بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تقویٰ :روزہ کی روح اور مقصد ہے

تقویٰ :روزہ کی روح اور مقصد ہے


الحمد للہ و سلام علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

رمضان جیسا برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے، اس میں ایمان وتقویٰ کی بنیاد پر ہر مؤمن بندہ اپنے اپنے ظرف اور اپنی اپنی ہمت کے مطابق اس کی برکتوں اور رحمتوں سے لطف اندوز ہوگا۔ اس ماہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے۔ اس مہینے میں رحمتِ خداوندی کا دریا موجزن ہوتا ہے اور ہر طالبِ رحمت کے لیے آغوشِ رحمت وا ہوجاتا ہے۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا بخشش اور تیسرا دوزخ سے آزادی کا ہے۔ یہ مہینہ نورانیت میں اضافہ، روحانیت میں ترقی، اجر و ثواب میں زیادتی اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ جو شخص ان بابرکت اوقات میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کی دولت سے محروم رہے اور دریائے رحمت کی طغیانی کے باوجود حصولِ رحمت کے لیے اپنا دامن نہ پھیلائے، اس سے بڑھ کر محروم کون ہوسکتا ہے؟ اس ماہ میں کرنے اور کچھ نہ کرنے کے کاموں کی فہرست دی جاتی ہے:
۱:- روزہ تو ہر عاقل، بالغ مرد اور عورت پر فرض ہے، رات کی تراویح  سنت ہے۔ اس کے علاوہ تلاوتِ قرآنِ کریم، ذکرِ الٰہی، دعا، استغفار اور نوافل: اشراق، چاشت، اوابین، تہجد اور صلوٰۃ التسبیح کا حتی الامکان اہتمام کیا جائے۔
 ۲:- جھوٹ، بہتان، غیبت، حرام خوری اور دیگر تمام آلودگیوں سے پرہیز کیا جائے۔
۳:- بے فائدہ اور لایعنی مشاغل سے بھی احتراز کیا جائے، کیونکہ بے مقصد مشاغل انسان کو اپنے مقصدسے ہٹادیتے ہیں۔ 
۴:- دلوں کو کینہ، بغض اور عداوت کے کھوٹ اور میل سے پاک اور صاف رکھا جائے، کیونکہ جس دل پر ان مہلک چیزوں کا اثر ہو اس دل پر نور، برکت اور رحمت کی بارش کماحقہ اثر نہیں کرسکتی۔
۵:- اس ماہِ مبارک کا دل، زبان اور عمل سے احترام کرنا بھی لازم ہے، بعض لوگ اس مہینہ میں بھی کھلے عام کھاتے پیتے ہیں اور روزہ پر طنز کرتے ہیں، یہ گستاخی نہایت سنگین ہے اور اس سے ایمان سلب ہونے کا اندیشہ ہے۔ روزہ کی فرضیت کا مقصد اور اس کی روح تقویٰ کو قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: 
’’ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ ‘‘                                                    (البقرۃ:۱۸۳)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ۔‘‘
انسان کی ظاہری وباطنی چیزوں اور لباس وپوشاک کی خوشنمائیوں سے زیادہ مکرم، زیادہ مزین، زیادہ حسین اور زیادہ فضیلت والی چیز تقویٰ ہے۔تقویٰ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کے اوامر کی بجاآوری اور نواہی سے اجتناب‘ ان تمام چیزوں سے زیادہ مکرم، مزین، افضل اور احسن ہے، جنہیں ہم چھپاتے ، ظاہر کرتے ، ذخیرہ کرتے اور پہنتے ہیں۔
تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ثواب کی تمنا اور اُمید پر آپ کے تمام اوامر اور احکامات پر عمل کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی سزا کے خوف سے آپ کے تمام نواہی کو ترک کیا جائے۔
تقویٰ کا حق یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے تمام احکامات پر پورا پورا عمل کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی منع کردہ ہر ہر چیز سے اجتناب اور پرہیز کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان اپنے رب کا اطاعت گزار ہوگا‘ اس کا نافرمان نہیں ، اس کا ذاکر ہوگا‘ اس کو بھولنے والا نہیں ، اس کا شکرگزار ہوگا‘ ناشکرا نہیں ، وہ ایمان اور توکل کی دولت سے مالا مال ہوگا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے صرف اہلِ ایمان کو ہی تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا، کیونکہ اہلِ ایمان ہی جانتے ہیں کہ تعظیم و جلالت، توقیرو محبت، طاعت و بندگی کا مستحق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔یہ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ اس نے فرمایا: 
’’ فَاتَّقُوْا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ۔ ‘‘ (التغابن : ۱۶)
ترجمہ: ’’ سو ڈرو اللہ سے جہاں تک ہو سکے،اور سنو اور مانو اور خرچ کرو اپنے بھلے کو ۔‘‘
ورنہ کمالِ تقویٰ پر عمل کرنے کی استطاعت اور قدرت انسانی طاقت اور ہمت سے باہر ہی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ     ۤ  وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا   ۚ  وَاتَّقُوا اللهَ     ۭ اِنَّ اللهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۔‘‘                                                                                ( الحشر: ۷)
ترجمہ: ’’اور جو دے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو اور ڈرتے رہو اللہ سے، بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔ ‘‘
تقویٰ کی بنیاد اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان ہے۔ اعمالِ صالحہ ایمان کے آثار، دلائل اور ایمان کا نور ہیں۔ اخلاقِ حسنہ انسانی سیرت کا حسن وجمال شمار ہوتے ہیں ، جو اِن صفات سے متصف ہوگا وہ ابرار، صادقین اور متقین میں شمار ہوگا۔
تقویٰ کی ایک تعبیر یوں بھی کی جاتی ہے کہ رذائل سے کنارہ کشی کرتے ہوئے فضائل سے آراستہ ہوا جائے، یعنی گناہوں اور گندگیوں سے اجتنابِ کلی کرتے ہوئے طاعات اور عبادات سے اپنے آپ کو مزین کیا جائے۔ انسان جو بھی نیکی کرتا ہے، اس کا تعلق یا تو قلب یعنی دل سے ہے یا قالب یعنی بدن سے یا مال سے ہے۔
اعمالِ قلبیہ میں اصل ایمان ہے، اعمالِ بدنیہ کی جامع نماز ہے، جس کو دین کا ستون قراردیاگیا ہے اور اعمالِ مالیہ کی سردار زکوٰۃ اور صدقات ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
’’الٓمّ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ     ٻ  فِيْهِ   ڔ  ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ۔ ‘‘                                   (البقرۃ: ۱،۲،۳)
ترجمہ: ’’الٓمّ ، اس کتاب میں کچھ شک نہیں ، راہ بتلاتی ہے ڈرنے والوں کو،جو کہ یقین کرتے ہیں بے دیکھی چیزوں کا اور قائم رکھتے ہیں نماز کو اور جو ہم نے روزی دی ہے ان کو اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ ‘‘
تقویٰ اختیار کرنے کا حکم اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام آسمانی مذہب کے ماننے والوں کو دیا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: 
’’ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَاِيَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللهَ      ۭ   وَاِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ    ۭ وَكَانَ اللهُ غَنِيًّا حَمِيْدًا  ۔ ‘‘          (النساء :۱۳۱) 
ترجمہ: ’’اور ہم نے حکم دیا ہے پہلے کتاب والوں کو اور تم کو کہ ڈرتے رہو اللہ سے اور اگر نہ مانوگے تو اللہ ہی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں، اور ہے اللہ بےپروا سب خوبیوں والا۔‘‘
تقویٰ کا حاصل یہ ہے کہ جن کاموںکے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، ان کے کرنے میں انسان پیچھے نہ رہے، جہاں جانے سے شریعت نے منع کیا ہے، انسان وہاں نہ جائے،ایمانی نور کی روشنی میں ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگا رہے، اور ایمانی نور کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی سزا کا خوف رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچتا رہے۔ 
تقویٰ کی دو قسمیں ہیں:     ۱:- قلوب کا تقویٰ         ۲:- جوارح کا تقویٰ 
اور ان میں اصل تقویٰ قلوب کا ہی تقویٰ ہے اور تقویٰ کا محل دل ہے۔ جوارح کا تقویٰ قلوب کے تقوی کا اثر اور لازمی نتیجہ ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
’’ ذٰلِكَ    ۤ  وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۔ ‘‘                    ( الحج:۲۲) 
ترجمہ: ’’یہ سن چکے اور جو کوئی ادب رکھے اللہ کے نام لگی چیزوں کا، سو وہ دل کی پرہیز گاری کی بات ہے۔ ‘‘
اگر دل میں تقویٰ نہیں تو جوارح کے تقویٰ کا کوئی وزن اور کوئی قیمت نہیں۔
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات بابرکات مجسم تقویٰ کے باوجود نوافل میں اتنا قیام فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاؤں مبارک پر ورم آجاتا، اتنا نفلی روزے رکھتے ، کہا جاتا کہ آپ کبھی روزے چھوڑیں گے نہیں، جہاد کرتے، حج اور عمرے ادا فرماتے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے، لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے، مہمانوں کا اکرام فرماتے، محتاجوں کی غم خوارگی کرتے، اپنے صحابہؓ سے میل جول کرتے، مطلب یہ کہ تمام فرائض کی بجاآوری کے باوجود نوافل، اَوراد و اَذکار میں سے، کسی کو نہیں چھوڑتے تھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے قرب کے حصول کا قریب ترین ذریعہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کی پیروی اور ظاہر وباطن کے اعتبار سے اس پر ہمیشگی اور ہر قول و عمل اور نیت میں اخلاص ہو کہ میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے یہ کام کررہا ہوں۔
یہ بہت بڑا ظلم اور جہالت ہے کہ انسان لوگوں سے تو اپنے لیے تعظیم وتکریم کا طالب اور خواہش مند ہو، لیکن اس کا دل اللہ تعالیٰ کی تعظیم وتکریم اور جلال وتقویٰ سے خالی ہو۔
ہر انسان کے لیے دو اُمور بہت ضروری ہیں: ۱:- فعلِ مامور اور ترکِ محظور سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرے۔ ۲:-اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو تکلیفیں اور پریشانیاں آئیں، اس پر صبر کرے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
’’ اِنَّهٗ مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِرْ فَاِنَّ اللهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ ۔ ‘‘             ( یوسف:۹۰ ) 
ترجمہ: ’’ البتہ جو کوئی ڈرتا ہے اور صبر کرتا ہے تو اللہ ضائع نہیں کرتا حق نیکی والوں کا۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کے اندر تین قوتیں رکھی ہیں: 
۱:- بذل واعطاء کی قوت           ۲:-کف وامتناع کی قوت       ۳  :- ادراک وفہم کی قوت
اللہ تبارک وتعالیٰ جب انسان کو ایمان اور ہدایت کی توفیق سے نوازتے ہیں تو اس کی قوتوں کو ایسے کاموں میں لگادیتے ہیں جو اس کو محبوب ہیں اور اس انسان کو دنیا وآخرت میں آسانیوں کی طرف لے جاتے ہیں اور جب کسی انسان کو ذلیل وخوار کرنا چاہتے ہیں تو اسے ایسے کاموں میں لگادیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو مبغوض ہیں اور اسے مشکلات اور تنگیوں کی طرف لے جاتے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
’’ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَاتَّقٰى  وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى  فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْيُسْرٰى وَاَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنٰى فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰى‘‘                                 ( اللیل: ۵-۱۰) 
ترجمہ: ’’سو جس نے دیا اور ڈرتا رہا اور سچ جانا بھلی بات کو،تو اس کو ہم سہج سہج پہنچا دیں گے آسانی میں، اور جس نے نہ دیا اور بےپروا رہا ،اور جھوٹ جانا بھلی بات کو، سو اس کو ہم سہج سہج پہنچا دیں گے سختی میں ۔ ‘‘
کسی انسان یا جماعت کے لیے اللہ تعالیٰ کی برکات کے دروازے کمالِ ایمان اور کمالِ تقویٰ کی بناپر ہی کھلتے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
’’ وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ‘‘                         ( الاعراف: ۹۶) 
ترجمہ: ’’اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم کھول دیتے ان پر نعمتیں آسمان اور زمین سے، لیکن جھٹلایا انہوں نے، پس پکڑا ہم نے ان کو اُن کے اعمال کے بدلے۔ ‘‘
برکاتِ الٰہیہ حدّ وشمار سے باہر ہیں، من جملہ اُن میں عمر میں برکت، رزق میں برکت، وقت میں برکت، آل و اولاد میں برکت، مال میں برکت، اعمال میں برکت، اسی طرح اسباب کے بغیر ضرورتوں کا پورا ہونا، کسی درجہ میں جدوجہد، محنت ومشقت کے بغیر اموال، اشیاء اور روزی کا حصول، یہ سب ایمان اور تقویٰ کی بناپر ہی حاصل ہوتے ہیں۔
آج کل مسلمانوں میں ایمانی ضعف اور تقویٰ کی کمی کی بناپر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے بند محسوس ہوتے ہیں اور اکثر مسلمان ان برکات سے محروم نظر آتے ہیں، اس لیے کہ جب ہم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کو بھلادیا تو اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ چیزیں چھین لیں اور جو چیزیں ہمیں ملی ہوئی ہیں، وہ برکت سے خالی ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کلام کی محبت، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام یعنی سنت اور احادیث کی محبت، اللہ تعالیٰ کی عبادت کی محبت، اس کی اطاعت کی محبت، اولیاء کی محبت، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی محبت، دین کی محبت کو ہم سے چھین لیا ہے، اس لیے کہ جب گناہوں اور دین کی مخالفت کی کثرت ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے خیرات اور برکات سے ہمیں محروم کردیا۔
تقویٰ کی تین اقسام ہیں:
۱:- اللہ تعالیٰ کی ذات کے اعتبار سے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
’’ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللهَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔‘‘(آلِ عمران:۱۰۲)
ترجمہ: ’’ اے ایمان والو ڈرتے رہو اللہ سے جیسا چاہیے اس سے ڈرنا اور نہ مریو مگر مسلمان۔ ‘‘
۲:- اللہ تعالیٰ کی سزا کے مکان کے اعتبار سے، جیسا کہ ارشاد ہے:
’’ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ۔  ‘‘            ( آلِ عمران: ۱۳۱) 
ترجمہ: ’’  اور بچو اس آگ سے جو تیار ہوئی کافروں کے واسطے۔ ‘‘
۳:- اللہ تعالیٰ کی سزا کے زمانہ کے اعتبار سے، جیسا کہ فرمایا:
’’ وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللهِ  ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَايُظْلَمُوْنَ۔‘‘                                                         (البقرۃ:۲۸۱)
ترجمہ: ’’ اور ڈرتے رہو اس دن سے کہ جس دن لوٹائے جاؤ گے اللہ کی طرف، پھر پورا دیا جائے گا ہر شخص کو جو کچھ اس نے کمایا اور اُن پر ظلم نہ ہوگا۔‘‘
انسان کی قدروقیمت ایمانی صفات، اعلیٰ اخلاق اور اعمالِ صالحہ کی بناپر ہی ہوتی ہے اور جب تک کسی چیز میں اس کی اعلیٰ صفات باقی رہتی ہیں، اس کی قدروقیمت باقی رہتی ہے اور جب کوئی چیز اعلیٰ صفات سے محروم ہوجاتی ہے تو اس کی قدروقیمت بھی ختم ہوجاتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی معیت ونصرت اور مدد تب آئے گی جب ہمارے اندر ایمان، تقویٰ اور احسان جیسی صفات آجائیں گی، جو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو محبوب وپسند ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے:
’’ اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ ۔‘‘                       (النحل:۱۲۸)
ترجمہ: ’’ الله تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو پرہیز گار ہوتے ہیں اور جو نیک دار ہوتے ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح جب ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجالائیں گے اور ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی معیت، قرب اور مددونصرت ہمارے شامل حال ہوگی، جیسا کہ ارشاد ہے:
۲:-’’ وَقَالَ اللهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ  ۭ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ   ۚ  فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ۔‘‘ 
                                                                        ( المائدۃ: ۱۲) 
ترجمہ: ’’ اور کہا اللہ نے میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم قائم رکھو گے نماز اور دیتے رہو گے زکوٰۃ اور یقین لاؤ گے میرے رسولوں پر اور مدد کرو گے ان کی اور قرض دو گے اللہ کو اچھی طرح کا قرض تو البتہ دور کروں گا میں تم سے گناہ تمہارے اور داخل کروں گا تم کو باغوں میں کہ جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں، پھر جو کوئی کافر ہوا تم میں سے اس کے بعد تو وہ بے شک گمراہ ہوا سیدھے راستہ سے۔‘‘
جب ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت ، نشرواشاعت اور حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنتوں پر عمل کریں گے، تو اللہ تعالیٰ کی معیت ہم ایمان والوں کے شاملِ حال ہوگی، جیسا کہ فرمایا:
۳:-’’ لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى۔ ‘‘                  ( طٰہٰ: ۴۶) 
ترجمہ: ’’ نہ ڈرو، میں ساتھ ہوں تمہارے، سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کے لیے دو لباس نازل فرمائے ہیں، ایک ظاہری لباس جس سے انسان اپنے بدن کی صورت اور نگیچ کو چھپاتا ہے اور دوسرا تقویٰ کا لباس جس سے انسان اپنے باطن اور سیرت کو نکھارتا ہے، جس طرح ظاہری لباس سے انسان خوبصورت اور مزین نظر آتا ہے، اسی طرح تقویٰ کے لباس سے انسان کے اخلاق اور کردار خوبصورت ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’  يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا    ۭ  وَلِبَاسُ التَّقْوٰى   ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ  ۭذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ ۔‘‘                             ( الاعراف: ۲۶) 
ترجمہ: ’’ اے اولاد آدم کی! ہم نے اُتاری تم پر پوشاک جو ڈھانکے تمہاری شرمگاہیں اور اُتارے آرائش کے کپڑے اور لباس پرہیزگاری کا وہ سب سے بہتر ہے، یہ نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی، تاکہ وہ لوگ غور کریں۔ ‘‘
آج کا میڈیا، اس کے اینکر اور سیکولر ازم کے پرچار کرنے والے جو جسم کو لباس سے اور نفس کو تقویٰ سے عاری کرنا چاہتے ہیں، اسی طرح حیاء کو اپنی زبانوں اور قلم کے ذریعہ ملیا میٹ کرنا چاہتے ہیں، وہ درحقیقت انسان سے اس کی فطری خصائص اور اس کی ظاہری وباطنی زینت چھیننا چاہتے ہیں، اور یہ سب جانتے ہیں کہ ننگا ہونا حیوانی صفت ہے اور اس کی طرف مائل وہی ہوسکتا ہے جو انسانی مرتبہ سے گرگیا ہو، اب وہ ننگا پن کو اسی طرح اپنے لیے جمال اور زینت کا باعث سمجھتا ہے جس طرح کافر کفر میں اپنی فلاح سمجھتا ہے، حیا اور تقویٰ سے عاری ہونا جس کی آج کوششیں کی جارہی ہیں، یہ جہالت کی طرف ہی قوم کو دھکیلنا ہے۔
سفر کے لیے زادِ راہ اپنے پاس رکھنا، یہ عقلاء کی شان ہے، جس سے آدمی مخلوق سے مستغنی ہوتا ہے، ان سے سوال کرنے سے بچتا ہے، توشہ اور زادِ راہ جتنا زیادہ ہو، اتنا ہی نفع زیاد ہ ہوتا ہے، دوسروں کی مدد کرسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں کئی اور نیکی کے کام بھی اس دنیا میں انجام دے سکتا ہے، حقیقی زادِ راہ تقویٰ ہی ہے، جس سے انسان جنت اور جنت کی نعمتوں کو حاصل کرے گا، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: 
’’وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى    ۡ   وَاتَّقُوْنِ   يٰٓاُولِي   الْاَلْبَابِ۔ ‘‘            ( البقرۃ:۱۹۷)
ترجمہ: ’’اور زادِراہ لے لیا کرو کہ بے شک بہتر فائدہ زادِراہ کا بچنا ہے، مجھ سے ڈرتے رہو اے عقلمندو !۔ ‘‘
اہلِ ایمان اور اہلِ تقویٰ ہی دنیا اور آخرت میں حقیقی کامیاب لوگ ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے:
’’ اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ  الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ لَھُمُ الْبُشْرٰي فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ   ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمٰتِ اللهِ   ۭ ذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ‘‘                                                                          (یونس: ۶۲-۶۴) 
ترجمہ: ’’یاد رکھو! جو لوگ اللہ کے دوست ہیں نہ ڈر ہے اُن پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے، جو لوگ کہ ایمان لائے اور ڈرتے رہے، اُن کے لیے خوشخبری دنیا کی زندگانی میں اور آخرت میں، بدلتی نہیں اللہ کی باتیں، یہی ہے بڑی کامیابی۔ ‘‘
اہلِ تقویٰ کو دنیا میں جو نعمتیں نصیب ہوتی ہیں قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں ہے:
۱:-’’ وَمَنْ يَّتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا  وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۔‘‘   ( الطلاق:۲-۳ ) 
ترجمہ: ’’اور جو کوئی ڈرتا ہے اللہ سے وہ کر دے اس کا گزراہ، اور روزی دے اس کو جہاں سے اس کو خیال بھی نہ ہو۔ ‘‘
۲:-’’ وَمَنْ يَّتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ يُسْرًا ذٰلِكَ اَمْرُ اللهِ اَنْزَلَهٗٓ اِلَيْكُمْ   ۭ  وَمَنْ يَّتَّقِ اللهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَـيِّاٰتِهٖ وَيُعْظِمْ لَهٗٓ اَجْرًا۔‘‘                                          ( الطلاق: ۴-۵) 
ترجمہ: ’’اور جو کوئی ڈرتا ہے اللہ سے کر دے وہ اس کے کام میں آسانی۔ یہ حکم ہے اللہ کا جو  اُتارا تمہاری طرف اور جو کوئی ڈرتا رہے اللہ سے اُتار دے اس پر سے اس کی برائیاں اور بڑھا دے اس کو ثواب۔ ‘‘
۳:-’’ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا اللهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ    ۭ  وَمَنْ يُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا  ‘‘         ( الاحزاب:۷۰-۷۱ ) 
ترجمہ: ’’ اے ایمان والو! ڈرتے رہو اللہ سے اور کہو بات سیدھی کہ سنوار دے تمہارے واسطے تمہارے کام اور بخش دے تم کو تمہارے گناہ اور جو کوئی کہنے پر چلا اللہ کے اور اس کے رسول کے اس نے پائی بڑی مراد۔ ‘‘
۴:-’’ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللهَ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَجَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ ‘‘                                                                 ( المائدۃ:۳۵ ) 
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! ڈرتے رہو اللہ سے اور ڈھونڈو اس تک وسیلہ اور جہاد کرو اس کی راہ میں، تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ ‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ تقویٰ کے لیے آخرت میں کیا تیار کررکھا ہے، اور کیا نعمتیں عطا فرمائیں گے، اس کا جواب قرآن کریم میں ہے:
۱:-’’ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ    ۭ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ   ۭ  اُكُلُهَا دَاۗىِٕمٌ وَّظِلُّهَا   ۭ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِيْنَ اتَّقَوْا     ڰ   وَّعُقْبَى الْكٰفِرِيْنَ النَّارُ۔ ‘‘                             (الرعد: ۳۵) 
ترجمہ: ’’ حال جنت کا جس کا وعدہ ہے پرہیزگاروں سے، بہتی ہیں اس کے نیچے نہریں، میوہ اس کا ہمیشہ ہے اور سایہ بھی، یہ بدلہ ہے ان کا جو ڈرتے رہے اور بدلہ منکروں کا آگ ہے۔‘‘
۲:-’’ قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ ۭ لِلَّذِيْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ  ۭوَاللهُ بَصِيْرٌۢ بِالْعِبَادِ‘‘(آل عمران: ۱۵) 
ترجمہ: ’’کہہ دے: کیا بتاؤں میں تم کو اس سے بہتر؟ پرہیزگاروں کے لیے اپنے رب کے ہاں باغ ہیں جن کے نیچے جاری ہیں نہریں، ہمیشہ رہیں گے ان میں اور عورتیں ہیں ستھری اور رضامندی اللہ کی اور اللہ کی نگاہ میں ہیں بندے۔‘‘
۳:-’’ لٰكِنِ الَّذِيْنَ اتَّــقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَّبْنِيَّةٌ   ۙ  تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ  ڛ  وَعْدَ اللهِ    ۭ  لَا يُخْلِفُ اللهُ الْمِيْعَادَ ۔‘‘                                         (الزمر :۲۰)
ترجمہ: ’’ لیکن جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے ان کے واسطے ہیں جھروکے، ان کے اوپر اور جھروکے چنے ہوئے، ان کے نیچے بہتی ہیں ندیاں، وعدہ ہو چکا اللہ کا، اللہ نہیں خلاف کرتا اپنا وعدہ۔‘‘
۴:-’’ وَسِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا  ۭ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَـــتُهَا سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْهَا خٰلِدِيْنَ ۔‘‘           (الزمر: ۷۳)
ترجمہ: ’’ اور ہانکے جائیں وہ لوگ جو ڈرتے رہے تھے اپنے رب سے جنت کو گروہ گروہ، یہاں تک کہ جب پہنچ جائیں اس پر اور کھولے جائیں اس کے دروازے اور کہنے لگیں ان کو داروغہ، اس کے سلام پہنچے تم پر، تم لوگ پاکیزہ ہو، سو داخل ہو جاؤ اس میں سدا رہنے کو۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ حکیم اور علیم ہیں، ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے کسی حکمت اور مقصد کے لیے پیدا کیا ہے، آگ کو اللہ تعالیٰ نے روشنی کے لیے بنایا ہے، پانی کو پینے اور پیاس بجھانے کے لیے پیدا کیا ہے، نباتات اور حیوانات کو انسانی خدمت کے لیے بنایا، جنات اور انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنی عبادت کے لیے بنایا، ہر چیز جب تک اپنا مقصد اور وظیفہ ادا کرتی رہتی ہے، تب تک تو وہ محترم، مکرم اور محبوب ہوتی ہے، مالک کے ہاں اس کی قدر وقیمت اور عزت ہوتی ہے، جب وہ اپنا مقصد چھوڑدے یا اپنے عمل کو معطل کردے تو اس کی قدروقیمت کم ہوجاتی ہے اور مالک اس سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے۔ اسی طرح انسان ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا اور اسے ایمان اور تقویٰ کا حکم دیا، جب انسان نے اپنا مقصد بھلادیا تو دنیا وآخرت میں اس کی کوئی قیمت نہیں رہی، بلکہ اس سے بڑھ کر قیامت کے دن اس سے محاسبہ بھی ہوگا۔
اس ماہِ رمضان میں روزوں کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو تقویٰ اختیار کرنے اور دنیا وآخرت میں اس کے فوائد وثمرات اور فضائل حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دنیا میں اپنے مقصدِ حیات پر عمل کرنے اور آخرت میں مواخذہ اور محاسبہ سے محفوظ ومامون فرمائے، آمین
وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین