بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

توہینِ رسالت کا مذہبی وبین الاقوامی جرم  اور بھارتی حکومت کا مجرمانہ رویہ!

توہینِ رسالت کا مذہبی وبین الاقوامی جرم 

اور بھارتی حکومت کا مجرمانہ رویہ!

 

الحمد للہ و سلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

 

اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کو رہتی دنیا تک کی انسانیت کی نجات و فلاح کے لیے بھیجا ہے‘ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو تمام مخلوقات کے لیے اپنا آخری نبی و رسول بناکر مبعوث فرمایا ہے۔ اسلام تمام ادیان پر غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد اب کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ چونکہ ایمان اور اسلام کے معنی امن و سلامتی کے ہیں، اسی لیے دینِ اسلام کی تمام تر تعلیمات انسانیت کے احترام کا درس دیتی ہیں۔ 
آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں، اس لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر نازل ہونے والی کتاب قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ میں تمام مذاہب و ادیان کے ساتھ رواداری اور اُن کے مقدسات کے احترام کا درس موجود ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
’’وَلاَ تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ فَیَسُبُّوْا اللہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ‘‘(الانعام: ۱۰۸) 
ترجمہ: ’’اور تم لوگ برا نہ کہو ان کو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا، پس وہ برا کہنے لگیں گے اللہ کو بے ادبی سے بدون سمجھے۔‘‘   (ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ)
آسمانی مذاہب ہوں یا انسانوں کے افکار و اوہام پر مشتمل ادیان، سب ہی سے متعلق اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ ان کے معبودوں اور پیشوائوں کو گالی مت دو۔ پیغمبرِ اسلام رحمۃٌ للعالمین آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب غیر مسلم بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط لکھوائے تو ان کے مقام و مرتبے کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں مخاطب کیا، اسی طرح جب جہاد کے لیے مجاہدین کو نصیحتیں فرمائیں تو غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے اور ان کے گوشہ نشین مذہبی پیشوائوں کو مارنے سے منع کیا، تاوقتیکہ وہ غیرمسلم پیشوا مسلمانوں کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہ ہوں یا جنگ میں دو بدو نہ آئیں۔
بلاشبہ اسلام کی یہ تعلیمات اس قدر روشن اور پاکیزہ ہیں کہ ہر منصف مزاج شخص انہیں جاننے کے بعد اسلام کی حقانیت کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا، لیکن جس طرح مشرکینِ مکہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صدق و امانت اور صفاتِ حسنہ کے قائل ہونے کے باوجود آپ کی نبوت و رسالت کا از راہِ عناد وتعصب انکار کرتے تھے اور انہیں جب ذاتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  میں کوئی نقص نظر نہ آتا تو وہ اسلام اور اہلِ اسلام کو نشانہ بناتے تھے۔ 
اسی طرح کفارِ مکہ اور منافقین کی راہ پر چلتے ہوئے کچھ عرصے سے شیطان کے پجاریوں نے بھی یہ وطیرہ بنالیا ہے کہ انہیں جب نظر آتا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہماری سوسائٹی اسلام کے قریب جارہی ہے، اور چودہ صدیوں سے پھیلی آفتابِ اسلام کی کرنوں سے ایک دنیا فیضیاب ہونے کو تیار ہے، جنہیں وہ روک نہیں سکتے تو ذاتِ نبوت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر کیچڑا اُچھالنے کی ناپاک اور مذموم کوششیں شروع کردیتے ہیں اور حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مقدس، مطہر اور بے عیب شخصیت کی شان میں گستاخی کے درپے ہوجاتے ہیں۔ گویا یہ گستاخانِ رسول مشرکینِ مکہ سے بھی ضد اور عناد میں آگے بڑھ گئے ہیں، اس لیے کہ وہ تو ذاتِ نبوت کو ہر اعتبار سے قابلِ اطمینان اور قابلِ اعتماد گردانتے تھے، انہیں اعتراض تھا تو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے نبی ہونے پر، جب کہ یہ گستاخ اس قدر دریدہ دہن واقع ہوئے ہیں کہ بغیر کسی وجہ کے براہِ راست ذاتِ نبوت و رسالت کی توہین پر اُتر آتے ہیں۔ یہ کس قدر اوچھی اور گری ہوئی حرکت ہے کہ انسان نظریات سے گر کر ذاتیات پر اُتر آئے۔ 
آج کے کفار اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے گستاخوں نے کچھ عرصے سے اپنا یہی وطیرہ بنا رکھا ہے، چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ آزادیِ اظہار کی آڑ لے کر کبھی یورپ میں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے گستاخانہ خاکے بنائے جاتے ہیں، گویا یہ دریدہ دہن اُٹھ کر چاند کی جانب منہ اُٹھاکر تھوکنے لگتے ہیں، جس کا تھوک خود ان کے اپنے منہ پر آ گرتا ہے، کیونکہ : ’’پست وہ کیسے ہوسکتا ہے جس کو حق نے بلند کیا‘‘ جن کے بارہ میں خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ‘‘ ترجمہ: ’’اور بلندکیا ہم نے مذکور تیرا۔‘‘ 
ان کفار اور دین دشمنوں کی دریدہ دہنی اور ان کے طعنوں سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان میں تو ذرہ برابر کمی نہیں آتی، مگر ایسے تمام لوگ ملعونین ہوکر اللہ تعالیٰ کی لعنت کے ضرور مستحق ہو جاتے ہیں۔
یوں تو توہینِ رسالت کے ایسے واقعات پہلے سے ہی مغربی ممالک کے سیاہ چہرے پر کلنک کا ٹیکا بن چکے تھے، مگر اب حال ہی میں ہندوستان میں مودی حکومت کی ترجمان نے شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  میں بدترین توہین و گستاخی کا ارتکاب کیا ہے، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
ہندوستان کی حکمران جماعت بی جے پی کی قومی ترجمان خاتون نے ایک ٹی وی چینل پر مغلظات بکیں، اس ملعونہ نے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مقدس و مطہر ذات اور قرآن کریم کو اپنی دریدہ دہنی کا نشانہ بنایا۔ جونہی یہ خبر عام ہوئی تو ہندوستان سمیت پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور مسلمانوں نے اس ملعونہ کی دریدہ دہنی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا، جس میں ہندوستان کی حکومت سے اس ملعونہ کو سزادینے کا مطالبہ زور و شور سے اُٹھایا گیا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں اور مسلم تنظیموں نے اس گستاخی کے خلاف اپنے بھرپور جذبات کا اظہار کیا، خصوصاً عرب دنیا اس بار سب سے بازی لے گئی۔
سعودی عرب، کویت، قطر، لیبیا، مصر، انڈونیشیا، بحرین، مالدیپ، عمان، اردن اور ایران نے باقاعدہ سرکاری سطح پر اس گستاخی کا نوٹس لیا اور کئی ممالک نے ہندوستانی سفیر کو طلب کرکے اسے احتجاجی مراسلہ تھمایا۔ نیز ان ممالک کے بڑے بڑے اسٹورز اور شاپنگ سینٹرز نے ہندوستانی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا، جس سے ہندوستانی حکومت کو بہت زیادہ دھچکا لگا، کیونکہ عرب ممالک سے ہندوستان کے تجارتی تعلقات بہت بڑے پیمانے پر قائم ہیں۔ 
روزنامہ جنگ کراچی مورخہ ۷؍ جون ۲۰۲۲ء کی ایک رپورٹ کے مطابق: ’’لاکھوں بھارتی مزدور خلیجی ممالک سے اربوں ڈالرز زرِمبادلہ بھیجتے ہیں، بھارت عرب ممالک سے ۱۰۰ ؍ارب ڈالر کی تجارت کرتا ہے۔ بھارت نے خلیجی ممالک کے ساتھ معاشی شراکت داری بڑھائی ہے۔ ہندوستان تیل درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے اور اپنی ضرورت کا ۶۵ فیصد تیل مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ اس وقت بھارت کے ۸۰ لاکھ مزدور خلیجی ممالک میں ملازمت کررہے ہیں۔‘‘ چنانچہ مودی حکومت نے اپنے تجارتی مفاد کے تحت فوری طور پر توہینِ رسالت کی مرتکب ملعونہ خاتون کو اپنی جماعت سے برطرف تو کردیا، لیکن اس کو جاری کیے گئے نوٹس میں کہیں بھی اس کے جرم ’’گستاخیِ رسالت‘‘ کا ذکر نہیں کیا، بلکہ اسے اختیارات کے ناجائز استعمال کا مرتکب قرار دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت کو مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے کا ذرہ بھر کوئی احساس نہیں۔ 
بہرحال عرب ممالک، خلیجی ریاستوں اور مشرقِ وسطیٰ کے ان ملکوں نے جس غیر ت اور دینی حمیت کا مظاہرہ کیا، وہ قابلِ تحسین اور قابلِ داد ہے اور یقیناً انہوں نے مودی کی فاشسٹ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، لیکن مسلمان اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سزا ناکافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت سمیت کئی مسلم ممالک اور خود ہمارے ملک پاکستان میں مسلمانوں کی جانب سے بالکل برحق مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ملعونہ کو انڈین قانون کے مطابق سزا دی جائے، تاکہ آئندہ کوئی توہینِ رسالت کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔ 
انڈین قانون کی شق ۵۰۵ اور ۱۶۳ کے مطابق کسی بھی مذہب کی گستاخی کے جرم میں تین سال قید اور مالی جرمانے کی سزا موجود ہے۔ نیز ہندوستانی آئین کے آرٹیکل ۱۰ کے تحت مذہبی جذبات کو مجروح کرنا جرم ہے۔ ہندوستان بھر میں اسی مطالبے کو لے کر بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جارہے ہیں، مگر بھارتی حکومت نے ایک درست اور قانونی مطالبہ کو پورا کرنے کی بجائے احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو گرفتار اور ان کے گھروں کو بلڈوز کرنا شروع کردیا ہے، اب تک کی اطلاعات کے مطابق ۸۰۰ مسلمانوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے، کئی گھر مسمار کیے گئے ہیں، جبکہ دو مسلمانوں کی بھارتی پولیس کے ہاتھوں شہادت کی خبر بھی آئی ہے۔ ان ظالمانہ اقدامات کے خلاف تمام مسلم ممالک خصوصاً عرب دنیا، او آئی سی اور اقوامِ متحدہ کو سخت نوٹس لینا چاہیے۔
توہینِ رسالت کے اس دلخراش واقعہ کے خلاف پاکستان بھر میں بھی بھر پور احتجاج کیا گیا، پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف سمیت تمام سرکاری و سیاسی رہنمائوں نے اپنے بیانات میں عالمی دنیا سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ بھارتی سفارت خانے کے ناظم الامور کو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ بھی دیا گیا ہے۔ 
اسی طرح جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر حضرت مولانا عطاء الرحمٰن صاحب کی تجویز پر سینیٹ کے چیئرمین کی قیادت میں تمام سینیٹروں نے ۱۰؍ جون ۲۰۲۲ء کو نمازِ جمعہ کے بعد سینیٹ سے لے کر بھارتی سفارت خانے تک مارچ کیا اور سفارت خانے کو بھارتی حکومت کے نام ایک مراسلہ اور یادداشت پیش کی۔ 
اسی طرح ملک بھر میں عوامی سطح پر احتجاج کے لیے حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے کال دی تھی، جس کی بنا پر ۶؍ جون ۲۰۲۲ء کو جمعیت علماء اسلام کے تحت کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ جبکہ لاہور، کوئٹہ، پشاور سمیت چھوٹے بڑے تمام شہروں میں دوسری مذہبی تنظیموں اور جماعتوں کے علاوہ جمعیت علماء اسلام اور عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت نے عظیم الشان مظاہرے کیے۔ 
۱۰؍ جون ۲۰۲۲ء بعد نماز جمعۃ المبارک ملک بھر میں یومِ تحفظِ ناموسِ رسالت منایا گیا، کراچی میں بھی گرومندر سے ایک بہت بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی، اس ریلی کی خبر اور اس میں منظور کرائی جانے والی قراردادیں درج ذیل ہیں:
’’کراچی (پ ر) بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کی ترجمان کی جانب سے نبی مکرم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی شانِ اقدس میں گستاخی کے خلاف پوری اُمتِ مسلمہ سراپا احتجاج ہے۔ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم  کی گستاخی دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی تعلیمات میں تمام مذاہب کی مقدس شخصیات کے احترام کا درس دیا ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی مذموم کوشش ناقابلِ برداشت ہے۔ پیغمبرِ اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ناموس پر کیچڑ اُچھالنا دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ہندوستانی مصنوعات کا بائیکاٹ، بھارتی سفیر کو بلاکر احتجاج اور گستاخوں کو سخت سے سخت سزا دینے کے مطالبات کیے گئے۔ 
کراچی بھر کے مختلف علاقوں سے ریلیاں شروع ہوکر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون سے ہوتے ہوئے نمائش چورنگی پہنچیں، جہاں ہزاروں عاشقانِ مصطفیٰ شریک ہوئے، جن سے خطاب کرتے ہوئے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان کے رہنماؤں قاری محمد عثمان، راقم الحروف، قاضی احمدنورانی، مولانا محمد غیاث، مولانا قاضی احسان احمد، مفتی شکور احمد، مولانا عبدالکریم عابد، مولانا محمد اسحاق مصطفیٰ، مولانا محمد قاسم رفیع، مولانا فتح اللہ، مولانارضوان قاسمی، مولانا کلیم اللہ نعمان، مفتی محمد اکمل، قاری سیف الرحمٰن، مولانا عادل غنی، مولانا حامد، مولانا سمیع الحق سواتی اور دیگر نے عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے تحت ناموسِ رسالت ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ناموسِ رسالت ہمارے ایمان کا بنیادی جزو ہے۔ ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے۔ بھارتی رہنما کی جانب سے کی گئی گستاخی کے خلاف بھرپور مظاہرہ کرکے مسلمانوں نے آقائے دو جہاں  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ اپنی وفا اور عشق کا اظہار کیا ہے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذاتِ اقدس تو پوری انسانیت کے لیے سراپا رحمت و امن ہے، کسی مہذب معاشرے کا فرد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارہ میں گستاخانہ جملوں کا استعمال نہیں کرسکتا۔ بی جے پی ترجمان کی جانب سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان میں گستاخانہ کلمات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ان گستاخانہ کلمات سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل مضطرب اور پریشان ہیں۔ کسی بھی مسلمان کے لیے حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذاتِ اقدس کے بارہ میں عزت و تکریم سے گرے ہوئے ایک لفظ کا سننا بھی قابلِ برداشت نہیں۔ بھارتی رہنما کی اس سفاکیت کے خلاف مشرقِ وسطیٰ کا ردِعمل قابلِ تحسین اور لائقِ ستائش ہے۔ بھارتی رہنما کی اس انتہا پسندی کو ابھی سے روکنا ہوگا۔ 
اس موقع پر درج ذیل قراردادیں بھی منظور کرائی گئیں: 
۱:... ہر مسلمان خواہ مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بزرگ اپنے ہر عمل کو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے مطابق بنانے کی کوشش کرے۔ 
۲:... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مبارک سیرت سے دنیا کو روشناس کرائیں۔ 
۳:...تمام مسلمان بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ 
۴:... او. آئی. سی اس اہم معاملے پر فوری اجلاس بلائے اور سخت احتجاج ریکارڈ کرائے۔  
۵:... بھارتی حکومت ایسے رہنماؤں کو سخت سزا دے، ورنہ دنیا کا امن خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔  
۶:...مسلم اُمہ متفقہ لائحہ عمل طے کر کے عالمی سطح پر بھارت سے جواب طلب کرے۔‘‘
اس کے علاوہ ’’ادارہ بینات‘‘ اپنی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ملک بھر میں توہینِ رسالت کے مقدمات میں جتنے بھی لوگ گرفتار جیلوں میں بند ہیں اور ان پرمقدمات ثابت ہوچکے ہیں، ان کو فی الفور قانون کے مطابق کھلے عام سزائیں دی جائیں، تاکہ دنیا بھر میں یہ پیغام جائے کہ پاکستان کی حکومت واقعی اس قانون پر عملدرآمد کرنے میں مخلص اور سنجیدہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ او.آئی.سی کا اجلاس بلاکر اور اس میں شریک سب ممالک اور مسلم تنظیموں کو اس پر متحد اور متفق کرکے اقوامِ متحدہ میں اس قانون کو لے جاکر قانون سازی کرائی جائے کہ تمام انبیاء کرام  علیہم السلام  کی توہین و گستاخی قابلِ سزا جرم ہے اور اس کی سزا‘ سزائے موت ہے۔ اس سے ان شاء اللہ! جہاں دنیا بھر میں گستاخیوں کا سلسلہ رک جائے گا، وہاں دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بھی بن جائے گی اور اس سے دنیا بھر کے سیاسی اور اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ امن و امان پر اُٹھنے والے اخراجات میں کافی حد تک کمی واقع ہوگی۔
 اُمید ہے کہ ان معروضات پر ضرور غوروفکر کرکے عمل درآمد کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اربابِ اختیار کو توفیق بخشے، آمین، وما ذٰلک علی اللہ بعزیز۔

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین