بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

تعلیمی اداروں میں سزا کا اسلامی تصور

تعلیمی اداروں میں سزا کا اسلامی تصور

    تعلیمی اداروں میں تعلیم کے لیے تشدد اورمارپیٹ کاتصور بہت شدید قسم کی وابستگی رکھتاہے، لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ سخت مار کے بغیر بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ ایک غلط تصور ہے، اس سے بچے کو تعلیم سے نفرت بھی ہوسکتی ہے اور تعلیمی سلسلے کو ادھورا چھوڑ کر بھاگ بھی جاتے ہیں۔      درس وتدریس کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات یہ ہیں کہ آپ نرم خوئی اوررحم دلی سے کام لیں اوردرشت مزاجی سے گریز کریں۔ اللہ تعالیٰ پیغمبر m کو فرماتے ہیں: ’’فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ، وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔‘‘(۱) ’’پس اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر آپ لوگوں کے لیے نرم خوہوگئے اور اگر آپ درشت مزاج اور سخت دل ہوتے تویہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔‘‘ اسی طرح پیغمبر m کا ارشاد ہے کہ: ’’میں ہر معاملہ میںآسانی کرنے والا استاذ بنا کر بھیجا گیا ہوں  ۔‘‘(۲)     ان واضح ارشادات کی روشنی میں تعلیم کومارنے سے نہیں، بلکہ پیار سے عام کرنے کی ضرورت ہے۔  آج المیہ یہ ہے کہ بعض اساتذہ بچوں کو بڑی بے رحمی سے مارتے ہیں اورجب چھڑی اٹھاتے ہیں توپھر روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیتے ہیں، ان کواس وقت کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ چھڑی بچے کے جسم پر کہاں لگ رہی ہے، اس سے نقصان کا کس قدر اندیشہ ہے۔ بعض اساتذہ کو دیکھاگیاہے کہ وہ بچوں کی ہڈی پر زور زور سے چھڑیاں مارتے ہیں ، بچوں کو تھپڑ، مکے، گھونسے اور لاتیں مارتے ہیں۔ بچوں کے ہاتھ پائوں کو بے دردی سے مروڑتے ہیں۔ یہ سب چیزیں قرآن وسنت، خلف وسلف کے افکار اور فقہ اسلامی کے سراسر خلاف ہیں۔     یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ طلباء کرام کو جرائم پر سزادی جاسکتی ہے۔ اس طرح علم وادب سکھانے کے لیے بھی بقدرِ ضرورت سزا کی اجازت ہے، جس کے لیے شریعت نے حد مقرر کی ہے۔ جرائم پر سزا کاتصور قرآن نے تسلیم کیاہواہے، مثلاً خاوند کو اجازت ہے کہ وہ اپنی بیوی کو تعظیم کے دائرے میں رکھے۔ نفسیاتی سزا کے طورپر اس سے ہم بستری نہ کرے۔ اگر نفسیاتی سزا بے اثر ہوتی ہے تو اُسے معمولی طور پر جسمانی سزا دے سکتا ہے۔ باپ کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ بچوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے مارے۔ اس معاملہ میں جس حدیث کا حوالہ آتاہے اس کے مطابق بچوں کو سات سال کی عمر میں کہنا چاہیے کہ وہ نمازپڑھیں اوردس سال کی عمر میں انہیں مارنے کا بھی حق ہے۔ شارحین حدیث نے اس  حدیث سے یہ استدلال کیاہے کہ بچوں کوتعلیمی اداروں میں مارنا اسلامی تعلیمات سے روگردانی نہیں ہے، البتہ کڑی سزا اور بچوں کو مرعوب کرنے کے لیے موقع بہ موقع ڈنڈا چلانا مضر اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ سزا فقہ اسلامی کی روشنی میں     فقہ اسلامی میں یہ تصریح موجود ہے کہ اساتذہ کی اول ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ اپنے شاگردوں کو بہت شفقت سے پڑھانے کااہتمام کریں، وقتاً فوقتاً ان کو ترغیب دینے اورشوق دلانے کا سلسلہ رکھیں۔ اگر کبھی غلطی ہوجائے توزبانی سمجھانے کی کوشش کریں۔ اگر سمجھانا مفید نہ ہو تو زبانی تنبیہ کریں، کچھ ڈانٹ پلادیں (لیکن تنبیہ اورڈانٹ میں غیر مہذب کلمات استعمال کرنے سے اجتناب کریں) اگر یہ بھی مفید نہ ہو تو پھر بوقت ِضرورت بقدرِ ضرورت سزادینے کی بھی گنجائش ہے، مگر سزا دینے میں چند باتوں کی احتیاط کی جائے:     ۱:۔۔۔۔۔ اتنا نہ مارا جائے کہ جسم پر کوئی گہرا نشان ہوجائے۔ علامہ حصفکی v فرماتے ہیں :  ’’إذا ضرب المعلم الصبی ضربًا فاحشًا فإنہ یعزر و یضمنہ لومات ۔‘‘ (۳) ’’جب استاد بچے کو سخت مارے تواس استاد کو تعزیرکی جائے گی، اگر بچہ مر گیا تووہ اس کا ضامن ہوگا ۔‘‘     علامہ ابن عابدین v فرماتے ہیں: ’’ لیس لہ أن یضربھا فی التأدیب ضربًا فاحشًا وھوالذی یکسر العظم أویحرق الجلد أو یسوّدہٗ۔‘‘(۴) ’’استاد کے لیے یہ جائز نہیں کہ شاگرد کو ادب دلانے کے لیے سخت مارے ، سخت مارنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ہڈی ٹوٹے، کھال اُکھڑے یا کھال سیاہ ہوجائے۔‘‘     ۲:۔۔۔۔۔ سزابچے کے تحمل سے زیادہ نہ ہو، نبی کریم a نے ایک معلم سے فرمایا : ’’إیّاک أن تضرب فوق الثلاث فإنک إذا ضربتَ فوق الثالث اقتص اللّٰہُ منک۔‘‘ (۵) ’’تین ضرب سے زیادہ مت مارو، اگر تم تین ضرب سے زیادہ ماروگے تو اللہ تعالیٰ تم سے قصاص لے گا۔‘‘     ۳:۔۔۔۔۔ چہرے پر نہ مارا جائے۔ رسول اللہ a نے چہرے پر مارنے سے منع فرمایاہے۔ ملا علی قاری v فرماتے ہیں کہ: چہرے پر مارنے کی ممانعت اس وجہ سے ہوئی ہے کہ یہ اعظم الاعضاء ہے اوراجزاء شریفہ اورلطیفہ پر مشتمل ہے، اگر کسی نے چہرے پر تھپڑ مارا تواس پر ضمان لازم ہے، جیساکہ علامہ ابن عابدین vنے اس بات پر تصریح کی ہے: ’’ فلوضربہٗ علی الوجہ أوعلٰی المذاکیر یجب الضمان بلاخلاف ۔‘‘ (۶) ’’اگر کسی کو چہرے پر مارا یا اندام مخصوصہ پر تواس پر بغیر کسی خلاف کے ضمان واجب ہوگی۔‘‘     ۴:۔۔۔۔۔بلاقصور نہ ماراجائے۔ اگر کسی استاد نے بلاقصور بچے کومارا تویہی استاذ سزا پانے کے قابل ہے۔ شامی میں ہے: ’’إذا ضربھا بغیر حق  وجب علیہ التعزیر وإن لم یکن فاحشا۔‘‘ (۷) ’’جب (بچے) کو بغیر قصور مارا تواس پر تعزیر واجب ہوگی، اگر چہ اس نے سخت نہیں ماراہو۔‘‘     درمختار کے اس قول ’’ لہٗ إکراہ طفلہ علی تعلیم القرآن وأدب وعلم ‘‘ سے معلوم ہوتاہے کہ بدتمیزی کرنا اور سبق میں کوتاہی کرنا دونوں قصور ہیں جن کی وجہ سے بچوں کوسزا دینا جائز ہے۔     ۵:۔۔۔۔۔ سزا ضربِ معتاد سے زیادہ نہ ہو خواہ کیفاً ہو (جیسے بچے کو الٹا مارنا) خواہ کماً ہو (جیسے تین ضربوں سے زیادہ مارنا)خواہ محلاً ہو (جیسے چہرے اوراندام مخصوصہ پر مارنا) شامی میں ہے کہ اگر کسی نے ضرب معتاد سے زیادہ مارا تواس پر ضمان واجب ہوگا۔ سزا اورجدید تعلیمی نفسیات کی تحقیق      جدید تعلیمی نفسیات کی تحقیق سے ثابت ہوتاہے کہ طلبہ کو اخلاقی جرائم پر سزا دی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ جسمانی سزا طلبہ کے تعلیمی عمل پر بُرا اثر ڈالتی ہے، لہٰذا حتیٰ الامکان جسمانی سزا سے معلم گریز کرے۔ سزا طالب علم کی عزتِ نفس اورخودداری مجروح کرتی ہے۔ استاد کے خلاف نفرت پیداکرتی ہے اوربسااوقات طالب علم سلسلۂ تعلیم ہی ختم کردیتاہے، لہٰذا استاد کو بچوں کی نفسیات سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے۔ اما م غزالی v فرماتے ہیں کہ: تدریس کے دوران استاد کو طالب علم کی نفسیات کے مطابق اپنے تدریسی امور سرانجام دینے چاہئیں۔ مسلمان مفکرین: تعلیم اور سزا ۱:۔۔۔۔۔ ابن خلدون ؒ     خوب یاد رکھیے! تعلیم کے سلسلے میں بے جا مارپیٹ اورڈانٹ ڈپٹ مضر ہے، خصوصاً چھوٹے بچوں کے حق میں، کیونکہ یہ استاد کی نااہلی اورغلط تربیت کی نشانی ہے۔ جن کی نشوونما ڈانٹ ڈپٹ اور قہر وتشدد سے ہوتی ہے، خواہ وہ پڑھنے والے بچے ہوں یا لونڈی غلام یا نوکر چاکر، ان کے دل ودماغ پر استاد کاقہر ہی چھایاہوتاہے۔ بے چاروں کی طبیعت بجھ کر رہ جاتی ہے، امنگ وحوصلہ پست ہوجاتاہے، شوق ودلچسپی جاتی رہتی ہے اورطبیعت میں مستی پیداہوجاتی ہے، بلکہ بعض اوقات تودماغ معطل ہوکر رہ جاتا ہے۔ تشدد سے جھوٹ اور بدباطنی پیدا ہوتی ہے اور خود داری سلب ہوجاتی ہے، گویا جبر وتشدد بچوں کومکروفریب اوردغابازی کی تعلیم دیتاہے۔ (۸) ۲… امام غزالیv     استاد کو بچوں کی بدسلوکی پرنصیحت کرنا چاہیے، لیکن سزا کے معاملے میں اُسے کھلے عام اورطوالت سے پرہیز کرنا ہوگا، کیونکہ اس سے طالب علم اور استاذ کے درمیان احترام کا پردہ ہٹ جاتا ہے۔(۹) ۳… ابن حجر v     استاذ کو کڑی سزا دینے کا حق نہیں، تاوقتیکہ وہ اس کے والد یا سرپرست سے اجازت نہیں لے لیتا۔(۱۰) ۴… معلم تیونس Al.Qalishi     استاد صاحب ناراض ہو تواس حالت میں اس کو مارنا نہیں چاہیے، کیونکہ ایسے موقع پر اس کے ذاتی احساسات حالات کو مسخ کرسکتے ہیں۔ اسی معلم نے ایک اور اصول پر زور دیاہے، وہ یہ ہے کہ استاذ کو ذاتی وجوہات کی بنا پر سزا نہیں دینی چاہیے۔(۱۱) ۱:۔۔۔۔۔  آل عمران:۱۵۹۔        ۲:۔۔۔۔۔مسلم،ج:۲،ص:۱۱۰۴۔        ۳:۔۔۔۔۔ الدرالمختار، ج:۴، ص:۷۹، دارالفکر بیروت۔ ۴:۔۔۔۔۔رد المحتار، ج:۴،ص:۷۹۔    ۵:۔۔۔۔۔ بحوالہ ردالمحتار،ج: ۶،ص:۴۲۶۔    ۶:۔۔۔۔۔رد المحتار، ج:۶،ص:۵۶۶۔ ۷:۔۔۔۔۔ فتاویٰ شامی، ج:۴،ص:۷۹۔                ۸:۔۔۔۔۔ مقدمہ ابن خلدون، حصہ دوم، ص:۴۶۵۔ ۹:۔۔۔۔۔اردو ترجمہ اسلامک سسٹم آف ایجوکیشن ، ط:مجید بک ڈپو،لاہور،ص:۳۷۳ تا ۴۲۳۔               ۱۰:۔۔۔۔۔ایضاً۔            ۱۱:۔۔۔۔۔ایضاً۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین