بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

جامعہ بنوری ٹاؤن میں تخصص فی الدعوۃ والارشاد  تعارف۔۔۔ ضرورت۔۔۔اہمیت!

جامعہ بنوری ٹاؤن میں تخصص فی الدعوۃ والارشاد 

تعارف۔۔۔ ضرورت۔۔۔اہمیت!


 آٹھ سالہ درسِ نظامی کی رسمی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بعض طلباء مزید تعلیم جاری رکھنے اور کسی فن میں کمال حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں، لیکن وہ اس سلسلے میں پریشان رہتے ہیں کہ کس فن میں تخصص حاصل کیا جائے؟ اس سلسلے میں اپنے اساتذہ اور ساتھیوں سے کچھ مشاورت کرتے ہیں، جس کی بنا پر اساتذہ بعض طلباء کو تخصص فی الفقہ کا مشورہ دیتے ہیں، بعض کو تخصص فی علوم الحدیث کا مشورہ دیتے ہیں، اسی طرح تخصص فی الدعوۃ والارشاد کا بنیادی مقصد جاننے کی کوشش کی اور داعیہ پیدا ہوا کہ تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے متعلق کوئی تعارفی مضمون سامنے آنا چاہیے، تاکہ دوسرے احباب کو بھی اس سے شناسائی ہو، اور اس تخصص کے حصول کی رغبت پیدا ہو۔

تخصص فی الدعوۃ والارشاد کا تعارف

تخصص فی الدعوۃ والارشاد دیگر علوم وفنون کی طرح ایک فن ہے، جس میں دین کی دعوت اور راہِ راست کی رہنمائی کے لیے ماہرینِ فن افراد مہیا کیے جاتے ہیں، اس تخصص کا بنیادی مقصد دعوت و رہنمائی کے لیے ایسے افراد تیار کرنا جو صحیح نہج پر اصولِ دعوت کی رعایت کرتے ہوئے اُمت کی رہنمائی کرسکیں۔ اس کا نام تخصص فی الدعوۃ والارشاد اس لیے رکھا گیا کہ اس تخصص سے مقصود مدعو کو حکمت و بصیرت کے ساتھ دعوت دینا اور صحیح راستے کی رہنمائی کرنا ہے۔
 اب مدعوین دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو داعی کی بات کو تسلیم کرتے ہیں اور کوئی حجت بازی نہیں کرتے، بلکہ داعی سے وعظ و تذکیر کے خوگر ہوتےہیں۔ ایسے لوگوں کو موعظت یا حکمت کے ذریعے دعوت دی جاتی ہے اور اس طرح دعوت دینا ان کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ اگرچہ ایسے لوگوں کو علماءو تبلیغی جماعت کے حضرات وعظ و نصیحت کے ذریعےدعوت دے رہے ہیں، مگر تخصص فی الدعوۃ والارشاد میں بھی ایسے لوگوں کو ہلکے پھلکے دلائل و براہین کے ذریعےدعوت دینے اور انہیں راہِ حق کی طرف متوجہ کرنے کے لیے افراد کی تربیت کی جاتی ہے۔
 دوسرے وہ مدعوین جو داعی کی بات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور داعی سے حجت بازی کرتےہیں،قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو بھی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے: ’’وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ أَحْسَنُ‘‘ اور تاکید کی کہ ایسے لوگوں سے بدکلامی نہ کی جائے،بلکہ دلائل و براہین کی قوت کے ساتھ اچھے اورسلجھے انداز سے ان سے گفتگو کی جائے۔
انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بالخصوص حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کےصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کو ایسے لوگوں سے بہت واسطہ پڑا، جنہوں نے نہ صرف یہ کہ دعوتِ حق قبول نہیں کی، بلکہ حجت بازی پر بھی اُتر آئے، جیساکہ حضرت ابراہیم  علیہ السلام  اور نمرودکے درمیان ہونے والی گفتگو کی روداد قرآن کریم میں موجود ہے کہ کس انداز سے حضرت ابراہیم  علیہ السلام  نے اللہ کی وحدانیت کو ثابت کیا اور معبودانِ باطلہ کا رد کیا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ  علیہ السلام  اور فرعون کے درمیان ہونے والا مناظرہ بھی قرآن میں موجود ہے، اور خود حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نجران کے عیسائیوں سے مناظرہ کیا اور ان کے اعتراضات کے جوابات دئیے اور اسلام کی دعوت دی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کا خوارج کے ساتھ مناظرہ مشہور ہے، جس میں انہوں نے خوارج کے تین اعتراضات کے جوابات دے کر انہیں مطمئن کیا، جس کی وجہ سے بعض خوارج جنگ وقتال سے باز آگئے۔
اسی طرح ہمارے بہت سے اکابرین نے دعوت کی نیت سے ہندوپنڈتوں،عیسائیوں،پادریوں سے مناظرے کیے، اور ان کے سامنے حق واضح کیا، چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ  مسلسل دوسال میلہ خداشناسی کے نام سے شاہ جہاں پور میں منعقد کردہ مباحثہ میں شریک ہوئے،اور وہاں مختلف عیسائیوں، پادریوں اور ہندوپنڈتوں مثلاً پنڈت دیانند سرسوتی، پنڈت اندر من،پادری اسکاٹ اور پادری نولس وغیرہ جیسے معترضین نے جو اعتراضات اٹھائے تھے، حضرتؒ نے اپنی تقریر میں ان سب اعتراضات کے مدلل اور مسکت جوابات احسن انداز سے دیے ،اور اسلام کی حقانیت کو ایسے عقلی و نقلی دلائل سے مزین کیا کہ خود باطل یہ اعتراف کرنے پرمجبور نظر آیا کہ: ’’اگر کسی کی تقریر پر ایمان لایا جاتا تو اس نیلی لنگی والے کی تقریر پر ایمان لاتے۔‘‘ حتیٰ کہ بعض پنڈتوں نےیہ بھی کہا کہ: ’’اس کے قالب سے کوئی اوتار بولتا ہے۔‘‘ جب آگرہ میں دنیائے عیسائیت کے بڑے پادری فنڈر اور اس کے ساتھیوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو اسلام کے متعلق شکوک و شہات میں مبتلا کرنا چاہا تو حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ  نے مذہبِ اسلام اور عیسائیت کا تقابل کرکے اسلام کی حقانیت کو لوگوں کے سامنے بیان کیا تو عیسائیوں کا بڑا پادری راتوں رات اس شہر سے بھاگنے پر مجبور ہوا۔
یہ تھے ہمارے اکابر جنہوں نے ہر محاذ پر اسلام کی حقانیت واضح کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ آج ہمارے درمیان صرف ان اکابرین کے کارنامے رہ گئے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان جیسے کام کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے، لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ ان اکابرین کی کتابوں کو کھنگالا جائے، اوران کا بغور مطالعہ کیا جائے۔
گویا تخصص فی الدعوۃ والارشاد میں ان اکابرین کی کتابوں کا مطالعہ کرواکر بالخصوص ایسے معاندین کو دعوت دینے کا طریقہ اور ان کے مدعا کودلائل و براہین کے ذریعے غلط ثابت کرنے اور اپنے مدعا کو دلائل و براہین سے پیش کرنے کا فن سکھایا جاتا ہے اور بالعموم باقی لوگوں کو دعوت دینے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔

کیا دعوت وارشاد موجودہ وقت کے لیے موزوں نہیں ہے؟

شاید بعض لوگوں کے ذہن میں یہ خدشہ ہو کہ ملکی حالات اس بات کے متقاضی نہیں ہیں کہ یہ فن سیکھا جائے، یا تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے بعد ممکن ہےکہ متخصص انتشارو تفرقہ کا سبب بن جائے، ایسے احباب کی خدمت میں اتنا عرض ہے کہ تخصص فی الدعوۃ والارشاد ہرگز انتشار و تفرقہ کا سبب نہیں اور نہ ہی اس تخصص میں فرقہ واریت سکھائی جاتی ہے، بلکہ تخصص فی الدعوۃ والارشاد فرقہ واریت کی روک تھام کا مؤثر ترین ذریعہ ہے، ورنہ اس تخصص کا نام بجائے دعوت وارشاد کی بجائے کچھ اور ہوتا، بلکہ مقصود یہ ہے کہ اسلام کی حقانیت ان کے سامنے واضح کی جائے، اور جس مذہب پر عمل پیرا ہونے کو وہ راہِ نجات سمجھ رہے ہیں، اس کی حقیقت واضح کی جائے، کیونکہ ہمارے اکابرین کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ حتی الامکان اپنے طلباء کو اہلِ باطل کی فضولیات سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں،لیکن جب اہلِ باطل، اسلام،پیغمبرِ اسلام،اور اسلامی شعائر پرحملہ آور ہوجائیں اور ان کو جواب نہ دینے کی صورت میں اپنے ہی لوگوں کا شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہونے لگے تو ایسی صورت میں اہلِ باطل کو دلائل سے جواب نہ دینا اسلام اور اہلِ اسلام کے لیے نقصان کا باعث ہے، اور ایسی صورت حال میں ایسے ماہرینِ فن کا ہونا بہت ضروری ہے جو اُن کے اعتراضات کے مضبوط اور قوی دلائل و براہین سے عقلی ونقلی جوابات دیں، تاکہ ان کی اصلاح کی حجت تام ہوسکے۔ 
اسی وجہ سے امام ابو مطیع حکم بن عبد اللہ امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  سے نقل فرماتے ہیں:
’’ونحن قد ابتُلينا بمن يطعن علينا، ويستحل الدماء منا، فلايسعنا أن لانعلم من المخطئ منا والمصيب، وأن لانذب عن أنفسنا وحرمنا، فقد ابتلينا بمن يقاتلنا، فلابد لنا من السَّلَاحِ۔‘‘ (اشارات المرام عن عبارات الامام، ص:۱۲۱،ط:مکتبۃ زمزم ك،کراچی)
یعنی ’’ہم اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کے ذریعے آزمائش میں مبتلاکیے گئے ،اور انہوں نے ہمارے خون بہانے کو حلال سمجھا، لہٰذا اب ہمارے لیےضروری ہے کہ ہم جان لیں کہ کو ن غلطی پر ہے اور کون صحیح ہے؟اور اپنی جان و عزتوں کا دفاع کرنا بھی ضروری ہے، پس ہم مبتلا کیے گئے اس شخص کے ذریعے جوہمارے (دین میں شبہات پیدا کرکے اور لوگوں کو اُبھار کر) ہمیں(معنًا) قتل کرنا چاہ رہا ہے، اس لیے ہمارے پاس اسلحہ(یعنی ان شبہات کے ازالہ کے علمی دلائل) کا ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ باطل کے زیغ و ضلال کوواضح کرنے کے لیے ایک عالم دین کو ایسے علمی دلائل و براہین سے لیس ہونا بہت ضروری ہے جن کے ذریعےبوقتِ ضرورت باطل کو دندان شکن جواب دے کر ان کو ان کے عزائم میں ناکام بنایاجاسکے، لہٰذا جو لوگ حالات کی خرابی کاخدشہ ظاہر کرتے ہیں، ان کی خدمت میں اتنی گزارش ہے کہ ہمارے اکابر نے اس وقت بھی اہلِ باطل سے پنجہ آزمائی کی، جب ان پر فرنگی حکومت مسلط تھی، اس وقت بھی انہوں نے حالات کا بہانہ بناکر باطل کو موقع نہیں دیا، لہٰذا ایسے علماء وفضلاء کا ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے جو بوقتِ ضرورت علمی دلائل اور قوتِ استشہاد کے ذریعے اہلِ باطل کے لیے سدِ سکندری ثابت ہوسکیں۔

اہمیت وضرورت

موجودہ دور میں چند وجوہات کی بنا پرتخصص فی الدعوۃ والارشاد اہمیت کا حامل ہے :
(الف)    یوں تو روزِ اول سے ہی اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن عصرِ حاضر میں اسلام، پیغمبرِ اسلام اور شعائرِ اسلام پر اعتراضات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ قرآن و حدیث بالخصوص سیرت اور اسلامی تاریخ کے متعلق کئی قسم کے اعتراضات اور شبہات کی لہریں زور سے مسلمانوں میں پھیلائی جارہی ہیں اور حتی الامکان مسلمانوں کی طے شدہ قدروں کو مشکوک کرکے مسلمانوں کو ان سے متنفر کیا جارہا ہے۔ چنانچہ کبھی معترضین نے اسلام کو قدیم مذہب قرار دیا، اور کہا کہ اسلامی احکامات موجودہ دور کے مطابق نہیں ہیں، کبھی اسلام کو پر تشدد مذہب ثابت کیا، کبھی مغرب میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت کو داغدار کرنے اور آپ کی ذات و اقوال کو مطعون کرنے کی کوشش کی گئی، اور کہا گیا کہ احادیث ڈھائی سو سال بعد مدون ہوئیں، لہٰذا ان کی کوئی استنادی حیثیت نہیں ہے۔ کبھی آپ کی ازدواجی زندگی پر اعتراض کیا گیا، اور کبھی مسلمانوں میں ایسے نام نہاد مفسرین ومحققین پیدا کیے گئے جنہوں نے انہی کی منشا کے مطابق قرآنی آیات کی تفسیر وتشریح کی خدمت انجام دی، اور ان سب کوششوں سےمقصود مذہبِ اسلام کو مشکوک قرار دینااورعیسائیت ویہودیت اور دیگر مذاہب کی برتری وبالادستی ثابت کرنا ہے۔
 الحمد للہ! ہر دور میں اسلام کے محافظوں نے اسلام پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات دیے ہیں، لہٰذا موجودہ دور میں بھی ایسے مستند علماء ضرور ہونے چاہئیں جو دیگر ادیان اوران کی کتب وشخصیات اور ان کے اعتراضات واشکالات سے باخبرہوں، اور معترضین کے سامنے اسلامی تعلیمات واحکامات سمیت دیگرادیان کی تعلیمات واحکامات بیان کرنے اور ان کے اعتراضات کے جوابات دینے پر قادر ہوں، تاکہ ضرورت کے وقت احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا حق ادا ہوسکے، اور نوجوان نسل کے ذہن میں مذہبِ اسلام، پیغمبرِ اسلام،اور شعائرِ اسلام کے خلاف جو شکوک و شبہات پیدا کیے جارہے ہیں، انہیں تسلی بخش جوابات دےکر مطمئن کیا جاسکے، اسی وجہ سے تخصص فی الدعوۃ والارشاد میں تقابلِ ادیان اور شبہات اور ردِ شبہات کے عنوان سے کئی کتب کا مطالعہ کرایا جاتا ہے، تاکہ طالب علم کے اندر مطلوبہ صلاحیت پیدا ہوجائے۔
(ب)    اسلام ایک داعیانہ مذہب اور مسلمان ایک داعی قوم ہیں، اور باقی قومیں مدعو ہیں۔ اور داعی قوم کا فريضہ ہے کہ وہ اسلام کی صحیح تعلیمات مدعو قوم تک پہنچائیں، کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے کہ جب بھی اسلامی تعلیمات اخلاص کے ساتھ صحیح طریقے سے مدعو قوم تک پہنچائی جائیں تو وہ رائیگاں نہیں جاتیں، بلکہ ضرور اپنا اثر دکھاتی ہیں، اس لیے کہ عہدِ نبوی میں وہ لوگ جو اسلام کے بارے میں ایک لفظ سننا گوارا نہیں کرتے تھے،جب ان کو اسلامی تعلیمات کی خوبیوں سے آ گاہ کیا گیا تو وہ بھی اسلام کی مخالفت سے باز آکر اسلام کے داعی بن گئے، چنانچہ مشرکینِ مکہ کے سردار عتبہ بن ربیعہ کے سامنے جب اسلام کی صحیح صورت حال پیش کی گئی تو وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اپنی قوم سے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بات مان لو، اور اس کو ایذا دینے سے باز آجاؤ۔ سیرت کی کتابوں میں اس طرح بہیترے واقعات موجود ہیں۔لہٰذا موجودہ دور میں ایسے علماء ہونے چاہئیں، جو دعوت کے اصول سے واقف ہوں اور انہی اصولوں کی رعایت رکھتے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کرسکیں۔ معاشرہ میں موجود منکرات کے خاتمہ کے لیے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اور اسی طرح اسلام مخالف لوگوں کو حکمت وبصیرت کے ساتھ اسلام کی طرف راغب کرسکیں، اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے دعوت و اصولِ دعوت کے عنوان سے کتب کا مطالعہ کر لیں، تاکہ دعوت کے اصول سے باخبر ہوسکیں۔
(ج)    اکیسویں صدی فتنوں کا دور ہے، بالخصوص عالمِ اسلام فتنوں کی آماجگاہ بن گیا ہے،اور کئی فتنے ایسے ہیں جن کی زد میں عمومی مسلمان آکر اپنا ایمان تک گنواچکے ہیں، اور ان ہی ایمان سوز فتنوں میں سے بعض فتنے بہت تیزی سے عصری تعلیمی اداروں اور دین بیزار نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لےر ہے ہیں ، بالخصوص فتنۂ اِلحاد، فتنۂ انکارِ حدیث اور فلسفۂ مغربیت و جدیدیت۔ ان فتنوں کے علمبردار اسلام کی عمارت میں نقب زنی میں دن رات مصروف ِعمل ہیں،جس کی وجہ سے مختلف تعلیمی اداروں میں برملا خدا کے وجود کا انکار کیا جانے لگا ہے۔ نوجوان نسل اِلحادی فکر اپنانے لگی ہے، یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر سرِ عام اپنی ملحدانہ افکار کی ترویج کرنے لگے ہیں۔ ایک طرف ملحدین‘ مخلوق اور خالق کے درمیان رشتہ کو کمزور کرنےکی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف منکرینِ حدیث کی جانب سے حدیث کو ناقابلِ اعتبار قراردینے کے لیے روزانہ نت نئے مفروضے اورشوشے چھوڑے جاتے ہیں کہ: احادیث ڈھائی سوسال بعد مدون ہوئیں، حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے حدیث کے تمام مجموعے جلا دیے تھے ،احادیث قرآن سے متصام ہیں، وغیرہ وغیرہ ۔ ان سب شکوک وشبہات کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کی نظر میں ذاتِ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو مشکوک قرار دینا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث سے لوگوں کا اعتماد ختم کرنا ہے۔ 
لہٰذا ایک عالم دین ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ان تمام فتنوں کو سمجھا جائے، ان کے متعلق آگاہی حاصل کی جائے، اور جہاں جہاں اسلام کے خلاف محاذ آرائی ہورہی ہو، اس کے خلاف دلائل و براہین کی قوت سے لیس ہوکر ان کا عملی وعلمی دفاع کریں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے فضلاء کے لیے ان فتنوں کا تعاقب تو دور کی بات ہے، وہ ان فتنوں کے خلاف لکھی گئی بنیادی کتابوں سے بھی واقف نہیں ہوتے، لہٰذا ایسے فضلاء کی اشد ضرورت ہے جو اس فن کو سیکھ کر ان فتنوں کا تعاقب کرسکیں، اور فتنوں کے لیے سدِ سکندری ثابت ہوں، اور اس کے لیے تعاقبِ فتن کے عنوان سے کئی اکابرین کی کتابیں مطالعہ میں شامل ہیں، تاکہ ان کو پڑھ کر موجودہ فتن سے آگاہ ہوں، تاکہ فضلاء امتِ مرحومہ کو ان فتن سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا کردار پیش کرسکیں۔
(د)    ایک طرف مختلف فتنوں کے ذریعے مسلمانوں کو شکوک وشبہات میں مبتلا کرکے اسلام سے بیزار کیا جارہا ہے، تو دوسری طرف مختلف فرقے پوری تندہی اور مستعدی کے ساتھ نئی نسل کو راہِ حق سے برگشتہ کررہے ہیں، اور ہمارے سادہ لوح مسلمان بھائی انہیں راہِ حق پر سمجھتے ہوئے ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اپنا دین و ایمان گنوارہے ہیں۔ لہٰذا موجودہ دور میں اپنی نئی نسل کے ایمان کے تحفظ کے لیے ان فرقوں کے عقائد کے بارے میں جاننا ایک عالم کے لیے ناگزیر ہے، اسی وجہ سے تخصص فی الدعوۃ والارشاد میں تعارف ِفرق کے عنوان سے مختلف فرقوں کے متعلق آگاہی دی جاتی ہے۔
(ھ)    امت میں اختلاف کا ہونا ایک فطری امر ہے۔ ہر دور میں یہ اختلا ف ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا، اس سے مفر نہیں ہے،لیکن اس اختلاف کی آڑ میں ایک دوسرے کی توہین کرنا، نازیبا کلمات سے پکارنا بہت ہی معیوب اور نامناسب عمل ہے۔ لہٰذا ایک متخصص کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جب وہ مختلف فرقوں اور مسالک کی کتب کا مطالعہ کرے تو فنِ اختلاف کے آداب و اصول کی بھی رعایت کرے۔ اسی وجہ سے اصولِ اختلاف کے عنوان سے طالب علم کو اختلاف کے اصول و آداب اور اختلاف کے وقت اکابرین کے معمول سے آشنا کیا جاتا ہے، تاکہ اختلاف‘ انتشار میں تبدیل نہ ہو ۔
 (و)    یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ مستشرقین نے علوم اسلامیہ کے مطالعہ کے لیے مغرب میں باقاعدہ ادارے قائم کیے ہیں، جس میں وہ اسلامی علوم پر تحقیق کرتے ہیں ،اور کئی اہم اسلامی علوم پر تحقیق کی خدمت بجالاچکے ہیں۔ لیکن اس تحقیق سے ان کا مقصود اسلام کی خدمت کرنا یا اسلام کی خوبیوں کو بیان کرنا نہیں، بلکہ ان کی تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی علمی سرمایہ سے مسلمانوں کے اعتماد میں ضعف پیدا کرنااوراسلامی علوم میں کمزور پہلوؤں کو تلاش کرکے اسلام ،پیغمبرِ اسلام ،اوراسلامی شعائر پر اعتراض کرنا ہے، چنانچہ انہوں نے تحقیق کے نام پر اسلامی روایات و تہذیب کا ایسا چہرہ مسخ کیا کہ ہمارے اپنے بھی ان کے دامِ فریب میں آگئے، انہوں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کی صحت اور احادیثِ نبویہ کی صحت میں شکوک وشبہات پیدا کیے، قرآن مجید کا من جانب اللہ نزول کا انکار کیا، اپنی مرضی سے قرآن مجید کی ایسی تفسیر کی، جس سے اسلامی اقدار پر زد پڑتی ہے۔ 
لہٰذا ماہرین کی ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے کہ جن کی نظر میں مستشرقین کی تحقیقات ہوں،اور ان کی تحقیقات میں کمزور باتوں کی نشاندہی کرسکیں۔
اسی اہمیت کے پیشِ نظر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کی مجلس شوریٰ نے تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے موقوف سلسلہ کو دوبارہ بحال کیا، تاکہ دورہ حدیث سے فارغ ہونے والے طلباء ادیانِ باطلہ، یہودیت، عیسائیت، ہندومت،وغیرہ سے واقف ہوں،اور بحیثیت عالم دین وہ ملحدین،مستشرقین، اور دوسرے فرقوں اور مذہبوں کی جانب سے اسلام، پیغمبرِ اسلام،اور شعائرِ اسلام پر پھیلائے ہوئے شبہات و اعتراضات کا جواب دے سکیں۔

تخصص فی الدعوۃ والارشاد میں پڑھائے جانے والے مضامین

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن میں تخصص فی الدعوۃ والارشاد کا دورانیہ دو سال کا ہے۔ اس دورانیہ میں سترہ اہم عنوانات پر ۸۰ کے قریب کتب سے تقریبا ً ساڑھے تیئیس ہزار صفحات کا مطالعہ کرایا جاتا ہے، اور ماہانہ بنیاد پر ان کتب کا امتحان بھی لیا جاتا ہے، جن میں سے چند اہم عنوانات درج ذیل ہیں:
اصولِ دعوت، اصولِ اختلاف، اصولِ تکفیر، اصولِ مناظرہ، اصولِ تحقیق، عقائد و علم الکلام، تقابلِ ادیان، تعارفِ فرق، تعاقبِ فتن، فلسفۂ مغربیت و جدیدیت، مقاصدِشریعت واسراروحکم، تعارفِ کتب، اسلام، قرآن، پیغمبرِ اسلام کے متعلق اعتراضات اور جوابات، اور انگریزی، کمپیوٹر، جبکہ دوسرے سال میں مختلف موضوعات پر مقالہ جات بھی لکھوائے جاتے ہیں۔

تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے اغراض ومقاصد

تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے درج ذیل مقاصد ہیں:
(الف)    ایسے علماءوفضلاء تیار کرنا جو مساجد و مدارس میں درسِ قرآن اوردرسِ حدیث دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
(ب)    جو تحریر و تقریر کے ذریعے معاشرے میں موجود برائیوں کو ختم کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں، اور اس کے لیے عملی طور پر تیار ہوں۔
(ج)     جو دعوت کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام الناس کو خیر و بھلائی کا حکم کریں، اور ان میں دینی شعور کو بیدار کریں اوراسلام مخالف لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کریں۔
(د)     جو عصرِ حاضر کے مختلف فتنوں اور ان کے عزائم سے آگاہ ہوں اور امت کو ان فتنوں کے خطرات سے آگاہ کریں۔
 (ھ)    جو مختلف مذاہب وفرق کی کتب اور ان کے عقائد ورسوم سے واقف ہوں، تاکہ بوقتِ ضرورت اسلام کی حقانیت اور مذاہبِ باطلہ کے رد کرنے پر قادر ہوں۔
(و)    جو مغربی فنون، ان کے افکار و نظریات سے واقف ہوں، اور ان پر تنقیدی جائزہ وتبصرہ کرنے پر قدرت رکھتے ہوں۔
(ز)    جو ان تمام شبہات و اعتراضات پر گہری نظر رکھتے ہوں جو مخالفینِ اسلام کی طرف سے اسلام، پیغمبرِ اسلام اور قرآن و حدیث کے خلاف پیدا کیے جارہے ہیں، اور ان تمام اعتراضات کا مدلل، مسکت اور علمی جواب دینے کی صلاحیت رکھتےہوں۔ 
(ح)    جو الحادی اور استشراقی ا فکار کو سمجھ کر مدلل انداز میں اس کو رد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، اور مسلم معاشرے کو ان کے افکارو گمراہی سے بچاسکیں۔
الله تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسلام کا بول بالا فرمائے، ہمیں اس خدمت کے لیے قبول فرمائے، اور اُمتِ مسلمہ کو ہمہ قسم کے شرور وفتن سے محفوظ فرمائے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین