بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’تصوف‘‘ کیا ہے؟!

’’تصوف‘‘ کیا ہے؟!


حضرت عمر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: ہم حضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اجنبی شخص آیا اور حضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوالات شروع کیے، بالترتیب پوچھا:
۱:-’’مَاالْإِیْمَانُ؟‘‘ ا یمان کیا ہے؟        ۲:-’’مَالْإِسْلَامُ؟‘‘ اسلام کیا ہے؟
۳:-’’ مَاالْإِحْسَانُ؟‘‘ احسان کیا ہے؟
حضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سوالوں کے جوابات دیئے، توہر جواب کے آخر میں سائل ’’صَدَقْتَ‘‘ کہتا، جوہمارے لیے باعثِ حیرت تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ جب مہمان چلاگیا تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ سے فرمایا: اے عمر! تمہیں معلوم ہے یہ سائل کون تھا؟ میں نے عرض کیا کہ: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  بہتر جانتے ہیں، توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ :
’’فَاِنَّہٗ جِبْرَائِیْلُ اَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ۔‘‘
ترجمہ: ’’یہ حضرت جبرائیل  علیہ السلام  تھے، تمہیں تمہارادین سکھانے کے لیے آئے تھے۔ ‘‘
یہ سوالات وجوابات حدیث جبرئیل علیہ السلام  کے نام سے معروف ہیں۔ حضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  کے غلبۂ ہیبت کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  میں سوالات کرنے کی جرأت بہت کم ہوتی تھی، تعلیمِ حقائقِ دینیہ کو جاننے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل  علیہ السلام  کو انسانی شکل میں بھیجا، تاکہ وہ سوال کریں اور معلمِ کائنات  صلی اللہ علیہ وسلم  جواب میں گوہر افشانی فرمائیں اور اس انداز سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کا دامن‘ علمی جواہر پاروں سے بھرجائے۔
محدثین کرام ؒ فرماتے ہیں کہ: حدیثِ جبرائیل ؑمیں دین کے تین بنیادی احکامات کی تصریح کی گئی، پہلے احکامات وہ ہیں، جن کا تعلق خالص عقیدے کے ساتھ ہے، ان کو احکامِ نظریہ کہتے ہیں۔ دوسری قسم کے احکامات وہ ہیں، جن کا تعلق ظاہری اعمال کے ساتھ ہے، ان کو احکامِ فرعیہ کہتے ہیں اور تیسری قسم کے احکامات وہ ہیں، جن کا تعلق باطنی اعمال کے ساتھ ہے، ان کو علم الاحسان کہا جاتا ہے۔ یوں چند جملوں میں پورے دین کا خلاصہ حضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پیش کیا اور اس حدیث کو محدثین کرام ؒ نے ’’جوامع الکلم‘‘ میں سے شمار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شخصیت انتہائی جامعیت کی حامل تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دین کے ان تینوں حصوں کی کماحقہ تشریح اور اشاعت کی۔ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  میں بھی جامعیت کی شان کافی حد تک تھی، لیکن زمانۂ خیر القرون گزرنے کے بعد جامعیت میں بھی کمی آتی گئی، اس لیے علماء امت نے دین کی حفاظت وخدمت کے لیے ان شعبوں کو تین مستقل علیحدہ علیحدہ علوم میں مدون کردیا:
1    … تصحیحِ عقائد کے سلسلہ میں کتاب وسنت میں جوہدایات دی گئیں، ان کی حفاظت وخدمت کے لیے ’’علم الکلام‘‘ مدون ہوا۔
2    …اعمالِ ظاہرہ کے متعلق جو رہنمائی کتاب وسنت نے کی تھی، اس کی تشریح کے لیے ’’علم الفقہ‘‘ کومدون کیا ۔
3    …اصلاحِ باطن کے متعلق جو باتیں کتاب وسنت نے بتائی ہیں، ان کی تفصیلات کے لیے ’’علم الإحسان، علم الأخلاق‘‘ یا ’’علم التصوف‘‘ مدون ہوا۔
یہ تینوں علوم قرآن وسنت سے کوئی الگ چیز نہیں، بلکہ کتاب وسنت کی روح اور ان کے ثمرات ہیں ۔
حدیث جبرائیل ؑ کی رو سے ’’علم الإحسان‘‘ دین کا ایک اہم شعبہ ہے، جو زمانۂ حاضرہ میں ’’علم التصوف‘‘ کے نام سے زیادہ معروف ہے۔ اس میں انسان کے دل اور نفس کوپاک اور صاف کرکے اس کی اصلاح کی جاتی ہے، تاکہ اللہ کا دھیان اور رضا حاصل ہوجائے۔ اس اصلاح کے دو اجزاء ہیں: 
    1:-ظاہری اصلاح         2:-باطنی اصلاح
ظاہری اصلاح سے مراد یہ ہے کہ ظاہری اعضاء سے صادر ہونے والے گناہ جیسا کہ جھوٹ، غیبت، چوری، زنا وغیرہ چھوٹ جائیں اور عبادات، معاملات اور معاشرت یعنی زندگی کے ہر شعبے میں اچھی صفات اپناکر مکمل دین پر عمل ہونے لگے۔
باطنی اصلاح سے مراد یہ ہے کہ عقائد درست ہوجائیں، اللہ کی ذات اور صفات پر ایمان مضبوط ہو جائے، دل ونفس کے گناہ اوربری صفات جیسے: حسد، بغض، کینہ، ریا اور تکبر وغیرہ کی اصلاح ہوجائے اور اللہ کی محبت اور اچھی صفات مثلاً: عاجزی، اخلاص، صبر، شکر، توکل، تسلیم و رضا اور خوفِ الٰہی وغیرہ حاصل ہوجائے۔ اکابرینِ اسلاف نے انہی اوصافِ جمیلہ کو اپنانے اور اوصافِ مذمومہ سے دامن بچانے کو ’’علم التصوف‘‘ کا مقصد بتایا ہے۔
’’رسالہ قشیریہ‘‘ میں ابومحمد جریری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: 
’’تصوف ہر اعلیٰ خُلق میں داخل ہونے اور ہر ذلیل خُلق سے نکلنے کا نام ہے ۔‘‘(۱)
حضرت محمد بن علی القصاب رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: 
’’تصوف اُن کریمانہ اخلاق کا نام ہے جوکسی کریم زمانہ میں کسی کریم انسان سے شریف لوگوں کے سامنے ظہور پذیر ہوں ۔‘‘(۲)
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: 
’’تصوف‘ شریعت پر اخلاص سے عمل کرنے کا نام ہے۔‘‘ (۳)
حضرت محمدؒ بن علی بن حسین بن علیؓ بن ابوطالب فرماتے ہیں کہ: 
’’تصوف اچھے اخلاق کا دوسرا نام ہے، جو اچھے اخلاق میں تجھ سے زیادہ ہے وہ تصوف میں زیادہ ہے۔‘‘ (۴)
حضرت احمد خزویہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: 
’’تصوف‘ باطن کی گندگی اور کدورتوں سے پاکیزگی حاصل کرنے کا نام ہے۔‘‘ (۵)
حضرت مرتعش  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: 
’’تصوف اچھے اخلاق کے مجموعہ کا نام ہے۔‘‘ (۶)
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: 
’’تصوف کی ابتداء ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘ (بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے) اور انتہاء ’’ أن تعبد اللہ کأنک تراہ‘‘ (یہ کہ اللہ کی عبادت ایسا کرے کہ گویا تواس کو دیکھ رہاہے) ہے۔‘‘(۷)
حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ: 
’’تصوف یہ ہے کہ اللہ کو عبادت سے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اطاعت سے اور مخلوقِ خدا کوخدمت سے راضی کرو۔‘‘ (۸)
اکابرین کرام ؒ کی تعریفات سے تقریباً یہی بات ثابت ہوتی ہے، جوتمہید میں نتیجہ کے طور پرعرض کی گئی، لہٰذا تصوف کوئی نئی یا اچھوتی چیز نہیں، بلکہ نفس وقلب کی اصلاح کر کے تمام ظاہری اور باطنی گناہوں کو چھوڑ کراللہ تعالیٰ کو راضی کرنااوراخلاقِ حمیدہ سے متصف ہونے کا نام ہے۔
کوئی بندۂ خدا نہیں چاہتاکہ وہ لوگوں کے دلوں میں رہے، کیونکہ حسنِ اخلاق ہی کی بدولت انسان دوسروں کے دلوں میں اپنا مقام بناسکتے ہیں، اللہ رب العزت بھی انسان سے یہی چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :
’’وَذَرُوْا ظَاہِرَالْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ۔‘‘
ترجمہ: ’’اور ظاہری گناہ اور پوشیدہ گناہ سب چھوڑ دو۔‘‘ (۹)
صاحبِ تفسیر خازن ؒ اس آیتِ کریمہ کی تشریح میں فرماتے ہیں :
’’اَلْمُرَادُ بِظَاہِرِ الْاِثْمِ اَفْعَالُ الْجَوَارِحِ وَبَاطِنَہٗ اَفْعَالُ الْقُلُوْبِ۔‘‘(۱۰)
ترجمہ:’’ظاہری گناہ سے مراد اعضاء وجوارح کے اعمال اورباطنی گناہ سے مراد دل کے اعمال ہیں۔‘‘
ظاہری اور پوشیدہ گناہ چھوڑنا تصوف کا مقصد ہے۔
اب قاری کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تصوف ہم کس طرح حاصل کریں گے کہ ہمیں یہ مطلوبہ نتائج مل جائیں، تو اس کے لیے بھی شریعت کے واضح اصول موجود ہیں۔ جس طرح حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حدیث جبرائیل ؑ میں دین کے بنیادی شعبوں کو بیان کیا ہے، بالکل اسی طرح مختلف موقعوں پر ان کی تفصیل بھی بیان فرمائی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیامیں جتنے بھی دینی ودنیاوی علوم ہیں، ان کے سیکھنے کے لیے استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ اختیار کرناضروری ہوتا ہے، دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کا قیام اسی واسطے عمل میں لایاجاتا ہے کہ وہاں پر اساتذہ کرام سے مدارس کی چاردیواری میں دینی ودنیاوی علوم کے متلاشی حضرات علم حاصل کرسکیں، بالکل اسی طرح علمِ تصوف سیکھنے کے لیے بھی شیخ کامل کے پاس جانا ضروری ہوتا ہے۔ شیخ (مرشد) جہاں پر سالکین کی تربیت کرتے ہیں، اس جگہ کو ’’خانقاہ ‘‘ کہا جاتا ہے، خانقاہ میں شیخ کے ساتھ مرید ایک عہد وپیمان کرتا ہے، جس کو تصوف کی اصطلاح میں ’’بیعت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بیعت ’’بیعتِ توبہ‘‘ کہلاتی ہے۔ مرید جب شیخ کے پاس بیعت کے لیے جاتا ہے تومرید شیخ کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر یہ عہد کرتا ہے کہ میں پچھلے تمام گناہوں سے توبہ تائب ہوتا ہوں اور آئندہ نیکوکاری کی زندگی اختیار کروں گا اور شیخ (مرشد) یہ عہد کرتا ہے کہ مرید کو اللہ تعالیٰ کے احکام اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنتوں کے مطابق زندگی گزارنا سکھاؤں گا۔ یہ ایک سنت عمل ہے اورحضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے چار طرح کی بیعت ثابت ہے:
1:-بیعتِ اسلام            2:-بیعتِ جہاد
3:-بیعتِ ہجرت            4:-بیعتِ توبہ (بیعتِ طریقت)
تصوف میں بھی بیعت توبہ کرائی جاتی ہے، اس بیعت کا ثبوت بھی قرآ ن وسنت سے ملتا ہے، اللہ رب العزت اپنے پیارے حبیب  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہیں :
’’ یَاَ یُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللہِ شَیْئًا وَّ لَایَسْرِقْنَ وَ لَا یَزْنِیْنَ وَ لَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَ لَا یَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَ لَایَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللہَ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔‘‘(۱۱)
ترجمہ: ’’اے پیارے نبی! جب مؤمن عورتیں آپ کے پاس آئیں بیعت کرنے کے لیے اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ شرک نہیں کریں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اوراپنی اولاد کوقتل نہیں کریں گی اور تہمت نہیں لگائیں گی اور کوئی بھی گناہ نہیں کریں گی تو اُن کو بیعت کرلیجیے اور ان کے لیے استغفار کیجیے، اللہ ان کے گناہوں کومعاف کردیں گے۔‘‘ 
عورتوں کی بیعت کا ذکر قرآن عظیم الشان میں ہے اور مردوں کی بیعت کا ذکر انہی الفاظ کے ساتھ بخاری شریف میں ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ: ’’نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جب کہ صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت ساتھ تھی، تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ آج کے بعد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کوشریک نہیں ٹھہراؤگے، چوری نہیں کروگے، بدکاری نہیں کروگے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کروگے، ایک دوسرے پربہتان نہیں لگاؤگے اور کوئی بھی گناہ نہیں کروگے، پس جس نے اس بیعت میں وفا کی، اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے اور جس نے اس میںکوئی کوتاہی کی اور دنیا میں اس کو سزا مل گئی تو یہ اس کا کفارہ ہے اور اگر دنیا میں سزانہ ملی، بلکہ اللہ نے پردہ رکھا تو اس کا معاملہ اللہ پر ہے، چاہے تومعاف کردے اور چاہے تو سزادے، پس ہم نے بیعت کرلی۔‘‘ (۱۲)
حضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس عمل کی اتباع میں مشائخِ تصوف خانقاہوں میں اپنے مریدین سے یہی بیعتِ توبہ کراتے ہیں۔ بیعت کا اصل مقصد یہ ہے کہ شریعت کے احکام پر عمل کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بیعت کامقصد نہ کشف وکرامات کا حاصل ہونا ہوتا ہے، نہ دنیاوی کاموں میں کامیابی ضروری ہے، نہ ہی یہ کیفیت کہ گناہ کا خیال ہی نہ آئے اورنہ ہی عمدہ خوابوں کا نظر آنا ضروری ہے، بلکہ اصل مقصد توشریعت کے احکامات پر چل کر اللہ کو راضی کرنا ہے۔
بیعت طریقت کرنے سے انسان کو اپنے مشائخِ سلسلہ کے واسطہ سے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قلبِ مبارک سے ایک روحانی تعلُّق نصیب ہوجاتا ہے۔اب یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ ’’علم التصوف‘‘ کے راستے میں شیخ، مرشد یا پیر کی کیا ضرورت ہوتی ہے؟ کیا خود سے یہ راستہ عبور نہیں کیا جاسکتا ہے؟ تو اس کے لیے یاد رکھیے کہ ہردور اور ہر زمانے میں انسانیت کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ اور رجال اللہ کو ذریعہ بنایا ۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کو مبعوث فرمایا، مگر کتاب نہیں بھیجی، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کتاب بھیج دی ہواور نبی کو نہ بھیجا گیا ہو، اس سے رجال اللہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کسی قوم پر عذاب اس وقت تک نازل نہیں ہوا، جب تک اتمامِ حجت کے لیے نبی کو نہ بھیجا گیا ہو۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا۔‘‘ (۱۳)
ترجمہ: ’’اورہم (کبھی) سزا نہیں دیتے، جب تک کسی رسول کو نہیں بھیج لیتے۔‘‘ 
یہ اس لیے کہ ہر انسان کو اپنی تربیت کے لیے مُربی اور تزکیہ کے لیے مُزکی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سورۃ المائدہ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
’’  یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللہَ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ ۔‘‘(۱۴)
ترجمہ:’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرواور اس کاقرب ڈھونڈو۔‘‘ 
اس کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:
’’اَلْوَسِیْلَۃُ ھِيَ الَّتِيْ یَتَوَصَّلُ بِھَا إِلٰی تَحْصِیْلِ الْمَقْصُوْدِ۔‘‘(۱۵)
ترجمہ:’’وسیلہ سے مراد وہ ہے جوآپ کو مقصود سے واصل کردے (ملادے)۔‘‘ 
صاحب جلالین ؒ فرماتے ہیں کہ:
’’مَا یُقَرِّبُکُمْ إِلَیْہِ مِنْ طَاعَۃٍ‘‘ یعنی جوآپ کو طاعت کے قریب کردے، لہٰذا مفسرین کرام کا فرمان ہے کہ ’’الوسیلۃ‘‘ سے مرشد مراد ہے، جواللہ تعالیٰ کے قرب اور انسان کی اصلاح کا سبب بنتا ہے۔ ایک دوسری جگہ سورۃ التوبۃ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
’’ یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔‘‘(۱۶)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘ 
اس آیت کی تشریح میں مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: ’’اس جگہ قرآن کریم نے علماء وصلحاء کی بجائے صادقین کا لفظ اختیار فرماکر عالم وصالح کی پہچان بتلادی کہ صالح صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جس کا ظاہر و باطن یکساں ہو، نیت وارادے کا بھی سچاہو، قول کا بھی سچا ہو، عمل کا بھی سچا ہو۔ (۱۷)
صاف ظاہر ہے کہ آج کے دور میں صادقین کا مصداق مشایخِ عظام ہی ہیں، کیونکہ تصوف وسلوک کے راہی میں ہی یہ اوصاف جمع ہوسکتے ہیں۔ ایک بزرگ ایک عقلی دلیل سے مزید یہ بات سمجھاتے ہیں : ایک طالب علم کمرۂ امتحان میں بیٹھا پرچہ حل کررہا ہوتا ہے، تو وہ اپنے گمان میں ہر سوال کو ٹھیک ٹھیک حل کرتا ہے (اگر اُسے پتہ ہو کہ میں فلاں غلطی کررہاہوں تووہ کرے ہی کیوں ؟)۔ جب طالب علم کا پرچہ استاذ کے ہاتھ میں آتا ہے تووہ بعض جوابات کو ٹھیک قرار دیتا ہے اور بعض کو غلط، تب طالب علم تسلیم کرتا ہے کہ اس سے غلطی ہوئی ۔اسی طرح سالک بھی اپنے زعم میں تحدیثِ نعمت سمجھ کر کسی بات کا اظہار کرتا ہے، مگر شیخ کامل پہچانتا ہے کہ یہ عُجب کی وجہ سے ہے۔ سالک اپنے خیال میں سخاوت کی وجہ سے مال خرچ کرتا ہے، مگر شیخ بتاتا ہے کہ یہ اسراف ہے۔ پیر ومرشد کے بغیر گمراہی کے گڑھے میں گرنے کا خطرہ ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ مرشد کے سائے میں زندگی گزار کر سلوک کا راستہ طے کرے، تاکہ سالک (مرید) اپنی غلطی سے آگاہ رہے اورباطنی امراض سے بچتا رہے۔
اب اگر کسی کے ذہن میں یہ بات آجائے کہ شیخ (مرشد)کیسا ہوناچاہیے، تواس کے لیے ہمارے بزرگوں نے کئی شرائط بیان کی ہیں، حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’تسہیل قصد السبیل‘‘ میں شیخ کامل کے لیے چھ شرائط اور چھ نشانیاں لکھی ہوئی ہیں، اس کے علاوہ کچھ بزرگوں نے مزید کچھ نشانیاں بتائی ہیں، جن کا لبِ لباب یہ ہے کہ شیخِ کامل وہ ہوتا ہے جو متبعِ شریعت ہو اور جس کی صحبت میں بیٹھنے سے آپ کے دل میں اللہ کی محبت، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت، دین کی محبت، قرآن عظیم الشان کی محبت، اعمالِ صالحہ کی طرف رجوع اور اللہ کی طرف رجوع کا شوق پیدا ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ جس کے پاس گئے ہیں، وہ اللہ والا ہے، شیخِ کامل ہے، اس کی صحبت میں بیٹھ کر اپنی اصلاح کرواسکتے ہیں اور سلوک کا راستہ طے کرسکتے ہیں۔ 
خلاصۂ مضمون یہ ہے کہ تصوف کا مقصد اللہ کی رضاجوئی ہے، اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے، جوکہ ہر انسان سے مطلوب ہے، بلکہ انسان کی تخلیق ہی اسی واسطہ کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے تصوف وسلوک بھی ایک مستندراستہ ہے، جس پر چل کر انسان اپنے منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی رضا، اپنی لِقاء اور اپنی یاد والی زندگی نصیب فرمائے۔
حواشی
۱:- رسالہ قشیریہ، ص:۴۱۷            ۲:- رسالہ قشیریہ، ص:۴۱۸
۳:- تصوف وسلوک، ص:۱۳        ۴:- حقیقتِ تصوف وسلوک، ص:۹۶
۵:- تصوف وسلوک، ص:۱۲        ۶:- تصوف وسلوک، ص:۱۲
۷:- حقیقتِ تصوف وسلوک، ص :۹۷        ۸:- حقیقتِ تصوف وسلوک، ص:۹۷
۹:- سورۃ الانعام، آیت:۱۲۰        ۱۰:- تفسیر خازن، ج:۲، ص: ۱۴۶
۱۱:- سورۃ الممتحنۃ، آیت :۱۲        ۱۲:- بخاری شریف 
۱۳:- سورۂ بنی اسرائیل، آیت:۱۵        ۱۴:- سورۃ المائدہ، آیت :۳۵
۱۵:- تفسیر ابن کثیر، ص:۵۴    ۱۶:- سورۃ التوبہ، آیت:۱۱۹        ۱۷:- معارف القرآن 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین