بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

بینات

 
 

جشنِ  میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صراطِ مستقیم


جشنِ  میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صراطِ مستقیم


۱۲؍ ربیع الاول کو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’جشنِ عید‘‘ منایا جاتا ہے اور آج کل اسے اہلِ سنت کا خاص شعار سمجھا جانے لگا ہے۔ اس کے بارے میں بھی چند ضروری نکات عرض کرتا ہوں:

1: آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیرایک اعلیٰ ترین عبادت  

آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر ایک اعلیٰ ترین عبادت بلکہ روحِ ایمان ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک واقعہ سرمۂ چشمِ بصیرت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت ،آپ ؐکی صغرِ سنی، آپ کا شباب، آپ کی بعثت، آپ کی دعوت، آپ کا جہاد ،آپ کی قربانی، آپ کا ذکر و فکر، آپ کی عبادت و نماز، آپ کے اخلاق و شمائل، آپ کی صورت و سیرت، آپ کا زہد و تقویٰ، آپ کا علم و خشیت، آپ کا اُٹھنا بیٹھنا، چلنا، پھرنا، سونا جاگنا، آپ کی صلح و جنگ، خفگی و غصہ، رحمت و شفقت، تبسم و مسکراہٹ، الغر ض! آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک ایک ادا اور ایک ایک حرکت و سکون اُمت کے لیے اسوۂ حسنہ اور اکسیرِ ہدایت ہے، اور اس کا سیکھنا سکھانا، اس کا مذاکرہ کرنا، دعوت دینا اُمت کا فرض ہے،  صلی اللہ علیہ وسلم ۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی شخصیات اور چیزوں کا تذکرہ بھی عبادت ہے۔ آپ کے احباب و اصحاب، ازواج و اولاد، خدّام و عمال، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس و پوشاک، آپ کے ہتھیار، آپ کے گھوڑوں، خچروں اور ناقہ کا تذکرہ بھی عینِ عبادت ہے، کیونکہ یہ در اصل ان چیزوں کا تذکرہ نہیں، بلکہ آپ کی نسبت کا تذکرہ ہے، صلی اللہ علیہ وسلم ۔

2:  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ محفوظ ہے

آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے دو حصے ہیں : ایک ولادتِ شریفہ سے لے کر قبل از نبوت تک کا، اور دوسرا بعثت سے لے کر وصال شریف تک کا۔ پہلے حصے کے جستہ جستہ بہت سے واقعات حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اور حیاتِ طیبہ کا دوسرا حصہ جسے قرآن کریم نے اُمت کے لیے اسوۂ حسنہ فرمایا ہے، اس کا مکمل ریکارڈ حدیث و سیرت کی شکل میں محفوظ ہے، اور اس کو دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم باہمہ خوبی و زیبائی گویا ہماری آنکھوں کے سامنے چل پھر رہے ہیں، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالِ جہاں آرا کی ایک ایک ادا اس میں صاف جھلک رہی ہے، صلی اللہ علیہ وسلم ۔
بلامبالغہ یہ اسلام کا عظیم ترین اعجاز اور اس امتِ مرحومہ کی بلند ترین سعادت ہے کہ ان کے پاس ان کے محبوب  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا پورا ریکارڈ موجود ہے، اور وہ ایک ایک واقعہ کے بارے میں دلیل و ثبوت کے ساتھ نشاندہی کرسکتی ہے کہ یہ واقعہ کہاں تک صحیح ہے؟ اس کے برعکس آج دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں، جن کے پاس ان کے ہادی کی زندگی کا صحیح اور مستند ریکارڈ موجود ہو۔ یہ نکتہ ایک مستقل مقالے کاموضوع ہے، اس لیے یہاں صرف اسی قدر اشارے پر اکتفا کرتا ہوں۔

3: سیرتِ طیبہ کو بیان کرنے کا درست طریقہ
 

آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو بیان کرنے کے دو طریقے ہیں: ایک یہ کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے ایک ایک نقشے کو اپنی زندگی کے ظاہر و باطن پر اس طرح آویزاں کیا جائے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر امتی کی صورت و سیرت، چال ڈھال، رفتار و گفتار، اخلاق و کردار، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مرقع بن جائے، اور دیکھنے والے کو نظر آئے کہ یہ محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا غلام ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جہاں بھی موقع ملے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ خیر سے ہر مجلس و محفل کو معمور و معطر کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات، اور آپ کے بابرکت اعمال و اخلاق اور طریقوں کا تذکرہ کیا جائے، اور آپ کی زندگی کے ہر نقشِ قدم پر مر مٹنے کی کوشش کی جائے۔ سلف صالحین صحابہؓ و تابعینؒ اور ائمہ ہدیٰ  ؒ ان دونوں طریقوں پر عامل تھے۔ وہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو اپنے عمل سے زندہ کرتے تھے، اور ہر محفل و مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرتِ طیبہ کا تذکرہ کرتے تھے۔ آپ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ سنا ہوگا کہ ان کے آخری لمحاتِ حیات میں ایک نوجوان ان کی عیادت کے لیے آیا، واپس جانے لگا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: برخوردار! تمہاری چادر ٹخنوں سے نیچے ہے، اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔ ان کے صاحبزادے سیدنا عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے اپنانے کا اس قدر شوق تھا کہ جب حج پر تشریف لے جاتے تو جہاں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفرِ حج میں پڑاؤ کیا تھا وہاں اُترتے، جس درخت کے نیچے آرام فرمایا تھا اُس درخت کے نیچے آرام کرتے۔ اور جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  فطری ضرورت کے لیے اُترتے تھے، خواہ تقاضا نہ ہوتا، تب بھی وہاں اُترتے، اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے، اس کی نقل اتارتے، رضی اللہ عنہ۔ یہی عاشقانِ رسول تھے جن کے دم قدم سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ صرف اوراق و کتب کی زینت نہیں رہی، بلکہ جیتی جاگتی زندگی میں جلوہ گر ہوئی، اور اس کی بوئے عنبرین نے مشامِ عالم کو معطر کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ بہت سے ایسے ممالک میں پہنچے جن کی زبان نہیں جانتے تھے، نہ وہ ان کی لغت سے آشنا تھے، مگر ان کی شکل و صورت، اخلاق و کردار اور اعمال و معاملات کو دیکھ کر علاقوں کے علاقے اسلام کے حلقہ بگوش اور جمالِ محمدی کے غلام بے دام بن گئے۔ یہ سیرتِ نبوی کی کشش تھی، جس کا پیغام ہر مسلمان اپنے عمل سے دیتا تھا۔

4: سلفِ صالحین کے ہر قول وعمل میں سیرتِ طیبہ کی جھلک تھی

سلف صالحینؒ نے کبھی سیرت النبیؐ کے جلسے نہیں کیے، اور نہ میلاد کی محفلیں سجائیں، اس لیے کہ وہاں ’’ہر روز روزِ عید‘‘ اور ’’ہر شب شبِ براءت‘‘ کا قصہ تھا۔ ظاہر ہے کہ جب ان کی پوری زندگی ’’سیرت النبی‘‘ کے سانچے میںڈھلی ہوئی تھی، جب ان کی ہر محفل و مجلس کا موضوع ہی سیرتِ طبیہ تھا، اور جب ان کا ہر قول و عمل سیرت النبی کا مدرسہ تھا تو ان کو اس نام کے جلسوں کی نوبت کب آسکتی تھی؟ لیکن جوں جوں زمانہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک دور سے بُعد ہوتا گیا، عمل کے بجائے قول کا ،کردار کے بجائے گفتار کا سکہ چلنے لگا۔ الحمد للہ! یہ امت کبھی بانجھ نہیں ہوئی۔ آج اس گئے گزرے دور میں بھی اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے موجود ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرتِ طیبہ کا آئینہ سامنے رکھ کر اپنی زندگی کے گیسوو کا کل سنوارتے ہیں، اور ان کے لیے محبوب  صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت ملکِ سلیمان اور گنجِ قارون سے زیادہ قیمتی ہے۔ لیکن مجھے شرمساری کے ساتھ یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ ایسے لوگ کم ہیں، جب کہ ہم میں سے اکثریت مجھ جیسے بد نام کنندہ گپوڑوں اور نعرہ بازوں کی ہے جو سال میں ایک دو بار سیرت النبی (  صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نعرے لگا کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے ذمہ اُن کے محبوب نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حق تھا ،وہ قرض انہوں نے پورا ادا کردیا، اور اب ان کے لیے شفاعت واجب ہوچکی ہے، مگر ان کی زندگی کے کسی گوشے میں دور دور تک سیرتِ طیبہ کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت کے ایک ایک نشان کو انہوں نے اپنی زندگی کے دامن سے کھرچ کھرچ کر صاف کر ڈالا ہے۔ اور روز مرہ نہیں، بلکہ ہر لمحہ اس کی مشق جاری رہتی ہے، مگر ان کے پتھر دل کو کبھی احساس تک نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنی سنتوں اور اپنے طریقوں کے مٹنے سے کتنی تکلیف اور اذیت ہوتی ہے۔وہ اس خوش فہمی میں ہیں کہ بس قوالی کے دو چار نغمے سننے، نعت شریف کے دو چار شعر پڑھنے سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا ہوجاتا ہے ۔

5:  مروجہ میلاد کی ابتداکب ہوئی؟!
 

میلاد کی محفلوں کے وجود سے امت کی چھ صدیاں خالی گزرتی ہیں اور ان چھ صدیوں میں جیساکہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں، مسلمانوں نے کبھی ’’سیرت النبی‘‘ کے نام سے کوئی جلسہ یا ’’ میلاد ‘‘ کے نام سے کوئی محفل نہیں سجائی۔ ’’محفلِ میلاد‘‘ کا آغاز سب سے پہلے ۶۰۴ھ میں سلطان ابو سعید مظفر اور ابو خطاب ابن دحیہ نے کیا، جس میں تین چیزیں بطورِ خاص ملحوظ تھیں:

1:     بارہ ربیع الاول کی تاریخ کا تعین۔ 

2:    علماء و صلحاء کا اجتماع۔
3:    اور ختمِ محفل پر طعام کے ذریعہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پر فتوح کو ایصالِ ثواب۔
 ان دونوں صاحبوں کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ یہ کس قماش کے آدمی تھے؟ بعض مؤرخین نے ان کو فاسق و کذاب لکھا ہے ،اور بعض نے عادل و ثقہ، واللہ اعلم!
جب یہ نئی رسم نکلی تو علماء امت کے درمیان اس کے جواز و عدمِ جواز کی بحث چلی۔ علامہ فاکہانیؒ اور اُن کے رفقاء نے ان خود ساختہ قیود کی بنا پر اس میں شرکت سے عذر کیا، اور اسے بدعتِ سیئہ قرار دیا، اور دیگر علماء نے سلطان کی ہم نوائی کی، اور ان قیود کو مباح سمجھ کر اس کے جواز و استحسان کا فتویٰ دیا۔ جب ایک بار یہ رسم چل نکلی تو یہ صرف ’’ علماء و صلحاء کے اجتماع‘‘ تک محدود نہ رہی، بلکہ عوام کے دائرے میں آکر ان کی نئی نئی اختراعات کا تختۂ مشق بنتی چلی گئی۔ آج ہمارے سامنے عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو ترقی یافتہ شکل موجود ہے (اور ابھی خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں مزید کتنی ترقی مقد رہے)، اب ہمیں اس کا جائزہ لینا ہے۔ 

6:  چھ صدیوں تک اہلِ اسلام اس خود تراشیدہ’’شعارِ اسلام‘‘سے ناواقف تھے

سب سے پہلے دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ جو فعل صحابہؓ و تابعینؒ کے زمانے میں کبھی نہیں ہوا، بلکہ جس کے وجود سے اسلام کی چھ صدیاں خالی چلی آئی ہیں، آج وہ ’’اسلام کا شعار‘‘ کہلاتا ہے۔ اس شعارِ اسلام کو زندہ کرنے والے ’’ عاشقانِ رسول‘‘ کہلاتے ہیں، اور جو لوگ اس نو ایجاد شعارِ اسلام سے ناآشنا ہوں، ان کو دشمنانِ رسول تصور کیا جاتا ہے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
کاش! ان حضرات نے کبھی یہ سوچا ہوتا کہ چھ صدیوں کے جو مسلمان ان کے اس خود تراشیدہ شعارِ اسلام سے محروم رہے ہیں، ان کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ کیا وہ سب ۔۔۔ نعوذ باللہ۔۔۔  دشمنانِ رسول تھے؟ اور پھر انہوں نے اس بات پر کبھی غور کیا ہوتا کہ اسلام کی تکمیل کا اعلان تو حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن ہو گیا تھا، اس کے بعد وہ کون سا پیغمبر آیا تھا، جس نے ایک ایسی چیز کو ان کے لیے شعارِ اسلام بنادیا، جس سے چھ صدیوں کے مسلمان ناآشنا تھے ؟ کیا اسلام میرے یا کسی کے ابا کے گھر کی چیز ہے کہ جب چاہو اس کی کچھ چیزیں حذف کردو، اور جب چاہو اس میں کچھ اور چیزوں کا اضافہ کرڈالو؟ 

7:  عیسائیوں کا طرزِ عمل
 

در اصل اسلام سے پہلے کی قوموں میں اپنے بزرگوں اور بانیانِ مذہب کی برسی منانے کا معمول ہے، جیساکہ عیسائیوں میں حضرت عیسیٰ m کے یومِ ولادت پر ’’ عیدِ ولادت‘‘ منائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے برسی منانے کی رسم کو ختم کردیا تھا اور اس میں دو حکمتیں تھیں: ایک یہ کہ سالگرہ کے موقع پر جو کچھ کیا جاتا ہے، وہ اسلام کی دعوت اور اس کی روح و مزاج سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ اسلام‘ اس ظاہری سج دھج، نمود و نمائش اور نعرہ بازی کا قائل نہیں، وہ اس شور و شغب اور ہاؤ ہو سے ہٹ کر اپنی دعوت کا آغاز دلوں کی تبدیلی سے کرتا ہے، اور عقائدِ حقہ، اخلاقِ حسنہ اور اعمالِ صالحہ کی تربیت سے انسان سازی کا کام کرتا ہے۔ اس کی نظر میں یہ ظاہری مظاہرے ایک کوڑی کی قیمت بھی نہیں رکھتے، جن کے بارے میں کہا گیا ہے:  ع:       ’’جگمگاتے    در  و  دیوار   دل  بے نور   ہیں‘‘
دوسری حکمت یہ ہے کہ اسلام دیگر مذاہب کی طرح کسی خاص موسم میں برگ و بار نہیں لاتا، بلکہ وہ تو ایسا سدا بہار شجرۂ طوبیٰ ہے، جس کا پھل اور سایہ دائم و قائم ہے۔ گویا اس کے بارے میں قرآنی الفاظ میں’’أُکُلُھَا دَائِمٌ وَّ ظِلُّھَا‘‘ کہنا بجا ہے۔ اس کی دعوت اور اس کا پیغام کسی خاص تاریخ کامرہونِ منت نہیں، بلکہ آفاق و اَزمان کو محیط ہے۔
اور پھر دوسری قوموں کے پاس تو دو چار ہستیاں ہوں گی، جن کی سالگرہ منا کر وہ فارغ ہوجاتی ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کے دامن میں ہزاروں لاکھوں نہیں، بلکہ کروڑوں ایسی قد آور ہستیاں موجود ہیں جو ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، اور جن کی عظمت کے سامنے آسمان کی بلندیاں ہیچ‘ اور نورانی فرشتوں کا تقدس گردِ راہ ہے۔ اسلام کے پاس کم و بیش سوا لاکھ کی تعداد تو ان انبیاء کی ہے، جو انسانیت کے ہیرو ہیں، اور جن میں سے ایک ایک کا وجود کائنات کی ساری چیزوں پر بھاری ہے۔ پھر انبیاء کرامo کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کا قافلہ ہے ، ان کی تعداد بھی سوا لاکھ سے کیا کم ہوگی؟ پھر ان کے بعد ہر صدی کے وہ لاکھوں اکابر اولیاء اللہ ہیں جو اپنے اپنے وقت میں رشد و ہدایت کے مینارۂ نور تھے، اور جن کے آگے بڑے بڑے جابر بادشاہوں کی گردنیں جھک جاتی تھیں۔ اب اگر اسلام‘ شخصیتوں کی سالگرہ منانے کا دروازہ کھول دیتا تو غور کیجیے کہ اس امت کو سال بھر میں سالگرہوں کے علاوہ کسی اور کام کے لیے ایک لمحہ کی بھی فرصت ہوتی؟ 

عیسائیوں کی تقلید

چونکہ یہ چیز ہی اسلام کی دعوت اور اس کے مزاج کے خلاف تھی، اس لیے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہؓ اور تابعینؒ کے بعد چھ صدیوں تک امت کا مزاج اس کو قبول نہ کرسکا۔ اگر آپ نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیاہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلامی تاریخ میں چھٹی صدی وہ زمانہ ہے جس میں فرزندانِ تثلیث نے صلیبی جنگیں لڑیں، اور مسیحیت کے ناپاک اور منحوس قدموں نے عالمِ اسلام کو روند ڈالا۔ ادھر مسلمانوں کا اسلامی مزاج داخلی و خارجی فتنوں کی مسلسل یلغار سے کمزور پڑ گیا تھا۔ ادھر مسیحیت کا عالمِ اسلام پر فاتحانہ حملہ ہوا، اور مسلمانوں میں مفتوح قوم کا سا احساسِ کمتری پیدا ہوا، اس لیے عیسائیوں کی تقلید میں یہ قوم بھی سال بعد اپنے مقدس نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کا جشن منانے لگی، یہ قوم کے کمزور اعصاب کی تسکین کا ذریعہ تھا، تاہم جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، امت کے مجموعی مزاج نے اس کو قبول نہیں کیا، بلکہ ساتویں صدی کے آغاز سے لے کر آج تک علماء امت نے اسے بدعت قرار دیا اور اسے’’ ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ کے زمرے میں شمار کیا ۔ 

8:  عید کا از خود اضافہ

اگرچہ ’’میلاد ‘‘ کی رسم ساتویں صدی کے آغاز سے شروع ہو چکی تھی اور لوگوں نے اس میں بہت سے امور کے اضافے بھی کیے، لیکن کسی کو یہ جرأت نہیں ہوئی تھی اسے ’’عید ‘‘ کا نام دیتا، کیونکہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: ’’میری قبرکو ’’عید‘‘ نہ بنانا‘‘ اور میں اوپر حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی  ؒ کے حوالے سے بتا چکا ہوں کہ’’ عید‘‘ منانے کی ممانعت کیوں فرمائی گئی تھی۔ مگر اب چند سالوں سے اس سالگرہ کو’’ عید میلاد النبیؐ    ‘‘ کہلانے کا شرف بھی حاصل ہوگیا ہے۔ دنیا کا کون مسلمان اس سے ناواقف ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں کے لیے ’’عید‘‘ کے دو دن مقرر کیے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے یومِ ولادت کو بھی ’’عید‘‘ کہنا صحیح ہوتا اور اسلام کے مزاج سے یہ چیز کوئی مناسبت رکھتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اس کو ’’عید‘‘ قرار دے سکتے تھے۔ اور اگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ پسندیدہ چیز ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ سہی‘ خلفائے راشدینؓ ہی آپ کے یومِ ولادت کو عید کہہ کر ’’جشنِ عید میلاد النبیؐ    ‘‘ کی طرح ڈالتے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس سے دو ہی نتیجے نکل سکتے ہیں: یا یہ کہ ہم اس کو’’ عید‘‘ کہنے میں غلطی پر ہیں، یا یہ کہ نعوذ باللہ! ہمیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کی خوشی ہے، مگر صحابہ کرامؓ خصوصا ًخلفائے راشدینؓ کو کوئی خوشی نہیں تھی۔ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا عشق بھی نہیں تھا جتنا ہمیں ہے۔

تاریخِ ولادت
 

ستم یہ ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت میں تو اختلاف ہے: بعض ۹ ربیع الاول بتاتے ہیں، بعض ۸؍ اور مشہور ۱۲ربیع الاول ہے، لیکن اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفاتِ شریفہ ۱۲ ربیع الاول ہی کو ہوئی۔ گو یا ہم نے’’ جشنِ عید‘‘ کے لیے دن بھی تجویز کیا تو وہ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا سے داغِ مفارقت دے گئے۔ اگر کوئی ہم سے یہ سوال کرے کہ تم لوگ ’’جشنِ عید‘‘ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادتِ طیبہ پر مناتے ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کی خوشی میں؟ ۔۔۔ نعوذ باللہ! ۔۔۔ تو شاید ہمیں اس کا جواب دینا بھی مشکل ہوگا۔ 
بہرحال! میں اس دن کو عید کہنا معمولی بات نہیں سمجھتا، بلکہ اس کو صاف صاف تحریف في الدینسمجھتا ہوں، اس لیے کہ’’ عید ‘‘اسلامی اصطلاح ہے اور اسلامی اصطلاحات کو اپنی خود رائی سے غیر منقول جگہوں پر استعمال کرنا دین میں تحریف ہے۔ 

9: ’’عید میلاد النبی  ؐ ‘‘کے موقع پر ہونے والی خرافات

اور پھر یہ عید جس طرح آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق منائی جاتی ہے، وہ بھی لائقِ شرم ہے۔ بے ریش لڑکے غلط سلط نعتیں پڑھتے ہیں،موضوع اور من گھڑت قصے کہانیاں‘ جن کا حدیث و سیرت کی کسی کتاب میں کوئی وجود نہیں بیان کی جاتی ہیں۔ شور و شغب ہوتا ہے، نمازیں غارت ہوتی ہیں، اور نہ معلوم کیا کیا ہوتا ہے۔ کاش! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے نام پر جو بدعت ایجاد کی گئی تھی، اس میں کم از کم آپ کی عظمت و تقدس ہی کو ملحوظ رکھا جاتا۔ غضب یہ کہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم ان خرافاتی محفلوں میں بنفسِ نفیس تشریف بھی لاتے ہیں، فیا غربۃ الإسلام! ( ہائے اسلام کی بے چارگی! )

10: روضۂ اطہر اوربیت اللہ شریف کی شبیہ بنانا اور اس کی قباحتیں

اب میں اس ’’عید میلاد النبی  ؐ ‘‘ کا آخری کارنامہ عرض کرتا ہوں۔ کچھ عرصے سے ہمارے کراچی میں ’’عید میلاد النبی  ؐ ‘‘ کے موقع پر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’روضۂ اطہر‘‘ اور ’’بیت اللہ‘‘ شریف کی شبیہ بنائی جاتی ہے، اور جگہ جگہ بڑے بڑے چوکوں میں سوانگ بناکر رکھے جاتے ہیں۔ لوگ ان سے تبرک حاصل کرتے ہیں، اور بیت اللہ کی خود ساختہ شبیہ کا طواف بھی کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ مسلمانوں کے ہاتھوں اور علماء کی نگرانی میں کرایا جارہا ہے۔ فیا أسفاہ! ’’ جشنِ عید میلاد‘‘ کی باقی ساری چیزوں کو چھوڑ کر اسی ایک منظر کا جائزہ لیجیے کہ اس میں کتنی قباحتوں کو سمیٹ کر جمع کردیا گیا ہے۔
اول :    اس پر جو ہزاروں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے ،یہ محض اسراف و تبذیر اور فضول خرچی ہے۔ آپ ملا علی قاریؒ کے حوالے سے سن چکے ہیں کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر چراغ اور شمع جلانے والوں پر اس لیے لعنت فرمائی ہے کہ یہ فعل عبث ہے اور خدا کے دیے ہوئے مال کو مفت ضائع کرنا ہے۔ ذرا سوچیے! جو مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم  قبر پر ایک چراغ جلانے کو فضول خرچی کی وجہ سے ممنوع اور ایسا کرنے والوں کو ملعون قرار دیتا ہے، اس کا ارشاد اس ہزاروں، لاکھوں روپے کی فضول خرچی کرنے والوں کے بارے میں کیا ہوگا؟ اور پھر یہ بھی دیکھیے کہ: یہ فضول خرچی وہ غربت زدہ قوم کررہی ہے، جو روٹی کپڑا مکان کے نام پر ایمان تک کا سوداکرنے کو تیار ہے۔ اس فضول خرچی کے بجائے اگر یہی رقم آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایصالِ ثواب کے لیے غرباء و مساکین کو چپکے سے نقد دے دی جاتی تو نمائش تو بلاشبہ نہ ہوتی، مگر اس رقم سے سیکڑوں اُجڑے گھر آباد ہوسکتے تھے، ان سیکڑوں بچیوں کے ہاتھ پیلے کیے جاسکتے تھے جو اپنے والدین کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہیں۔ کیا یہ فضول خرچی اس قوم کے راہنماؤں کو سجتی ہے، جس قوم کے بہت سے افراد و خاندان نانِ شبینہ سے محروم اور جان و تن کا رشتہ قائم رکھنے سے قاصر ہوں؟ اور پھر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے کس ہستی کے نام پر؟ جو خود تو پیٹ پر پتھر بھی باندھ لیتے تھے، مگر جانوروں تک کی بھوک پیاس سن کر تڑپ جاتے تھے۔ آج کمیونزم اور لادین سوشلزم اسلام کو دانت دکھا رہا ہے۔ جب ہم دنیا کی مقدس ترین ہستی کے نام پر یہ سارا کھیل کھیلیں گے تو لادین طبقے دین کے بارے میں کیا تأثر لیں گے؟ فضول خرچی کرنے والوں کو قرآنِ کریم نے ’’إخوان الشیاطین‘‘ فرمایا تھا، مگر ہماری فاسد مزاجی نے اس کو اعلیٰ ترین نیکی اور اسلامی شعار بنا ڈالا ہے:   ع:
 ’’بسوخت عقل زِ حیرت کہ این چہ بو العجبی است ‘‘
دوم:    دوسرے، اس فعل میں شیعوں اور رافضیوں کی تقلید ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ رافضی‘ حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کی سالانہ برسی منایا کرتے ہیں، اور اس موقع پر تعزیہ، علم، دلدل وغیرہ نکالتے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ حسینؓ اور آلِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کیا، وہی ہم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کرنا شروع کردیا۔ انصاف کیجیے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے روضۂ اطہر اور بیت اللہ شریف کا سوانگ بناکر اسے بازاروں میں پھرانا اور اس کے ساتھ روضۂ اطہر اور بیت اللہ کا سا معاملہ کرنا صحیح ہے تو روافض کا تعزیہ اور دلدل کا سوانگ رچانا کیوں غلط ہے؟ افسوس ہے کہ جو ملعون بدعت رافضیوں نے ایجاد کی تھی، ہم نے ان کی تقلید کرکے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے کی کوشش کی۔
سوم:    تیسرے، اس بات پر بھی غور کیجیے کہ روضۂ اطہر اور بیت اللہ کی جو شبیہ بنائی جاتی ہے وہ شیعوں کے تعزیہ کی طرح محض جعلی اور مصنوعی ہے، جسے آج بنایاجاتا ہے اور کل توڑ دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مصنوعی سوانگ میں اصل روضۂ اطہر اور بیت اللہ کی کوئی خیر و برکت منتقل ہوجاتی ہے یا نہیں؟ اور اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی اس چیز میں کسی درجہ میں تقدس پیدا ہوجاتا ہے یا نہیں؟ اگر اس میں کوئی تقدس اور کوئی برکت نہیں تو اس فعل کے محض لغو اور عبث ہونے میں کیا شک ہے؟ اور اگر اس میں تقدس اور برکت کا کچھ اثر آجاتا ہے تو اس کی شرعی دلیل کیا ہے؟ اور کسی مصنوعی اور جعلی چیز میں روضۂ مقدس اور بیت اللہ شریف سے تقدس و برکت کا اعتقاد رکھنا اسلام کی علامت ہے یا جاہلیت کی؟ اور پھر روضۂ شریف اور بیت اللہ شریف کی شبیہ بنا کر اگلے دن ان کی توڑ پھوڑ کردینا، کیا ان کی توہین نہیں؟ آپ جانتے ہیں کہ بادشاہ کی تصویر بادشاہ نہیں ہوتی، نہ کسی عاقل کے نزدیک اس میں بادشاہ کا کوئی کمال ہوتا ہے، اس کے باوجود بادشاہ کی تصویر کی توہین کو قانون کی نظر میں لائقِ تعزیر جرم تصور کیا جاتا ہے، اور اسے بادشاہ سے بغاوت پر محمول کیا جاتا ہے۔ لیکن آج روضۂ اطہر اور بیت اللہ شریف کی شبیہ بنا کر کل اسے منہدم کرنے والوں کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اسلامی شعائر کی توہین کے مرتکب ہورہے ہیں ۔
چہارم:    چوتھے، جس طرح شیعہ لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کے تعزیہ پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور منتیں مانتے ہیں، اب رفتہ رفتہ عوام کالانعام اس نوایجاد ’’بدعت ‘‘ کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنے لگے ہیں۔ روضۂ اطہر کی شبیہ پر درود و سلام پیش کیا جاتا ہے، اور بیت اللہ شریف کی شبیہ کا باقاعدہ طواف ہونے لگا ہے۔ گویا مسلمانوں کو حج و عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر کی زیارت کے لیے مدینہ منورہ جانے کی ضرورت نہیں ، ہمارے ان دوستوں نے گھر گھر میں روضے اور بیت اللہ بنادئیے ہیں ،جہاں سلام بھی پڑھا جاتا ہے اور طواف بھی ہوتا ہے۔ میرے قلم میں طاقت نہیں کہ میں اس فعل کی قباحت و شناعت اور ملعونیت کو ٹھیک ٹھیک واضح کرسکوں۔
ہمارے ائمہ اہلِ سنت کے نزدیک یہ فعل کس قدر قبیح ہے ؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف ایک مثال کافی ہے، وہ یہ کہ ایک زمانے میں ایک بدعت ایجاد ہوئی تھی کہ عرفہ کے دن جب حاجی حضرات عرفات کے میدان میں جمع ہوتے ہیں، تو ان کی مشابہت کے لیے لوگ اپنے شہر کے کھلے میدان میں نکل کر جمع ہوتے اور حاجیوں کی طرح سارا دن دعا و تضرع، گریہ و زاری اور توبہ و استغفار میں گزارتے، اس رسم کا نام ’’تعریف‘‘ یعنی عرفہ منانا رکھا گیا تھا۔ بظاہر اس میں کوئی خرابی نہیں تھی، بلکہ یہ ایک اچھی چیز تھی کہ اگر اس کا رواج عام ہوجاتا تو کم از کم سال بعد تو مسلمانوں کو توبہ و استغفار کی توفیق ہوجایا کرتی، مگر ہمارے علماء اہلِ سنت نے (اللہ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے) اس بدعت کی سختی سے تردید کی اور فرمایا : 
’’اَلتَّعْرِیْفُ لَیْسَ بِشَیْیٍٔ‘‘...یعنی ’’اس طرح عرفہ منانا بالکل لغو اور بیہودہ حرکت ہے۔‘‘
شیخ ابن نجیمؒ صاحبِ ’’البحر الرائق‘‘ لکھتے ہیں : 
’’چونکہ وقوفِ عرفات ایک ایسی عبادت ہے جوایک خاص مکان کے ساتھ مخصوص ہے، اس لیے یہ فعل اس مکان کے سوا دوسری جگہ جائز نہ ہوگا، جیسا کہ طواف وغیرہ جائز نہیں، آپ دیکھتے ہیں طوافِ کعبہ کی مشابہت کے طور پر کسی اور مکان کا طواف جائز نہیں۔‘‘ 
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں : 
’’آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ: ’’میری قبر کو عید نہ بنا لینا۔‘‘ اس میں تحریف کا دروازہ بند کرنے کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ یہود و نصاریٰ نے اپنے نبیوں کی قبروں کے ساتھ یہی کیا تھا اور انہیں حج کی طرح عید اور موسم بنا لیا تھا۔ ‘‘                                (حجۃ اللہ البالغہ )
شیخ علی القاری ؒشرح مناسک میں فرماتے ہیں کہ : 
’’طواف‘ کعبہ شریف کی خصوصیات میں سے ہے، اس لیے انبیاءؑ، اولیاءؒ کی قبور کے گرد طواف کرنا حرام ہے۔ جاہل لوگوں کے فعل کا کوئی اعتبار نہیں، خواہ وہ مشائخ و علماء کی شکل میں ہوں۔‘‘                                                       (بحوالہ: الجنۃ لاہل السنۃ ،ص:۷) 
’’اور البحر الرائق، کفایہ شرح ہدایہ، اور معراج الدرایۃ میں ہے کہ: جو شخص کعبہ شریف کے علاوہ کسی اور مسجد کا طواف کرے، اس کے حق میں کفر کا اندیشہ ہے۔ ‘‘        (الجنۃ لاہل السنۃ، ص: ۷) 
ان تصریحات سے معلوم ہوسکتا ہے کہ روضۂ اطہر اور کعبہ شریف کا سوانگ بنا کر ان کے ساتھ اصل کا سا جو معاملہ کیا جاتا ہے، ہمارے اکابر اہلِ سنت کی نظر میں اس کی کیا حیثیت ہے؟
خلاصہ: یہ کہ’’ جشنِ عید میلاد ‘‘کے نام پر جو خرافات رائج کردی گئی ہیں، اور جن میں ہر آئے سال مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔ یہ اسلام کی دعوت، اس کی روح اور اس کے مزاج کے یکسر منافی ہیں۔ میں اس تصور سے پریشان ہوجاتا ہوں کہ ہماری ان خرافات کی روئے داد جب آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں پیش ہوتی ہوگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر کیا گزرتی ہوگی؟ اور اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ہمارے درمیان موجود ہوتے، تو ان چیزوں کو دیکھ کر ان کا کیا حال ہوتا؟ بہرحال میں اس کو نہ صرف ’’بدعت‘‘ بلکہ’’ تحریف فی الدین‘‘ تصور کرتا ہوں۔ اور اس بحث کو امامِ ربانی مجدد الف ثانی  ؒ کے ایک ارشاد پر ختم کرتا ہوں، جو انہوں نے اسی مسئلہ میں اپنے مرشد خواجہ باقی باللہؒ کے بارے میں فرمایا ہے: 
’’بنظرِ انصاف بینند کہ اگر فرضاً حضرتِ ایشان درین زمان دنیا زندہ می بودند وایں مجلس و اجتماع منعقد می شد آیا بایں امر راضی می شدند، وایں اجتماع را پسندیدند یا نہ؟ یقینِ فقیر آن است کہ ہرگز این معنی را تجویز نمی فرمودند، مقصودِ فقیر اعلام بود، قبول کنند یا نہ کنند، ہیچ مضائقہ نیست و گنجائشِ مشاجرہ نہ۔‘‘
ترجمہ: ’’انصا ف کی نظر سے دیکھیے کہ اگر بالفرض! حضرت ایشاں اس وقت دنیا میں تشریف فرما ہوتے اور یہ مجلس اور یہ اجتماع منعقد ہوتا، آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس پر راضی ہوتے؟ اور اس اجتماع کو پسند فرماتے یا نہیں؟ فقیر کا یقین یہ ہے کہ اس کو ہر گز جائز نہ رکھتے۔ فقیر کا مقصود صرف امرِ حق کا اظہار ہے، قبول کریں یا نہ کریں، کوئی پروا نہیں اور نہ کسی جھگڑے کی گنجائش۔‘‘  (دفترِ اول، مکتوب :۲۷۳)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین