بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

تدریب المُعلِّمین وقت کی اہم ضرورت!

تدریب المُعلِّمین 

وقت کی اہم ضرورت!


تمہید 

معاشرتی اصلاح‘ فرد کی اصلاح پر منحصر ہے اور فرد کی اصلاح کے لیے والدین کے علاوہ سب سے زیادہ دخل ’’مدرس ومعلم‘‘ کا ہوتا ہے، بلکہ بعض مرتبہ ’’معلم‘‘ کا کردار والدین سے بھی بڑھ جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ a کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف معلم بنا کر بھیجا :’’إنما بعثت معلما‘‘ بلکہ اُمت کے لیے مربّی بھی بنایا اور اس عظیم کام کی نگرانی براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی، چناںچہ ارشاد ہوا: ’’علمنی ربی فأحسن تعلیمی و أدبنی ربی فأحسن تادیبی۔‘‘ بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر یہ کہنا بھی بالکل حق ہوگا کہ رسول اللہ a معلم ہی نہیں، ’’معلم گر‘‘ اور ’’انسان ساز‘‘ تھے۔ اسی کا ثمر تھا کہ۲۳ سال کے قلیل عرصے میں صحابہ کرام s کی صورت میں ایک عظیم گلدستہ تیار ہوا، جنہوں نے ایمان و اسلام کو صرف قبول نہیں کیا، بلکہ رسول اللہ a کے رنگ میں رنگتے چلے گئے۔ اس کا ایک پرتو ہمیں کتبِ احادیث میں ان روایات و ارشادات کی صورت میں نظر آتا ہے، جن کو حضرات محدثین ’’أبواب المناقب‘‘ کے تحت ذکر کرتے ہیں، مثلاً:’’ أقرأہم أبی بن کعب ، أعلمہم بالحلال و الحرام معاذ بن جبل و أفرضہم زید بن ثابت‘‘ وغیرہ۔ نیز حضرت عمر q کے بارے میں مشہور ارشادِ نبوی :’’ لو کان بعدی نبی لکان عمرؓ۔‘‘ جہاں حضرت عمر q کے کمال پر دلیل ہے، وہیں رسول اللہ a کی انسان سازی کی اعلیٰ شان کو بھی بتاتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو میں نے اپنے شیخ حضرت مولانا محمد احسان الحق صاحب ( خلیفہ مجاز حضرت شیخ الحدیث و استاذ الحدیث مدرسہ عربیہ رائیونڈ) اور صدر وفاق حضرت ڈاکٹر عبدالرزاق صاحب اسکندر مدظلہٗ دونوں سے سنی ( اگرچہ دونوں کی تعبیر جدا جدا ہے، مگر مفہوم ایک ہی ہے ) کہ کامیاب مدرس و استاذ کا مخلص ہونا ضروری ہے اور اخلاص کی علامت یہ ہے کہ اس کے اندر جذبہ ہو کہ میرے شاگرد کو پیشِ نظر کتاب مجھ سے بہتر آجائے اور جیسے صلبی اولاد سے باپ کو حسد نہیں ہوتا، بلکہ اس کی ترقی کو اپنے لیے خوشی و افتخار سمجھتا ہے ، یہی حال ایک مخلص استاذ و مربّی کا ہوتا ہے ۔ 

رجالِ کار تیار کرنے کا جذبہ

پھر انسان سازی کا یہ جذبہ صحابہs کو اور ’’قرناً بعد قرنٍ‘‘ ہر زمانے کے ائمہ و علماء کو ورثہ میں ملا۔ ایک دلچسپ قصہ حضرت مولانا محمد یوسف کاندہلویv نے ’’حیاۃ الصحابہؓ    ‘‘میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر q نے ایک مرتبہ ساتھیوں سے پوچھا: اپنی اپنی خواہش کا اظہار کرو۔ اس پر ایک صاحب نے عرض کیا: میری آرزو یہ ہے کہ یہ گھر دراہم سے بھرا ہوا ہو اور میں اس سب کو اللہ کے راستے میں خرچ کردوں ۔ حضرت عمر q نے پوچھا: کوئی اور اپنی خواہش ظاہر کرے ۔ دوسرے صاحب نے کہا کہ: میں تو یہ چاہوں گا کہ اس گھر کو سونے سے بھر دیا جائے اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ کر ڈالوں۔ تیسرے صاحب نے یہ تمنا کی کہ یہ گھر قیمتی جواہر سے بھرا ہوا ہو اور میں اس کو راہِ خدا میں لُٹا دوں۔ حضرت عمر q نے پھر سوال دہرایا تو ساتھیوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ اس سے بڑھ کر کیا تمنا کی جا سکتی ہے؟! اس پر حضرت عمر q نے فرمایا کہ: میری تمنا تو ہے کہ اس گھر میں ابو عبیدہ بن جراح ، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن یمان s جیسے لوگ ہوں اور ان کو اللہ کی فرماںبرداری کے کاموں میں استعمال کروں۔ (حیاۃالصحابہؓ ،باب انفاق الصحابۃ رضی اللہ عنہم)
  Resource Human کی یہ عملی شکل تھی۔

یہ اُمت بانجھ نہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی کمال حوصلہ افزائی دیکھئے کہ صرف حضرات سابقین و اولین کے فضائل و مناقب نہیں سنائے، بلکہ اپنی اُمت کے آخری طبقہ کو بھی خوشخبری سنا کر گئے، چناںچہ ارشاد فرمایا کہ: ’’میری اُمت کی مثال بارش کی سی ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا پہلا حصہ زیادہ نفع بخش ہے یا آخری حصہ۔‘‘ گویا اُمت کا آخری طبقہ بھی صحابہؓ جیسے کارنامے بے شک سرانجام نہ دے سکے، مگر خیر و رشد سے وہ بھی خالی نہیں ۔
تب ہی تو ہم اکابر کے سوانح میں پڑھتے ہیں کہ علامہ انور شاہ کشمیریv کے بارے کہا گیا کہ: ’’صحابہؓ    کا قافلہ جارہا تھا ، یہ بچھڑ کر پیچھے آگئے۔‘‘ اور بانی تبلیغ حضرت مولانا الیاس کاندہلویv کے بارے میں ان کی والدہ کہا کرتی تھیں کہ :’’مجھے اس بچے سے صحابہؓ    کی خوشبو آتی ہے ۔‘‘

آمدم برسر مطلب 

مقصد اس تمہید کا یہ ہے کہ ہمارے اکابر علماء کی اخلاص کے ساتھ پیہم محنت کا ثمرہ جہاں دینی مدارس اور پھر وفاق المدارس کی صورت میں دیکھ رہے ہیں، جس ایک ہی بورڈ کے تحت عالمیہ کا امتحان دے کر کامیاب ہونے والے طلبہ کی تعداد ۱۴۳۹ھ میں دس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ یہ تعداد عصری اور دنیاوی اداروں کے لحاظ و تناسب سے کوئی حیثیت نہیں رکھتی، مگر یہ تعداد بھی کم نہیں۔ آخر کو فرمانِ باری عزّ اسمہ: ’’إِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ‘‘ اور حدیث کا ارشاد: ’’لن یغلب اثنا عشر من قلۃ‘‘سیرتِ طیبہ میں بدر کے ۳۱۳کا تین چند کو شکست فاش دینا اور پھر خالد بن ولیدq کا ایک موقع پر ۶۰۰۰۰ کے مقابلے میں ۶۰ افراد کا لے جانا‘ ہمیں بتاتا ہے کہ کمیت سے زیادہ کیفیت مطلوب ہے ۔ فیصلہ گنتی پر نہیں، بلکہ صفات پر ہوتا ہے۔ مسئلہ اس وقت دین پڑھنے والوں کے عدد کا نہیں، بلکہ المیہ یہ ہے کہ یہ فضلاء و علماء کس حد تک اُمت کو سنبھالنے کے متحمل ہوتے ہیں۔
 زیرِ نظر مضمون کے ذریعہ اس طرف توجہ دلانا مقصد ہے کہ اپنے نوجوان فضلاء و علماء کو سنبھال کر اُن کی تربیت اور Grooming کی اگر عملی صورت ہو جائے تو یہ نہ صرف ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنیں گے، بلکہ دین کی محنت کی جس بھی شکل و ترتیب میں اللہ نے لگایا ہوا ہے، یہ نوجوان فضلاء اکابر کے سچے و لائق نائب و جانشین بن کر دین کی آبیاری کا کام آگے بڑھاتے رہیں گے۔ 

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!

یوں تو انحطاط اور زوال کی باتیں زبان زد عام ہیں، مگر ہمارا دین ہمیں مثبت سوچ رکھنے کی ترغیب دیتا ہے ، اسی لیے ناامیدی کی دین میں کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ، بلکہ ہمارے رفقاء بہت باصلاحیت ہوتے ہیں، مسئلہ صرف ذہن سازی کا ہے۔ سب سے اہم بات جس کا ذہن بنانا ہوگا وہ یہ ہے کہ تدریس خود سیکھنے کا تقاضا کرتی ہے، اس لیے ہر عالم یہ سمجھ لے کہ میں نے ’’پڑھانے‘‘ کو سیکھنا ہے، جیسے ہم‘ عصری شعبوں میں دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر اور انجینئر کے لیے بغیر ہاؤس جاب یا ماہر کی زیرِ نگرانی کام کیے آگے بڑھنے کی صورت نہیں ہوتی ، نہ ہی ہم اس سے استفادے کے روادار ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی میں پڑھا نے کے لیے بی ایڈ کی ڈگری ضروری ہے تو قرآن و حدیث کی امانت میں تساہل کیسے برداشت کر لیا جائے ؟! کیا یہ بات تعجب کی نہیں کہ شعبان تک جو طالب علم تھا وہ دو ماہ بعد مسندِ تدریس پر براجماں ہوجائے بغیر کسی تجربہ ورہنمائی کے، گویا مبتدی طالب علم کو نوآموز مدرس کے لیے تدریس سیکھنے کے لیے تختۂ مشق بنادیا جائے۔
جب ہمارے فضلاء اس نکتہ پر جمع ہوجائیں کہ اگلا مرحلہ ان کی رہنمائی کا ہوگا،’’رہنمائی‘‘ کی مضبوط ومؤثرشکل تو یہ ہوگی کہ اربابِ وفاق ہی ’’تدریب المعلمین‘‘ کا ایک سالہ کورس مرتب کریں اور اس کی باقاعدہ سند جاری کی جائے اور جب تک کسی وجہ سے اس کی عملی شکل نہ بنے ، کم از کم بڑے مدارس پانچوں صوبوں میں اکابر اہلِ علم کی مشاورت سے نئے فضلاء کے لیے منہج و نظم مرتب فرمائیں اور اس کی اہمیت بڑھانے کے لیے فضلاء کے لیے ’’تدریب المعلمین‘‘ کے مرحلے سے گزرنا، تقرری کے لیے شرط، ورنہ کم از کم وجۂ ترجیح ضرور قرار دی جائے۔

’’تدریب المعلمین‘‘ کی عملی صورت

میری ان نگارشات کی حیثیت ’’جہد المقل دموعہ‘‘ اور’’ رانڈ کے رونے‘‘ سے زیادہ شاید نہ ہو، مگر امید ہے کہ اربابِ علم ان باتوں سے نہ صرف متفق ہوں گے، بلکہ شاید یہ ان کے دل کی آواز بھی ہو ۔ یہ بھی طے ہے کہ اس منہج کی تنقیح و تہذیب میں وقت لگے گا، مگر اس وقت تک اس کام کو چھوڑے رکھنا بھی معقول معلوم نہیںہوتا ۔ تجرباتی طور پر تو کچھ کام کرنے ہوں گے ۔ یہ تجربہ خود بہت کچھ سکھا دے گا ۔ 
چناںچہ اس غور و فکر کے دروازے کو کھولنے کے لیے کچھ منتشر و بے ربط باتیں ( جن کو تجویز کا نام بھی نہیں دے رہا ) پیشِ خدمت ہیں ۔ اُمید ہے کہ اربابِ علم و فضل جب اس رُخ پر غور کرنا شروع کریں تو اس سے بہتر تجاویز سامنے آئیں گی : 
۱:…فارغ ہونے والے طلبہ کے لیے ایک کمیٹی اساتذہ کی تشکیل دی جائے جو ہر فاضل سے انفرادی طور علمی استعداد ، گھریلو حالات اور ذاتی دلچسپی کا تفقُّد کرے، جس سے یہ اندازہ ہو کہ کس فاضل کا کس شعبہ میں لگنا موزوں ہے ۔ واضح بات ہے نہ ہر عالم ہر شعبہ کے لیے موزوں ہوگا، نہ ایک ہی شعبہ سب کو لینے کا متحمل ہوگا۔ نیز یہ بھی دیکھنے کی بات ہوگی کس شعبہ میں کتنے افراد کی ضرورت ہے۔
۲:… جب مختلف فضلاء کے لیے ان کے اساتذہ کی رہنمائی میں الگ الگ شعبے تجویز ہوگئے تو پھر اس شعبہ میں بھیجنے سے پہلے اس کی تربیت کا کوئی نظام بنایا جائے ، مثلاً: اگر کسی کے لیے شعبۂ حفظ میں لگنا تجویز ہو یا کوئی خود اس طرف راغب ہو ( جو کہ یقینا ہونا چاہیے، کیوںکہ ہمارے علماء نے اس شعبہ کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے، جس کی تفصیل کی یہ جگہ نہیں) تو بجائے اس کے پہلے دن سے کلاس میں بٹھا کر معصوم بچے ایک نا تجربہ کار ساتھی کے حوالے کر دیئے جائیں، ایک مخصوص وقت کے لیے اس کو حفظ کی کلاس سنبھالنے کی مشق کرائی جائے ۔ اس حفظ کرانے کی مشق اور عملی تربیت کے لیے بھی ایک مقالہ درکار ہے، مگر سرِ دست تو ایک خُطہ پیش کرنا مقصد ہے ۔
۳:…جن فضلاء کے لیے شعبۂ کتب سے منسلک ہونا تجویز ہو، ان کے لیے ایک سالہ نصاب بطور تکمیل/ تکملہ کے مرتب کیا جائے اور جیسے اوپر عرض کیا ان کو اس سے گزرے بغیر اور کامیاب ہوئے بغیر سبق حوالے نہ کیا جائے۔ تکمیل میں بنیادی طور پر فنون کی ایک ایک اہم کتاب کو بالاستیعاب اور تحقیق کے ساتھ پڑھایا جائے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ، بلکہ کچھ عرصے پہلے تک ملک کے مختلف علاقوں میں بعض علماء ‘ تکمیل کرانے کا شہرہ رکھتے تھے اور بلاشبہ ان کے پاس سے نکلے ہوئے علماء کی بصیرت مختلف ہوتی تھی ۔ 
۴:…پھر اگلے مرحلہ میں بھی اس کو مستقل سبق حوالہ نہ کیا جائے، بلکہ کچھ عرصے کے لیے معاون مدرس کے طور پر کسی فن کے کہنہ مشق استاذ کے ساتھ جوڑا جائے، تاکہ عملاً تدریس کا طریقہ سامنے آئے۔ اس کی اس سے بہتر کیا مثال ہوگی کہ جامعہ علوم اسلامیہ کے بانی و محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوریؒ نے سننِ ترمذی کا درس جب حضرت مفتی ولی حسن صاحبؒ جیسے فقیہ النفس کے حوالے کرنے کا ارادہ کیا تو ایک سال ان کو اپنے درس میں شریک رکھا ۔ 
۵:…اخلاقی ونفسیاتی تربیت: رسول اللہ a کے اندازِ تعلیم و تربیت میں ایک خاص وصف آپ کی شفقت ، دل سوزی اور خیر خواہی کا تھا ۔ ذخیرۂ حدیث ایسی مثالوں سے بھرا ہوا ہے جن کو ہم پڑھاتے ہیں، مگر عملی تطبیق کی طرف توجہ نہیں ۔ صحابی کا زنا کی اجازت مانگنا اور رسول اللہ a کا حکیمانہ جواب اور اعرابی کا مسجد میں پیشاب کرنا اور رسول اللہ a کا اُسے سمجھانا، جس کو بعد میں وہ یاد کیا کرتے تھے ۔ یہ دو واقعات بطور مثال اور اشارے کے لکھے کہ بیان کی حد تک تو ہمیں یہ قصے مستحضر ہیں، مگر عمل کے لیے ۔۔۔۔۔۔ ۔ شیخ عبدالفتاح ابو غدہؒ کی کتاب ’’الرسول المعلمؐوأسالیبہ فی التعلیم‘‘ اس موضوع پر لائقِ مطالعہ ہے ۔ 
مزید برآں ! استاذ کا طالب علم کی نفسیات سے واقف ہونا بھی از حد ضروری ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ نفسیات ایسی چیز ہے کہ درس گاہ کے پچاس طلبہ میں سے ہر ایک کی دوسرے سے الگ ہو سکتی ہے۔ یہ تو نبوی طریقۂ تعلیم کا ایسا اہم باب ہے جس پر مستقل مذاکرے اور تمارین کی ضرورت ہے۔ 
۶:… نمبر وار سلسلے میں تو یہ ۶ نمبر پر ہے، مگر اہمیت کے لحاظ سے سب سے مقدم ہے اور وہ ہے ہر ساتھی تعلق مع اللہ، تہذیبِ اخلاق اور تزکیۂ نفس کی طرف متوجہ کرے، جو دار العلوم دیوبند ( جس کے ہم خوشہ چین کہلاتے ہیں )کا خاصہ و امتیاز تھا ۔ خود تو اس بارے میں کیا عرض کروں، شوال ۱۴۰۳ھ کے ماہنامہ البلاغ کے مضمون میں شیخ الاسلام حضرت مفتی محمدتقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’ دار العلوم دیوبند اور اس کے فیض یافتہ دوسرے دینی مدارس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ انہوں نے علم برائے علم کو کبھی مقصد نہیں بنایا، چناں چہ وہاں کے تمام طلبہ درسیات سے فراغت کے فوراً بعد کسی شیخ کامل سے اصلاح و تربیت کا تعلق قائم کر لیتے تھے۔‘‘
آگے تحریر فرماتے ہیں: 
’’افسوس کہ اب دینی مدارس اور ان کے فارغ التحصیل حضرات میں اپنی اصلاح و تربیت کا ذوق ختم ہوتا جا رہا ہے، بلکہ بہت سی جگہوں پر سلوک و تصوف اور تربیت و ارشاد کو مد فضول سمجھ لیا گیا ۔ ‘‘
البلاغ ہی کے جمادی الثانیہ ۱۴۰۴ھ کے شمارے میں ’’دینی مدارس- نصاب و نظام ‘‘کے عنوان کے تحت حضرت لکھتے ہیں: 
’’کوئی مادہ پرست کہہ سکتا ہے کہ ان باتوں کا مدرسے کے مقاصد پورے ہونے اور اچھے طلبہ کی پیداوار سے کیا تعلق ہے ؟ مگر ہم اکابر علماء دیوبند کے نام لیوا ہیں ، ان باتوں کو مدرسے کی کامیابی اور ناکامی سے بے تعلق نہیں قرار دے سکتے ۔ ان مدارس کی بنیاد‘ اخلاص، للہیت اور تقویٰ پر ہے الخ ۔‘‘ 
اس لیے استاذ کا دین و عمل کے میدان میں نمونے بننا از حد ضروری ہے، مگر یہ بات صحبت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ۔ اس لیے طلبہ کے لیے نہ سہی، ہر فاضل کو تو اس کی ضرورت محسوس ہونی چاہیے اور نہ ہو تو کرانی چاہیے کہ کسی شیخ سے تعلق قائم کرکے تعلق مع اللہ کے مدارج طے کرنے ہیں۔ 
ان بے ربط باتوں پر مضمون کو سمیٹتے ہوئے وہی بات دہراؤں گا کہ یہ خاکہ حتمی نہیں، بلکہ ایک سوچ کی طرف افاضل کو توجہ دلانا ہے، جو بلاشبہ اس کی بہتر صورت مرتب کریں گے۔ 

مختصر ورکشاپ کا انعقاد

پھر یہ باتیں نئے فضلاء ہی کے لیے صرف نہیں، بلکہ ہر سال نہیں تو ہر دوسرے سال ، ہر مدرسے میں اس عنوان پر یاد دہانی کے لیے ورکشاپ کے انداز میں ایک روزہ یا دو روزہ نشست کا اہتمام کیا جانا بھی ضروری ہے، جس میں مختلف عنوانات پر ماہرین و متقنین سے فائدہ اُٹھایا جائے اور تذکیر کی ضرورت تو ہر انسان کو ہر وقت ہوتی ہی ہے۔ ہمارے جامعہ بنوری ٹاؤن میں ۲۰۰۷ء میں اس طرح کا مذاکرہ ہو چکا، جس کا فائدہ ایک معتد بہ عرصے تک بہت سے اساتذہ نے محسوس بھی کیا اور دوبارہ شوال ۱۴۳۹ھ، ۳ تا ۵ جولائی ۲۰۱۸ء تین روزہ اجتماع، اسی عنوان پر رکھا گیا۔ اسی میں یہ بھی طے ہوا کہ مختلف نشستوں میں فن وار طریقۂ تدریس کا مذاکرہ ہواکرے گا، جس کی عملی ترتیب عربی اور اصولِ فقہ کے لیے تو ذوالحجہ میں ہوگی، اب آئندہ دیگر موضوعات بھی زیرِغور ہیں۔ 

آخری گزارش

ایک مؤدبانہ درخواست یہ بھی ہے کہ تقسیم اسباق کے طریقۂ کار پر بھی اہل مدارس کو نظرِ ثانی کرنی ہوگی۔ واضح بات ہے کہ جیسے نئے مدرس کو فوقانی درجے کا سبق نہیں دیا جا سکتا تو ابتدائی سال میں جن میں استعداد بنا کرتی ہے ، وہاں مبتدی طلبہ کو نئے استاذ کے آگے تختۂ مشق بنانا بھی محلِ نظر ہے۔ پھر یہ بھی عجیب طرزِ عمل ہے کہ ایک مدرس کے پاس اگر تین سبق ہیں تو وہ تین الگ الگ فنون کے ہیں، (وہ بھی اس کے ذوق کی رعایت کے بغیر) نیز وہ اسباق بھی بعض مرتبہ ہر سال بدل رہے ہوتے ہیں یا ’’بدلوائے‘‘ جاتے ہیں، حالاںکہ مجھ ناقص کی رائے میں ایک کتاب کو تین سے چار مرتبہ جب پڑھایا جائے تو اُس وقت گویا خود مدرس کو صحیح معنوں میں وہ کتاب سمجھ میں آنا شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہی تفہیم اور اس کے بعد تسہیلِ تفہیم کا ملکہ پیدا ہونا شروع ہوتا ہے ۔ اس وقت تو صورت حال یہ بنی ہوئی ہے کہ دو ایک سال ایک کتاب پڑھا کر ابھی مناسبت قائم ہونا شروع ہوئی ہوتی ہے کہ اس کو کسی نئے فن کی کتاب سے دوستی کرنی پڑجاتی ہے، اس لیے بجائے اس کے کہ ہر استاذ متنوع فنون سے نبر آزما ہو، ذوق و استعداد کے لحاظ سے مختلف مدرسین کو الگ الگ فنون میں سے گزار کر رسوخ / نبوغ پیدا کرا کر تیار کیا جائے۔ چند سال بھی نہیں گزریں گے کہ انہی نو عمر اساتذہ میں سے ، ہر فن کے لیے کہنہ مشق استاذ مہیا ہو چکے ہوں گے ۔ 
اللہ تعالیٰ ان نگار شات کو قبول کرے، مدارس کو ترقی دے اور اہلِ مدارس کو اپنی رضا کے موافق اپنے کام میں لگائے، آمین ۔
 

و صلی اللّٰہ وسلم علٰی سیدنا محمد و آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین