بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تقریظ، تنقید اور تبصرہ نگاری پر ایک نظر (تیسری اور آخری قسط)

تقریظ، تنقید اور تبصرہ نگاری پر ایک نظر

 

 (تیسری اور آخری قسط)


تقریظ سے متعلق ایک فنی سوال اور اس کا جواب 

تقدیمِ کتاب کی جگہ مبدأ کتاب ہے اور اس کی بنیادی وجہ اس کا معنوی تقاضا ہے، چنانچہ اسلامی علوم و فنون سے متعلقہ تمام مشہور کتب میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں مقدمۂ کتاب کو مؤخر کیا گیا ہو، ہاں! ایسا ضرور ہوا ہے کہ بعض اوقات مقدمۂ کتاب کو اپنی علمی افادیت اور شان کی وجہ سے اصل کتاب سے علیحدہ کردیا گیا، جس کے نتیجے میں وہ مستقل کتاب کی حیثیت اختیار کرگیا، مثلاً ’’مقدمۃ ابن خلدون‘‘ للعلامۃ ابن خلدون (۸۰۸ھ) ، ’’الھدي الساري مقدمۃ فتح الباري‘‘ للحافظ ابن حجرؒ (۸۵۲ھ) ، ’’مقدمۃ شرح الجامي‘‘ لعبد الرحمن الجامیؒ (۸۹۸ھ) ، ’’مقدمۃ رد المحتار المعروف’’المقدمۃ الشامیۃ‘‘ لابن عابدین الشامیؒ (۱۲۵۲ھ) ، ’’مقدمۃ بذل المجھود‘‘ للعلامۃ خلیل احمد السہارنفوریؒ (۱۳۴۶ھ) ، ’’مقدمۃ تحفۃ الأحوذي‘‘ للعلامۃ عبدالرحمن المبارکپوریؒ (۱۳۵۳ھ) ، ’’مقدمۃ فتح الملہم المعروف بمبادیٔ في علوم الحدیث‘‘ للعلامۃ شبیر احمد العثماني ؒ(۱۳۶۹ھ) ، ’’إنہاء السَکَن مقدمۃ إعلاء السنن المعروف بقواعد في علوم الحدیث‘‘ للشیخ ظفر احمد العثمانيؒ (۱۳۹۴ھ) ، ’’عوارف المنن مقدمۃ معارف السنن‘‘ للعلامۃ یوسف البنوريؒ (۱۳۹۷ھ) وغیرہ شامل ہیں۔
لیکن تقریظِ کتاب سے متعلق یہ فنی سوال بہرحال پیدا ہوتا ہے کہ تقریظ کو مبدأ کتاب سے ہٹاکر کیا کتاب کے آخر میں لگایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ 
 اس کا جواب یہ ہے کہ تقریظِ کتاب کو عموماً مبدأ کتب میں ذکر کیا جاتا ہے، متقدمین و متاخرین کے ہاں یہ طرزِ عمل شائع وذائع ہے، البتہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریظ کو کبھی خاتمۃ الکتاب کے آس پاس بھی لگایا جاسکتا ہے ، ذیل میں اس سے متعلق چند شواہد پیشِ خدمت ہیں: 
۱:- ’’فتح البر بشرح بلوغ الوطر من مصطلحات أھل الأثر‘‘ لابی محمد عباس بن محمد الشافعیؒ المتوفی۱۳۲۱ ھ، اس کتاب کی تکمیل ۱۳۲۰ھ میں ہوئی۔ کتاب میں کل دس تقاریظ ہیں ، ایک تقریظ کتاب کے صدر غلاف پر ثبت ہے، جب کہ بقیہ نو تقاریظ کے متعلق شیخ ابراہیم نور السیف فرماتے ہیں :
’’ وختم في آخرہ بتسعۃ تقاریظ لعلماء الحرم النبوي۔‘‘ 
 (نخبۃ الفکر، دراسۃ عنھا و منہجہا: ۱۶۷، الناشر : الجامعۃ الاسلامیۃ المدینۃ المنورۃ) 
۲:- ’’رسالۃ کشف الدُّجٰی عن وجہ الربا‘‘ مؤلفہ : علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ ، یہ رسالہ ’’إعلاء السنن کتاب البیوع‘‘ کا حصہ بن چکا ہے، رسالہ میں مسئلہ سود سے متعلق ایک نایاب تحقیق مذکور ہے اور آخر میں حضرت عثمانی ؒ نے تائید حاصل کرنے کے لیے علماء عرب و عجم کی تقریباً اکیس تقاریظ کو ذکر کیا ہے۔ 
 ( اعلاء السنن، خاتمۃ الکتاب ،ج: ۱۴،ص: ۵۸۱-۶۰۹، ادارۃ القرآن) 
ان مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تقریظ کو اولِ کتاب کے بجائے آخرِ کتاب میں بھی لگایا جاسکتا ہے۔

کثرتِ تقاریظ سے متعلق علمائے عرب و عجم کا طریقہ کار 

کتاب کی ابتدا ء میں ایک کے بجائے لاتعداد تقاریظ سے متعلق علمائے عرب میں سے متقدمین کے ہاں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں ، بطور نمونہ چند ملاحظہ فرمائیں :
۱:- ’’فتح الباري‘‘ للحافظ ابن حجر ؒ المتوفی ۸۵۲ھ ، جوکہ صحیح البخاری کی بے نظیر شرح ہے ، اس کے متعلق علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں: ’’سمعت کثیرا من شیوخنا یقولون: شرح کتاب البخاري دَین علی الأمۃ‘‘ (مقدمہ ابن خلدون :۴۴۳) یعنی صحیح البخاری کی ایسی شرح جو کہ اس کے رجال اور فقہی دقائق کا صحیح حل پیش کرسکے، یہ بہرحال اُمتِ محمدیہ پر قرض ہے، لیکن اس قرض کی ادائیگی حافظ صاحب ؒ کے ہاتھوں سرانجام پائی ، چنانچہ حاجی خلیفہ صاحب ؒ فرماتے ہیں: ’’ ولعل ذلک الدَین قُضي بشرح المحقق ابن حجرؒ۔‘‘ (کشف الظنون ،ج: ۲،ص:۶۴۰ ) 
فتح الباری کی تکمیل کے بعد حافظ صاحبؒ نے جب کتاب کو علماء پر پیش کیا تو تقریباً چودہ علماء نے اس پر تقریظ لکھی، دو کے سوا باقی بارہ تقاریظ نثر کے بجائے نظم میں ڈھلی ہوئی تھیں۔  (ملاحظہ فرمائیں : فتح الباری ،ج: ۱۳،ص: ۵۴۸-۵۶۳) 
۲:-’’ السیرۃ المؤیدیۃ في سیرۃ الملک المؤید‘‘ لمحمد بن ناہض الکردی الحلبیؒ المتوفی: ۸۴۱ھ ، اس کتاب پر تقریباً سات علماء نے تقاریظ لکھی ہیں۔
 (تفصیل کے لیے دیکھیں : الذیل علی رفع الإصر ،ص: ۴۳۸-۴۴۰ ) 
۳:-’’الرد الوافر‘‘ جس کا ماقبل میں تفصیلی تذکرہ آچکا ہے ،چھ مشاہیر نے اس کی تقریظ لکھی ہے، جن میں حافظ ابن حجر ؒ ، علامہ بدر الدین عینی ؒ ، علامہ بلقینی ؒ ،علامہ تفھنی ؒ، علامہ بساطی ؒ اور علامہ محب بن نصر اللہؒ جیسی نابغۂ روزگار علمی شخصیات شامل ہیں۔ 
 (تفصیل کے لیے دیکھیے: الرد الوافر علی من زعم ان من قال: إن ابن تیمیۃ شیخ الاسلام فہو کافر، ۱۵۷، ماقبلہ ومابعدہ: ۱۶۵) 
البتہ متاخرین کے طرزِ عمل میں اس بابت تبدیلی کے حوالہ سے تفصیل درج ذیل ہے : 
۱:-عصرِ حاضر میں علماء عرب کے ہاں تقریظ کے حوالہ سے اہتمام تقریباً مفقود ہوتا جارہا ہے ، خصوصاً اس وقت عرب کے علمی طبقہ سے علوم الحدیث پر تحقیقات کرنے والے حضرات کی تحریرات میں تقریظ کی اصطلاح نظر نہیں آتی، البتہ کتاب اور صاحبِ کتاب کی علمی شان اور اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے مقالہ جات کے مبادی میں مشرفین کے قیمتی مدحیہ تبصرے وافر مقدار میں ضرور نظر آتے ہیں، جو یقینا اصطلاحِ تقریظ کے متبادل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۲:- عصرِ حاضر میں علمائے عرب کا ایک طبقہ وہ بھی ہے جو تقریظ کو اہمیت دیتا ہے، لیکن تقریظ اور تقدیم میں فرق نہیں کرتا، چنانچہ ایسی بہت سی علمی تحقیقات اس وقت منصہ شہود پر آچکی ہیں جس میں کلمات التقدیم یا التقدیم یا تقدیم فلان جیسے عنوانات ملتے ہیں ، حالانکہ ان عنوانات سے مقصود کتاب یا صاحبِ کتاب کی ستائش ہوتی ہے ، تو گویا کہ ان حضرات کے ہاں تقدیم اور تقریظ میں کوئی فرق نہیں۔
۳:-تیسرا طبقہ اُن حضرات کا ہے جو تقریظ و تقدیم میں فرق کا قائل ہے، اس کی بھی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ (بطور نظیر دیکھیے: ۱:- عمل أھل المدینہ ، دکتور احمد محمد نور سیف۔۲ :-الحدیث و المحدثون ، شیخ محمد محمد ابو زہرہ ،وغیرہما) 
۴:-عصرِ حاضر میں تقریظِ کتاب کا ایک جدید طریقہ مختلف علمی مجلات میں کتاب پر ہونے والے مدحیہ تبصرے بھی ہیں ، البتہ یہ طریقہ کار علماء عرب کے بجائے عجم میں کافی مقبول ہوتا جارہا ہے ، تبصرہ کے حوالہ سے عنقریب تفصیل آرہی ہے۔
۵:-اسی طرح عصرِ حاضر میں بعض علمائے عرب کے ہاں کتاب سے متعلق بعض مختصر مدحیہ کلمات کو تقریظ اور تفصیلی کلمات کو تقدیم سے تعبیر کیاجاتا ہے ، گویا کہ ان کے ہاں تقریظ اور تقدیم میںمعمولی فرق ہے۔

تقریظ بصورتِ نظم اور نثر
 

کتاب سے متعلق ستائشی کلمات عموماً نثر پر مشتمل ہوتے ہیں ، ماقبل میں ذکر کردہ کئی حوالہ جات اس کی مثالیں ہیں ، البتہ متقدمین کے ہاںنظمیہ تقر یظ کی مثالیں بھی کافی ملتی ہیں ، اس حوالہ سے درج ذیل عبارات ملاحظہ فرمائیں :
۱:- ’’نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر‘‘ للحافظ ابن حجر ؒ المتوفی:۸۵۲ ھ ، یہ کتاب اصولِ حدیث میں تقسیم کے طرز پر لکھی جانے والی بے نظیر کتاب ہے ، شیخ سراج الدین عمر بن محمد بن علی الجعبری ؒ نے حافظ ؒ کو مخاطب کرتے ہوئے چار اَبیات پر مشتمل تقریظی نظم لکھی ، جس کا مطلع کچھ یوں ہے:
’’أبدعت یا حبر في کل الفنون بما صنعت في العلم من بسط و مختصر۔‘‘
البتہ اس پر تذییل عصرِ حاضر میں استاذ خالد زیات نے کی ہے ، چنانچہ دکتور نور الدین عتر ان اشعار کے متعلق فرماتے ہیں : 
’’الأبیات الأربعۃ للشیخ سراج الدین یخاطب الحافظ ابن حجرؒ و أکملہا الأستاذ خالد الزیات حفظہ اللّٰہ۔‘‘ (مقدمۃ نزہۃ النظر، بتحقیق نور الدین عتر حفظہ اللہ) 
۲:- فتح البار ی کی تکمیل پر معاصرین کی تقریظات میں سے بارہ نظم میں تھیں، جیسا کہ ماقبل میں تفصیل سے آچکا۔
۳:-موجودہ دور میں عربی ادب کا ذوق رکھنے والے اہلِ علم کے ہاں بھی شعر کی صورت میں تقاریظ کا رُجحان پایا جاتا ہے ، جن میں کراچی کے معرو ف عربی ادیب مولانا رزین شاہ صاحب کا نام نمایاں ہے۔

تبصرہ 

’’ تبصرہ کسی چیز کی توضیح ، تفصیل اور تصریح پر بولا جاتاہے اور اصطلاحاً کسی چیز کی تخلیق سے متعلق اپنے خیالات پیش کرنا تبصرہ کہلاتا ہے۔‘‘ (فیروز اللغات :۲۰۳) 
واضح رہے کہ تبصرہ کرتے وقت کتاب کی خوبیوں کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے قابلِ نقد پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے، اختصارا ً تبصرہ سے متعلق چند اہم گزارشات پیشِ خدمت ہیں :
۱:-تبصرہ نگاری تنقید اور تقریظ کی درمیانی صورت ہے ، کیونکہ تنقید میں صرف معائب اور تقریظ میں صرف محاسن پیشِ نظر ہوتے ہیں، جبکہ تبصرہ دونوں سے مرکب ہوتا ہے۔
۲:-عصرِ حاضر میں تبصرہ نگاری ایک مستقل فن کی حیثیت اختیار کرچکی ہے، جو عموماً درج ذیل اُمور پر مشتمل ہوتی ہے :
۱:-مصنف کا تعارف۔ ۲:-موضوعِ کتاب کی اہمیت۔ ۳:-کتاب کے قابلِ تعریف پہلوؤں کا تذکرہ۔ ۴:-باعثِ نقض اور قابلِ توجہ اُمور پر تنقیدی کلام۔ ۵:-گاہ گاہ تبصرہ نگار کتاب کے موضوع سے متعلق دیگر کتب کے مقابلے میں اس کے علمی اور تحقیقی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور موضوع سے متعلق جہاں جہاں تشنگی محسوس ہو اس کی توضیح بھی کردیتا ہے ، لیکن بعض تبصرہ نگاروں کے ہا ں یہ طریقہ نہیں پایا جاتا۔ ۶:-۔کتاب کے صفحات اور حجم کا تذکرہ۔ ۷:-سنِ طباعت ، مقامِ طباعت ، محقق یا تخریج کرنے والے کے نام کے ساتھ ساتھ عموماً کتاب کی قیمت بھی ذکر کی جاتی ہے۔ ۸:-اور آخر میں افادۂ عامہ یا خاصہ کا تذکرہ ہوتا ہے۔
مزید یہ کہ اگر تبصرہ کسی کی سوانح پر ہو تو اس میں ادبیت، عنوانات ، ربطِ مضامین ، سلاستِ کلام اور مبالغہ آرائی یا عدمِ مبالغہ آرائی ، ساتھ ساتھ یہ کہ سوانح میں بنیاد سند ہے یا حوالہ ہے اور کیا سوانح نگار نے بے فائدہ واقعات کو ذکر کیا ہے یا نہیں اور مزید یہ کہ ترتیبِ کتاب کس درجہ کی ہے۔ یہ تمام اُمور بھی ملحوظ ہوتے ہیں۔
ان شرائط کی روشنی میں جو تبصرہ کیا جائے وہ تبصرہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا ، لیکن اگر صرف کتاب کے محاسن اور خوبیوں کو ہی گنوایا جائے اور قابلِ توجہ اور باعثِ نقض اُمور کی طرف التفات نہ کیا جائے تو اس صورت میں یہ اشتہار تو ہوسکتا ہے، تبصرہ کا اطلاق اس پر درست نہیں۔

کتابوں پر کیے گئے تبصروں کے بہترین مجموعہ جات

۱:-کتابوں پر تبصرہ کے حوالے سے سب سے پہلے جو مجموعہ مرتب کیا گیا، وہ ’’الفہرست‘‘ نامی کتاب ہے ، چنانچہ شیخ محمد شرف الدین اس حوالہ سے لکھتے ہیں :
’’ إن أول کتاب حسب ما نعلم یبحث عن کتب الأمم الموجود منھا بلغۃ العرب إلٰی عصر مولفہٖ (مؤلف کشف الظنون) وھو سنۃ سبع وسبعین و ثلاث مائۃ للھجرۃ، فہرست أبي الفرج محمد بن إسحاق المعروف بابن الندیم۔‘‘ 
 (مقدمہ کشف الظنون ،ج: ۱،ص:۵ ) 
یعنی ۳۷۷ہجری تک لکھی جانے والی کتب پر تبصرہ کے حوالے سے سب سے قدیم ترین کتاب ’’الفہرست لابن الندیم‘‘ ہے۔
۲:-تبصرہ برکتب کے حوالہ سے سب سے طویل اور اچھی کتاب ’’کشف الظنون عن أسامي الکتب و الفنون‘‘ ہے ، مصنف کا نام مصطفی آفندی المعروف بہ حاجی خلیفہ و کاتب چلپی (۱۰۶۷ھ) ہے۔ مذکورہ کتاب میں تقریباً پندرہ ہزار کتابوں کا تعارف کرایا گیا ہے ، اثناء تعارف کتابوں پر بیش بہا تبصرے بھی ملتے ہیں، کتاب کی اہمیت کے پیشِ نظر اب تک تقریباً ا س کے آٹھ ذیول لکھے جاچکے ہیں ، جن میںالف: ’’ التذکار الجامع للآثار‘‘ للعلامۃ حسین النبہانی (۱۰۹۶ھ) ب :’’ إیضاح المکنون في الذیل علٰی کشف الظنون‘‘ للعلامۃ اسماعیل باشا (۱۳۳۹ھ) ،ج: ’’السر المصون ذیل علٰی کشف الظنون‘‘ للشیخ جمیل بن مصطفی بن محمد حافظ (۱۳۵۲ھ) قابلِ ذکر ہیں۔
۳:- ’’معجم المطبوعات العربیۃ و المعربۃ‘‘ للشیخ یوسف سرکیس نامی کتاب اصلاً مطبوعات کی ایک وقیع فہرست فراہم کرنے کے لیے مرتب کی گئی ہے، لیکن کئی مقامات پر تعارفِ کتب اور تبصرے بھی کیے گئے ہیں، یہ کتاب مطبع سرکیس مصر سے چھپ چکی ہے۔
ان کتابوں میں غور و خوض کرنے سے بآسانی تبصرہ نگاری کے پیچ و خم سے واقفیت حاصل کی جاسکتی ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین