہیں کرسکتا تھا کہ ایک اچھی یورپی لائبریری کے ایک خانہ کی قیمت ہی ہندوستان اور عرب کے تمام مقامی ادب سے زیادہ ہے ۔‘‘
یہ رائے اب مسلمانوں کے ذہنوں میں پختہ طور پر پیوست ہوگئی ہے کہ ہماری تمام فکری میراث گزشتہ چند صدیوں کے دوران یورپیوں کے دریافت کردہ علم کے مقابلے میں بے قدر و قیمت ہے۔ 
میکالے مزید کہتا ہے: 
’’ہمیں فی الحال ایک ایسا طبقہ تشکیل دینے کی پوری کوشش کرنی چاہیے جو ہمارے اور ہمارے لاکھوں محکومین افراد کے درمیان ترجمان بنے۔ لوگوں کا یہ طبقہ خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی ہوگا، لیکن ذوق، رائے، اخلاق اور فکر کے اعتبار انگریز ہوگا۔ ‘‘
یہ بات ہمارے موجودہ مسائل کو سمجھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ نوآبادکاروں نے تعلیم کے ذریعے ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو انگریزی تہذیب اور علم سے بے حد مرعوب تھا اور اپنی تہذیب اور علوم کو جہل گردانتا تھا، یعنی ایسے افراد کی جماعت جو باہر سے بھورے لیکن اندر سے سفید تھے۔ انہیں اختصار کے ساتھ انگریزی میں Coconut class اور اردو میں ’’ناریل طبقہ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہی طبقہ نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد ان کالونیوں کا حکمران بنا۔ چونکہ یہ طبقہ انگریزوں سے مراعات حاصل کرتا رہا، اس لیےاس ’’ناریل طبقے‘‘ نے اسی نظامِ تعلیم کو جاری رکھا جو استعماری قوتوں کا خوف اور ان کی تعظیم پیدا کرتا ہے، اور ہمارے اپنے ورثے، ثقافت، مذہب اور شخصیات کے لیے نفرت اور حقارت پیدا کرتا ہے۔ 
یہ نظامِ تعلیم اشرافیہ اور عوام کےاذہان کے مابین ایک وسیع خلیج پیدا کرتا ہے۔ اشرافیہ عام لوگوں کو نیویارک، لندن اور پیرس کی طرزِ زندگی کی طرف مائل کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ بیشتر عوام دل سے اس کے لیے تیار نہیں، کیونکہ وہ تو حقیقت میں مدینہ کی طرزِ زندگی کو دوبارہ اپنانا چاہتے ہیں، اگرچہ انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ اس کا مطلب کیا ہے، اور یہ کیسے ممکن ہے۔ بہرحال قائدین اور عوام کے اہداف میں یہ وسیع خلیج ترقی کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ 
فی زمانہ ہمارا پورا معاشرہ ہی مغربی نظامِ تعلیم کی پیداوار ہے۔ پوری دنیا میں بالعموم صرف مغربی دانشوروں (اور ان کے فکری پیروکاروں) کا مہیا کردہ علم ہی پڑھایا جاتا ہے۔ انسانی علم کی اجتماعی ساخت میں کسی اور کی شراکت کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ اس طرح ہمیں یہ سکھا دیا گیا ہے کہ آج انسانی دانش کی اعلیٰ ترین شکل مغربی فکری روایت ہی کی واحد ملکیت اور تخلیق ہے، جس سے ہمارے اذہان مکمل طور پر پراگندہ ہو چکے ہیں۔ 

مغرب کی دوسری چال: مغرب پرست تاریخ 

مغرب کی شان وشوکت سے ہمارےاذہان کو مرعوب کرنے کا ایک ذریعہ مغرب پرست تاریخ (Eurocentric History) ہے۔(۲) یہ جھوٹی تاریخ ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ صرف یورپی اقوام نے ہی قابلِ قدر علم اور ترقی یافتہ تہذیب کی نشوو نما کی ہے۔ دوسری تمام قومیں قدامت پرست، جاہل اور وحشی ہیں، جنہیں مہذب اور تعلیم یافتہ بننے کے لیے مغربی تعلیم کی ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے جدیدیت سے پہلے کے ادوار کو باقاعدہ ’’تاریک ادوار‘‘ (Dark Ages) کہا جانے لگا اور دورِ جدیدیت کو ’’روشن خیالی‘‘ (Enlightenment) کے نام موسوم کیا گیا، گویا مغرب کی مادی و علمی ترقی سے پہلے دنیا میں فقط جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ 
تاریخ کی اس غیر منصفانہ تعبیر ہی نے مغربی تعلیم کو اس غالبانہ تصرف کے ساتھ پھیلنے میں مددکی اور نتیجتاً انسانیت یہ یقین کر بیٹھی کہ حقیقی علم کا منبع و ماخذ مغرب ہی ہے۔ باقی اقوام کے پاس ان کے مقابلے میں سرے سے کوئی علمی نظام ہی نہیں یا ہے تو اتنا حقیر ہے کہ اسے درخورِ اعتناء ہی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ 

سب سے اعلیٰ علم کون سا ہے؟ 

کیا یہ واقعی سچ ہے کہ اصل علم مغرب ہی کے پاس ہے اور سب سے اعلی و ارفع علم، مغربی علم ہی ہے؟ یا پھر انتہائی اہمیت کی حامل علم کی کچھ دیگر اقسام بھی ہیں، جن کا احاطہ مغربی تعلیم نے نہیں کیا؟ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے قبل اس معاملہ پر روشنی ڈالی جائے۔ 
 ہم سمجھتے ہیں کہ علم کی سب سے اعلیٰ و ارفع قسم وہ ہونی چاہیے جو زندگی کے بنیادی سوالات کے بارے میں ہدایت فراہم کرے، جیسے کہ ’’ میں کون ہوں؟ کیوں پیدا کیا گیا ہوں؟ اور مجھے زندگی کیسے گزارنی چاہیے؟ وغیرہ۔‘‘ اسی قسم کے علم کے ذریعے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کیسے گزارنی ہے؟ اور اپنے باطن و ظاہر کی اصلاح کیسے کرنی ہے؟ سو اس بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کون ساعلم کس قسم کی رہنمائی فراہم کرتا ہے؟

ایک بنیادی سوال

قرآنی اور مغربی علوم کا مقابلہ و موازنہ کرنے کے لیے ہمیں ایک بہت ہی بنیادی سوال سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بحث یہاں سے شروع کی جا سکتی ہے کہ وہ کون سا سوال ہے جو تمام انسانوں کے لیے سب سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ کچھ غور کرنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ وہ سوال یہ ہے کہ ’’ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کیسے گزارنی چاہیے؟‘‘ سو ’’ زندگی کے مقصد کو سیکھنا‘‘ ہی اصل ہے۔ یہی مقصد طے کرے گا کہ کون سا علم قیمتی ہے اور کون سا بے کار یا نقصان دہ ہے؟ کیا مغربی تعلیم ہمیں انسانی زندگی کا مقصد بتلا سکتی ہے ؟ کیا فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، یا ریاضی کا ذرا سا بھی حصہ ہمیں ’’نیک‘‘ زندگی گزارنے کا طریقہ سکھا سکتا ہے؟ جو حضرات مغربی تعلیم کی تحصیل کر چکے ہیں، ان کو یہ بات معلوم ہوگی کہ مغربی تعلیم میں ان بنیادی سوالات کو درخورِ اعتناء ہی نہیں سمجھا جاتا یا پھر اس حوالے سے ایسے اسباق پڑھائے اور ایسے حل تجویز کیے جاتے ہیں جن کے نقصانات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں، چنانچہ مغربی تعلیم ہمیں زندگی کا مقصد دولت اور عیش و عشرت کا حصول بتلاتی ہے۔ مغربی تعلیم کی بنیاد دین سے انکار پر ہے ۔ جب دین و آخرت سے انکار ہوگیا تو اس تعلیم کی جڑوں میں خود یہ تصوُّر پنہاں ہو جائے گا کہ ہر چیز کا مقصد اسی دنیا میں عیش و عشرت ہے۔ ساری مغربی تعلیم انہی غلط بنیادوں پر قائم ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکارمغربی معاشرہ اور اُجڑا ہوا خاندانی نظام اس طرزِ فکر کے ضرر رساں ہونے کی بیّن دلیل ہیں۔ 
 اس کے برعکس قرآن کریم ہمیں خبردار کرتا ہے کہ دنیا کی زندگی ایک فریب کی تلاش کے سوا کچھ نہیں۔(۳) اسلامی تعلیمات زندگی کے بنیادی سوالات کے متعلق مکمل ہدایات دیتی ہیں اور بتلاتی ہیں کہ اچھا اور نیک انسان کیسے بنا جا سکتا ہے؟ 

زندگی کن بنیادی سوالات کو جنم دیتی ہے؟

1-     میں کون ہوں؟
2-     میں کہاں سے آیا ہوں؟ سفرِ حیات کے اختتام کے بعد میں کہاں جاؤں گا؟
3-     زندگی کے ان چند قیمتی لمحات کا کیا کروں؟
4-     میں کیا بن سکتا ہوں؟میرے پاس کون سی پوشیدہ صلاحیتیں ہیں اور میں ان کو کیسے پروان چڑھا سکتا ہوں؟ میں یہ کیسے جان سکتا ہوں کہ ان میں سے کن صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر مجھے کام کرنا چاہیے؟
اگر ہم ان سوالات کے جوابات نہیں جانتے، تو ہماری زندگی جھوٹے مقاصد کی جستجو (یا جھوٹے خداؤں کی عبادت) میں برباد ہو جائے گی۔ مغربی تعلیم درحقیقت خود شناسی، اور اچھی زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنے کے راستے میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کر دیتی ہے، کیونکہ مغربی تعلیم کو -خواہ وہ کسی بھی جہت سے ہو- دل کی دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔ خاص طور پر تجرباتی فلسفے (Philosophy of Empiricism) کے غالب ہونے کے بعد صورت حال اور دگرگوں ہو چکی ہے، کیونکہ اس فلسفے کے مطابق بیرونی دنیا کے حقائق ہی اصل ہیں اور اصل میں موجود وہی ہے جس کا ادراک حواس سے ہو سکے، باطن کے احوال کی کوئی اہمیت نہیں۔ چنانچہ اس تعلیم کا حامل انسان مادہ پرستی کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے، نفس کی اصلاح کا خیال بھی اس کے دل میں باقی نہیں رہتا۔ 
مغربی علوم ہمیں بہترین زندگی گزارنے کا، کردار سازی کا، معاشرت کی تعمیر کا کوئی مفید طریقہ سکھلانے سے قاصر ہیں، چنانچہ ان کا اپنا معاشرہ بڑی بڑی معاشرتی و اخلاقی بیماریوں میں جکڑا ہوا ہے، جس کا انہیں بھی ادراک ہے۔ مغربی علوم باہر کی دنیا کے بارے میں معلومات تو دیتے ہیں کہ چاند اور ستاروں کی گردش کیسی ہے، لیکن انسانی زندگی کے مقاصد اور باطن کے احوال کے بارے میں -جو ہماری سب سے اہم ضرورت ہیں- ذرہ برابر بھی رہنمائی فراہم نہیں کرتے۔ 

ایک معمہ
 

مذکورہ بالا بحث سے یہ سمجھ آتا ہے کہ اصولی طور پر قرآنی تعلیمات اور موجودہ مغربی علوم میں کوئی بھی چیز مشترک نہیں ہے۔ نہ قرآن میں ہمیں کیمسٹری، بائیولوجی، فزکس اور علوم ریاضی وغیرہ ملتے ہیں، نہ ہی مغربی علوم میں اخلاقیات، عبادات اور اللہ کی معرفت اور اس سے تعلق کا تذکرہ ملتا ہے، لہٰذا اگر ہم مغربی علوم سے مرعوب ہیں اور انہیں ہی ذریعۂ کامیابی و نجات سمجھتے ہیں تو لازمی طور پر یہ سمجھیں گے کہ قرآنی علم کا ہماری دنیاوی فلاح وترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے، جبکہ ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ قرآنی علوم نے ۱۴۰۰ سال پہلے مسلمانوں کو نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی ترقی سے بھی ہمکنار کیا تھا، تو کیا آج قرآنی علوم دنیاوی معاملات میں بالکل بیکار ہو کر رہ گئے ہیں؟ یہ تو ایک معمہ ہے۔ اس معمہ کو حل کرنے کے لیے اس بات پر تحقیق کرنی ہوگی کہ جدید علوم پیدا کیسے ہوئے؟ اور کس ماحول میں پروان چڑھے؟

مغرب کی تیسری چال: دینِ مغرب کا احیاء اور پروپیگنڈے کے ذریعے اس کے تضادات کا اخفاء

مغربی تعلیم دوسرے علوم میں نقائص نکال کر اور اپنے علوم کے تناقضات چھپا کر اپنے علوم کے ارفع ہونے کی بابت ذہن سازی کرتی ہے اور انسانوں کے سامنے اپنے علوم کو لاشعوری طور پر ’’دین‘‘ کی سطح پر منوا تی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ابتدائی عیسائیت کے ارتقاء پر نظر دوڑائی جائے۔ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کا اصل پیغام کئی گمراہانہ عقائد کے ساتھ خلط ملط کر دیا گیا تھا۔ بالآخر ان میں سےحضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کے خدا ہونے اور ا ن کے خدائی کا دعویٰ کرنے کا نظریہ زیادہ غالب بن کر اُبھرا۔ اس سے ایک سنگین مسئلہ پیدا ہوا، کیونکہ موجودہ بائبل بھی خدا کی وحدانیت کے واضح بیانات اور عیسیٰ  علیہ السلام  کی خدا کے حضور عاجزی، خدا سے ان کی دعاؤں اور بہت سی دوسری وحدانیت کی تعلیمات سے بھری ہوئی ہے۔ ’’گمشدہ عیسائیت‘‘Lost Christianities‘‘ (۴) میں بارٹ ایرمن بہت سے ایسے مختلف طریقےبیان کرتا ہے جن کے ذریعے شروعات کے عیسائیوں نے غیر منطقی اور متناقض عقائد کو قابلِ فہم بنانے کی کوشش کی۔ تین صدیوں بعد جب شہنشاہِ قسطنطین نے عیسائیت اختیار کی تو اس نے تنازعات کو حل کرنے اور پوری رومی سلطنت پر عیسائیت کا ایک ہی نقطۂ نظر مسلط کرکے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کونسل آف نائسیہ تشکیل دی۔ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کا خدائی کا دعویٰ کرنے کے لغو و باطل عقیدے کی توثیق کے لیے من گھڑت افسانے تراشے گئے اور جعل سازی سے کام لیا گیا۔ اس کے نتیجے میں دقیق اور پیچیدہ طریقوں سے عقیدۂ تثلیث وجود میں آیا، یعنی یہ کہ ’’ خدا ایک ہے، لیکن خدا تین بھی ہے، اور یہ دونوں دعوے ایک ہی وقت میں سچے ہیں۔ ‘‘
اس صورت حال نے عیسائی تہذیب کو اَساسی نوعیت کے ایک گھمبیر مسئلے میں لا کھڑا کیا، وہ یہ کہ باطل، متضاد، اور ناممکن عقائد کو کیسے ثابت کیا جائے؟ اسی وجہ سے ’’ (بدیہیات پر مشتمل) مسلّمہ استخراجی ‘‘ ’’axiomatic-deductive‘‘ منہج کو استدلال کے اَساسی طریقہ کار کے طور پر اپنایا گیا۔ اس منہج کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسے بدیہی ’’قضایا‘‘ پر مشتمل ہوتا ہے، جنہیں پہلے ہی سے ’’قطعی‘‘ سمجھ لیا جاتا ہے، یعنی نہ ان قضایا پر بحث کی جا سکتی ہے، نہ کوئی سوال اُٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی استدلال ان کے خلاف پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ منہج تبھی درست ہو سکتا ہے جب یہ مانا جا چکا ہو کہ مفروضات، بداہتاً قطعی، یقینی اور ناقابلِ تردید ہیں۔ درحقیقت اس منہج کا استعمال قابلِ اعتراض مفروضوں کو زیرِ زمین دفن کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، جہاں ان کا تجزیہ نہیں کیا جا تا اور سامعین سے اس طرح پوشیدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ ان کے بارے میں شک نہ کر سکیں۔ 
روشن خیالی کی تحریک کے بعد مغربی مفکرین نے عیسائیت کے اسی قسم کے تناقضات کو دیکھتے ہوئے، مذہب ہی سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ انسان کے انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اخلاقیات کی بابت سوالات تو پہلے مذہب ہی حل کرتا تھا، اب مذہب سے الگ ہونے کے بعد مغرب نے خدائی تعبیر کو ٹھوکر مار کر محض انسانی سطح ہی پر اخلاقی معیارات طے کرنے کی کوشش کی اور اس طرح ’’ دینِ مغرب‘‘ وجود میں آیا، جسے سماجی علومSocial Sciences کا نام دے دیا گیا۔ ان علوم کو پھیلانے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں کو اس طرح استعمال کیا گیاکہ عیسائیت کے داخلی تناقضات کی طرح، ان کے تضادات بھی لوگوں کی نظر سے اوجھل ہوگئے اور انہیں یہ علوم ’’عقلی طور پر مستحکم‘‘ نظر آنے لگے۔ حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے، کیونکہ سماجی علوم بھی عموماً بنیادی اصولوں کو حل کیے بغیر ہی کچھ مفروضات کو ’’حق‘‘ مان کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک الگ مضمون میں ہم نے متعدد مثالیں فراہم کر کے ثابت کیا ہے کہ کس طرح سماجی علوم میں بھی ’’‘axiomatic- deductive method‘‘ کو برتا جاتا ہے ۔ (۵) یہاں فی الحال یہ بنیادی نکتہ سمجھ لینا چاہیے کہ تمام مغربی سماجی علوم کچھ پوشید ہ مفروضوں پر استوار ہیں۔ ان مسلمہ قضایا کو یقینی بدیہیات کہا جاتا ہے، لیکن اکثر اس قسم کے قضایا بالکل ویسے ہی مضحکہ خیز ثابت ہوتے ہیں، جیسا کہ یہ مفروضہ کہ ایک اور تین یکساں ہیں۔ ان بنیادی مفروضات کو بحث و تمحیص کے بغیر پہلے ہی سے قبول کرلیا جاتا ہے، تجزیہ و تحلیل کا دروازہ ان پر بند ہوتا ہے۔ ان بظاہر ہدیہی اور حقیقتاً باطل قضایا/مفروضات پر قائم مغربی علم کا پورا ڈھانچہ ہی بنیادی طور پر ناقص ہے۔ 
 

مغرب کی چوتھی چال: طبیعی اور سماجی سائنسز کو ایک ہی سطح پر ’’حق اور مفید‘‘ باور کروانا

مغرب کی ایک بہت گھناؤنی دسیسہ کاری اس نظریے کی ترویج ہے کہ طبیعی اور سماجی سائنسز بنیادی طور پر ایک ہی قسم کے ’’سائنسی‘‘ علم ہیں۔ خود لفظ ’’سائنس‘‘ ہی معقولیت اور افادیت کے لحاظ سے مماثلت کے اس جھوٹے دعوے کی عکاسی کرتا ہے۔ درحقیقت دونوں شعبےیکسر مختلف ہیں۔ علم کے ان دونو ں اقالیم میں کچھ بنیادی قسم کی خامیاں ہیں، البتہ ان خامیوں کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ مختصراً سماجی سائنس دینِ مغرب ہے۔ عیسائیت سے انکار کے بعد یہ نیا دین وضع کیا گیا اور اپنایا گیا، مگر اس دین کا نام سائنس رکھ کر ساری دنیا کو دھوکے میں ڈال دیا۔ یہ سماجی سائنس دولت، طاقت اور لذت کے آگے سجدہ ریز ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔ ایک بار جب ہم خدا، حیات بعد الموت اوریومِ حساب کو مسترد کر دیتے ہیں، تو اسی دنیاوی زندگی میں طمانیت کے ذرائع پر توجہ مرکوز کرنا فطری بن جاتا ہے، لیکن یہ تصور اسلام سے یکسر متصادم ہے۔ 
طبیعی سائنس اور ٹیکنالوجی اس مذہب کےآلات ہیں۔ یہ دولت، طاقت اور لذت کے حصول کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مفروضہ یہ ہے کہ آلات تو غیر جانبدار ہوتے ہیں، انہیں خیر اور شر دونوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، تاہم اس پر بھی یہ سوال کرنا بنتا ہے کہ کوئی ایٹم بم کو اچھے مقصد کے لیے کیسے استعمال کرے گا؟ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ یہ ایک طویل بحث ہے کہ سائنسی علوم اہلِ مغرب نے کس نیت سے وضع کیے؟ یہ فی الحال ہمارا موضوع نہیں ہے، البتہ مختصراً اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ساری دنیا کو فتح کرنے اور اپنا زور لوگوں پر مسلط کرنے کے لیے یہ بہت کارآمد ثابت ہوئے۔ خاص طور پر جس حد تک طاقت، منافع اور دولت کے حصول کے لیے اس کی ترویج ہوئی، اسی قدر اس کی قیمت ان لوگوں کو چکانی پڑی جن سے یہ دولت ہتھیائی گئی تھی۔ مغرب‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تخلیق کو کلیتاً بنی نوع انسان کے لیے بہت زیادہ سود مند قرار دیتا ہے۔ اس افسانے کی جڑیں ہمارے دل و دماغ میں پیوست ہو چکی ہیں۔ دراصل مسلمان مغربی معاشرتی علوم سے اس لیے متاثر ہیں کہ مغربی طبیعی علوم کی حیرت انگیز کامیابیاں اظہر من الشمس ہیں۔ معاشرہ چونکہ طبیعی سائنسز کی ترقی سے انتہائی مرعوب ہے، اس لیے اس کے ساتھ سماجی علوم میں بتائی گئی باتوں کو بھی ’’حق‘‘ مان لیتا ہے۔ سماجی سائنسز کا موضوع ہی یہ ہے کہ ’’ معاشرہ کیسے تعمیر کیا جائے؟‘‘ تو اب سماجی علوم کے مختلف شعبوں (جیسے معاشیات و سیاسیات وغیرہ) میں جو بھی تحقیقات ہوتی ہیں، انہی کے مطابق اپنے معاشروں کو ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 
لیکن یہ محض ایک دھوکہ ہے، کیونکہ اول تو طبیعی سائنسز کے انسانیت کے لیے سراسر مفید ہونے کا دعویٰ خود بھی محلِ نظر ہے۔(۶) اور اگر بالفرض اسے سچا بھی مان لیں تب بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خارج کے حقائق سے متعلق مفید علم کے ہونے سے باطن کے حقائق سے متعلق مفیدعلم کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ یعنی اگر ہمیں خارج کے متعلق کچھ ایسا معلوم ہے جسے ہم مفید سمجھتے ہیں تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوگا کہ باطنی حقائق یعنی انسانی فطرت کے متعلق بھی (مذہب سے قطع نظر کر کے ) ہمیں ’’حق اور مفید‘‘ بات سمجھ آ چکی ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں۔ سو انسانی فطرت کے متعلق ناقص معلومات کی بنا پر سماجی سائنسز کا پورا نظام ہی انتہائی بودا اور ناقابلِ بھروسہ ہے۔ 

مغرب کی پانچویں چال: علمِ نافع اور غیر نافع کے درمیان غیر منصفانہ تقسیم

مغربی تعلیم ہمیں سکھاتی ہے کہ علم کی دو اقسام ’’سیکولر اور مقدس ‘‘ کے درمیان کڑی تقسیم ہے، ایک کا دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ سیکولر علم کا تصور (علم کی ایک ایسی اقلیم جس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ) اسلام کے لیے بالکل اجنبی ہے، اس کے باوجود مغربی تعلیم کے اثر کی وجہ سے اسے اب مسلمانوں نے بھی بڑے پیمانے پر قبول کر لیا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں کار آمد اور بے کار علم کے درمیان تفریق کا پیمانہ مغرب سے یکسر مختلف ہے۔ ہمارے نبی حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نے علمِ نافع کے لیے دعا کی، اور اللہ تعالیٰ سے غیر نافع علم سے حفاظت کی دعا بھی مانگی۔ نافع اور غیر نافع کی درجہ بندی مقصد کے مطابق کی گئی ہے۔ مغرب چونکہ خدا، حیات بعد الموت، اور یومِ حساب کی تردید کرتا ہے، اس لیے زندگی کا مقصد خود بخود طاقت، لذت اور دولت کا حصول بن جاتا ہے۔ سو (ان کے نزدیک )علمِ نافع وہی ہوگا جو ان مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد گار ہو۔ دوسری طرف اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ حقیقی کامیابی روزِ قیامت کی کامیابی ہے۔ علمِ نافع وہ ہے جو اس حقیقی کامیابی کو حاصل کرنے میں ہمارا معاون ہو۔ وہ تمام علوم جو اس مقصد سے توجہ ہٹائیں یا روکیں وہ بے کار یا نقصان دہ ہیں۔ اسی روشنی میں ہمیں مغربی علم کی ساخت کا جائزہ لینا چاہیے۔ تاہم مغربی تعلیم کی مخصوص ہئیت ہمیں اس قسم کے تجزیے کرنے سے باز رکھتی ہے ۔ 

علم سے متعلق اسلامی اور مغربی رویہ 

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں علم کا بہت ہی کم حصہ دیا گیا ہے۔ یہ ہمیں ایک طرح کی ’’علمی عاجزی‘‘ سے متعارف کرواتا ہے : وہ یہ کہ ہمارا علم ہمارے انسانی تجربے پر مبنی ہے۔ یہ تجربہ زمان و مکان اور معروضیت (کی پابندیوں) کی وجہ سے بہت محدود ہے۔ آفاقی صداقتوں کا علم صرف خدا ہی کے پاس ہے اور وہ جسے چاہتا ہے اس علم کے کچھ حصے بخش دیتا ہے۔ 
اس کے بالکل برعکس مغربی رویے کو ایک طرح کی ’’علمی رعونت‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ وہ شروعات ہی اس مفروضے کے ساتھ کرتے ہیں کہ ہم محض تعقُّل کے ذریعے آفاقی صداقتوں کی کھوج لگا سکتے ہیں۔ اس (پوشیدہ) مفروضے کا رد امام غزالیؒ پہلے ہی اپنی کتاب ’’المنقذ من الضلال‘‘ میں کرچکے ہیں۔ وہ ثابت کر چکے ہیں کہ علم کی قطعیت کی کھوج میں فلاسفہ کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ ان کا اصل انکشاف یہ تھا کہ قطعی علم کی طرف جانے والی تمام راہیں مسدود ہیں۔ خاص طور پر تجرباتی فلسفے کےاس مفروضے کے مقدر میں ناکامی ہی لکھی ہے کہ: ’’ ہم فقط اپنے حواس اور تعقُّل کے استعمال سے حتمی صداقت کو پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ بہرحال آخر میں سچائی کو پانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اللہ کے نور سے اپنے قلوب منور کر لیے جائیں۔ 
بہت سے معروف مغربی فلسفیوں نے امام غزالیؒ کے دلائل کا مطالعہ کیا اور ان کی نقالی کی۔ تاہم ان کے اصل سبق کو سمجھنے یا جذب کرنےمیں آج تک مغربی فلسفی ناکام رہے۔ مغربی فلسفہ آفاقی صداقتوں کے ان فضول سوالات کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے، جس تک سوائے خدا کے کسی کو رسائی نہیں۔ یہ فلسفہ محدود (یعنی مقامی، معروضی اور عارضی) تجربے کی بنیاد پر آفاقی صداقتوں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، اس طرح خود کو ایک ناممکن ہدف دے دیتا ہے۔ چونکہ مغربی فلاسفہ کا تصور یہ ہے کہ علم تو صرف آفاقی صداقتوں ہی کو کہتے ہیں اور یہ جو کمزور، غیر مستقل اور عارضی صداقتیں ہیں، اس کو علم شمار ہی نہ کیا جائے، حالانکہ صرف یہی علم انسان کی دسترس میں ہے، تو جو ہمارے لیے ممکن ہے، اسے علم ہی شمار نہیں کرتے اور جو ناممکن ہے اسے علم شمار کرتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور غیر یقینی علم کو یقینی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ ہے اہلِ مغرب کا بہت بڑا علمی دھوکا۔ 

معرکۂ علم و دانش

مذکورہ بالا معروضات سےثابت ہوا کہ اس وقت اُمت کو درپیش اصل معرکہ، معرکۂ علم و دانش ہی ہے، کیونکہ مغرب نے علمی چال بازیوں سے لوگوں کے اذہان کو تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمان اپنے علوم سے اس سطح پر کام نہیں لے رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی قرآن انسانیت کو درپیش مسائل کے لیے بہترین رہنمائی فراہم کرتا ہے، مگر فی الوقت یہ ایک دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل ہمارے پاس نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس مسلمانوں کے حالات کے اعتبار سے نظر آتا ہے کہ یہ دعویٰ باطل ہے، کیونکہ مسلمانوں کے پاس قرآن موجود ہے اور اس کے باوجود وہ طرح طرح کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، جس سے عیاں ہوتا ہے کہ قرآن کی تعلیمات میں ان مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ سو اس دعویٰ کی دلیل فراہم کرنے کے لیے ہمیں ایک علمی مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے، جس میں ہم ثابت کر سکیں کہ مغربی علوم کی رہنمائی محض دھوکہ و فریب ہے۔ یہ علوم غلط راستوں پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ قرآن ہی ہمیں اُمت کے موجودہ پست حالات سے باہر نکالنے کی لیے صحیح رہنمائی فراہم کرسکتا ہے، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج امت اس طرف کماحقہ متوجہ نہیں، جیسا کہ بقولِ اقبال:

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے رہروِ منزل ہی نہیں

اختتامیہ 

یہاں پر ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں اور کچھ آخری گزارشات قارئین کے سامنے رکھتے ہیں۔ فی زمانہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اس وقت اُمتِ مسلمہ بہت ابتر حالت میں ہے، لیکن اس کا علاج کیسے ہو؟ اس پر شدید اختلاف ہے۔ زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پسماندگی کا علاج صرف اور صرف مغربی علوم کی تحصیل و ترویج میں ہے۔ یہ بات بہت غلط ہے اور قرآن کی تعلیمات سے ٹکراتی ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہے کہ اصل میں مغربی معاشرتی علوم ایک دین ہے، جو اسلام کے مخالف ہے اور اس دین میں ہی وہ ساری تعلیمات ہیں جنہیں آج مسلمان بھی رائج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسا کہ سیاست و معاشرت، معاشیات و تعلیم، ہرایک میں نہ صرف مغربی فکر کی پیروی کی جا رہی ہے، بلکہ اسلام کو بھی شعوری یا لاشعوری طور اسی کا تابع بنانے میں ہمتیں صرف کی جا رہی ہیں۔ اس طرح سے زندگی کے ہر شعبہ میں ہم مغرب کی نقالی میں مصروف ہیں، کیونکہ ہم ان کے علوم سے بہت مرعوب ہیں اور ہم اس دھوکے کا شکار ہوگئے ہیں کہ مغربی معاشرتی علوم بھی اسی طرح ٹھوس بنیادوں پر قائم ہیں جیسے مغرب کے طبیعی علوم ہیں۔ اسی دھوکے نے ہمیں قرآن کی تعلیمات کے استعمال سے باز رکھا ہوا ہے۔ امت میں اس وقت اس سوچ کا بہت فقدان ہے کہ مغربی معاشرتی علوم سے انکار کر کے قرآن ہی کی بنیاد پر اپنی معاشرت تشکیل دی جائے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو اقبال کے بقول : 

خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

اُمت کی آنکھیں، مغربی علم کی چکا چوند سے خِیرہ (تاریک وپریشان) ہو چکی ہیں۔ اس مضمو ن میں ہمارا مقصد بس یہ تھا کہ مغربی علوم کی بنیاد میں جو زہر ہے، اسے طشت از بام کیا جائے۔ اس کے بعد وہ مرحلہ آئے گا جس میں اپنے روایتی علوم کو استعمال کر کے مغربی علوم کے بالمقابل کھڑا کیا جائے اور پھر اس بات کو ثابت کیا جائے کہ قرآ ن ہمیں اپنی معاشرت کی تشکیل کی بابت جو رہنمائی فراہم کرتا ہے وہ بہت زیادہ بہتر ہے، جو اہلِ مغرب ہمیں دے سکتے ہیں۔(۷) اول الذکر مسئلہ کی توضیح اس مضمون میں کرنے کی سعی کی گئی ہے، جبکہ ثانی الذکر کی تفصیلات ہم آئندہ کسی مضمون میں پیش کریں گے۔ 
خدائے وحدہٗ لاشریک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے دین پر ایمانِ کامل اور یقینِ غیر متزلل عطا فرمائے۔ مغربی طرزِ فکر کی تباہ کاریوں کو ہم پر عیاں کر دے۔ ہمیں اس قابل بنا دے کہ ہم دین کو بغیر کسی ملاوٹ کے اس کے لیے خالص کر دیں۔ اپنی توجہ و ارتکاز قرآن وحدیث کی طرف موڑدیں اور ہر باطل سے ناتا توڑ کر، صرف اسی کی ذات سے ناتا جوڑ لیں۔

اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہْ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہْ
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ 

حواشی وحوالہ جات

۱:بَدَأ الإسْلَامُ غَرِيْبًا، وَسَيَعُوْدُ کما بَدَأَ غَرِيْبًا، فَطُوْبَی لِلْغُرَبَاءِ، الراوي : ابو ہريرۃؓ، | المحدث : مسلمؒ، | المصدر : صحيح مسلم، الصفحۃ او الرقم:۱۴۵، | خلاصۃ حکم المحدث : [صحيح]
۲: دیکھیں: من گھڑت تاریخ: مہلک ترین ہتھیار Fabricated History: The deadliest Weapon http://bit.ly/AZDeadly
۳:  ’’اِعْلَمُوْا اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَہْوٌوَّ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۔‘‘ (الحدید:۲۰) 
4:  Ehrman, Bart D.Lost Christianities: The battles for scripture and the faiths we never knew. Oxford University Press, USA, 2005
۵: مغربی سماجی علوم کے فریب کے موضوع پر ڈاکٹر اسعد زمان کے انگریزی میں بہت سے لیکچرز ہیں۔ فی الوقت اردو میں اس موضوع پر صرف صوتی شکل میں چند بیان اس لنک سے دستیاب ہیں: http://bit.ly/AZmzml ۔ (حماد رشید )
۶: چنانچہ اس بات پر ہی غور کر لیا جائے کہ آخر ایٹم بم انسانیت کے لیے کس طرح مفید ہو سکتا ہے اور یہ کہ اگر طبیعی سائنس کی ترقی اور ٹیکنالوجی کی بھرمار سے جو دنیا تیزی سے موسمیاتی تبدیلی کی طرف جا رہی ہے، اسی کے نتیجے میں دنیا اگر بالکل تباہ ہوگئی تو انجام کار طبیعی سائنس کے محض مفید ہونے کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور اس کا مضر ہونا حتمی قرار پائے گا۔
۷: الحمدللہ اس موضوع پر ابتدائی قسم کی طبع آزمائی مختلف جہات سے اہلِ علم کر رہے ہیں، ان کا کام ملاحظہ کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ سیاسیات میں مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اور مفتی شفیع عثمانی ؒ کا جمہوریت اور اسلامی نظامِ حکومت کے تقابل پر کام، جس میں مزید توسیع مفتی تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب’’ اسلام اور سیاسی نظریات‘‘ میں کی۔ یا جیسے تاریخ پر مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی کتاب ’’ مسلمانوں کے عروج و زوال کا انسانی دنیا پر اثر‘‘ وغیرہ۔ اس قسم کا سب کام ابتدائی نوعیت کا ہے اور سمندر کے مقابلے میں قطرے کی مانند ہے۔ اُمت کی دگرگوں صورت حال مزید گہرائی و گیرائی کے حامل وافر کام کی متقاضی ہے۔ (ڈاکٹر اسعد زمان )
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین