بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں ( ساتویں قسط )

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں        (ساتویں قسط)

۳:… معاشرتی سطح پر     غامدی صاحب کے منشور کا تیسرا بڑا عنوان ’’معاشرتی سطح پر ہے‘‘ یعنی معاشرتی طور پر ہمارے منشور کی دفعات کیا ہیں؟ اس عنوان کے نیچے اس منشور میں تیرہ دفعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ تین طلاق اور غامدی صاحب کا منشور تین طلاق اور غامدی صاحب کا نیا مذہب     اوپر بڑے عنوان کے نیچے تیرہ دفعات میں سے یہ ساتویں دفعہ ہے جو قابل مؤاخذہ ہے، چنانچہ غامدی صاحب اپنے منشور کے ص: ۱۲ پر تین طلاق دینے سے متعلق یوں لکھتے ہیں: ’’لوگوں پر پابندی عائد کی جائے کہ وہ اگر بیوی سے مفارقت چاہیں تو اسے قرآن مجید کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہر حال میں ایک ہی طلاق دیں، تاہم کوئی شخص اگر قانون سے ناواقفیت یا اپنی حماقت کی بنا پر ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے بیٹھے تو اسے سزا دی جائے اور اس کی طلاق کے معاملے میں وہی طریقہ اختیار کیاجائے جو نبی a نے رکانہ بن عبدیزیدq کے معاملے میں اختیار فرمایا تھا۔‘‘                     (منشور: ۱۲) تبصرہ: غامدی صاحب نے تین طلاق کے واقع نہ ہونے کے لیے جس دلیل کا حوالہ دیا ہے، وہ حضرت رکانہ بن عبد یزید qکی درج ذیل حدیث ہے :  ’’ عن رکانۃ بن عبد یزیدؓ أنہ طلق امرأتہٗ سھیمۃ ألبتۃ ، فأخبر بذٰلک النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال: واللّٰہ ما أردتُ إلا واحدۃً فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: واللّٰہ ما أردتَ إلا واحدۃ؟ فقال رکانۃؓ :واللّٰہ ما أردتُ إلا واحدۃً۔ فردھا إلیہ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فطلقھا الثانیۃ فی زمان عمرؓ والثالثۃ فی زمان عثمانؓ ۔‘‘    (رواہ ابوداؤد) ترجمہ:’’ حضرت رکانہ بن عبدیزیدq سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی سہیمہ کو تین طلاق دیں، پھر اس نے اس کی اطلاع نبی اکرم a کو دی اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ خدا کی قسم! میں نے صرف ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا۔ آنحضرت a نے فرمایا کہ: خدا کی قسم کھاکر کہو تم نے ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا تھا؟ حضرت رکانہ qنے کہا: خدا کی قسم! میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا تھا، پس آنحضرت a نے (نکاح جدید کے ساتھ) اس کی بیوی کو اس کی طرف لوٹادیا۔ پھراس نے حضرت عمرq کے عہد ِخلافت میں دوسری اور حضرت عثمان q کی خلافت میں تیسری طلاق دے دی۔‘‘     غامدی صاحب نے اپنے منشور میں تین طلاق دینے والے کو احمق کہہ کر یہ فیصلہ صادر کیا کہ ایسے شخص کو سزا دی جائے۔ سزا دینے کی نوبت تو تب آئے گی کہ غامدی صاحب کی حکومت آجائے اور اس کے منشور کے نافذ کرنے کا وقت آجائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سزا کتنی ہونی چاہیے؟ اس کی وضاحت غامدی صاحب نے نہیں کی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر تین طلاق دینے والا شخص مستحق سزا ہے تو آنحضرت a نے حضرت رکانہ بن عبدیزیدq کوسزا کیوں نہیں دی؟     اگر نبی اکرم a نے سزا تجویز نہیں فرمائی تو غامدی صاحب کون ہوتے ہیں جو سزا کی بات کرتے ہیں؟ نہ معلوم یہ شخص کونسی نئی شریعت پیش کرنا چاہتا ہے؟ غامدی نے اس کے بعد تین طلاق دینے والے شخص کی طلاق کے معاملے کو رکانہ بن عبد یزید qکے معاملے پر چھوڑ دیا۔ جناب غامدی صاحب کا مقصد یہ ہے کہ آنحضرتa نے تین طلاق کو کالعدم قرار دیا، کیونکہ یہ ایک ساتھ ایک مجلس میں دی گئی تھیں۔ تین طلاق کو آنحضرتa نے ایک طلاق قرار دیا اور اس کی بیوی کو ان کی طرف واپس کردیا۔ غیرمقلدین کا خیال بھی اسی طرح ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ غامدی صاحب کا تعلق غیرمقلدین سے بھی ہے اور ایسے ہی خرافاتی لوگ پہلے تقلید کا انکار کردیتے ہیں اور پھر شیطان کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔ کوئی مقلد کسی مسلک میں رہتے ہوئے اس طرح گمراہ اور منکر حدیث نہیں ہوتا۔ اب میں غامدی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر ایک مجلس میں تین طلاق واقع ہونے کا اعتبار نہیں تھا تو آنحضرتa رکانہ بن عبدیزیدq کو قسم کیوںدے رہے ہیں کہ سچ بتائو تم نے تین کے بجائے ایک کا ارادہ کیا تھا؟ صاف ظاہر ہے کہ اگر تین کا ارادہ کیا ہوتا تو تین پڑجاتیں۔ صحابیؓ نے قسم کھائی کہ میں نے تین کا نہیں، بلکہ ایک کا ارادہ کیا تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ غامدی صاحب نے اس حدیث کا حوالہ کیسے دیا؟ جب کہ وہ ایک مجلس میں تین طلاق کے واقع ہونے کا قائل ہی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اس روایت میں ’’البتہ‘‘ کے الفاظ ہیں جو تین طلاق اور ایک طلاق دونوں کا احتمال رکھتا ہے، اس لیے نبی کریم a نے ان سے استفتاء فرمایا ہے۔ اس روایت میں تین طلاق کے الفاظ بالکل نہیں۔ دوسری جس روایت میں تین طلاق کے الفاظ ہیں، وہ نہایت کمزور ہے، جس سے استدلال پکڑنا کسی طور پر درست نہیں۔     حضرت رکانہq کی تین طلاق کو ایک قرار دینے کا ایک پس منظر ہے اور وہ یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں لوگ طلاق میں تاکید پیدا کرنے کے لیے بطور تاکید تین الفاظ بولتے تھے۔ اصل طلاق ایک ہوتی تھی، اس کے ساتھ طلاق کا دوسرا اور تیسرا لفظ تاکید کے لیے ہوتا تھا، جیسے کوئی شخص بطور تکرار کہتا ہے: تجھے طلاق طلاق طلاق ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آنحضرتa آدمی کے قصد وارادہ کی قسم دے کر پوچھتے تھے کہ ارادہ ایک کا تھا یا تین کا تھا؟ چونکہ تین طلاق کا رواج نہیں تھا، اس لیے ہر آدمی ایک ہی کا اعتراف کرتا تھا، لیکن جب حضرت عمر فاروق q کا دور آیا اور لوگوں نے تین الفاظ دہرانے سے تین کا ارادہ کیا تو حضرت عمر q نے صحابہ sسے مشورہ کیا اور فرمایا کہ لوگوں نے طلاق کے تین الفاظ دہرانے سے تین طلاق کا ارادہ کرنا شروع کردیا ہے، لوگ جلد باز ہوگئے، لہٰذااب تین الفاظ کے دہرانے سے تین طلاقیں مراد لی جائیں گی۔ مسلم شریف ج:۱، ص:۴۷۷ پر روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال: کا ن الطلاق علٰی عھد رسول اللّٰہ a وأبی بکرؓ وسنتین من خلافۃ عمرؓ طلاق الثلاث واحدۃ ، فقال عمر بن الخطابؓ: إن الناس استعجلوا فی أمر کانت لھم فیہ أناۃ فلو أمضیناہ علیھم فأمضاہ علیھم۔‘‘ (مسلم شریف:۴۷۷) ’’حضرت ابن عباس q سے روایت ہے کہ آنحضرتa کے زمانے اور پھر صدیق اکبرq کے زمانے میں اور پھر حضرت عمرq کے تین سالہ دور تک تین طلاق ایک سمجھی جاتی تھیں، پھر حضرت عمرq نے فرمایا کہ: لوگوں نے طلاق کے ٹھہرائو میں جلد بازی سے کام لیا، اب اگر ہم ان پر تین طلاق نافذ کریں تو اچھا ہوگا، پھر آپa نے تین کو نافذ کردیا۔     اس روایت میں بالکل ابتدائی دور کا پس منظر بیان کیا گیا ہے کہ طلاق کے تین الفاظ سے ایک طلاق مراد ہوتی تھی۔ پھر لوگوں نے تین سے ایک نہیں، بلکہ تین ہی مراد لینا شروع کردیا تو ان پر تین کا حکم نافذ کردیا گیا۔ ایک طرف پوری امت ہے، صحابہ کرامs ہیں، خلفائے راشدینs ہیں، فقہائے کرامؒ اور تابعینؒ ہیں، عرب وعجم سب نے اس پر اتفاق اور اجماع کرلیا ہے کہ تین الفاظ سے طلاق تین ہی مراد لی جائیں گی اور دوسری طرف غامدی صاحب ہیں جو کہتے پھرتے ہیں کہ نہیں نہیں ایک مجلس میں تین طلاق دینے والا احمق ہے اور یہ تین نہیں بلکہ ایک ہے۔ بہر حال میں تین طلاق کے اثبات کے دلائل بیان نہیں کرسکتا اور غامدی صاحب کے ساتھ اس طرح الجھنے کو میں فضول سمجھتا ہوں۔ بس اتنا کہتا ہوں کہ جمہور امت سے کٹ کر اور تقلید سے ہٹ کر پرواز کو اتنا اونچا نہ رکھو، ذرا زمین پر چلنے کا سلیقہ سیکھو، ورنہ گرجائوگے: اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جائو گے     علامہ زاہد الکوثری vنے اکابر کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ: ’’ اللا مذھبیۃ قنطرۃ الإلحاد۔‘‘یعنی ’’تقلید سے آزاد ہونا ہر الحاد کا پل ہے ۔‘‘     حضرت ابن عباس q سے ایک شخص نے پوچھا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیں، آپ میرے بارے میں کیا فرمائیں گے؟ حضرت ابن عباس q نے فرمایا کہ: تین طلاق سے تو تیری بیوی مطلقہ بن گئی اور ستانوے طلاق سے تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا مذاق اڑادیا۔ (رواہ مؤطا، مکتبہ بشریٰ : ۳۱)     اب اس روایت میں اور اس طرح کئی دیگر روایات میں حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابن مسعود rکھلے الفاظ میں فرماتے ہیں کہ ایک ہی مجلس میں کسی نے سو طلاقیں دیں تو تین طلاق پڑجائیں گی اور بیوی مطلقہ ہوجائے گی۔ اس تصریح کے بعد غامدی صاحب کو اس طرح جرأت نہیں کرنی چاہیے کہ جمہور کو یکسر نظر انداز کردیا اور اپنا اجتہاد ٹھونس دیا اور منشور میں ’’معاشرتی سطح پر‘‘ عنوان رکھ کر نیا معاشرہ تشکیل دے دیا۔ ایک سے زیادہ شادیوں کا تصور اور غامدی صاحب کا نیا مذہب     غامدی صاحب اپنے منشور کے بڑے عنوان ’’معاشرتی سطح پر‘‘ کے عنوان کے تحت دفعہ: ۸ میں لکھتے ہیں: ’’ دوسری شادی کو لازمی طور پر ضرورت سے مشروط کیا جائے اور اس کے بارے میں مطلق اباحت کا جو تصور اس وقت مسلمانوں میں موجود ہے، اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔‘‘  (منشور، ص:۱۲) تبصرہ: دوسری شادی کو ضرورت کے ساتھ مشروط کرنے کی بات غامدی صاحب کی نئی شریعت ہے، حالانکہ ان کو شریعت سازی کا اختیار نہیں ہے۔ یہ شخص نہ مجتہد ہے اور نہ گہرے علم کا مالک ہے۔ یہ ایک قلم کار، مضمون نگار ،افسانہ نگار شخص ہے، بدقسمتی سے یہ شخص شریعت کے احکام میں مداخلت کرنے لگا اور خانہ ساز شریعت متعارف کرانے لگا اور نئے نئے ضابطے بنانے لگا ۔     قرآن وحدیث اور فقہائے کرام اور صحابہ کرامs نے کہیں بھی اس طرح قاعدہ کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔ صحابہ کرامs میں بہت سارے صحابہؓ نے کئی کئی شادیاں کی ہیں۔ علمائے کرام نے اس پر عمل کیا ہے۔ ایک صحت مند مرد کے اندر کے جذبات اور احساسات خود ایک مجبوری ہے جو آدمی کو دوسری تیسری اور چوتھی شادی پر ابھارتی ہے۔ غامدی صاحب کو اگر مردانگی کا پورا حصہ نہیںملا ہے تو وہ خود کو معذور سمجھیں۔ شریعت میں بے جا مداخلت کرکے قاعدہ کیوں بناتے ہیں اور پھر اپنے منشور کا حصہ کیوں گردانتے ہیں اور پھر اس کو لازم کیوں قرار دیتے ہیں؟ غامدی صاحب اس دفعہ کی عبارت میں مزید لکھتے ہیں:  ’’دوسری شادی کی مطلق اباحت کا جو تصور اس وقت مسلمانوں میں موجود ہے، اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔‘‘     اس عبارت سے غامدی صاحب یہ تأثر دینا چاہتے ہیں کہ دوسری شادی کی اباحت کا یہ تصور آج کل کے مسلمانوں میں پیدا ہوگیا ہے اور پرانے زمانے کے مسلمانوں میں یہ تصور نہیں تھا کہ ایک سے زائد شادی مباح ہے۔ غامدی صاحب نے اس تأثر کے بارے میں غلط بیانی کی ہے اور قرآن وحدیث پر اعتراض کرکے انکار کیاہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَائِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبَاعَ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً۔‘‘                                                         (النسائ: آیت:۳) ’’تم کو عورتوں میں سے جو خوش آئیں تو دو دو، تین تین اور چار چار سے شادی کرلو، پھر اگر ڈرو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی سے نکاح کرو۔ ‘‘     اب غور کرنے کا مقام ہے، کیا یہ مطلق اباحت نہیں ہے؟ کیا یہ اباحت قرآن کریم میں موجود نہیں ہے؟ کیا یہ آج کل کے مسلمانوں میں موجود ہے یا چودہ سوسال پرانا تصور ہے؟ اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ غامدی صاحب ان پڑھ ہوتا تویہ اس لکھنے سے بہتر ہوتا، کیونکہ نہ لکھنے پر مؤاخذہ نہ ہوتا، مگر غلط لکھنے پر مؤاخذہ ہوگا۔     زیر بحث آیت تو یہ بتاتی ہے کہ اگر کئی بیویوں میں انصاف نہیں کرسکوگے تو پھر ایک ہی کو رکھ لو۔ اس سے تو معلوم ہوا کہ ایک عورت سے شادی بدرجۂ مجبوری ہے اور یہ رخصت ہے، عزیمت نہیں۔ عزیمت تو چار ہے، نکاح تو شروع ہی دو عورتوں سے ہے، پتہ نہیں غامدی صاحب کدھر بھٹک رہے ہیں۔     علامہ شبیر احمد عثمانی v اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’ جاننا چاہیے کہ مسلمان آزاد کے لیے زیادہ سے زیادہ چار نکاح تک اور غلام کے لیے دو تک کی اجازت ہے اور حدیثوں میں بھی اس کی تصریح ہے اور ائمہ دین کا بھی اسی پر اجماع ہے اور تمام امت کے لیے یہی حکم ہے، صرف رسول اللہ a کی خصوصیت اور آپؐ کا امتیاز ہے کہ اس سے زائد کی اجازت ہے۔‘‘                 (تفسیر عثمانی،ص: ۹۹)     اس دفعہ کے آخر میں غامدی صاحب نے لکھا ہے کہ اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔     اس ظالم نے یہ نہیں دیکھا کہ ایک سے زائد شادی کی اباحت کا حکم قرآن عظیم کا حکم ہے، احادیث مقدسہ کا حکم ہے، ائمہ مجتہدین اور پوری امت کا اجماعی فیصلہ ہے۔ جو شخص قرآن وحدیث اور اجماعِ امت کے فیصلے کی حوصلہ شکنی کی بات کرتا ہے اور اسے منشور کا حصہ بناتا ہے، میرے خیال میں ایسا شخص اسلام کی سرحدوں کو پاٹ رہا ہے۔ جب کہ وہ الٹا ’’معاشرتی سطح پر‘‘ عنوان رکھ کر نیا معاشرہ تشکیل دے رہا ہے اور نئے مذہب کی داغ بیل ڈال رہا ہے :فَیَا عَجَبًا عَلٰی ھٰذَا الْمُتَجَدِّدِ۔                                                                                    (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین