بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تصوف کیا ہے؟!تصوف کی حقیقت!


تصوف کیا ہے؟!تصوف کی حقیقت!


شیخ الحدیث حضرت مولا نا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی ۱۴۰۲ھ) اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’آپ بیتی‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ایک مرتبہ ۱۰ بجے صبح کو میں اوپر اپنے کمرہ میں نہایت مشغول تھا، مولوی نصیر نے اوپر جاکر کہا کہ رئیس الاحرار (۱) آئے ہیں، رائے پور جا رہے ہیں، صرف مصافحہ کرنا ہے، میں نے کہا: جلدی بلاؤ۔ مرحوم اوپر چڑھے اور زینے پر چڑھتے ہی سلام کے بعد مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا کر کہا کہ: 
رائے پور جا رہا ہوں اور ایک سوال آپ سے کر کے جا رہا ہوں، اور پرسوں صبح واپسی ہے، اس کا جواب آپ سوچ رکھیں، واپسی میں جواب لے لوں گا:
’’ یہ تصوف کیا بلا ہے؟ اس کی کیا حقیقت ہے؟ ‘‘
میں نے مصافحہ کرتے کرتے یہ جواب دیا کہ:
’’ صرف تصحیحِ نیت، اس کے سوا کچھ نہیں، جس کی ابتدا ’’إِنَّمَـا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ سے ہوتی ہے اور انتہا ’’اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ‘‘ ہے۔‘‘
 میرے اس جواب پر سکتہ میں طاری ہو گئے اور کہنے لگے: دلّی سے یہ سوچتا آرہا ہوں کہ تُو یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض کروں گا، اور یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض، اس کو تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ 
میں نے کہا: جاؤ، تانگے والے کو بھی تقاضا ہوگا، میرا بھی حرج ہو رہا ہے، پرسوں تک اس پر اعتراض سوچتے رہنا۔ اس کا خیال رہے کہ دن میں لمبی بات کا وقت نہیں ملنے کا، دو چار منٹ کو تو دن میں بھی کر لوں گا، لمبی بات چاہو گے تو مغرب کے بعد ہو سکے گی۔ 
مرحوم دوسرے ہی دن شام کو مغرب کے قریب آگئے اور کہا کہ: کل رات کو تو ٹھہرنا مشکل تھا، اس لیے کہ مجھے فلاں جلسہ میں جانا ہے، اور رات کو تمہارے پاس ٹھہرنا ضروری ہوگیا، اس لیے ایک دن پہلے ہی چلا آیا۔ اور یہ بھی کہا کہ تمہیں معلوم ہے، مجھے تم سے کبھی نہ عقیدت ہوئی نہ محبت، میں نے کہا: علٰی ھٰذا القیاس۔ مرحوم نے کہا: مگر تمہارے کل کے جواب نے مجھ پر تو بہت اثر کیا، اور میں کل سے اب تک سوچتا رہا، تمہارے جواب پر کوئی اعتراض سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کہا: ان شاء اللہ! مولانا اعتراض ملنے کا بھی نہیں۔ 
’’إِنَّمَـا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ سارے تصوف کی ابتدا ہے اور ’’اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ‘‘ سارے تصوف کا منتہا ہے، اسی کو ’’نسبت‘‘ کہتے ہیں، اسی کو ’’یادداشت‘‘ کہتے ہیں، اسی کو ’’حضوری‘‘ کہتے ہیں۔

حضوری گر ہمی خواہی ازو غافل مشو حافظ!
مَتٰی مَا تَلْقَ مَنْ تَہْوِیْ دَعِ الدُّنْیَا وَاَمْہِلْہَا 

میں نے کہا: مولوی صاحب! سارے پاپڑ اِسی کے لیے بیلے جاتے ہیں، ذکر بالجہر بھی اسی واسطے ہے، مجاہدہ اور مراقبہ بھی اسی واسطے ہے اور جس کو اللہ جل شانہ اپنے لطف و کرم سے کسی بھی طرح یہ دولت عطا کر دے، اس کو کہیں کی بھی ضرورت نہیں۔ 
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کیمیا اثر سے ایک ہی نظر میں سب کچھ ہو جاتے تھے اور ان کو کسی چیز کی بھی ضرورت نہ تھی۔ اس کے بعد اکابر اور حکماء اُمت نے قلبی امراض کی کثرت کی بنا پر مختلف علاج، جیسا کہ ’’اَطِبّاء‘‘ بدنی امراض کے لیے تجویز کرتے ہیں، ’’روحانی اَطِبّاء‘‘ نے روحانی امراض کے لیے ہر زمانے کے مناسب اپنے تجربات -جو اسلاف کے تجربات سے مستنبط تھے- نسخے تجویز فرمائے ہیں، جو بعضوں کو بہت جلد نفع پہنچاتے ہیں، بعضوں کو بہت دیر لگتی ہے۔‘‘
 

(آپ بیتی، جلداول، ص:۵۸، ۵۹، طبع: مکتبہ عمر فاروقؓ، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین