بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تقریظ، تنقید اور تبصرہ نگاری پر ایک نظر (دوسری قسط)

تقریظ، تنقید اور تبصرہ نگاری پر ایک نظر

 

(دوسری قسط)


آداب و شرائطِ تقریظ 

مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ  (المتوفی:۱۴۲۹ھ) تقریظ و تقدیم کی اہمیت ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
’’وکذٰلک تقدیم کتاب لمؤلف معاصر أو عالم کبیر أو صدیق عزیز لیس عملًا تقلیدیًا یقوم بہ الکاتب أو تحقیقًا لرغبۃ المؤلف أو الناشر أو إرضائہٖ، إنہٗ شہادۃ و تزکیۃ و لہما أحکامہما و آدابہما و مسؤولیتہما۔‘‘
’’ (جاننا چاہیے کہ) کسی ہم عصر مؤلف یا کسی بڑے عالم یا کسی عزیز دوست کی تصنیف پر تقدیم کے کلمات لکھتے وقت ایسا رویہ ظاہر کرنا جو ظاہری رکھ رکھاؤ یا مؤلف و ناشر کی خواہش کی تکمیل یا اس کی رضامندی کا پیش خیمہ ہو (مناسب نہیں)، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تقدیم لکھنا ایک مستقل گواہی اور شہادت کی حیثیت رکھتا ہے ، چنانچہ اس کے اپنے احکام، آداب اور کچھ ذمہ داریاں ہیں۔‘‘
 اس کے بعد حضرتؒ نے تفصیل کے ساتھ تقدیم کے آداب و شرائط کو ذکر کیا ہے،(تقریظ و تقدیم کے ایک ہونے یا نہ ہونے سے متعلق تفصیل آئندہ صفحات میں آرہی ہے ) ذیل میں ہم درجہ بدرجہ ان کو ذکر کرتے ہیں :

۱:-حق کی گواہی

شہادۃ بالحق ، یعنی تقریظ نگار کو چاہیے کہ کتاب میں موجودہ مصدقہ مواد کی گواہی دے ، گویا کہ مقدم کی حیثیت ایک گواہ کی ہوتی ہیں۔

۲:- تصحیحِ کتاب وعلمی جائزہ

’’ تقویم للکتاب تقویمًا علمیًا‘‘ یعنی مُقدِّم علمی ناقد کی حیثیت سے کتاب کا علمی جائزہ لیتے ہوئے اس کی نوک پلک کو درست کردے ، جس کو علمی اصطلاح میں تصحیح الکتاب کا عمل بھی کہا جاتا ہے۔

۳:- موضوع سے متعلق مؤلف کی حیثیت اور واقفیت کی وضاحت

’’بیان مکانتہٖ فیما کتب و ألف في موضوعہ‘‘ یعنی مُقدِّم صاحبِ کتاب کے اختیار کردہ موضوع سے متعلق مؤلف کی حیثیت اور واقفیت کونمایاں کرے۔

۴:-کتاب کے موادکی تخریج میں صاحبِ کتاب کی کوشش

’’ومدی مجہود المؤلف في إخراج ہٰذا الکتاب‘‘ اس بات کی بھی وضاحت کردے کہ مواد کتاب کی تخریج میں صاحبِ کتاب کی کوششوں کی حدود کیا ہیں ؟ 

۵:-صاحبِ کتاب کی اپنے موضوع کی تحلیل میں کامیابی 

’’ونجاحہٗ في عملہ التالیفي أو التحقیقي‘‘نیز اس بات کی تصریح کرے کہ صاحبِ کتاب کو اپنے موضوع کی تحلیل میں کس قدر کامیابی ہوئی؟

۶:-موضوعِ کتاب، مقاصد، مؤلفِ کتاب کی زندگی، مصروفیات کی تصریح

اس کے بعد آگے چل کر حضرتؒ لکھتے ہیں : 
’’ولابد في التقدیم من زیادۃ معلومات و إلقاء أضواء علی موضوع الکتاب و مقاصدہٖ و علی حیاۃ المؤلف و مکانتہ بین العلما ء المعاصرین في عصرہٖ و مصرہٖ۔‘‘
’’ مُقدِّم اگر موضوع سے متعلق مفید معلومات بہم رکھتا ہو تو افادۂ عام کے لیے اس کو مستقل عنوان کے تحت تقریظ کا حصہ بنا دے ، نیز مزید یہ ہے کہ موضوعِ کتاب اور مقاصد کی بقدرِ ضرورت تصریح کردے، نیز مؤلفِ کتاب کی عام زندگی اور مصروفیات پر روشنی ڈالے، اور معاصرین اور اہلِ بلد کے ہاں صاحبِ کتاب کے علمی مقام اور شخصیت کو اُجاگر کردے۔‘‘

۷:-صاحبِ کتاب کے اندازِ فکر اور عقلی میلانات 

مزید فرماتے ہیں:
’’وعلی تکوینہ العقلي و نشوئہ العلمي و الدوافع التي دفعتہ إلی التالیف في ہٰذا الموضوع رغم وجود مکتبۃ واسعۃ في موضوعہ أو مجموعۃ من الکتب التي ألفت في ہٰذا الموضوع۔‘‘
’’اس کے ساتھ تقریظ نگار کی اہم ذمہ داری صاحبِ کتاب کے اندازِ فکر اور عقلی میلانات کے متعلق اس کی رائے کی نشاندہی کرنا ہے اور نیز اس ماحول کی وضاحت کرے جس میں مصنف کی علمی نشو ونما ہوئی، پھر یہ بھی بتائے کہ اگر اس مو ضوع پر پہلے سے کثیر مواد موجود تھا تو وہ کونسے اسباب تھے جس نے مصنف کو اس موضوع سے متعلق مزید عمل پر اُبھارا۔‘‘

۸:-مقدمہ لکھنے والا خود بھی باذوق ومحقق ہو

’’ولا بد من أن تکون بین المُقدم للکتاب و بین موضوعہ صلۃ علمیۃ أو ذوقیۃ أو دراسۃ وافیۃ للموضوع و ما ألف فیہ۔‘‘
’’ اس کے ساتھ خود مقدمہ لکھنے والے کے لیے اہم شرط یہ ہے کہ پیشِ نظر کتاب کے موضوع سے اس کا خاص علمی ربط ہو ، یا اس موضوع کا ذوق رکھتا ہو یا مذکورہ موضوع پر تحقیق و تالیف رکھتا ہو۔‘‘

۹:-صاحبِ کتاب اور تقریظ لکھنے والے کے درمیان باہمی علمی رشتہ ہو 

’’وارتباط وثیق کذٰلک بینہٗ و بین المؤلف یمکّنہ من الا طلاع علٰی ترکیبہٖ العقلي والعملي و العاطفي إذاکان الکتاب في موضوع علمي أو أدبي أو فکري أو دعوۃ۔‘‘ 
’’اسی طرح صاحبِ کتاب اور تقریظ لکھنے والے کے درمیان باہمی علمی رشتہ ہو، جس کی بنیاد پر تقریظ لکھنے والا مؤلف کتاب کے مکتبِ فکر ، علمی منہج اور نظریاتی میلانات کے ساخت وپرداخت کو جانتا ہو، خاص طور پر پیشِ نظر کتاب کسی علمی یا ادبی یا فکری یا کسی مصنف کی خاص رائے سے متعلق موضوع کے قبیل سے ہو۔‘‘

۱۰:- مُقدِّم کی طرف سے صاحبِ کتاب کا موضوع میں اخلاص واختصاص بیان کرنا

’’وعلی مدیٰ إخلاصہٖ لموضوعہ واختصاصہ و تفانیہ فیہ و رسوخہ في العلم و الدین و أخذہما من أصحاب الاختصاص فیہ المعترف بفضلہم إذا کان الکتاب في موضوع دیني کالتفسیر و الحدیث و الفقہ و ما إلٰی ذٰلک۔‘‘
’’اور اگر موضوعِ کتاب خاص دینی ہو، جیسے: تفسیر ، حدیث ، فقہ وغیرہ تو پھر مُقدِّم کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس بات کی بھی تصریح کرے کہ صاحبِ کتاب ا س موضوع میں کتنا مخلص ہے اور موضوع میں اختصاص کے ساتھ ساتھ رسوخ فی العلم و الدین اور ایسے شیوخ کا ہونا بھی شرط ہے جو اس مذکورہ فن میں اختصاص کا مقام رکھتے ہوں۔‘‘

۱۱:- کتاب کو پڑھ لینے کے بعد مقدمہ لکھنا ذمہ داری ہے

’’ویجب أن یکون ہٰذا التقدیم عن اندفاع و تجاوب و تحقیق لرغبۃ نشأت في نفس المقدم بعد قراء ۃ ہٰذا الکتاب تحضہ علٰی کتابۃ ہٰذا التقدیم و تحببت إلیہ المہمۃ و تیسرہا لہ بحیث إذا امتنع عنہا اعتبر نفسہ مقصرا فی أداء حق و إبداء مشاعر وانطباعات۔‘‘
آخری شرط کے طور پر فرماتے ہیں کہ:
’’ صاحبِ تقدیم‘ کتاب کو پڑھ لینے کے بعد مقدمہ لکھنے کو اپنی ذمہ داری سمجھے ، چنانچہ مہمات کی وضاحت کرے اور تقدیم نہ لکھنے کی صورت میں اپنے آپ کو علمی حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والا سمجھے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں : 
’’وقد یتحول من شہادۃ بالحق إلٰی سمسرۃ تجاریۃ أو قصیدۃ مدح فیفقد قیمتہ العملیۃ و الأدبیۃ و یتجرد من الحیاۃ و الروح۔‘‘
 ’’کبھی کبھار تقدیم و تقریظ کے ذریعے حق کی گواہی ادا کرنے کے بجائے تجارت اور باہمی لین دین کی شکل اختیار کی جاتی ہے ، چنانچہ کتاب کی علمی اور ادبی اہمیت گراوٹ کا شکار ہوجاتی ہے اور کتاب کی روح جاتی رہتی ہے۔‘‘
 راقم السطور کہتا ہے: خارج میں اس کی بے شمار نظیریں ملتی ہیں کہ مُقدِّم نے صرف صاحبِ کتاب کی ستائش کی خاطر مختصر یا طویل مدحیہ کلمات لکھ دئیے ، حالانکہ اصل کتاب جاندار تھی ،لیکن کما حقہ تقریظ یا تقدیم نہ لکھنے کے نتیجے میں اس کی حیثیت گم ہو کر رہ گئی، یا کتاب بے جان تھی، لیکن محض شہرت یا مالی نفع کے حصول کی خا طر مُقرّظ نے کتاب کے متعلق بے تحقیق آسمان و زمین کے قلابے ملائے کہ : ’’وأخفی حاجۃ في نفس یعقوب ما قضاہا۔‘‘ اسی کی توضیح کرتے ہوئے حضرتؒ فرماتے ہیں: 
’’ولایکون التقدیم مجموع کلمات تقریظ و مدح یمکن أن یحلی بہ جید أي کتاب إذا غیر اسمہ و اسم مؤلفہ۔‘‘                     (شخصیات و کتب: ۹،۱۰، دار القلم ) 
’’تقدیم صرف ایسے مدحیہ بے سرو پا کلمات پر مشتمل نہ ہو کہ اگر تقریظ سے موضوعِ کتاب اور صاحبِ کتاب کا نام ہٹادیا جائے تو وہ عامۃ الاستعمال بن جائیں۔‘‘ 
مندرجہ بالا تمام شرائط و آداب بظاہر حضرت مولانا ابو الحسن ندویؒ نے تقدیمِ کتاب کے لیے ذکر کیے ہیں ، اس میں تقریظِ کتاب کے حوالہ سے کوئی خاص بات موجود نہیں ہے، البتہ اس بابت چند گزارشات ذکر کرنا ضروری ہے : 
۱:- متقدمین کے ہاں تقدیمِ کتاب اور تقریظِ کتاب دو الگ الگ اصطلاحات ہیں، اس حوالہ سے تفصیل ان شاء اللہ! آگے ذکر کی جائے گی۔
۲:- متاخرین کے ہاں عموماً صاحبِ کتاب کی ستا ئش اور کتاب کے امتیازات و خصائص کو مختصر طور پر بیان کرنے کا نام تقریظ ہے ، جیسا کہ ما قبل میں گزرا ، البتہ اس اختصار کے باوجود متاخرین کے ہاں اس پر تقدیمِ کتاب کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے ، چنانچہ ڈاکٹر عبد اللہ احمد الیوسف اس بارے میں لکھتے ہیں : 
’’و قد درج بعض العلماء المعاصرین علی استخدام کلمۃ ’’التقدیم‘‘ بدلا من تقریظٍ و ہي تعطی نفس الدلالۃ۔‘‘      (فن صنا عۃ التقریظ : ۱۹) 
’’بعض ہم عصر علما ء نے تقدیمِ کتاب کی اصطلاح کو تقریظِ کتاب کی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کلماتِ تقدیم ‘تقریظ کا معنی ادا کرسکتے ہیں۔‘‘
۳:- کبھی کبھار تقریظِ کتاب موضوع سے متعلق جاندار مباحث اور تفصیلات کے باعث خاص منہج اختیار کرلیتی ہے، شیخ عبد اللہ احمد الیوسف اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
 ’’وربما تقویمًا للکتاب و مؤلفہ کما یفضل بعض المقرظین إعطاء رؤیتہ الخاصۃ حول موضوع الکتاب ، و ہوالأمر الذي یثري البحث الذي یتناولہ المؤلف في کتابہ۔‘‘
 ’’کبھی کبھار تقریظِ کتاب میں کتاب اور صاحبِ کتاب سے متعلق بعض اصلاحی امور پر مشتمل مباحث کو ذکر کیا جاتا ہے، جیسا کہ ہمارے زمانے کے بعض تقریظ لکھنے والوں نے کتاب کے موضوع سے متعلق دورانِ تقریظ اہم فکری مواد فراہم کیا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو صاحبِ کتاب کی ذکر کردہ معلومات پر مزید مباحث اور اضافہ فراہم کرتی ہے۔‘‘
 شیخ صاحب کی مذکورہ عبارت اور مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کی گزشتہ شرائط پر غور کرنے سے بآسانی یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ تقریظ محض مدح و ستائش کا نام ہے، لیکن یہ مدح بھر پور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ کی جائے ، نیز کتاب، صاحبِ کتاب او ر موضوعِ کتاب سے متعلق مفید اضافات تقریظ کو تقدیم میں بدل دیتے ہیں۔

تقریظ اور تقدیم میں فرق 

متقدمین کے ہاں تقریظ اور تقدیم میں کئی وجوہ سے فرق کیا جاتا ہے : 
۱:-تقریظ میں اختصار مدِ نظر ہوتا تھا۔
۲:- تقریظ کی تنسیج مقفی اور مشکل الفاظ پر ہوتی تھی، شیخ عبداللہ احمد الیوسف فرماتے ہیں: 
’’وقد شہدت صناعۃ التقریظ الکثیر من التطویر و الإبداع، ففي حین کانت مختصرۃ جدا وتصاغ بألفاظ صعبۃ اعتاد الأقدمون علی استعمالہا۔‘‘
 چنانچہ متقدمین کے ہاں تقریظ کا استعمال سب سے زیادہ آٹھویں اور نویں صدی ہجری میں ملتا ہے اور اس میں اختصار کے ساتھ لفاظی اور رعایتِ تقفیہ خاص طور پر پایا جاتا ہے۔
 ذیل میں اجمالاً اس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے : 
۱:-ابوعبد اللہ محمد بن محمد العلاء البخاری (المتوفی ۸۴۱ھ) ، جنہوں نے امام ابن تیمیہ ؒ  کوکافر ، بلکہ جس شخص نے ابن تیمیہؒ    کو شیخ الاسلام کہا ان کے بقول وہ بھی کافر ہے ، ان کے اس نا مناسب نظریہ کی تردید منجملہ دیگر علماء کے امام محمد بن عبد اللہ بن محمد بن ناصر الدین الدمشقی نے بھی کی ، چنانچہ انہوں نے مشہورِ زمانہ کتاب ’’الرد الوافر‘‘ تصنیف فرمائی اور ایک جماعتِ کثیرہ نے اس پر تقریظ لکھی ، اس کے متعلق علامہ سخاوی ؒ فرماتے ہیں:
’’وقد قرظ ہٰذا الکتاب غیر العیني جماعۃ من العلماء ، منہم ابن حجرؒ و البلقینيؒ و التفہنيؒ و البساطيؒ و المحب بن نصر اللّٰہ و خلق۔‘‘   (الضوء اللامع، ج:۸، ص:۱۰۴ ) 
گویا کہ ائمہ و مشایخ کی ایک بڑی جماعت نے اس کتاب کی تقریظ کی۔ مذکورہ تمام تقاریظ ’’الرد الوافر‘‘ میں موجود ہیں، اس وقت مذکورہ کتاب سے مقتبس شدہ تقاریظ ایک ورقہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں، جس میں حافظ ابن حجرؒ ، علامہ بلقینیؒ ، علامہ عینی ؒ کی تقریظات شامل ہیں، جو تمام ہی مختصر ہیں۔ (دیکھیے : الرد الوافر: ۱۵۷-۱۶۵) 
شواہد کی چھان پھٹک سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی زمانہ میں کتبِ علمیہ وتحقیقیہ پر لا تعداد تقاریظ کا رواج چل پڑا تھا، چنانچہ حافظ سخاوی ؒ نے ’’الضوء اللامع ، التبر المسبوک‘‘ اور ’’الذیل علٰی رفع الإصر‘‘ میں اس کی مثالیں جا بجا ذکر کی ہیں اور ’’الجواھر والدرر‘‘ میں تو امام سخاویؒ نے حافظ ابن حجر ؒ کی ذی شان تقاریظ کو ذکر کرتے ہوئے مستقل باب ’’البا ب السادس ، الفصل الأول في تقاریظہ البدیعۃ و ألفاظہ السہلۃ المنیعۃ۔‘‘ (الجواہر و الدرر، ج:۲، ص:۷۱۹) کے تحت کافی لمبی تفصیلی فہرست فراہم کی ہے۔                                                              (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین