قرآن کریم، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جس کا حق جلّ مجدہٗ کی ذات سے براہِ راست تعلق ہے، آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیے گئے اس آخری پیغامِ ربانی کے ہمارے ذمہ جو حقوق ہیں، ان میں سے ایک اہم حق یہ ہے کہ اس کتابِ ہدایت میں غور وتدبّر کرکے زندگی کی راہیں دریافت کی جائیں۔ خود قرآن کریم میں جابجا اس کی تلقین اور ترغیب ہے:
1- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفالُہَا‘‘ (محمد:۲۴)
’’ تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا دلوں پر قفل لگ رہے ہیں ؟! ‘‘ (بیان القرآن)
2- ایک اور مقام میں فرمایا:
’’اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِيْہِ اخْتِلَافًا کَثِيْرًا‘‘ (النساء:۸۲)
’’ تو کیا پھر قرآن میں غور نہیں کرتے ؟ اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بکثرت تفاوت پاتے۔ ‘‘ (بیان القرآن)
3- سورۂ ص میں ارشادِ حق جل مجدُہٗ ہے:
’’کِتٰبٌ اَنزَلْنٰہُ اِلَيْکَ مُبَارَکٌ لِّيَدَّبَّرُوْا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَکَّرَ اُولُو الْاَلْبَابِ‘‘ (ص:۲۹)
’’ یہ بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر اس واسطے نازل کیا ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ فہم نصیحت حاصل کریں۔ ‘‘ (بیان القرآن)
4- ایسے مومنین کی تعریف کی گئی ہے جو قرآن کریم کو سوچ سمجھ کر پڑھتے ہیں، ارشادِ ربانی ہے:
’’وَالَّذِيْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْہَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا‘‘ (الفرقان: ۷۳)
’’ اور وہ ایسے ہیں جس وقت ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے ذریعے سے نصیحت کی جاتی ہے تو ان (احکام) پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے۔ ‘‘ (بیان القرآن)
5- حضرت سنان سلمی نے ایک مرتبہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے آج رات ایک رکعت میں مفصلات (سورۂ ق تا آخر قرآن) پڑھی ہیں۔ یہ سن کر عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ہَذًّا مِثْلَ ہَذِّ الشِّعْرِ، اَوْ نَثْرًا مِثْلَ نَثْرِ الدَّقَلِ، إِنَّمَا فُصِّلَ لِتُفَصِّلُوْا ۔‘‘
یعنی ’’ تم نے تو قرآن کریم کو شاعری کی مانند تیز رفتاری سے پڑھا، یا اس کو ردی کھجوروں کی طرح بکھیرا، (قرآن کا) مفصل حصہ تو چھوٹے چھوٹے حصوں میں اُتارا گیا تھا، تاکہ تم اُسے آہستہ آہستہ، رُک رُک کر اور ترتیل کے ساتھ پڑھو۔‘‘ (اگرچہ پورا قرآن ہی انہی آداب کا متقاضی ہے۔)‘‘ (مسند أحمد: ۳۹۵۸، شرح معاني الآثار للطحاوي: ۲۰۳۳)
6- حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
’’إن من کان قبلکم رأوا القرآن رسائل من ربّہم، فکانوا يتدبّرونہا بالليل، ويتفقّدونہا بالنہار۔‘‘ (التبیان في آداب حملۃ القرآن للنووي، باب: ۵، ص: ۵۴)
’’تم سے پچھلے لوگ قرآن کریم کو پیغامِ ربانی سمجھتے تھے، ان کی راتیں اس کے غور وفکر میں گزرتیں اور ان کے دن اس کی ہدایات پر عمل کی جستجو میں بسر ہوتے تھے۔‘‘
7- مشہور تابعی حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے:
’’نزل القرآن ليُتَدَبَّر ویُعمل بہ؛ فاتخذوا تلاوتہٗ عملاً۔‘‘
یعنی ’’قرآن کریم کے نزول کا مقصد اس میں غور وتدبر کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے، لہٰذا محض قرآن کریم کی تلاوت پر اکتفا نہ کرو، بلکہ اسے عمل میں لاؤ۔‘‘ (مدارج السالکین لابن القیم، ج: ۱، ص:۴۵۲)
علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ تدبرِ قرآن کی اہمیت ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’بندے کی دنیا وآخرت میں سب سے مفید اور اسے سب سے زیادہ نجات سے قریب کرنے کے لیے قرآن کریم میں طویل غور وتدبر اور اس کی آیات کے معانی میں فکر کو یکجا کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں؛ کیونکہ قرآن، انسان کو خیر وشر کی تمام بنیادوں سے واقف کراتا ہے، خیر وشر کی راہوں، ان کے اسباب، نتائج وثمرات سے اور اہلِ خیر واہلِ شر کے انجام سے آگاہ کرتا ہے۔ سعادت کے خزانوں کی کنجیاں اور مفید علوم اس کے ہاتھوں میں تھمادیتا ہے، ایمان کی بنیادوں کو اس کے دل میں راسخ کرتا ہے، اسے دنیا وآخرت کی حقیقت دکھاتا ہے، اس کے دل میں جنت ودوزخ کا استحضار پیدا کرتا ہے، اقوامِ عالم کی تاریخ سے آگاہ کرتا اور عبرت گاہیں دکھاتا ہے، اللہ کے عدل اور فضل کا مشاہدہ کراتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ذات واسماء، صفات وافعال، اس کی پسند وناپسند اور اس تک پہنچانے والی راہ کی پہچان کراتا ہے۔‘‘ (مدارج السالکین، ج: ۱، ص: ۴۵۳)
غور وفکر کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت‘ دلوں کے امراض کا علاج اور ظاہر وباطن کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ حليۃ الأولياء (ج:۱۰، ص: ۳۲۶) میںتابعی ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول لکھا ہے:
’’پانچ چیزیں دل کی دوا ہیں: تدبر کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت، معدہ کو خالی رکھنا (یعنی کم کھانا)، رات کی عبادت، سحر کے وقت گریہ وزاری اور نیک لوگوں کی صحبت۔‘‘
مالک بن دینار رحمہ اللہ کہا کرتے تھے:
’’اے اہلِ قرآن! قرآن کریم نے تمہارے دلوں میں کیا بویا ہے؟! قرآن تو مومن کی بہار ہے، جیسے بارش زمین میں بہار کا باعث ہوتی ہے۔‘‘ (الزہد للإمام أحمد، روایت نمبر : ۱۸۶۱)
یہاں نمونہ کے طور پر چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں، ورنہ ہر دور کے بزرگوں کے ایسے اقوال کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان‘ قرآن کریم سے اپنا تعلق مضبوط رکھے، اس کی تلاوت کرتا رہے، اس کے مضامین میں غور وفکر کرتا رہے، اور اس کی تعلیمات پر عمل کی کوشش کرتا رہے تو راہِ حق پر گامزن رہتا، گمراہیوں سے بچا رہتا اور نفس وشیطان کے حملوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اور جو انسان، قرآن سے دور ہوجائے اور اس کی راہ سے روگردانی کرے تو وہ ضلالت کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا اور شیاطین کا کھلونا بن جاتا ہے، جو اسے ذلت وہلاکت کے گھڑے میں جا گراتے ہیں، نتیجتاً ایسا انسان دنیا کے غموں اور آخرت کی حسرتوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
’’وَمَنْ اَعْرَضَ عَن ذِکْرِيْ فَإِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہُ يَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمَیٰ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمَیٰ وَقَدْ کُنْتُ بَصِيْرًا قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَہَا ۖ وَکَذٰلِکَ الْيَوْمَ تُنْسٰی‘‘ (طہ:۱۲۴ - ۱۲۶)
’’ اور جو شخص میری اس نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے تنگی کا جینا ہوگا اور قیامت کے روز ہم اس کو اندھا کر کے (قبر سے) اٹھائیں گے۔ وہ (تعجب سے) کہے گا: اے میرے رب! آپ نے مجھ کو اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ میں تو (دنیا میں) آنکھوں والا تھا۔ ارشاد ہوگا کہ: ایسا ہی تیرے پاس ہمارے احکام پہنچے تھے پھر تو نے ان کا کچھ خیال نہ کیا اور ایسا ہی آج تیرا کچھ خیال نہ کیا جاوے گا۔ ‘‘ (بیان القرآن)
ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَمَنْ يَّعْشُ عَن ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَيِّضْ لَہٗ شَيْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِينٌ وَاِنَّہُمْ لَيَصُدُّونَہُمْ عَنِ السَّبِيْلِ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ‘‘ (الزخرف :۳۶-۳۷)
’’ اور جو شخص اللہ کی نصیحت (یعنی قرآن) سے اندھا بن جاوے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں، سو وہ ( ہر وقت) اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اور وہ اُن کو راہ حق سے روکتے رہتے ہیں اور یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ راہِ (راست) پر ہیں۔ ‘‘ (بیان القرآن)
کتابوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام s اور اسلافِ امت کے غور وتدبر کے واقعات ملتے ہیں، جن سے رہبری بھی ملتی ہے اور شوق وجذبہ بھی بڑھتا ہے:
1- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر پوری رات درج ذیل آیت پڑھتے اور دُہراتے گزاری تھی:
’’إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ‘‘ (المائدۃ:۱۱۸)
’’ اگر آپ ان کو سزادیں گے تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست ہیں اور حکمت والے ہیں۔‘‘ (بیان القرآن)(سنن ابن ماجہ، روایت نمبر : ۱۳۵۰)
اس واقعہ میں امت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر کے ساتھ تدبرِ قرآن کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
رات بھر ایک ہی آیت دہراتے رہنے اور اس میں غور وفکر کرنے کے ایسے واقعات بہت سے صحابہ کرامؓ واکابرِ امت سے منسوب ملتے ہیں:
2- حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے تھے : ’’ اگر تمہارے دل پاک ہوجائیں تو تم کلام اللہ سے کبھی سیر نہ ہو، میں نہیں چاہتا کہ میری زندگی میں کوئی ایسا دن گزرے جس میں مجھے قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے کا موقع نہ ملے۔‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جس مصحف میں پڑھا کرتے تھے، ان کی کثرتِ تلاوت کی بنا پر وہ مصحف جگہ جگہ سے شکستہ ہوچکا تھا۔ (الزھد للإمام أحمد، ص :۱۶۸)
3- حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار پوری رات یہ آیت پڑھنے میں گزار دی تھی:
’’وَإِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا‘‘ (النحل:۱۸ )
’’ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننے لگو تو (کبھی) نہ گن سکو، واقعی اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں۔‘‘ (بیان القرآن)
لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: ’’اس آیت میں بڑی عبرت اور نصیحت ہے، ہم جب بھی نگاہ اُٹھاکر دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی نعمت نازل ہوتی ہے، اور جن نعمتوں کے متعلق ہمیں علم نہیں ان کی تعداد تو اور زیادہ ہے۔‘‘ (مختصر قیام اللیل، ص: ۱۴۸)
4- ماضی قریب کے ایک صاحبِ دل بزرگ حضرت مولانا فضل رحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ ایک روز تلاوتِ قرآن کر رہے تھے کہ آپ پر کیفیت طاری ہوئی، مولوی سید تجمّل حسین صاحب سے فرمایا کہ: ’’جو لذت ہم کو قرآن میں آتی ہے اگر تم کو وہ لذت ذرّہ بھر آوے تو ہماری طرح نہ بیٹھ سکو، کپڑے پھاڑ کر جنگل نکل جاؤ۔‘‘ مولانا سید محمد علی صاحب نے فرمایا کہ میں نے ابتدا میں حضرت سے عرض کیا کہ مجھ کو جو مزہ شعر میں آتا ہے، قرآن شریف میں نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’ابھی بُعد ہے، قرب میں جو مزہ قرآن شریف میں ہے، کسی میں نہیں۔‘‘ (تذکرہ مولانا فضل رحمٰن گنج مرادآبادی، ص: ۵۶)
مولوی تجمّل حسین صاحب لکھتے ہیں کہ مجھ سے فرمایا کہ: ’’قرآن شریف اور حدیث پڑھا کرو کہ اللہ میاں دل پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘ ایک روز آپ نے فرمایا کہ: ’’نسبتِ قرآن، غایتِ سلوک ہے۔‘‘ (یعنی تزکیہ وسلوک کا انتہائی مقصد قرآن کریم کی نسبت حاصل ہونا ہے۔) (تذکرہ مولانا فضل رحمٰن گنج مراد آبادی از مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ، ص: ۵۶)
5- مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار فرمایا: ’’میں رمضان المبارک میں قرآن مجید شروع کرتا ہوں، اور تدبر وتفکر سے اس کو پورا کرنا چاہتا ہوں، لیکن کبھی پورا نہیں ہوتا۔ جب دیکھتا ہوں کہ آج رمضان المبارک ختم ہونے والا ہے تو پھر اپنے خاص طرز کو چھوڑ کر جو کچھ باقی ہوتا ہے اس دن ختم کرکے پورا کرلیتا ہوں۔‘‘ (تصویرِ انور، ص :۳۱۴)
کسی نے حضرت شاہ صاحبؒ سے سوال کیا کہ آپ کا حافظہ تو اتنا قوی ہے کہ چند دنوں میں قرآن کریم حفظ کرسکتے تھے، پھر حفظِ قرآن نہ کرسکنے کا کیا سبب ہے؟ فرمایا: ’’ بچپن میں تو والدین نے اس طرف متوجہ نہ کیا، اب یہ ممکن نہ رہا، اس لیے کہ قرآن کریم کی جو آیت پڑھتا ہوں، معارفِ قرآن کا ایک طوفان سا اُمنڈ آتا ہے، الفاظ ذہن سے نکل جاتے ہیں، اور معانی ومطالب کی وادیوں میں گم ہوجاتا ہوں۔‘‘ (ایضاً، ص:۶۷،۶۸)
قرآن کریم سے استفادہ کے لیے کچھ امور معاون ہوتے ہیں اور کچھ چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں۔ کلام اللہ کی تعظیم وادب، تقویٰ وطہارت، اخلاص، دعا، قیام اللیل، سچی طلب، جذبۂ اتباع، خوفِ خداوندی، ایمان بالغیب، غور وتدبر، نفس کا مجاہدہ اس راہ میں معین ومددگار ہوتے ہیں، جبکہ بے ادبی وبے تعظیمی، کج روی، بد عقیدگی، کبر وغرور، فہمِ قرآن میں کوتاہی، معاصی، بلا دلیل بحث وجدال، انکارِ آخرت اور دنیا پرستی اس راستے کے پتھر ہیں۔ یہاں ان امور کا اجمالی طور پر ذکر کیا گیا ہے، ان سے متعلق تفصیلات تفاسیرقرآن، شروحِ حدیث اور کتبِ علوم قرآن وغیرہ میں ملاحظہ کیجیے:
۱- التبیان في آداب حملۃ القرآن للإمام النووي رحمہ اللہ ، الرسالۃ العالمیۃ، بیروت، لبنان۔
۲- بدائع الفوائد لابن القيم رحمہ اللہ ، دارعالم الفوائد، مکۃ مکرمۃ۔
۳- مقدمۃ ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ للقرطبي رحمہ اللہ ، دار ابن حزم، بیروت، لبنان۔
۴- فہمِ قرآن، مولانا سعید احمد اکبر آبادی رحمۃ اللہ علیہ ، ندوۃ المصنفین، دہلی، انڈیا
۵- مطالعۂ قرآن کے اصول ومبادی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ، مجلس نشریاتِ اسلام، کراچی
۶- قرآن کا مطالعہ کیسے؟ مولانا محمد اویس نگرامی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ، مجلس نشریاتِ اسلام، کراچی
۷- قرآن آپ سے کیا کہتا ہے؟ مولانا محمدمنظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ ، مجلس نشریاتِ اسلام، کراچی
۸-علوم القرآن، مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم، مکتبہ دارالعلوم، کراچی
۹-القرآن، تدبرٌ وعملٌ، مرکز المنہاج للإشراف والتدریب التربويّ
۱۰- ہدایات القرآن الکریم- صیاغۃٌ معاصرۃٌ لأکثر من عشرۃ آلاف ہدایۃ، إعداد: فریق من المتخصصین والباحثین ، شرکۃ معالم التدبّر للتعلیم، الریاض، السعودیۃ۔
۱۱- قرآن مجید اور عصرِ حاضر (مجموعہ مقالات) زیرسرپرستی: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہم، ہدیٰ ڈسٹری بیوٹرز، حیدرآباد دکن، انڈیا۔
۱۲- اسلاف کا ذوقِ تلاوت، مولانا فیصل احمد ندوی، مجلس نشریاتِ اسلام، کراچی
ماہِ رمضان المبارک ہے، رمضان اور قرآن میں گہری مناسبتیں ہیں، یہ نزولِ قرآن کے آغاز کا مہینہ ہے، اور اسی مہینے کی جانب قرآن کو منسوب کیا گیا ہے، اس لیے اس ماہ میں قرآن کریم کی کثرتِ تلاوت، نمازِ تراویح میں سننے سنانے، دروسِ قرآن کی مجالس میں شرکت، علماء کرام کی رہبری میں مستند تفسیروں کے مطالعہ، اور مضامینِ قرآن میں غور وفکر کرنے کی کوشش ہونی چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کے ساتھ گہرا تعلق نصیب فرمائے، اور اس کی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین!