بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تذکرہ علامہ غلام نبی کاموِیؒ (پہلی قسط)

تذکرہ علامہ غلام نبی کاموِیؒ 

شیخ الہندؒ اور علامہ کشمیری ؒکے مایہ ناز شاگرد اور حضرت بنوری ؒ کے رفیقِ خاص
 

(پہلی قسط)


حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کے فیضانِ نظر اور علمی لیاقت نے بر صغیر ہندوستان سمیت ایشیاء کے کئی ملکوں میں ضیا پاشی کی، آپ ؒ نے دار العلوم دیوبند کے بعد دار العلوم اسلامیہ ڈابھیل گجرات میں لمبے عرصے تک تفسیر، حدیث اور فقہ سمیت منقولات اور معقولات کی تدریس کی، اس دوران جہاں آپ نے تصنیف اور تالیف کے میدان میں ۱: الإتحاف لمذہب الأحناف، ۲: التصریح بما تواتر في نزول المسیح، ۳: إکفار الملحدین، ۴۔ حاشیہ بر سنن ابی داؤد، اور۵: حاشیہ بر مستدرک حاکم سمیت دسیوں علمی اور تحقیقی کتب اور رسائل تالیف ومرتب کیے، وہیں آپ نے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع  ؒ، مولانا محمد بدرِ عالم میرٹھی ؒ، مولانا مناظر احسن گیلانی  ؒ، مولانا احمد رضا بجنوری ؒاور محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ جیسی نابغۂ روزگار شخصیات پر مشتمل ہزاروں شاگردوں کی عظیم جماعت بھی تیارکی۔ 
 بر صغیر پاک وہند میں خدمات انجام دینے والے آپ کے شاگردوں کی بڑی تعداد سے دنیا واقف ہے، البتہ وسطی ایشیاء، افغانستان، اور روس سے ملحقہ اُس وقت کی ریاستوں میں موجود آپ کے بعض شاگردوں کا تعارف ہنوز نہیں ہوسکا ہے۔ ذیل کے مضمون میں افغانستان کے لالہ زار علاقہ ننگرہار سے وابستہ آپ کے شاگردِ رشید او ر علمی دنیا کے جیّد اور روشن ستارے علامہ غلام نبی کامویؒ کا تعارف پیشِ خدمت ہے۔ آپؒ کا شمار حضرت کشمیریؒ کے چُنیدہ لائق اور فائق شاگردوں میں ہوتا ہے، افغانستان کے طول وعرض میں آپ کی علمی خدمات کی بڑی گونج ہے، البتہ ہند اور پاکستان کے تذکرہ نگاروں سے نہ معلوم ان کی شخصیت کیوں پوشیدہ رہ گئی؟ چنانچہ علمائے بر صغیر میں ان کی خدمات کا اعتراف بجز محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ کے ہمیں کہیں نہ مل سکا۔ 

علامہ غلام نبی کامویؒ اور ان کا مولد و آبائی مسکن 

آپ کی پیدائش امارتِ اسلامی افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگر ہار کے ایک بڑے اور مشہور ضلع ’’کامہ‘‘ کے ایک گاؤں ’’سنگر سرائے‘‘ میں ہوئی، اسی نسبت سے آپ کو ’’کاموی‘‘ کہا جاتا ہے۔ پشاور سے براہِ طور خم تین گھنٹہ کی مسافت پر واقع یہ ضلع ایک لالہ زار، خوبصورت اور سر سبز وشاداب علاقہ ہے۔ اس کے قریبی مشہور علاقوں میں جلال آباد خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ گاؤں سنگر سرائے ضلع کامہ جلال آباد سے ۴۵ منٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔ 
علامہ غلام نبی کاموی ؒ کی پیدائش ہجری سن کے اعتبار سے ۱۳۱۲ھ مطابق ۱۸۹۵ء کو ہوئی، مولوی محمد ہاشم کاموال اور حضرت علامہ غلام نبی ؒ کے پوتے ڈاکٹر عبد الملک کاموی نے اپنے مضامین میں ان کی یہی تاریخ پیدائش لکھی ہے۔ (۱)
آپ کے والد محترم ملا شیخ محمد حسین ؒ کی شہرت ایک نامور عالم، فاضل، متدین بزرگ اور خدا ترس زاہد انسان کے طور پر تھی۔ سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگ مجاہدِ کبیر حضرت شیخ نجم الدین آخوند زادہ ہڈی ملا صاحب (متوفی: ۱۳۱۹ھ مطابق ۱۹۰۱ء)(۲)سے آپ کا بیعت اور اصلاح کا تعلق رہا، ان کی سرپرستی اور مشارَکت میں آپ نے انگریز اور برطانوی استعمار کے خلاف جہادِافغان میں بھر پور حصہ لیا۔ 
 آپ کے تین بھائی اور ایک بہن تھی، علم اور شرافت میں آپ کا خاندان ممتاز تھا، آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: غلام نبیؒ بن ملاشیخ محمد حسینؒ بن ملا صاحب گل بن محمد عمر ؒ۔ 
آپ کی رسمِ بسم اللہ حضرت شیخ نجم الدین آخوند زادہ ہڈی ملا صاحب نے کی، نیک او رعلمی ماحول کی بدولت آپ کا صغر سنی ہی میں کتاب، قلم اور مسجد سے تعلق قائم ہوگیا تھا، چنانچہ کھیل کود سے آپ کا طبعی لگاؤ نہ تھا، آپ نے ابتدائی تعلیم والد محترم سے حاصل کی، چنانچہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بالخصوص اہتمام رہا۔ 

حضرت شیخ مولانا نجم الدین ہڈی ملا صاحب ؒ کی دعا کا اثر 

افغان روایت اور رواج کے مطابق بچوں کی تعلیمی زندگی کے آغاز سے قبل کسی صاحبِ طریقت وعرفان کی خدمت میں پیش کرکے دعا لینے کی اچھی روایت رہی ہے۔ والد محترم نے اپنے شیخ مجاہد کبیر مولانا نجم الدین آخوند زادہ صاحب سے ان کے حق میں بطور خاص دعا کرائی، چنانچہ اس کی مختصر روئداد لکھتے ہوئے محترم خلیل زی رقم طراز ہے:
 ایک دن بعد نمازِ جمعہ حضرت والد محترم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر حضرت نجم الدین ہڈی ملا صاحب کی خدمت میں پیش کیا، اور بطور خاص ان کے مقبول عالم دین ہونے کے لیے دعا کی درخواست کی، انہوں نے دعا فرمائی، ان کے حجرہ سے رخصت ہونے کے بعد واپسی میں کافی راستہ طے کرنے کے بعد درمیان راستہ میں والد محترم نے دوبارہ ان کے حجرہ کی راہ لی، اور خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوکر عرض کیا، حضرت دوبارہ دعا فر مائیں، چنانچہ انہوں نے دوبارہ دعا فرمائی، اور رخصت ہوگئے، کافی راستہ طے کرنے بعد والد صاحب کے دل میں سہ بارہ دعا کی درخواست کا اشتیاق پیدا ہوا، چنانچہ نصف راستہ سے دوبارہ واپس ہوئے، اور عرض کیا: حضرت! خصوصی دعا فرمائیں، چنانچہ وہ مسکرائے اور فرمایا: ’’مولوی حسین!! اللہ تعالیٰ آپ کے بچے کو اپنے علم میں سے بہت کچھ عطا کرے۔ ‘‘
 علامہ کاموی ؒ فرماتے ہیں کہ: بچپن میں سنے ہوئے ان کی دعا کے یہ الفاظ آج بھی کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔ (۳) چنانچہ اس کامل مرشد کی دعا کا یہ اثر تھا کہ آپ کو جلیل القدر اساتذہ مُیسَّر ہوئے، دیارِ افغان اور ہند کے نامور اداروں میں علم کی تحصیل کی توفیق ہوئی، اور نہایت محنت، عزیمت اور بیداری کے ساتھ علومِ آلیہ وعالیہ کی تکمیل کی۔ 

تعلیمی زندگی

آپ کی تعلیمی زندگی کو ہم دو ادوار پر تقسیم کرسکتے ہیں: ۱: وطنِ مالوف افغانستان میں حصولِ تعلیم کا زمانہ۔ ۲: ہندوستان میں تعلُّم کا زمانہ۔ 
آپ نے علومِ آلیہ کی قریباً نصف تعلیم افغانستان میں رہ کر حاصل کی، اس کے بعد ہندوستان کی طرف عازم ہوئے، اور وہاں بھوپال، دہلی اور پھر دیوبند کے مدارس میں رہ کر علومِ آلیہ کی تکمیل کی، البتہ تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم خصوصی طور پر آپ نے دار العلوم دیوبند سے حاصل کی، اس کی حاصل ہوسکنے والی تفصیل ذیل میں ذکر کی جاتی ہے: 

افغانستان میں علومِ آلیہ: صرف ونحو منطق وفلسفہ وغیرہ کی تعلیم

آپ نے ابتدائی تعلیم والد محترم ملا محمد حسین سے حاصل کی۔ (۴) والد سے ان کی تعلیم کی حدود کیا تھیں؟ اس بارے میں ہمیں معلومات نہ مل سکیں، اندازاً یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کے اعتبار سے عربی ادب، صرف ونحو، مبادیِ فقہ، اور پشتو ادب کی کچھ کتب کی تحصیل انہوں نے والد محترم سے کی، غالباً یہ تعلیم گھر میں یا گھر کے قریب کسی مسجد میں ہوئی ہوگی، بعد ازاں علومِ آلیہ کی تحصیل کے لیے آپ نے اسفار کیے، اور افغانستان کے مختلف مدارس میں نہایت محنت اوردِقت سے آپ نے ان علوم کی تحصیل کی، جس کی کچھ تفصیل ذیل میں آتی ہے۔ 
والد محترم سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے افغانستان ہی میں علومِ آلیہ کی تعلیم حاصل کی، چنانچہ والد محترم کے علاوہ آپ نے درج ذیل اساتذہ سے بھی استفادہ کیا :
۱: مولانا محمد ابراہیم کامویؒ۔
۲: مولانا ملا محمد مسکین ؒ۔ 
ان دو حضرات سے آپ نے صرف ونحو کی ابتدائی کتب پڑھیں۔ 
۳: قاضی القضاۃ علامہ عبد القدیر صدیقی لغمانیؒ: ان سے آپ نے نحو کی منتہا درجہ کی کتب مثلاً شرح جامی وغیرہ پڑھی، علامہ عبد القدیر لغمانیؒ افغانستان بھر میں نحو وصرف، منطق اور فلسفہ کے امام متصوَّر کیے جاتے تھے، حضرت محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوری ؒ نے آپ سے کابل میں ملا جلال پڑھی(۵)، بعد میں علامہ عبدالقدیر لغمانی ؒ افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کے ضلع جلال آباد میں محکمہ شرعیہ کے قاضی مرافَعَہ مقرر ہوئے، غالباً علامہ غلام نبی ؒ نے بھی علامہ عبد القدیر ؒ سے کابل میں استفادہ کیا۔ 
۴: علاقہ مزینی کے ایک عالم المعروف بہ لوی ملا صاحبؒ سے آپ نے منطق کی کچھ کتابیں پڑھیں۔ 
۵: علامہ میاں عبد العلی صاحب قیلغوالمعروف بہ لوی میاں صاحبؒ سے آپ نے منطق کی بڑی کتابیں مثلاً :میر زاہد، ملا جلال، قطبی، فیروزبا، وغیرہ پڑھیں۔ (۶)
۶: مولانا میر علم کاپیساییؒ: ان سے مولانا نے دار العلوم کابل میں کچھ کتابیں پڑھی۔ (۷)
افغانستان میں آپ کی تعلیم کا دورانیہ کتنا تھا؟ اس کی تاریخ اور زیادہ تفصیل وغیرہ معلوم نہ ہوسکی، خاندانی روایت کے مطابق آپ نے ۱۳۳۱ھ سے لے کر ۱۳۳۹ھ تک کا زمانہ دیوبند میں گزارا، اس طرح گویا ۱۳۳۰ھ سے قبل کا عرصہ آپ نے افغانستان، دہلی اور بھوپال وغیرہ میں گزارا، اور علومِ آلیہ سمیت علومِ عالیہ کی تحصیل کی۔ 

ہند کی طرف رحلت اور بھوپال و دہلی میں تعلیم کا زمانہ 

علاقہ کے علماء سے مروجہ علوم وفنون میں اپنی پیاس بجھانے کے بعد آپ نے ہند وستان کا سفر کیا، تاریخی دستاویزات سے آپ کی ابتدائی رحلت وغیرہ کی تفصیلات نہ مل سکیں، البتہ خاندانی روایت کے مطابق اتنا معلوم ہے کہ دار العلوم دیوبند میں آپ کی آمد کا زمانہ ۱۳۳۱ھ مطابق ۱۹۱۳ء ہے، اور اس سے قبل آپ نے بھوپال اور دہلی میں علومِ آلیہ کی تحصیل کی، اس اعتبار سے گویا ۱۹۱۲ء سے پہلے کے دو تین سال کا عرصہ آپ نے بھوپال اور فتح پور دہلی وغیرہ میں گزارا۔ 
ہندوستان میں آپ کی تعلیم تقریباً عرصہ دس سال پر محیط رہی، عیسوی اعتبار سے یہ زمانہ ۱۹۱۰ء سے ۱۹۱۹ ء بنتا ہے۔ شورش اور پر آشوب حالات پر مشتمل اس زمانہ میں ہندوستان کی باگ ڈور مکمل طور پر برطانوی استعمار اور ان کے گماشتوں کے ہاتھ میں تھی، البتہ بھوپال کسی قدر اس تسلُّط سے محفوظ تھا، یہی وہ زمانہ تھا کہ جس میں مسلمانوں کی عظیم سلطنتِ عثمانیہ بکھر کر ۳۰ حصوں میں منتشر ہوگئی، ترک اور ان کے حلیف جرمنی کی شکست در شکست سے مسلمانانِ ہند کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔ دوسری طرف اسی عرصہ میں آزادیِ ہند میں مسلم قومیت کی حقیقی قیادت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ برطانوی استعمار پر آخری وار کرنے کی غرض سے تحریک ریشمی رومال کا سہارا لے کر عرب میں موجود پاشاؤں کے پاس گئے، قریب تھا کہ یہ تحریک مقبول ہوتی، اور انگریز ی سلطنت کے خلاف ایک نیا محاذ گرم ہوتا، شریفِ مکہ کی دین بیزاری نے اس تحریک کو جزیرۂ عرب میں غرقاب کر کے سن ۱۹۱۹ء میں شیخ الہندؒ اور ان کے رفقاء کو جزیرہ انڈیمان اور مالٹا کی یخ بستہ قید میں لا گرفتار کیا، یوں مسلمانانِ ہند ایک حقیقی اور بے باک لیڈر سے محروم ہوگئے، ان تمام حالات کے باوجود قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے قائم کردہ ادارے دار العلوم دیوبند نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں، اور کسی طور پر ہند میں علم وعرفان کو ز وال نہ ہونے دیا، ان گوناگوں حالات میں علامہ غلام نبی ؒ نے فتح پور، دہلی، بھوپال اور دیوبند سے دینی علوم کی تحصیل کی، اور بھر پور طریقے سے کی۔ 

بھوپال میں تعلیم 

بھوپال میں آپ نے کس ادارے اور کن اساتذۂ فن سے کن علوم کی تحصیل کی؟ اس کی تفصیل ہمیں نہ مل سکی، البتہ ایک استاذ ملا دہبایی صاحب کا محض نام ملتا ہے، غالب خیال یہی ہے کہ آپ نے مشہور افغانی سردار نواب آف بھوپال سردار دوست محمد خان کے قائم کردہ دینی مدرسہ وقفیَّہ میں تعلیم حاصل کی، نیز اس زمانہ میں ریاست بھوپال میں دینی تعلیم کا مشہور مدرسہ صرف یہی مدرسہ وقفیَّہ تھا، بعد میں چل کر یہی جامعہ احمدیہ بھوپال کے نام سے موسوم ہوا۔ (۸)
 ۱۹۴۶ء میں جب مولانا سید سلیمان ندوی ؒ اس مدرسہ کے مدیر مقرر ہوئے، انہوں نے حضرت محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ کو بھی تدریس اور تالیف کی غرض سے مدعو کیا، لیکن حضرت جو اس وقت مجلس علمی ڈابھیل سے وابستہ تھے، جانے پر تیار نہ ہوئے۔ (۹)
 بعد ازاں سن ۱۹۴۷ء کی تقسیم اور تحلیل کے ساتھ یہ مدرسہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا، اور ہندی حکومت نے اس کو بحقِ سرکا رضبط کیا، مولانا سلیمان ندوی ؒ نے بھی پاکستان ہجرت کی۔ 

دہلی میں تعلیم

دہلی میں آپ کی تعلیم وتعلم سے متعلق بھی زیادہ معلومات نہ مل سکیں، صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ فتح پور دہلی (غالباً مراد قدیم مدرسہ عالیہ فتح پور ہے) میں آپ نے مولانا رحمدل خان قندہاری ؒ اور مولانا تاج الدین المعروف بہ کابلی ملا سے منطق وفلسفہ کی منتہا درجہ کی کتابیں پڑھیں، جن میں شرح المطالع، الافق المبین، صدرا، الشمس البازغۃ، میبذی شرح ہدایۃ الحکمۃ، شرح اشارات وغیرہ پڑھی، نیز اس دوران آپ نے حساب، ریاضی اور ہیئت وغیرہ کی کتابیں بھی ان سے پڑھیں۔ (۱۰)

دار العلوم دیوبند میں تعلیم اور پھر تدریس
 

دہلی اور بھوپال میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دار العلوم دیوبند کی طرف عازمِ سفر ہوئے، یہ ۱۹۱۳ء کا زمانہ تھا، دیوبند کی فضا میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، مولانا محمد انورشاہ کشمیری ؒ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی روحانی برکات اور علمی فیوضات کا عظیم سلسلہ قائم تھا، ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۹۱۵ء کو شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ اور مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے حجاز کا مقدس سفر کیا، وہاں گرفتاری کا واقعہ پیش آیا، یوں ان دونوں حضرات کی دیوبند سے جدائی ہوئی، اور عرصہ ۸ سال تک ہر دو حضرات قید وبند کی صعوبتوں میں رہے۔ 
اس دوران آپ نے جن حضرات سے استفادہ کیا، ان میں شیخ الہندؒ اور علامہ کشمیریؒ کے علاوہ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ 
دار العلوم دیوبند میں آپ کی تعلیمی مدت( ۱۳۳۱ھ تا ۱۳۳۹ھ مطابق ۱۹۱۲ء تا ۱۹۲۱ء) ۹ سال کے طویل عرصہ پر محیط ہے، بعد از فراغت ۱۳۳۹ھ تا ۱۳۴۳ھ مطابق ۱۹۲۱تا ۱۹۲۵ء آپ نے دار العلوم دیوبند میں ایک مایہ ناز مدرّس کے طور پر خدمات انجام دیں، جس کی کچھ تفصیل ذیل میں آتی ہے: 
نو سال کے عرصۂ تعلیم میں آپؒ نے حضرت شیخ الہند مولانا انور شاہ کشمیری ؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ سے علومِ عالیہ : تفسیر، فقہ اور حدیث وغیرہ کی تعلیم حاصل کی، تفسیر اور حدیث میں خصوصی طور پر آپؒ نے حضرت شیخ الہندؒ اور علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے استفادہ کیا، اسی وجہ سے ظاہر شاہ کے دور حکومت میں جب افغانستان میں تفسیر شیخ الہند المعروف بہ تفسیر عثمانی کی پشتو اور درّی زبان میں ترجمہ کی حاجت ہوئی، تو تمام علماء کی نظرِ انتخاب آپ ہی پر پڑی، آپ نے ۱۳۶۸ھ مطابق ۱۹۴۹ء میں علماء کی ایک جماعت کی معیت میں اس کا شاندار اور تحقیقی ترجمہ کیا، جو تفسیر کابلی(۱۱) کے نام سے معروف ہے۔ 
علوم الحدیث خاص طور پر صحاحِ ستہ کی تعلیم آپ نے حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ سے حاصل کی، حضرت کشمیری ؒ اس وقت دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین تھے(۱۲) یہی وہ زمانہ تھا کہ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ پشاور سے قصد کرکے دیوبند پہنچے، چنانچہ جس وقت آپ دار العلوم دیوبند میں استاذ اور مدرس تھے، اس عرصہ میں حضرت بنوری ؒ وسطانی صفوف میں علومِ آلیہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے، چنانچہ حضرت بنوری ؒ سے آپ کی شناسائی طالب علمی کے دور سے رہی، اور آخری وقت تک دونوں حضرات میں نہایت گرم جوشانہ بے تکلف اور علمی تعلق رہا۔ حضرت بنوری ؒ آپ کے علم وفضل کے معترف تھے۔ 
یاد رہے کہ حضرت بنوری ؒ کی تاریخ پیدائش ۱۹۰۸ء جبکہ مولانا غلام نبی کاموی ؒ کی تاریخ پیدائش ۱۸۹۵ء ہے، اس اعتبار سے آپ حضرت بنوریؒ سے تقریباً ۱۲  سال عمر میں بڑے تھے، ہر دو حضرات کے علمی تعلق اور باہمی اُلفت اور تودُّد کی کچھ تفصیل آگے آتی ہے۔ 
افغانستان، بھوپال، دہلی وغیرہ میں کئی برس تک علومِ آلیہ حاصل کرنے کے بعد نو سال تک آپ نے دار العلوم دیوبند میں رہ کر نہایت محنت اورکد وکاوش کے ساتھ تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ میں مہارت حاصل کی، اِس دوران آپ نے اپنی لیاقت کا لوہا منوایا، اپنے رفقاء درس میں ہمیشہ آپ ممتاز رہے، دیوبند میں آپ کا شمار حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے خاص الخاص شاگردوں میں رہا۔ 
 ۱۳۳۹ھ مطابق ۱۹۲۱ء میں آپ نے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ سے صحاحِ ستہ کی اکثر کتب میں شہادتِ فراغ حاصل کی، اسی سال آپ کا دار العلوم دیوبند میں بطور مدرس تقرر ہوا، پانچ سال تک آپ نے نہایت محنت اور جانفشانی کے ساتھ چھوٹی بڑی کئی کتابوں کی تدریس کی، آپ کی علمی لیاقت، قابلیت اور حدیث شریف میں کثرتِ مطالعہ کو دیکھتے ہوئے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے آپ کو اپنا معاون مدرس مقرر کیا، چنانچہ کئی دفعہ ان کی غیابت میں آپ نے صحیح البخاری کا درس بھی دیا، ۱۳۴۳ھ مطابق ۱۹۲۵ء تک آپ دار العلوم دیوبند میں مدرس کے طور پر رہے، ۱۹۲۵ء میں آپ وطن جلال آباد لوٹ آئے۔ (۱۳)
آپ کے زمانۂ تعلیم و تدریس کے تفصیلی حالات ہمیں نہ مل سکے، البتہ تاریخی گوشواروں میں موجود بعض اکابرِ دیوبند کے تأثرات اور آپ سے متعلق ان کے علمی تبصرے ضرور موجود ہیں، جو آپ کی علمی لیاقت، دانشمندی اور فنِ تدریس میں کامل مہارت کا پتہ دیتی ہیں، ذیل میں بعض اکابر کے تاثُّرات پیش خدمت ہیں:

علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے تأثرات 

مولانا محمد انور شاہ کشمیری ؒ نے اپنے استاذ حضرت شيخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’این ملا کابلی مجتہدِ عصر است۔‘‘ ایک استاذ کی اپنے شاگرد سے متعلق اس قدر وقیع گواہی بھرپور معنی رکھتی ہے، اور اس وقت اس کی قوت اور ثقاہت میں اضافہ ہوجاتا ہے، جب مخاطب شیخ الہندؒ جیسا عظیم استاذ ہو۔(۱۴)

آپ کے رفیقِ مکتب ا ور معاصر دوست حضرت علامہ محمد یوسف بنوری ؒ کا تاثُّر ومشاہدہ

حضرت بنوری ؒ کے بقول حضرت انور شاہ کشمیریؒ کے سفر ومصروفیت کی صورت میں حضرت مولانا غلام نبی کامویؒ دار العلوم دیوبند کے دورہ حدیث میں بخاری شریف کا درس دیا کرتے تھے۔ (۱۵)
اور غالباً اس امر کا مشاہدہ حضرت بنوری ؒ نے اپنے طالب علمی میں کیا ہوگا، کیونکہ جس وقت مولانا غلام نبی ؒ دیوبند میں مدرس تھے، ٹھیک اسی عرصہ میں حضرت بنوری ؒ دار العلوم دیوبند میں وسطانی درجات کے طالب علم تھے، پھر ظاہر ہے حضرت علامہ کشمیری ؒ کے اعتماد اور استناد کے بغیر ان کے عظیم منصب پر بیٹھ کر درسِ حدیث کا دینا ممکن نہ تھا، اس مذکورہ مشاہدہ سے حضرت کشمیری ؒ کے گزشتہ قول کی بھی تائید ہوتی ہے۔ 

مصری استاذ الشیخ عبد العال عطوہؒ کی گواہی 

دار العلوم عربی کابل میں جامعہ ازہر مصر کی طرف سے مبعوث مشہور مصری استاذ الشیخ عبد العال عطوہ نے ایک مجلس محاضرہ میں حضرت مولانا غلام نبی کاموی ؒ کے علم وفضل کی گواہی ان الفاظ میں دی : ’’صاحب الفضیلۃ إنکم حقا لفقیہ۔‘‘ (۱۶)
ان مذکورہ اقوال وتأثرات سے آپ کے علمی منصب، لیاقت، خداد صلاحیت اور استعداد کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 

حواشی وحوالہ جات

۱:دیکھئے: شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص: ۵ و ص: ۴۱)، باہتمام : ڈاکٹر عبد الملک کاموی، ط: انتشاراتِ نعمانی، کابل۔ 
۲:آپ کا پورا نام نجم الدین آخوند زادہ ہے، حضرت ہڈی ملا صاحب سےشہرت رکھتےہیں۔ آپ کی تاریخ پیدائش معلوم نہ ہوسکی، آبائی تعلق افغانستان کے مشہور صوبہ غزنی کے مضافاتی علاقہ شیلگرہجویر سے ہے۔ ابتدائی تعلیم کابل اور غزنی وغیرہ میں حاصل کی۔ آپ کا خاندان علم وفضل کا حامل رہا ہے۔ تحصیلِ علم کے بعد آپ نے صوبہ ننگر ہار کے ضلع جلال آباد کی ہڈا نامی بستی میں سکونت اختیار کی، اس وجہ سے آپ کو ہڈی ملا کہا جاتا ہے، آپ نے صوبہ سرحد کے ضلع سوات کے مشہور مجاہد اوربزرگ شخصیت مولانا سید عبد الغفور آخوند ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی، اور طویل عرصے تک ان کی راہنمائی میں ارشاد وصلاح لیتے رہے، ان کی سرکردگی اور امامت میں انگریز کے خلاف جہاد بالسیف بھی کیا، اور دادِ شجاعت پائی، آپ کے خلفاء میں حاجی صاحب ترنگزئی، اور ملااحمد المعروف بہ سنڈاکی بابا مشہور ہیں، آپ کا شمار سلسلہ عالیہ قادریہ کے مشہور بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ کی وفات ۱۳۱۹ھ مطابق ۱۹۰۱ء کو ہوئی۔ مزید تفصیلی حالات کے لیے دیکھیے: ’’تذکرہ صوفیائے سرحد‘‘ مؤلفہ: اعجاز الحق قدوسی۔ (ص: ۵۷۵)، ط: مرکزی اردو بورڈ لاہور۔ ’’تاریخ اولیاء‘‘ مؤلفہ: ابو الاسفار علی محمد بلخی، (ص: ۲۱۲)، نورانی کتب خانہ پشاور۔
۳:شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:۲۳)، مضمون نگار : خلیل زی
۴ :شخصیت ومیراث علَّامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:۷)، مضمون نگار : ڈاکٹر عبد الملک کاموی
۵: ماہنامہ ’’بینات‘‘ اشاعت خاص بیاد حضرت بنوریؒ، سن ۱۳۹۸ھ مطابق ۱۹۷۸ء (ص: ۲۴)، مضمون: مولانا لطف اللہ پشاوریؒ
۶: ’’شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ ‘‘(ص:۴۲)، مضمون نگار : مولوی محمد ہاشم کاموال
۷: ٲایضًا: (ص: ۴۳)
۸: سہ ماہی’’ فکر وآگاہی‘‘ دہلی، بھوپال نمبر، مقالہ نگار: مفتی جنید صدیقی، (ص: ۴۷۶-۴۸۱)
۹: ’’حضرت بنوریؒ، نایاب مضامین، خاکوں، اور یادداشتوں کا مجموعہ‘‘ مرتبہ: مولانا عمر انور بدخشانی، (ص:۱۲۰ -۱۲۱)، مضمون نگار: مولانا سید سیاح الدین کاکاخیلوی، ط: زمزم پبلشرز، کراچی، ۱۴۳۲ھ
۱۰: ’’شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ ‘‘(ص:۴۲)، مضمون نگار : مولوی محمد ہاشم کاموال۔ 
۱۱: تین جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر پشتو اور دری زبان میں لکھی گئی ہے، افغانستان، ایران، اور پاکستان سے یہ کئی دفعہ چھپی ہے، اب تک اس کے دسیوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ 
۱۲: یاد رہے کہ ۱۹۲۹ء تک آپ اس منصبِ جلیل پر فائز رہے، ۱۹۲۹ء میں آپ نے گجرات کی طرف رحلت کی، اور دار العلوم اسلامیہ ڈابھیل کے نام سے ایک قد آور مدرسہ کو آباد کیا، ۱۹۳۰ء میں اپنے آبائی وطن کشمیر جنت نظیر کا طویل سفر کیا، ۱۹۳۱ء میں واپس ڈابھیل آئے، ۱۹۳۳ء میں وہی آپ کا انتقال ہوا، تدفین دار العلوم دیوبند کے قبرستان میں ہوئی۔ تفصیلی حالات کے لیے دیکھیے: ’’نفحۃ العنبر في حیاۃ الشیخ محمد أنور‘‘، مؤلفہ: علامہ محمد یوسف بنوریؒ۔ 
۱۳: ’’شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ ‘‘(ص:۴۲)، مضمون نگار: مولوی محمد ہاشم کاموال۔ 
۱۴: ’’شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ ‘‘(ص:۱)، مضمون نگار : ڈاکٹر عبد الملک کامویؒ۔ 
۱۵: ٲیضًا۔
۱۶: ٲیضًا۔                                                                                             (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین