بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

بینات

 
 

تعوُّذات ۔۔۔ تعارف، اہمیت، فوائد


تعوُّذات 

تعارف، اہمیت، فوائد


ذخیرۂ احادیث کو دیکھا جائے تو ہر موقع و محل کے مناسب تعوذ پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عملی اہتمام کو دیکھ پڑھ کر قاری، حیرانگی اور تعجب میں پڑجاتا ہے کہ آخر کیا سبب ہے کہ تعوُّذات‘ اس قدر اہمیت کے حامل رہے ہیں کہ جنہیں صبح وشام کے وقت، سونے جاگنے، برا خواب دیکھنے ، بیمار کی بیمارپرسی ، غیض وغضب سے دو چار ہونے، وساوس کی بندش کو توڑنے ، سفر کی روانگی، کسی جگہ پڑاؤ، گھر سے خروج، بازار جانے، کوئی چیز خریدنے، بیماری یا بخار میں مبتلا ہونے، سخت آندھی چلنے کے مواقع کے علاوہ نماز کے دوران اور نماز کے بعد پڑھنے کا خاص حکم ہے۔ اور اسی طرح مصائبِ دنیویہ جیسے: برص، جنون، جذام، ذلت، پریشانی، غم، لاچارگی، قرض، فقروفاقہ، بڑھاپے اور ہرقسم کے ناگہانی آفات کے ساتھ ساتھ اُخروی مصائب، مثلاً: نفاق، کفر، شرک، گمراہی، برے اعمال، برے ساتھی اور برے پڑوسی سے مخصوص استعاذہ کا وارد ہونا بھی آدمی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ تعوُّذ کے معنی میں ذرا سا غور کیا جائے اور اس کی حکمتوں کو سوچا جائے، تو ساری حیرانگی، اللہ کی قدرتِ کاملہ کا استحضارکرتےہوئے اپنی بے بسی، لاچارگی اور کمزوری سے بدل جاتی ہےکہ انسان کسی بھی آفت، حادثہ یا دشمن کے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتا ہے، بلکہ وہ ہرآن، ہرگھڑی، ہر لمحہ اور ہر مصیبت، آفت کے وقت اللہ تعالیٰ کی کامل احتیاج رکھتا ہے، چنانچہ علامہ راغب اصفہانی  ؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’المفردات‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:
’’العَوْذ‘‘ دوسرے کی پناہ میں رہنے اور اس کے ساتھ لگے رہنے کو کہتےہیں اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان لیا گیا ہے: ’’أَعُوْذُ بِاللہِ أَنْ أَکُوْنَ مِنَ الْجَاہِلِيْن۔‘‘
اس سے معلوم ہوتاہے کہ تعوُّذکی وضع، اللہ کی طرف التجاء ہے، مگر حافظ ابنِ کثیر  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک اور نکتہ تحریر فرمایا، جس سے ظاہرہوتا ہے کہ تعوُّذات کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع، اِنابت اور متوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی لاچارگی، بے بسی اور کمزوری کا اظہار بھی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ: کلام عرب میں پناہ پکڑنے کےلیے دو قسم کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں: ۱- الْعَوْذُ ، ۲- اللَّوْذُ،مگر ان دونوں کے درمیان ایک باریک فرق ہے، جس سے استعاذہ کا مقصد مزید واضح ہوجاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ لفظ ’’لوذ‘‘ کسی کی پناہ میں اپنے فائدہ کے تحت آنے کو کہتے ہیں، جبکہ ’’عوذ‘‘ اپنے آپ کو شر سے بچانے کے لیے کسی کی پناہ پکڑنے کو کہتے ہیں، اورمتنبی کے درج ذیل شعر سے بھی اس فرق کی جھلک نظر آجاتی ہے:
يَــا مَــنْ اَلُــوْذُ بِــہٖ فِيْمَا اُؤمِّلُہٗ

مَــنْ اَعُوْذُ بِہٖ مِمَّنْ اُحَــاذِرُہٗ
لَا يَجْبُرُ النَّاسُ عَظْماً اَنْتَ کَاسِرُہٗ

لَايَہِيْضُوْنَ عَظْماً اَنْتَ جَابِرُہٗ
مفہوم: ’’اے وہ ذات! جو میری آرزوؤں کا مرکز ہے اور جو میرے لیے بچاؤ اور پناہ کا ذریعہ ہے۔ جس ہڈی کو آپ توڑنا چاہیں توکوئی اسے جوڑ نہیں سکتا اور جسے آپ جوڑنا چاہیں، اسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔‘‘
حافظ ابن کثیر  رحمۃ اللہ علیہ  نے استعاذہ کےلطائف بیان کرتےہوئے مقصد کو مزیدواضح کردیا:
’’وَمِنْ لَطَائِفِ الِاسْتِعَاذَۃِ اَنَّہَا طَہَارَۃٌ لِلْفَمِ مِمَّا کَانَ يَتَعَاطَاہُ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَتَطْيِيْبٌ لَہٗ وَہُوَ لِتِلَاوَۃِ کَلَامِ اللہِ وَہِيَ اسْتِعَانَۃٌ بِاللہِ وَاعْتِرَافٌ لَہٗ بِالْقُدْرَۃِ وَلِلْعَبْدِ بِالضَّعْفِ وَالْعَجْزِ عَنْ مُقَاوَمَۃِ ہٰذَا الْعَدُوِّ الْمُبِيْنِ الْبَاطِنِيِّ الَّذِيْ لَا يَقْدِرُ عَلٰی مَنْعِہٖ وَدَفْعِہٖ إِلَّا اللہُ الَّذِيْ خَلَقَہٗ وَلَا يَقْبَلُ مُصَانَعَۃً وَلَا يُدَارَی بِالْإِحْسَانِ۔‘‘  (تفسیر الاستعاذۃ وأحکامہا: ۱/۱۴، ط: مکتبۃ العلوم و الحکم)
’’ استعاذہ میں مشغول رہنے سے زبان ہرقسم کے بےہودہ اور بےکار مشاغل سے دور ہوکر پاکیزہ رہتی ہے اور کلام اللہ کی تلاوت کے لیے تیار رہتی ہے، بلکہ استعاذہ میں اللہ کی مدد مانگنے اور ان کی قدرت ِ کاملہ کا اعتراف کرنے کےساتھ ساتھ اپنی لاچارگی اور اپنے اُس کھلم کھلا، آنکھوں سے اوجھل دشمن کے مقابلہ سے ناتوانی کا اظہار بھی ہے، جس کے پچھاڑنے کی طاقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جس نے اسے پیدا کیا، جس کے یہاں نہ تصنع کا اعتبار ہےاورنہ کاسا لیسی کا۔‘‘
البتہ اگر کسی کے ذہن میں یہ آجائے کہ ہر ’’مستعاذ منہ‘‘ یعنی ہر وہ چیز جس سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے رب کی پناہ مانگی ہے، وہ ہر حال میں مصیبت اور وبال ہی ہے، تو اس حوالہ سے جان لینا چاہیےکہ ہر مستعاذ منہ مصیبت یا وبال نہیں ہے، بلکہ یہ خیال حقیقت سے کوسوں دور ہے؛ کیونکہ ایک جانب اگرغیرطبعی یا ناگہانی موت سے پناہ مانگی گئی ہے، تو دوسری طرف اسے شہادت بھی کہا گیا ہے، چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری -رحمہ اللہ- نے مذکورہ مسئلہ کو اپنے اَمالی (العرف الشذي) میں سوال و جواب کی شکل میں بیان کیا، جسے ہم من وعن نقل کرتے ہیں، کیونکہ اس میں پناہ لینے کی حکمت کا بھی ذکر ہے:
’’وإن قيل: إن في أبي داود الاستعاذۃ من الموت مفاجأۃ، والحال أن الحديث ينبئ بأن الموت فجاءۃ شہادۃ، قلنا: إن الشريعۃ تأمر بالاستعاذۃ کيلا يفوت الرجل الوصيۃ وغيرہا من أمور الشريعۃ، وأما لو ابتلي ومات بالموت فجاءۃ فيکون شہيداً۔‘‘  (أبواب الجنائز، باب ما جاء في الشہداء من ہم؟ ۱/۴۶۹، ط: الطاف اینڈ سنز)
’’اگر کوئی کہے کہ ابو داؤد شریف میں ناگہانی موت سےپناہ مانگی گئی ہے، جبکہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگہانی موت شہادت ہے، تو ہم کہیں گے کہ شریعت پناہ مانگنے کا حکم دیتی ہے،تاکہ وصیت یا معاملاتِ شرعیہ فوت نہ ہوں، باقی ناگہانی طور پر انتقال کر جائے، تو وہ شہید شمار ہوگا۔‘‘
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ حافظ الدنیا حافظ ابن حجر نفعنا اللہ بعلومہٖ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’فتح الباري‘‘ میں ایک حدیث کی ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت لکھتے ہوئے استعاذہ بالغیر کا حکم بیان کیا کہ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی پناہ پکڑنا درست نہیں، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:
’’لٰکِنَّہٗ لَا يُسْتَعَاذُ إِلَّا بِاللہِ اَوْ بِصِفَۃٍ مِنْ صِفَاتِ ذَاتِہٖ وَخَفِيَ ہٰذَا عَلَی بْنِ التِّيْنِ فَقَالَ: لَيْسَ فِيْہِ جَوَازُ الْحَلِفِ بِالصِّفَۃِ کَمَا بَوَّبَ عَلَيْہِ ثُمَّ وَجَدْتُ فِيْ حَاشِيَۃِ بْنِ الْمُـنِيْرِ مَا نَصُّہٗ قَوْلُہٗ اَعُوْذُ بِعِزَّتِکَ دُعَاءٌ وَلَيْسَ بِقَسَمٍ وَلَکِنَّہٗ لَمَّـا کَانَ الْمُـقَرَّرُ اَنَّہٗ لَا يُسْتَعَاذُ إِلَّا بِالْقَدِيْمِ ثَبَتَ بِہٰذَا اَنَّ الْعِزَّۃَ مِنَ الصِّفَاتِ الْقَدِيْمَۃِ لَا مِنْ صِفَۃِ الْفِعْلِ فَتَنْعَقِدُ الْيَمِيْنُ بِہَا۔‘‘ (کتاب الأيمان و النذور، باب الحلف بعزۃ اللہ وصفاتہ وکلماتہ: ۱۱/۶۱۷، ط:دار الحديث)
’’ پناہ صرف اللہ تعالیٰ یا اس کی صفاتِ ذاتیہ میں کسی صفت کی لی جاسکتی ہےاور ابن تین ؒ پر یہی مخفی رہا تو انہوں نے کہا کہ حدیث میں صفت کے ذریعہ قسم کھانے کی بات نہیں، جیساکہ قائم کردہ باب سے معلوم ہورہا ہے ۔پھرمیں نے ابن منیر ؒ کے حاشیہ میں دیکھاکہ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’أعوذ بعزتک‘‘ دعا ہے، قسم نہیں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ پناہ صرف قدیم کی لی جاتی ہے، تو یہ ثابت ہوا کہ عزت اللہ کی صفاتِ قدیمہ میں سے ہے نہ کہ صفاتِ فعل میں سے، لہٰذا اس سے قسم منعقد ہوجاتی ہے۔‘‘
غالباً انہی اقوال کی بنا پر ہمارے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف افشانی صاحب مد ظلہم اکثر اپنے بیانات میں فرمایا کرتے ہیں کہ: ’’أعوذ باللہ پڑھنے کا مطلب یہ ہےکہ بندہ اپنے آپ کو دنیاوی اور اُخروی ہر قسم کے مصائب سےنکال کر اللہ تعالیٰ کے مضبوط قلعہ میں پناہ گزین بنادیتا ہے۔‘‘
انسان کے خمیر میں چوں کہ یہ بات ہے کہ عموماً مطلب اور فائدہ کے بغیر وہ کسی کام کا اقدام نہیں کرتا، اسی لیےہم اپنے مضمون کے آخر میں استعاذہ کے چند فوائد ذکر کرتے ہیں:
1-علامہ ابن قیم  ؒ نے تعوُّذات اور دیگر اذکار کے فوائد تحریر کرتے ہوئےایک عمدہ فائدہ بیان کیا ہے کہ دوائیاں تب ہی فائدہ اور سود مند ہیں، جب پہلے سے بیماری نے آکر نقصان سے دوچار کیا ہو، جبکہ تعوُّذ کا کمال اور فائدہ یہ ہے کہ یہ بیماری کے اسباب اور انسان کےدرمیان سدِسکندری کی طرح حائل بن جاتی ہے، بہرحال علامہ موصوف کا مطلب یہ ہے کہ تعوُّذات مرض کے خاتمہ، مرض سے پیشگی حفاظت اور صحت کے برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور دلائل سے اپنی بات کو ثابت کیا، جیسا کہ علامہ کی عادت ہے:
’’وَاعْلَمْ اَنَّ الْأدْوِيَۃَ الطَّبِيْعِيَّۃَ الْإِلٰہِيَّۃَ تَنْفَعُ مِنَ الدَّاءِ بَعْدَ حُصُوْلِہٖ، وَتَمْنَعُ مِنْ وُقُوْعِہٖ، وَإِنْ وَقَعَ لَمْ يَقَعْ وُقُوْعًا مُضِرًّا، وَإِنْ کَانَ مُوْذِيًا، وَالْأدْوِيَۃُ الطَّبِيْعِيَّۃُ إِنَّمَا تَنْفَعُ بَعْدَ حُصُوْلِ الدَّاءِ، فَالتَّعَوُّذَاتُ وَالْأذْکَارُ إِمَّا اَنْ تَمْنَعَ وُقُوْعَ ہٰذِہِ الْأسْبَابِ، وَإِمَّا اَنْ تَحُوْلَ بَيْنَہَا وَبَيْنَ کَمَالِ تَأثِيْرِہَا بِحَسَبِ کَمَالِ التَّعَوُّذِ وَقُوَّتِہٖ وَضَعْفِہٖ، فَالرُّقَی وَالْعُوَذُ تُسْتَعْمَلُ لِحِفْظِ الصِّحَّۃِ، وَلِإِزَالَۃِ الْمَـرَضِ۔‘‘  (زاد المعاد، فصل في ہديہٖ في علاج لدغ العقرب بالرقيۃ: ۴/۱۸۶، ط: دار الکتب العلميۃ)
2-علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ہی نے اپنی مشہور شہرہ آفاق کتاب ’’مدارج السالکین‘‘ میں تعوُّذات کی اہمیت و وقعت کو فوائد کی شکل میں تحریر فرمایا کہ اس آدمی پر لازم ہے جو دنیوی اور اُخروی مصائب سےاپنی حفاظت کا خواہاں ہےکہ وہ ہمہ وقت قلعہ بند اورزرہ زیبِ تن رکھے، یعنی وہ تعوُّذات نبویہ کی پاپندی کرے:
’’فَحَقٌّ عَلٰی مَنْ اَرَادَ حِفْظَ نَفْسِہٖ وَحِمَايَتَہَا اَنْ لَّا يَزَالَ مُتَدَرِّعًا مُتَحَصِّنًا لَابِسًا اَدَاۃَ الْحَرْبِ مُوَاظِبًا عَلٰی اَوْرَادِ التَّعَوُّذَاتِ وَالتَّحْصِيْنَاتِ النَّبَوِيَّۃِ الَّتِيْ فِي الْقُرْآنِ وَالَّتِيْ فِي السُّنَّۃِ۔‘‘ (مدارج السالکين، فصل في مشاہد الخلق في المعصيۃ، المشہد الأول مشہد الحيوانيۃ: ۱/۴۰۴، ط:دار الکتاب العربي)
3- نضرۃ النعیممیں استعاذہ کی مسلسل پابندی کے چودہ فوائد بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے چند ہم قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں:
۱- استعاذہ نفس کی راحت وسکون کا سبب ہے۔ ۲- استعاذہ سے اللہ پر توکل کی صفت پیدا ہوتی ہے۔۳- استعاذہ کی دعاؤں سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ ۴- استعاذہ شیطان سے بچنے کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہے۔ ۵- استعاذہ سے انسان اپنے اعضاء کے شرور سے محفوظ رہتا ہے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین