بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تذکرہ علامہ غلام نبی کاموِیؒ  (دوسری اور آخری قسط)

تذکرہ علامہ غلام نبی کاموِیؒ 

شیخ الہندؒ اور علامہ کشمیری ؒکے مایہ ناز شاگرد اور حضرت بنوری ؒ کے رفیقِ خاص
 

 (دوسری اور آخری قسط)


وطنِ مالوف واپسی اور دینی وعلمی خدمات

۱۳۴۳ھ مطابق ۱۹۲۵ء کو آپ اپنے آبائی مسکن ووطن واپس لوٹ آئے، کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد آپ نے صوبہ سرحد موجودہ خیبر پختونخواہ کا رخ کیا، اور پشاور سمیت خیبر پختونخواہ کے مشرقی علاقوں مثلاً مسجد طرہ قل بای پشاور، (موجودہ نام ترقول مسجد لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے عقب میں موجود ہے) دتوسی، اور ڈمگرو (غالباً ڈبگري مراد ہے) وغیرہ میں تقریباً ۱۹۲۵ء سے لے کر ۱۹۳۷ء تک ۱۲ سال تدریسی خدمات انجام دیں، اس دوران آپ کے سیکڑوں شاگرد ہوئے۔ حضرت بنوری ؒ نے بھی پشاور کے دو مدرسوں: ۱: مدرسہ تعلیم القرآن یکہ توت اور ۲: مدرسہ رفیع الاسلام بھانہ ماڑی میں تدریسی فريضہ انجام دیا۔ 
بعد ازاں آپ افغانستان لوٹ آئے، اور دار العلوم عربی کابل میں بحیثیت استاذِ کبیر آپ کی تقرری عمل میں آئی، اور یوں علومِ کشمیری کا فیض ہندو ستان سے افغانستان منتقل ہوا، دار العلوم عربی کا شمار اس وقت کے افغانستان کے نامور اور ممتاز دینی اداروں میں ہوتا تھا، غالباً حضرت علامہ بنوری ؒ نے بھی علامہ عبد القدیر لغمانیؒ سے یہیں ملا جلال پڑھی۔ (۱)
 دار العلوم عربی کابل کا ایک قدیم نیم سرکاری ادارہ تھا، اور اس کا تعارف جامعہ ازہر مصر کی ایک شاخ کے طور پر ہوتا تھا، چنانچہ مصری مبعوث اساتذہ کی یہاں ایک معتد بہ جماعت تھی، جو افغانی طلبا کو عربی ادب اور بلاغت وغیرہ کی تعلیم دیتی تھی، مولانا غلام نبی کاموی ؒ نے ۱۳۵۶ھ سے لے کر ۱۳۷۴ھ تک مطابق ۱۹۳۷ء تا ۱۹۵۴ء یہاں رہ کر منطق، فلسفہ، علم الکلام، فقہ، حدیث اور تفسیر کا درس دیا، اور نہایت مختصر مدت میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے، یہاں آپ کا قیام ۱۷سال پر محیط رہا، اس دوران آپ کابل کے دیگر مدارس سے بھی وابستہ رہے، اور عرصہ دراز تک آپ نے بطور شیخ الحدیث حدیث کی مختلف کتابوں کا درس بھی دیا، نیز اسی عرصہ میں سرکاری طور پر آپ کو ریڈیو افغانستان پر درس اور موعظت، اور علمی تقریروں کے لیے بطور مبصر مقرر کیا گیا، اورسالہاسال تک آپ یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ (۲)
صحیح البخاری کی تدریس میں بطور خاص آپ نے اس بات کا اہتمام کیا کہ علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کی ’’فیض الباري‘‘ کے علاوہ حافظ ابن حجر ؒ کی ’’فتح الباري‘‘، علامہ عینی  ؒ کی ’’عمدۃ القاري‘‘، اور علامہ قسطلانی  ؒ کی ’’إرشاد الساري‘‘ سے احکام الحدیث، اور تخریج الحدیث کے مباحث کا لبِ لباب طلبہ کے سامنے بیان کرتے، البتہ ترجیحِ راجح اور استنباطِ مسائل میں ان کا منفرد خاص ذوق تھا، چنانچہ آپ کے درس میں طلبہ حنفی مذہب کی تائید میں اس خاص ذوق کو بھر پور ملاحظہ کرتے تھے۔ 
جس وقت مولانا افغانستان آئے اور کابل کے دارالعلوم عربی میں بڑی کتابوں کے مدرس مقرر ہوئے، اس دورانیہ میں وزارتِ تعلیم کی بڑی شخصیات کے ساتھ علمی اجتماعی اجلاسوں میں شرکت کر نے کا موقع ملا، ریاست نے آپ کی لیاقت اور قابلیت کے بل بو تے پر آپ کو وزارتِ تعلیم کی شوریٰ کا صدر مقرر کیا، اس کے ساتھ ہی وزارتِ اطلاعات کے شرعی مشاور کی حیثیت سے بھی ان کو اہم وظیفہ سونپا گیا، سال ۱۳۷۵ھ سے ۱۳۷۹ھ مطابق ۱۹۵۶ء تا ۱۹۵۹ء تک قندھار کے محکمہ شرعیہ کے قاضی القضاۃ کے طور پر کام کیا، بعد ازاں سردار محمد داؤد خان کی حکومت میں اعزازاً آپ دار الحکومت کابل کے محکمہ شرعیہ کے قاضی مُرافع مقرر ہوئے۔ ۱۳۸۷ھ مطابق ۱۹۶۷ء میں حاکمِ وقت ظاہر شاہ کے حکم پر تشکیل پانے والے نئے مجموعہ قوانینِ اسلامی کے مسودہ کی تصحیح اور ترتیب کے لیے آپ کو اس کمیٹی کا خصوصی رکن نامزد کیا گیا۔ ۱۳۹۰ھ مطابق ۱۹۷۰ء میں آپ کو افغان جمہوری پارلیمان کا سینیٹر نامزد کیا گیا، نیز اس دوران شاہانِ وقت اور امراء کی آپ پر خصوصی عنایات رہیں، نیز بحیثیت قاضی القضاۃ اس وقت کے جرگہ نظام میں قولِ فیصل آپ ہی کا معتبر ہوتا تھا، قضاء اور عدلیہ میں آپ نے کارہائے نمایاں انجام دئیے، اور آپ نے محکمہ قضاء میں قاضیوں کی کئی جماعتوں کی تربیت کی، اور انہیں اسلامی قضا کے نشیب وفراز سمجھائے۔ (۳)
 انیسویں صدی عیسوی میں جن شخصیات نے سرزمین افغانستان میں لازوال علمی، تحقیقی، اور دعوتی، خدمات انجام دیں، آپ ان کے سرخیل شمار ہوتےہیں۔ آپ کی خدمات کا دائرہ اور مقبولیت عوام اور خواص میں یکساں رہی، ننگر ہار سے لے کر ہرات تک اور غزنی سے لے کر بلخ و دیگر شمالی علاقوں میں آپ کے سینکڑوں شاگردوں نے آپ کے منہج، فکر اور طرزِ عمل کو اپنا کر دینِ حنیف کی خوب خدمت کی، اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ 

مولانا غلام نبی کاموی ؒ اور محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کا باہمی تعلق اور رفاقت 

مولانا غلام نبی ؒ کی مولانا یوسف بنوری ؒ سے رفاقت کی مدت اور باہمی تعلق کا زمانہ کافی قدیم ہے، چنانچہ ۱۹۲۵ء کے عرصہ میں جس وقت آپ دار العلوم دیوبند کے استاذ تھے، اسی عرصہ میں حضرت بنوری ؒ یہاں طالب علم تھے، جیسا کہ ماقبل میں گزرا کہ دیوبند میں حضرت شاہ صاحبؒ کی غیر موجودگی میں صحیح البخاری کی تدریس آپ کے ذمہ تھی۔ اور اس امر کی گواہی حضرت بنوری ؒ نے خود دی، نیز کابل میں جن اساطینِ علم سے مولانا غلام نبی کاموی ؒ نے تعلیم حاصل کی، انہی میں سے بطور خاص علامہ عبد القدیر لغمانی  ؒ سے حضرت بنوری ؒ نے بھی تلمذ کیا۔ جس وقت جلال آباد مولانا غلام نبی ؒ کا مسکن تھا، اسی عرصہ میں حضرت بنوری ؒ بھی یہاں فروکش رہے۔ ان تمام قرائن کو مدِر نظر رکھتے ہوئے یہ بات غالب گمان کے درجہ میں کہی جاسکتی ہے کہ مولانا غلام نبی کاموی ؒ کا تعارف اور پھر تعلق مولانا بنوری ؒ سے دار العلوم دیوبند کے زمانہ سے بہت پہلے کابل یا جلال آباد میں ہی ہوچکا تھا، البتہ حضرت بنوری ؒ کی تحریرات میں ان کے باہمی تعلق سے متعلق جو یادداشتیں ملتی ہیں، وہ سن ۱۹۲۵ء کے بعد کے زمانہ پر مشتمل ہیں، اس سے قبل کی باہمی رفاقت سے متعلق کوئی تحریر ہنوز نہیں مل سکی ہے، نیز پشاور سمیت خیبر پختونخواہ کے مشرقی علاقوں میں تقریباً ۱۹۲۵ء تا ۱۹۳۷ء تک مولانا غلام نبی کامویؒ نے تدریسی خدمات انجام دیں، اسی زمانہ میں (۱۹۳۰ء تا ۱۹۳۴ء) حضرت بنوری ؒ نے بھی پشاور کے دو مدرسوں مدرسہ تعلیم القرآن یکہ توت اور مدرسہ رفیع الاسلام بھانہ ماڑی میں تدریسی فرائض سرانجام دئیے، نیز اس دوران حضرت بنوری ؒ نےجمعیت علماء سرحد کے صدر کے طور پر بھی دو سال کام کیا، لہٰذا دونوں کی باہمی ملاقاتیں، ایک دوسرے کے پاس آمد ورفت کا زیادہ سلسلہ بھی پشاور ہی میں رہا۔ 

مولانا غلام نبی ؒ کی پشاور میں ملاقات کے لیے آمد اور حضرت بنوری ؒ کی خوشی

۱۹۲۹ء کو دار العلوم ڈابھیل سے فراغت کے بعد حضرت بنوری ؒ نے اپنے شیخ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کے آبائی گاؤں کشمیر میں تقریباً چھ ماہ کا عرصہ گزارا، اس دوران آپ نے حضرت کشمیری ؒ کی خوب خدمت کی، نیز ان سے علم وفلسفہ سے متعلق کثیر مباحث میں انفرادی طور پر استفادہ کیا، ۱۹۳۰ ء میں پشاور لوٹ آئے، اور ۱۹۳۴ء تک برابر چار سال آپ پشاور میں علمی اور ملی خدمات میں مصروف رہے۔ اس عرصہ میں آپ کا معاصر علماء اور بزرگوں سے خط وکتابت کے ذریعے رابطہ رہا، حضرت مولانا عبد الحق نافع صاحب ؒ جو آپ کے معاصر، دوست، اور قد یم رفیق تھے، اور اس زمانہ میں و ہ دار العلوم دیوبند میں صدر المدرسین کے منصب پر فائز تھے، ان سے مکاتبت کرتے ہوئے ایک خط میں حضرت بنوری ؒ نے مولانا غلام نبی کاموی ؒ کی آمد کا ذکر کیا ہے۔ خط کی عبارت سے جہاں علامہ کامویؒ اور علامہ بنوری ؒکی باہمی محبت اور اُلفت کا اندازہ ہوتا ہے، وہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیخ عبد الحق نافع  ؒ کا بھی مولانا غلام نبی کامویؒ سے اِرتباط تھا، خط کافی طویل اور عربی زبان میں تحریر کیا گیا ہے، مختصراً اس سے یہ عبارت پیشِ خدمت ہے:
 ’’اجتمع إلينا الأضياف من نواح شَتّٰی، فذہب وقتٌ طويلٌ في العِشاء، وبيننا في ذٰلک أنْ تَفَضَّل مولانا غلام نبي، وَ مَکَث في حجرۃ الـمَسجد لِـمَکان الضيوف وأطلعني بورودہٖ خفيا بإرسالہ إليَّ نجيا، فاختلت عنہم فرصۃ الاغتياب واحتفزتُ عن الأصحاب وانطلقت إليہ للقاء والترحاب حتی تفکہنا نحو ساعتين بالمکالمۃ والآن صدر عنا فأتيت وطائي۔‘‘ (۴)
ترجمہ: ’’مختلف علاقوں سے کچھ مہمان آئے تھے، رات گئے تک مجلس چلتی رہی، عشاء کے کافی دیر بعد ہم ابھی فارغ ہی ہوئے تھے کہ محترم مولانا غلام نبی صاحب کی آمد ہوئی، وہ مسجد کے حجرے میں فروکش ہوئے، خاموشی سے مجھے اپنی آمد سے مطلع کیا، چنانچہ کسی طریقہ سے مہمانوں سے جان چھڑا کر جلدی سے ان کے پاس استقبال اور خوش آمدید کے لیے اُٹھ چلا آیا، تقریباً دو گھنٹے تک دونوں دل لگی کی باتوں میں مصروف رہے، ابھی دو گھنٹے بعد ان کی واپسی ہوئی، اور میں اُٹھ کر اپنے بستر کی طرف آیا۔‘‘

آپ کی تصنیفات اور تالیفات 
 

تالیف اور تصنیف سے آپ کو خصوصی شغف رہا، تفسیر، فقہ، علم الکلام، منطق اور فلسفہ میں آپ نے کئی یادگاریں چھوڑیں۔ آپ نے عربی، فارسی، اور دَرّی زبان میں تقریباً دس کے قریب چھوٹی بڑی کتابیں تالیف کیں، جن میں : ۱:تفسیر کابلی، (تفسیر شیخ الہند المعروف بہ تفسیر عثمانی کا فارسی درّی ترجمہ، تین جلدوں میں) اس تفسیر کو افغان علماء کی ایک جماعت نے مرتب کیا، لیکن ان سب کے سرخیل، راہنمائی کرنے والے اور پھر بنیادی اور مرکزی کردار آپ ہی تھے، یہ ۱۳۶۸ھ مطابق ۱۹۴۹ء کا واقعہ ہے۔ 
۲: سلم العلوم کی شرح ملا مبارک پر حاشیہ۔ 
۳:اثباتِ حشر ونشر کے موضوع پر ایک بھر پور علمی اور منطقی رسالہ۔ 
۴: تقریباً ۴۰ کے قریب وعظ ونصیحت اور علم و تحقیق پر مجموعہ مقالات، ان مقالات کو ڈاکٹر عبدالملک صاحب نے خوبصورت دیدہ زیب طباعت کے ساتھ کابل سے شائع کردیا ہے، اور کئی سو صفحات پر مشتمل یہ مقالات فارسی زبان میں ہیں۔ 
۴: اثبات النبوۃ والرسالۃ کے عنوان کے تحت کلامی مباحث پر مشتمل کتاب۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مولانا صاحب کو اس کتاب کے بدلے اس وقت کے افغان وزیر فیض محمد خان کی طرف سے معارف کی وزارت میں بڑے علمی منصب پر فائز کیا گیا اور اس کتاب کے بہت جلد طبع ہونے کا وعدہ بھی کیا، لیکن کہا جاتا ہے کہ درسی کتب کے چھاپنے کی وجہ سے اس کتاب کی طباعت میں تاخیرہوگئی، لیکن اس کے بعد مولانا صاحب نے کئی بار وزارتِ تعلیم میں درخواست دی کہ یہ مادی عرض دوبارہ لے لیا جائے اور کتاب واپس کی جائے، تاکہ میں ذاتی خرچ پر اس کو طبع کراؤں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ قیمتی سرمایہ نہ مولانا کو دوبارہ واپس کیا گیا، اور نہ اب تک اس کی طباعت ہوسکی(۵) اُمید کی جاتی ہیں کہ اب تک یہ کتاب معارف کی وزارت میں محفوظ ہوگی، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کتاب کو تلاش کرکے اس کی طباعت کی ترتیب بنائی جائے۔ 
مقالاتِ کاموی ؒ کے علاوہ یہاں کراچی میں مولانا کی مطبوعہ دیگر کتب ہمیں میسر نہ ہوسکیں، مذکورہ تعارف اور تبصرے خاندانی روایات اور محفوظ تاریخی دستاویزات کی روشنی میں کیے گئے۔ 

تفسیرِ کابلی لکھنے کا باعث اور مولانا کا منہج واسلوب

۱۳۶۸ھ مطابق ۱۹۴۹ء کے سال جب افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کی طرف سے حکومت کے صدر اعظم مرحوم محمد ہاشم خان کو یہ حکم دیا گیا کہ شیخ الہند علامہ محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے ترجمۂ قرآن اور تفسیر کو اُردو زبان سے پشتو، دَرّی اور فارسی مِلّی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے، بادشاہ کے حکم پر اس عظیم اور تاریخی خدمت کو سر انجام دینے کے لیے بڑے بڑے نامور علماء کی کمیٹی بنی، اس کمیٹی کے سرخیل مولانا غلام نبی کامویؒ تھے۔ 
تفسیر کابلی کے لکھنے میں آپ نے محض ترجمہ کرنے پر اکتفا نہ کیا، بلکہ بعض مقامات پر ترجمہ اور تفسیر کی دقت اور مشکلات کے پیش نظر آپ نے مصادراور مراجع کی طرف مراجعت کی، چنانچہ فرماتے ہیں: میں نے اس تفسیر کے ترجمہ میں صرف اس پر اکتفا نہیں کیا کہ یہ بڑے نامور اساتذہ کی لکھی ہوئی ہے اور یہ اسناد کافی ہے، بلکہ اس تفسیر کے ماخذوں کی چھان بین کے ساتھ ساتھ پرانے اور نئی معتمد تفاسیر میں تلاش کرنے اور اس کے ساتھ تطبیق کرنے اور تصدیق کے بعد میں نے اپنی فکر کا اظہار کیا۔ (۶)

مولانا کاموی ؒ کی اولاد 

آپ کی کل ۶ اولادیں ہوئیں، جن میں ۴لڑکیاں اور دو لڑکے شامل ہیں۔ ایک بیٹے کی وفات آپ کی حیات ہی میں ہوگئی تھی، آپ کے دوسرے بیٹے مولوی شیخ عبد العلی کاموی ؒ کی تربیت اور تعلیم میں آپ نے کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے دی، انہوں نے آپ کے زیرِ اشراف دار العلوم عربی کابل میں مکمل تعلیم حاصل کی، بعد ازفراغت تین سال اسی دار العلوم عربی کابل میں انہوں نے تدریسی خدمات بھی انجام دیں، آپ مولانا قاضی شیخ عبد العلی کاموی کے نام سے مشہور ہوئے، اور کافی عرصہ تک کابل اور ننگرہار کے قاضی القضاۃ، بعد ازاں افغانستان کی سپریم کورٹ میں فاضل سینیئر جج کے طور پر آپ نے کام کیا۔ 
قاضی عبد العلی کے سات بیٹے ہوئے، سب صاحب علم وکمال ہوئے، اور اپنے والد اور دادا محترم کے اچھے جانشین ثابت ہوئے، اکثر دنیا کے مختلف ممالک میں علمی اور عملی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
 

وَفات

علم وعرفان کایہ سورج برابر ۷۸ سال تک علمی اور ملی خدمات میں مصروف رہ کر ایک بڑی مملکت کو اپنی تابناکیوں سے روشن اور فیض یاب کرتا رہا۔ ۱۳۹۲ھ مطابق ۱۹۷۲ء بروز جمعہ دو بجے دن مختصر بیماری کے بعد کابل کے وزیر اکبر خان ہسپتال میں آپ کا نتقال ہوا، انتقال کی خبر جلد ہی افغانستان بھر میں پھیل گئی، چنانچہ پل خشتی کی جامع مسجد میں آپ کی نمازِ جنازہ جمعیت علماء افغان کے صدر اور سلسہ عالیہ قادریہ کے مشہور پیشوا مولانا الحاج الحافظ کی امامت میں پڑھی گئی، اس کے بعد آپ کا جسد خاکی گاؤں سنگر سرائی ضلع کامہ ننگر ہار منتقل کیا گیا، اور وہیں آپ کے قائم کردہ مدرسہ اور قدیمی مسجد کے پہلو میں تدفین عمل میں آئی، رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً۔ (۷)

حواشی وحوالہ جات

۱: ماہنامہ ’’بینات‘‘، اشاعت خاص بیاد حضرت بنوریؒ (ص: ۹)، مضمون نگار: مولانا محمد یوسف بنوریؒ، خود نوشت۔ 
۲: ’’شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ ‘‘ (ص:۴۵- ۴۷)، مضمون نگار : مولوی محمد ہاشم کاموال۔ 
۳: ایضاً ، ص:۴۵-۴۷
۴: مکاتیب حضرت بنوریؒ بنام مولانا عبد الحق نافع  ؒ۔ 
۵: ’’شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ ‘‘(ص:۴۵)، مضمون نگار : مولوی محمد ہاشم کاموال۔ 
۶: ایضاً ، ص: ۴۶
۷: ایضاً ، ص: ۴۹
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین