بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تعلیم وتربیت: چالیس روزہ دینی و اخلاقی تربیتی کورس ( چند اہم نکات )

تعلیم وتربیت: چالیس روزہ دینی و اخلاقی تربیتی کورس                  چند اہم نکات

    انسان جسم وروح کا مرکب ہے اور کامل مسلمان وہی ہوسکتا ہے جو اپنے ظاہر کے ساتھ باطنی تعمیر و ترقی کے لیے بھی فکر مند ہو ، جب کہ باطنی و روحانی ارتقاء کا مدار سنت ِنبویہ اور شریعت ِاسلامیہ کے مطابق عمل پر ہے، اس لیے ایک مسلم معاشرے کے قیام کے لیے تمام افراد کا دینی مزاج و مذاق سے ہم آہنگ ہونا اور شرعی احکام سے آراستہ ہونا لازمی ہے ۔ بچے اور نوجوان کسی بھی معاشرے کی بنیادی اِکائی کی حیثیت رکھتے ہیں، جس پر سوسائٹی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں بچوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد عصری تعلیمی اداروں سے وابستہ ہے، جن کی سالانہ چھٹیاں مختلف سرگرمیوں میں گزرتی ہیں۔ بعض عناصر نے فرصت کے ان لمحات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مختلف لادینی پروگرام شروع کررکھے ہیں ۔ اس لیے عرصہ سے اس مناسبت سے ایک دینی و اصلاحی کورس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔اس صورتِ حال کے پیشِ نظر ہماری جامعہ کے اکابر اساتذہ نے باہمی مشاورت سے ایک کورس کا آغاز کیا۔ ۱۹۹۸ء میں’’جامع مسجد صالح‘‘ صدر سے شروع ہونے والا یہ کورس ہر سال اندرون و بیرونِ ملک متعدد مقامات پر منعقد ہوتا ہے۔ زیرِ نظر تحریر میں اس سلسلے کے بعض بنیادی نکات کی طرف اشارہ مقصود ہے : بنیادی و اساسی ا ہداف و مقاصد      موجودہ پر فتن دور میں معاشرے میں دین سے پہلو تہی کی بنا پر عملی و اخلاقی خرابیوں کا جو سیلاب دَر آیا ہے ، اس کے آگے بند باندھنے کی جد و جہد کا ایک حصہ یہ کورس بھی ہے۔ اس کا مقصد مسلکی و گروہی عصبیتوں اور فروعی واختلافی مسائل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ’’مسلمان طلبہ کی تربیت اورکردار سازی‘‘ پر توجہ مرکوز رکھنا ہے۔ نیز لادینی افکار و نظریات کی بیخ کنی اور اسلامی عقائد کو ذہن نشین کرنا ، بنیادی احکام و آداب کی تعلیم اور عملی مشق اور دینی تربیت اس کے اساسی اہداف ہیں ۔ لہٰذا ہر مرحلے میں ان امور کا استحضار نہایت ضروری ہے، اس لیے کہ نقطۂ نظر کی تبدیلی سے طریقِ کار بھی لازماً متأثر ہوتا ہے، جس سے بعض اوقات فوائد کی بجائے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ طریقِ کار کے متعلق چند اہم امور     ۱:… آغاز سے پہلے امامِ مسجد، علاقے کے فضلاء (خواہ کسی بھی ادارے کے ہوں)اور دیگر ذمہ دار وبااثر شخصیات سے رابطے کیے جائیں اور ان کو اس سلسلے میں اپنے ساتھ دامے درمے قدمے سخنے کسی بھی نوعیت کے تعاون پر آمادہ کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے انفرادی طور پر بات کی جائے۔ تشہیر کے جدید ذرائع سے حتیٰ الامکان بچنا ہی بہتر ہے، البتہ اپنے محلے اور قریبی محلوں کے ائمہ مساجد سے ملاقات کر کے ان کو جمعہ ودیگر عام اجتماعات میں اعلان وترغیب کے لیے آمادہ کیا جائے۔      ۲:…مقامِ انعقاد: بہتر ہوگا کہ کورس کے انعقاد کے لیے کسی مسجد کا انتخاب ہو،کیونکہ مسجد روحانی امراض کی علاج گاہ اور ایمانی فضاء و ماحول سے آراستہ مقام ہے۔ مسجد میں محض بیٹھنا بھی باطنی ترقی کا باعث ہے اور مسجد میں رہ کر انسان گناہوں سے بھی محفوظ رہتا ہے، نیز اس سے بچوں کو مسجدآنے کی عادت بھی پڑے گی۔ لہٰذا بقدرِ استطاعت مسجد کو ہی ترجیح دی جائے ، بصورتِ دیگر کسی اور مقام کوبھی اختیار کیا جا سکتا ہے ۔     ۳:…وقت کا تعین : کورس کے وقت کی تعیین کے بارے میں مقامی نوعیت کو پیش نظر رکھا جائے۔ جن اوقات میں زیادہ طلبہ کی شرکت متوقع ہو ، انہی اوقات کو متعین کر دیا جائے۔ البتہ کوشش ہو کہ اوقاتِ تعلیم کے دوران کم از کم دو نمازوں کا وقت آئے ،تاکہ بچوں میں باجماعت نماز کی عادت پیدا ہو ۔     ۴:… اساتذہ کاانتخاب : اساتذہ کے انتخاب میں ’’صلاح و تقویٰ‘‘ اہم شرط کی حیثیت رکھتا ہے ، لہٰذا اس کے لیے فضلاء و علماء کی خدمات حاصل کی جائیں۔ نیز ذاتی ذوق و شوق اور دینی خدمت کے جذبہ کے حامل فضلاء کو ترجیح دی جائے ،جو اہتمام کے ساتھ پڑ ھاسکتے ہوں۔     ۵:…جامعہ کے اساتذہ کی نگرانی میں عصری طلبہ کے مستوی اور استعداد کی رعایت رکھتے ہوئے تدریجی انداز سے چار کتابیں مرتب کی گئیں ہیں:     ۱-سینئر: نویں جماعت اورمیٹرک یا اس سے آگے کے طلبہ کے لیے۔     ۲-جونیئر: چھٹی، ساتویں اورآٹھویں جماعت کے طلبہ کے لیے۔     ۳-بگنر:چوتھی اور پانچویں جماعت کے طلبہ کے لیے۔      ۴-پرائمر: تیسری جماعت کے طلبہ اور اس سے کم عمر کے چھوٹے بچوں کے لیے۔     ان میں سے ہر کتاب میں چار مضامین ہیں:۱-منتخب قرآنی آیات،۲- منتخب احادیث، ۳-معرفتِ اسلام (بنیادی احکام اور سیرتِ طیبہ وغیرہ)اور۴- عربی وانگلش۔ ان کی ترتیب میں اَن تھک محنتیں اور توانائیاں صرف ہوئی ہیں اور کئی سالوں کے تجربات اور مسلسل کوششوں کے بعد یہ کورس مرتب ہوا ہے،اور تعمیری پہلو غالب رکھا گیا ہے، اس لیے ہمارے خیال میں ان کی تدریس زیادہ مفید ثابت ہو گی۔ واضح رہے کہ ان کتب کے ساتھ کوئی تجارتی یا شخصی مفاد وابستہ نہیں ہے،بلکہ مقصود صرف مسلمان طلبہ کی اصلاح کی مقدور بھر کوشش ہے۔ اگر کسی مقام پر یہ مقصد کسی اور مستند نصاب سے حاصل ہو تو ’’ چشمِ ما روشن دلِ ما شاد‘‘، ہمارے نزدیک اہداف ومقاصد اصل ہیں۔ اسلوبِ تعلیم وتربیت     ۱:…استاذ کا انداز مربّیانہ ہو ، تربیت کا مقصد پیش نظر رہے ۔     ۲:…دینی مدارس کے طلبہ کی بنسبت اس کورس کے شرکاء کی نوعیت جداگانہ ہوتی ہے، اس لیے استاذ کا صبر و تحمل کی صفت سے متصف ہونا بے حدضروری ہے۔     ۳:… تعلیم و تربیت میں مثبت انداز اپنایا جائے ،حضرت عمر q کا ارشاد ہے :  ’’ إن للّٰہ عباداً یمیتون الباطل بھجرہ ، ویحیّون الحق بذکرہٖ۔‘‘( حیاۃ الصحابہؓ : ۳/۲۶۳،دارالکتب العلمیۃ) ’’اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو باطل کو اس کا تذکرہ چھوڑ کر ختم کرتے ہیں اور حق کا تذکرہ کر کے اُسے زندہ کرتے ہیں ۔‘‘     لہٰذا منفی اور تردیدی انداز اور فروعی و سیاسی مسائل کے ذکر سے اجتناب کیا جائے ۔     ۴:… اندازِ تدریس میں اسوۂ نبوی ملحوظ رہے۔نبی کریم a کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے معلم بنا کر بھیجا تھا اورزندگی کے دیگر شعبوں کی طرح بحیثیت معلم بھی آنحضرت a  ہمارے لیے اسوہ اور قدوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تعلیم وتربیت میں آپ a نے مخاطبین کی ذہنی استعداد و صلاحیت اور مستوی کو دیکھتے ہوئے مختلف اسالیب اختیار فرمائے ہیں، جن کے دسیوں نمونے کتبِ احادیث میں ملتے ہیں۔عالمِ عرب کے مشہور محدث اور محقق عالم شیخ عبد الفتاح ابو غدہ v ( متوفی ۱۴۲۰ھ مطابق ۱۹۹۷ئ) نے اس موضوع پر ایک نہایت مفید کتاب لکھی ہے، جس کا نام ہے: ’’ الرسول المعلمؐ و أسالیبہ فی التعلیم ‘‘ ۔     ذیل میں احادیثِ مبارکہ سے مستنبط چند مفید اسالیب درج کیے جارہے ہیں :     ۱-نمونہ بن کراپنے عمل کے ذریعے تعلیم دینا، نیز اخلاقِ حسنہ کے ساتھ پیش آنا ۔     ۲-شرعی احکام کی تعلیم میں تدریج کالحاظ،یعنی ابتدا میں فرائض وواجبات کی اہمیت ذہن نشین کرائی جائے اور پھر’’ الأہم فالأہم‘‘ کے اصول کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے نبوی طرزِ حیات اور اسلامی آداب کی تعلیم دی جائے۔نیز ابتدا میں وضع قطع کے متعلق امور نہ چھیڑے جائیں، بلکہ جب طلبہ میں دینی وشرعی مزاج سرایت کرجائے پھر مثبت انداز میں شرعی وضع قطع اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے۔     ۳-تعلیم میںاعتدال کی صورت اختیار کرنا، تاکہ اکتاہٹ نہ ہو ۔     ۴- طلبہ کے انفرادی امتیازات کی رعایت رکھنا، یعنی ان کے فہم کے مطابق گفتگو ہو اور سائل کے احوال کو سامنے رکھ کر جواب دیا جائے۔      ۵- تنبیہ اور تشویق کے لیے سوال و جواب کی صورت اختیار کرکے تعلیم دینااور صحیح جواب دینے والے کی حوصلہ افزائی کرنا۔     ۶- عقلی دلائل کی روشنی میں سمجھانا ، جیسے نبی کریم a نے بدکاری کی اجازت کی خاطر آنے والے نوجوان کو بڑے عمدہ اور سہل انداز میں سمجھایا تھا۔     ۷- تشبیہ و تمثیل اورضرب الامثال کے ذریعے تعلیم دینا۔     ۸- مٹی یا زمین پر خطوط کھینچ کر سمجھانا ،دورِ حاضر میں بلیک بورڈ کا استعمال اسی اسلوب کی ایک صورت ہے۔     ۹-بوقتِ ضرورت قول کے ساتھ ساتھ اشارے سے بھی وضاحت کرنا۔           ۱۰- سائل کے سوال کا جواب دینا اور اس کے اشکالات کو دور کرنا۔     ۱۱- اہم بات کوذہن نشین کرانے کے لیے تاکیداً تین بار کہنا۔     ۱۲- اہمیت دلانے کے لیے نشست یا ہیئت بدل کر بات کرنا ۔     ۵:…اگر کوئی طالب علم سوال کرے تو اس کی استعدادکو سامنے رکھتے ہوئے نرمی سے جواب دیا جائے ، ڈانٹ ڈپٹ سے بالکل گریز کیاجائے ۔     ۶:… اگر سوال مناسب نہ ہو تو اچھے انداز سے اس بات کا رُخ پھیرکر مناسب بات کی طرف توجہ دلائی جائے ۔     ۷:…بچے اگر کوئی اچھی بات بتادیں ، یاسوال کر نے پر معلوم ہوا کہ وہ اُنہیںپہلے سے معلوم ہے تو دل جوئی اورخوب تعریف کریں ، تاکہ ایسے بچے مزید آگے بڑھیں اور دوسروں کی لیے بھی ترغیب ہو ۔     ۸:…خصوصاً وضو ونماز کی عملی مشق تمام سنن ومستحبات کی رعایت رکھتے ہوئے ضرورکرائی جائے۔     ۹:… بنیادی احکام اور مسنون دعائیں خصوصاً آج کل کے حالات کے پیشِ نظر حفاظتی دعائیں زبانی یاد کروائی جائیں۔     ۱۰:… ایک دن کسی بات کی ترغیب دینے کے بعد اگلے دن اس کے بارے میں پوچھا جائے اور عمل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔     ۱۱:… کتاب پڑھانے کے ساتھ ساتھ موقع ومناسبت سے تربیتی امور کی طرف بھی توجہ کی جائے، ہفتے میں ایک سبق اسی کے لیے مخصوص ہو۔     ۱۲:…موقع بموقع بزرگوں کے واقعات سنا کرشوق پیدا کیا جائے، اور موجودہ اکابر کی مجالس سے استفادے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔      ۱۳:…کتاب شروع سے اس انداز سے پڑھائی جائے کہ متعینہ مدت کے اندر بآسانی پوری ہو جائے۔ خارجی باتوں پر اتنا وقت بھی صرف نہ ہو کہ کتاب مکمل نہ ہو،میانہ روی اچھی چیز ہے۔     ۱۴:…جو طلبہ کورس کی کتابیں پڑھ چکے ہوں اور مزید دینی معلومات کے مشتاق ہوں توہماری نظر میں ان کے لیے درج ذیل نصاب مفید ثابت ہوگا:     ۱:-سورۂ نسائ، سورۂ لقمان اور سورۂ حجرات کی منتخب آیات کی تفسیر اور آخری بیس سورتیں حفظ۔     ۲:-حیات المسلمین از مولانا اشرف علی تھانوی v۔     ۳:-تعلیم الاسلام (بڑوں کے لیے) از مولانا عمران عثمان حفظہ اللہ۔     ۴:-الطریقۃ العصریۃ حصہ اول والقاموس الصغیر (معاون) از مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم۔ البتہ موقع ومناسبت اور استعداد کے پیش نظر اس میں رد وبدل کا اختیار ہے۔      نیزجو شرکاء مزید وقت دے سکتے ہوں تو ’’وفاق المدارس العربیہ ‘‘کے متعارف کردہ ’’دراساتِ دینیہ ‘‘ کے دو سالہ کورس کی طرف بھی توجہ دلائی جا سکتی ہے۔     یہ چند بنیادی امور ہیں جو درج کر دیئے گئے ہیں ، مزید معلومات اور مشاورت کے لیے تعلیمی اوقات میںجامعہ آکرکورس کی منتظمہ کمیٹی سے بالمشافہ ملاقات یا فون پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔نیز اس سلسلے کے متعلق کسی بھی قسم کی تجاویزکا خیر مقدم کیا جائے گا۔  کراچی میں تعلیم وتربیت کورس کے چند مراکز ۱:…جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون ۲:…جامع مسجد صالح، صدر ۳:…جامع مسجد قدسی، جمشید روڈ ۴:…جامع مسجد علی، شرف آباد ۵:…گول میمن مسجد، ہل پارک ۶:…ریاض مسجد، طارق روڈ ۷:…جہانگیری مسجد، پٹیل پاڑہ ۸:…سبحانی مسجد، پٹیل پاڑہ ۹:… محمدی مسجد، واٹرپمپ ۱۰:…جامع مسجد شرف آباد ۱۱:…مسجدابراہیمی، بلاک اے، نارتھ ناظم آباد ۱۲:… مسجد زکریا، ناظم آباد نزد بورڈ آفس ۱۳:…دارالعلوم عثمانیہ، بہارکالونی  ۱۴:…مدرسہ رحمانیہ، بلال کالونی ۱۵:…داعی مسجد، گارڈن ایسٹ ۱۶:…جامع مسجد قبا، گلشن اقبال نمبر:۱ ۱۷:… جامع مسجد مہتاب شاہ بخاری، سولجربازار ۱۸:…جامع مسجد قبائ، بلوچ کالونی ۱۹:…مسجد دولت القرآن، شومارکیٹ ۲۰:… جامع مسجد اویس قرنی، بلوچ کالونی ۲۱:…مدینہ مسجد، قیوم آباد ۲۲:…صدیقیہ مسجد، پنکھا لائن ۲۳:…اوکھائی میمن جامع مسجد، حسین آباد ۲۴:… جامع مسجد بلال، نزد گول مارکیٹ، ناظم آباد ۲۵:…جامعہ عربیہ الٰہیہ، لیاقت آباد ۲۶:…سلیمانیہ مسجد، نرسری، شارع فیصل ۲۷:…جامع مسجد باب الجنۃ، بانٹوا نگر ۲۸:…بسم اللہ مسجد، پرانا گولیمار ۲۹:… جامع مسجد مکی، نارتھ کراچی ۳۰:…غفوری مسجد، سولجر بازار ۳۱:…فاطمہ اکیڈمی للبنات، حسین آباد ۳۲:…مدرسہ مریم للبنات، گلشن اقبال ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین