بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

جامعہ کے دو علماء کی رحلت!

جامعہ کے دو علماء کی رحلت!


یہ دنیا دارِ فانی ہے، جو بھی اس میں آیا ہے آخر ایک دن اس نے جانا ہے۔ گزشتہ ماہ رجب المرجب ۱۴۳۹ھ میں ہماری جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دو علماء حضرت مولانا الطاف الرحمن صاحب اور حضرت مولانا عتیق اللہ صاحب بالترتیب ۳؍ رجب و۴؍ رجب کو دنیائے فانی کو چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔ دونوں جامعہ کے فاضل، متقی وپرہیزگار، دونوں جامعہ میں اپنی خدمت بجالارہے تھے۔ دونوں ہی سرطان (کینسر) کی بیماری کو جھیل رہے تھے۔
حضرت مولانا الطاف الرحمنؒ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے بزرگ استاذ حضرت مولانا عبدالرزاق لدھیانوی دامت برکاتہم کے داماد اور جامعہ کی مجلس دعوت وتحقیق اسلامی کے شعبہ نشرواشاعت کے نگران تھے۔ 
حضرت مولانا عتیق اللہ صاحب بھی جامعہ کے فاضل اور جامعہ کی شاخ مدرسہ رحمانیہ سیدنا حضرت بلالؓ کالونی کے نگران اور جامع مسجد کے امام وخطیب تھے۔ 
دونوں حضرات کے بالترتیب چیدہ چیدہ حالات لکھے جاتے ہیں:

حضرت مولانا الطاف الرحمن رحمہ اللہ 

پیدائش وتعلیم

حضرت مولانا الطاف الرحمن صاحبؒ کی پیدائش ۱۴؍اگست ۱۹۶۵ء بہاولنگر میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مقامی مدرسہ ’’مدرسہ انوار الہدایہ‘‘ بستی دین پور شریف بہاولنگر میں حاصل کی۔ مدرسہ انوار الہدایہ کی بنیاد مولانا کے جد امجد حضرت مولانا شاہ اللہ بخش بہاولنگریؒ نے رکھی تھی جو حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ کے خلیفہ مجاز تھے۔ اس خلعتِ خلافت کی بدولت پورا خاندان خانقاہِ رائے پور کا پیروکار تھا۔ حفظ کی تکمیل کے بعد مدرسہ عربیہ اسلامیہ ’’بورے والا‘‘ میں درسِ نظامی کے ابتدائی درجات پڑھے۔ ۱۹۸۴ء میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی آئے اور یہ تعلیمی سفر ۱۹۹۰ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ 

جامعہ میں تقرر اور دیگر دینی خدمات

جامعہ بنوری ٹاؤن کے شعبہ مجلسِ دعوت وتحقیقِ اسلامی میں تقرر ہوا اور وفات تک اس شعبہ سے وابستہ رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۲ء جامع مسجد قباء گلشن اقبال میں ، اس کے بعد جامع مسجد عمر فاروقؓ گلشن اقبال بلاک: ۱۱ میں ۲۰۰۶ء تک امامت وخطابت کی ذمہ داری ادا کی، پھر ۲۰۰۶ء ہی میں جامع مسجد فضل کریم دہلی کالونی میں صرف ایک سال کے لیے جمعہ کی خطابت فرمائی۔ پھر جامعہ بنوری ٹاؤن کی شاخ مدرسہ اصحابِ صفہؓ جامع مسجد مدینہ، گلبرگ بلاک نمبر: ۱۷ میں امامت وخطابت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ۲۰۰۸ء سے لے کر ۲۰۱۲ء یا ۲۰۱۳ء تک اس مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ مزاج میں تواضع، سادگی اور عاجزی تھی۔ وضع قطع سادہ لیکن صلحاء کی طرح تھی۔ 
خاندانی پیشہ زراعت تھا۔ مولانا الطاف الرحمن رحمہ اللہ کے والد صاحب مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ (حضرت سید شاہ نفیس الحسینیؒ کے خلیفہ مجاز ) زراعت کے پیشہ سے وابستہ تھے۔ آج کل چھوٹے بھائی جناب قاری اشفاق الرحمن صاحب یہ کام سرانجام دے رہے ہیں۔ 

اولاد وپسماندگان

حضرت مولانا عبد الرزاق لدھیانوی صاحب دامت برکاتہم کی صاحبزادی سے رشتہ حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدؒ کے رائے ومشورے ومعرفت سے ہوا تھا۔ ۲۸؍ مئی ۱۹۹۲ء میں حضرت مولانا مصباح اللہ شاہ صاحبؒ نے بعد نمازِ عصر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں نکاح پڑھایا۔ پسماندگان میں بیوہ، دو صاحبزادے :محمد احمد اور احمد الرحمن اور دو صاحبزادیاں ہیں۔ 

مرض وعلالت، انتقال پرملال

۲۸؍ دسمبر۲۰۱۷ء کو طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی، تشخیص کے بعد معدے اور جگر کا سرطان وکینسر سامنے آیا جو ایک لاعلاج مرض بن چکا تھا۔ اسی مرض میں انتقال پرملال ۳؍رجب المرجب ۱۴۳۹ھ، ۲۱؍مارچ ۲۰۱۸ء بروز منگل اور بدھ کی درمیانی شب ۱۵:۰۱ منٹ پرہوا۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب زید مجدہم نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کی وصیت کے مطابق ڈالمیا کے قبرستان میں آسودۂ خاک کیے گئے۔ 

حضرت مولانا قاری عتیق اللہ رحمہ اللہ 

پیدائش وتعلیم

حضرت مولانا قاری عتیق اللہ رحمہ اللہ ۱۹۶۸ء کو ضلع تورغر کے پسماندہ علاقہ شوائی ہرنیل میں پیدا ہوئے۔نورانی قاعدہ، ناظرہ اور حفظ قرآن کی تعلیم لی مارکیٹ کراچی میں حاصل کی۔ تجوید سابق ممبر قومی اسمبلی قاری عبدالباعث صدیقی سے پڑھی۔ درجہ اولیٰ مدرسہ رحمانیہ لی مارکیٹ میں پڑھا اور درجہ ثانیہ سے دورہ حدیث تک جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں تعلیم حاصل کی۔ سن فراغت ۱۴۰۹ھ مطابق۱۹۸۹ء ہے۔ 

مدرسہ رحمانیہ بلال کالونی(شاخِ جامعہ)کی ذمہ داری

فراغت کے بعد ایک سال گاؤں میں رہے، کراچی آمد ۱۴۱۰ ہجری میں ہوئی۔جامعہ کے سابق مہتمم امامِ اہل سنت حضرت مفتی احمدالرحمن نوراللہ مرقدہٗ کے منظورِ نظر ٹھہرے۔ یکم رجب ۱۴۱۰ھ سے جامعہ کی شاخ مدرسہ رحمانیہ کی ذمہ داری کندھوں پر آئی۔ صرف ایک مسجد سے کام کا آغاز کیا اور آج درجہ سادسہ تک وہاں تعلیم ہوتی ہے۔ شاخوں میں سب سے زیادہ طلبہ وطالبات کی تعداد اس شاخ میں ہے۔ ابتداء میں آزمائش اور مشقت زیادہ تھی، رفتہ رفتہ حالات سازگار ہوتے رہے۔تقریباً تیس سال جامعہ کی خدمت کی۔ دورانِ علالت فرمایا کہ: اگر میں دنیا سے چلاجاؤں تو حضرت بنوری رحمہ اللہ سے جب ملاقات ہوگی تو کہوں گا کہ مفتی احمدالرحمن نور اللہ مرقدہٗ نے جہاں بھیجا تھا، مرتے دم تک وفا کی اور جو امانت حوالہ کی تھی‘ اس میں خیانت نہیں کی۔ 
زندگی میں تین حج کیے اور اس سال بھی حج کا داخلہ بھیجا تھا۔ کئی سالوں سے ہر سال عمرہ کی توفیق ملی اور ہر وقت فرماتے کہ حضرت بنوریؒ فرمایا کرتے تھے کہ: میں ہر سال حج پر اس لیے نہیں جاتا کہ تعداد بڑھ جائے، بلکہ روحانی پٹرول بھروانے جاتا ہوں۔ اساتذہ سے گہری محبت وعقیدت تھی اور اساتذہ کے تذکرے پر روپڑتے۔ سب سے زیادہ محبت حضرت بنوری رحمہ اللہ (اگرچہ استاذ نہ تھے) اور مفتی احمدالرحمن رحمہ اللہ سے تھی جو اس ساری ترقی، کامیابی اور عزت وشہرت کا سبب تھے۔ 

اولاد وپسماندگان

۲۰۰۱ء میں حضرت کی پہلی اہلیہ کا انتقال ہوا تو دوسری شادی کی، دونوں شادیوں سے پسماندگان میں چھ بیٹے اور آٹھ بیٹیاں ہیں۔اولاد میں سے دس حفاظ ہیں، الحمدللہ! دو بیٹے مولانا سلام اللہ عتیق صاحب اور مولانا ولی اللہ عتیق جامعہ کے فاضل اور ایک بیٹی بھی جامعہ کی فاضلہ ہیں۔ بڑے صاحبزادے کو جامعہ کی طرف سے حضرت ؒ کی جگہ مدرسہ رحمانیہ کے امام وخطیب کی ذمہ داری سپرد کردی گئی ہے۔

مرض وعلالت، انتقال پرملال

اس سال عمرہ سے واپسی پر جگر کی طرف درد اُٹھا، معائنہ اور ٹیسٹ کیے تو ۱۰؍جمادیٰ الاولیٰ کو سرطان کی تشخیص ہوئی جو خون میں سرایت کرچکا تھا اور علاج ناممکن تھا۔ کافی علاج کرایا مگر بے سود۔ میمن ہسپتال میں داخل کرایا، کمزوری بہت زیادہ تھی۔ بالآخر ۴؍رجب ۱۴۳۹ھ، ۲۲؍ مارچ ۲۰۱۸ء کو رات ۴بج کر ۲۸منٹ پر جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ حضرت قاری صاحب انتقال والے دن سارا دن لفظ اللہ اور کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہے۔ نمازِ جنازہ جامعہ میں حضرت ڈاکٹر مولانا عبدالرزاق اسکندر مدظلہٗ نے پڑھائی۔ تدفین شرافی گوٹھ پیرمندا قبرستان میں ہوئی، جہاں وہ اپنی والدہ کے پہلو میں مدفون ہوئے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے دونوں ساتھیوں کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کو جنت الفردوس کا مکین بنائے، ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ 
ادارہ بینات باتوفیق قارئین سے ان دونوں حضرات کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست کرتا ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین