بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

تحریکِ پاکستان سے تحریکِ ختم نبوت تک

تحریکِ پاکستان سے تحریکِ ختم نبوت تک

پاکستانیت کی بنیادجغرافیہ سے آئین تک


’’۴؍ صفر المظفر ۱۴۴۴ھ مطابق یکم ستمبر 2022ء بروز جمعرات باغِ جناح (مزارِ قائد) کراچی میں عظیم الشان تحفظِ ختمِ نبوت کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں نائب رئیسِ جامعہ مولانا ڈاکٹر سید احمد یوسف بنوری مدظلہٗ نے بھی خطاب فرمایا، اس خطاب کو تحریر کی شکل میں ہدیۂ قارئین کیا جارہا ہے۔ ‘‘          (ادارہ)

خطبۂ مسنونہ کے بعد! أعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، وَالضُّحٰى، وَالَّیْلِ اِذَا سَـجٰى، مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰى، وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰى، وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰى... قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم: ليتَ أنَّا نری إخوانَنا، قالوا: يا رسولَ اللہ! ألسنا إخوانَك؟ قال: أنتم أصحابي، وإخواني قومٌ آمنوا بي ولم يرَوني۔‘‘

دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیِ مؤمن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

اکابرینِ ملت، زعمائے امت اور اس شہرِ ناپرساں میں محمد رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت اور عشق میں رت جگا کرنے والے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سچے شیدائیو! واقعہ یہ ہے، میرا یہ شہر، یہ میرا مولد و مسکن کئی عنوانات کے تحت اجتماعات ہوتے دیکھ چکا ہے۔ اس شہر میں جب بھی کسی نے لوگوں کو کسی عنوان سے پکاراتو یہاں کے لوگ آموجود ہوئے، مگر ان میں سے کسی اجتماع کا عنوان تھا قومی عصبیت کا، کہیں عنوان تھا قومی حقوق کا، کبھی عنوان تھا شہر کے سیاسی حقوق کا اور کبھی عنوان تھا اس شہر کے معاشی حقوق کا، مگر آج رات اس شہر کے باسی، اس پریشاں حال شہر کے باسی، اس پرآشوب شہر کے باسی، خیمۂ صبر و رضا میں رہنے والے اس شہر کے باسی، اپنے حقوق کے لیے نہیں بلکہ اس رات محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حق کے لیے جمع ہوئے ہیں۔
ہم سب کو اس موقع پر یہ احساس بھی ہے کہ آسمان کے تیور بگڑے ہوئے نظر آتے ہیں، زمین پر بھی دریا مچلے ہوئے نظر آتے ہیں، یہ خیال بھی پریشان کن ہے کہ ملک میں اس وقت ہمارے بھائی بند مختلف پریشانیوں کا شکار ہیں، لیکن یہ اجتماع اُمید کی نوید سنا رہا ہے کہ آج کے جلسہ کا -جو نبی اکرم شفیع اعظم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت کے عنوان سے منعقد ہوا ہے- ان شاء اللہ تعالیٰ! یہ مجمع ایک دعا کا روپ اختیار کر لے گا، یہ جمِ غفیر سراپا عجز بن کر آسمان و زمین کے مالک سے مطالبہ کرے گا: ’’ربِ کریم! ہم تیری آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کو اپنے بس کے مطابق تیار ہیں، ہم نے اپنے بے خانماں ہونے کا احساس نہیں کیا، سو ہم سے اپنی ناراضگی اس وسیلہ سے دور فرمادے کہ مختلف مصائب جس کے لوگ شکار ہیں، طرح طرح کی پریشانیاں جو اس کے شہریوں کو درپیش ہیں‘ کچھ دیر کے لیے رات کے اس پہلو میں یہ لوگ ان سب چیزوں کو نظر انداز کر چکے ہیں اور صرف یہ اپنی گواہی ثبت کرنے کے لیے یہاں حاضر ہیں کہ جب حقوق سے حقوق ٹکرائیں گے، جب ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ سے ترجیح دینے کا سوال اُٹھے گا اور بات محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حق کی آئے گی تو یہ دیوانے اسی طرح رات کی تنہائیوں میں نکل کھڑے ہو کر تاج دارِ ختمِ نبوت کے حق کو مقدم کرکے میدان سجا لیں گے۔
عزیزانِ گرامی قدر! چنانچہ یہ مجمع رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس دل نشیں حدیث کا مصداق بن گیا، جس میں آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم  نے -جس کے لیے آسمان سے وحی اُتری، جس کی تمناؤں کی نوید بن کر تحویلِ قبلہ کا حکم اُترا- فرمایا تھا: ’’لیت أنا نریٰ إخواننا!‘‘ کاش! میں اپنے بھائی دیکھ لوں۔ صحابہ( رضی اللہ عنہم ) تڑپ اُٹھے، صحابہؓ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! ألسنا اخوانک؟‘‘ یا رسول اللہ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ ہم تو آپ کے نام پر مرمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’أنتم أصحابي‘‘ تم غیر معمولی درجے کے حامل ہو، تم میرے بھائی نہیں، تم میرے لاڈلے و چہیتے صحابہؓ ہو، مگر میرے بھائی وہ ہوں گے: ’’و إخواني قوم آمنوا بي ولم یروني‘‘ جو تاقیامت صرف میری نبوت پر ایمان رکھیں گے، مجھے دیکھا نہیں ہوگا، مگر جب جب میرے نام کا نعرہ بلند ہوگا، جب جب میرے نام کے بارے بلایا جائے گا‘ یہ سر بکف سر بلند ہو کر دیوانہ وار، رات و دن کی پروا کیے بغیر باہر نکل آئیں گے۔ یہ مجمع اس حدیث کا مصداق ہے۔
عزیزانِ گرامی! اس مجمع کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا گیا وہاں میرے دائیں طرف بانیِ پاکستان کی آخری آرام گاہ ہے اور کچھ فاصلے پر برصغیر پاک و ہند کی مشہور درس گاہ جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن ہے، جہاں محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بَنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی مرقد ہے، یہ وہ شخصیت ہے جس نے حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری  رحمۃ اللہ علیہ  کے نام کی الف سے شروع ہونے والی تحریک اپنی جاں گسل محنتوں کے ساتھ اپنے نام کی یاء پر ختم کر کے ایک باب مکمل کیا۔ ایک طرف بانی کی آخری آرام گاہ، دوسری طرف کچھ فاصلے پر محدث العصر  رحمۃ اللہ علیہ  کی مرقد اور پھر یہ مجمع۔ یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ اس پاکستان کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی تھی، یہ ایک خطہ تھا، برِصغیر پاک و ہند ایک خطہ شمار کیا جاتا تھا، نسلیں ایک تھیں، رنگ ایک تھے، رشتے داریاں موجود تھیں، اس خطے کے اندر لکیر کھینچی قائداعظم نے، نعرہ بلند کیا تھا، آواز لگائی تھی کہ خطے کی بنیاد اسلام بنے گا، پنجابی پنجابی ہونے کے باوجود اس لکیر کے پار نہ جا سکا، پٹھان پٹھان ہونے کے باوجود آج بھی اس لکیر کے پار نہیں جا سکتا، بلوچی بلوچی ہونے کے باوجود اس لکیر کے پار نہیں جا سکتا، پھر وقت آیا، محدث العصر نے زمین پر لکھی ہوئی اس لکیر کو اُٹھا کر آئین کا حصہ بنادیا، جب ریاست کی بنیاد اسلام ہوگی، پھر لکیر دستور میں بھی لگے گی، وہاں ریاست کو بتانا پڑے گا، آئین میں لکھنا پڑے گا کہ ریاست مسلمان کسے سمجھتی ہے؟ 
چنانچہ محدث العصر حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی قیادت میں جو تحریک چلی وہ پاکستان کی تکمیل کی تحریک تھی، جس نے آئین میں درج اس لکیر کو مٹانے کی کوشش کی، آئین کی لکیر تو ان شاء اللہ نہیں مٹے گی اور بہت سی لکیریں مٹ جائیں گی، یہ خطہ اپنی شناخت سے محروم ہو جائے گا۔ یہ واقعہ سبق دے رہا ہے، یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ پاکستان کی تکمیل اس تحریکِ ختمِ نبوت کی مرہونِ منت ہے، اس لیے عزیزان گرامی! پورے اعتماد کے ساتھ دنیا کے پورے فلسفوں کا اپنے تئیں مطالعہ کرنے کے بعد اس سازش کے خد و خال ہمیں سمجھ آ چکے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ عقیدے کی بحث کو مسلمان کی نگاہ میں کمزور کر دیا جائے، خیال یہ ہے کہ یورپ جس نے فلسفے کی بنیاد نٹشے جیسے فلسفیوں کے افکار پر رکھی اور اخلاقیات کا تیاپانچہ کر دینا چاہا، پھر گلوبلائزیشن کا ہوا کھڑا کرکے چاہا اُمت کے تصور کو کمزور کردیا جائے، پلورلزم کی بنیاد پر حق کی وحدانیت کو سراب کردیا جائے، اسٹرکچرلزم (ساختیات) کی بھول بھلیوں میں اُلجھا کر تفسیری ذخیرہ کو دریا برد کردیا جائے، یہ باور کرایا جائے کہ پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ختمِ نبوت کا عقیدہ قطعی بنیاد کا حامل نہیں، بلکہ یہ ایک تفسیری اختلاف ہے، چنانچہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ عقیدہ ختمِ نبوت مسلمانوں کی جملہ علمیت کا محافظ ہے، عزیزانِ گرامی! اس تحریک کا فیصلہ آسمانوں پر طے کیا جاچکا ہے۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے:
’’وَالضُّحٰى، وَالَّیْلِ اِذَا سَـجٰى، مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰى وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰى،  وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰى‘‘     (الضحٰی:۱-۵)
’’ قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب وہ قرار پکڑ لے کہ آپ کے پروردگار نے آپ کو چھوڑا اور نہ (آپ سے) دشمنی کی۔ اور آخرت آپ کے لیے دنیا سے بدرجہا بہتر ہے (پس وہاں آپ کو اس سے اچھی نعمتیں ملیں گی ) ۔ اور عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو (آخرت میں بکثرت نعمتیں) دے گا، سو آپ خوش ہوجاویں گے۔‘‘
وقت گزرتا جائے گا، محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کے شیدائی، اس نبوت کو ماننے والے بڑھتے چلے جائیں گے، یہاں تک کہ ایک مرحلہ آئے گا: ’’وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰى‘‘ یہ زمین ختم ہوگی، یہ آسمان و زمین ختم ہوجائیں گے، جو بادشاہت یہاں صرف کبھی کبھار مادی طاقت اور ریاستی غلبہ کے جلوے میں نظر آتی ہے، مگر اس دن کل کائنات میں ایک ذات کی حکومت ہوگی، تب محمد عربی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ میں ’’لواء الحمد‘‘ ہوگا، اوپر آسمان میں ’’لِمَنِ الْمُلْکُ‘‘ کا نعرہ لگے گا، نیچے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت پر ایمان لانے والے جمع ہوں گے، لہٰذا اطمینان کے ساتھ اس سلسلے سے وابستہ ہو جائیے۔ اس سلسلے کی دعوت جب بھی اٹھے جس طرح بھی اٹھے اپنی شہادت دینے کے لیے آئیے۔ سیاست کے میدان الگ ہیں، ریاست کے معاملات الگ ہیں، حقوق کے معاملات الگ ہیں، مگر ہمارے اور آپ کے لیے ایک ضمانت ہے کہ اگر ہم اس مشن کے ساتھ وابستہ رہے تو ہمارے لیے محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شفاعت کے صدقے جنت نصیب ہوگی، اللہ تعالیٰ ہمارے تمام لوگوں کے لیے اسے خیر و برکت کا باعث بنائے:

آسماں ہوگا سحَر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظُلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہوگی ترنّم آفریں بادِ بہار
نگہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گُل کی ہم نفَس بادِ صبا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی

 

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین!
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین