بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

 تقلید پر ایک فی البدیہ جواب

 تقلید پر ایک فی البدیہ جواب


ہم ایسے واقفانِ رازہائے شہرِ خوش بختاں
وہاں پلکیں بچھاتے ہیں، وہاں دستک نہیں دیتے

میں اپنے سابق رفیق کار اور پرنسپل پروفیسر ظہور احمد ملک سے ملنے کی غرض سے ان کے موجودہ ادارے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد مین گیٹ سے داخل ہوا۔موصوف اپنے شعبہ فزکس ڈیپارٹمنٹ میں طلبہ کوپریکٹیکل کروارہے تھے۔ مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور جیسے ہی طلبہ سے فارغ ہوئے، میرے سامنے اپنی کرسی پر تشریف فرما ہوگئے۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے دوران میں نے اُنہیں اکثر دیکھا تھا کہ تلاوتِ قرآن یا درودِ پاک کا ورد کرتے نظر آتے تھے۔ اس مصروفیت اور کالج کی نگرانی کی ذمہ داری کے باوجود اپنے رفقائے کار سے مسکراہٹ کے ساتھ ملا کرتے تھے۔ اب جیسے ہی وہ تشریف فرما ہوئے، ان کے معاون لیبارٹری اٹنڈنٹ جو ماشاء اللہ! چہرے پر سنت سجائے گردن سے تقلید کا جوا پرے پھینکے میرے دائیں جانب کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھادیئے، وہ بیٹھتے ہی گویا ہوئے ’’جی تقلید کیوں کرتے ہیں؟ تقلید کا کیا ثبوت ہے ؟ عربی کا پروفیسر ہوکر بھی آپ فقہ کو مانتے ہیں؟ براہِ راست قرآن وحدیث پر کیوں نہیں چلتے؟‘‘۔
یا اللہ! یہ کیسا استقبال ہے؟ میں ایسے سوالوں کے جواب کی تیاری کرکے تو نہ آیا تھا۔ یا اللہ! میں تو آپ کی رضا کے لیے آپ کے محبوب بندوں علمائے راسخین کی تقلید کو ذریعۂ نجات سمجھتا ہوں، اب آپ ہی جواب بتا دیجئے!بس جیسے ہی اللہ کی طرف رجوع کیا، جواب دل تک پہنچ چکا تھا۔ موصوف پروفیسر محترم ظہور احمد ملک صاحب حسب عادت مسکرا رہے تھے، شاید وہ بھی میری عاجزی ولاجوابی دیکھنا چاہتے تھے، وہ بھی عدم تقلید ہی کے مسلک پر تھے، مگر کبھی کسی سے کج بحثی نہ کرتے تھے۔ اللہ جل شانہٗ نے میری زبان پر آیت پاک جاری کردی تھی:
’’ وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہٗ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَائَ تْ مَصِیْراً ‘‘۔         (النساء:۱۱۵)
ترجمہ:…’’جو کوئی بھی رسول کی مخالفت کرے گا، بعد اس کے کہ اس کو امر حق ظاہر ہوچکا اور اہل ایمان کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر ہو لے گا تو ہم اُسے ادھر ہی چلا دیںگے جدھر وہ منہ کرے گا (یعنی ضد ، تعصب اور کفر و ضلال میں) پھر اُسے جہنم رسید کردیں گے اور وہ تو برا ٹھکانا ہے‘‘۔
اس مقدس آیت میں رسول ا کی مخالفت کو اتباع غیر سبیل المؤمنین قرار دیا گیا، اتباع سبیل المؤمنین بشمول اول مؤمنین( اصحابؓ رسول) ہی اتباع رسول علیہ السلام ہے، ورنہ یہاں سبیل المؤمنین کی جگہ سبیل الرسول ہوتا۔ جب کہ اللہ خود سبیل المؤمنین چھوڑنے کو مخالفت رسول، شقاق الرسول قرار دے رہے ہیں، دوزخ سے نجات کی راہ سبیل المؤمنین کو فرما رہے ہیں۔ اگر اصحابؓ رسول اور تابعینؒ، تبع تابعینؒ، محدثینؒ، ائمہؒ، فقہاءؒ، علماء راسخین کی راہ اللہ پاک کی بتائی ہوئی، نبی کی چل کر دکھائی ہوئی را ہ سے مختلف راہ ہوتی تو اللہ یہاں سبیل المؤمنین نہ فرماتے، سبیل الرسول یا سبیل النبی فرماتے۔ اور سبیل اللہ یا سبیل القرآن والحدیث تو اصطلاح ہی غلط ہے۔ سبیل راہ کو کہتے ہیں جس پر کوئی چلتا ہے، قرآن اور حدیث تو چلتے نہیں اور اللہ بھی چلنے کی صفت سے پاک ہے۔ ہاں! نبی اور رسول چلتے ہیں، مگر نبی اور رسول ا کی ذات وصفات اتنی بلند ہیں کہ اسے اصحابِ ؓرسول کے بغیر کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا، لہٰذا حکم ہوا کہ جو کچھ صحابہؓ نے رسول ا سے سمجھا وہی حق ہے ، بس تم ان کے پیچھے چل لو اور تم نے جب رسول ا کو دیکھا ہی نہیں تو تم ان کی بات اور عمل کو کیسے سن اور سمجھ سکتے ہو؟۔
میں نے عرض کیا: اسلام صرف نظریہ کا نام نہیں،پریکٹیکل یعنی ایک عمل کا نام ہے۔ اسلام ایک عملی طریق حیات ہے، جس میں ایمان باللہ اور ایمان بالرسول بنیاد ہے، آپ لوگ طبیعیات کے قواعد وقوانین پر تقریر کرتے ہیں، پھرپریکٹیکل اپنی نگرانی میں کروا کے طلبہ کو ماہر سائنس دان بناتے ہیں۔ 
نبی کریم ا نے اللہ ، رسول اور آخرت پر ایمان لانے والوں کو ماہر ِ ایمان بنایا، اللہ نے ان کو معیارِ ایمان، مدارِ ایمان قرار دے دیا:’’ فَإِنْ أٰمنُوْا بِمِثْلِ مَا أٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا‘‘۔ (البقرۃ:۱۳۷) نبی کریم ا نے اپنے کو اور اپنے صحابہؓ   کو انتخابِ الٰہی قرار دینے کے بعد اعلان فرمادیا کہ :’’  لاتمس النار مسلماً رأٰنی أو رأٰ من رأٰنی‘‘۔ (الحدیث)…کہ’’ اب میرے دیکھنے والوں اور مجھے دیکھنے والوں کے دیکھنے والوں کو بھی آگ نہ چھوئے گی۔‘‘ کیونکہ آگ تو کھوٹ دور کرنے کے لیے ہوتی ہے اور میرے صحابہؓ ؓ وتابعینؒ میں کھوٹ رہا کہاں؟ ۔
مزید ارشاد ہوا :’’خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم‘‘۔ تینوں طبقات خیر والے ہیں، میرے صحابہؓ، تابعینؒ، تبع تابعین۔ انہی تینوں طبقات میں ائمہ حدیث، ائمہ فقہ ہوئے اور قیامت تک آنے والی تبدیلیوں، جدید مسائل اور مشینی سائنسی ادوار کے لیے رہنما اصول دے گئے۔
 امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؒ تابعی ہیں، امام مالکؒ تابعی ہیں، مدینہ منورہ میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرہ میں، مسائل میں بحث فرمایا کرتے تھے۔ دیگر تمام ائمۂ فقہ: امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ ، اور ائمہ صحاح ستہ امام بخاریؒ، امام مسلمؒ سمیت تقریباً تمام ائمۂ حدیث امام اعظمؒ کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ (بحوالہ کتب حدیث وکتب اسماء الرجال) 
آج اگر کوئی دعویٰ کرے کہ جی ہم تو براہِ راست قرآن اور حدیث سے اپنا دین لیںگے تو ہمیں براہِ کرم یہ بتا دیاجائے کہ ان ائمۂ ہدی، ائمۂ حدیث، ائمۂ فقہ کو چھوڑکر دین لیںگے کہاں سے؟ اصحاب رسولؓ نے عملی دین خاتم المعصومین ا سے لیا۔ ائمۂ حدیث وفقہ نے اصحاب رسولؓ سے لیا۔ ائمۂ حدیث نے الفاظِ رسولؐ    کو حکایت کیا۔ ائمۂ فقہ نے استنباط واستخراج کیا۔ آج بھی اگر کوئی نئی صورت، نیا مسئلہ پیش آتا ہے تو علماء راسخین اجتہاد کریںگے، مگر کیا ہر فزکس پڑھا آدمی جسے عربی کی ابجد بھی نہ آتی ہو، قرآن وحدیث سے استنباط کرسکتا ہے؟ میں عربی لغت کا طالب علم کیا فزکس کا پریکٹیکل کروا سکتا ہوں؟ اگر نہیں اور یقینانہیں، تو قرآن وحدیث سے استنباط بھی علمائے راسخین اور فقہائے مجتہدین کریںگے اور یہ علماء وفقہاء بھی ائمہ خیر القرون اور اصحابؓ رسول کے اجتہادات کو نظر انداز کرکے رسول ااور پروردگارِ رسول تک ہرگز نہ پہنچ سکیں گے۔ اسی عمل کو استنباط واستخراج، تفقہ اور قیاس اور اسی کے ماننے کو ’’تقلید‘‘ کہتے ہیں۔
اگر آج کے دعویٰ کرنے والوں سے کہ وہ براہِ راست قرآن وحدیث سے اپنا دین لیتے ہیں، پوچھا جائے کہ آیا ان کے نظریہ کے سارے لوگ قرآن اور حدیث کو براہِ راست سمجھتے ہیں؟ کیا امت کے سارے لوگ عربی علوم اور نبوی علوم جانتے ہیں؟ تو جواب یقینا نفی میں ہوگا، وہ اپنے علماء ہی سے پوچھیں گے اور سمجھیں گے۔ علماء حدیث اور علماء فقہ سے پوچھنے اور اس پر عمل کا نام ہی تقلید ہے۔ عربی قواعد میں ایک علم کا نام’’ صرف‘‘ ہے، جس کی باریکیاں ایسی ہیں کہ مشہور ہوگیا: ’’دعا یدعو دے نَٹھے، ہل وہیندے ڈِٹھے‘‘ یعنی صرف ایک گردان ’’دعا یدعو ‘‘کے اندر اتنی تبدیلیاں اور باریکیاں ہیں کہ کئی طالب علم اُسے چھوڑ کر بھاگ جاتے اور جسمانی مشقت کا مشکل کام ہل چلانا اختیار کر لیتے۔ 
اب فیصلہ آپ حضرات پر ہے کہ فقہ وقیاس کی پکی پکائی روٹی لے لیں یا کاشت، برداشت، پھر ہاتھ اور منہ تک پہنچنے والے تمام مراحل وہ بھی بغیر عملی سکھلائی خود اختیار کر لیں۔
وہاں کچھ اور ہی اسلوب ہیں آواز دینے کے
وہاں پر میرے انجم، میری جاں، دستک نہیں دیتے

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین